Friday, October 24, 2014

محرم الحرام میں روزوں کے منافی اُمور

محرم الحرام میں روزوں کے منافی اُمور
--------------------------------------------
بعض لوگ مندرجہ ذیل اُمور کی شرعی حیثیت کی چھان پھٹک کئے بغیر ہر اس رسم، رواج اور طریقے کی اتباع شروع کردیتے ہیں جسے کسی قوم، قبیلے یا فرقے میں خاصا مقام اور شہرت حاصل ہو جبکہ دوسری طرف بعض لوگ ان اُمور کے ثبوت کے لئے شرعی و عقلی دلائل بھی پیش کرنے لگتے ہیں مثلاً یہ کہ
1- یزید کے لشکروں نے شہدائے کربلاء کا پانی بند کردیا تھا، اس لئے شہدائےکربلاء سے اظہارِ محبت کے لئے ضروری ہے کہ ان کے نام پر پانی ہی نہیں بلکہ اچھے اچھے مشروبات کی بھی سبیلیں لگائی جائیں۔
2- شہدائے کربلاء کی اَرواح کے ایصالِ ثواب کے لئے ماکولات و مشروبات کا اہتمام کرکے فاتحہ خوانی کی محفلیں قائم کرنی چاہئیں۔
3- یہ (من گھڑت) روایت بھی پیش کی جاتی ہے کہ
”جس شخص نے عاشوراء کے روز اپنے اہل و عیال (کے رزق کے معاملہ) پر فراخی وکشادگی کی، اللہ تعالیٰ سال بھر اس پر کشادگی فرماتے رہیں گے۔“
اگر قرآن و سنت کی تعلیمات کا غیر جانبدرانہ جائزہ لیا جائے تو مذکورہ اُمور کے جواز کی نہ کوئی گنجائش ملے گی اور نہ ہی کوئی معقول وجہ…!
1- اوّل تو اس لئے کہ ماہِ محرم میں روزے رکھنا مسنون ہے جبکہ ماکولات و مشروبات کے اہتمام سے نہ صرف روزوں کی مسنون حیثیت مجروح ہوتی ہے بلکہ اس کے ساتھ ایک بدعت بھی رواج پاتی ہے۔
2- دوم اس لئے کہ شہدائے کربلا ءیا دیگر فوت شدگان کی ارواح کو ثواب پہنچانے کے لئے فاتحہ خوانی کی یہ صورتیں قرآن و سنت اورعمل صحابہ سے ثابت ہی نہیں۔ لیکن اس کے باوجود ان صو رتوں کو دین کا حصہ اور اجروثواب کا ذریعہ سمجھ کر قائم کرنا بدعت نہیں تو پھر کیا ہے؟
3- رہی یہ بات کہ شہدائے کربلاء کا پانی بند کیا گیا تھا تو یہ قصہ ہی جھوٹا اور بے سند ہے جبکہ خود شیعہ ہی کی بعض کتابوں سے اس کے برعکس یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو جب قافلے کے لئے پانی کی ضرورت محسوس ہوتی تو وہ زمین کھودتے اور فوراً میٹھے پانی کا چشمہ بہہ نکلتا۔(تفصیل کے لئے دیکھئے: جلاء العیون باب ۵ ص۴۵۹، ناسخ التواریخ ص۳۲۶ ج۲، تصویر کربلا از سید آلِ محمد، ص۳۱)
اگر بالفرض بندشِ آب کے قصہ کو درست تسلیم کرلیا جائے تو پھر چاہئے تو یہ تھا کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ سے اظہارِ محبت کے لئے ماہ محرم میں اتنے دن پیاسا رہنے کا مظاہرہ کیا جاتا جتنے دن ان سے پانی روکے رکھا گیاتھا !
4- ماکولات و مشروبات کے خصوصی اہتمام کی جو روایت بطورِ دلیل پیش کی جاتی ہے وہ محدثین کے ہاں بالاتفاق جھوٹی (موضوع) روایت ہے۔ جیسا کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ
”عاشورا کے روز فضائل کے سلسلہ میں اہل و عیال پر فراخی و کشادگی اور مصافحہ و خضاب وغسل کی برکت وغیرہ کے متعلق جو روایتیں بیان کی جاتی ہیں اور کہا جاتا ہے کہ اس دن ایک خاص نماز پڑھنی چاہئے … یہ سب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر کذب و افترا ءہے۔ محرم میں عاشوراء کے روزے کے سوا کوئی عمل پسند صحیح ثابت نہیں۔“ (منہاج السنة: ۴/۱۱)
مذکورہ مسئلہ کی مزید تفصیل اور من گھڑت روایات کی تحقیق کے لئے ملاحظہ ہو الموضوعات لابن جوزی (۲/۲۰۳)، اللآئی المصنوعہ فی الاحادیث الموضوعة (۲/۹۴) الموضوعات الکبریٰ (ص۳۴۱) اور مجموع الفتاویٰ (۲/۳۵۴)
5- یہاں یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ سانحہٴ کربلاء کے رنج و غم میں رافضی وغیرہ اس انتہا ءکو پہنچ گئے کہ نوحہ و ماتم سے دور جہالت کی ان قبیح رسومات کو زندہ کرنے لگے کہ جن سے اسلام نے سختی سے منع کیا ہے۔جبکہ ناصبی اور خارجی قسم کے لوگ رافضیوں کی عداوت میں سانحہٴ کربلاء پر خوشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان ایام میں ماکولات و مشروبات کا انتظام کرنے لگے۔ پھر ایصالِ ثواب اور سوگ کے نام پر یہ دونوں باتیں دیگر مسلمانوں میں بھی بڑی تیزی سے سرایت کرگئیں۔
حالانکہ راہِ اعتدال یہی ہے کہ ان تمام بدعات و خرافات سے کنارہ کشی اختیار کرتے ہوئے واقعہ کربلاء کو مسلمانوں کے لئے عظیم سانحہ اور حادثہ فاجعہ قرار دیا جائے۔اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ اور یزید کے سیاسی اختلافات اللہ کے سپرد کرکے دونوں کے بارے میں خاموشی کی راہ اختیار کی جائے۔
ماخوذ ازمحدث فورم

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔