Tuesday, June 10, 2014

واقعہ کربلااورحضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کا موقف؟

واقعہ کربلااورحضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کا موقف؟
........................................
حضرت امام حسین حق پر تھے یا ناحق ، اس کی بابت جاننے کے لئے پس منظر جاننا ضروری ہے تاکہ حقیقت کا اندازہ لگایا جاسکے ۔تو حقیقت یہ ہے کہ بعد کی حاشیہ آرائیوں اور فلسفہ طرازیوں سے صرف نظر کر کے اگر غور کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے واضح الفاظ میں اپنے موقف کی کبھی وضاحت ہی نہیں فرمائی کہ وہ کیا چاہتے تھے ؟ اور ان کے ذہن میں کیا تجویز تھی؟ یزید کے خلیفہ بن جانے کے بعد جب گورنر مدینہ ولید بن عتبہ نے انہیں یزید کی بیعت کی دعوت دی تو انہوں نے فرمایا کہ میں خفیہ بیعت نہیں کرسکتا، اجتماع عام میں بیعت کروں گا۔
((أما ما سألتنی من البیعۃ فإن مثلی لا یعطی بیعتہ سراً ولا أراک تجتزی ء بھا منی سراً دون أن نظھرھا علی رؤوس الناس علانیۃ)) (الطبری: ۲۵۱/۴، مطبوعہ دارالاستقامۃ)
گورنر نے انہیں مزید مہلت دے دی۔ حضرت حسین رضی اللہ عنہ یہ مہلت پا کر مدینہ سے مکہ تشریف لے گئے۔ مکہ پہنچ کر بھی انہوں نے کوئی وضاحت نہیں کی، البتہ وہاں سے کوفہ جانے کی تیاریاں شروع کر دیں جس کی خبر پا  کر ہمدرد و بہی خواہ، جن میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما وغیرہ متعدد صحابی بھی تھے، انہیں کوفہ جانے سے روکتے رہے لیکن وہ کوفہ جانے پر ہی مصر رہے۔ حتی کہ ایک موقعے پر حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے قریبی رشتہ دار عبداللہ بن جعفر گورنر کوفہ عمر و بن سعید کے پاس آئے اور ان کے استدعا کی آپ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے نام ایک چٹھی لکھ دیں جس میں واضح الفاظ میں انہیں امان دیے جانے اور ان سے حسن سلوک کرنے کا ذکر ہو تاکہ حسین رضی اللہ عنہ واپس آجائیں اور کوفہ نہ جائیں۔ گورنر مکہ نے کہا کہ آپ جو چاہیں لکھ کر لے آئیں میں اس پر اپنی مہر لگادوں گا۔ چنانچہ وہ اپنے الفاظ میں ایک امان نامہ لکھ لائے جس پر گورنر کوفہ نے اپنی مہر لگادی۔عبداللہ بن جعفر نے پھر درخواست کی کہ یہ چٹھی بھی آپ خود اپنے ہی بھائی کے ہاتھ حضرت حسین تک پہنچائیں تاکہ حسین پوری طرح مطمئن ہو جائیں کہ ساری جدوجہد گورنر مکہ کی طرف سے ہو رہی ہے۔ گورنر مکہ نے ان کی یہ بات بھی قبول کر لی اورا پنے بھائی کو بھی عبداللہ بن جعفر کے ساتھ روانہ کر دیا۔ یہ دونوں حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو جا کر ملے لیکن حضرت حسین نے معذرت کر دی اور کوفہ جانے پر ہی اصرار کیا اور یہاں بھی اپنے موقف کی وضاحت نہیں کی بلکہ صاف لفظوں میں کہا کہ میں کوفہ جس مقصد کے لیے جا رہا ہوں وہ صرف مجھے معلوم ہے اور وہ میں بیان نہیں کروں گا۔ (الطبری: ۲۹۱/۴۔۲۹۲)
خود شیعہ مورخ ابن طقطقی بھی لکھتا ہے کہ جب حضرت حسین رضی اللہ عنہ مکہ سے کوفہ روانہ ہوئے تو انہیں مسلم کے حال کا کوئی علم نہیں تھا۔ جب کوفے کے قریب پہنچ گئے تو انہیں مسلم کے قتل کا علم ہوا۔ وہاں انہیں لوگ ملے اور انہوں نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو کوفہ جانے سے روکا اور انہیں ڈرایا لیکن حسین رضی اللہ عنہ واپس ہونے پر آمادہ نہیں ہوئے اور کوفہ جانے کا عزم جاری رکھا۔ ایک ایسے مقصد کے لیے جسے وہ خود ہی جانتے تھے۔
((فلم یرجع وصمم علی الوصول إلی الکوفۃ لأمر ھو أعلم بہ من الناس)) (الفخری، ص:۸۵، طبع مصر ۱۹۲۷ء)
شاید ایسے ہی مبہم طرز عمل کی وجہ سے یزید کے غالی حمایتیوں نے حضرت حسین کو جب اس حدیث کا مصداق قرار دینے کی کوشش کی۔
((فمن أراد أن یفرق أمر ھٰذہ الأمۃ وھی جمیع فاضربوہ بالسیف کائناً من کان)) (صحیح مسلم، الإمارۃ، باب حکم من فرق أمر المسلمین وھو مجتمع، ح:۱۸۵۲)
تو حضرت شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے اس کی سخت تردید کرتے ہوئے فرمایا:
((وأھل السنۃ یردون غلو ھؤلآء ویقولون إن الحسین قتل مظلوماً شہیداً والذین قتلوہ کانوا ظالمین)) (منہاج السنۃ: ۲۵۶/۲)
“اہل سنت والجماعت اس غلو کو مسترد کرتے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ حسین رضی اللہ عنہ کو ظلماً شہید کیا گیا، اور ان کے قاتل ظالم تھے۔”
پھر لکھا: “اس لیے وہ حدیث مذکور کا مصداق نہیں ہوسکتے کہ آپ (آخراً) جماعت مسلمین سے الگ نہیں رہے وہ مسلمانوں کی اجتماعیت میں شامل تھے اور وہ یوں کہ انہوں نے (کوفی فوج سے ) صاف فرمایا تھا کہ (تم لوگ) مجھے واپس اپنے شہر لوٹ جانے دو یا سرحد کی کسی چوکی پر چلے جانے دو یا (پھر) یہ کہ میں یزید کے پاس براہ راست چلا جاتا ہوں۔” (منہاج السنۃ: ۲۵۶/۲)
حضرت حسین رضی اللہ عنہ پر الزام مذکور کی تردید میں “منہاج السنہ: کے ایک دوسرے مقام میں ہے :
((الحسین رضی اللہ عنہ لم یقتل إلا مظلوماً شہیداً تارکاً لطلب الإمارۃ طالباً للرجوع إما إلی بلدۃ أو إلی الثغر أو إلی المتولی علی الناس یرید)) (منہاج السنۃ: ۲۴۳/۲)
یزید کے پاس جانے سے حضرت کی غرض کیا تھی؟ تاریخی روایتوں نے یہ بھی بتادیا ہے۔
چنانچہ تاریخ کی ایک متداول کتاب تاریخ الخلفاء میں علامہ سیوطی لکھتے ہیں:
((فلما رھقہ السلاح عرض علیھم الاستسلام والرجوع المضی إلی یرید فیضع یدہ فی یدہ )) (تاریخ الخلفاء، ص:۱۳۸، طبع مصر)
“جب کوئی چارۂ کار باقی نہیں رہا تو حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے انہیں صلح کی، واپسی کی اور یزید کے ہاتھ میں ہاتھ دینے کے لیے یزید کے پاس جانے کی پیش کش کی۔”
اس قسم کے الفاظ اصابہ (حافظ ابن حجر)، تہذیب ابن عسا کر، تاریخ طبری اور البدایہ والنہایہ وغیرہ تاریخ و تراجم کی کتابوں میں ملاحظہ کیے جا سکتے ہیں۔
اس بحث سے معلوم ہوسکتا ہے کہ حق اور صحیح موقف کس کا تھا؟

واللہ اعلم بالصواب


0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔