Friday, May 30, 2014

حلالہ کرنے اور کرانے کی سزا


حلالہ کرنے اور کرانے کی سزا  : موت

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حلالہ کرنے والے اور جس کے لیے حلالہ کیا جائے،دونوںپرلعنت فرمائی ہے: لعن اﷲ المحل والمحلَّل لہ (جامع ترمذی:۱۱۱۹(

دوسری روایت میں حلالہ کرنے والے کو التیس المستعار (کرائے کا سانڈ) قرار دیا ہے۔ (سنن ابن ماجہ: ۱۹۳۶(


حضرت ابن عمررضی اللہ عنہ کا فتوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حضرت عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں:کنّا نعد ھٰذا سفاحًا علی عھد رسول اﷲ ﷺ (تفسیر ابن کثیر :زیرآیت فان طلقھا فلا تحل لہ من بعد... الآیۃ(
''
ہم رسول اللہ1 کے زمانے میں حلالے کی نیت سے کئے گئے نکاح کو 'زنا' سمجھتے تھے۔''

حضرت عمررضی اللہ کا فتوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسی لئے حضرت عمر رضی اللہ عنہ حلالہ کو زنا سمجھتے ہوئے حلالہ کرنے اور کرانے والے کو قابل رجم (سنگسار) سمجھتے تھے ۔

(1) امام عبد الرزاق رحمه الله (المتوفى:211) نے کہا:
عَنِ الثَّوْرِيِّ، وَمَعْمَرٍ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنِ الْمُسَيِّبِ بْنِ رَافِعٍ، عَنْ قَبِيصَةَ بْنِ جَابِرٍ الْأَسْدِيِّ قَالَ: قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ: «لَا أُوتَى بِمُحَلِّلٍ وَلَا بِمُحَلَّلَةٍ إِلَّا رَجَمْتُهُمَا»[مصنف عبد الرزاق: 6/ 265]۔
'حلالہ کرنے والا اور جس کے لیے حلالہ کیا گیا، اگریہ دونوں میرے علم میں آگئے تو میں دونوں کو رجم کردوں گا۔''

(2) امام سعيد بن منصور رحمه الله (المتوفى: 227)نے کہا:
أَخْبَرَنَا سَعِيدٌ، نا جَرِيرُ بْنُ عَبْدِ الْحَمِيدِ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنِ الْمُسَيِّبِ بْنِ رَافِعٍ، عَنْ قَبِيصَةَ بْنِ جَابِرٍ الْأَسَدِيِّ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: «لَا أَجِدُ مُحِلًّا وَلَا مُحَلَّلًا لَهُ إِلَّا رَجَمْتُهُ»[سنن سعيد بن منصور: 2/ 75]۔
اگر میرے پاس حلالہ کرنے والے اور کرانے والے کو لایا گیا تو میں انہیں رجم کردوں گا [ یعنی زنا کی حد قائم کردوں گا.
(3) امام ابن أبي شيبة رحمه الله (المتوفى: 235) نے کہا:
حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ، عَنْ مُجَالِدٍ، عَنْ عَامِرٍ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ: «لَا أُوتِيَ بِمُحَلِّلٍ وَلَا مُحَلَّلٍ لَهُ إِلَّا رَجَمْتُهُمَا»[مصنف ابن أبي شيبة: 7/ 292]۔
'حلالہ کرنے والا اور جس کے لیے حلالہ کیا گیا، اگریہ دونوں میرے علم میں آگئے تو میں دونوں کو رجم کردوں گا۔''

کلام آخر :
۔۔۔۔۔۔
جب اسلام میں مروّجہ حلالے کی یہ حیثیت ہے کہ یہ لعنتی فعل ہے، اس کو صحابہ عہد ِرسالت میں زنا میں شمار کرتے تھے، حضرت عمرؓ نے اس کو زنا سمجھتے ہوئے اس پر رجم کی سزا دینے کا اِظہار فرمایا، تو علمائے کرام سے لیکر حکومت ِوقت تک کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس لعنت کا سختی سے سدباب کرے بلکہ ایسے مفتیوں کے لیے بھی جو اس کے جواز کا فتویٰ اور ترغیب دیتے ہیں، سزا تجویز کرے۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔