آپ کے سوالات اور ان کے جوابات(70)
جدہ دعوہ سنٹر، حی السلامہ- سعودی عرب
سوال:میری ایک عزیزہ ہےجو تیس اکتیس سال کے قریب ہے اور وہ شادی شدہ ہے، اس کے ساتھ ایک عجیب و غریب واقعہ رونما ہوا ہے۔ رات سونے کے لئے لیٹی تو تھوڑی دیر میں اس کی کیفیت کچھ سونے جاگنے کے درمیان کی رہی اور محسوس ہوا کہ ہاتھ و پیر بالکل بے جان ہوگئے، سینے پر بہت دباؤ محسوس ہورہا تھا۔ اس نے مارے خوف کے چلانا چاہا تو آوازنہیں نکل رہی تھی حتی کہ برابر میں شوہر لیٹا ہوا تھا مگر اس کو جگانے کے لئے بھی حرکت نہیں کرپارہی تھی۔ سامنے کچھ دیر کے لئے ہویلا نظر آیا پھر غائب ہوگیا۔ اسی کے ساتھ آواز بھی نکلی اور جسم میں حرکت بھی آگئی۔ اس کیفیت کو Sleep paralysis کہاجاتا ہے۔ کیا یہ جناتی اور شیطانی حملہ تو نہیں تھا؟
جواب: یہ بات ایک حقیقت ہے کہ بعض دفعہ کسی کو سونے کی
حالت میں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس کا بدن بھاری ہوگیا ہے یا وہ حرکت نہیں کرسکتا
ہے حتی کہ بول بھی نہیں سکتا، اس کو عربی میں جاثوم یا کابوس کہتے ہیں۔ عربی لغت
میں جاثوم کی تعریف یہ کی جاتی ہے کہ وہ نیند کی حالت میں انسان پر واقع ہوتا ہے۔
اسے عام بول چال میں شلل، فالج اور سلیپ پیرالائسس(sleep
paralysis) بھی کہتے ہیں۔
نیند میں جو یہ کیفیت ہوتی ہے اس کے مختلف اسباب ہوسکتے ہیں، تھکاوٹ، تناؤ، اعصابی مرض، غذا یادوا کا اثر وغیرہ اور کبھی ممکن ہو شیطان انسان پر تسلط پالے، اس کے سبب جاثوم کی کیفیت محسوس ہو۔ گویا یہ کیفیت کبھی نفسیاتی مرض کے سبب ہوسکتی ہے اور کبھی شیطان کے تسلط کے سبب بھی۔
جب کسی کے ساتھ اس طرح کی کیفیت ہوتی ہے تو وہ بہت
زیادہ خوف زدہ ہوجاتا ہے اور پریشان رہنے لگتا ہے۔ ایک مسلمان کو اس طرح کی چیزوں
سے قعطا گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے، مسلم ہرحال میں صرف اللہ سے ڈرتا ہے اور اللہ
ہی ہرحال میں ہماری حفاظت فرمانے والا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ شیطان ہمیں طرح طرح سے پریشان کرنے کی کوشش کرتا ہے، سوتے وقت بھی ہم پہ حملہ آور ہونے کی کوشش کرتا ہے لیکن جب ہم ایمان و عمل کے اعتبار سے مضبوط ہوتےہیں تو شیطان کا ہمارے اوپر تسلط کمزور ہوتا ہے بلکہ نیک لوگوں سے شیطان دوربھاگتا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ انسان نیند میں ڈراؤنا خواب دیکھتا ہے، یہ بھی شیطان کی طرف سے ہوتا ہے تاکہ انسان کو غمگین کرے لہذا جو احتیاط نبی ﷺ نے ڈراؤنےخواب دیکھنے پر بتایا ہے، یہاں بھی اپنائیں۔ اس سلسلے میں احادیث کی روشنی میں نبوی ارشادات بیان کرتا ہوں۔
(1)جب کبھی مذکورہ بالا کیفیت محسوس ہو تو بائیں طرف
تھوتھوکرکے شیطان کے شر سے اللہ کی پناہ طلب کریں۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے
فرمایا:اچھا خواب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور برا خواب شیطان کی طرف سے ہے اس
لیے اگر کوئی برا اور ڈراونا خواب دیکھے تو بائیں طرف تھوتھو کر کے شیطان کے شر سے
اللہ کی پناہ مانگے۔ اس عمل سے شیطان اسے کوئی نقصان نہ پہنچا سکے گا۔(صحیح
البخاری:3292)
(2)اٹھ کر اور باوضو ہوکر نماز ادا کریں چنانچہ نبی ﷺ
فرماتے ہیں: خواب تین طرح کے ہو تے ہیں۔اچھا خواب اللہ کی طرف سے خوش خبری ہوتی
ہے۔ ایک خواب شیطان کی طرف سے غمگین کرنے کے لیے ہوتا ہے۔ اور ایک خواب وہ جس میں
انسان خود اپنے آپ سے بات کرتا ہے یعنی اس کے اپنے تخیل کی کارفرمائی ہوتی ہے۔ اگر
تم میں سے کوئی شخص ناپسندیدہ خواب دیکھے تو کھڑا ہو جا ئے اور نماز پڑھے اور
لوگوں کو اس کے بارے میں کچھ نہ بتا ئے۔(صحیح مسلم:2263)
(3)اگر اس وقت نماز نہیں پڑھتے ہیں تو جس پہلو پر لیٹے
تھے، وہ پہلو بدل کر سوئیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے
کوئی شخص ایسا خواب دیکھے جو اسے برا لگے تو تین بار اپنی بائیں جانب تھوکے اور تین
بار شیطان سے اللہ کی پناہ مانگے اور جس کروٹ لیٹا ہوا تھا اسے بدل لے۔(صحیح
مسلم:2262)
(4) اس میں آخری
احتیاط یہ ہے کہ اس طرح کے ڈواؤنے خواب کسی سے نہیں بیان کریں۔ حضرت جابر رضی اللہ
عنہ سے روایت ہے انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی کہ اعرابی
(بدوی) نے، جو آپ ﷺ کے پاس آیا تھا، آپ ﷺ سے عرض کی: میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ
میرا سرکٹ گیا ہے اور میں اس کے پیچھے بھاگ رہا ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
نے اسے ڈانٹا اورفرمایا:نیند کے عالم میں اپنے ساتھ شیطان کے کھیلنے کے بارے میں
کسی کو مت بتاؤ۔(صحیح مسلم:2268)
یہ تو وہ احتیاط ہیں جو گھبراہٹ والے خواب یا جاثوم کی
کیفیت محسوس ہونے پر انجام دینا چاہئے۔ اس سے پہلے والا عمل یہ ہے کہ اولا ہم اپنا
ایمان مضبوط بنائیں، پانچوں وقت رب کی بندگی کریں، نمازوں کے بعد والے اذکار اور
صبح و شام کے اذکار پڑھیں، باوضو ہوکر اور سوتے وقت کے اذکار پڑھ کر دائیں پہلو پر
سوئیں۔ یقینا اللہ کی مدد حاصل ہوگی اور شیطانی خواب، اس کے مکروفریب اور تسلط سے
محفوظ رہیں گے۔
سوال: ایک بچی جدہ سے عمرہ کرنے گئی عمرہ
کرنے سے پہلے واش روم گئی تو اس نے لائٹ براؤن ایک دھبہ دیکھا۔ اس قسم کا دھبہ
پہلی مرتبہ دیکھا، اس سے پہلے کبھی ایسا نہیں دیکھا تھا۔اس کے بعد اس نے عمرہ کیا
اور گھر آگئی۔ اگلے دن عصر کے بعد اس کو حیض شروع ہوا۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس کا
عمرہ درست ہے؟
جواب:اس کا عمرہ اپنی جگہ پر درست ہے اور حیض آنے سے
پہلے جو کچھ ظاہر ہوا ہے وہ حیض نہیں ہے کیونکہ حیض سے منفصل طور پر وہ خارج ہوا
ہے۔ اور جو دھبہ یا خون حیض سے منفصل طور پر حیض سے پہلے آئے یا حیض سے پاک ہونے
کے ایک دو دن بعد نظر آئے وہ حیض میں شمار نہیں ہوگا۔
سوال: دعائے ثناء صرف فرض نماز میں پڑھنا
ہے یا سنت وغیرہ میں بھی پڑھنا ہے؟
جواب:ہر ایک نماز کی پہلی رکعت میں سب سے پہلے ثنا
پڑھیں گے خواہ وہ فرض نماز ہو یا سنت ہو یا نفل ہو۔ اس طرح پانچوں اوقات کی فرض
نماز یا فرض نماز سے پہلے یا بعد کی سنت اور اسی طرح نوافل اور تہجد ہر نماز کی
پہلی رکعت میں قیام کی حالت میں سب سے پہلے دعائے استفتاح پڑھیں گے پھر تعوذ
وبسملہ ہڑھنے کے بعد سورہ فاتحہ پڑھیں گے۔ یہ حکم امام اور مقتدی سبھی کے لئے ہے۔
سوال: مجھے مغرب کے وقت گلابی رنگ کا
ڈسچارج آیا تھا پھر وہ ٹرانسپیرنٹ ہوگیا اور میں نے الگ الگ وضو کرکے مغرب و عشاء
کی نماز ادا کرلی پھر خشکی رہی۔ اس کے بعد فجر میں باقاعدہ حیض کا خون جاری ہوا تب
سے میں نے کوئی نماز نہیں پڑھی۔ پھر حیض سے پاکی کے وقت رات میں سونے سے قبل سرخی
دیکھی لیکن فجر میں اٹھنے پر خشکی آگئی تھی اس لئے غسل کرلیا۔ سوال یہ ہے کہ حیض
آنے کے وقت پڑھی گئی مغرب و عشاء کی درست تھیں یا انہیں لوٹانا ہے اور پاکی کے وقت
فجر کی نماز سے شروع کرنا صحیح تھا؟
جواب:حیض سے متصل جو کچھ بھی ظاہر ہوتا ہے وہ حیض ہی
شمار ہوتا ہے اور میں نے پہلے بھی جواب دیا ہے کہ جس وقت سے خون آنا شروع ہوا اسی
وقت سے حیض کا مانا جائے گا۔ مغرب اور عشاء کے بعد جس خشکی کی بات کر رہے ہیں وہ
بھی حیض ہی ہوگا۔ خون زمین پر نہ گرنے کا مطلب خشکی نہیں ہوتا ہے۔ اگر اندرون
شرمگاہ خون کے اثرات ہیں تو وہ بھی حیض ہی ہوتا ہے۔
جہاں تک پاکی کا مسئلہ ہے تو فجر کے وقت جب آپ نے خشکی
دیکھی اور غسل کیا یہ عمل درست ہے۔ پاک ہونے پر مغرب کی نماز پھر سے پڑھنی ہے اور
پھر موجودہ نماز فجر پڑھنا تھا جو کہ آپ نے صحیح کیا۔
سوال: غسل کے بعد یا غسل سے پہلے میت کا
چہرہ دیکھ سکتے ہیں کیونکہ دیکھا جاتا ہے کہ عام طور پر لوگ میت کو دیکھنے کے لئے
لائن لگاتے ہیں۔اور بعض دفعہ میت کو سردخانے میں رکھا جاتا ہے اور پھر باہر سے لوگ
میت کو دیکھنے کے لئے آتے ہیں اس کا شریعت میں کیا حکم ہے؟
جواب: میت کا چہرہ وفات کے بعد اور دفن سے پہلے کسی بھی
وقت دیکھا جاسکتا ہے یعنی میت کا چہرہ وفات کے بعد بھی دیکھ سکتے ہیں، غسل دینے کے
بعد بھی دیکھ سکتے ہیں حتی کہ کفن دینے اور نماز جنازہ پڑھنے کے بعد بھی دیکھ سکتے
ہیں مگر اس جگہ یہ خیال رہے کہ میت کو دیکھنے میں رسم و رواج سے پرہیز کرنا ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ کسی کا انتقال ہوجائے تو جتنی جلدی ہو اسے دفن کردینا چاہیے
اور میت کو اس وجہ سے سرد خانے میں رکھنا تاکہ دور دراز سے لوگ آئیں اور میت کا
چہرہ دیکھیں، یہ عمل درست نہیں ہے کیونکہ نبی ﷺ نے میت کو جلدی دفن کرنے کا حکم
دیا ہے۔ ہاں اگر میت کو سردخانے میں رکھنا کسی خاص ضرورت و مصلحت اور حکومتی
کاروائی کے تحت ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
سوال: کیا میت کا چہرہ دیکھنے میں دیکھنے
والوں کے لئے یا میت کے لئے اجر وثواب ہے کیونکہ جو آدمی میت کا چہرہ نہ دیکھ سکے
تو لوگ کہتے ہیں کہ اب کیا فائدہ ، ایسے میں دکھ محسوس ہوتا ہے؟
جواب:میت کا چہرہ دیکھنے میں کوئی فضیلت نہیں ہے، نہ
دیکھنے والے کے لئے اور نہ میت کے لئے۔ میت کے جنازہ میں شرکت کرنے سے ثواب ملتا
ہے۔ ہاں میت کا چہرہ دیکھنا جائز ہے مگر اس میں کوئی اجر و ثواب نہیں ہے اس لئے
میت کا چہرہ نہ دیکھنا کوئی افسوس کا سبب نہیں ہے۔
سوال:حیض کے لئے میری عادت سات دنوں کی ہوتی ہے۔ اگر پانچ یا چھ دن میں صاف ہوجائے توکیا نماز پڑھ سکتی ہوں یا سات دن یا نو دن انتظار کرنا ضروری ہے؟
جواب:آپ نے کہا کہ ماہواری کی عادت آپ کو سات دنوں کی
ہے۔ اس بارے میں آپ یہ بات یاد رکھیں کہ حیض میں اصل خون آنا ہے یعنی جب تک حیض کا
خون آئے گا، تب تک حیض مانا جائے گا اور جب حیض بند ہوجائے گا اس وقت سے غسل کرکے
نماز ادا کرنا ہے۔ حیض کی عادت کچھ بھی ہو اس سے کوئی بحث نہیں ہے، اصل خون کا
اعتبار ہوگا۔
سوال:ایک پچھہتر سالہ خاتون عدت میں ہے
اور وہ سوائے ہسپتال کے اور کہیں نہیں جاتی۔ اس خاتون کے بالکل سامنے والے گھر میں
غسل میت کی ورکشاپ منعقد ہو رہی ہے جس میں صرف خواتین شرکت کر رہی ہیں اور معتدہ
عرصہ دراز سے میت کو غسل دینے کے احکامات و طریقہ سیکھنا چاہتی ہے۔ وہ پوچھ رہی ہے
کہ کیا وہ دس قدم پر واقع اپنی ہمسایہ کے گھر اس درس کی مجلس میں شرکت کرسکتی ہے؟
جواب:عدت میں رہنے والی عورت اپنے پڑوس کے گھر میں
منعقد ہونے والی جنازہ سے متعلق علمی ورک شاپ میں شریک ہوسکتی ہے، اس میں کوئی حرج
نہیں ہے تاہم وہ عدت میں ہے اس لئے گھر سے نکلتے وقت یا گھر میں رہتے ہوئے زیب و
زینت سے پرہیز کرے گی۔
سوال:کیا یہ سب باتیں ثابت ہیں؟
آیت الکرسی: چار مرتبہ پڑھنے سے ایک قرآن پڑھنے کا ثواب
(مسند احمد)
سورۃ القدر: چار مرتبہ پڑھنے پر ایک قرآن پڑھنے کا ثواب
(مسند احمد)
سورۃ الزلزال: دو مرتبہ پڑھنے پر ایک قرآن پڑھنے کا
ثواب (ترمذی)
سورہ التکاثر: ایک مرتبہ پڑھنے پر ہزار آیتوں کے برابر
ثواب (مشکوۃ)
سورۃ الکافرون: چار مرتبہ پڑھنے پر ایک قرآن پڑھنے کا
ثواب (ترمذی)
سورۃ النصر: چار مرتبہ پڑھنے پر ایک قرآن پڑھنے کا ثواب
(ترمذی)
سورۃ الاخلاص: تین مرتبہ پڑھنے پر ایک قرآن پڑھنے کا
ثواب (بخاری)
جواب:مسند احمد میں آیۃ الکرسی کو ربع قرآن کہا گیا ہے
مگر وہ روایت ضعیف ہے۔
سورہ القدر کے بارے میں آیا ہے کہ یہ ربع قرآن ہے مگر
شیخ البانی نے سلسلہ ضعیفہ(5324) میں موضوع کہا ہے۔
سورہ الزلزال کو مسند احمد میں نصف قرآن کہا گیا ہے، یہ
روایت ضعیف ہے۔
سورہ التکاثر پڑھنے سے ہزار آیت کے برابر ثواب والی
حدیث مستدرک حاکم میں ہے مگر یہ بھی ضعیف ہے۔ شیخ البانی نے اسے ضعیف کہا ہے۔
سورہ کافرون ربع قرآن کے برابر ہے، یہ حدیث صحیح ہے۔
سورہ نصر کو ربع قرآن کہا جاتا ہے مگر یہ ثابت نہیں ہے،
شیخ ابن باز نے ضعیف کہا ہے۔
سورہ اخلاص ایک تہائی قرآن کے برابر ہے، یہ بات صحیح
حدیث سے ثابت ہے۔
سوال: حیض کی مدت زیادہ سے زیادہ کتنی
ہوتی ہے اور کیا پندرہ دن تک اگر کوئی عورت پاک نہیں ہوتی ہے تو یہ سب ایام حیض
میں شمار ہوں گے؟
جواب:اگر کسی عورت کو تسلسل کے ساتھ پندرہ دنوں تک حیض
کے صفات والا خون آتا ہے تو یہ سب ایام حیض کے ہی مانے جائیں گے البتہ پندرہ دن کے
بعد آنے والا خون حیض کا نہیں مانا جائے گا۔ زیادہ سے زیادہ حیض کا خون پندرہ دن
تک مانا جاسکتا ہے اس لئے اگر کسی کو اس سے زیادہ خون آئے تو پندرہ دن کے بعد غسل
کرکے نماز کی پابندی کرے۔
سوال: آج کل عموما لوگ ڈپازٹ رکھ کر گھر
کرایہ پر لیتے ہیں جیسے ساٹھ ہزار ڈپازٹ تو دس ہزار کرایہ ، کیا اس طرح گھر کرایہ
پر لینا جائز ہے اور اسی طرح کسی گھومنے والی جگہ پہ جاتے ہیں تو وہاں بھی ایک دو
دن کے لئے بنگلہ کرایہ پر لینے سے ڈپازٹ طلب کیا جاتا ہے، کیا یہ طریقہ بھی صحیح
ہے؟
جواب:مکان مالک ضرورت اور احتیاط کی بنا پر ڈپازٹ لیتے
ہیں تاکہ کرایہ دار کے ذمہ کسی قسم کا پیسہ باقی ہو اور وہ روم چھوڑ کر چلا جائے
یا بقایا جمع نہ کرے تو مکان مالک اس ڈپازٹ سے اپنا حق وصول کرلے گا اور بقیہ پیسہ
کرایہ دار کو لوٹا دے گا اس وجہ سے مکان مالک کے لئے ڈپازٹ لینے میں کوئی حرج نہیں
ہے تاہم ڈپازٹ بہت زیادہ نہ ہو بلکہ عرف و رواج کے مطابق مناسب مقدار میں ہو۔
اسی طرح کوئی مکان مالک مصلحت کی وجہ سے کہیں پر ایک دن
یا چند دن کرایہ پر مکان کے لئے بھی ڈپازٹ لیتا ہے تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں
ہے۔ آج کل مختلف قسم کے کرایہ دار ہوتے ہیں اس لئے ضمانت کے طور پر ذپازٹ رکھوانے
میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔
سوال: سفر کی نماز سے متعلق کوئی کہتا ہے
کہ پندرہ دن قیام کرنے پرپوری نماز ادا کرنی پڑے گی تو کوئی کہتا ہے کہ چار دن سے
زیادہ رکنے پر پوری نماز پڑھنا ہے۔ اس مسئلہ صحیح بات کیا ہے یعنی سفر میں کتنے دن
کسی شہر میں رکنے پر قصر یا مکمل نماز ادا کرنا ہے؟
جواب: اس مسئلہ میں درست بات یہ ہے کہ جب کوئی کم از کم
اسی کلو میٹر یا اس سے زیادہ دوری کا سفر کرے اور وہ وہاں پر چار دن یا اس سے کم
رکنے کا ارادہ کرے تو اس صورت میں وہ مسافر کہلائے گا اور اپنی نماز قصر سے ادا
کرے گا۔ اور اگر چار دن سے زیادہ رکنے کا ارادہ پہلے سے ہے تو وہ پہلے دن سے ہی
مقیم کہلائے گا اور مکمل نماز ادا کرے گا۔ پندرہ دن والی بات اضطراب سے متعلق ہے
یعنی کسی کو ایک شہر میں کتنے دن ٹھہرنا ہے یہ طے اور معلوم نہیں ہے تو ایسی صورت
اور اضطراب میں پندرہ دن بھی گزر جائیں وہ اپنی نماز قصر سے ادا کرے گا۔
سوال: کیا اہل حدیث لڑکی، شیعہ لڑکا سے
شادی کرسکتی ہے اگر وہ لڑکی، شیعہ لڑکا سے شادی کرنا پسند کرے؟
جواب:شیعہ سے اپنی بیٹی کا رشتہ کرنا جائز نہیں ہے
کیونکہ شیعہ کفریہ اور شرکیہ عقیدہ رکھتا ہے۔ شیعہ کا ایمان و عقیدہ ہی ٹھیک نہیں
ہے اس لئے اپنی بیٹی کا نکاح شیعہ لڑکا سے نہیں کرنا چاہئے۔ نکاح کے لئے ضروری ہے
کہ اس کا ایمان و عقیدہ درست ہو، ورنہ اس سے نکاح کرنا جائز نہیں ہوگا۔
سوال: کیا بھانجی، بھانجہ، بھتیجہ اور
بھتیجی کا بیٹا محرم ہوتا ہے یا غیر محرم ہے؟
جواب:بھتیجے اور بھتیجیاں، بھانجے اور بھانجیاں محرم
ہیں، ان سے پردہ نہیں ہے اور اسی طرح ان کی اولاد بھی محرم ہیں، ان سے بھی پردہ
نہیں ہے۔
سوال: ایک آدمی کو وراثت میں کچھ رقم ملی
ہے جس کی مالی حالت ایسی ہے کہ اس کی تنخواہ ضرورت پوری کرنے کے برابر بھی نہیں
ہے۔ ان پیسوں کو کہیں لگاکر کچھ منافع ملے تو اخراجات پورے کر پائے گا۔ ایسے میں
اس کے لئے زکوۃ کا کیا حکم ہے؟
جواب:زکوۃ اس کو نہیں دینا ہے جس کے پاس پیسہ نہیں ہے
بلکہ زکوۃ اس کے ذمہ ہے جس کے پاس پیسہ رہتا ہے۔ جو کوئی نوکری کرے اور اس کے پاس
تنخواہ آتی ہو ، اس کی تنخواہ خرچ ہوجائے تو اس میں کوئی زکوۃ نہیں ہے۔
ہاں، جو آدمی کم تنخواہ پر کام کرتا ہے جو اس کے خرچ کے
لئے کافی نہیں ہے اور وہ اپنی ضرورت کاروباری منافع سے پوری کرے ، یہ ایک الگ
مسئلہ ہے لیکن جو پیسہ اس نے کاروبار میں لگایا ہے، وہ اگر نصاب کو پہنچے اور اس
پر سال گزر جائے تو اس کی زکوۃ دینی ہے۔ یہاں پر زکوۃ اس لئے دینی ہوگی کہ اس کے
پاس مالی نصاب ہے، نصاب بھر پیسہ نہ ہو تو پھر زکوۃ نہیں دینی ہوگی۔
سوال: کیا قبرستان سے گزرتے وقت السلام
علیکم یا اھل القبور بولنا کسی حدیث سے ثابت ہے؟
جواب: میرے علم کے مطابق قبرستان کی زیارت کے وقت
"السلام علیکم یا اھل القبور" کہنے والی دعا ثابت نہیں ہے، یہ ضعیف ہے۔
زیارت سے متعلق جو صحیح دعا ہے اس میں "السَّلَامُ عَلَيْكُمْ أَهْلَ
الدِّيَارِ" کے الفاظ ہیں چنانچہ سلیمان بن بریدہ نے اپنے والد (بریدہ اسلمی
رضی اللہ عنہ) سے روایت کی، انہوں نے کہا:
"كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ
وَسَلَّمَ يُعَلِّمُهُمْ إِذَا خَرَجُوا إِلَى الْمَقَابِرِ، فَكَانَ قَائِلُهُمْ
يَقُولُ: - فِي رِوَايَةِ أَبِي بَكْرٍ السَّلَامُ عَلَى أَهْلِ الدِّيَارِ، وَفِي
رِوَايَةِ زُهَيْرٍ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ أَهْلَ الدِّيَارِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ
وَالْمُسْلِمِينَ، وَإِنَّا إِنْ شَاءَ اللَّهُ لَلَاحِقُونَ أَسْأَلُ اللَّهَ
لَنَا وَلَكُمُ الْعَافِيَةَ "(صحیح مسلم:975)
ترجمہ:جب وہ قبرستان جاتے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم ان کو تعلیم دیا کرتے تھے تو (سیکھنے کے بعد) ان کا کہنے والا کہتا: ابو بکر
کی روایت میں ہے: ”سلامتی ہو مسلمانوں اور مومنوں کے ٹھکانوں میں رہنے والوں پر“
اور زہیر کی روایت میں ہے: ”مسلمانوں اور مومنوں کے ٹھکانے میں رہنے والو، تم
پر۔۔۔ اور ہم ان شاء اللہ ضرور (تمہارے ساتھ) ملنے والے ہیں، میں اللہ تعالیٰ سے
اپنے اور تمہارے لیے عافیت مانگتا ہوں۔“
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جو کوئی قبرستان جائے وہ
مذکورہ دعا پڑھے اور جو قبرستان کے پاس سے گزرے وہ وپاں ٹھہر کر اس دعا کو پڑھ
سکتا ہے کیونکہ وہ قبرستان کے پاس ہی ہے اور اس دعا کے پڑھنے سے میت کو فائدہ پہنچ
جائے گا۔ اور کوئی بغیر دعا پڑھے گزر جائے اس میں کوئی گناہ نہیں ہے لیکن دعا پڑھ
لینے میں فائدہ ہی ہے۔
سوال: کیا یہ قول سندا صحیح
ہے،الشَّعْبِيِّ رحمه الله: ”قَالَ لَا أَدْرِي نِصْفُ الْعِلْمِ“(186 سنن
الدارمي)؟
جواب: سنن دارمی کا یہ قول ثابت ہے بلکہ بہت سارے اہل
علم نے یہ بات کہی ہے۔
سوال: اگر سفر پہ نکلنا ہو اور وقتی نماز
پڑھ لیا ہو تو گھر سے نکلنے سے پہلے دوسرے وقت کی نماز قصر سے پڑھ سکتے ہیں؟
جواب:سفر کے لئے گھر سے نکلتے وقت اگر کسی نماز کا وقت
ہے تو وہ نماز پڑھ سکتے ہیں اور مکمل نماز پڑھنا ہے، قصر نہیں کرنا ہے اور جس نماز
کا وقت ہے، گھر پر وہی نماز پڑھنا ہے۔ وقت سے پہلے کوئی دوسری نماز نہیں پڑھنا ہے
اور گھر پہ قصر بھی نہیں کرنا ہے۔
سوال: صبح و شام کے استغفار کے طور پر
کون سے کلمات پڑھنا چاہئے۔ کیا صرف "استغفر اللہ" کہنا چاہئے یا
"أستغفرُ اللهَ العظيمَ الذي لا إلهَ إلا هو الحيُّ القيومُ وأتوبُ
إليهِ" یا "سیدالاستغفار" پرھنا چاہئے؟
جواب:اس مسئلہ میں دو باتیں ہیں، ایک بات یہ ہے کہ
مختلف قسم کے استغفار کے صیغے مروی ہیں۔ استغفار کے جو صیغے کسی وقت سے خاص ہیں وہ
اس وقت ان مخصوص الفاظ کے ذریعہ استغفار کئے جائیں گے جیسے نماز کے بعد صرف
"استغفراللہ" تین بار کہیں گے اور صبح و شام کے ذکر کے طور پر
سیدالاستغفار پڑھیں گے۔
دوسری بات یہ ہے کہ عام حالات میں بکثرت یا سو دفعہ
استغفار کرنا ہو تو مختصر استغفار کے کوئی بھی صیغے کے ذریعہ استغفار کرسکتے ہیں
بلکہ ہر قسم کے استغفار کے کلمات پڑھنا چاہئے تاکہ سب کی فضیلت حاصل ہو۔ ان میں سے
چند استغفار کے کلمات مندرجہ ذیل ہیں۔
(1)استغفار کا مختصر کلمہ "استغفراللہ" ہے،
یہ بھی باربار پڑھ سکتے ہیں۔
(2)رسول ﷺ کی ایک مجلس میں سو مرتبہ ان الفاظ میں
استغفار کیا جاتا، "رَبِّ اغْفِرْ لِي وَتُبْ عَلَيَّ إِنَّكَ أَنْتَ
التَّوَّابُ الْغَفُورُ" (اے ہمارے رب! ہمیں بخش دے اور ہماری توبہ قبول
فرما، بیشک تو توبہ قبول کرنے اور بخشنے والا ہے)۔ (ترمذی:3434)
(3) نبی ﷺ ان الفاظ کے
ذریعہ بھی استغفار کیا کرتے۔" أَسْتَغْفِرُ اللَّهَ الَّذِي لَا إِلَهَ
إِلَّا هُوَ الْحَيَّ الْقَيُّومَ وَأَتُوبُ إِلَيْهِ"۔ ان کلمات کے کہنے سے
اس شخص کے بھی گناہ معاف کردئے جاتے ہیں جو میدان جنگ سے بھاگا ہوا
ہو۔(ابوداؤد:1517)
(4)استغفار
کے لئے یہ بھی ایک بہترین دعا ہے۔"سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ رَبَّنَا
وبِحَمْدِكَ اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي"۔ اسے نبی ﷺ کثرت سے رکوع و سجدہ میں
پڑھا کرتے۔(بخاری:817)
(5)جب
اللہ تعالی نے نبی ﷺ کو سورۃ النصر کے ذریعہ نصرت و فتح کی بشارت دی اور آپ کو
تسبیح پڑھنے اور استغفار کرنے کا حکم دیا تو آپ وفات سے قبل یہ کلمات کثرت سے کہا
کرتے تھے۔"سُبْحَانَكَ وَبِحَمْدِكَ، أَسْتَغْفِرُكَ وَأَتُوبُ
إِلَيْكَ" (مسلم:484)
خلاصہ یہ ہے کہ عام حالات میں ان میں سے سارے ذکر کئے
جاسکتے ہیں بلکہ ان کے علاوہ بھی دیگر ثابت شدہ الفاظ میں استغفار کرنے میں حرج
نہیں ہے۔
سوال: کباڑی والے سے سامان خرید سکتے ہیں
جس کے پاس چوری کا سامان ہوتا ہے؟
جواب:کباڑی والے سے یا کسی اور سے چوری کا سامان خریدنا
جائز نہیں ہے کیونکہ اصل میں وہ سامان کسی اور کا ہوتا ہے۔ اس قسم کا سامان خریدنا
چور کی مدد کرنا ہے اور کسی غیر کا حق دبانا ہے۔ اس کے بارے میں قیامت میں چور کا
مواخذہ ہوگا ہی، اس شخص سے بھی پوچھ ہوگی جو جانتے بوجھتے چوری کا سامان کا خریدتا
ہے۔
سوال: عشاء کے بعد چار رکعات نفل جو ایک
سلام سے پڑھنا ہے، اگر کوئی عشاء کے بعد نہ پڑھ سکا تو کیا وہ تہجّد کے وقت وہ چار
رکعات پڑھ سکتا ہے یا نہیں؟
جواب:رات میں کبھی بھی ایک سلام والی چار رکعات پڑھ
سکتے ہیں ، کوئی حرج نہیں ہے۔ تہجد کے وقت بھی پڑھ سکتے ہیں۔
سوال: دکان پر کافی سامان پڑا ہوا ہے
جنہیں لوگ یہاں بھول گئے ہیں۔ اب کافی سال سے کوئی لینے بھی نہیں آیا ہے۔ ان میں
کچھ پرانی گھڑیاں ہیں جو ٹھیک کرنے کے لیے دے کر گئے تھے اور اب واپس آئے ہی نہیں۔
ان کا نمبر بھی اپنے پاس نہیں ہے۔ ایسی صورت میں کیا کرنا چاہیے، کیا کسی کو دے
دینا چاہیے یا اس کو سنبھال کر رکھنا چاہیے اور کتنی مدت تک سنبھال کر رکھنا چاہیے؟
جواب:اس معاملہ میں عرف کے حساب سے عمل کیا جائے گا
یعنی وہاں پر تاجروں کو اس قسم کے سامان کے لئے جو رائج صورت ہے اس پر عمل کرنا
چاہئے۔ چونکہ کسی نے سامان بنانے کے لئے دیا ہے، وہ سامان کسی کی امانت ہے، اس
بارے میں مناسب صورت یہی ہے کہ جب تک دکان موجود ہے، وہ سامان اپنے یہاں رکھا
جائے۔ اسے کسی دوسرے کے حوالے کرنا یا خود استعمال کرنا صحیح نہیں ہے۔
سوال: ہم لوگ بہت سے لوگوں سے ملاقات
کرتے ہیں جن سے اصلا مل کر کوئی خوشی نہیں ہوتی لیکن یونہی رسمی طور پر یا کسی
مجبوری کے تحت ہم ان سے کہتے ہیں کہ آپ سے مل کر بڑی خوشی ہوئی تو کیا یہ کہنا
جھوٹ میں شمار ہوگا؟