Sunday, October 19, 2025

توحید کی لفظی و اصطلاحی تعریف اور اس کے اقسام

توحید کی لفظی و اصطلاحی تعریف اور اس کے اقسام

تحریر: مقبول احمد سلفی / جدہ دعوہ سنٹر، حی السلامہ- سعودی عرب

 

توحید کی لفظی تعریف:

توحید لغت میں: وحَّد، يوحِّدسے توحيدًامصدر ہے، اس کا معنی ہے کسی چیز کو ایک ماننا اور اس کو منفرد و یکتا قرار دینا۔اس کے دیگر مشتقات میں واحد، احد اور وحید بھی آتے ہیں جو منفرد و یکتا کے معنی میں ہے۔

توحید کی شرعی تعریف:

توحید کی مختلف الفاظ میں اہل علم سے متعدد تعریفات منقول ہیں ان میں سب سے جامع و مانع یہ تعریف ہے۔اس تعریف کو حافظ ابن القیم ، شیخ ابن عثیمین اور دیگر اہل علم نے بھی نقل کیا ہے۔

"إفرادُ اللهِ سُبحانَه بما يختصُّ به من الرُّبوبيَّةِ والألوهيَّةِ والأسماءِ والصِّفاتِ"۔یعنی اللہ تعالى كو اس کی ربوبيت(متصرف الامورہونے)، اس کی الوہیت(عبادت وبندگی) اور اس کے اسماء و صفات ميں اسے يكتا و اكيلا ماننا ہے۔

توحید کے معنی پر دلیل: توحید کا جو معنی بیان کیا گیا ہےاس کے لئے ایک تو لغت کی کتاب دیکھی جاسکتی ہے نیز شرعی معنی ومفہوم کے لئے کتاب وسنت میں بے شمار دلائل ہیں چنانچہ قرآن وحدیث سے چند دلائل پیش کرتا ہوں ۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے:

أَجَعَلَ الْآلِهَةَ إِلَٰهًا وَاحِدًا ۖ إِنَّ هَٰذَا لَشَيْءٌ عُجَابٌ(ص:5)

ترجمہ:کیا اس نے اتنے سارے معبودوں کا ایک ہی معبود کردیا واقعی یہ بہت ہی عجیب بات ہے۔

اللہ تعالی فرماتا ہے:

لَّقَدْ كَفَرَ الَّذِينَ قَالُوا إِنَّ اللَّهَ ثَالِثُ ثَلَاثَةٍ ۘ وَمَا مِنْ إِلَٰهٍ إِلَّا إِلَٰهٌ وَاحِدٌ ۚ وَإِن لَّمْ يَنتَهُوا عَمَّا يَقُولُونَ لَيَمَسَّنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ (المائدۃ:73)

ترجمہ:وہ لوگ بھی قطعاً کافر ہوگئے جنہوں نے کہا، اللہ تین میں سے تیسرا ہے۔ دراصل اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ اگر یہ لوگ اپنے اس قول سے باز نہ رہے تو ان میں سے جو کفر پر رہیں گے، انہیں المناک عذاب ضرور پہنچے گا۔

ان دونوں آیات میں واحد کا لفظ ہے جو حقیقی معبود کے لئے بیان کیا گیا ہے، اسی واحد سے توحید بھی  ہے۔ ابن فارس لفظ وحد کے بارے میں بتاتے ہوئے لکھتے ہیں:

"الواو والحاء والدال: أصل واحد يدل على الانفراد"(معجم مقاييس اللغةص: 1084)

وادحاء دال ، یہ واحد کی اصل ہے جو منفرد ہونے پر دلالت کرتا ہے۔

توحید کا معنی اور اس کی حقیقت سمجھنا ہو تو سورہ اخلاص کا مطالعہ کریں، اس سورت کو توحید والی سورت بھی کہا جاتا ہے کیونکہ اس میں خالص توحید کا بیان ہے اور کلمہ توحید کے اظہار کے لئے وہاں "احد" کا استعمال ہوا ہے یعنی اللہ یکتا اور اکیلا ہے۔

نبی ﷺ نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو یمن بھیجا تو آپ نے ان سے فرمایا کہ تم اہل کتاب کی طرف جارہے ہو، ان کو سب سے پہلے توحید کی دعوت دینا ۔ صحیح بخاری(7372) میں مروی آپ ﷺ کے الفاظ یوں ہیں:

فَلْيَكُنْ أَوَّلَ مَا تَدْعُوهُمْ إِلَى أَنْ يُوَحِّدُوا اللَّهَ تَعَالَى(سب سے پہلے انہیں توحید کی دعوت دینا یعنی ان سے سب سے پہلے اس بات کا اقرار کروانا کہ اللہ ایک ہے)۔
اس حدیث میں لفظ توحید نہیں بلکہ توحید کے اصل معنی کا بیان ہے جس سے توحید کے معنی کی بخوبی صراحت ہوجاتی ہے۔ ٹھیک اسی انداز میں ارکان اسلام سے متعلق صحیح مسلم(16) کی حدیث میں توحید اور اس کے معنی کی صراحت آئی ہوئی ہے۔ نبی ﷺ ارکان اسلام بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:
بُنِيَ الإسْلامُ علَى خَمْسَةٍ: علَى أنْ يُوَحَّدَ اللَّهُ یعنی ارکان کی بنیاد پانچ چیزوں پر قائم ہے، ان میں پہلا رکن یہ ہے کہ اللہ کی وحدانیت کا اقرار کیا جائے۔

ان چند دلائل سے توحید کا معنی واضح ہوجاتا ہے اور تفصیل کے لئے تو پورا قرآن ہے جس میں ایک تہائی توحید کا ہی بیان ہے۔

شرک کا معنی ومفہوم:

توحید کی تعریف کے ساتھ شرک کو جاننا ضروری ہے تاکہ پوری طرح توحید کو جانا جاسکے۔ شرک کی اصطلاحی تعریف ٹھیک توحید کے برخلاف ہے کیونکہ شرک توحید کی ضد ہے۔ اس بنا پر شرک  کہتے ہیں کہ اللہ تعالی کے لئے اس کی ربوبیت میں ، اس کی الوہیت میں اور اس کے اسماء وصفات میں کسی کو شریک کرنا۔ربوبیت میں شرک جیسےاللہ کے علاوہ غیراللہ کو داتا اور غوث ماننا ۔الوہیت وبندگی میں شرک کی مثال، اللہ کے علاوہ مخلوق کی عبادت کرنا  یا اللہ کی عبادت میں اس کو شریک کرنا جیسے قبرکو سجدہ، مردوں سے فریاد وغیرہ۔اسماء وصفات میں شرک کی مثال اسماء وصفات  کا انکار کرنایا ان میں اللہ کو مخلوق کے مشابہ قرار دینا۔

تعریفات کے پس منظر میں توحید کا مفہوم :

توحید سے مراد کلمہ" لاالہ الااللہ" ہے۔اس میں دو اجزاء ہیں ، ایک میں اثبات  یعنی توحید اور دوسرے میں نفی یعنی شرک  ہے۔ جب ہم توحید کہتے ہیں  تو ایک طرف ایک اللہ کی الوہیت کا اقرار کرتے ہیں ، یہ توحیدکہلاتی ہے تو دوسری طرف تمام معبودان باطلہ (طاغوت)کی نفی کرتےہیں، یہ شرک کہلاتا ہے۔ چنانچہ اللہ سبحانہ وتعالی ارشاد فرماتا ہے:

فَمَن يَكْفُرْ بِالطَّاغُوتِ وَيُؤْمِن بِاللَّهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَىٰ لَا انفِصَامَ لَهَا(البقرۃ:256)

ترجمہ:جو شخص اللہ تعالیٰ کے سوا دوسرے معبودوں کا انکار کر کے اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے اس نے مضبوط کڑے کو تھام لیا جو کبھی نہ ٹوٹے گا۔

توحید صرف یہ نہیں ہے کہ بندہ اپنے رب کو کائنات کا خالق ومالک سمجھے ، یہ تو مشرکین بھی مانتے تھے ۔ توحید اصل یہ ہے کہ بندہ اللہ کو اس کے سارے افعال میں(مثلا پیداکرنا، روزی دینا، حکمرانی کرنا، تدبیرکرنا، زندگی دینا اور موت دینا وغیرہ) یکتاسمجھے ، اس کی تمام تر عبادات (مثلا نماز، روزہ، زکوۃ ، حج، قربانی ، نذر، دعا، توکل ، خوف، امیدوغیرہ) میں اسے یکتا سمجھےاور اس کے جمیع اسماء اور جمیع صفات( مثلا قادرہونے، مختارہونے، عالم الغیب ہونے ، الحی القیوم ہونے، ابدی ہونے ، بے مثال وباکمال ہونے اور تمام نقائص وعیوب سے پاک ہونے وغیرہ) میں اسے یکتا سمجھے  اور اس کی ذات میں ، اس کے افعال میں اور اسماء وصفات میں کسی کو شریک وساجھی نہ بنائے۔ جو اس اعتقاد کےساتھ  اپنے رب پر ایمان لاتا ہے اور اسی پر کاربند رہتا ہے ، دراصل وہی توحید والا کہلائے گا اور اگر ان میں ذرہ برابر بھی کہیں خلل آیا تو اہل توحید سے نکل جائے گا۔ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ زبان سے کلمہ پڑھ لیا ہم مسلمان ہوگئے، دل سے کوئی تصدیق نہیں، اس کے تقاضا سے کوئی سروکار نہیں ۔ دیکھا جائے تو اسی قسم کے مسلمان زیادہ ہیں  مگرایسے لوگ حقیقت میں توحیدوالے نہیں ہیں اور جب توحید والے نہیں ہوں گے تو آخرت میں نجات بھی نہیں ملے گی ، بھلے وہ دنیا میں  خود کو مسلمان سمجھتے رہے۔نبی ﷺ فرماتے ہیں :

فَإِنَّ اللَّهَ قَدْ حَرَّمَ عَلَى النَّارِ مَنْ قَالَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ يَبْتَغِي بِذَلِكَ وَجْهَ اللَّهِ(صحیح البخاری:1186)

ترجمہ:اللہ تعالیٰ نے ہر اس آدمی پر دوزخ حرام کر دی ہے جس نے «لا إله إلا الله‏» اللہ کی رضا اور اس کی خوشنودی کے لیے کہہ لیا۔

صرف کلمہ پڑھنے سے نجات نہیں ملے گی، اخلاص قلب کے ساتھ کلمہ پڑھنا پڑے گایعنی زبان ودل کے ساتھ توحید کا اقرار کریں اور اس کا تقاضا پورا کریں، پھر توحید مکمل ہوگی اوربایں سبب نجات ملے گی۔

صوفی طبقہ سے متعلق اضطراب :

مسلمانوں کا ایک  بڑاطبقہ شرک وبدعت میں ڈوبا ہوا ہے، یہ صوفی طبقہ ہےجوتوحید کے معاملہ میں اس کے تمام اقسام میں شرک کرتا ہے۔ حیرانی واضطراب کی بات یہ ہے کہ جس کلمہ توحید(لاالہ الااللہ ) کا اقرار کرکے آدمی اسلام میں داخل ہوتا ہے ، آخر اسی کلمہ کو پڑھنے والا شرک کیسے کررہا ہےاور شرک بھی وہ جس سے سارے اعمال اکارت ہوجاتے ہیں اور آدمی دائرہ اسلام سے خارج ہوجاتا ہے۔ اس سے زیادہ حیرانی اس بات پر ہے کہ یہ صوفی لوگ بڑی ڈھٹائی سے شرک کرتے ہیں ۔ ان کو منع کرنے سے بجائے بات سمجھنے اور اصلاح کرنے کے الٹا ناراض ہوتے ہیں بلکہ اکثر گالی گلوج دینے لگتے ہیں اور لڑائی جھگڑے کی نوبت آجاتی ہےکیونکہ ان کے ذہنوں میں ان کے علماء نے اہل توحید کے خلاف نفرت کا زہر گھول رکھا ہے۔ اہل توحید سے ملنے ، سلام کرنے، ان کی بات سننے ، ان سے تعلقات رکھنے ، ان کی کتابیں اور بیانات سننے سے سختی کے ساتھ منع کیا جاتا ہے ۔اگر کوئی ایسا کام کرلے تو صوفیوں کے یہاں اس کا نکاح ٹوٹ جاتا ہے۔ اس قدر غلو پایا جاتاہے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر اس کی کیا وجہ ہے ،  کیا صوفیوں کے یہاں توحید کی تعریف الگ ہے، کیا وہ قرآن وحدیث کے نصوص نہیں سمجھتے ؟

اس بات کے اعتراف   کے ساتھ متعدد بریلوی علماء توحید و شرک کی تعریف میں ڈنڈی مارتے ہیں ، اس کے باوجود بعض صوفی حضرات کے یہاں بھی توحید کی وہی تعریف ملتی ہے جو عموما اسلاف کے یہاں موجود ہے ۔ ڈاکٹر طاہر القادری ، بریلویوں کا غالی صوفی ہے۔ ان کی ایک کتاب "کتاب التوحید " ہے ۔ اس کتاب میں توحید کا شرعی واصطلاحی مفہوم کے تحت لکھتے ہیں:شریعت کی اصطلاح میں یہ عقیدہ رکھنا توحید ہے کہ ’’اللہ تعالیٰ اپنی ذات، صفات اور جملہ اوصاف و کمالات میں یکتا و بے مثال ہے، اس کا کوئی ساجھی یا شریک نہیں، کوئی اس کا ہم پلہ یا ہم مرتبہ نہیں۔‘‘

طاہرالقادری کی پیش کردہ توحید کی تعریف وہی ہے جو میں نے اوپر بیان کی ہے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ بریلوی شوق اور ڈھٹائی کے ساتھ شرک وبدعت انجام دیتا ہے؟  اس سوال کا مختصر اور معقول جواب یہ ہے کہ بریلوی اپنے امام کی اندھی تقلید کرتا ہے اس وجہ سے امام نے جو کچھ کہہ دیا اسی پر عمل کیا جاتا ہے۔ تقلید میں یہ چیز عام ہے۔  ہم احناف کو دیکھتے ہیں کہ اپنے امام کے قول کی وجہ سے اللہ اور اس کے رسول کا قول ترک کردیتے ہیں یا اس میں من مانی تاویل کرتے ہیں ، یہی حال بریلویوں کا ہے۔ یہ لوگ بھی خود کو امام ابوحنیفہ ؒ کا مقلد کہتے ہیں ۔ ساتھ ہی گونگے ، بہرے اور اندھے مقلد بن کر احمد رضا بریلوی کی پیروی کرتے ہیں ۔ احمد رضا نے ہندوستان میں ایسا شرکیہ نظریہ پیش کیا کہ آج اس کے ماننے والے برصغیر میں رائی کے دانے کے برابربھی اس کے فتوی سے انحراف نہیں کرتے ،چاہے اس کے لئے اللہ کا حکم چھوڑنا پڑے یا رسول اللہ ﷺ کا فرمان ترک کرنا پڑے ، اس سے کوئی غرض نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بریلوی حضرات اپنے خلاف توحید سے متعلق قرآن اور حدیث کے نصوص کو اپنے امام کے نظریہ کے مطابق تاویل کرتے ہیں ۔ کھلے الفاظ میں تو یہ نہیں کہہ سکتے ہیں کہ ہم اس آیت کو نہیں مانتے یا اس حدیث کا انکار کرتے ہیں تاہم انکار کے ہی پہلو میں اپنے باطل افکار ونظریات کو صحیح ٹھہرانے کے لئے من مانی تشریح کرتے ہیں۔

کس قدر افسوس کی بات ہے کہ کلمہ گو ہونے کے باوجود ایسے شرکیہ اعمال کرتے ہیں جو جہنم میں لے جانے والے ہیں ۔ اللہ تعالی ان لوگوں کو صحیح سمجھ عطا فرمائے۔ آمین

توحید کے اقسام :

کتاب وسنت کے نصوص کو سامنے رکھتے ہوئے علمائے اسلام نے توحید کے تین اقسام بیان کئے ہیں۔

پہلی قسم: توحید ربوبیت ، دوسری قسم : توحید الوہیت اور تیسری قسم : توحید اسماء وصفات ہے۔ توحید کے ان تینوں اقسام کا بیان، پورے قرآن میں جابجا ہے تاہم قرآن کی ایک آیت میں بھی اکٹھے ان تینوں کا ذکر آیا ہے۔ اللہ تعالی فرماتا ہے:

رَّبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا فَاعْبُدْهُ وَاصْطَبِرْ لِعِبَادَتِهِ ۚ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا (مريم:65)

ترجمہ:آسمانوں کا، زمین کا اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب کا رب وہی ہے تو اسی کی بندگی کر اور اس کی عبادت پر جم جا۔ کیا تیرے علم میں اس کا ہم نام ہم پلہ کوئی اور بھی ہے؟

اس آیت کے پہلے حصے "رَّبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا" میں ربوبیت کا ذکر ہے کیونکہ اللہ اس میں ذکر کرتا ہے کہ زمین و آسمان کا وہی رب یعنی ان کا خالق اور پالنہار ہے۔ وہی اکیلا پوری کائنات کی ضرورت پوری کرنے والا اور تدبیر و انتظام سنبھالنے والا ہے۔ آگے اللہ کہتا ہے "فَاعْبُدْهُ وَاصْطَبِرْ لِعِبَادَتِهِ" ، اس میں توحید الوہیت کا بیان ہے کیونکہ اللہ نے حکم دیا ہے کہ تم اس کی عبادت کرو۔ پہلے والے حصے سے اس کو جوڑ کر سمجھیں کہ اللہ ہی ساری کائنات کا خالق و پالنہار ہے پھر وہی اکیلا عبادت کا بھی مستحق ہے لہذا اسی کی عبادت کی جائے گی، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کیا جائے گا۔ آگے اللہ فرماتا ہے "هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا"، اس میں اللہ توحید اسماء و صفات کو بیان کرتا ہے کہ کائنات میں کوئی اس کا ہم نام اور ہم پلہ نہیں۔ کوئی اس کے مشابہ ومماثل اور برابری کرنے والا نہیں ہے۔

 ان تینوں کی تعریف اور وضاحت ذیل کے سطور میں آرہی ہے۔

توحید کی پہلی قسم :   توحیدربوبیت ہے ۔ توحید ربوبیت یہ ہے کہ اللہ تعالی کو اس کی ربوبیت یعنی  ذات اور اس کے افعال  جیسے پیدا کرنے، مارنے جلانے، روزی دینے، بادشاہت کرنے ، تدبیرکرنے اور کائنات میں تصرف کرنے وغیرہ میں یکتا، بے نظیر اور منفرد ماننا ہے۔

توحید ربوبیت کو سمجھنے کے لئے قرآن کریم سے اس پہ چند دلائل پیش کرتا ہوں۔

اللہ تعالی فرماتا ہے:

اللَّهُ الَّذِي خَلَقَكُمْ ثُمَّ رَزَقَكُمْ ثُمَّ يُمِيتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيكُمْ ۖ هَلْ مِن شُرَكَائِكُم مَّن يَفْعَلُ مِن ذَٰلِكُم مِّن شَيْءٍ ۚ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَىٰ عَمَّا يُشْرِكُونَ (الروم:40)

ترجمہ:اللہ تعالیٰ وہ ہے جس نے تمہیں پیدا کیا پھر روزی دی پھر مار ڈالے گا پھر زندہ کر دے گا بتاؤ تمہارے شریکوں میں سے کوئی بھی ایسا ہے جو ان میں سے کچھ بھی کرسکتا ہو۔ اللہ تعالیٰ کے لئے پاکی اور برتری ہے ہر اس شریک سے جو یہ لوگ مقرر کرتے ہیں۔

اللہ تعالی فرماتا ہے:

هُوَ الَّذِي خَلَقَ لَكُم مَّا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا ثُمَّ اسْتَوَىٰ إِلَى السَّمَاءِ فَسَوَّاهُنَّ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ ۚ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ (البقرۃ:29)

ترجمہ:وہ اللہ جس نے تمہارے لئے زمین کی تمام چیزوں کو پیدا کیا  پھر آسمان کی طرف قصد کیا اور ان کو ٹھیک ٹھاک سات آسمان بنایا اور وہ ہر چیز کو جانتا ہے۔

اللہ تعالی فرماتا ہے:

تَبَارَكَ الَّذِي بِيَدِهِ الْمُلْكُ وَهُوَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (الملک:1)

ترجمہ:بہت بابرکت ہے وہ ذات (اللہ)جس کے ہاتھ میں ساری بادشاہت ہے اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔

اللہ تعالی فرماتا ہے:

يُدَبِّرُ الْأَمْرَ مِنَ السَّمَاءِ إِلَى الْأَرْضِ ثُمَّ يَعْرُجُ إِلَيْهِ فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُ أَلْفَ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّونَ (السجدۃ؛5)

ترجمہ:وہ آسمان سے لے کر زمین تک (ہر) کام کی تدبیر کرتا ہے۔ پھر (وہ کام) ایک ایسے دن میں اس کی طرف چڑھ جاتا ہے جس کا اندازہ تمہاری گنتی کے ایک ہزار سال کے برابر ہے۔

اللہ کی ربوبیت کوسمجھنے کے لئے کہ وہی اکیلا خالق ، مالک، رازق، مدبر، مختار ، مارنے جلانے والا اور پالنہار ہے، یہ آیات کافی ہیں جبکہ قرآن میں اور بھی بہت سی آیات ہیں جو اللہ کے مختلف افعال بیان کرتی ہیں اور ان میں اللہ یکتا و منفرد ہے۔ طوالت کی وجہ سے احادیث ذکر نہیں کررہا ہوں۔

مشرکین اورآج کے مسلمان:

مسلمانوں  کا ایک بڑا طبقہ جسے صوفی اور بریلوی کہا جاتا ہے وہ  کلمہ پڑھنے کے باوجودتوحید ربوبیت میں بھی شرک کا ارتکاب کررہا ہے حالانکہ عہدرسالت میں جنہیں مشرک کہا جاتا تھا ، مشرک ہونے کے باوجود توحید ربوبیت کو مانتا تھا۔ اللہ تعالی بیان فرماتا ہے:

وَلَئِن سَأَلْتَهُم مَّنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ لَيَقُولُنَّ خَلَقَهُنَّ الْعَزِيزُ الْعَلِيمُ (الزخرف:9)

ترجمہ: اگر آپ ان سے دریافت کریں کہ آسمانوں اور زمین کو کس نے پیدا کیا تو یقیناً ان کا جواب یہی ہوگا کہ انہیں غالب و دانا (اللہ) ہی نے پیدا کیا ہے۔

یہاں اللہ نے مشرکین مکہ کا ذکر کیا ہے کہ جب ان سے پوچھا جاتا کہ زمین و آسمان کا پیدا کرنے والا کون ہے تو وہ جواب دیتے کہ اللہ ہے۔ اب سورہ المومنون کی آیات 84 سے لے کر 89 تک دیکھیں، اسی توحید ربوبیت کا اقرار مشرکین کس طرح کرتے ہیں۔

اللہ تعالی فرماتا ہے:

قُل لِّمَنِ الْأَرْضُ وَمَن فِيهَا إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ (84) سَيَقُولُونَ لِلَّهِ ۚ قُلْ أَفَلَا تَذَكَّرُونَ (85) قُلْ مَن رَّبُّ السَّمَاوَاتِ السَّبْعِ وَرَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ (86) سَيَقُولُونَ لِلَّهِ ۚ قُلْ أَفَلَا تَتَّقُونَ (87) قُلْ مَن بِيَدِهِ مَلَكُوتُ كُلِّ شَيْءٍ وَهُوَ يُجِيرُ وَلَا يُجَارُ عَلَيْهِ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ (88) سَيَقُولُونَ لِلَّهِ ۚ قُلْ فَأَنَّىٰ تُسْحَرُونَ (89)(المومنون)

ترجمہ:پوچھیے تو سہی کہ زمین اور اس کی کل چیزیں کس کی ہیں؟ بتلاؤ اگر جانتے ہو۔فوراً جواب دیں گے کہ اللہ کی، کہہ دیجئے کہ پھر تم نصیحت کیوں نہیں حاصل کرتے۔دریافت کیجئے کہ ساتوں آسمانوں کا اور بہت باعظمت عرش کا رب کون ہے؟وہ لوگ جواب دیں گے کہ اللہ ہی ہے۔ کہہ دیجئے کہ پھر تم کیوں نہیں ڈرتے۔پوچھئے کہ تمام چیزوں کا اختیار کس کے ہاتھ میں ہے؟ جو پناہ دیتا ہے اور جس کے مقابلے میں کوئی پناہ نہیں دیا جاتا اگر تم جانتے ہو تو بتلاؤ؟ یہی جواب دیں گے کہ اللہ ہی ہے۔ کہہ دیجئے پھر تم کدھر جادو کردیئے جاتے ہو۔

مزید اس قسم کی آیات قرآن میں موجود ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ مشرکین اللہ تعالی کی ذات پر ایمان لاتے تھے اور وہ یہ اقرار کرتے تھے کہ کائنات کا خالق ومالک ، سورج وچاند مسخر کرنے والا ، روزی دینے والا ، موت وحیات دینے والا اور مصیبت سے نکالنے والا اکیلا اللہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مشرکین جب دریا میں ہوتے اور موجیں اٹھتیں تو صرف اللہ کو ہی پکارتے کیونکہ وہ اعتقاد رکھتے تھے کہ اللہ ہی مصیبت سے نکال سکتا ہے ۔ اللہ تعالی فرماتا ہے:

هُوَ الَّذِي يُسَيِّرُكُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ ۖ حَتَّىٰ إِذَا كُنتُمْ فِي الْفُلْكِ وَجَرَيْنَ بِهِم بِرِيحٍ طَيِّبَةٍ وَفَرِحُوا بِهَا جَاءَتْهَا رِيحٌ عَاصِفٌ وَجَاءَهُمُ الْمَوْجُ مِن كُلِّ مَكَانٍ وَظَنُّوا أَنَّهُمْ أُحِيطَ بِهِمْ ۙ دَعَوُا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ لَئِنْ أَنجَيْتَنَا مِنْ هَٰذِهِ لَنَكُونَنَّ مِنَ الشَّاكِرِينَ (یونس:22)

ترجمہ:وہ اللہ ایسا ہے کہ تم کو خشکی اور دریا میں چلاتا ہے یہاں تک کہ جب تم کشتی میں ہوتے ہو اور وہ کشتیاں لوگوں کو موافق ہوا کے ذریعے سے لے کر چلتی ہیں اور وہ لوگ ان سے خوش ہوتے ہیں ان پر ایک جھونکا سخت ہوا کا آتا ہے اور ہر طرف سے ان پر موجیں اٹھتی چلی آتی ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ (برے) آگھرے۔ (اس وقت) سب خالص اعتقاد کرکے اللہ ہی کو پکارتے ہیں کہ اگر تو ہم کو اس سے بچا لے تو ہم ضرور شکر گزار بن جائیں گے۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ آج کے بریلوی مسلمان مشرکین سے بھی گئے گزرے ہیں جو اللہ کے افعال میں بھی غیراللہ کو یعنی اپنے پیروں کو شریک مانتے ہیں۔ پیداکرنے میں ، روزی دینے میں، قسمت بنانے میں، اولاد دینے میں، تکلیف دور کرنے میں، کام بنانے میں، کائنات میں تصرف کرنے میں حتی کہ مارنے زندہ کرنے میں بھی غیراللہ کو پکارتے ہیں کیونکہ یہ لوگ غیراللہ میں یہ صفات مانتے ہیں۔ مذکورہ بالا آیات میں ان لوگوں کے لئے ہدایت ورہنمائی ہے۔ اللہ ان سب کو سمجھ عطا فرمائے۔

توحید کی دوسری قسم : توحید الوہیت ہے۔اس کو توحید عبادت بھی کہتے ہیں جو بندوں کے اعمال سے متعلق ہے۔ اس توحید کا مطلب یہ ہے کہ جملہ قسم کی عبادات مثلا نماز ، رکوع وسجود، روزہ ، زکوۃ ، حج، دعا، ذبیحہ، نذرونیاز،طواف ، اعتکاف، استعانت، استغاثہ، قربانی، توکل، امید، خوف وغیرہ  میں اللہ کو یکتا ومنفرد ماننا یعنی تمام قسم کی عبادات کا مستحق اکیلے اللہ کو ماننا اور اس کے ماسوا باقی سب کی عبادت کی نفی کرنا خواہ وہ کوئی بھی ہو۔ بالفاظ دیگر ہم تمام قسم کی عبادت صرف اکیلے اللہ کے لئے بجالائیں گے، نماز اللہ کے لئے پڑھیں گے، رکوع وسجدہ اللہ کے لئے انجام دیں گے، قربانی ونذرونیاز اللہ کے لئے کریں گے ،حاجت روا اور مشکل کشا صرف اللہ کو سمجھیں گے اور اسی سے دعامانگیں گے، ہرحال میں اسی پر توکل کریں گے ، اسی سے امید لگائیں گے اور اسی سے محبت اور اسی سے خوف کھائیں گے اور اس کے لئے عاجزی کا اظہار کریں گے۔ قرآن کریم سے اس بارے میں چند آیات ذکر کرتا ہوں تاکہ موضوع کی وضاحت ہو۔

اللہ تعالی فرماتا ہے:

قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ (162) لَا شَرِيكَ لَهُ ۖ وَبِذَٰلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ (163) (الانعام)

ترجمہ:آپ فرما دیجئے کہ بالیقین میری نماز اور میری ساری عبادت اور میرا جینا اور میرا مرنا یہ سب خالص اللہ ہی کا ہے جو سارے جہان کا مالک ہے۔اس کا کوئی شریک نہیں اور مجھ کو اسی کا حکم ہوا ہے اور میں سب ماننے والوں میں سے پہلا ہوں۔

اللہ تعالی فرماتا ہے:

وَاعْبُدُوا اللَّهَ وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا(النساء:36)

ترجمہ: اور اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ۔

اللہ تعالی فرماتا ہے:

فَلَا تَدْعُ مَعَ اللَّهِ إِلَٰهًا آخَرَ فَتَكُونَ مِنَ الْمُعَذَّبِينَ (الشعراء:213)

ترجمہ: پس تو اللہ کے ساتھ کسی اور معبود کو نہ پکار کہ تو بھی سزا پانے والوں میں سے ہو جائے۔

توحید الوہیت سے مراد کلمہ توحید یعنی لا الہ الا اللہ ہے۔ اللہ تعالی فرماتا ہے:

وَمَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ مِن رَّسُولٍ إِلَّا نُوحِي إِلَيْهِ أَنَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدُونِ (الانبیاء:25)

ترجمہ:تجھ سے پہلے بھی جو رسول ہم نے بھیجا اس کی طرف یہی وحی نازل فرمائی کہ میرے سوا کوئی معبود برحق نہیں پس تم سب میری ہی عبادت کرو۔

یہی وہ اہم دعوت ہے جس کو سارے انبیاء دے کر بھیجے گئے اور تمام نبیوں نے اپنی اپنی قوم کو لاالہ الا اللہ کی دعوت دی یعنی یہ کہو کہ اللہ کے علاوہ کوئی سچا معبود نہیں ہے، اسی کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ۔ جس نے نبی کی اس دعوت کو تسلیم کرلیا وہ اسلام کے سایہ تلے محفوظ ہوگیا اور جس نے اس دعوت کا انکار کیا اس کے ساتھ جنگ کی گئی ۔ کفارمکہ نے بھی اس کا انکار کیا تو محمد ﷺ نے ان سے جنگیں لڑیں بالآخر سارے عرب پر اسلام غالب آگیا۔  اللہ کے فضل سے اللہ پوری دنیا میں اسلام پھیل چکا ہے اور کلمہ "لاالہ الااللہ" پڑھنے والوں کی بڑی تعداد موجود ہے مگر ہمیں اس بات پہ دکھ وافسوس ہے کہ مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ جیسے ربوبیت میں شرک کرتا ہے، اسی طرح الوہیت میں بھی شرک کرتا ہے اور بہت سارے عبادت کے اعمال غیراللہ کے لئے انجام دیتا ہے جیسے غیراللہ کے لئے سجدہ کیا جاتا ہے، اس سے اولاد مانگی جاتی ہے، مشکل میں اس کو پکارا جاتا ہے، اس کے لئے ذبیحہ ، قربانی اور نذرونیاز انجام دئے جاتے ہیں ، قبروں کو سجدہ اور طواف کیا جاتا ہے بلکہ وہاں مکمل نماز پڑھی جاتی ہے۔ غرضیکہ عبادت کے بہت سارے امور غیراللہ کے لئے انجام دئے جاتے ہیں جو شرک فی العبادۃ ہے ۔ یہ وہ عمل ہے کہ انسان بغیر توبہ اسی حال میں مرجائے تو اس کی بخشش نہیں ہوگی، وہ ہمیشہ کے لئے جہنم میں جائے گا۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:

إِنَّهُ مَن يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ وَمَأْوَاهُ النَّارُ ۖ وَمَا لِلظَّالِمِينَ مِنْ أَنصَارٍ (المائدۃ:72)

ترجمہ: یقین مانو کہ جو شخص اللہ کے ساتھ شریک کرتا ہے اللہ تعالیٰ نے اس پر جنت حرام کردی ہے، اس کا ٹھکانا جہنم ہی ہے اور گناہگاروں کی مدد کرنے والا کوئی نہیں ہوگا۔

توحید کی تیسری قسم : توحید اسماء وصفات ہے۔اس توحید سے مراد یہ ہے کہ کتاب اللہ اور سنت رسول میں جو بھی اللہ کے اسماء اور اس کے صفات وارد ہیں ان تمام پر ایمان لاناہے اور انہیں خاص اللہ کے لئے ثابت  ماننا ہے بغیر تحریف وتعطیل اور بغیرتکییف و تمثیل کے  یعنی ان اسماء وصفات کے معنی میں کوئی تحریف نہ کی جائے ، نہ کسی کا انکار کیا جائے اور نہ ان میں کسی کی کیفیت بیان کی جائے اورنہ مخلوق سے تشبیہ دی جائے۔

توحیداسماء وصفات دوچیزوں پر مبنی ہے۔

 پہلی چیز"اثبات" ہے، وہ  یہ ہے کہ جو بھی اسماء اور صفات اللہ نے اپنے لئے ثابت کیا ہے یا اللہ کے رسول محمد ﷺ نے اللہ کے لئے ثابت کیا ہے ان اسماء وصفات کو ویسے ہی ثابت مانا جائے جو اللہ کے شایان شان ہیں۔جیسے اللہ سمیع و بصیر ہے یعنی وہ سنتا ہے اور دیکھتا ہے اس طرح جو اس کے شایان شان ہے۔

دوسری چیز "تنزیہ"ہے ، وہ یہ ہے کہ اللہ تعالی کو ہرقسم کے عیوب ونقائص سے منزہ مانا جائے نیز اللہ نے خود اپنے لئے جن صفات کی نفی کی ہے ان کی نفی کی جائے ۔اللہ کا فرمان ہے:

لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ ۖ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ (الشوری:11)

ترجمہ: کوئی چیز اس کے مشابہ نہیں اور وہ سب کچھ سننے والا اور دیکھنے والا ہے۔

یہاں پر اللہ تعالی نے اپنے لئے تشبیہ دینے کی نفی کردی اس وجہ سے اللہ کی کسی صفت کو مخلوق سے تشبیہ نہیں دی جائے گی ۔

توحید کی اس تیسری قسم میں بہت فرقے گمراہ ہوئے ، کسی نے معنی میں تحریف کیاتوکسی نے کچھ صفات کا انکار کیا اور کچھ تکییف و تمثیل کے باب میں بھٹک گئےجن کی تفصیل کا یہ موقع نہیں ہے۔

سطور بالا میں توحید کی تین قسموں کو اختصار سے بیان کیا گیا ہے ، یہ تقسیم سلف سے منقول ہے ۔بعض اہل علم ، توحید کی دو ہی قسم  بیان کرتے ہیں ۔

(1)توحیدقصدوطلب۔ اس سے مراد توحید الوہیت ہے ۔

(2) توحیدمعرفت واثبات۔ اس  میں توحیدربوبیت اور اسماء وصفات دونوں داخل مانتے ہیں۔

بظاہر اس تقسیم میں کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ یہ تینوں قسموں کو شامل ہے تاہم  توحید کو تین اقسام میں بیان کرنا جیساکہ اکثر علماء ذکر کرتے ہیں ، افضل ہے۔ حقیقت میں توحید کی ان تین قسموں پر ایک طرح سے اجماع ہے، اس میں مزید کسی قسم کے اضافہ کی ضرورت نہیں ہے مگر کچھ لوگ بطور خاص جماعت اسلامی اور اخوانی لوگ  ایک چوتھی قسم کا اضافہ کرتے ہیں اور بڑی شد ومد کے ساتھ بیان کرتے ہیں وہ توحید حاکمیت ہے۔

توحید حاکمیت کیا ہے ؟

توحید حاکمیت میں دو باتیں شامل ہیں ۔ ایک بات تو یہ ہے کہ حاکم ، مالک ، شارع،قانون بنانے والا اور حکم دینے والا اللہ تعالی ہے، اسے تکوینی اقتدار کہتے ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ جو دین محمد ﷺ کے ذریعہ اللہ نے دنیا والوں کو دیا ہے وہ زمین پر نافذہویعنی جس طرح آسمانوں کا حاکم اللہ ہی ہے، اسی طرح زمین پر بھی اللہ کے دین کے ذریعہ  ہی حکمرانی ہوگی  ، یہاں پر اورکوئی دوسرا حکم نہیں چلے گا۔اسے تشریعی اقتدار کہتے ہیں۔درحقیقت  توحیدکی تین قسموں میں توحیدحاکمیت بھی داخل ہے ۔حاکم ہونے کے اعتبار سے یعنی تکوینی کی حیثیت سے توحیدربوبیت میں داخل ہے اور اللہ کا حکم نافذکرنے یعنی  تشریعی حیثیت سے توحید الوہیت میں داخل ہے۔ جب یہ توحید ، تین قسموں میں داخل وشامل ہے تو اسے الگ، توحید کی ایک مستقل قسم کی حیثیت سے بیان کرنا غلط ہے۔ توحید حاکمیت کہنا، لکھنا یا بولنا غلط نہیں ہے، بلاشبہ اللہ ہی حاکم اعلی ہے ، اسی کا حکم چلتا ہے اور چلنا چاہئے مگر اسے الگ قسم کی حیثیت سے بیان نہیں کیا جائے گا۔

سب سے پہلے مولانا مودو دی نے توحیدحاکمیت  اور شرک فی الحاکمیت کو الگ سے بیان کیا۔ اس کی ضرورت اس وجہ سےپڑی کہ جماعت اسلامی کا قیام تحریکیت پر مبنی ہے۔ اس کو دوسرے لفظوں میں یہ کہیں کہ اسلامی نظام کا قیام عمل میں لانا اس کا مقصد ہے۔اپنے مقصد کے پرچار اور اس میں کامیابی کے لئے توحیدحاکمیت کو ایک سیاسی اسلحہ کے طور پر استعمال کیا ۔  یہی وجہ ہے کہ جماعت اسلامی کے یہاں توحیدحاکمیت ہی اصل توحید بلکہ ساری توحید ہی یہی ہے حتی کہ ان لوگوں نے توحیدحاکمیت میں اس قدر غلو کیا کہ "لاالہ الااللہ" کاصحیح معنی ومفہوم بدل دیا۔ اس کامعنی بیان کیا جاتا ہے کہ اللہ کے علاوہ کوئی حاکم نہیں ہے جبکہ اس کا اصل معنی ہے کہ نہیں ہے کوئی معبود حقیقی  سوائے اللہ کے یعنی خالص ایک اللہ کی عبادت کی جائے گی ، اس کے علاوہ کسی اور کی نہیں ، نہ اس کے ساتھ کسی کو شریک کیا جائے ۔یہی ہماری پیدائش کا مقصد ہے، یہی سارے انبیاء کی دعوت رہی ہے۔ محمد ﷺ کی اس دعوت کو لے کر آئےاور تیرہ سال تو صرف اسی ایک بات کی دعوت دیتے رہے۔ آپ نے مکی دور میں یہ دعوت نہیں  دی کہ حاکم اللہ ہے، یہ تو کفار مکہ پہلے سے مانتے تھے کہ خالق ، مالک اور حاکم اللہ ہےیعنی توحید ربوبیت کے قائل تھے ، نبی ﷺ نے انہیں ایک اللہ کی عبادت کی طرف دعوت دیا  مگر جماعت اسلامی اپنے تحریکی مقصد کی تکمیل کے لئے غلط ڈھنک سے توحید حاکمیت کا پرچار اور استعمال کرتے ہیں۔ اسی مقصد سے مسلم حکام کی تکفیربھی کرتے ہیں۔

توحیدحاکمیت کے سلسلے میں اختصار کے ساتھ بعض اہل علم کے اقوال ذکر کرنا مناسب سمجھتا ہوں ۔

٭سعودی عرب کی فتوی کمیٹی، لجنہ دائمہ سے توحید حاکمیت کے بارے میں سوال کیا گیا تو کمیٹی نے جواب دیا:"وجعل الحاكمية نوعا مستقلا من أنواع التوحيد عمل محدث، لم يقل به أحد من الأئمة فيما نعلم" یعنی حاکمیت کو توحید کی ایک مستقل قسم قرار دینا ایک قسم کی بدعت ہے ، ہمارے علم کے مطابق کسی بھی عالم نے ایسا نہیں کہا ہے۔(المسلمون ڈاٹ نٹ)

٭شیخ ابن عثیمین ؒ سے سوال کیا گیا کہ بعض لوگ توحید کی ایک چوتھی قسم بناتے ہیں اس کا نام توحیدحاکمیت ہے،اس کے بارے میں کیا کہتے ہیں تو شیخ نے جواب دیا: "نقول إنَّه ضال ,وهو جاهل، لأن توحيد الحاكمية هو توحيد الله -عزَّ وجل- الحاكم هو الله -عزَّ وجل- فإذا قلت التوحيد ثلاثة أنواع كما قاله العلماء، توحيد الربوبية فإنَّ توحيد الحاكمية داخلٌ في الربوبية،لأن توحيد الربوبية هو توحيد الحكم، والخلق، والتَّدبير لله -عزَّ وجل-وهذا قولٌ مُحدث مُنكر"۔

ترجمہ: ہم یہ کہتے ہیں کہ وہ گمراہ اور جاہل ہے کیونکہ توحید حاکمیت ہی تو اللہ عزوجل کی توحید ہے اور حاکم وہی اللہ عزوجل ہے۔ جب تم کہتے ہو کہ توحید کی تین قسمیں ہیں جیساکہ علماء نے بیان کیا ہے، اس میں توحید ربوبیت بھی ہے تو توحید حاکمیت، توحید ربوبیت میں داخل ہے کیونکہ توحید ربوبیت کا مطلب یہ ہے کہ اللہ عزوجل ہی حکم دینے والا، پیدا کرنے والا اور تدبیر کرنے والا ہے۔ جہاں تک یہ بات ہے کہ توحیدحاکمیت چوتھی قسم ہے، یہ قول بدعت ومنکر ہے۔(المنہج الواضح ڈاٹ نٹ)

٭شیخ البانی ؒ توحید حاکمیت کے بارے میں بیان کرتے ہیں: "الحاکمیة فرع من فروع توحید الألوھیة والذین یدندنون بھذہ الکلمة المحدثة في العصر الحاضر، یتخذون سلاحًا لیس لتعلیم المسلمین التوحید الذي جاء به الأنبیاء والرُّسل کلّھم و إنما سلاحًا سیاسیًّا"۔

ترجمہ:حاکمیت ، توحیدالوہیت کے فروع میں سے ایک فرع ہے اور جو لوگ عصر حاضر میں اس  نوایجادکلمہ کو لیے دندناتے پھرتے ہیں ، وہ اس کے ذریعہ مسلمانوں کو اس توحید کی تعلیم نہیں دینا چاہتے جسے تمام انبیاء و رسل لے کر آئے بلکہ یہ لوگ اس کلمہ کو سیاسی اسلحہ کے طور پر استعمال کرتے ہیں ۔(المنہج الواضح ڈاٹ نٹ)

٭ سائل ایک عالم کے حوالے سے پوچھتا ہے کہ وہ شدت حاجت کی وجہ سے توحید حاکمیت کو چوتھی قسم ماننے میں حرج نہیں مانتے ہیں، اس بارے میں آپ کیا کہتے ہیں تو اس پر شیخ صالح الفوزان جواب دیتے ہیں:

توحيد الحاكمية ما يفرد, ما أفرده السلف ولا أفرده العلماء, لأنه داخل في توحيد الألوهية وبعضهم يقول داخل في الربوبية. والصحيح انه داخل في الاثنين, في توحيد الربوبيةوتوحيد الألوهية. أما يجيب قسما مستقلا هذا ابتداع.

ترجمہ:توحید حاکمیت مستقل طور پر نہیں بیان کیا جائے گاکیونکہ سلف نے اس کو منفرد نہیں بیان کیا ہے اور نہ علماء نے اسے منفرد بیان کیا ہے۔یہ توحید الوہیت میں داخل ہے اور بعض اسے توحید ربوبیت میں داخل مانتے ہیں۔صحیح بات یہ ہے کہ یہ  توحید ربوبیت اور توحید الوہیت دونوں میں داخل ہےمگر اسے مستقل قسم بنانا بدعت ہے۔

توحید حاکمیت کے سلسلے میں علمائے عرب کے مختلف فتاوی پائیں گے، میں نےطوالت کے خوف سے چندایک کے ذکر پہ اکتفا کیا۔ ان سب کا خلاصہ یہ ہے کہ توحیدحاکمیت پہلے سے ہی توحید کی تین قسموں میں شامل ہے، اسے الگ سے مستقل نوع کی حیثیت سے پیش کرنا بدعت وگمراہی ہے اور لوگوں کی توجہ اصل توحید سے ہٹاکرصرف  توحیدحاکمیت کی طرف لگانا ہے بلکہ اخوانیوں اور تحریکیوں کے یہاں یہ ایک سیاسی اسلحہ کے طور پر استعمال ہوتا ہے اس وجہ سے ہمیں ہوشیار رہنا چاہئے کیونکہ انہی لوگوں نے اسے الگ قسم کی حیثیت سے مشہور کیا ہے، علماء سلف سے اس قسم کی تقسیم منقول نہیں ہے۔

مکمل تحریر >>

شادی میں ہلدی کی رسم اور غیرشرعی کام

 

شادی میں ہلدی کی رسم اور غیرشرعی کام

 

مقبول احمد سلفی

جدہ دعوہ سنٹر، سعودی عرب

 

یوں تو پہلے سے ہمارے یہاں شادی میں مختلف قسم کے رسم ورواج پائے جاتے ہیں، ان میں ایک رواج آج کل زور پکڑتا ہوا جارہا ہے وہ  ہےہلدی کی رسم ۔  ہلدی کی اس رسم میں لڑکی کے گھر والے، اس کے رشتے دار اور اس میں شریک ہونے والی گاؤں کی نوجوان لڑکیاں سب ایک ہی رنگ کے پیلے کپڑے پہنتے ہیں حتی کہ لڑکے بھی  پیلے کپڑے پہنے نظر آتے ہیں۔

یہ بات بالکل واضح ہے کہ" رسم ہلدی"  مسلمانوں کا طریقہ نہیں ہے بلکہ غیروں کی مشابہت اور ان کی نقالی ہے ۔ اس سلسلے میں نبی ﷺ کی ہدایت ملاحظہ فرمائیں۔عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ.(ابوداؤد:4031،قال الشيخ الألباني: حسن صحيح)
ترجمہ: جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی وہ انہیں میں سے ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ اس رسم میں بدترین اورغیرشرعی کام انجام دئے جاتے ہیں جیسے اس رسم میں نوجوان لڑکیوں کے ساتھ گھر اور گاؤں سماج کے نوجوان لڑکے بھی شامل ہوتے ہیں اور محرم وغیرمحرم کی تفریق کے بغیر ایک دوسرے کو ہلدی لگائی جاتی ہے۔ گویا اس میں ایک طرف مرد وزن کا اختلاط ہوتا ہے تو دوسری طرف ایک دوسرے کو ہلدی لگائی جاتی ہے جو شرعی طور پر حرام و ناجائز ہے۔ اسی طرح یہ رسم ایک تقریب کی صورت میں انجام دی جاتی ہے جس میں گانے بجانے کے ساتھ لڑکے لڑکیاں ناچتے گاتے، موج مستی کرتے اور بےہودہ ہنسی مذاق کرتے ہیں۔ جن لڑکیوں کو اجنبی لڑکوں سے پردہ کرنا تھا وہ محفل میں بے پردہ ہوکر فل میک اپ کے ساتھ ناچتی گاتی اور ٹھٹھا مخول کرتی ہیں۔چونکہ آج سوشل میڈیا کا زمانہ ہے، ہرکسی کے ہاتھ میں موبائل ہوتا ہے، یہ مناظر پھر ایک دوسرے کے کیمرے میں قید ہوتے ہیں اور سوشل میڈیا پر مسلمانوں کی جگ ہنسائی کا سامان بنتے ہیں۔

جب آپ اس رسم اور اس میں ہونے والے برے کام  کو شریعت کی روشنی میں دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ایک مسلمان کو کسی بھی صورت میں اپنے گھر ہلدی کی رسم منعقد نہیں کرنا چاہئے  کیونکہ یہ بدترین رسم ہے اور اس میں برے کام کئے جاتے ہیں۔اگر اس کا خاتمہ نہیں کیاگیا رو روزبروز اس میں نئی نئی برائیاں پیدا ہوں گی۔اس وجہ سے  میں یہاں ہر اس مسلمان مرد و عورت کو مخاطب کروں گا جس کے گھر شادی ہوتی ہے وہ اپنے یہاں ہلدی کی رسم نہ ہونے دے۔ گھر والوں کی چاہت سے ہی یہ رسم منائی جاتی ہے اور جس جس کی چاہت سے یہ برا کام ہوگااور اس محفل میں جتنے لوگ برا کام کریں گے، ان سب کی برائی اس محفل کے منعقد کرنے والوں کے حصے میں بھی آئے گی ۔

بہرکیف! آپ اپنے گھر اس رسم کو ہرگز نہ ہونے دیں اور اگر کوئی آپ کو ایسی رسم میں شریک ہونے  کی دعوت دے تو قطعا اس میں شریک نہ ہوں  بلکہ اس رسم کو مٹانے کی کوشش کریں ۔

 

مکمل تحریر >>

آپ کے سوالات اور ان کے جوابات(83)

آپ کے سوالات اور ان کے جوابات(83)

جواب از: شیخ مقبول احمد سلفی حفظہ اللہ

جدہ دعوہ سنٹر، حی السلامہ – سعودی عرب

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

 

سوال: کیا مکہ میں اپنی بلڈنگ سے عمرہ کی نیت کرکے عمرہ کرسکتے ہیں یا میقات جانا ضروری ہے؟

جواب:مکہ میں رہنے والے اپنی بلڈنگ سے عمرہ کی نیت کرکے عمرہ نہیں کر سکتے ہیں، اس کو ہر حال میں حدود حرم سے باہر جانا پڑے گا یعنی کعبۃ اللہ کے چاروں طرف جو حدود حرم ہیں ان سے باہر جانا ہے اور وہاں سے احرام باندھ کر عمرہ کرنا ہے جیسے مسجد عائشہ جائے اور وہاں سے احرام باندھے۔ کسی میقات پر جانے کی ضرورت نہیں ہے، فقط حدود حرم سے باہر جاکر احرام باندھنا ہے۔

سوال: ایک شخص نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی پھر نہ مرد نے شادی کی اور نہ عورت نے۔ بارہ سال بعد پھر ان دونوں کا نکاح ہو گیا، کیا یہ درست ہے یا وہ عورت حرام تھی اس مرد پر؟

جواب:جب شوہر اپنی بیوی کو ایک طلاق دیتا ہے اور تین حیض کی عدت میں رجوع نہیں کرتا ہے تو اس سے میاں بیوی کے درمیان جدائی ہو جاتی ہے یعنی ایک دوسرے کے لیے غیر محرم ہو جاتے ہیں لیکن جب یہ دونوں پھر سے شرعی طور پر نکاح کریں تو پھر سے میاں بیوی ہو سکتے ہیں۔ اور جیساکہ ذکر کیا گیا ہے کہ بارہ سال بعد دونوں کا نکاح ہوا ہے تو یہ بالکل درست ہے۔ اب یہ دونوں پھر سے میاں بیوی ہو گئے ہیں۔ میاں بیوی کا یہ رشتہ نکاح کی وجہ سے ہوا، اگر نکاح نہ کیا جاتا تو آپس میں ایک دوسرے کے لئے غیر محرم ہی رہتے۔

یاد رہے کہ پہلی یا دوسری طلاق کے بعدجب زوجین میں جدائی ہوجائے تو سابق شوہر اپنی سابقہ بیوی سے نکاح کرسکتا ہے لیکن جب تیسری طلاق ہو جائے تو اس کے بعد نکاح نہیں ہوگا الا یہ کہ کوئی دوسرا مرد اس عورت سے شادی کرے اور دخول کے بعد جدائی ہو جائے تو پھر یہ عورت اپنے پہلے شوہر سے نکاح کرسکتی ہے۔

سوال:میں ایک گیارہ سال کے لڑکے کو قرآن پڑھا رہی ہوں جو بلوغت کے قریب ہے لیکن ابھی بالغ نہیں ہوا ہے تو کیا اسے پڑھانا جائز ہے؟

جواب:تعلیم دینے میں اصل یہ ہے کہ عورت لڑکیوں اور عورتوں کو تعلیم دے اور مرد لڑکے اور مردوں کو تعلیم دے تاہم ضرورت کے وقت عورت شرعی حدود میں رہتے ہوئے لڑکوں کو بھی تعلیم دے سکتی ہے۔

اس دور میں گیارہ سال کا لڑکا بہت زیادہ سمجھدار ہوتا ہے، یہ بات دھیان میں رہے اور یہ بھی دھیان میں رہے کہ عورت کو مردوں کے ساتھ خلوت سے منع کیا گیا ہے یعنی ایک عورت اور ایک مرد تنہائی میں نہیں رہ سکتے چاہے تعلیم کی غرض سے ہی کیوں نہ ہو لہذا اس لڑکے کے ساتھ کوئی اور بھی ہو یا دوسرے لڑکے ہوں تو ٹھیک ہے، ورنہ اکیلے لڑکے کو پڑھانے سے پرہیز کرے۔

سوال: آج کل انڈیا میں جو نوجوان بگاڑ کے شکار ہورہے ہیں ان کے والدین کیا کرسکتے ہیں تاکہ وہ اولاد نیکی کی طرف آجائیں؟

جواب:ماحول کیسا بھی ہو اور کوئی بھی جگہ ہو، والدین کو اپنی اولاد کی اسلامی تربیت کرنی ہے۔ بچپن سے بلوغت اور شادی ہونے تک مکمل ذمہ داری کے ساتھ  اسلامی تعلیم و تربیت دیتے رہیں گے۔ جن بچوں کو ان کے والدین دینی تعلیم دیں اور دینی تربیت کریں وہ بچے ہرقسم کے ماحول میں محفوظ رہیں گے۔بچے اس لئے بگڑتے ہیں کہ ہم ان کو انگریزی تعلیم تو دلادیتے ہیں مگر دین نہیں سکھاتے اور دینی تربیت اور دینی ماحول نہیں دیتے۔ شروع دن سے ہی بچوں کے لئے اسلامی تعلیم کا اہتمام کریں، بچوں کو بالکل نگرانی میں رکھیں، بری جگہوں ، برے ساتھیوں اور غلط چیزوں کی چھوٹ نہ دیں۔ نیز بچپن سے نماز کا عادی بنائیں، ذکر واذکاراور تلاوت کی عادت ڈالیں خصوصا سونے جاگنے اور صبح وشام کے اذکار روزانہ پڑھاکرے۔ ساتھ ہی گھرکاماحول اچھابنائیں، خود والدین بھی بچوں کے لئے بہترین نمونہ بنیں اور موبائل سے بچپن میں جس قدر دور رکھ سکیں ، دور رکھیں کیونکہ اس سے بچے جس قدر جلدی بگڑتے ہیں اتنی جلدی برے ماحول یا بری صحبت سے بھی نہیں بگڑتے ۔

سوال: جو ہمارے پرانے کپڑے خراب ہوجاتے ہیں ان کو گھرکی صفائی وغیرہ کے لیے استعمال کرسکتے ہیں؟

جواب:پرانے کپڑوں سے گھر کی صفائی کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ یہ کوئی متبرک چیز تو نہیں ہے جس کو ہم حفاظت سے رکھیں گے۔ کپڑا پہننے اور استعمال کرنے کی چیز ہے۔ بہت قسم کے نئے کپڑوں یا نت نئی چیزوں سے کچن، برتن اور گھر صاف کرتے ہیں۔ اسی طرح پرانے کپڑوں سے بھی گھر صاف کر سکتے ہیں۔

سوال: جب ہم وضو کرتے ہیں اور ہم اپنا چہرہ دھوتے ہیں تب اس درمیان اگر ہم بے دھیانی میں اپنی ناک میں پھر سے انگلی ڈال کر صفائی کرنے لگیں یاکوئی اور وضو کا حصہ ملنا شروع ہوکردیں تب کیا ہمیں اپنا وضو پھر سےدہرانا پڑے گا؟

جواب:وضو میں   اعضائے وضو کو دھلتے ہوئے ترتیب کا خیال رکھیں اور ترتیب سے اعضائے وضو کر دھلیں۔ وضومیں کسی حصے کو تین بار سے زیادہ نہیں دھلا جائے گا۔ نیز وضو کرتے ہوئے پھر سے ان اعضاء کو نہیں دھلنا ہے جن کو پہلے دھل چکے ہیں مثلا کلی کرکے ہاتھ دھل رہے ہیں تو پھر سے کلی نہیں کرنے لگیں گے۔ بےدھیانی میں ایسا کربیٹھے تو کوئی مسئلہ نہیں ہے تاہم وضو عبادت ہے اس کا خیال کرکے اچھی طرح وضو کریں۔ اس پر بہت اجر ملتا ہے۔

سوال: کیا جمعہ مبارک کہنا جائز ہے ۔ ہم دیکھتے ہیں کہ حنفی لوگ  دعا اور خوشی کے طورپر"جمعہ مبارک" کہنے کو جائز مانتے ہیں نیزیہ بھی کہتے ہیں کہ اسے دین کا مستقل عمل یا ضروری چیز نہ سمجھا جائے؟

جواب:حنفی علماء جمعہ مبارک کہنے کو جائز قرار دیتے ہیں، انہی علماء کے فتوی کی وجہ سے لوگوں نے اس عمل کو معمول بنا رکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ ہر جمعہ نوجوانوں میں ایک دوسرے کو جمعہ مبارک کہتے ہوئے دیکھتے ہوں گے۔

حقیقت یہ ہے کہ جمعہ افضل اور مبارک دن ہے مگر اس دن کی مبارک بادی دینے کی شریعت میں کوئی دلیل نہیں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے زمانے والوں کو سب سے بہترین لوگ قرار دیا ہے مگر ان لوگوں نے بھی کبھی ایک دوسرے کو جمعہ مبارک نہیں کہا ہے جبکہ ان لوگوں کا بھی ہر ہفتہ، جمعہ سے سابقہ پڑتا ہوگا، پھر کسی کے لئے جمعہ مبارک کہنے کا جواز کیسے نکل سکتا ہے۔جب ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ شریعت میں جمعہ مبارک کہنے کی دلیل نہیں ہے تو پھر کسی کو جمعہ مبارک نہیں کہنا چاہیے۔

سوال: ٹخنے صرف نماز میں ننگے رکھنے چاہیے یا ہر وقت مردوں کے ٹخنے ننگے ہونے چاہیے جس کے لئے احادیث میں وعید آئی ہے؟

جواب:مردوں کو اپنا ٹخنہ ہمیشہ کھلا رکھنا ہے، یہ نماز کے ساتھ خاص نہیں ہے بلکہ ہمہ وقت کے لئے ہے کیونکہ ایسی کوئی دلیل نہیں ہے کہ نماز میں ٹخنہ کھلا رکھنا ہے اور نماز کے باہر ڈھک سکتے ہیں۔ اس بارے میں جو حدیث ہے وہ عام ہے اور تمام اوقات کو شامل ہے۔

سوال: شرکیہ نذر کا کیا کفارہ ہے؟

جواب: شرک ایک بڑا گناہ ہے، کوئی شرک سے متعلق نذر مان لے تو اس کو پورا نہ کرے کیونکہ شرک بڑا گناہ ہے یعنی اس شرکیہ عمل کوچھوڑ دے اور  اس گناہ سے سچے دل سے توبہ کرے اور آئندہ اس طرح کی نذر نہ مانے، یہی اس کا کفارہ ہے۔

سوال: کسی بہن نے چالیس روزے رکھنے کی نذر مانی تھی جسے اب وہ رکھ نہیں پا رہی ہے تو وہ اس کے لئے کیا کفارہ ادا کرے؟

جواب:ایسی بہن کو پہلے آپ سمجھائیں کہ نذر ماننے سے کچھ نہیں ہوتا لیکن اگر نذر مان لی جائے تو اس کا پورا کرنا واجب ہوجاتا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ عورتیں نذر ماننے میں جلد باز ہوتی ہیں ، نذر ماننے کے بعد سوچتی ہیں کہ اس پر عمل کرنا مشکل ہے، اس کو پہلے ہی سوچنا چاہئے کہ وہ کیا کرسکتی ہے یا نہیں کرسکتی ہے۔ جب پوری کوشش کے باوجود نذر کا پورا کرنا مشکل ہو تو قسم کا کفارہ ادا کردے نذر پوری ہوجائے گی لیکن نذر پوری کرنے کی طاقت ہو تو ہرحال میں نذر پوری کرنی ہے، نبی ﷺ کا فرمان ہے :

كفارةُ النذرِ كفارةُ اليمينِ(صحيح مسلم:1645)

ترجمہ: نذر کا کفارہ وہی ہے جو قسم کا کفارہ ہے۔

سوال: میرے خاندان میں کسی کا نکاح ہے جو امارات میں رہتا ہے اور ان کی منگیتر انڈیا میں رہتی ہے۔ ہوا یہ ہے کہ لڑکی کو امارات نکاح کے بعد لے جانے کے لئے کاغذی کاروائی کرنی تھی اس لئے اس نے نکاح سے پہلے لیگل میریج کیا تاکہ ویزا وغیرہ بناسکے تو ایسا کرنا جائز ہے اور اس کے بعد دونوں ایک دوسرے کے لئے محرم ہوئے یا نکاح کے بعد ہوں گے؟

جواب:جس لڑکا نے محض ویزا لینے اور لڑکی کو اپنے پاس بلانے کے لئے کاغذی نکاح کیا ہے یہ انتہائی غلط کام ہے، یہ ایک طرف شریعت کے ساتھ کھلواڑ ہے تو دوسری طرف دو ممالک(انڈیا اور امارات) کے ساتھ دھوکہ بھی ہے کیونکہ اس نے تو نکاح کیا نہیں ہےمگر فرضی سرٹیفیکیٹ بنالیا جبکہ حکومت کی نظر میں وہ کاغذ کے ذریعہ خود کو نکاح والا بناکر پیش کررہا ہے۔  اس سے نکاح تو نہیں ہوا اور نہ لڑکی اس سے اس کی بیوی یا محرم ہوجائے گی لیکن اس سے گناہ ملے گا۔ وہ اللہ تعالی سے توبہ کرے۔

نکاح کا شریعت نے ہمیں ایک نظام اور طریقہ دیا ہے اسی طریقے سے نکاح ہوتا ہے۔ شرعی طور پر نکاح نہیں کرنے سے نکاح نہیں ہوتا ہے۔لڑکے کو شادی کرنا تھا تو انڈیا آکر شادی کر لیتا پھر بیوی کو اپنے ساتھ لے کے باہر جاتا یا اتنی جلدی بازی تھی تو آنلائن شرعی طور پر نکاح کرلیتا پھر کاغذات بناتا تاکہ کاغذات جھوٹے نہ ہوتے۔

بہرکیف! جھوٹے کاغذات بنانے سے نکاح نہیں ہوتا ہے، شرعی طور پر نکاح کرنے سے لڑکی حلال ہوتی ہے اور جب تک نکاح نہ ہواس لڑکی سے بلاضرورت بات چیت، اس سے خلوت ، اس کے ساتھ گھوم کھام اور تنہائی جائز نہیں ہے کیونکہ وہ اس کے حق میں  نکاح سے پہلے اجنبی ہے۔

سوال: میں اپنی بیٹی کے لئے رشتہ دیکھ رہی ہوں تو مجھے کسی نے کہا کہ اس پہ بندش ہوئی ہے اور اس بندش کو دور کرنے کے لے دم کرنا ہوگا اور وہ بھی فیس پہ بھاری رقم کے ذریعہ  مگر میرا دل نہیں مانتا۔ اللہ کے کاموں میں کیسے بندش ہو گی۔ ہرکام کا ایک وقت لکھا ہوا ہے۔میں روز سورہ البقرۃ کی تلاوت سنتی ہوں بلکہ میری بیٹیاں بھی سنتی ہیں۔ساتھ رقیہ شرعیہ بھی کرتے ہیں۔ آپ بتایئے کہ کیا یہ بندش ہوتی ہے؟

جواب:جس بندے نے یا بتایا کہ تمہاری لڑکی پر بندش ہے ، فیس کے ساتھ رقیہ کروانا پڑے گا ، وہ بندہ مال کمانے والا پیشہ ور عامل ہے۔ ایسے آدمی کی بات پر ہرگز یقین نہ کریں اور نہ اس سے کسی قسم کا رقیہ کروائیں۔ اصل معاملہ یہ ہے کہ جو بھی پیشہ ور عامل ہوتا ہے وہ لوگوں سے مال کمانے کے بہانے تلاش کرتا رہتا ہے اور جب بھی کوئی اس کے پاس  کسی پریشانی کو لے کر جائے  گاتو ہرکسی کو  یہی کہے گا کہ تم پرآسیب، سحراور جادو  کا اثر ہے تاکہ وہ اس سے جھاڑپھونک کرائے اور مال کمائے۔ کمزور ایمان والے سحر وآسیب کے نام سےفورا ڈر جاتے ہیں اور عامل کے فریب میں آجاتے ہیں۔

اس عورت سے کہیں کہ آپ اپنی بیٹی کا رشتہ تلاش کرتے رہیں اور دین کی بنیاد پر دین دار لڑکے سے بیٹی کا نکاح کریں۔ دنیا داری کو معیار نہیں بنائیں بلکہ دین کو معیار بنائیں اور اگر دین داری کہیں نظر آجائے تو اپنی بیٹی کا نکاح کر دیں بھلے لڑکا غریب ہی کیوں نہ ہو۔یاد رکھیں سورہ بقرہ سننے سے یا رقیہ کرنے سے رشتہ نہیں ملتا ہے، رشتہ تلاش کرنے سے ملتا ہے اور آج کے زمانے میں لڑکیوں کا رشتہ بہت مشکل سے ملتا ہے، اس کی بہت ساری وجوہات ہیں مگر ان  میں جادو اور بندش کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ لوگوں نے خود ہی مسئلہ پیدا کیا ہے۔

سوال: بیٹے کا نام بالاج رکھ سکتے ہیں؟

جواب:میرے علم میں بالاج کوئی لفظ نہیں ہے،  یہ انٹرنیٹ کے ذریعہ لوگوں میں پھیلایا ہوا غلط لفظ ہے جو لوگوں میں مشہور ہو گیا ہے۔ اس لفظ کی کوئی حقیقت نہیں ہے اس لئے اپنے بیٹے کا نام بالاج مت رکھیں۔

سوال: حرام پیسوں سے خریدا ہوا کھانا اپنے گھر والوں میں سے کسی کے لئے کھانا جائز ہے یا اس سے پرہیز کرنا چاہئے؟

جواب:حرام پیسوں سے خریدا ہوا کھانا کسی کو نہیں کھانا چاہئے، نہ خود کھائیں اور نہ ہی گھر کے کسی فرد کو کھانے دیں۔جو کوئی آپ کوایسا کھانا دے اس سے یہ کھانا قبول ہی نہیں کرنا چاہئے۔ واپس کردینا چاہئے۔یاد رہے کہ صرف شک کی بنیاد پر کسی کھانے کو حرام کا کھانا نہیں کہہ سکتے ہیں جب تک کہ آپ کے پاس اس کے بارے میں ٹھوس اور یقینی علم نہ ہو۔

سوال: ایک خاتون کا بیٹا بلڈنگ سے گر کر وفات پاگیا اس لئے  کہ اس میں گریل نہیں لگی تھی۔ یہاں پر بلڈر کی غلطی تھی اس بناپر بلڈر نے ہرجانہ کے طور پر کچھ رقم دیا ہے تو کیا اس پیسے کو استعمال کرنا جائز ہوگا؟

جواب:موت تو اپنے وقت پر آتی ہے مگر ہمیں جوکھم لینے، بداحتیاطی کرنے اور خود کو نقصان پہنچانے سے اسلام نے منع کیا ہے۔ خطرہ میں قدم ڈالنے سے انسان کو نقصان پہنچتا ہے ، یہاں بھی مکان میں گریل نہ ہونے سے خطرہ ہے اسی سے بچے کو نقصان پہنچا ہے۔ مکان مالک نے تعاون  اور ہرجانہ کے طور پر کچھ پیسہ دیا ہے تو اس کے لینے میں حرج نہیں ہے، یہ پیسہ لیا جاسکتا ہے اور اس کو استعمال کیا جاسکتا ہے۔

سوال: بچیاں اپنا حفظ کسی مرد حافظ کو سنا سکتی ہیں  یا بچیوں کے  حفظ کرنے کے لئے عورت کا ہونا ضروری ہے؟

جواب:اصل یہی ہے کہ لڑکیوں کو عورت سے ہی تعلیم لینی چاہیے اور معلمہ کو ہی اپنے اسباق سنانا چاہیے۔ جو بچی قرآن حفظ کر رہی ہے اس کے لیے افضل وبہتر یہی ہے کہ وہ کسی خاتون کو اپنا  حفظ قرآن سنائے۔ ویسے بھی زمانہ پرفتن ہے، احتیاط کرنا زیادہ بہتر ہے۔

قرآن کی تعلیم میں تجوید، مخارج اور آواز کو بہتر بنایا جاتا ہے جبکہ قرآن میں اللہ تعالی نے عورتوں سے کہا ہے کہ تم اپنی آواز میں لچک پیدا کرکے بات نہ کرو۔ اس وجہ سے بھی مرد کو قرآن سنانا درست نہیں ہے۔

الحمدللہ یہ ترقی یافتہ زمانہ ہے، اس وقت تعلیمی اعتبار سے بہت ساری سہولیات آنلائن بھی میسر ہیں لہذا اگر قرب و جوار میں کوئی معلمہ نہ ہو تو واٹس ایپ یا دوسرے اپلیکیشنز کے ذریعہ بچیاں کسی خاتون کو سبق سنا سکتی ہیں۔  بوقت ضرورت بچیاں احتیاط کے ساتھ مرد حافظ کے پاس بھی سبق سناسکتی ہے۔

سوال: وضو کی بعد ناخن کاٹنے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے؟

جواب: شاید لوگوں میں یہ غلط فہمی پھیلی ہوئی ہے کہ وضو کی حالت میں ناخن نہیں کاٹ سکتے ہیں اس وجہ سے یہ سوال عام لوگوں کی طرف سےبارہا کیا جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ وضو کی حالت میں ناخن کاٹنے میں کوئی حرج نہیں ہے اور اس سے وضو نہیں ٹوٹتا ہے۔

سوال: اگر کسی لڑکی کا نکاح ہوا اور مہر بھی مقرر ہو چکا لیکن رخصتی ابھی نہیں ہوئی اور لڑکی رخصتی سے پہلے خلع کا مطالبہ کرتی ہے تو جو کچھ مہر ادا ہو چکا  ہےاور تحفے تحائف دئے گئے ہیں۔ اب لڑکی اس میں سے کچھ رکھنے کی حقدار ہے یا نہیں؟

جواب: خلع مالی عوض کے ذریعہ شوہر سے جدائی حاصل کرنے کا نام ہے۔ اس وجہ سے خلع میں بیوی مال پیش کرکے خلع حاصل کرتی ہے۔ شوہر نے مہر دیدیا ہے تو اسے واپس کرکے خلع لے سکتی ہے ۔ اگر شوہر خلع کے لئے پورا مہر مانگے تو پورا لوٹانا ہے اور اگر اس میں سے کچھ چھوڑدے تو جس پر اتفاق ہوا ہے وہ مال شوہر کو واپس کرے۔ جہاں تک مہر کے علاوہ  دوسرے ہدیہ اور تحفہ کی بات کی ہے تو کسی کو تحفہ دینے سے وہ اس کا ہوجاتا ہے جسے دیا جاتا ہے۔ اس میں سے کبھی بھی تحفہ دینے والا مطالبہ نہیں کر سکتا ہے۔ شادی کے موقع پر رسمی طور پربھی بہت ساری چیزیں دی جاتی ہیں لہذا جدائی کے موقع پر عرف کا خیال کرکے لوٹانے والی چیز لوٹادینی چاہئے۔

سوال: کیا حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مولی علی کہنا درست ہے؟

جواب:عربی زبان میں مولی کے کئی معانی ہیں، ان میں مالک، سردار، آقا، غلام، کارساز، محبت کرنے والا ، رشتہ دار اور ساتھی وغیرہ ہیں۔

اوپر آپ نے مولی کے کئی معانی دیکھے ہیں، ان معانی پر غور کیا جائے تو اللہ بھی مولی ہے اور اللہ کے علاوہ دوسروں کو بھی مولی کہا جاسکتا ہے۔

قرآن میں اللہ تعالی نے اپنے لئے مولی کا لفظ ذکر کیا ہے چنانچہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:

وَإِن تَوَلَّوْا فَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ مَوْلَاكُمْ ۚ نِعْمَ الْمَوْلَىٰ وَنِعْمَ النَّصِيرُ (الانفال:40)

ترجمہ:اور اگر روگردانی کریں تو یقین رکھیں کہ اللہ تعالیٰ تمہارا کارساز ہے، وہ بہت اچھا کارساز ہے اور بہت اچھا مددگار۔

یہاں اس آیت میں مولی  کارساز کے معنی میں ہے، گویا اصل مولی تو اللہ ہی ہے کیونکہ وہی مالک حقیقی اور کارساز ہے اس معنی کے لحاظ سے اللہ کے علاوہ کسی اور کے لئے مولی کا لفظ استعمال کرنا جائز نہیں ہے۔

اور چونکہ مولی کے دوسرے معنی محبت کرنے والا اور دوست و رشتہ دار وغیرہ کے بھی ہیں لہذا اس دوسرے معنی کا اعتبار کرکے اللہ کے علاوہ دوسروں کو بھی مولی کہا جاسکتا ہے۔ اسی دوسرے معنی کا اعتبار کرکے نبی ﷺ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں مولی کہا ہے۔ ابوسریحہ یا زید بن ارقم رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ(سنن الترمذي:3713)

ترجمہ: جس کا میں دوست ہوں علی بھی اس کے دوست ہیں۔

اس حدیث کی روشنی میں مولی علی کہنا بالکل درست ہے مگر یہاں پر ایک اشکال ہے اس کو، عوام کے لئے جاننا ضروری ہے۔  اشکال یہ ہے کہ عام طور پر شیعہ علی رضی اللہ عنہ کو مولی علی کہتے ہیں اور شیعہ علی کے بارے میں یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ وہ مشکل کشا ہیں جبکہ یہ شرکیہ عقیدہ ہے اور مختار و مشکل کشا کا اعتبار کرکے حضرت علی کو مولی علی کہنا غلط ہی نہیں ہوگا بلکہ ایسا کہنا شرک کہلائے گا جیساکہ میں نے اوپر بتایا ہے کہ اصل مولی تو اللہ تعالی ہے۔

دوست کے معنی میں مولی علی کہہ سکتے ہیں بلکہ سارے صحابہ اور سارے مومنوں کو مولی کہہ سکتے ہیں۔ یہ لفظ صرف حضرت علی کے لئے خاص نہیں ہے اس لئے جہاں مولی علی کہہ سکتے ہیں ، وہیں مولی ابوبکر، مولی عمر اور مولی عثمان  بھی کہہ سکتے ہیں اور اسی معنی کا اعتبار کرکے عالموں کو بھی مولانا کہا جاتا ہے۔ ایسا کہنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

سوال: ایک لڑکی ہسپتال میں نوکری کرتی ہے  اور دو بجے کے قریب گھر آتی ہے، اسے دو سے پانچ بجے شام تک سونا رہتا ہے۔ اس دوران عصر کی نماز رہ جاتی ہے تو کیا وہ عصر کی نماز جمع کرکے پڑھ سکتی ہے؟

جواب: نماز کا وقت اللہ کی طرف سے متعین ہے، اس وقت کو کوئی بدل نہیں سکتا ہے۔ ہمیں اپنے کام  یا اس کا وقت  بدلنے کی ضرورت ہے مگر نمازہرحال میں  اپنے وقت پر ہی ادا کرنا ہے۔ کسی دن عذر لاحق ہوجائے اور کوئی نماز قضا ہو جائے تو دوسرے وقت میں اس کو ادا کرلیں گےجیسے کسی دن گھرلوٹتے ہوئےنماز عصرچھوٹ جائے تو مغرب کے وقت اسے ادا کرلیں  مگر ہمیشہ نمازعصر کو اپنے کام کی وجہ سے چھوڑ کر اور سوئے رہ کر مغرب کے وقت  پڑھنا جائز نہیں ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ہر نماز کا اول و آخر وقت  ہوتاہے۔ اگر نوکری کرنے والی خاتون عصر کو اول وقت پر ادا نہیں کرسکتی ہے تو مغرب سے پہلے پہلے ادا کرنا جائز ہے کیونکہ عصر کا وقت سورج ڈوبنے سے پہلے تک ہے اور عورتوں کے لئے جماعت کی پابندی نہیں ہے۔ گوکہ اول وقت پر نماز افضل ہے تاہم مغرب سے پہلے وہ عصر پڑھ سکتی ہے۔

سوال: سسرال والے شادی کے لئے چہرے کا پردہ چھوڑنے کا کہیں تو ایک ایسی لڑکی جو کہ پہلے ہی چھتیس سال کی ہو چکی ہے وہ ان کی یہ بات مان کر ایسا کر لے؟

جواب:اللہ کی نافرمانی میں مخلوق کی بات ماننا جائز نہیں ہے۔ لڑکی کی عمر جس قدر بھی ہوگئی ہو مگر اس قسم کی شرط پر شادی کرنا جائز نہیں ہے۔ لڑکی کو لڑکے سے شادی کرنا ہے، سسرال والوں کا اس میں کوئی دخل نہیں ہونا چاہئے اس کے لئے لڑکی اپنے محرم کے ذریعہ منگیتر سے ٹھوس بات کرے۔ اگر منگیتر بھی بے پردے رہنے  کے لئے مصر ہے تو وہ بے غیرت مرد ہے اس کو حدیث میں دیوث کہا گیا ہے یعنی ایسا مرد جو گھر کی عورت کی بے پردگی اور بے حیائی پر خاموش رہے وہ دیوث ہے اور دیوث پر اللہ کی لعنت ہے، ایسے دیوث سے لڑکی شادی نہ کرے۔ شادی کوئی مشکل  معاملہ نہیں ہے، ذرا اپنے دنیاوی معیار سے نیچے اتر کر شادی کریں ہزاروں لڑکے ملیں گے مگر لوگ برادری ، دنیاداری اور امیر و غریب کے چکر میں پریشان ہوتے ہیں۔

سوال: ایک بہن جب بھی نفلی عمرہ کرنے جاتی ہے تو وہ اس عمرے میں اپنی طرف سے نیت کرتی ہے اور ساتھ ہی اپنے جو رشتے دار فوت ہوچکے ہیں ان کی طرف سے بھی نیت کرتی ہے۔ کیا ایک نفلی عمرہ میں کئی لوگوں کی طرف سے نیت کی جا سکتی ہے؟

جواب: پہلی بات یہ ہے کہ ایک بار میں یعنی ایک عمرہ میں ایک ہی آدمی کی طرف سے عمرہ کیا جائے گا ۔ دوسری بات یہ ہے کہ اس عورت کو چاہئے کہ جب اسے عمرہ کرنے کا موقع ملے  توصرف اپنی جانب سے عمرہ کرے، کسی اور کی طرف سے عمرہ نہ کرے۔ ہر کسی میت کی طرف سے عمرہ کرنے کی قرآن و حدیث میں دلیل نہیں ہے۔ جو وفات پاگیا اس کی دنیاوی مہلت ختم ہوگئی، جو زندہ آدمی ہے، وہ خود نیکی کے لئے محتاج ہے ، زندہ کو چاہئے اپنے لئے جتنی نیکی کرسکے ،کرنے کی کوشش کرے۔ آخرت میں جہنم میں جانے والے اس دنیا میں دوبارہ آنے کی اللہ سے درخواست کریں گے تاکہ دوبارہ دنیا میں جاکر نیک عمل کریں۔ اس سے ہمیں  سبق ملتا ہے کہ ہمیں دنیا ملی ہے تو اس کو غنیمت جان کر اپنے لئے کثرت سے نیکی کریں۔ میت کے لئے جس قدر چاہیں دعائے استغفار کریں، یہی کافی ہے۔ہاں اگر والدین یا ان میں سے کوئی فوت ہوگئے ہوں اور وہ عمرہ نہ کئے ہوں تو ان کی طرف سے ایک بار عمرہ کرلیں مگر ہرکسی کی طرف سے یا اپنے ایک  عمرہ میں دوسرے کی نیت نہ کریں۔

سوال: یابدیع( اے بغیر ذریعہ پیداکرنے والے)۔ کوئی غم یا مصیبت یا کوئی مہم درپیش ہو تو بارہ روز تک بعد نماز عشاء بارہ سو مرتبہ " یا بدیع العجائب بالخیر یا بدیع" پڑھے تو بارہ دن کے اندر تمام مقاصد میں کامیابی حاصل ہوگی۔ یہ ایک وظیفہ ہے ، سوال یہ ہے کہ جو بارہ یا اکیس دن والے وظائف ہوتے ہیں وہ چاند کی چڑھتی تاریخ سے یا گھٹتی تاریخ سے شروع کرنا چاہئے؟

جواب:پہلی بات یہ ہے کہ یہ وظیفہ قرآن وحدیث میں موجود نہیں ہے، یہ کسی بدعتی نے اپنی جانب سے گھڑ لیا ہے۔آپ یہ سمجھ لیں کہ دین وہی ہے جو قرآن اور حدیث میں موجود ہے ، جو قرآن وحدیث میں موجود نہیں وہ دین نہیں ہے لہذا یہ گھڑا ہوا وظیفہ بے دینی اور دین میں اضافہ ہے جسے بدعت کہتے ہیں ۔ نبی ﷺ نے بدعت کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ ہربدعت گمراہی ہے اور ہرگمراہی جہنم میں لے جانے والی ہے۔ اس قسم کے جتنے وظائف ہوتے ہیں جیسے یاودود اتنی بار پڑھو، یا قوی اتنی بار پڑھو، یا نور اتنی بار پڑھو۔۔ یہ سب بدعتی وظیفے ہیں۔ بدعتی وظیفہ پر عمل کرنے سے کوئی کام تو نہیں بنے گا ، دل کو جھوٹی تسلی ملے گی مگر یہ یقین ہے کہ گناہ ضرور ملے گا کیونکہ بدعت پر عمل کرنا گناہ کا کام ہے۔ آپ وہی ذکر کریں جو رسول اللہ ﷺ نے سکھایا ہے اور اسی طرح ذکر کریں جیسے نبوی تعلیم ہے۔ نبوی تعلیم سے ہٹ کر کوئی ذکر نہ کریں۔

سوال: ایک لڑکی کو حیض ختم ہونے کے بعد سفید ڈسچارج نہیں آتا بلکہ پیلا ڈسچارج آتا ہے اور تقریبا پندرہ دنوں تک رہتا ہےاور پھر عام دنوں میں بھی پیلا ڈسچارج آتا رہتاہے تو کیا حیض کے بعد وہ اس پیلے ڈسچارج کو پاکی سمجھ کرغسل کرسکتی ہے؟

جواب: ہر عورت کو ایک متعین وقت پر عادت کے مطابق، متعین دنوں کے لئے مخصوص صفات کے ساتھ ہرماہ حیض آتا ہے۔ عام طور پر حیض کو تین صفات سے پہچان سکتے ہیں۔ حیض کا خون گاڑھا، اس میں بدبو اور رنگت سیاہی مائل ہوتی ہے۔ ان صفات کے ساتھ اس خاتون کو جتنے دنوں تک خون آئے حیض شمار کرے اور جب خشکی حاصل ہو یا سفید پانی کا اخراج ہواس وقت غسل کرکے نماز کی پابندی کرے۔ سوال میں مذکور ہے کہ حیض کے بعد اس خاتون کو پیلے رنگ کا ڈسچارج ہوتا ہے جو عام دنوں میں بھی رہتا ہے اس وجہ سے یہ ڈسچارج حیض میں شمار نہیں ہوگا، جب حیض کے ایام ختم ہوجائیں اور پیلا ڈسچارج ہونے لگےتو وہ پاکی کے لئے غسل کرلے نماز ادا کیا کرے۔

سوال: میں ایک آرٹ ٹیچر ہوں ، مجھے جانوروں کے کارٹون کی تصاویر بنانی پڑتی ہیں تو کیا اس سے گناہ ملے گا؟

جواب: اسلام میں جاندار کی تصویر کشی حرام ہے، اس وجہ سے جانوروں کی تصاویر یا جانوروں کے کارٹون بنانا جائز نہیں ہے۔ ایسا کرنے سے گناہ ملے گا اور اس کی کمائی بھی حرام ہوگی لہذا اس عمل کو چھوڑ دیں اور حلال روزی تلاش کریں۔ یہاں پر آپ کو دو قسم کا نقصان ہورہا ہے، ایک جاندار کی تصویربنانے کا گناہ اور دوسرا نقصان اس کی کمائی حرام ہے۔ حرام کمائی سے گھر، جسم ، عبادت اور زندگی سب متاثر ہوتے ہیں۔

سوال: کیا نکاح کے بعد بیوی شرک کرے تو اس کا نکاح ٹوٹ جاتا ہے اور کیا توبہ و کلمہ پڑھ لیں تو کفارہ ہوجائے گا یا پھر سے نکاح کرنا پڑے گا؟

جواب: شرک سب سے بھاری گناہ ہے، اس گناہ سے اللہ سخت ناراض ہوتا ہے لیکن اگر کوئی عورت نکاح کے بعد شرک کرلے تو اس سے اس کا نکاح نہیں ٹوٹتا ہے ، نکاح اپنی جگہ باقی رہتا ہے تاہم اس عورت کو چاہئے کہ سچے دل سے اللہ تعالی سے توبہ کرے اور آئندہ کبھی شرک کا ارتکاب نہ کرے۔شرک سارے  نیک اعمال کو ضائع کردیتا ہے اور اس حال میں مرنے پر آخرت میں معافی نہیں ملے گی۔ ہمارا اللہ بہت معاف کرنے والا ہے، جب کسی مسلمان سے شرک ہوجائے اور وہ اللہ سے دنیا میں ہی توبہ کرلے تو اللہ اس کو معاف کردیتا ہے۔

مکمل تحریر >>