Tuesday, April 29, 2025

آپ کے سوالات اور ان کے جوابات(70)

آپ کے سوالات اور ان کے جوابات(70)


جواب از: شیخ مقبول احمد سلفی حفظہ اللہ

جدہ دعوہ سنٹر، حی السلامہ- سعودی عرب


سوال:میری ایک عزیزہ ہےجو تیس اکتیس سال کے قریب ہے اور وہ شادی شدہ ہے، اس کے ساتھ ایک عجیب و غریب واقعہ رونما ہوا ہے۔ رات سونے کے لئے لیٹی تو تھوڑی دیر میں اس کی کیفیت کچھ سونے جاگنے کے درمیان کی رہی اور محسوس ہوا کہ ہاتھ و پیر بالکل بے جان ہوگئے، سینے پر بہت دباؤ محسوس ہورہا تھا۔ اس نے مارے خوف کے چلانا چاہا تو آوازنہیں نکل رہی تھی حتی کہ برابر میں شوہر لیٹا ہوا تھا مگر اس کو جگانے کے لئے بھی حرکت نہیں کرپارہی تھی۔ سامنے کچھ دیر کے لئے ہویلا نظر آیا پھر غائب ہوگیا۔ اسی کے ساتھ آواز بھی نکلی اور جسم میں حرکت بھی آگئی۔ اس کیفیت کو Sleep paralysis کہاجاتا ہے۔ کیا یہ جناتی اور شیطانی حملہ تو نہیں تھا؟

جواب: یہ بات ایک حقیقت ہے کہ بعض دفعہ کسی کو سونے کی حالت میں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس کا بدن بھاری ہوگیا ہے یا وہ حرکت نہیں کرسکتا ہے حتی کہ بول بھی نہیں سکتا، اس کو عربی میں جاثوم یا کابوس کہتے ہیں۔ عربی لغت میں جاثوم کی تعریف یہ کی جاتی ہے کہ وہ نیند کی حالت میں انسان پر واقع ہوتا ہے۔ اسے عام بول چال میں شلل، فالج اور سلیپ پیرالائسس(sleep paralysis) بھی کہتے ہیں۔
نیند میں جو یہ کیفیت ہوتی ہے اس کے مختلف اسباب ہوسکتے ہیں، تھکاوٹ، تناؤ، اعصابی مرض، غذا یادوا کا اثر وغیرہ اور کبھی ممکن ہو شیطان انسان پر تسلط پالے، اس کے سبب جاثوم کی کیفیت محسوس ہو۔ گویا یہ کیفیت کبھی نفسیاتی مرض کے سبب ہوسکتی ہے اور کبھی شیطان کے تسلط کے سبب بھی۔

جب کسی کے ساتھ اس طرح کی کیفیت ہوتی ہے تو وہ بہت زیادہ خوف زدہ ہوجاتا ہے اور پریشان رہنے لگتا ہے۔ ایک مسلمان کو اس طرح کی چیزوں سے قعطا گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے، مسلم ہرحال میں صرف اللہ سے ڈرتا ہے اور اللہ ہی ہرحال میں ہماری حفاظت فرمانے والا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ شیطان ہمیں طرح طرح سے پریشان کرنے کی کوشش کرتا ہے، سوتے وقت بھی ہم پہ حملہ آور ہونے کی کوشش کرتا ہے لیکن جب ہم ایمان و عمل کے اعتبار سے مضبوط ہوتےہیں تو شیطان کا ہمارے اوپر تسلط کمزور ہوتا ہے بلکہ نیک لوگوں سے شیطان دوربھاگتا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ انسان نیند میں ڈراؤنا خواب دیکھتا ہے، یہ بھی شیطان کی طرف سے ہوتا ہے تاکہ انسان کو غمگین کرے لہذا جو احتیاط نبی ﷺ نے ڈراؤنےخواب دیکھنے پر بتایا ہے، یہاں بھی اپنائیں۔ اس سلسلے میں احادیث کی روشنی میں نبوی ارشادات بیان کرتا ہوں۔

(1)جب کبھی مذکورہ بالا کیفیت محسوس ہو تو بائیں طرف تھوتھوکرکے شیطان کے شر سے اللہ کی پناہ طلب کریں۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اچھا خواب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور برا خواب شیطان کی طرف سے ہے اس لیے اگر کوئی برا اور ڈراونا خواب دیکھے تو بائیں طرف تھوتھو کر کے شیطان کے شر سے اللہ کی پناہ مانگے۔ اس عمل سے شیطان اسے کوئی نقصان نہ پہنچا سکے گا۔(صحیح البخاری:3292)

(2)اٹھ کر اور باوضو ہوکر نماز ادا کریں چنانچہ نبی ﷺ فرماتے ہیں: خواب تین طرح کے ہو تے ہیں۔اچھا خواب اللہ کی طرف سے خوش خبری ہوتی ہے۔ ایک خواب شیطان کی طرف سے غمگین کرنے کے لیے ہوتا ہے۔ اور ایک خواب وہ جس میں انسان خود اپنے آپ سے بات کرتا ہے یعنی اس کے اپنے تخیل کی کارفرمائی ہوتی ہے۔ اگر تم میں سے کوئی شخص ناپسندیدہ خواب دیکھے تو کھڑا ہو جا ئے اور نماز پڑھے اور لوگوں کو اس کے بارے میں کچھ نہ بتا ئے۔(صحیح مسلم:2263)

(3)اگر اس وقت نماز نہیں پڑھتے ہیں تو جس پہلو پر لیٹے تھے، وہ پہلو بدل کر سوئیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی شخص ایسا خواب دیکھے جو اسے برا لگے تو تین بار اپنی بائیں جانب تھوکے اور تین بار شیطان سے اللہ کی پناہ مانگے اور جس کروٹ لیٹا ہوا تھا اسے بدل لے۔(صحیح مسلم:2262)

(4) اس میں آخری احتیاط یہ ہے کہ اس طرح کے ڈواؤنے خواب کسی سے نہیں بیان کریں۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی کہ اعرابی (بدوی) نے، جو آپ ﷺ کے پاس آیا تھا، آپ ﷺ سے عرض کی: میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میرا سرکٹ گیا ہے اور میں اس کے پیچھے بھاگ رہا ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ڈانٹا اورفرمایا:نیند کے عالم میں اپنے ساتھ شیطان کے کھیلنے کے بارے میں کسی کو مت بتاؤ۔(صحیح مسلم:2268)

یہ تو وہ احتیاط ہیں جو گھبراہٹ والے خواب یا جاثوم کی کیفیت محسوس ہونے پر انجام دینا چاہئے۔ اس سے پہلے والا عمل یہ ہے کہ اولا ہم اپنا ایمان مضبوط بنائیں، پانچوں وقت رب کی بندگی کریں، نمازوں کے بعد والے اذکار اور صبح و شام کے اذکار پڑھیں، باوضو ہوکر اور سوتے وقت کے اذکار پڑھ کر دائیں پہلو پر سوئیں۔ یقینا اللہ کی مدد حاصل ہوگی اور شیطانی خواب، اس کے مکروفریب اور تسلط سے محفوظ رہیں گے۔

سوال: ایک بچی جدہ سے عمرہ کرنے گئی عمرہ کرنے سے پہلے واش روم گئی تو اس نے لائٹ براؤن ایک دھبہ دیکھا۔ اس قسم کا دھبہ پہلی مرتبہ دیکھا، اس سے پہلے کبھی ایسا نہیں دیکھا تھا۔اس کے بعد اس نے عمرہ کیا اور گھر آگئی۔ اگلے دن عصر کے بعد اس کو حیض شروع ہوا۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس کا عمرہ درست ہے؟

جواب:اس کا عمرہ اپنی جگہ پر درست ہے اور حیض آنے سے پہلے جو کچھ ظاہر ہوا ہے وہ حیض نہیں ہے کیونکہ حیض سے منفصل طور پر وہ خارج ہوا ہے۔ اور جو دھبہ یا خون حیض سے منفصل طور پر حیض سے پہلے آئے یا حیض سے پاک ہونے کے ایک دو دن بعد نظر آئے وہ حیض میں شمار نہیں ہوگا۔

سوال: دعائے ثناء صرف فرض نماز میں پڑھنا ہے یا سنت وغیرہ میں بھی پڑھنا ہے؟

جواب:ہر ایک نماز کی پہلی رکعت میں سب سے پہلے ثنا پڑھیں گے خواہ وہ فرض نماز ہو یا سنت ہو یا نفل ہو۔ اس طرح پانچوں اوقات کی فرض نماز یا فرض نماز سے پہلے یا بعد کی سنت اور اسی طرح نوافل اور تہجد ہر نماز کی پہلی رکعت میں قیام کی حالت میں سب سے پہلے دعائے استفتاح پڑھیں گے پھر تعوذ وبسملہ ہڑھنے کے بعد سورہ فاتحہ پڑھیں گے۔ یہ حکم امام اور مقتدی سبھی کے لئے ہے۔

سوال: مجھے مغرب کے وقت گلابی رنگ کا ڈسچارج آیا تھا پھر وہ ٹرانسپیرنٹ ہوگیا اور میں نے الگ الگ وضو کرکے مغرب و عشاء کی نماز ادا کرلی پھر خشکی رہی۔ اس کے بعد فجر میں باقاعدہ حیض کا خون جاری ہوا تب سے میں نے کوئی نماز نہیں پڑھی۔ پھر حیض سے پاکی کے وقت رات میں سونے سے قبل سرخی دیکھی لیکن فجر میں اٹھنے پر خشکی آگئی تھی اس لئے غسل کرلیا۔ سوال یہ ہے کہ حیض آنے کے وقت پڑھی گئی مغرب و عشاء کی درست تھیں یا انہیں لوٹانا ہے اور پاکی کے وقت فجر کی نماز سے شروع کرنا صحیح تھا؟

جواب:حیض سے متصل جو کچھ بھی ظاہر ہوتا ہے وہ حیض ہی شمار ہوتا ہے اور میں نے پہلے بھی جواب دیا ہے کہ جس وقت سے خون آنا شروع ہوا اسی وقت سے حیض کا مانا جائے گا۔ مغرب اور عشاء کے بعد جس خشکی کی بات کر رہے ہیں وہ بھی حیض ہی ہوگا۔ خون زمین پر نہ گرنے کا مطلب خشکی نہیں ہوتا ہے۔ اگر اندرون شرمگاہ خون کے اثرات ہیں تو وہ بھی حیض ہی ہوتا ہے۔

جہاں تک پاکی کا مسئلہ ہے تو فجر کے وقت جب آپ نے خشکی دیکھی اور غسل کیا یہ عمل درست ہے۔ پاک ہونے پر مغرب کی نماز پھر سے پڑھنی ہے اور پھر موجودہ نماز فجر پڑھنا تھا جو کہ آپ نے صحیح کیا۔

سوال: غسل کے بعد یا غسل سے پہلے میت کا چہرہ دیکھ سکتے ہیں کیونکہ دیکھا جاتا ہے کہ عام طور پر لوگ میت کو دیکھنے کے لئے لائن لگاتے ہیں۔اور بعض دفعہ میت کو سردخانے میں رکھا جاتا ہے اور پھر باہر سے لوگ میت کو دیکھنے کے لئے آتے ہیں اس کا شریعت میں کیا حکم ہے؟

جواب: میت کا چہرہ وفات کے بعد اور دفن سے پہلے کسی بھی وقت دیکھا جاسکتا ہے یعنی میت کا چہرہ وفات کے بعد بھی دیکھ سکتے ہیں، غسل دینے کے بعد بھی دیکھ سکتے ہیں حتی کہ کفن دینے اور نماز جنازہ پڑھنے کے بعد بھی دیکھ سکتے ہیں مگر اس جگہ یہ خیال رہے کہ میت کو دیکھنے میں رسم و رواج سے پرہیز کرنا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ کسی کا انتقال ہوجائے تو جتنی جلدی ہو اسے دفن کردینا چاہیے اور میت کو اس وجہ سے سرد خانے میں رکھنا تاکہ دور دراز سے لوگ آئیں اور میت کا چہرہ دیکھیں، یہ عمل درست نہیں ہے کیونکہ نبی ﷺ نے میت کو جلدی دفن کرنے کا حکم دیا ہے۔ ہاں اگر میت کو سردخانے میں رکھنا کسی خاص ضرورت و مصلحت اور حکومتی کاروائی کے تحت ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔

سوال: کیا میت کا چہرہ دیکھنے میں دیکھنے والوں کے لئے یا میت کے لئے اجر وثواب ہے کیونکہ جو آدمی میت کا چہرہ نہ دیکھ سکے تو لوگ کہتے ہیں کہ اب کیا فائدہ ، ایسے میں دکھ محسوس ہوتا ہے؟

جواب:میت کا چہرہ دیکھنے میں کوئی فضیلت نہیں ہے، نہ دیکھنے والے کے لئے اور نہ میت کے لئے۔ میت کے جنازہ میں شرکت کرنے سے ثواب ملتا ہے۔ ہاں میت کا چہرہ دیکھنا جائز ہے مگر اس میں کوئی اجر و ثواب نہیں ہے اس لئے میت کا چہرہ نہ دیکھنا کوئی افسوس کا سبب نہیں ہے۔
سوال:حیض کے لئے میری عادت سات دنوں کی ہوتی ہے۔ اگر پانچ یا چھ دن میں صاف ہوجائے توکیا نماز پڑھ سکتی ہوں یا سات دن یا نو دن انتظار کرنا ضروری ہے؟

جواب:آپ نے کہا کہ ماہواری کی عادت آپ کو سات دنوں کی ہے۔ اس بارے میں آپ یہ بات یاد رکھیں کہ حیض میں اصل خون آنا ہے یعنی جب تک حیض کا خون آئے گا، تب تک حیض مانا جائے گا اور جب حیض بند ہوجائے گا اس وقت سے غسل کرکے نماز ادا کرنا ہے۔ حیض کی عادت کچھ بھی ہو اس سے کوئی بحث نہیں ہے، اصل خون کا اعتبار ہوگا۔

سوال:ایک پچھہتر سالہ خاتون عدت میں ہے اور وہ سوائے ہسپتال کے اور کہیں نہیں جاتی۔ اس خاتون کے بالکل سامنے والے گھر میں غسل میت کی ورکشاپ منعقد ہو رہی ہے جس میں صرف خواتین شرکت کر رہی ہیں اور معتدہ عرصہ دراز سے میت کو غسل دینے کے احکامات و طریقہ سیکھنا چاہتی ہے۔ وہ پوچھ رہی ہے کہ کیا وہ دس قدم پر واقع اپنی ہمسایہ کے گھر اس درس کی مجلس میں شرکت کرسکتی ہے؟

جواب:عدت میں رہنے والی عورت اپنے پڑوس کے گھر میں منعقد ہونے والی جنازہ سے متعلق علمی ورک شاپ میں شریک ہوسکتی ہے، اس میں کوئی حرج نہیں ہے تاہم وہ عدت میں ہے اس لئے گھر سے نکلتے وقت یا گھر میں رہتے ہوئے زیب و زینت سے پرہیز کرے گی۔

سوال:کیا یہ سب باتیں ثابت ہیں؟

آیت الکرسی: چار مرتبہ پڑھنے سے ایک قرآن پڑھنے کا ثواب (مسند احمد)

سورۃ القدر: چار مرتبہ پڑھنے پر ایک قرآن پڑھنے کا ثواب (مسند احمد)

سورۃ الزلزال: دو مرتبہ پڑھنے پر ایک قرآن پڑھنے کا ثواب (ترمذی)

سورہ التکاثر: ایک مرتبہ پڑھنے پر ہزار آیتوں کے برابر ثواب (مشکوۃ)

سورۃ الکافرون: چار مرتبہ پڑھنے پر ایک قرآن پڑھنے کا ثواب (ترمذی)

سورۃ النصر: چار مرتبہ پڑھنے پر ایک قرآن پڑھنے کا ثواب (ترمذی)

سورۃ الاخلاص: تین مرتبہ پڑھنے پر ایک قرآن پڑھنے کا ثواب (بخاری)

جواب:مسند احمد میں آیۃ الکرسی کو ربع قرآن کہا گیا ہے مگر وہ روایت ضعیف ہے۔

سورہ القدر کے بارے میں آیا ہے کہ یہ ربع قرآن ہے مگر شیخ البانی نے سلسلہ ضعیفہ(5324) میں موضوع کہا ہے۔

سورہ الزلزال کو مسند احمد میں نصف قرآن کہا گیا ہے، یہ روایت ضعیف ہے۔

سورہ التکاثر پڑھنے سے ہزار آیت کے برابر ثواب والی حدیث مستدرک حاکم میں ہے مگر یہ بھی ضعیف ہے۔ شیخ البانی نے اسے ضعیف کہا ہے۔
سورہ کافرون ربع قرآن کے برابر ہے، یہ حدیث صحیح ہے۔

سورہ نصر کو ربع قرآن کہا جاتا ہے مگر یہ ثابت نہیں ہے، شیخ ابن باز نے ضعیف کہا ہے۔

سورہ اخلاص ایک تہائی قرآن کے برابر ہے، یہ بات صحیح حدیث سے ثابت ہے۔

سوال: حیض کی مدت زیادہ سے زیادہ کتنی ہوتی ہے اور کیا پندرہ دن تک اگر کوئی عورت پاک نہیں ہوتی ہے تو یہ سب ایام حیض میں شمار ہوں گے؟

جواب:اگر کسی عورت کو تسلسل کے ساتھ پندرہ دنوں تک حیض کے صفات والا خون آتا ہے تو یہ سب ایام حیض کے ہی مانے جائیں گے البتہ پندرہ دن کے بعد آنے والا خون حیض کا نہیں مانا جائے گا۔ زیادہ سے زیادہ حیض کا خون پندرہ دن تک مانا جاسکتا ہے اس لئے اگر کسی کو اس سے زیادہ خون آئے تو پندرہ دن کے بعد غسل کرکے نماز کی پابندی کرے۔

سوال: آج کل عموما لوگ ڈپازٹ رکھ کر گھر کرایہ پر لیتے ہیں جیسے ساٹھ ہزار ڈپازٹ تو دس ہزار کرایہ ، کیا اس طرح گھر کرایہ پر لینا جائز ہے اور اسی طرح کسی گھومنے والی جگہ پہ جاتے ہیں تو وہاں بھی ایک دو دن کے لئے بنگلہ کرایہ پر لینے سے ڈپازٹ طلب کیا جاتا ہے، کیا یہ طریقہ بھی صحیح ہے؟

جواب:مکان مالک ضرورت اور احتیاط کی بنا پر ڈپازٹ لیتے ہیں تاکہ کرایہ دار کے ذمہ کسی قسم کا پیسہ باقی ہو اور وہ روم چھوڑ کر چلا جائے یا بقایا جمع نہ کرے تو مکان مالک اس ڈپازٹ سے اپنا حق وصول کرلے گا اور بقیہ پیسہ کرایہ دار کو لوٹا دے گا اس وجہ سے مکان مالک کے لئے ڈپازٹ لینے میں کوئی حرج نہیں ہے تاہم ڈپازٹ بہت زیادہ نہ ہو بلکہ عرف و رواج کے مطابق مناسب مقدار میں ہو۔

اسی طرح کوئی مکان مالک مصلحت کی وجہ سے کہیں پر ایک دن یا چند دن کرایہ پر مکان کے لئے بھی ڈپازٹ لیتا ہے تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔ آج کل مختلف قسم کے کرایہ دار ہوتے ہیں اس لئے ضمانت کے طور پر ذپازٹ رکھوانے میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔

سوال: سفر کی نماز سے متعلق کوئی کہتا ہے کہ پندرہ دن قیام کرنے پرپوری نماز ادا کرنی پڑے گی تو کوئی کہتا ہے کہ چار دن سے زیادہ رکنے پر پوری نماز پڑھنا ہے۔ اس مسئلہ صحیح بات کیا ہے یعنی سفر میں کتنے دن کسی شہر میں رکنے پر قصر یا مکمل نماز ادا کرنا ہے؟

جواب: اس مسئلہ میں درست بات یہ ہے کہ جب کوئی کم از کم اسی کلو میٹر یا اس سے زیادہ دوری کا سفر کرے اور وہ وہاں پر چار دن یا اس سے کم رکنے کا ارادہ کرے تو اس صورت میں وہ مسافر کہلائے گا اور اپنی نماز قصر سے ادا کرے گا۔ اور اگر چار دن سے زیادہ رکنے کا ارادہ پہلے سے ہے تو وہ پہلے دن سے ہی مقیم کہلائے گا اور مکمل نماز ادا کرے گا۔ پندرہ دن والی بات اضطراب سے متعلق ہے یعنی کسی کو ایک شہر میں کتنے دن ٹھہرنا ہے یہ طے اور معلوم نہیں ہے تو ایسی صورت اور اضطراب میں پندرہ دن بھی گزر جائیں وہ اپنی نماز قصر سے ادا کرے گا۔

سوال: کیا اہل حدیث لڑکی، شیعہ لڑکا سے شادی کرسکتی ہے اگر وہ لڑکی، شیعہ لڑکا سے شادی کرنا پسند کرے؟

جواب:شیعہ سے اپنی بیٹی کا رشتہ کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ شیعہ کفریہ اور شرکیہ عقیدہ رکھتا ہے۔ شیعہ کا ایمان و عقیدہ ہی ٹھیک نہیں ہے اس لئے اپنی بیٹی کا نکاح شیعہ لڑکا سے نہیں کرنا چاہئے۔ نکاح کے لئے ضروری ہے کہ اس کا ایمان و عقیدہ درست ہو، ورنہ اس سے نکاح کرنا جائز نہیں ہوگا۔

سوال: کیا بھانجی، بھانجہ، بھتیجہ اور بھتیجی کا بیٹا محرم ہوتا ہے یا غیر محرم ہے؟

جواب:بھتیجے اور بھتیجیاں، بھانجے اور بھانجیاں محرم ہیں، ان سے پردہ نہیں ہے اور اسی طرح ان کی اولاد بھی محرم ہیں، ان سے بھی پردہ نہیں ہے۔

سوال: ایک آدمی کو وراثت میں کچھ رقم ملی ہے جس کی مالی حالت ایسی ہے کہ اس کی تنخواہ ضرورت پوری کرنے کے برابر بھی نہیں ہے۔ ان پیسوں کو کہیں لگاکر کچھ منافع ملے تو اخراجات پورے کر پائے گا۔ ایسے میں اس کے لئے زکوۃ کا کیا حکم ہے؟

جواب:زکوۃ اس کو نہیں دینا ہے جس کے پاس پیسہ نہیں ہے بلکہ زکوۃ اس کے ذمہ ہے جس کے پاس پیسہ رہتا ہے۔ جو کوئی نوکری کرے اور اس کے پاس تنخواہ آتی ہو ، اس کی تنخواہ خرچ ہوجائے تو اس میں کوئی زکوۃ نہیں ہے۔

ہاں، جو آدمی کم تنخواہ پر کام کرتا ہے جو اس کے خرچ کے لئے کافی نہیں ہے اور وہ اپنی ضرورت کاروباری منافع سے پوری کرے ، یہ ایک الگ مسئلہ ہے لیکن جو پیسہ اس نے کاروبار میں لگایا ہے، وہ اگر نصاب کو پہنچے اور اس پر سال گزر جائے تو اس کی زکوۃ دینی ہے۔ یہاں پر زکوۃ اس لئے دینی ہوگی کہ اس کے پاس مالی نصاب ہے، نصاب بھر پیسہ نہ ہو تو پھر زکوۃ نہیں دینی ہوگی۔

سوال: کیا قبرستان سے گزرتے وقت السلام علیکم یا اھل القبور بولنا کسی حدیث سے ثابت ہے؟

جواب: میرے علم کے مطابق قبرستان کی زیارت کے وقت "السلام علیکم یا اھل القبور" کہنے والی دعا ثابت نہیں ہے، یہ ضعیف ہے۔ زیارت سے متعلق جو صحیح دعا ہے اس میں "السَّلَامُ عَلَيْكُمْ أَهْلَ الدِّيَارِ" کے الفاظ ہیں چنانچہ سلیمان بن بریدہ نے اپنے والد (بریدہ اسلمی رضی اللہ عنہ) سے روایت کی، انہوں نے کہا:

"كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعَلِّمُهُمْ إِذَا خَرَجُوا إِلَى الْمَقَابِرِ، فَكَانَ قَائِلُهُمْ يَقُولُ: - فِي رِوَايَةِ أَبِي بَكْرٍ السَّلَامُ عَلَى أَهْلِ الدِّيَارِ، وَفِي رِوَايَةِ زُهَيْرٍ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ أَهْلَ الدِّيَارِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُسْلِمِينَ، وَإِنَّا إِنْ شَاءَ اللَّهُ لَلَاحِقُونَ أَسْأَلُ اللَّهَ لَنَا وَلَكُمُ الْعَافِيَةَ "(صحیح مسلم:975)

ترجمہ:جب وہ قبرستان جاتے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو تعلیم دیا کرتے تھے تو (سیکھنے کے بعد) ان کا کہنے والا کہتا: ابو بکر کی روایت میں ہے: ”سلامتی ہو مسلمانوں اور مومنوں کے ٹھکانوں میں رہنے والوں پر“ اور زہیر کی روایت میں ہے: ”مسلمانوں اور مومنوں کے ٹھکانے میں رہنے والو، تم پر۔۔۔ اور ہم ان شاء اللہ ضرور (تمہارے ساتھ) ملنے والے ہیں، میں اللہ تعالیٰ سے اپنے اور تمہارے لیے عافیت مانگتا ہوں۔

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جو کوئی قبرستان جائے وہ مذکورہ دعا پڑھے اور جو قبرستان کے پاس سے گزرے وہ وپاں ٹھہر کر اس دعا کو پڑھ سکتا ہے کیونکہ وہ قبرستان کے پاس ہی ہے اور اس دعا کے پڑھنے سے میت کو فائدہ پہنچ جائے گا۔ اور کوئی بغیر دعا پڑھے گزر جائے اس میں کوئی گناہ نہیں ہے لیکن دعا پڑھ لینے میں فائدہ ہی ہے۔

سوال: کیا یہ قول سندا صحیح ہے،الشَّعْبِيِّ رحمه الله: ”قَالَ لَا أَدْرِي نِصْفُ الْعِلْمِ“(186 سنن الدارمي)؟

جواب: سنن دارمی کا یہ قول ثابت ہے بلکہ بہت سارے اہل علم نے یہ بات کہی ہے۔

سوال: اگر سفر پہ نکلنا ہو اور وقتی نماز پڑھ لیا ہو تو گھر سے نکلنے سے پہلے دوسرے وقت کی نماز قصر سے پڑھ سکتے ہیں؟

جواب:سفر کے لئے گھر سے نکلتے وقت اگر کسی نماز کا وقت ہے تو وہ نماز پڑھ سکتے ہیں اور مکمل نماز پڑھنا ہے، قصر نہیں کرنا ہے اور جس نماز کا وقت ہے، گھر پر وہی نماز پڑھنا ہے۔ وقت سے پہلے کوئی دوسری نماز نہیں پڑھنا ہے اور گھر پہ قصر بھی نہیں کرنا ہے۔

سوال: صبح و شام کے استغفار کے طور پر کون سے کلمات پڑھنا چاہئے۔ کیا صرف "استغفر اللہ" کہنا چاہئے یا "أستغفرُ اللهَ العظيمَ الذي لا إلهَ إلا هو الحيُّ القيومُ وأتوبُ إليهِ" یا "سیدالاستغفار" پرھنا چاہئے؟

جواب:اس مسئلہ میں دو باتیں ہیں، ایک بات یہ ہے کہ مختلف قسم کے استغفار کے صیغے مروی ہیں۔ استغفار کے جو صیغے کسی وقت سے خاص ہیں وہ اس وقت ان مخصوص الفاظ کے ذریعہ استغفار کئے جائیں گے جیسے نماز کے بعد صرف "استغفراللہ" تین بار کہیں گے اور صبح و شام کے ذکر کے طور پر سیدالاستغفار پڑھیں گے۔

دوسری بات یہ ہے کہ عام حالات میں بکثرت یا سو دفعہ استغفار کرنا ہو تو مختصر استغفار کے کوئی بھی صیغے کے ذریعہ استغفار کرسکتے ہیں بلکہ ہر قسم کے استغفار کے کلمات پڑھنا چاہئے تاکہ سب کی فضیلت حاصل ہو۔ ان میں سے چند استغفار کے کلمات مندرجہ ذیل ہیں۔

(1)استغفار کا مختصر کلمہ "استغفراللہ" ہے، یہ بھی باربار پڑھ سکتے ہیں۔

(2)رسول ﷺ کی ایک مجلس میں سو مرتبہ ان الفاظ میں استغفار کیا جاتا، "رَبِّ اغْفِرْ لِي وَتُبْ عَلَيَّ إِنَّكَ أَنْتَ التَّوَّابُ الْغَفُورُ" (اے ہمارے رب! ہمیں بخش دے اور ہماری توبہ قبول فرما، بیشک تو توبہ قبول کرنے اور بخشنے والا ہے)۔ (ترمذی:3434)

(3) نبی ﷺ ان الفاظ کے ذریعہ بھی استغفار کیا کرتے۔" أَسْتَغْفِرُ اللَّهَ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْحَيَّ الْقَيُّومَ وَأَتُوبُ إِلَيْهِ"۔ ان کلمات کے کہنے سے اس شخص کے بھی گناہ معاف کردئے جاتے ہیں جو میدان جنگ سے بھاگا ہوا ہو۔(ابوداؤد:1517)

(4)استغفار کے لئے یہ بھی ایک بہترین دعا ہے۔"سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ رَبَّنَا وبِحَمْدِكَ اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي"۔ اسے نبی ﷺ کثرت سے رکوع و سجدہ میں پڑھا کرتے۔(بخاری:817)

(5)جب اللہ تعالی نے نبی ﷺ کو سورۃ النصر کے ذریعہ نصرت و فتح کی بشارت دی اور آپ کو تسبیح پڑھنے اور استغفار کرنے کا حکم دیا تو آپ وفات سے قبل یہ کلمات کثرت سے کہا کرتے تھے۔"سُبْحَانَكَ وَبِحَمْدِكَ، أَسْتَغْفِرُكَ وَأَتُوبُ إِلَيْكَ" (مسلم:484)

خلاصہ یہ ہے کہ عام حالات میں ان میں سے سارے ذکر کئے جاسکتے ہیں بلکہ ان کے علاوہ بھی دیگر ثابت شدہ الفاظ میں استغفار کرنے میں حرج نہیں ہے۔

سوال: کباڑی والے سے سامان خرید سکتے ہیں جس کے پاس چوری کا سامان ہوتا ہے؟

جواب:کباڑی والے سے یا کسی اور سے چوری کا سامان خریدنا جائز نہیں ہے کیونکہ اصل میں وہ سامان کسی اور کا ہوتا ہے۔ اس قسم کا سامان خریدنا چور کی مدد کرنا ہے اور کسی غیر کا حق دبانا ہے۔ اس کے بارے میں قیامت میں چور کا مواخذہ ہوگا ہی، اس شخص سے بھی پوچھ ہوگی جو جانتے بوجھتے چوری کا سامان کا خریدتا ہے۔

سوال: عشاء کے بعد چار رکعات نفل جو ایک سلام سے پڑھنا ہے، اگر کوئی عشاء کے بعد نہ پڑھ سکا تو کیا وہ تہجّد کے وقت وہ چار رکعات پڑھ سکتا ہے یا نہیں؟

جواب:رات میں کبھی بھی ایک سلام والی چار رکعات پڑھ سکتے ہیں ، کوئی حرج نہیں ہے۔ تہجد کے وقت بھی پڑھ سکتے ہیں۔

سوال: دکان پر کافی سامان پڑا ہوا ہے جنہیں لوگ یہاں بھول گئے ہیں۔ اب کافی سال سے کوئی لینے بھی نہیں آیا ہے۔ ان میں کچھ پرانی گھڑیاں ہیں جو ٹھیک کرنے کے لیے دے کر گئے تھے اور اب واپس آئے ہی نہیں۔ ان کا نمبر بھی اپنے پاس نہیں ہے۔ ایسی صورت میں کیا کرنا چاہیے، کیا کسی کو دے دینا چاہیے یا اس کو سنبھال کر رکھنا چاہیے اور کتنی مدت تک سنبھال کر رکھنا چاہیے؟

جواب:اس معاملہ میں عرف کے حساب سے عمل کیا جائے گا یعنی وہاں پر تاجروں کو اس قسم کے سامان کے لئے جو رائج صورت ہے اس پر عمل کرنا چاہئے۔ چونکہ کسی نے سامان بنانے کے لئے دیا ہے، وہ سامان کسی کی امانت ہے، اس بارے میں مناسب صورت یہی ہے کہ جب تک دکان موجود ہے، وہ سامان اپنے یہاں رکھا جائے۔ اسے کسی دوسرے کے حوالے کرنا یا خود استعمال کرنا صحیح نہیں ہے۔

سوال: ہم لوگ بہت سے لوگوں سے ملاقات کرتے ہیں جن سے اصلا مل کر کوئی خوشی نہیں ہوتی لیکن یونہی رسمی طور پر یا کسی مجبوری کے تحت ہم ان سے کہتے ہیں کہ آپ سے مل کر بڑی خوشی ہوئی تو کیا یہ کہنا جھوٹ میں شمار ہوگا؟

جواب:زبان دل کا ترجمان ہے، جس کے دل میں کسی سے نفرت و کدورت ہو اور وہ اپنے بھائی سے دل میں کدورت رکھتے ہوئے ملتے وقت بولے "آپ سے مل کر بہت خوشی ہوئی" یہ سراسر جھوٹ ہے ، اس کو نفاق بھی کہیں گے۔ کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ اس طرح اپنے بھائی سے نفاق کے ساتھ ملے۔ شکایت کی جو وجہ ہے اس کو دور کرلینا چاہئے تاہم اس طرح سے ملنا شرعا درست نہیں ہے۔ 

مکمل تحریر >>

آپ کے سوالات اور ان کے جوابات(69)

آپ کے سوالات اور ان کے جوابات(69)

جواب از: شیخ مقبول احمد سلفی حفظہ اللہ
جدہ دعوہ سنٹر، حی السلامہ- سعودی عرب

سوال:جب ہم عورتوں کو عشاء کی نماز قضا پڑھنی ہوتی ہے تب دو دفعہ وتر پڑھیں گے یا قضا والی چھوڑ دینا ہے جبکہ آپ نے تعلیم دی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن میں دو مرتبہ وتر پڑھنے سے منع فرمایا ہے؟
جواب:سب سے پہلی بات یہ ہے کہ وتر کی نماز، عشاء کی نماز میں داخل نہیں ہے بلکہ یہ رات کی آخری نماز ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ عشاء کی نماز کا وقت آدھی رات تک رہتا ہے، جو کوئی اس وقت تک عشاء نہ پڑھ سکے، اس کے بعد بھی جیسے ہی اسے فرصت ملے سب سے پہلے عشاء کی نماز ادا کرنی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ عشاء کی نماز کو حفاظت سے رکھنا ہے اور اگلی عشاء کے بعد ادا کرنا ہے۔جہاں تک وتر کا مسئلہ ہے یہ رات کی آخری نماز ہے اور رات میں صرف ایک مرتبہ پڑھنا ہے۔

اگر یہ سوال اس پس منظر میں ہے کہ کسی عورت کو حیض آگیا اور وہ عشاء کی نماز مع وتر نہیں پڑھ سکی تو اس کا جواب یہ ہے کہ پاک ہونے پر اس عورت کو مغرب اور عشاء کی نماز ادا کرنی ہے اور وتر کی نماز پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے۔
سوال: کیا پروجیکٹ کے لئے انسانی جسم بناسکتے ہیں؟
جواب:اس کی مختلف صورتیں ہوسکتی ہیں جن کا الگ الگ حکم ہوسکتا ہے۔اگر کوئی تصویر کشی کا علم حاصل کرے اور اس میں انسانی جسم بنانا سیکھے تو ایسا علم حاصل کرنا جائز نہیں ہے اور نہ ہی اس طرح کا پروجیکٹ تیار کرنا چاہیے، ایسا علم سرے سے چھوڑدینا چاہئے تاہم غیرانسانی تصویرکشی میں حرج نہیں ہے۔اسی طرح کوئی طالب علم اپنے سبجیکٹ کے طور پر انسانی تصویر کشی والا پروجیکٹ رکھتا ہے تو اس کے لیے اس طرح کا پروجیکٹ رکھنا جائز نہیں ہے۔
تعلیمی مرحلے میں کبھی انسانی تصویر کشی کی ناگزیر ضرورت پڑے جو انسانی سماج کے لیے ضرورت کا باعث ہو جیسے طبی علم یا شعبہ جرائم کی گتھی سلجھانے کے لئے تو اس میں حرج نہیں ہے کیونکہ یہ ضرورت کی بنا پر ہے لیکن بغیر ضرورت کے یا شوقیہ طور پر یا اختیاری مضمون کے طور پر اس فن کو اپنانے اور ایسی تصویر کشی سے پرہیز کرنا چاہیے۔
سوال: ایک آدمی نوکری سے ریٹائر ہے ، اسے ساٹھ سے ستر لاکھ روپئے ملے۔ یہ پیسہ انڈیا میں سیونگ اکاؤنٹ میں نہیں رکھ سکتے ہیں کیونکہ یہ محفوظ نہیں ہے تو فکس ڈپازٹ اکاؤنٹ میں رکھ سکتے ہیں جس میں سود ملتا ہے۔ اور اب اس کے پاس پیسہ کمانے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے تو کیا وہ سودی پیسہ لے کر اپنا گزارا جیسے کھانا پینا اور بچوں کی تعلیم پر استعمال کرسکتا ہے؟
جواب:پہلی بات یہ ہے کہ اپنے پیسے کو سودی بینک میں فکس ڈپازٹ کے طور پر رکھنا جائز نہیں ہے کیونکہ یہ طے شدہ طریقے سے سودی منافع کمانا ہے۔ سودی بینک میں اکاؤنٹ کھولنا اور پیسہ جمع کرنا ویسے بھی جائز نہیں ہے سوائے اضطراری حالت کے۔
بینک میں پیسے کی حفاظت کے لیے جو اکاؤنٹ کھولا جاتا ہے یعنی بچت اکاؤنٹ اگر اس میں پیسہ رکھنے سے خطرہ ہے تو پھر ایسے بینک میں پیسہ ہی نہ رکھا جائے۔ اس سے بہتر ہے وہ اپنا پیسہ حلال کاروبار میں لگائے اور اس کا حلال منافع کھائے۔اگر کسی نے غلطی سے فکس ڈپازٹ کے طور پر پیسہ رکھا، اس کے ذمہ اولا توبہ کرنا ہے پھر ایسے اکاؤنٹ سے پیسے نکال لینا ہے نیز اس کے لئے سود کا استعمال حرام ہے اور اگرچہ اس کے پاس ذریعہ آمدنی نہیں ہے پھر بھی سودی پیسہ استعمال کرنا اس کے لئے جائز نہیں ہے۔ زندگی گزارنے، گھر چلانے اور بچوں کی تعلیم کے لیے حلال پیسہ استعمال کرے۔
سوال: آج کے بہت سے شوہر جو کہ حافظ، عالم اور فاضل ہوکر بھی نہ اپنی بیوی کی عزت کرتے ہیں، نہ ان سے تمیز سے بات کرتے ہیں بلکہ ارے ترے اور گالی گلوج سے بات کرتے ہیں حتی کہ بچوں کے سامنے بھی تو کیا ایسے شوہر کا بھی یہی درجہ ہے جس کا ذکر بیوی کے شوہر کا زخم چاٹنے والی حدیث اور دیگر احادیث میں ہے یا کس قسم کے شوہروں کے لئے ہے؟
جواب: سب سے پہلی بات یہ ہے کہ اگر کوئی صاحب علم ہو کر بھی اپنے اہل و عیال کے لئے بہتر نہیں تو یہ افسوس کا مقام ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو اپنے اہل و عیال کے ساتھ بہتر سلوک کرنے کا حکم دیا ہے ۔دوسری بات یہ ہے کہ یہ درجہ دنیا کے تمام شوہروں کے لئے ہے جو بیوی کا اپنا شوہر ہوتا ہے۔ بیوی کے ذمہ اس کی اپنی ذمہ داری ہے اور شوہر کے ذمہ اس کی اپنی ذمہ داری ہے، ہر کسی کو اپنی اپنی ذمہ داری کی ادائیگی کرنی ہے۔اگر کوئی شوہر اپنی بیوی کی عزت نہیں کرتا تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ بیوی بھی اپنے شوہر کی عزت نہ کرے یا اسلامی تعلیمات اور حقوق کو ٹھکرا دے جو اس کے ذمہ ہے۔ بیوی کے ذمہ اپنی ذمہ داری ہے، وہ اپنی ذمہ داری کو بخوبی نبھائے کیونکہ وہ اپنی ذمہ داری اور حقوق کے بارے میں پوچھی جائے گی، اپنے شوہر کی ذمہ داری کے بارے میں اس سے سوال نہیں ہوگا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:كُلُّكُمْ رَاعٍ ومَسْؤُولٌ عن رَعِيَّتِهِ(صحيح البخاري:2409)
ترجمہ: تم میں سے ہر کوئی ذمہ دار ہے اور ہر کسی سے اس کی ذمہ داری کے بارے میں پوچھا جائے گا۔
سوال: میں نے آپ کی ویڈیو کلپ دیکھی تھی جس میں آپ نے بتایا تھا کہ عید سے پہلے اور بعد میں کوئی سنت اور نفل نماز نہیں ہے سوائے اس کے کہ اگر مسجد میں عید کی نماز ہو رہی ہے تو تحیۃ المسجد پڑھ لے جبکہ ابن ماجہ کی حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عیدگاہ سے لوٹتے تو گھر میں دو رکعت نماز ادا کرتے ہیں۔ اس حدیث میں دو رکعت نماز کا ذکر ہے؟
جواب: یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ عید گاہ میں عید کی نماز سے پہلے اور عید کی نماز کے بعد کوئی نماز نہیں ہے سوائے دو رکعت عید کی نماز کے۔یہ ایک الگ مسئلہ ہے اور ایک دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم عید گاہ سے لوٹ کر گھر واپس آتے تو گھر میں دو رکعت نماز ادا کرتے، یہ ایک دوسرا مسئلہ ہے جو عیدگاہ سے متعلق نہیں ہے بلکہ گھر سے متعلق ہے۔ ابن ماجہ کی حدیث میں اسی گھر والی نماز کا ذکر ہے۔
سوال: قربانی کا جانور وزن کے حساب سے خریدنا کیسا ہے کیونکہ ہمارے ملک میں کچھ جگہوں پر قربانی کاجانور تول کر فروخت کیا جاتا ہے یعنی کلو کے حساب سے؟
جواب:قربانی کا زندہ جانور تول کر یا بغیر تولے اندازہ سے قیمت لگاکر دونوں صورت میں خریدنا جائز ہے۔ ذبح کرکے اس کا گوشت تول کرلینا جائز نہیں ہے لیکن بغیر ذبح کئے ہوئے، اگر کوئی تول کر بھی جانور خریدتا ہے تو اس میں کوئی حرج کی بات نہیں ہے۔
سوال: کیا یہ باتیں صحیح ہیں۔ وضو کے آداب (1) اونچی جگہ بیٹھ کر وضو کرنا(1/343، کتاب الطہارہ سنن الوضوء) ،(2) پاک جگہ بیٹھ کر وضو کرنا(شامی 1/338، سنن الوضوء)، (3) قبلہ کی طرف منہ کرکے بیٹھنا (شامی 1/337، سنن الوضوء)۔
جواب:ان تین باتوں میں سے ایک بات تو درست ہے کہ آدمی کو پاک جگہ پر وضو کرنا چاہیے اور کوئی نماز پڑھنے والا نجاست والی جگہ پر کیوں کر وضو بنائے گا اس لیے اس بات کے ذکر کی ضرورت ہی نہیں ہے۔باقی جو دو باتیں ہیں، یہ اپنے من سے گھڑی ہوئی باتیں ہیں۔ اسلام نے اس طرح کا ہمیں ادب نہیں بتایا ہے۔ آپ اونچی یا نیچی جگہ اور قبلہ کی طرف یا بغیر قبلہ کے کسی بھی طرح سے وضو کرسکتے ہیں۔
سوال: ایک شبہ ہے اس کا جواب چاہتی ہوں کہ کیا صرف اماں حوا، حضرت آدم علیہ السلام کی پسلی سے بنی تھیں یا سب عورتیں ہی مرد کی پسلی سے بنی ہیں؟
جواب:تعجب کی بات ہے، آپ عورت ہوکر ایسا سوال کر رہی ہیں۔ ایک عورت اپنی کوکھ میں نو مہینہ ایک بچہ رکھتی ہے اور پھر بچے کو جنم دیتی ہے، یہ آنکھوں سے نظر آنے والی چیز ہے، اس وجہ سے یہ پوچھنے والی چیز ہی نہیں ہے۔صرف حوا علیہا السلام کو اللہ تعالی نے آدم علیہ السلام کی پسلی سے پیدا کیا۔ باقی عورتیں میاں بیوی کے ملاپ سے پیدا ہوتی ہیں بلکہ تمام انسان اسی طرح پیدا ہوتے ہیں۔
سوال: آپ نے فرمایا کہ ایام بیض کے روزے مہینے میں کبھی بھی رکھے جاسکتے ہیں تو میں پوچھنا چاہتی ہوں کہ ایام بیض تو تیرہ ، چودہ اور پندرہ کو کہتے ہیں پھر اس کے علاوہ دنوں میں رکھے گئے روزے ایام بیض کے کیسے ہوئے؟
جواب:ایام بیض کا روزہ کب رکھنا ہے اس کا علم ایک عورت کو بہتر طورپر ہونا چاہئے۔ یہ صحیح ہے کہ ایام بیض کا روزہ معمول کے مطابق ہجری کلینڈر کے اعتبار سے تیرہ، چودہ اور پندرہ کو رکھنا چاہیے لیکن اگر کسی کے لئے کوئی مجبوری آجائے اور وہ مذکورہ تاریخوں میں روزہ نہ رکھ سکے تو کیا کرنا چاہیے جیسے کسی عورت کو تیرہ، چودہ اور پندرہ تاریخ کو حیض آجائے تو وہ ایام بیض کا روزہ رکھے گی یا نہیں بلکہ جس عورت کی عادت ہی درمیان مہینے میں ہو، کیا وہ کبھی ایام بیض کا روزہ نہیں رکھے گی؟ ضرور روزہ رکھے گی اور مجبوری کی صورت میں مہینے کے شروع میں یا آخر میں بھی ایام بیض کی نیت سے تین روزے رکھے جاسکتے ہیں۔
سوال: بعض لوگ کہتے ہیں کہ حج میں جو قربانی کی جاتی ہے کیا وہ دم شکر کہلاتی ہے اور آپ پر جو قربانی واجب ہے وہ الگ سے کرنی پڑے گی؟
جواب:حج کی تین اقسام ہیں، ان میں سے دو قسموں میں قربانی ہے اور ایک میں قربانی نہیں ہے۔ جن دوقسموں میں قربانی ہے وہ حج قران اور حج تمتع ہے اور حج افراد میں قربانی نہیں ہے۔
حج کی قربانی ایک ہی ہے، اس قربانی کو عربی میں "ھدی" کہاجاتا ہے۔ نبی ﷺ نے جب حج کیا تھا اس وقت اپنے ساتھ "ھدی" لے کر آئے تھے اسی سبب آپ نے حج قران کیا اور جن صحابہ کے ساتھ ھدی یعنی حج کی قربانی نہیں تھی آپ نے انہیں عمرہ کرکے حلال ہوجانے کا حکم دیا یعنی ان لوگوں کو حج تمتع کرنے کا حکم دیا۔ آپ ﷺ نے خواہش ظاہر کی کہ اگر میں اپنے ساتھ ھدی (قربانی کا جانور) لے کر نہیں آتا تو میں بھی عمرہ کرکے حلال ہوجاتا۔ اس بارے میں بخاری کی یہ حدیث مطالعہ کریں۔
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب نے حج کا احرام باندھا تھا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور طلحہ رضی اللہ عنہ کے سوا قربانی کسی کے پاس نہیں تھی۔ ان ہی دنوں میں علی رضی اللہ عنہ یمن سے آئے تو ان کے ساتھ بھی قربانی تھی۔ انہوں نے کہا کہ جس چیز کا احرام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے باندھا ہے میرا بھی احرام وہی ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب کو (مکہ میں پہنچ کر) اس کی اجازت دے دی تھی کہ اپنے حج کو عمرہ میں تبدیل کر دیں اور بیت اللہ کا طواف اور صفا و مروہ کی سعی کر کے بال ترشوا لیں اور احرام کھول دیں، لیکن وہ لوگ ایسا نہ کریں جن کے ساتھ قربانی ہو۔ اس پر لوگوں نے کہا کہ ہم منیٰ سے حج کے لیے اس طرح سے جائیں گے کہ ہمارے ذکر سے منی ٹپک رہی ہو۔ یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو بات اب ہوئی اگر پہلے سے معلوم ہوتی تو میں اپنے ساتھ ہدی نہ لاتا اور اگر میرے ساتھ ہدی نہ ہوتی تو (افعال عمرہ ادا کرنے کے بعد) میں بھی احرام کھول دیتا۔(صحیح بخاری: 1785)
حج کی یہی ایک قربانی ہے جسے عربی میں ھدی کہتے ہیں ، قران یا تمتع کرنے والا یہی ایک قربانی دیتا ہے۔ اس قربانی کو دم شکر نہیں کہا جاتا ہے، حنفیوں نے دم شکر کے نام سے اس بات کو پھیلایا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ دم شکر نہیں ہے، یہ حج کی قربانی ہے، حاجی(قارن و متمتع) پر صرف یہی ایک قربانی واجب ہے۔ جب حج کے دوران کسی حاجی سے کوئی واجب ترک ہوجائے تو اس صورت میں ایک واجب کے بدلے ایک دم دینا پڑتا ہے، یہ الگ قربانی ہے، ترک واجب کی تلافی کے لئے ہے لیکن حج کی قربانی صرف ایک ہی ہے جس کا ذکر اوپر کیا ہوں۔
سوال:ایک خاتون بیمار اور کمزور ہو چکی ہے اور حیض کی وجہ سے جو روزے اس سے چھوٹتے تھے اس نے کبھی نہیں قضا کی۔ اب اسے علم ہوا ہے مگر وہ روزہ رکھ نہیں سکتی۔ کیا وہ قضا کے بدلے فدیہ دے سکتی ہے۔ اسی طرح وہ یہ بھی پوچھتی ہے کہ میں نے حج کیا تو کیا میری یہ کوتاہی معاف نہیں ہوگی؟
جواب:جس خاتون کے کئی سالوں کے قضا روزے باقی ہیں، اس نے قضا روزے نہیں رکھے اور اب معلوم ہوا ہے کہ حیض کے چھوٹے ہوئے روزے بھی رکھنا ہے اس حال میں کہ اسے روزہ رکھنے کی استطاعت نہیں ہے۔ ایسی خاتون کے ذمہ اللہ رب العالمین سے سچی توبہ کرنا ہے کیونکہ اس نے قضا کے معاملہ میں بہت بڑی غفلت برتی ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ اگر واقعی وہ روزہ رکھنے کی استطاعت نہیں رکھتی ہے تو جتنے روزے چھوٹے ہیں ان کا حساب لگاکر غریب و مسکین کو ان روزوں کا فدیہ ادا کردے۔ حلال پیسوں سے سنت کے مطابق حج کیا گیا ہوگا تو حج ہوجائے گا مگر چھوٹے ہوئے روزوں کی قضا اس کے ذمہ اب بھی باقی ہے، استطاعت نہ ہونے کی وجہ سے روزہ کا فدیہ ادا کرے اور اللہ سے اخلاص کے ساتھ خوب خوب توبہ کرے، اللہ کوتاہی معاف کرنے والا ہے۔
سوال: پانچ سال کا بچہ اس کی ماں کے ساتھ کھڑے ہوکر صف میں جماعت کے ساتھ نماز پڑھ سکتا ہے۔ میں نے جب اپنے بچے کو ساتھ میں جماعت میں کھڑا کیا تو مجھے بتایا گیا کہ ایسا کرنے پر نماز نہیں ہوتی اور جماعت کا ثواب نہیں ملے گا؟
جواب:بچوں کو سات سال سے نماز کا حکم دینے کی تعلیم دی گئی ہے، یہی عمر سن شعور یعنی تمیز کی عمر ہے۔ سات سال سے پہلے بچے میں شعور کی کمی ہوتی ہے۔ جو پانچ سال کا لڑکا ہے اسے اس کی ماں اپنے ساتھ مسجد میں لے جائے اور اپنے ساتھ صف میں کھڑا کرے یا وہ اپنی ماں کے ساتھ صف میں شامل ہوکر نماز ادا کرے تو اس میں حرج نہیں ہے، اس سے کسی کی نماز پر اثر نہیں پڑے گا۔ نبی ﷺ نے اپنی نواسی کے ساتھ مسجد میں نماز ادا فرمائی ہے۔ بخاری میں ہے ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیاکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے اور امامہ بنت ابی العاص (جو بچی تھیں) وہ آپ کے شانہ مبارک پر تھیں پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی جب آپ رکوع کرتے تو انہیں اتار دیتے اور جب کھڑے ہوتے تو پھر اٹھا لیتے۔(صحیح بخاری:5996)
یہ ضرورت کا معاملہ ہے، اسے عادت پر محمول نہیں کیا جائے گا اس وجہ سے لڑکا یا لڑکی کے لئے مناسب یہی ہے کہ اگر وہ شرارتی نہ ہو تو اسے مسجد لاسکتے ہیں تاہم لڑکے کو مردوں کے ساتھ اور لڑکی کو عورتوں کے ساتھ رکھنا چاہئے۔ اور جب بچہ سن تمیز کو پہنچا ہو پھر اس فرق کو لازمی طور پر برتنا پڑے گا یعنی لڑکا کو مردوں کی صف میں ہی رکھنا ہے اور لڑکی کو عورتوں کی صف میں۔
سوال:ایک عورت نے کسی کو کچھ رقم ادھار دی ہے اور ادھار دئے ہوئے دس سال ہوگئے مگر ابھی تک وہ رقم مقروض کے پاس ہی ہے۔ کیا ان پیسے کی زکوۃ ادا کرنی ہوگی اور کیا پچھلے سالوں کی بھی زکوۃ دینی ہے جبکہ ابھی تک زکوۃ نہیں نکالی گئی ہے؟
جواب: قرض کی دو صورت ہوتی ہے۔ ایک صورت یہ ہے کہ قرض ایسا ہو کہ اس کے لوٹنے کی امید نہ ہو تو ایسی صورت میں ابھی اس کی زکوۃ نہیں دینی ہے، جب قرض لوٹ جائے اس وقت زکوۃ دینی ہے۔
دوسری صورت یہ ہے کہ قرض ایسا ہو کہ اس کے لوٹنے کی امید ہو تو ایسی صورت میں ہرسال کی زکوۃ دینی ہوگی اگر وہ نصاب کو پہنچے۔
اگر قرض والی دوسری صورت تھی اور وہ نصاب کو پہنچ رہا ہے تو قرض دینے والے کو ہر سال اس کی زکوۃ دینی تھی اور تاخیر کی وجہ سے اس صورت میں اس کے ذمہ توبہ کرنا بھی ہے اور دس سالوں کی زکوۃ ادا کرنا ہے۔ ہاں اگر پہلی صورت ہو تو جب قرض مل جائے اس وقت زکوۃ ادا کرے۔
سوال: حاجی نو ذوالحجہ کو مسجد نمرہ میں اگر مقیم امام کے پیچھے ظہر اور عصر کی نماز ادا کرتا ہے تو کیا وہ امام کی اتباع میں پوری نماز ادا کرے گا؟
جواب:مسجد نمرہ عرفات میں واقع ہے اور حجاج یوم عرفہ کو میدان عرفات میں وقوف کرتے ہیں۔ عرفہ کے دن رسول اللہ ﷺ کی سنت یہ ہے کہ ظہر اور عصر کی نماز جمع قصر سے ادا کی جائے اور الحمدللہ مسجد نمرہ میں رسول اللہ ﷺ کی اسی سنت پر عمل ہوتا ہے یعنی اس مسجد میں یوم عرفہ کو ظہر اور عصر جمع قصر سے ادا کی جاتی ہے۔ مکمل نماز نہیں ادا کی جاتی ہے اور نہ ہی دو مرتبہ نماز ادا کی جاتی ہے۔
حنفی لوگ دوران حج مکمل نماز پڑھتے ہیں، عرفہ میں بھی مکمل نماز ادا کرتے ہیں، ایسے لوگوں کے پیچھے نماز نہ پڑھیں جو سنت کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔ مسجد نمرہ میں جو اصل جماعت ہوتی ہے، وہ سنت کے مطابق ہوتی ہے اور وہاں موجود سبھی لوگ اس جماعت میں شامل ہوکر نماز ادا کرتے ہیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ حج کرنے والا دوران حج(منی، عرفہ، مزدلفہ میں) اسی طرح نماز پڑھے گا جیسے نبی ﷺ نے نماز پڑھا ہے، یہاں پر مقیم اور مسافر کا مسئلہ نہیں دیکھا جائے گا۔ نبی ﷺ نے دوران حج، قصر سے نماز پڑھی ہے تو ہرکسی کو حج کے دوران قصر سے نماز ادا کرنا ہے خواہ مکہ والا ہو یا دوسرے شہر والا ہو یا کسی دوسرے ملک سے ہی کیوں نہ آیا ہو۔
سوال: ایک خاتون کا سوال ہے کہ اس کے بھائی کی کرانہ دکان ہے جس میں کچھ دنوں پہلے اس نے روزانہ استعمال ہونے والی اشیائے خورد ونوش بھرا ہے لیکن کچھ دنوں کے بعد اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنے کی وجہ سے لوگ وہ سامان نہیں خرید رہے ہیں حالانکہ اس کے بھائی نے بہت سارا سامان دکان میں بھرا ہے جیسے چاکلیٹ ، شیمپو اور صابن وغیرہ جس کی وجہ سے نقصان ہورہا ہے۔ کیا نقصان سے بچنے کے لئے وہ خاتون اپنے بھائی سے وہ اسرائیلی سامان خرید سکتی ہے جبکہ وہ خود اسرائیلی سامان سے بچتی ہے؟
جواب:ایک سال سے زائد عرصہ سے یہودی، فلسطین کے مسلمانوں پر ظلم کر رہا ہے اور اب تک پچاس ہزار سے زائد معصوم مسلمانوں کو شہید کرچکا ہے۔ یہ معاملہ کسی مسلمان سے مخفی نہیں ہے حتی کہ اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ بھی شروع سے ہوا ہے، یہ بھی ہر کسی کے علم میں ہے۔ ایسی صورت میں دکاندار کو ایسی چیزیں اپنی دکان میں لانا ہی نہیں چاہیے، اس نے خود سے جان بوجھ کر غلطی کی ہے۔
بہرکیف! کسی چیز کو یہودی بنائے تو اس کا استعمال اسلام میں حرام نہیں ہے، مسلمان بلاشبہ یہودی کی بنائی ہوئی حلال چیزیں استعمال کرسکتا ہے۔ اس خاتون کا یا کسی بھی مسلمان کا اس دکان سے اسرائیلی مصنوعات خریدنے میں بالکل کوئی حرج نہیں ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ جو عوامی سطح پر بعض لوگ اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کر رہے ہیں اس سے خاطر خواہ فائدہ ہونے والا نہیں ہے۔ اگر ملکی اور عالمی سطح پر حکمرانوں کے ذریعہ منظم اور منصوبہ بند طریقے سے بائیکاٹ کیا جائے تو ممکن ہے کچھ فائدہ حاصل ہو۔
سوال:کسی مقروض کو اس کا قرض لوٹانے کے لئے سود کی رقم دے سکتے ہیں؟
جواب: ایسا مقروض جو خود سے اپنا قرض ادا نہ کرسکے اور نہ ہی کوئی ایسا سامان ہو جسے بیچ کر قرضہ ادا کر سکتا ہو تو ایسے شخص کے لیے اسلام میں زکوۃ کی سہولت ہے، ایسے شخص کو زکوۃ دی جاسکتی ہے۔ اسلام میں مقروض کے لیے ایک راستہ موجود ہے تو ایسی صورت میں اسے سودی پیسہ دینا درست نہیں ہے، سودی پیسہ مضطر آدمی کو دینا چاہیے یعنی کسی کی جان بچانے کی خاطر جیسے علاج، رہائی اور انتہائی پریشان حال یا پھر سماجی کام میں صرف کر دینا چاہیے۔
سوال: فلسطین میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کے لئے عام آدمی کو کیا کرنا چاہئے اور اگر ہم کچھ نہ کرسکیں تو کیا ہم گنہگار ہوں گے؟
جواب: جب اہل فلسطین کے لئے آپ کچھ نہیں کرسکتے ہیں تو کیوں کر گناہ گار ہوں گے۔ اللہ تعالی فرماتا ہے کہ وہ اپنے بندوں پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا۔ ایسی صورت میں بندے کو جس کی طاقت نہ ہو اس کے بارے میں اس کا مواخذہ نہیں ہوگا۔
آپ فلسطین کے مسلمانوں کے لئے دعا کرنے کی استطاعت رکھتے ہیں، ان کی خیر و بھلائی اور سلامتی و عافیت کے لئے اللہ رب العالمین سے دعائیں کریں۔جو خاص لوگ اور اثرو رسوخ والے ہیں وہ اپنی ذمہ داری کے حساب سے مدد پہنچائیں۔
سوال: ایک شخص نے دوسرے شخص کو ہفتہ دس دن کے لئے ٹیکس سے بچنے کے لیے کچھ پیسے دئے مگر پیسہ رکھنے والے نے اس پیسے کو کسی جگہ انویسٹ کرکے منافع کمایا۔ دینے والے نے اس طرح کرنے کی کوئی بات نہیں کہی تھی اور جب دینے والے کو معلوم ہوا تو اس پہ کوئی اعتراض بھی نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ پیسہ دینے والا کیا منافع میں سے کچھ استعمال کر سکتا ہے قرض اتارنے کے لیے؟
جواب: ٹیکس بچانے کے لیے جس نے کسی کو پیسہ رکھنے کے لیے دیا اس نے قانونی اعتبار سے جرم کیا اور جس نے ایسے آدمی کا پیسہ اپنے پاس رکھا اس نے اس جرم پر اس کی مدد کی اس معاملے میں دونوں قانونی مجرم ہیں۔جس نے بطور امانت اپنے پاس کسی دوسرے کا پیسہ رکھا اسے اولا پیسہ  لینا ہی نہیں چاہیے اور اگرلیا بھی تو اسے ویسے ہی اپنے پاس محفوظ رکھنا چاہیے تھا۔ اس نے جو کمایا غلط طریقے سے کمایا۔
پیسہ دینے والے کو زائد پیسہ مانگنے کا حق نہیں ہے لیکن اگر اسے اپنی مرضی سے دوسرا آدمی کچھ دیتا ہے تو لینے میں حرج نہیں ہے۔
سوال: میرے دوست کے لڑکے کا ایکسیڈنٹ ہو گیا تھا۔ اس کی مدد کے لیے آپریشن کے واسطے میں نے پیسہ جمع کیا۔ بچہ تو فوت ہوگیا لیکن جمع کیا ہوا پیسہ میرے پاس ہے۔ اس میں ایسے دو لوگوں کا بھی پیسہ ہے جو شاید بنک کا سود ہوسکتا ہے۔ اس پیسے کو اس بچے کی بہن کی شادی یا غریب لوگوں کو دے سکتے ہیں؟
جواب: سودی پیسہ اضطراری صورت میں مجبور آدمی کے لئے صرف کرسکتے ہیں اور جس بچے کے علاج کے لئے خرچ کیا گیا جس میں سودی اور دوسرے قسم کے پیسے تھے اس میں کوئی حرج کی بات نہیں ہے۔اب جو پیسے بچ گئے ہیں اسے غریب و مسکین کی ضرورت پر خرچ کر سکتے ہیں، اسے عام یا امیر لوگوں پر خرچ نہیں کرسکتے ہیں، فقیر و مسکین کے مصرف میں خرچ کر سکتے ہیں۔
سوال: عشاء کی نماز میں نے وقت پر پڑھ لی تھی لیکن وتر معمول کے مطابق تہجد کے لئے چھوڑ رکھی تھی مگر تہجد میں نماز سے پہلے ہی مجھے حیض آگیا تو کیا سات دن بعد مجھے وتر پڑھنی ہوگی؟
جواب:جس عورت نے عشاء کی نماز پڑھ لی ہو اور وتر کی نماز باقی ہو اس حال میں اسے حیض آجائے تو پاک ہونے پر اسے اس وقت کی نماز پڑھنی ہے، وتر کی نماز اتنے دنوں کے بعد نہیں پڑھنی ہے۔
سوال: جب مجھے مغرب کے وقت حیض شروع ہوا تو گلابی سا تھا پھر میں نے وضو کرکے مغرب پڑھ لی، اس کے بعد ٹرانسپیرنٹ ہوگیا تب میں نے نیا وضو کرکے عشاء بھی پڑھ لی۔ اس کے بعد فجر تک باقاعدہ حیض شروع ہوا۔ کیا میری دونوں نمازیں ہوگئیں یا دہرانی پڑے گی اور رات سونے سے پہلے سرخی تھی، جب فجر میں اٹھی تب خشکی تھی اس لحاظ سے صرف فجر والی نماز قضا کرنا ہے یا مغرب و عشاء بھی قضا پڑھنا ہے؟
جواب: سوال سے بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ مغرب سے ہی حیض کی شروعات ہوئی ہے اس لئے اس وقت سے نماز چھوڑ دینی تھی کیونکہ حیض سے متصل جس کلر کا بھی خون آئے وہ حیض میں ہی شمار ہوتا ہے۔جب حیض سے پاکی حاصل ہوگی اس وقت مغرب اور عشاء کی نماز بھی دہرانی ہے۔ اور ہاں پچھلے عشاء کی وتر نماز پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے۔
سوال: ایک خاتون نے رمضان کے چھوٹے ہوئے روزے مکمل کرلئے ہیں اور اب شوال کے چھ روزے باقی ہیں اور شوال ختم ہونے میں بھی چھ دن ہیں۔ اگر وہ لگاتار چھ روزے رکھتی ہے تو آخری روزہ جمعہ کے دن ہوگا۔ اسے کسی خاتون نے کہا ہے کہ جمعہ کے دن نفلی روزہ نہیں رکھا جاسکتا ہے، کیا واقعی جمعہ کے دن روزہ نہیں رکھا جاسکتا ہے پھر تو اس بہن کے چھ روزے مکمل نہیں ہوں گے، وہ کیا کرے؟
جواب: حدیث کی روشنی میں خصوصیت کے ساتھ صرف اکیلا جمعہ کا روزہ رکھنا منع ہے لیکن آگے یا پیچھے دنوں کے ساتھ ملاکر جمعہ کا روزہ رکھنا منع نہیں ہے یعنی کوئی جمعرات اور جمعہ کا روزہ رکھے یا جمعہ اور ہفتہ کا روزہ رکھے یا مسلسل کئی دن روزہ رکھے جس میں جمعہ بھی داخل ہوتو اس میں حرج نہیں ہے صرف جمعہ کا ایک روزہ رکھنا منع ہے۔ کیا رمضان میں جمعہ نہیں آتا اور ہم رمضان میں جمعہ کا روزہ نہیں رکھتے ہیں؟
لہذا جس بہن کے شوال والے چھ روزے باقی ہیں وہ بلاشبہ لگاتار چھ روزے رکھ سکتی ہے اور اس حال میں جمعہ کا بھی روزہ رکھ سکتی ہے، اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔
سوال: کیا عورت حالت احرام میں ماسک استعمال کر سکتی ہے ؟
جواب:احرام کی حالت میں عورت ماسک لگا سکتی ہے اس میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن چہرے کے پردہ کے لیے ماسک کا استعمال صحیح نہیں ہے کیونکہ ماسک سے مکمل چہرے کا پردہ نہیں ہوتا ہے، چہرے کے پردہ کے لئے ضروری ہے کہ دوپٹہ کا استعمال کریں۔
سوال: کوئی عورت حج پر جانے سے حیض روکنے والی دوا کھائے مگر اپنے وقت پہ یا اس کے بعد اسپاٹنگ ہوجائے تو غسل کرکے پاک ہوسکتی ہے یا حیض کا حکم لگے گا؟
جواب:جو خاتون حج پر جائے اور سہولت کے ساتھ حج کرنے کے لئے مانع حیض گولی کا استعمال کرے تو اس میں حرج نہیں ہے لیکن اگر مانع حیض گولی کھانے کے باوجود حیض نہ رکے اور خون آنے لگے تو اس کو حیض کا خون ہی مانیں گے اور اس صورت میں غسل کرلینے سے عورت پاک نہیں ہو جائے گی بلکہ حیض منقطع ہونے پر غسل کرنے سے پاکی حاصل ہوگی۔
سوال: جب سفر کے لئے گھر سے نکلیں اور نماز کا وقت نہ ہوا ہو، ایئرپورٹ پہنچنے کے بعد نماز کا وقت ہوجائے اور ایئرپورٹ گھر سے قریب ہو، زیادہ دور نہ ہو اس صورت میں نماز قصر پڑھیں گے یا پوری پڑھنا ہے؟
جواب: سفر کرتے وقت قصر کرنے کا معاملہ اس وقت سے شروع ہوتا ہے جب مسافر اپنی بستی چھوڑ کر دوسری آبادی میں داخل ہو جائے۔
اگر ایئرپورٹ اپنی بستی میں داخل ہو تو وہاں قصر نہیں کریں گے لیکن ایئرپورٹ اپنی بستی سے باہر ہو اور عام طور سے ایئرپورٹ بستی سے باہر ہی ہوتا ہے تو ایسی صورت میں وہاں سے قصر شروع کر سکتے ہیں۔
سوال: ایک شخص کو پیسے کی شدید ضرورت ہے، وہ شخص کسی ایسے شخص سے قرض لے سکتا ہے جو گانجا وغیرہ کی تجارت کرتا ہے اور فی الحال اس سے قرض لینے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے؟
جواب: جس آدمی کی آمدنی حلال نہ ہو، حرام کی کمائی ہو ایسے آدمی سے قرض نہیں لیں گے کیونکہ اس کی آمدنی حرام کی ہے۔ حرام مال خود اس کے لئے بھی حرام ہے جو کما رہا ہے پھر دوسرا آدمی اس سے کیسے قرض لے سکتا ہے۔ ایسے آدمی سے قرض نہیں لیا جائے گا چاہے جو بھی صورتحال ہو، وہ آدمی اپنے اوپر حرام مال استعمال نہیں کرے گا اور پھر اس میں ایک طرح سے حرام کمائی کرنے والے سے قرض لینے میں اس کا تعاون اور اس کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ ایسے آدمی سے کسی طرح کا لین دین نہیں کرنا چاہیے پھر ایسے آدمی سے قرض کیوں کر لیا جائے گا۔ ہرگز ہرگز اس سے قرض نہیں لیا جائے گا ۔
سوال: کیا دعا میں یا رب کہنے کی کوئی فضیلت آئی ہوئی ہے اور کیا یہ دعا کی قبولیت کا ذریعہ ہے؟
جواب: دعا میں یا رب کہنے کی کوئی خاص فضیلت قرآن و حدیث میں وارد نہیں ہے۔ ہاں یہ بات ضرور ہے کہ اللہ تعالی نے اپنے ناموں کے ذریعہ پکارنے کا حکم دیا ہے اس لئے یہ دعا کے آداب میں سے ایک ادب کہیں گے بلکہ اسے قبولیت دعا کے اسباب میں سے کہیں گے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اللہ کے صفات کا وسیلہ لگا کر دعا کرنا جائز ہے اور قرآن و حدیث میں یا رب کے ذریعہ بہت ساری دعائیں منقول ہیں لہذا ہم بھی اس طرح دعا کرسکتے ہیں بلکہ اللہ کے جتنے اسماء ہیں ان سارے اسماء کا وسیلہ لگا کر دعا کرنا بہتر و افضل ہے۔
سوال: ماں کی آنکھ کا آپریشن ہوا ہے، اس میں پانی لگنے سے ڈاکٹر نے منع کیا ہے تو ایسی صورت میں وضو کیسے کرنا ہوگا؟
جواب: وضو میں آنکھوں کے اندر پانی ڈالنے کی ضرورت نہیں پڑتی ہے بلکہ آنکھوں کے اوپری حصے کو دھونا ہوتا ہے۔ اگر ڈاکٹر نے اوپری حصے پر بھی پانی لگنے سے منع کیا ہے یہاں تک کہ  تر ہاتھ بھی وہاں پر نہیں لگاسکتے تو ایسی صورت میں وضو کرتے وقت پورے چہرے کو دھو لے اور آنکھ کے برابر جگہ چھوڑ دے اور اگر اس جگہ تر ہاتھ پھیرنا ممکن ہو تو آنکھوں پر تر ہاتھ پھیر لیا جائے ،وضو کے لئے باقی اعضائے وضو جس طرح دھلے جاتے ہیں اس طرح دھلے جائیں۔

مکمل تحریر >>

Monday, April 28, 2025

آپ کے سوالات اور ان کے جوابات(68)

آپ کے سوالات اور ان کے جوابات(68)

جواب از: شیخ مقبول احمد سلفی حفطہ اللہ
جدہ دعوہ سنٹر، حی السلامہ - سعودی عرب

سوال:ایک خاتون ہمیشہ ایام بیض کا روزہ رکھتی ہے لیکن اس ماہ شوال کی تیرہ تاریخ سے اس نے اپنے رمضان کے چھوٹے روزوں کی نیت کرکے روزہ رکھنا شروع کیا تو کیا اس کا ایسا کرنا درست ہے یا پھر اس کو پہلے ایام بیض کا روزہ رکھ کے پھر چھوٹے روزے رکھنے پڑیں گے؟
جواب: اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے، ایام بیض کی حیثیت سے مہینے میں کبھی بھی تین روزہ رکھا جاسکتا ہے، ضروری نہیں کہ تیرہ، چودہ اور پندرہ کو ہی رکھا جائے۔
اس وجہ سے شوال کی تیرہ تاریخ سے رمضان کے قضا روزہ رکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
سوال: اگر کوئی کسی کا بچہ گود لیتا ہے تو پھر قیامت کے دن سوال کس سے ہوگا اس کے اصلی ماں باپ سے یا اس سے جس نے اسے پالا ہے؟
جواب:اگر بچے کی تعلیم و تربیت اور اس کی دیکھ ریکھ کے بارے میں سوال ہے تو اس سلسلے میں یہ دیکھا جائے گا کہ اس میں والدین کا قصور ہے یا نہیں؟
اگر والدین نے ضرورت مند کو اس کی خوشی کے ساتھ گود لینے کے لیے بچہ دیا تو اب ایسی صورت میں اس بچے کی تعلیم و تربیت اور دیکھ ریکھ گود لینے والے کے ذمہ ہے۔ اگر گود لینے والا بچے کی تعلیم و تربیت میں کوتاہی کرتا ہے تو اس معاملے میں صرف گود لینے والے سے قیامت میں سوال ہوگا کیونکہ اسی نے اس بچے کی ذمہ داری اپنے سر لی تھی۔
سوال: اگر عورت حیض کی حالت میں ہو اور بارہ ذوالحجہ کو پاکی حاصل ہو تو طواف حج اور سعی کے بارے میں کیا حکم ہے؟
جواب:یوم النحر کو طواف افاضہ کیا جاتا ہے۔ اگر عورت اس دن حیض کی حالت میں ہو تو جب پاک ہوگی اس وقت طواف افاضہ اور حج کی سعی کرے، اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے یعنی ضرورت کی بنیاد پر طواف افاضہ اور سعی کو مؤخر کرسکتے ہیں۔
سوال: ایک سال کچھ مہینے پہلے ایک بیوہ عورت کا سترسالہ مرد سے دوسرا نکاح ہوا تھا اور وہ ایک دن بھی شوہر کے ساتھ نہیں رہی۔ فقط دعا سلام اور کبھی کبھار بات چیت ہوتی۔ ابھی اچانک اس کے شوہر کا انتقال ہوگیا ہے۔ ایسی صورت میں اس عورت کے لیے عدت ہے یا نہیں اور وہ پانچ چھ دن کے اندر دوسرے ملک سفر کرنے والی تھی، ٹکٹ بھی بک ہو گیا ہے، کیا وہ سفر کرسکتی ہے؟
جواب: چونکہ اس خاتون کا نکاح ہوا تھا اور اس کا شوہر ستر سال کا ہو یا اس سے بھی زیادہ سال کا ہو، اس کی وفات کی وجہ سے اس کی بیوی پر چار ماہ دس دن عدت گزارنا فرض ہے اور اس عدت میں بلاضرورت وہ کہیں بھی سفر نہیں کرسکتی ہے اسے اپنے گھر رہنا ہے اور وہیں پر عدت گزارنا ہے لہذا وہ اپنے سفر کا ٹکٹ کنسل کردے اور عدت اپنے گھر گزارے۔ اگر سفر کرنا اس کے لئے بہت ہی ناگزیر ہو تو وہ سفر سکتی ہے ورنہ اپنے گھر مکمل عدت گزارے۔
سوال: کوئی عورت اپنے ہی شہر میں گھر سے ایک گھنٹہ دور جائے اور وہاں اسے پتہ نہیں کہ نماز پڑھنے ملے گی یا نہیں تو کیا وہ اپنے گھر میں جمع اور قصر کرسکتی ہے؟
جواب:گھر پر رہتے ہوئے نہ نماز کو اپنے وقت سے پہلے ادا کرنا ہے، نہ ہی جمع کرنا ہے اور نہ ہی قصر کرنا ہے۔ ان تینوں کاموں میں سے کسی کی اجازت نہیں ہے۔
گھر سے نکلتے وقت عورت کے لئے اپنے گھر میں صرف وہی نماز پڑھنا ہے جس وقت کی نماز ہے اور مکمل نماز پڑھنا ہے۔ اور گھر سے نکلنے کے بعد جس جگہ نماز کا وقت ہو اس جگہ نماز پڑھنا ہے۔ اگر کسی عذر کی وجہ سے اس جگہ نماز نہیں پڑھ سکے تو پھر راستے میں جہاں ممکن ہو یا گھر پہنچ کر نماز ادا کرنا ہے۔
سوال: بینک اکاؤنٹ میں انٹریسٹ کا جو پیسہ آتا ہے اس کو ہم تو کام میں نہیں لے سکتے ہیں لیکن جیسے فون پے کے ذریعہ انجانے میں وہ پیسے بھی کام میں لے لئے تو کیا حکم ہے کیونکہ ہمیں اندازہ نہیں رہتا کہ کتنے پیسے انٹریسٹ کے تھے؟ دوسری بات یہ ہے کہ سودی پیسوں کو نکال کر کسی غریب مسلم کی مدد کرنا جائز ہے؟
جواب:جس نے اپنے بینک اکاؤنٹ میں پیسہ جمع کیا ہے، اسے معلوم ہونا چاہیے کہ ہم نے کتنا جمع کیا ہے۔ اس کے لیے اتنا ہی پیسہ خرچ کرنا جائز ہے جتنا جمع کیا ہے چاہے بینک سے نکال کے خرچ کرے یا موبائل ایپس جیسے فون پے وغیرہ سے خرچ کرے۔ نجی پیسہ سے زائد پیسہ سود ہے جس کا استعمال اس کے لیے حرام ہے۔
جب نجی پیسہ اور سودی پیسہ کی مقدار کا علم نہ ہو تو بینک سے رابطہ کرکے وہاں سے مکمل تفصیل طلب کرسکتے ہیں۔
بینک کا سودی پیسہ کسی مضطر آدمی کو دے سکتے ہیں یعنی جیسے پیسے کی شدید حاجت ہو اور اس کے پاس کوئی سبیل نہ ہو خواہ علاج ، غذا، رہائی اور دیگر بنیادی ضرورت کے لئے ہو۔ اسی طرح رفاہی اور سماجی کاموں میں اس کو صرف کرسکتے ہیں۔
سوال: ایک عورت جوائنٹ فیملی میں رہتے ہوئے کام کاج کے وقت ماسک پہن لے اور سوٹ کے ساتھ بڑا دوپٹہ اوڑھ لے تو کافی ہے جبکہ گھر میں نامحرم بھی ہو۔ اسی طرح باہر جاتے وقت نقاب لگانا ضروری ہے نیز کسی رشتہ دار کے گھر جائیں تو وہاں عبایا اتار سکتے ہیں جبکہ سوٹ و بڑا دوپٹہ رہے یا عبایا نہیں اتار سکتے ہیں؟
جواب:اللہ تعالی نے عورت کو غیر محرموں سے مکمل طور پر پردہ کرنے کا حکم دیا ہے۔ پردہ کرنے کے لئے کوئی مخصوص لباس لگانے کی ضرورت نہیں ہے، جس کپڑے سے بھی پردہ ہوجائے اس کا استعمال کرنا جائز ہے۔ گھر سے نکلنے کے لئے بھی برقع پہننے یا عبایا لگانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اصلا پردہ مقصود ہے خواہ کوئی بھی ساتر لباس لگائیں۔ قمیص، شلوار اور چادر میں پردہ ہو جاتا ہے، ان کپڑوں کے ساتھ عورت گھر میں رہتے ہوئے بھی غیر محرموں سے پردہ کرسکتی ہے، ان کپڑوں میں پردہ کرتے ہوئے باہر بھی نکل سکتی ہے اور انہی کپڑوں میں دوسرے رشتہ داروں کے گھر بھی پردہ کر سکتی ہے، کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ ان کپڑوں کے علاوہ کوئی دوسرا کپڑا استعمال کرتی ہے جس سے مکمل بدن کا پردہ ہو جائے تو اس کا بھی استعمال کرنا جائز ہے۔
ایک بات یاد رکھیں ماسک سے پورے چہرے کا پردہ نہیں ہوتا ہے اس لیے چہرے کے پردہ کے لیے ماسک کا استعمال صحیح نہیں ہے آپ دوپٹے سے مکمل چہرہ غیرمحرم سے چھپائیں۔
سوال: ایک عورت پر اس کا شوہر اور اس کی پہلی بیوی یعنی سوکن بہت ظلم کررہے ہیں۔ سوکن کے لئے اس کی زبان سے بددعا نکلتی ہے کیونکہ وہ بہت مظلوم ہے۔ اس کا شوہر کہتا ہے تم اس کو جو بدعا دے دے رہی ہو اس سے اس کے گناہ جھڑ رہے ہیں،کیا یہ بات ٹھیک ہے؟
جواب: پہلی بات یہ ہے کہ ظلم جس قدر بھی ہو کسی بھی خاتون کے لیے جائز نہیں ہے کہ دوسرے کے حق میں بددعا کرے۔
دوسری بات یہ ہے کہ اپنے معاملے کو دو خاندان کے ذریعہ یا پنچایت بٹھاکر حل کرنے کی کوشش کرے تاکہ اسے انصاف مل سکے نیز اگر خود میں بھی غلطی ہو تو اس کی اصلاح کرے۔
تیسری بات یہ ہے کہ اگر بیٹھک اور لوگوں کی نصیحت سے یہ معاملہ حل نہ ہو اور ظلم اس قدر ہو کہ برداشت سے باہر ہو تو طلاق یا خلع لے کر الگ جائے اور صبر کرنا ممکن ہو تو صبر کرے، اللہ کے یہاں اس کا بہترین بدلہ ہے تاہم لعن و طعن اور بددعا سے پرہیز کرے۔
سوال: کیا مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں مکروہ اوقات میں نوافل ادا کرسکتے ہیں؟
جواب: مکروہ اوقات میں نوافل ادا کرنا دنیا کے ہر کونے میں مکروہ ہے خواہ مسجد نبوی ہو یا آپ کے گاؤں کی مسجد ہو یا آپ کا گھر ہی کیوں نہ ہو۔ تمام جگہوں کے لیے یہ حکم یکساں ہے تاہم مکروہ اوقات میں سبب والی نمازیں پڑھنا ہر جگہ جائز ہیں خواہ مسجد نبوی ہو اور کوئی اور مسجد۔
سوال: کیا مرد حالت احرام میں چمڑے کی جوتی پہن سکتا ہے جبکہ اس جوتی سے اس کا پنجہ بند رہتا ہے اور ٹخنہ کھلا رہتا ہے صرف سعی کے وقت؟
جواب:مرد احرام کی حالت میں ایسا جوتا پہن سکتا ہے جو ٹخنے سے نیچے ہو خواہ وہ چمڑے کا ہو یا پلاسٹک کا ہو یا کسی اور چیز کا ہو، چپل بھی پہن سکتا ہے جس سے پورا پیر کھلا رہتا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ سعی کی جگہ پر کسی کو جوتا چپل نہیں پہننا چاہئے تاکہ وہ جگہ صاف ستھری رہے، وہاں لوگ سعی کرتے ہیں، بیٹھتے ہیں اور نماز کے وقت نماز بھی ادا کرتے ہیں۔
سوال: میری ایک سہیلی ہے جس کے والد کا انتقال ابھی حال ہی میں ہوا ہے ان کی والدہ انڈیا میں عدت میں ہے لیکن دو لڑکے یو ایس میں رہتے ہیں۔ وہ لوگ چاہتے ہیں کہ ان کی والدہ اور بہن وہیں آجائے تو کیا اب جو باقی ایام ہیں عدت کے وہ وہاں جاکر مکمل کر سکتی ہے؟
جواب: جس خاتون کا شوہر انتقال کیا ہے اور وہ ابھی عدت میں ہے اس کے لیے جائز نہیں ہے کہ بیٹے کی چاہت کی وجہ سے اپنا گھر چھوڑ کر اس کے پاس جائے۔ اگر بیٹے کو والدہ کی زیادہ فکر ہے تو اسے خود اپنی والدہ کے پاس آنا چاہیے کیونکہ گھر میں عدت گزارنا یہ اللہ کا حکم ہے، اللہ کے حکم کو توڑ کر بندے کی چاہت نہیں پوری کی جائے گی۔
سوال: ایک بہن کا سوال ہے کہ اس کی بہو کے پانچ ماہ کا حمل ضائع کردیا ہے۔ ڈاکٹروں نے کہا کہ بچہ کے اعضاء(ناک) نہیں بنی ہے، اسکی کئی طرح کے اسکین لیا اور حمل کو ضائع کردیا ہے۔ کیا اس بچہ کی دیت واجب ہے اور کیا اس بچہ کے والدین کو حمل ضائع کرنے پر گناہ ملے گا؟
جواب: اگر کوئی آدمی زندہ ہو اور اس کی ناک کٹی ہو تو کیا اس آدمی کو قتل کیا جاسکتا ہے۔ ہرگز قتل نہیں کیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح ماں کے پیٹ کا بچہ ہے، وہ بھی ایک جان ہے اس کا ضائع کرنا، اس کا قتل کرنا ہے۔ اور جس نے بھی اس قتل میں ساتھ دیا ہے والدین، رشتہ دار اور داکٹر سب گنہگار ہیں اس لئے سب سے پہلے ان سب لوگوں کو اللہ سے اپنے گناہ کی معافی مانگنا چاہئے اور سچی توبہ کرنی چاہئے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اس صورت میں دیت اور کفارہ بھی ہے کیونکہ چار ماہ کے بعد بچے میں روح پھونک دی جاتی ہے یعنی ایک زندہ بچہ کا قتل کیا گیا ہے۔ ورثاء کے معاف کرنے سے دیت معاف ہوجاتی ہے کیونکہ یہ بندوں کا حق ہے جو معاف کرنے سے معاف ہوجاتا ہے مگر کفارہ معاف نہیں ہوگا کیونکہ یہ اللہ کا حق ہے۔ کفارہ کی صورت میں ایک غلام آزاد کرنا ہے یا مسلسل دو ماہ کے روزے رکھنے ہیں۔
سوال : ایک عورت کو ماہواری ہر مہینے سات دن چلتی ہے اور آٹھویں دن وہ پاک ہوکر اپنی نماز شروع کر دیتی ہے۔ ابھی دو تین مہینے سے ماہواری دس بارہ دن آتی ہے مگر اس بار شوال کے مہینے میں تیسری تاریخ کو ماہواری آئی اور آج سولہ تاریخ ہے ابھی تک چل رہی ہے یعنی ماہواری کو تیرہ چودہ دن ہوگئے ہیں تو کیا وہ پاک ہوکر نماز اور اپنے روزے شروع کر سکتی ہے یا وہ ماہواری کی وجہ سے اپنی نماز اور روزے شروع نہیں کر سکتی ہے؟
جواب: جیساکہ سوال سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک خاتون کو ان دنوں مسلسل تیرہ چودہ دن سے خون آرہا ہے۔ اگر یہ خون حیض کے صفات والا ہے اور بغیر انقطاع کے تسلسل کے ساتھ آرہا ہے تو یہ سارے ایام حیض کے مانے جائیں گے۔
حیض کے صفات تین ہیں، اس کا رنگ کالا ہو، وہ گاڑھا ہو اور بدبودار ہو۔
اگر مسلسل پندرہ دن تک خون آئے تو پندرہ دن تک حیض مانا جائے گا لیکن پندرہ دن کے بعد بھی اگر خون جاری رہے تو پھر پندرہ دن کے بعد غسل کر کے نماز کی پابندی کرے گی کیونکہ زیادہ سے زیادہ حیض کی مدت پندرہ دن ہی مانی جاسکتی ہے، پندرہ دن کے بعد استحاضہ کا خون مانا جائے گا۔
سوال: والد اولاد پر غصہ کرے اور غصہ میں بددعا دیں تو کیا تب بھی اولاد پر والد کا احترام کرنا واجب ہے؟
جواب: والد کا احترام ہرحال میں اولاد پر واجب ہے کیونکہ اللہ نے اولاد کو والدین کا احترام کرنے کا حکم دیا ہے۔ اگر والدین اپنے حق کی ادائیگی میں کوتاہی کرے یا اولاد کو ناحق طور پر بددعا دے یا بےجا طور پر غصہ کرے تو یہ ان کی غلطی ہے اس پر اللہ کے یہاں ان کی پکڑ ہوگی لیکن اس وجہ سے اولاد اپنے والدین کا احترام ترک نہیں کرے گی۔ والدین کے اولاد پر بے پناہ احسانات ہوتے ہیں جن کا بدلہ اولاد جیتے جی کبھی نہیں چکا سکتی ہے۔ کم از کم ان احسان کے بدلے حتی المقدور خدمت ہی کیا کرے۔
یہاں پر والدین کے لئے بھی ایک نصیحت ہے کہ آپ اپنی اولاد پر بے جا ظلم نہ کریں، ان کو نہ ستائیں، نہ پریشان کریں اور نہ بددعا دیں۔ آپ کے ذمہ عدل و انصاف اور اولاد کے ساتھ نرمی ہے۔ اگر اولاد میں سے کوئی زیادتی بھی کرے پھربھی والدین صبر کریں اور اپنی اولاد کو کبھی بھی صورت میں بددعا نہ دیں۔ آخر اولاد تو آپ کی ہی ہیں۔ ان کو آپ کے علاوہ کس سے خیر کی امید ہوسکتی ہے۔
عموما دیکھا جاتا ہے کہ والدین کی ناانصافی ، ظلم یا تعلیم و تربیت میں کوتاہی کی وجہ سے اولاد نافرمان بنتی ہے لہذا اپنے اولاد کو تعلیم و تربیت دیں، کئی اولاد ہوں تو سب سے یکساں محبت اور لین دین میں انصاف برتیں اور نرمی کا معاملہ کریں۔
سوال: ایک خاتون کے پاس ساڑھے چار تولہ سونا ہے اور نو لاکھ نقدی ہے۔ کیا وہ ان دونوں کو جمع کرکے زکوٰۃ ادا کرے گی یا سونا کا حساب الگ ہوگا جبکہ سونا کا وزن ساڑھے سات تولہ سے کم ہے؟
جواب: سونا نصاب کو نہیں پہنچا ہے تو سونے کی زکوۃ نہیں دینی ہے لیکن نو لاکھ نقدی زکوۃ کے نصاب کو پہنچ رہی ہے، اگر اس پر ایک سال گزر گیا ہے تو نو لاکھ کی زکوۃ ادا کریں گے۔ اور نولاکھ کی زکوۃ بائیس ہزار پانچ سو روپے بنتے ہیں۔
سوال: کیا رمضان کے چھوٹے ہوئے روزے اگلے شعبان کے مہینے میں رکھ سکتے ہیں کیونکہ حدیث میں ہے کہ عاشہ رضی اللہ تعالی عنہا چھوٹے روزے شعبان کے مہینے میں رکھتی تھیں؟
جواب: رمضان کا چھوٹا ہوا روزہ اگلے رمضان سے پہلے کبھی بھی رکھ سکتے ہیں،شعبان میں بھی رکھ سکتے ہیں اس میں کوئی حرج کی بات نہیں ہے۔ اس سلسلے میں سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ عنہا کا عمل صحیح حدیث میں مذکور ہے کہ وہ شعبان میں رمضان کے چھوٹے ہوئے روزے قضا کرتی تھیں۔
سوال: اگر پڑوسی کے درخت کے پھل ہمارے صحن اور آنگن میں گرتے ہیں تو اس کو ان کی اجازت کے بغیر کھا سکتے ہیں یا ان کی اجازت لینی ہوگی اور دوسرا سوال یہ ہے کہ انہوں نے ایک مرتبہ اجازت دے دی ہے تو وہ کافی ہوگی یا ہر بار اجازت لینی ہوگی؟
جواب: جس کا درخت ہوتا ہے پھل بھی اسی کا ہوتا ہے اس لیے اگر اس کے درخت کا پھل توڑ کر یا گرا ہوا اس کی اجازت کے بغیر نہیں کھانا چاہیے۔
کسی دن اس نے اپنے صحن میں گرے ہوئے پھل کھانے کی اجازت دی پھر بھی شک و شبہ ہو رہا ہے کہ کہیں یہ وقتی اجازت ہو تو اس سے ہمیشہ کے لیے اجازت لے لیں کہ کیا ہمیشہ آپ کے درخت کا گرا ہوا پھل ہم استعمال کر سکتے ہیں۔ اگر وہ ہمیشہ کے لیے اجازت دے دے تو ہمیشہ کھایا کریں، ہمیشہ کے لیے اجازت نہیں دے تو جس طرح وہ اجازت یا حکم دے اس کے حساب سے عمل کریں۔
سوال: جس نے قرآن کو ترجمہ کے ساتھ اکثر پڑھا ہوا ہے مگر وہ صرف عربی میں زیادہ قران پڑھتا ہے تو کیا اس کو سزا ہوگی۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ وہ اندھوں کی طرح قیامت میں اُٹھایا جائے گا کیا یہ بات صحیح ہے؟
جواب: قرآن کے ہمارے اوپر پانچ حقوق ہیں ان سارے حقوق کو ادا کرنا چاہیے۔
وہ پانچ حقوق اس پر ایمان لانا، اسے پڑھنا، اسے سمجھنا، اس پر عمل کرنا اور اس کی تبلیغ کرنا ہیں۔ ان پانچوں حقوق کو ادا کرنے سے قرآن کا حق ادا ہوتا ہے۔
جو آدمی قرآن کی برابر تلاوت کیا کرے اسے تلاوت کا اجر ملے گا، یہ کوئی گناہ کا کام نہیں ہے کہ اس پر سزا ملے گی۔ جس نے کہا کہ اس پر سزا ملے گی، وہ غلط کہا ہے۔ دین کے بارے میں بلا دلیل اس طرح کی باتیں کرنا جہالت اور بے دینی ہے بلکہ ایسے شخص کو سزا ملے گی تو بے دلیل اس قسم کی باتیں کرتا ہے۔
سوال: اگر کسی کو دوپہر میں احتلام ہوجائے لیکن غسل اس طرح کرے کہ سر کو پانی سے نہ دھوئے بلکہ صرف تر ہاتھ دو یا تین بار سر پر پوری طرح سے بالوں کی جڑوں تک پھیر دے اور باقی جسم کو پانی سے دھو لے تو کیا ایسا غسل شرعاً کافی ہوگا اور اگر اسی طرح کے غسل کے بعد نماز ادا کی جائے تو کیا وہ نمازیں درست شمار ہوگی؟
جواب: احتلام سے غسل فرض ہوجاتا ہے اور جس پر غسل فرض ہوجائے اسے پورے جسم کو پانی سے دھلنا ضروری ہے۔ سر پر بھی پانی بہاکر پورے سر کو بالوں سمیت حتی کہ اس کی جڑوں تک بھی پانی پہنچانا ہے۔ صرف تر ہاتھ سر پر پھیرنے سے غسل نہیں ہوگا کیونکہ اس طرح سے پانی پورے سر کو نہیں دھوسکے گا۔
اس طرح غسل کرنے سے نہ غسل ہوگا اور نہ نماز ہوگی کیونکہ جب غسل نہیں ہوا تو نماز بھی نہیں ہوگی اور پڑھی گئی نماز کو پھر سے دہرانا ہوگا۔ غسل کرنے کا مسنون طریقہ میں نے تفصیل سے اپنے مضمون "غسل کا مسنون طریقہ اور اس کے بعض مسائل" میں بیان کیا ہے اسے ضرور پڑھیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ اسلام نے غسل کا ایک طریقہ ہمیں بتایا ہے جو ہرکس وناکس کو معلوم ہے، اس سے ہٹ کر کوئی دوسرا طریقہ اختیار کرتا ہے تو اسے عمل کرنے سے پہلے اس کی حیثیت معلوم کرنا چاہئے پھر صحیح طریقہ پر عمل کرنا چاہئے۔
سوال:ایک مسجد میں قالین کے نیچے سردی سے بچنے کے لئے گدے بچھائے گئے تھے، اب گرمی آچکی ہے ابھی مسجد سے ان کو ہٹایا نہیں گیا ہے، ایسے قالین پر نماز کا کیا حکم ہے جس کے نیچے گدے ہوں؟
جواب:ضرورت کی بنا پر مسجد میں قالین کے نیچے پتلے گدے بچھانے اور اس پر نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں۔ صحابہ کرام بھی گرمی کی شدت کی وجہ سے سجدہ کی جگہ پر کپڑے کا کنارہ رکھ لیتے۔ ویسے نماز پڑھنے کے واسطے قالین کافی ہے اور اس کے نیچے گدا نہ ہو تو بہتر ہے کیونکہ سجدے میں اصل زمین پر پیشانی کو قرار حاصل ہونا چاہیے۔
سوال: اگر کسی لڑکی کو آٹھ نو سال میں حیض آنے لگے اور وہ کمزور ہو تو کیا وہ روزہ چھوڑ سکتی ہے؟
جواب: جس لڑکی کو حیض آنے لگے وہ بالغ ہوجاتی ہے ایسی صورت میں وہ دین کا مکلف ہوجاتی ہے۔ اب وہ لازمی طور پر نماز کی پابندی کرے گی اور لازمی طور پر رمضان کا فرض روزہ رکھے گی۔ نو دس سال کی لڑکی جسمانی طور پر کمزور بھی ہو پھر بھی وہ روزہ رکھ سکتی ہے، اس سے کم عمر کے بچے روزہ رکھتے ہیں۔ ہاں اگر کوئی بالغ لڑکی واقعی جسمانی اعتبار سے اس قدر کمزور ہو کہ وہ روزہ رکھنے کی استطاعت نہیں رکھتی ہو تو وہ بوڑھی عورت کے حکم میں ہوگی یعنی وہ ہر روزہ کے بدلے ایک مسکین کو فدیہ دے گی اور جس عمر سے وہ روزہ رکھنے کی استطاعت رکھے اس سال سے لازمی روزہ رکھے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر لڑکی بیمار نہ ہو تو نو دس سال کی بچی آرام سے روزہ رکھ سکتی ہے۔
سوال: ایک آدمی پاکستان میں پندرہ روزہ رکھا اور پھر سعودی آگیا ہے، یہیں پر عید کیا۔ چونکہ پاکستان میں ایک دن بعد سے روزہ رکھا گیا اس وجہ سے سعودی میں اس کا اٹھائیس روزہ ہوا تو کیا اسے ایک روزہ رکھنا ہوگا یا اس کا معاملہ ختم ہوگیا، اس بارے میں کیا حکم ہے؟
جواب: اس میں ایک مسئلہ یہ ہے کہ اگر اس نے رمضان میں بیماری کی وجہ سے یا سفر کی وجہ سے کوئی روزہ چھوڑا تھا تو اسے اس روزے کی قضا کرنا ضروری ہے ۔ دوسری بات یہ ہے کہ پاکستان سے سعودی آنے پر اس کا مکمل روزہ اٹھائیس بنتا ہے تو اسے ایک روزہ قضا کرنا پڑے گا کیونکہ مہینہ کم ازکم انتیس دن کا ہوگا۔
سوال: ہم نے تو دو ہی عید کی نماز سنی ہے مگر کچھ لوگ شوال کا روزہ رکھنے کے بعد عید کی نماز ادا کرتے ہیں ، اسلام میں اس کی کیا حقیقت ہے؟
جواب: یہ بات صحیح ہے کہ کچھ لوگ شوال کا روزہ رکھنے کے بعد پھر عید کی طرح اگلا دن مناتے ہیں یعنی اس دن غسل کرتے ہیں، نیا لباس پہنتے ہیں اور اچھا کھانا پکاتے ہیں اور عید کی نماز پڑھتے ہیں۔ اس عمل کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ شوال کے چھ روزے رکھنے کے بعد اور کوئی عمل نہیں کرنا ہے، محض چھ روزے رکھنا ہے ، رمضان کا روزہ اور شوال کا چھ روزہ رکھنے سے پورے سال کا اجر ملتا ہے۔ جو لوگ شوال کا نفل روزہ رکھ کر عید کی طرح دن مناتے ہیں اور عید کی نماز پڑھتے ہیں وہ بدعت کا ارتکاب کرتے ہیں اور بدعت کرنے سے ثواب نہیں ملتا ہے بلکہ الٹا گناہ ملتا ہے۔ اور یہ عمل مقلدین احناف میں پایا جاتا ہے۔
بڑی حیرت کا مقام ہے کہ ایک طرف امام ابوحنیفہ ؒ کا کہنا ہے کہ شوال کا روزہ رکھنا مکروہ ہے اور دوسری طرف حنفی لوگ شوال کا روزہ رکھنے میں اس قدر غلو کرتے ہیں کہ اس میں عید بھی مناتے ہیں۔ اللہ کی پناہ
کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں ہے کہ شوال کا روزہ رکھ کر عید منائے، آپ اگر کسی کو ایسا کرتے ہوئے دیکھتے ہیں تو اسے منع کریں کیونکہ ایسا کرنے سے گناہ ملے گا۔

سوال: لاکڑاکاکڑا کی بیماری میں ہم شریعت کے رو سے کیسے علاج کریں۔یہاں کے لوگ اس بیماری کو لیکر متعدد قسم کے غیراسلامی رسوم گھرے ہوئے ہیں؟
جواب:جلد سے متعلق ایک بیماری جسے لاکڑا کاکڑا یا خسرہ یا چکن پاکس بھی کہتے ہیں، اس میں جسم پر دانے نکل آتے ہیں۔ یہ ایک وائرس ہے جو دوسروں کو بھی لگ سکتا ہے اس لئے اس میں احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔
اسلام نے ہمیں بیماری کے وقت اس کا علاج کرنے کا حکم دیا ہے، یہ بھی ایک بیماری ہے اس کے لئے طبیب سے مراجعہ کیا جائے گا اور مریض کا علاج کرایا جائے گا اور طبیب جس قسم کا احتیاط بتائے اس پر عمل کیا جائے گا۔ سنی سنائی باتوں اور ضعیف الاعتقادی والے کاموں اور رسم و رواج سے پرہیز کرتے ہوئے، یہ طب کا مسئلہ ہے تو اس بارے میں طبیب کے مشورے اور رائے کو ترجیح دینا ہے اور ہمہ شمہ کی فضول باتوں پر دھیان نہیں دینا ہے۔
سوال: ایک حدیث ہے کہ عورت اگر اپنے شوہر کے بدن سے خون اور پیپ اپنی زبان سے صاف کرے پھر بھی وہ اپنے شوہر کی شکرگزاری پوری طرح سے نہیں ادا کرپائے گی۔ میرا سوال یہ ہے کہ ایک عورت کو اپنے شوہر کے لئے اتنی شکرگزاری کیوں ادا کرنی ہے؟
جواب:یہ بات صحیح حدیث میں مذکور ہے کہ عورت شوہر کے زخم کا خون وپیپ چاٹے پھر بھی اس کا حق نہیں ادا ہوگا۔
عن أنس بن مالك رضي الله عنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : لا يَصْلُحُ لبَشَرٍ أن يسجدَ لبَشَرٍ ، ولو صَلَحَ أن يسجدَ بشرٌ لبَشَرٍ ، لَأَمَرْتُ المرأةَ أن تسجدَ لزوجِها من عِظَمِ حَقِّهِ عليها ، والذي نفسي بيدِه ، لو أَنَّ من قَدَمِهِ إلى مَفْرِقِ رأسِه قُرْحَةً تَنْبَجِسُ بالقَيْحِ والصَّدِيدِ ، ثم أَقْبَلَتْ تَلْحَسُه ، ما أَدَّتْ حَقَّه(صحيح الجامع:7725).
ترجمہ : حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہیکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : کسی آدمی کیلئے درست نہیں ہےکہ وہ کسی آدمی کو سجدہ کرے ، اگر کسی آدمی کا کسی آدمی کیلئے سجدہ کرنا درست ہوتا تو میں عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے ، اسلئے کہ اسکا حق بہت بڑا ہے ۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اگر شوہر کے سر سے پیر تک زخم ہو جس سے خون و پیپ بہہ رہا ہو ، پھر عورت آگے بڑھکر اسے اپنی زبان سے صاف کرے تو بھی اسکے حق کو ادا نہ کر پائے گی ۔
جہاں تک آپ کا سوال ہے کہ شوہر کی اس قدر شکر گزاری کیوں ہو تو اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالی نے مرد کو بیوی کے مقابلہ میں فوقیت دی ہے یعنی مرد کو بڑا مقام دیا ہے کیونکہ وہ عورت کے لئے حاکم ہوتا ہے، اس کی دیکھ ریکھ اور معاشی کفالت کرتا ہے۔ اللہ کا فرمان ہے:
الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ بِمَا فَضَّلَ اللَّهُ بَعْضَهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ وَبِمَا أَنفَقُوا مِنْ أَمْوَالِهِمْ(النساء:34)
ترجمہ:مرد عورت پر حاکم ہیں اس وجہ سے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے اور اس وجہ سے کہ مردوں نے مال خرچ کئے ہیں۔
اس کے بدلے عورت کے ذمہ ہے کہ وہ اپنے شوہر کا شکر بجالائے اور اگر وہ شوہر کا شکرگزار نہیں بنتی تو یہ بڑا ہی سنگین معاملہ ہوسکتا ہے یعنی شوہر کی عدم شکرگزاری عورت کو جہنم میں لے جاسکتی ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں :
يا معشر النساء تصدقن، فإني رأيتكن أكثر أهل النار . فقُلْن : وبم ذلك يا رسولَ اللهِ ؟ قال تكثرن اللعن، وتكفرن العشير(صحيح البخاري:1462)
ترجمہ:اے عورتوں کی جماعت! صدقہ و خیرات کیا کرو بیشک مجھے دکھایا گیا ہے کہ جہنم میں تمہاری اکثریت ہے تو وہ کہنے لگیں اے اللہ کے رسول وہ کیوں ؟ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم گالی گلوچ بہت زیادہ کرتی ہو اور خاوند کی نافرمانی یعنی ناشکری اور احسان فراموشی کرتی ہو ۔
سوال: کیا اسلام میں مایوں مہندی کی ایسی رسم کرنا جائز ہے جس میں ڈھول، میوزک، گانا، پیلے پھولوں کے گجرے اور بالغ لڑکیوں کا نامحرم رشتوں کے سامنے لڈی ڈالنا، ناچنا اور آتش بازی وغیرہ شامل ہو۔ اور اس میں شرکت کرنا کہاں تک جائز ہے۔ اگر اس قسم کی محفل میں شریک ہونے کے لئے شوہر ہی بیوی کو حکم دے تو کیا کرنا چاہئے جبکہ حکم نہ ماننے سے شوہر کی مہینوں ناراضگی، سخت کشیدگی اور کدورتوں کا سامنا ہوسکتا ہے۔ ایسے حالات میں بیوی کے لئے کیا حکم ہے، کیا وہ ایسی محفل میں جانے کے لئے شوہر کے حکم کی پابند ہوگی یا پھر شرکت کرکے گناہ گار ہوگی؟
جواب:عورتوں کے لئے مہندی لگانے میں حرج نہیں ہے مگر جب اس میں مایوں مہندی جیسی رسم و رواج داخل ہوجائے جس میں مختلف قسم کی خرافات ہوتی ہیں تب اس سے بچنا چاہئے۔ رسم ورواج میں ناجائز اور حرام کام بھی شامل ہوجائے پھر وہ کام کرنا حرام ٹھہرے گا۔ ناچ گانے، رقص و سرود، مردوں سے اختلاط، آتش بازی اور موسیقی یہ سب اسلام میں حرام ہیں، کسی مسلمان مرد یا عورت کے لئے اس طرح کی محفل میں شرکت کرنا جائز نہیں ہے۔
اور کسی عورت کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے شوہر کی ایسی بات مانے جس میں اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی ہو۔ نبی ﷺ نے ہمیں حکم دیا ہے:
لا طاعةَ لِمخلُوقٍ في معصيةِ الخالِقِ(صحيح الجامع:7250)
ترجمہ: اللہ کی نافرمانی میں کسی مخلوق کی بات نہیں مانے گی۔
اس وجہ سے کوئی باپ یا بھائی یا شوہر کسی عورت کو اللہ کی نافرمانی والا کام کرنے کہے اس کو ٹھکرا دینا چاہئے۔ مذکوہ بالا صورت میں عورت کو ایسی محفل میں شرکت نہیں کرنا چاہئے حتی کہ اس معاملہ میں شوہر کا حکم بھی ٹھکرا دینا چاہئے۔
سوال: نماز میں سجدے کے بعد قیام کے لئے اٹھتے وقت انگلیوں کو آٹا گوندھنے کی طرح موڑ کر اٹھنا ہے یا بغیر موڑے ہوئے بھی اٹھ سکتے ہیں؟
جواب:اصل یہ ہے کہ دوسرے سجدہ سے اٹھتے وقت ہاتھوں کو زمین کا سہارا دے کر اٹھنا چاہئے جیساکہ صحیح بخاری (824) کی حدیث میں ہے۔ اور اس میں دونوں صورتیں جائز ہیں یعنی آٹا گوندھنے والی کیفیت کے ساتھ یا کھلے ہاتھ کے ساتھ۔ دونوں طریقے درست ہیں۔

مکمل تحریر >>