Wednesday, May 21, 2025

آپ کے سوالات اور ان کے جوابات(73)

 (73)آپ کے سوالات اور ان کے جوابات

جواب از : شیخ مقبول احمد سلفی حفظہ اللہ

جدہ دعوہ سنٹر، حی السلامہ- سعودی عرب


سوال: باہری ملک میں بینک اکاؤنٹ ہے جس میں اصولی طور پر سالانہ کچھ سودی رقم ملتی ہے۔ بات کرنے کے بعد بھی وہ رقم آرہی ہے جبکہ ہم وہ لینا نہیں چاہتے، ایسی صورت میں ان پیسوں سے کیا کریں اور کس کو دیں؟

جواب:سب سے پہلی بات یہ ہے کہ سودی بینک میں اپنا اکاؤنٹ کھولنا بغیر ضرورت کے جائز نہیں ہے۔دوسری بات یہ ہے کہ سودی بینک میں  پیسہ رکھنے پر جو سود ملتا ہے اس کو اپنی ذات پر کسی طرح سے خرچ نہیں کریں گے بلکہ اسے مشترکہ عوامی فلاح و بہبود کے کام میں صرف سکتے ہیں جیسے سڑک، کنواں، نالہ وغیرہ۔ اور اسی طرح کسی کے لئے اضطراری صورت  حال ہو مثلا کسی کی جان بچانے کے لیے تو اس کو بھی  سودی پیسہ دے سکتے ہیں ،کوئی اکسیڈنٹ ہوگیاتو اس کی جان بچانے کے لیے یا کوئی انتہائی مجبور و معذور ہو اور اس کی مدد کرنے والا کوئی نہ ہو تو اس قسم کی صورتحال میں سود سے غیروں کی مدد کر سکتے ہیں مگر اپنی ذات پر اس کا استعمال نہیں کریں گے۔

سوال: ایک خاتون کا سوال ہے کہ کیا چالیس حدیث مقرر کر کے یاد نہیں کرنی چاہیے بلکہ پچاس یا تیس یا اس سے کم زیادہ کرنا چاہئے؟

جواب:اس معاملہ میں پہلی بات یہ ہے کہ بعض احادیث میں چالیس حدیث حفظ کرنے کی فضیلت آئی ہوئی ہے مگر ان میں سے کوئی بھی حدیث صحیح نہیں ہے یعنی چالیس حدیثیں حفظ کرنے سے متعلق جو حدیثیں مروی ہیں وہ سب ضعیف ہیں۔

دوسری بات یہ ہے کہ طے کر کے دس، بیس، تیس ، چالیس ، پچاس احادیث یاد کرنے میں کوئی حرج کی بات نہیں ہے۔ حدیث یاد کرنا تو شرف کی بات ہے اس لیے متعین کرے چالیس حدیث یا اس سے کم زیادہ کرکے یاد کرنے میں کوئی مسئلہ نہیں ہے تاہم  اصل مسئلہ یہ ہے کہ کوئی یہ عقیدہ نہ رکھے کہ اتنی حدیثیں یاد کرنے سے کوئی خاص فضیلت حاصل ہوگی بلکہ علم و عمل اور دعوت و تبلیغ کے مقصد سے حدیث یاد کرے۔

سوال: کیا ایک ہی طواف کئی لوگوں کی طرف سے ادا کیا جاسکتا ہے ؟

جواب:پہلی بات یہ ہے کہ آدمی اپنے علاوہ کسی اور کی طرف سے ہرگز ہرگز طواف نہیں کرے گا۔دوسری بات یہ ہے کہ ایک مرتبہ میں آدمی ایک ہی طواف کی نیت کرے گا اور ایک بار میں آدمی سات چکر طواف کرے گا پھرطواف کی رکعت نفل ادا کرے گا۔

جب مسئلہ یہ ہے کہ کسی غیر کی طرف سے طواف نہیں کر سکتے ہیں تو ایک طواف میں اپنے لیے اور دیگر لوگوں کی نیت سے طواف کرنا جائز نہیں ہے۔

سوال: حج تمتع کی نیت سے عمرہ کرنے کے بعد حج سے پہلے دوبارہ عمرہ کرسکتے ہیں؟

جواب:حج تمتع میں متمتع پہلے مکمل عمرہ کرکے حلال ہو جاتا ہے پھر حج کے دنوں میں یوم الترویہ سے حج کا کام شروع کرتا ہے۔جو لوگ تمتع کر رہے ہیں وہ ایک عمرہ کرکے حج کا انتظار کریں گے یہاں تک کہ حج کے دن آجائیں تو وہ حج کا احرام باندھیں گے۔ تمتع کرنے والے کا عمرہ کرکے پھر سے عمرہ کرنے یا بار بار عمرہ کرنے کی سلف سے دلیل نہیں ملتی ہے۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے تعلق سے ان کا یہ خصوصی عمل ملتا ہے کہ حج کرنے کے بعد نبی ﷺ کی اجازت سے انہوں نے عمرہ ادا کیا تھا ، یہ عمرہ آپ ﷺ کی اجازت سے اور حج کے بعد تھا وہ بھی اس صورت میں کہ انہوں نے حج سے پہلے حیض آجانے کے سبب  الگ سے عمرہ نہیں کیا تھا۔ اس وجہ سے حج تمتع کرنے والے کے حق میں یہی افضل ہے کہ تمتع کا عمرہ کرکے حج کا انتظار کرے پھر حج  کے دنوں میں حج  کرے اور حج سے پہلے جس قدر وقت ملے ،نفلی طواف کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

گوکہ بعض اہل علم نے یہ کہا ہے کہ تمتع کرنے والا ایک عمرہ کرکے  دوبارہ عمرہ کرسکتا ہے مگر اس کی کوئی دلیل نہیں ہے اور سلف سے ایسا کرنا منقول نہیں ہے ۔

سوال: کیا چھوٹے بچے کی وفات پر یہ دعا پڑھ سکتے ہیں جیسے "إِنَّا لِلّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ" اور "اللَّهُمَّ اغْفِرْ لَهُ، وَارْحَمْهُ، وَعَافِهِ، وَاعْفُ عَنْهُ" جبکہ چھوٹے بچوں کے پاس تو کوئی گناہ نہیں ہوتااور  وہ تو جنت میں جائیں گے؟

جواب:بچے کے انتقال پر یا بڑے کے انتقال پر حتی کہ کس قسم کی تکلیف پر انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھنے میں حرج نہیں بلکہ یہ کلمہ پڑھنا چاہیے۔دوسری بات یہ ہے کہ بچہ معصوم ہوتا ہے اس لیے اس کی وفات پر مغفرت کی دعا نہیں کرنی ہے بلکہ رحمت اور اجر کی دعا بچے کے والدین کے لیے کرنا ہے۔مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

الرَّاكِبُ يَسِيرُ خَلْفَ الْجَنَازَةِ، وَالْمَاشِي يَمْشِي خَلْفَهَا، وَأَمَامَهَا، وَعَنْ يَمِينِهَا، وَعَنْ يَسَارِهَا، قَرِيبًا مِنْهَا، وَالسِّقْطُ يُصَلَّى عَلَيْهِ، وَيُدْعَى لِوَالِدَيْهِ بِالْمَغْفِرَةِ وَالرَّحْمَةِ(ابوداؤد:3180، صححہ البانی)

ترجمہ: سوار جنازے کے پیچھے چلے، اور پیدل چلنے والا جنازے کے پیچھے، آگے دائیں بائیں کسی بھی جانب جنازے کے قریب ہو کر چل سکتا ہے اور کچے بچوں کی نماز جنازہ پڑھی جائے اور ان کے والدین کے لیے رحمت و مغفرت کی دعا کی جائے۔

بچے کی دعا کے  سلسلے میں متعدد دعائیں منقول ہیں۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ایک دعا مندرجہ ذیل ہے۔

ایسا نفس جس نے کبھی  گناہ نہ کیا ہو یعنی نابالغ بچے کی نماز جنازہ میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ یہ دعا پڑھتے تھے ۔": اللهمَّ اجعلْهُ لنا سلَفًا وفَرَطًا وأجرًا"(اے اللہ! اس بچے کو ہمارا آگے چلنے والا ‘ امیر سامان اور ثواب دلانے والا کر دے۔)

اسے شیخ البانی نے موقوفا حسن الاسناد کہا ہے۔(احکام الجنائز:160)

امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح بخاری میں اس دعا کو معلقا نقل کیا ہے چنانچہ امام حسن بصری رحمہ اللہ نے فرمایا کہ بچے کی نماز جنازہ میں پہلے سورۃ فاتحہ پڑھی جائے پھر یہ دعا پڑھی جائے «اللَّهُمَّ اجْعَلْهُ لَنَا فَرَطًا وَسَلَفًا وَأَجْرًا» یا اللہ! اس بچے کو ہمارا امیر ساماں اور آگے چلنے والا ‘ ثواب دلانے والا کر دے۔(كِتَاب الْجَنَائِزِ،بَابُ قِرَاءَةِ فَاتِحَةِ الْكِتَابِ عَلَى الْجَنَازَةِ)

سوال: کیا عورت نماز پڑھتے وقت مکمل طور پر اپنا پیر ڈھکے گی؟

جواب:نماز میں عورتوں کا پیر ڈھکنا واجب نہیں ہے تاہم بہتر اور افضل ہے کہ وہ پیروں سمیت پورے جسم کو ڈھک کر نماز پڑھے تاہم نماز میں پیر نہیں ڈھکا گیا ہو تب بھی نماز ہوجائے گی ۔اس بارے میں دلائل کے ساتھ اور  تفصیل سے جاننے کے لئے میرا مضمون " خواتین کی نماز اور ان کا لباس"  مطالعہ کریں۔

سوال: میں عام طور پر ظہر و عصر اور مغرب و عشاء کو بھی اکٹھا کرتی ہوں یہاں تک کہ جب میں سفر میں نہ رہوں یا بیمار بھی نہ ر ہوں۔ اس بارے میں، میں نے مختلف چیزیں پڑھی ہیں- کچھ کہتے ہیں کہ یہ جائز ہےاور کچھ کہتے ہیں کہ یہ جائز نہیں ہے۔ میں آپ کے ذریعہ یقینی طور پر علم لینا چاہتی ہوں کہ باقاعدگی سے اس طرح عمل کرنا ٹھیک ہے یا مجھے اس سے گریز کرنا چاہیے؟

جواب:حالت اقامت میں بغیرعذر کے ظہر اور عصر کی نماز اور مغرب و عشاء کی نماز جمع کر کے پڑھنا غلط ہے، جو ایسا کرتا ہے اس کی نماز بھی نہیں ہوگی کیونکہ اللہ تعالی نے پانچ نمازوں کو اپنے اپنے وقت پر فرض کیا ہے لہذٰا ہر مسلمان مرد عورت پر واجب ہے کہ وہ پانچوں نمازوں کو اپنے اپنے وقت پر بغیر جمع کئے ہوئے ادا کرے جبکہ مسافر اور معذوروں کے احکام مختلف ہیں۔

نبی ﷺ نے جن دونمازوں کو جمع کرکے ادا کیا تھا وہ رفع حرج کے لئے تھا اور کسی شرعی عذر کے باعث تھا اس بناپر اگر حضر میں عذرپیش آجائے مثلا کیچڑوالی بارش ہو یا خوف ہو یا مرض ہو تو دونمازوں کوجمع کیا جاسکتا ہے مگر بغیر عذر کے حضر میں دو نمازوں کو جمع نہیں کیا جائے گا۔ شیخ سلیمان الرحیلی حفظہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ بغیر عذر کے حضرت میں نماز جمع کرنا اہل سنہ کا طریقہ نہیں ہے اس لئے اگر کوئی بغیر عذر کے حضر میں دو نماز کو جمع کرے وہ گنہگار ہوگا۔ رافضی لوگ بغیرعذد کے دونمازوں کو جمع کرتے ہیں اور پانچ نمازوں کو تین اوقات میں ادا کرتے ہیں۔ اس موضوع کو تفصیل سے جاننے کے لئے میرا مضمون" بغیرعذر کے دونمازوں کو جمع کرنے کا حکم" مطالعہ کریں۔

سوال: حصن المسلم سے اذکار یاد کئے تھے، اسی ترتیب سے پڑھتی رہی ہوں۔ ابھی نئے ایڈیشن میں کچھ اذکار حذف کر دئے گئے ہیں اور ترتیب بھی بدل دی گئی ہے، سمجھ نہیں آرہی ہے، جو یاد ہے اسی طرح پڑھتی رہوں اور اسے ترتیب سے پڑھنا لازم ہے؟

جواب:صبح و شام کے اذکار حسن المسلم میں جس ترتیب سے پہلے تھے یا اس وقت ہیں،اس ترتیب کا کوئی مسئلہ نہیں ہے اور  اس ترتیب سے پڑھنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں یہ ترتیب نہیں دی ہے بلکہ یہ مصنف کی اپنی ترتیب ہے۔ صبح اور شام کے اذکار کے طور پر جتنے اذکار ثابت ہیں ان کو کسی بھی ترتیب سے آپ پڑھ سکتے ہیں اس میں کوئی حرج اور کوئی مسئلہ نہیں ہے لہذا آپ کو جس ترتیب سے اذکار یاد ہیں اس ترتیب سے پڑھتے رہیں تاہم ایک بات کو یاد رکھیں کہ جو اذکار صحیح حدیث سے ثابت ہیں انہیں ہی پڑھا کریں۔

سوال: ھذا من فضل ربی کن مقامات پر کہہ سکتے ہیں اور یہ کسی حدیث یا آیت کا حصہ ہے یہ بھی واضح کردیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ کسی کام یا کسی چیز کی جب کوئی تعریف کرتا ہے یا پھر کوئی اللہ تعالی کی نعمت ملتی ہے، اس پر یا تو لوگ "ھذا من فضل ربی" لکھواتے ہیں یا منہ سے کہتے ہیں تو کیا ایسا کرسکتے ہیں؟

جواب:یہ قرآن کی آیت کا ایک ٹکڑا ہے جو سورہ نمل میں موجود ہے۔ اس آیت کے الگ سے پڑھنے یا الگ الگ کسی موقع پر پڑھنے یا کسی خاص فائدے کے لیے پڑھنے کے سلسلے میں کوئی دلیل  واردنہیں ہے۔ جب آپ قرآن کی تلاوت کرتے ہوئے اس جگہ پہنچیں گے تو اس کی تلاوت کریں گے، باقی اور کسی خاص موقع پر اسے پڑھنے کی خصوصیت حاصل نہیں ہے۔

جب ہمیں کوئی چیز پسند آئے تو اس کی برکت کے لئے دعا کرنا چاہئے جیساکہ نبی ﷺ نے فرمایا:

إِذَا رَأَى أَحَدُكُمْ مِنْ أَخِيهِ مَا يُعْجِبُهُ , فَلْيَدْعُ لَهُ بِالْبَرَكَةِ(سنن ابن ماجہ:3509، صححہ البانی)

ترجمہ:جب تم میں سے کوئی شخص اپنے بھائی کی کسی ایسی چیز کو دیکھے جو اس کے دل کو بھا جائے تو اسے اس کے لیے برکت کی دعا کرنی چاہیئے۔
برکت کی ان الفاظ میں دعا کرے، بارک اللہ فیک ۔ اسی طرح ما شاء الله لا قوة إلا بالله بھی کہہ سکتےہیں جیساکہ اللہ کا فرمان ہے:

وَلَوْلا إِذْ دَخَلْتَ جَنَّتَكَ قُلْتَ مَا شَاءَ اللَّهُ لا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ (الكهف:39)

ترجمہ:تو نے اپنے باغ میں جاتے وقت کیوں نہ کہا کہ اللہ کا چاہا ہونے والا ہے، کوئی طاقت نہیں مگر اللہ کی مدد سے۔

لوگ اپنے گھروں پہ یا گاڑیوں پہ " ھذا من فضل ربی "لکھواتے ہیں، یہ لوگوں کی اپنی نادانی اور جہالت ہے، ایساکرنے کی کوئی دلیل نہیں ہےاور نہ ایسا زبان سے کہنے کی کوئی دلیل ملتی ہے۔

سوال: ایک بچی کا چھ ماہ بعد انتقال ہوگیا اور ابھی اس کا عقیقہ کرنا باقی تھا تو کیا اس کی جانب سے صدقہ کرسکتے ہیں اور ایک بچی جو پانچ سال کی ہے تو کیا اس کی جانب سے اب عقیقہ کرسکتے ہیں؟

جواب:جو بچی انتقال کرگئی ہے اس کی طرف سے اب عقیقہ کرنے کی یا صدقہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ میت کی طرف سے عقیقہ نہیں ہے اور چونکہ یہ چھ مہینے کی بچی ہے اس وجہ سے وہ گنہگار بھی نہیں ہے وہ بچی جنتی ہے۔جو دوسری بچی باحیات ہے، اس کی طرف سے پہلے عقیقہ نہیں ہوا ہے تو اب اس کی طرف سے عقیقہ کرسکتے ہیں اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔

سوال: نماز جنازہ کے سلسلے میں ایک مولانا نے کہا کہ گھر کا کوئی محرم نماز پڑھائے گا ، براہ راست عورتیں کو جنازہ کی نماز نہیں پڑھنا چاہئے، کیا یہ صحیح ہے اور کیا عورتیں میت کی موجودگی میں جنازہ پڑھیں گی یا میت کے جانے کے بعد بھی جنازہ پڑھ سکتی ہیں جیسے غائبانہ؟

جواب:ایسی کوئی بات نہیں، جیسے عورتیں فرض نماز یا نفل نماز جماعت سے پڑھ سکتی ہیں اسی طرح سے جنازہ کی نماز بھی پڑھ سکتی ہیں، اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اس کے لیے مرد یا محرم کی قطعا کوئی ضرورت نہیں ہے۔ایک جماعت میں متعدد خواتین شامل ہوسکتی ہیں اور ان میں سے بہت خواتین کا محرم دوسرا ہو سکتا ہے تو کیا ہر عورت کو الگ الگ اس کا محرم نمازجنازہ پڑھائے گا؟

 دوسری بات یہ ہے کہ نماز جنازہ کے لیے اصل یہی ہے کہ جنازہ وہاں موجود ہو پھر عورتیں جماعت بناکر وہاں پر نماز جنازہ ادا کریں۔ اگر جنازہ رخصت ہو گیا ہو تب بھی جنازہ کی نماز پڑھی جا سکتی ہے۔

سوال: پہلی بیوی سے اولاد نہ ہونے کی وجہ سے مرد دوسری شادی کرنا چاہتا ہے لیکن پہلی بیوی کی موجودگی کا سن کر لڑکی یا اس کے گھر والے رشتہ نہیں کرنا چاہتے ہیں۔ ایسی صورت میں اگر مرد پہلی بیوی کو طلاق دینا چاہے تاکہ اس کو رشتہ ملنے میں آسانی ہو جائے تو کیا مرد کا عورت کو ایسی صورت میں طلاق دینا جائز ہے۔ بیوی بھی ارادہ رکھتی ہے کہ اگر مرد نے دوسری شادی کی تو وہ علاحدگی اختیار کر لے گی؟

جواب: بغیرعذر کے صرف دوسری شادی کے لئے پہلی بیوی کو طلاق دینا جائز نہیں ہے، اسی طرح اگر کوئی عورت اس مرد سے شادی شدہ ہونے کی وجہ سے شادی نہیں کررہی ہے اس وجہ سے بھی پہلی بیوی کو طلاق دینا جائز نہیں ہے۔ اگر کوئی مرد اس صورت میں پہلی بیوی کو طلاق دے گا تو وہ گنہگار ہوگا اور آخرت میں اس کا مواخذہ ہوگا۔ دوسری شادی کے بعد پہلی بیوی خود سے طلاق لے لے یہ اس کی مرضی ہے اور اس وقت بلاعذر شرعی طلاق لینے پر  بیوی بھی گنہگار ہوگی مگر مرد کے لئے طلاق دینا جائز نہیں ہے۔

سوال: میں ایک مڈل مین( درمیانی) کے طور پر کام کروں جس میں ایک فریق سے میں پیسے لوں تقریباً پانچ لاکھ اور اسے دوسرے فریق سے کوئی سامان چار لاکھ میں خرید کر دوں اور ایک لاکھ میں خود یہ کام کروانے کا میں رکھ لوں مگر جس سے پیسے لوں وہ یہ نہ جانتا ہو کہ میں ایک لاکھ رکھ رہا ہوں ۔ میرے پاس اپنے بچوں کی روزی کمانے کا اور کوئی ذریعہ آمدنی نہ ہو تو کیا ایسی صورت میں اس طرح آمدنی بنانا جائز ہوگا؟

جواب:کسی آدمی کے پاس آمدنی کا ذریعہ ہے یا نہیں ہے یا وہ شادی شدہ ہے، اس کے بچے ہیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے۔ شریعت کے جو اصول ہیں اس کی روشنی میں روزی کمائیں گے تبھی  روزی حلال ہوگی۔کسی کے لئے سامان خرید کر لانے کی دو صورتیں ہوسکتی ہیں۔

پہلی صورت: آپ کا کوئی رشتہ دار یا دوست آپ سے کچھ سامان خرید کر لانے کے لیے کہے اور اسے اس بات پر بھروسہ ہو کہ آپ اس کے لیے امانت داری کے ساتھ سامان خرید کر لا دیں گے، یہ کام اجرت کے طور پر نہیں بلکہ اپنے رشتہ دار کے تعاون اور احسان کے طور پر ہو تو ایسی صورت میں اس میں سے اپنے لیے پیسہ بچانا حرام ہے۔ سامان خریدنے کے بعد جو کچھ پیسہ بچ جائے سامان والے کو وہ پیسہ لوٹانا پڑے گا۔

دوسری صورت: ایک شخص کمیشن اور دلالی کا کام کرتا ہے تو وہ اپنی محنت کے اعتبار سے وہ اجرت متعین کرکے اپنی اجرت لے سکتا ہے۔
اس کا طریقہ یہ ہوگا کہ اگر کسی نے کوئی سامان خرید کر لانے کے لیے کہا تو سامان والے کے ساتھ اتفاق کر کے اپنی اجرت طے کرنی پڑے گی یعنی مجھے اتنا فائدہ چاہیے تو ایسی صورت میں جتنے پیسے پر اتفاق ہوا ہے، اتنی مزدوری اس سے لے سکتے ہیں لیکن بغیر مزدوری طے کئے ہوئے پیسہ لینا دھوکہ اور فریب ہے اور یہ جائز نہیں ہے۔ اسی طرح پانچ لاکھ روپیہ لے کر بغیر اطلاع اور بغیر اجرت طے کئے اس میں سے  ایک لاکھ روپیہ اپنے پاس رکھ لینا یہ حرام ہے، اللہ کے یہاں اس ایک لاکھ میں سے ایک ایک روپئے کا حساب دینا پڑے گا۔

سوال: لڑکی کے لئے والد ولی ہوتا ہے تو کیا والد کی اجازت کے بغیر نکاح ہوسکتا ہے؟

جواب:لڑکی کی شادی کے لیے اس کا ولی اس کا باپ ہوتا ہے اور ولی کی اجازت اور اس کی رضامندی کے بغیر لڑکی کی شادی نہیں ہو سکتی ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ بغیر ولی کے نکاح باطل ہے یعنی بغیر ولی کے اگر کوئی لڑکی شادی کر لے تو وہ شادی ہوگی ہی نہیں اور ایسی رشتہ داری حرام رشتہ داری کہلائے گی اور لڑکا لڑکی کا ایک ساتھ رہنا زنا تصور کیا جائے گا۔

سوال: کیا ہم قرآن پاک کی سورہ الانعام آیت نمبر (79) کو نماز کے شروع میں پڑھ سکتے ہیں دعائے استفتاح (سبحانک اللھم) کے ساتھ؟

جواب:طبرانی کے اندر ابن عمر رضی اللہ عہنما سے مروی مندرجہ ذیل دعا وارد ہے کہ نبی ﷺ نماز شروع کرتے تو یہ پڑھتے:
"وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ حَنِيفًا مُسْلِمًا وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ سُبْحَانَكَ اللهُمَّ بِحَمْدِكَ وَتَبَارَكَ اسْمُكَ وَتَعَالَى جَدُّكَ وَلَا إِلَهَ غَيْرُكَ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ لَا شَرِيكَ لَهُ وَبِذَلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَا مِنَ الْمُسْلِمِينَ" (الطبرانی:13324) مگر اس کی سند میں ایک راوی عبد الله بن عامر الأسلمي ضعیف ہے، علامہ ذہنی نے الضعفاء میں اور حافظ ابن حجر نے تقريب التهذيب میں ضعیف کہا ہے اس وجہ سے یہ روایت ضعیف ہے۔

یہ دعا مزید الفاظ کے ساتھ صحیح مسلم (ح:771)میں موجود ہے اسے نبی ﷺ رات کی نماز یعنی تہجد میں پڑھا کرتے تھے اس لئے اس حدیث پر باب قائم کیا گیا ہے"باب الدُّعَاءِ فِي صَلاَةِ اللَّيْلِ وَقِيَامِهِ" یعنی رات کی نماز اور رات کے قیام میں پڑھی جانے والی دعا کا باب، یہ کافی لمبی دعا ہے، کوئی تہجد میں اسے پڑھنا چاہے تو کوئی حرج نہیں ہے، تاہم فرض نمازوں میں عام طور پر نبی ﷺ جو دعائے استفتاح پڑھا کرتے تھے ہمیں فرض نمازوں میں وہی دعا پڑھنا چاہئے یعنی اللھم باعد بینی ۔۔۔۔ والی دعا یا سبحانک اللھم وبحمدک۔۔۔ والی دعا۔

سوال: عورت بغیر محرم کے حج یا عمرہ پر گروپ کے ساتھ جاسکتی ہے جبکہ سعودی حکومت نے اجازت دیدی ہے کہ عورت حج اور عمرہ پر بغیر محرم کے جاسکتی ہے؟

جواب:شریعت کا تعلق سعودی حکومت سے نہیں ہے، یہ اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے ہے، اس وجہ سے اللہ اور اس کے رسول کے فرمان میں جو کچھ ہے اسی کے مطابق عمل کرنا پڑے گا۔ایک آدمی جہاد پر جانے والا تھا اور اس کی بیوی حج کرنے جا رہی تھی۔ جب یہ بات اللہ کے رسول کو معلوم ہوئی تو آپ نے اس آدمی کو اپنی بیوی کے ساتھ حج کرنے کا حکم دیا کیونکہ عورت کے لئے بغیر محرم سفر کرنا جائز نہیں ہے۔
ایک عورت کے لیے محرم وہ مرد ہوتا ہے جس سے اس کا نکاح حرام ہوتا ہے، اس وجہ سے اپنے اسی محرم کے ساتھ حج کا سفر کر سکتی ہے اور نہ وہ اکیلے سفر کرے گی، نہ ہی عورتوں کی جماعت میں سفر کرے گی۔

سوال: بچے کھیلنے میں گڑیا اور گڈے کی آپس میں شادی کرتے ہیں ، کیا ایسا کرنا ٹھیک ہے؟

جواب: چھوٹے بچے گڑیا اور کھلونے سے کھیل سکتے ہیں، کھیل کھیلنے میں کوئی مسئلہ نہیں ہےمگر بچے اس میں شادی والا کوئی خاص کھیل کھیلتے ہیں یعنی اس میں شادی کی طرح بچے مختلف رسمیں نبھاتے ہیں جیسے کہ آج کل مسلمان لوگ بھی ہندوؤں کو دیکھ کر شادی بیاہ میں متعدد رسومات انجام دے رہے ہیں تو پھر بچوں کو ایسی رسموں اور ایسے فضول و لایعنی کھیلوں سے روکنا چاہیے۔ یہ لایعنی کھیل بھی ہے اور اس میں کفار کی مشابہت بھی ہے بلکہ شادی کی بات ابھی سے بچوں کے دماغ میں ڈالنا اور اس طرح کی چیزوں کو کھیل تماشہ بنانا غلط ہے۔ بچوں کو ایسی چیزوں سے دور رکھنا چاہیے، ہمارے بچوں کے کھیل کود اور اس کی تعلیم و تربیت میں اچھی، مفید اور اسلامی چیزیں ہونی چاہیے۔

سوال: آج کل ایک تصویر اور ویڈیو کافی وائرل ہے جس میں عورتیں ننگے سر بالوں کو لہراتی ہیں ، اس پہ لوگ طرح طرح کی باتیں کررہے ہیں ، اس میں ایک بڑا سوال یہ ہے کہ کیا سعودی عرب نے اسرائیل کو تسلیم کرلیا ہے؟

جواب:اس معاملہ میں  آپ اتنا سمجھ لیں کہ دنیا کے اکثر مسلمان سعودی عرب سے جلتے اور حسد کرتے ہیں اور عام طور سے یہ لوگ اس تلاش میں رہتے ہیں کہ سعودی عرب کو کیسے بدنام کریں کیونکہ یہ توحید والا ملک ہے، یہاں پر ایک وقت تھا جب کافی مزارات بنے ہوئے تھے، اللہ کے فضل سے ان سارے مزارات کو ختم کیا گیا یہی وجہ ہے کہ شیعہ لوگ اور خاص طور سے بریلوی کو سعودی عرب سے بہت دشمنی ہے۔ یہ لوگ کافر کی تعریف تو کرسکتے ہیں مگر سعودی عرب کی کبھی تعریف نہیں کر سکتے حتی کہ دیوبندی بھی اور جماعت اسلامی والے بھی سعودی عرب سے جلتے ہیں اور سوشل میڈیا پر سعودی عرب کے خلاف عام طور سے جھوٹی خبریں نشر کرتے ہیں۔

ابھی امریکہ کا صدر دونل ٹرمپ سعودی عرب، قطر اور امارات اقتصادی مقصد سے آیا تھا۔ اسرائیل کا صدر نتن یاہو نہیں آیا تھا اور نہ ہی اسرائیلی حوالے سے یہ کوئی دورہ تھا اس لیے ٹرمپ کے اس دورے کا اسرائیل یا اسرائیل کے تسلیم کرنے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ کافروں کے ساتھ تجارت کرنا منع نہیں ہے، ایک مسلمان کافر کے ساتھ تجارتی معاملہ کرسکتا ہے بشرطیکہ یہ معاملہ شرعی حدود میں  اور تجارت ہی تک محدود رہے یعنی اس میں حرام چیزوں کی تجارت نہ ہویا اس تجارت سے اسلام کے خلاف کافروں کی مدد نہ ہوتی ہو۔

سوال: صلہ رحمی اور قطع تعلق ان لاز (شادی کے رشتوں)پر بھی لاگو ہوتا ہے یا صرف رحم کے رشتوں پر۔ یہ بھی بتائیں کہ اگر کوئی باربار تکلیف پہنچائے اور اس کو لمبے عرصہ سے درگزر کررہے ہیں پھر بھی وہی سلوک باربار ہو اور تعلق سسرالی ہو ، کوئی رشتہ داری نہ ہو تو ان سے بات چیت ختم کردینا مزید شر سے بچنے کے لئے جائز ہے؟

جواب:وہ رشتہ دار جن سے صلہ رحمی کا اسلام نے حکم دیا ہے، یہ وہ رشتہ دار ہیں جو نسب سے ہوتے ہیں خواہ ماں کی طرف سے ہوں یا باپ کی طرف سے ہوں جیسے ان میں ماں، باپ، دادا اور ان سب کی اولاد۔شوہر کا رشتہ دار بیوی کے لیے ارحام میں داخل نہیں اور بیوی کے رشتہ دار شوہر کے لیے ارحام میں داخل نہیں۔جو ہمارے لئے ارحام ہیں ان سے ہر حال میں رشتہ جوڑ کر رکھنا ہے چاہے وہ رشتہ توڑنا بھی چاہیں تب بھی ہمیں جوڑ کر اپنا رشتہ باقی رکھنا چاہیے، اس پہ ہمیں اجر ملے گا۔

جہاں تک سسرالی رشتہ داروں کی بات ہے وہ ارحام میں داخل نہیں ہے، اس لیے ان سے صلہ رحمی کی طرح سلوک کا ہمیں حکم نہیں ہوا ہے۔ ان سے تکلیف پہنچے تو اپنے آپ کو تکلیف کی جگہوں سے دور رکھیں مگر مکمل بات چیت بند کر لینا غلط ہے، نبی ﷺ نے ہمیں کسی سے بھی تین دن سے زیادہ بات چیت بند کرنے سے منع فرمایا ہے۔ جن اسباب اور جن چیزوں سے تکلیف کا سامنا ہوتا ہے ہم ان چیزوں سے بچیں تاکہ جھگڑے لڑائی اور تکلیف دینے کی نوبت ختم ہو جائے۔

سوال: میں نے حیض کی حالت میں احرام لگایا اور براؤن ڈسچارج ہونے کے بعد خشکی دیکھ کر غسل کرکے عمرہ مکمل کرلیا اور بال کاٹ کر حلال ہونے کے بعد دو تین قطرے براؤن ڈسچارج ہوا تو کیا میرا عمرہ درست ہے یا مجھے پھر سے دوبارہ عمرہ کرنا ہوگا؟

جواب:جیساکہ سوال سے واضح ہے کہ ہے حیض سے خشکی یعنی اس سے پاکی حاصل ہونے کے بعد غسل کر کے عمرہ کیا گیا۔ عمرہ کرکے حلال ہونے کے بعددو تین قطرے براؤن کلر کے ظاہر ہوئے اور اس کے بعد حیض کی صفات والے خون تسلسل کے ساتھ نہیں آئے تو اسے حیض نہیں مانا جائے گا اور اس صورت میں کیا گیا عمرہ اپنی جگہ پر درست ہے۔

سوال: اگر کسی عورت کا کوئی محرم نہ ہو تو کیا پھر وہ عمرہ اور حج ادا کر سکتی ہے، اس کی کوئی صورت ہے یا پھر اس کو عمرہ اور حج نہیں کرنا چاہئے اور عام زندگی میں بھی پھر ایسی عورت سفر کیسے کرے اگر محرم نہ ہو تو؟

جواب:عورت کے لیے حج اور عمرہ کے واسطے محرم کا ہونا شرط ہے۔ اس کے بغیر وہ نہ حج کرے گی اور نہ عمرہ کرے گی۔ اگر کسی عورت کے پاس محرم نہ ہو تو وہ حج اور عمرہ چھوڑ دے۔ اللہ رب العالمین اس سے اس کے حج اور عمرہ کے بارے میں سوال نہیں کرے گا، پھر اسے پریشان ہونے کی کیا ضرورت ہے۔ عورت سے جس چیز کے بارے میں سوال ہوگا جیسے پانچ وقت کی نماز ، رمضان کے روزے، شوہر کی اطاعت، بچوں کی تربیت ، پردہ اور دیگر امور ان کے بارے میں زیادہ فکر کرے۔

جو زندگی سے متعلق ضروریات والے سفر ہیں، ضرورت کی بنیاد پر ضرورت والا سفر عورت کرسکتی ہے جیسے ایک عورت، ضرورت کے وقت مرد ڈاکٹر کے پاس جاتی ہے، اس سے بات کرتی ہے حتی کہ جسم کا کوئی حصہ ظاہر کرنے کی ضرورت ہو تو اسے بھی ظاہر کرتی ہے، یہ سب ضرورت کے مسائل ہیں۔

سوال: ایک عورت سوشل میڈیا پہ جیسے واٹس ایپ، انسٹاگرام پہ اسلام کا پیغام نام سے آئی ڈی بناتی ہے اور کسی کو معلوم نہیں ہے کہ یہ آئی ڈی کوئی لڑکی چلا رہی ہے۔ اس طرح کی آئی ڈی بناکر دینی پوسٹ یا درس کی ویڈیو بناکر شیئر کرسکتی ہے۔ آن لائن ادارہ بھی ہے اور یہاں درس کورس بھی چلاتے ہیں، اس کے پوسٹر وغیرہ بھی بناتے ہیں تاکہ لوگوں کو معلومات حاصل ہو۔ اصل سوال یہ ہے کہ اگر کوئی عورت کسی بھائی کو یا مدرس کو ٹیگ یا مینشن کرے اس مقصد سے کہ زیادہ لوگوں تک پہنچے اور انہیں معلومات حاصل ہو تو کیا ایسا کرنا صحیح ہے؟

جواب:عورتوں کو سوشل میڈیا کے استعمال میں احتیاط سے کام لینا چاہیے کیونکہ یہاں پر فتنے زیادہ ہیں اور عورتیں فتنوں کا شکار جلدی ہو سکتی ہیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ ایک عورت اگر کسی ادارے کی نمائندگی کر رہی ہے تو وہ ادارے کے نام سے آئی ڈی بنائے اور ادارہ کے نام سے جو مناسب اور شرعی چیزیں ہیں وہی فیس بک اور دیگر جگہوں پر نشر کرے۔ عورت کی تصویر یا عورت کی آواز یا عورت کا بیان سوشل میڈیا پر شیئر کرنا جائز نہیں ہے، اسی طرح عورت کا آن لائن درس بھی سوشل میڈیا پر نشر کرناجائز نہیں ہے۔ اور آئی ڈی میں کسی کو منشن کرنے یا ٹیگ کرنے کی ضرورت نہیں ہے، آپ اپنے کام میں مخلص رہیں، لوگ جڑتے ہیں اور کام ہوتا ہے۔ میں دس پندرہ سالوں سے سوشل میڈیا پر کام کر رہا ہوں مگر کبھی بھی میں نے کسی کو ٹیگ نہیں کیا۔کمنٹ میں جو سوال کرتا ہے اس کو مینشن کرکے جواب دیتا ہوں تاکہ اس کے پاس نوٹیفکیشن جائے۔

ایک خاتون، خاتون کی حیثیت سے کام کرے اور ادارے کے نام سے آئی ڈی بنائے یعنی کسی بھی کام کے کرنے کے لیے ہمیں حقیقت کا نمائندہ بننا پڑے گا، ہم ادارے کا کام کر رہے ہیں تو نام ادارے کا استعمال کریں گے اور کیا چیز نشر کریں اور کیا نہیں نشر کریں، اس بارے میں شرعی حدود کیا ہیں، اس سے متعلق کئی مسائل کا مجموعہ بنام " خواتین کی تصاویروویڈیوز اور سوشل میڈیا" مطالعہ کریں۔

سوال: قرآن کی قسم اٹھانا جائز ہے اور اگر کوئی اٹھالے تو کیا حکم ہے؟

جواب:قرآن کریم اللہ کا کلام ہے ، اس میں کسی کی دورائے اور اختلاف نہیں ہے ۔ اللہ کا کلام یعنی قرآن کریم اس کی صفت ہے اور ہمارے لئے اللہ کی ، اس کے ناموں کی اور اس کی صفات کی قسم کھانی جائز ہے ۔ نبی ﷺ اللہ فرمان ہے :

من كان حالِفًا، فلْيَحلِفْ باللَّهِ أو لِيَصْمُتْ(صحيح البخاري:2679)

ترجمہ: جو شخص قسم کھانا چاہے، اسے چاہیے کہ وہ اللہ کی قسم کھائے یا خاموش رہے۔

اس حدیث میں اللہ کی ہی قسم کھانے کا حکم ہواہے اور اس کی قسم میں اس کے اسماء اور صفات دونوں کی قسم شامل ہے۔ لہذا قرآن کی قسم کھانی جائز ہے ۔

بعض عوام کویہ شبہ ہوتا ہے کہ صرف لفظ اللہ کے ذریعہ ہی قسم کھاسکتے ہیں اور دلیل میں پیش کرتے ہیں ۔نبی ﷺ کا فرمان ہے :
مَن حلفَ بغيرِ اللَّهِ فقد كفرَ أو أشرَكَ(صحيح الترمذي:1535)

ترجمہ: جس نے غیر اللہ کی قسم کھائی، اس نے کفر یا شرک کیا۔

اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کے علاوہ دوسروں کی مثلا نبی یا ولی یا باپ دادایاکسی انسان کی یا کسی مخلوق کی قسم کھانی جائز نہیں ہے جیساکہ نبی ﷺ کا فرمان ہے :

لا تحلِفوا بآبائِكم ولا بأمَّهاتِكم ولا بالأندادِ ولا تَحلِفوا إلَّا باللهِ ولا تحلفوا باللهِ إلَّا وأنتُم صادقونَ(صحيح أبي داود:3248)

ترجمہ: اپنے باپوں یا ماؤں کے نام کی قسمیں نہ کھایا کرو اور نہ بتوں کے نام کی ۔ صرف اللہ کے نام کی قسم کھایا کرو اور اللہ کی قسم بھی اسی صورت میں کھاؤ جب تم سچے ہو ۔

اس حدیث سے واضح ہوگیا کہ جھوٹ پہ تو قسم کھانی ہی نہیں ، جب ہم قسم کھانے میں سچے ہوں تبھی قسم کھائیں اور صرف اللہ کی قسم کھائیں ۔ اور غیراللہ یعنی باپوں ، ماؤں اوربتوں کی قسم نہیں کھانی ہے ۔

اوپر یہ بات ہمیں معلوم ہوئی کہ قرآن غیراللہ نہیں بلکہ اللہ کا کلام اور اس کی صفت ہے جس سے اللہ ہمیشہ سے متصف ہے ۔ یہاں فتنہ خلق قرآن کو بھی یاد کریں کہ خلیفہ مامون کے زمانے میں ہرشخص سے زبردستی گواہی لی جارہی تھی کہ قرآن مخلوق ہے اس کی گواہی دے ورنہ سزائیں دی جاتیں ۔ اس وقت امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ موجود تھے انہوں نے گواہی کہ قرآن مخلوق نہیں اللہ کا کلام ہے ۔ امام صاحب کو اس بات کی وجہ سے بہت سزائیں ملیں مگر اس عقیدہ پر قائم رہے کہ قرآن اللہ کا کلام ہے ۔

سوال: اگر کسی مرد نے احرام کے لئے ایسی چادر استعمال کی جس پہ پہلے سے خوشبو لگی تھی، احرام باندھنے کے بعد نہیں لگائی تو کیا اس پہ دم لازم ہے؟

جواب:احرام کی چادر میں اگر پہلے سے خوشبو لگی ہو تو ایسی چادر کو استعمال ہی نہیں کرنا چاہیے لیکن اگر غلطی سے ایسی چادر استعمال کرلی گئی اور بعد میں معلوم ہوا تو جیسے معلوم ہوا فورا اس چادر کو ہٹا لے، ایسی صورت میں کوئی فدیہ نہیں دینا ہے۔ احرام کی حالت میں لا علمی میں کوئی کام ہو جائے تو اس میں کوئی فدیہ نہیں ہے لیکن عمدا محظورات احرام کا ارتکاب کریں تو ایسی صورت میں فدیہ دینا ہوتا ہے۔

سوال: ایک قربانی کے بکرا (خصی) کو کتا کاٹ لیا ہے اور کاٹنے کی مقدار زیادہ نہیں ہے تو کیا ایسے خصی کی قربانی کرنا صحیح ہوگا؟

جواب:ہم قربانی اس لئے دیتے ہیں تاکہ اس کا گوشت کھائیں اور دوسروں کو بھی کھلائیں جبکہ کتے کے لعاب میں زہر ہوتا ہے اس لیے جب کوئی کتا کسی جانور کو کاٹ لے تو اسے جانور کے ڈاکٹر سے دکھایا جائے۔ اگر اس میں زہر وغیرہ کے اثرات نہ ہوں اور جانور زخمی یا بیمار نہ ہوا ہو تو ایسی صورت میں اس کی قربانی کی جاسکتی ہے لیکن اگر کوئی عیب پیدا ہو جائے تو پھر ایسی صورت میں ایسے جانور کی قربانی نہیں کرنا چاہیےکیونکہ نبی ﷺ نے عیوب سے پاک جانور کی قربانی کا حکم دیا ہے۔

سوال: کیا مغرب کی فرض نماز سے پہلے ،بعد کی سنت ادا کرسکتے ہیں؟

جواب: مغرب کی فرض نماز سے پہلے وقت ملے تو دو رکعت نفل ادا کرسکتے ہیں مگر فرض نماز کے بعد کی سنت کو فرض سے پہلے نہیں ادا کرسکتے ہیں کیونکہ یہ بعد کی سنت ہے ، اسے لازما بعد میں ہی ادا کرنا ہوگا۔

سوال: ایک آدمی ڈیوٹی پر ہوتا ہے، وہاں پانی موجود ہے مگر نہانے کا بندوبست نہیں ہے، کیا وہ تیمم کرکے نماز پڑھ سکتا ہے؟

جواب: جب آدمی کو غسل کی حاجت ہو اور پانی بھی میسر ہو اور اس کا استعمال جسم کے لئے مضر نہ ہو تو پانی سے غسل کرنا واجب ہے، ایسی صورت میں تیمم کفایت نہیں کرے گا۔ پانی موجود ہے تو نہانے کا بھی بندوبست ہوجائے گا ، وہ اس کے لئے اپنی بساط بھر کوشش کرے۔

سوال: ایک آدمی سعودی میں رہتا ہے، وہ عیدالاضحی کے موقع سے اپنے وطن چھٹی جارہا ہے، اس وقت عقیقہ کرنا کیسا ہے، اللہ نے اسے لڑکا دیا ہے، وہ قربانی کے ساتھ عقیقہ کرنا چاہتے ہیں تو کیسا رہے گا؟

جواب: جسے اللہ تعالی اولاد سے   نوازے ، اسے چاہئے کہ استطاعت ہو تو نومولود کے ساتویں دن ہی عقیقہ کرے، یہی رسول اللہ ﷺکی سنت ہے۔ اگر وہ کسی عذر کی بناپر ساتویں دن لڑکے کا عقیقہ نہیں کرسکا تو سعودی سے گھر  جاکر جس دن عقیقہ کرنا میسر ہو، بچے کا عقیقہ کرے۔ عیدالاضحی کی مناسبت سے گھرجارہا ہے، اس وقت عقیقہ کرنا چاہے تو بھی کوئی حرج نہیں ہے تاہم ایک بات یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ لڑکا کی طرف سے عقیقہ میں دو چھوٹا جانور ذبح کرنا ہے ، بڑے جانور میں عقیقہ نہیں دینا ہے اور نہ ہی قربانی کے جانور میں عقیقہ کا حصہ لینا ہےبلکہ مستقل طور پر دو چھوٹا جانور ذبح کرنا ہے۔

سوال: اگر کوئی شخص سجدہ میں گیا مگر اس نے زمین سے ناک نہیں لگایا خواہ بھول کر ہو یا انجانے میں ایسے میں اس کی نماز کا کیا حکم ہے یا اس کی نماز میں کیا خلل آئے گا؟

جواب: نبی ﷺ نے ہمیں سات اعضاء پر سجدہ کرنے کا حکم دیا ہے اس وجہ سے اگر کوئی سجدہ کی حالت میں سات عضو میں سے کوئی ایک عضو بھی زمین سے نہ لگائے تو اس کی نماز نہیں ہوگی ۔ اگر بھول کر سجدہ میں کسی کی ناک زمین سے نہ لگی ہواور بعد میں یاد آیا ہو تو اس کی نماز درست ہے کیونکہ اللہ تعالی نے بھول چوک کو معاف کردیا ہے تاہم عمدا ایسا کرنے سے نماز ہی باطل ہوجائے گی۔ ہمیں چاہئے کہ سنت کے مطابق مکمل نماز ادا کریں ، رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا ہے کہ تم اسی طرح نماز پڑھو جیسا مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو۔

سوال: فجر کے وقت آنکھ نہ کھلے اور ایسے وقت میں بیدار ہوئے کہ نماز کا وقت ختم ہو رہا ہے تو کیا سورج کے طلوع ہونے تک کا انتظار کریں یا فوراً نماز ادا کرنا چاہئے؟

جواب:جو کوئی فجر کے وقت سویا رہ جائے، اس کی آنکھ جب کھلے اسے وضو کرکے فورا فجر کی نماز ادا کرنا ہے، اس سے کوئی مطلب نہیں ہے کہ سورج نکل رہا ہے کیونکہ فجر کی نماز ایک فریضہ ہے۔ چھوئے ہوئے فریضہ کی ادائیگی کے لئے کوئی وقت نہیں دیکھنا ہے، اسے فورا ادا کرنا ہے۔

سوال: اگر بیوی اپنے شوہر سے چوری چھپے کسی غیرمرد سے بات کرتی ہو اور بچے بھی جوان ہوں، بیٹی کے سمجھانے کے باوجود بھی وہ منع نہ ہو تو کیا اس کے شوہر کو بتایا جاسکتا ہے کہ بھائی آپ کی بیوی کسی سے بات کرتی ہے؟

جواب: جو عورت شادی شدہ اور صاحب اولاد ہو اور پرائے مرد سے حرام بات چیت کرتی ہو، اس کے بارے میں پتہ چلے تو بغیر تاخیر کے اس عورت کے شوہر کو خبر دینا چاہئے تاکہ اس کا شوہر اس عورت کے خلاف فورا کاروائی کرے اور اسے بے حیائی سے روکے۔ اس میں بالکل بھی تاخیر نہیں کرنی چاہئے۔ ایسی عورت کو مرد ہی سدھار سکتا ہے اور ویسے بھی شوہر ، اس کا سربراہ ہے اس کے علم میں یہ بات ہونا ضروری ہے تاکہ آئندہ بھی اس کی نگرانی کرسکے اور اس کی اصلاح کرسکے۔

سوال: یہ صبح و شام کے دو اذکار ہیں۔

پہلا ذکر:"أَعُوذُ بِكَلِمَاتِ اللَّهِ التَّامَّاتِ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ"

دوسرا ذکر:"بِسْمِ اللَّهِ الَّذِي لَا يَضُرُّ مَعَ اسْمِهِ شَيْءٌ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي السَّمَاءِ، وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ"

حصن المسلم میں بتایا گیا ہے کہ پہلا ذکر صرف شام کے وقت تین مرتبہ پڑھنا ہے اور دوسرا ذکر صبح وشام تین تین مرتبہ پڑھنا ہے جبکہ آنلائن اذکار ایپ میں بتایا گیا ہے کہ یہ دونوں دعائیں صبح و شام ایک ایک بار پڑھنا ہے، سوال یہ ہے کہ ان کو پڑھنے کی تعداد دونوں طرح ثابت ہے اور اس میں کیا صحیح ہے؟

جواب:پہلا ذکر یعنی"أَعُوذُ بِكَلِمَاتِ اللَّهِ التَّامَّاتِ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ"مجمع الزوائد وغیرہ میں صبح و شام دونوں وقت پڑھنے کا ذکر ہے مگر یہ ثابت نہیں ہے۔ یہ ذکر صرف شام کے وقت پڑھنا ثابت ہے۔ صحیح مسلم (2709) میں ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا: ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی: اللہ کے رسول! مجھے اس بچھو سے کتنی شدید تکلیف پہنچی جس نے کل رات مجھے کاٹ لیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تم نے جب رات کی تھی، یہ (کلمات) کہہ دیتے: «اعوذ بکلمات اللہ التامات من شر ما خلق» میں ہر اس چیز کے شر سے جسے اللہ نے پیدا کیا، اس کے کامل ترین کلمات کی پناہ میں آتا ہوں تو وہ (بچھو) تمہیں کوئی نقصان نہ پہنچاتا۔

اس میں یہ مذکور نہیں ہے کہ شام میں یہ ذکر کتنی مرتبہ کرنا ہے مگر ترمذی(3604) میں ہے کہ اسے تین مرتبہ پڑھنا ہے، اس وجہ سے اس ذکر کو شام کے اذکار کے طور پر تین مرتبہ پڑھنا چاہئے۔

دوسرا ذکر یعنی "بِسْمِ اللَّهِ الَّذِي لَا يَضُرُّ مَعَ اسْمِهِ شَيْءٌ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي السَّمَاءِ، وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ" تین مرتبہ صبح میں اور تین مرتبہ شام میں پڑھنا چاہئے۔ اس کی دلیل ابوداؤد کی یہ حدیث ہے۔

عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: جو شخص تین بار «بسم الله الذي لا يضر مع اسمه شىء في الأرض ولا في السماء وهو السميع العليم» ”اللہ کے نام سے کے ساتھ جس کے نام کے ساتھ زمین و آسمان میں کوئی چیز نقصان نہیں پہنچاتی اور وہی سننے والا اور جاننے والا ہے“ کہے تو اسے صبح تک اچانک کوئی مصیبت نہ پہنچے گی، اور جو شخص تین مرتبہ صبح کے وقت اسے کہے تو اسے شام تک اچانک کوئی مصیبت نہ پہنچے گی۔(ابوداؤد: 5088، اسے شیخ البانی نے صحیح کہا ہے)


سوال: ایک لڑکی کی شادی کی دو سالہ مدت میں شوہر نے اس سے کوئی تعلق قائم نہیں کیا، اس وقت وہ تین ماہ سے ماں باپ کے گھر میں ہے۔ اب شوہر نے طلاق کےکاغذ پر دستخط کردیا ہے، اس کی عدت کی نوعیت کیا ہوگی، کیا وہ بھی بیوہ کی طرح آرائش وزیبائش نہیں کرے گی اور گھر میں ہی رہے گی نیز وہ لڑکی ڈاکٹر ہے اور جاب کرتی ہے؟

جواب:سوال سے بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ لڑکی شادی کے بعد اپنے شوہر کے پاس تھی اور اس وقت تین ماہ سے اپنے میکے میں ہے۔ ایسی صورت میں کہ جب لڑکی کا شوہر کے ساتھ خلوت صحیحہ ہوا ہو یعنی وہ آپس میں تنہائی میں اکٹھا ہوئے ہوں تو شوہر کے طلاق دینے پر اس عورت کو تین حیض عدت گزارنی پڑے گی۔ جس وقت طلاق دی گئی ہے اس وقت سے لے کر جب تین حیض آجائے تو عدت ختم ہو جائے گی۔
طلاق والی کی عدت بیوہ کی طرح سوگ والی نہیں ہے۔ اس کو اپنی عدت میں بس گھر سے نہیں نکلنا ہے اور اس میں نکاح بھی نہیں کرنا ہے۔

عدت گزارنے کے لئے اپنی نوکری سے چھٹی لے اور اگر گزر بسر کا یہی ذریعہ ہو اور چھٹی بھی نہ مل سکے تو پھر وہ عدت میں جاب کرسکتی ہے۔

مکمل تحریر >>

آپ کے سوالات اور ان کے جوابات(72)

 

آپ کے سوالات اور ان کے جوابات(72)
جواب از: شیخ مقبول احمد سلفی حفظہ اللہ
جدہ دعوہ سنٹر، حی السلامہ- سعودی عرب
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
سوال:ایک خاتون نے ایک فلیٹ خریدکر اسے کرائے پہ چڑھا دیا اور اب اس کو ایک سال ہو گیا ہے، سوال یہ ہے کہ جو کرائے کی رقم جمع ہوئی ہے اس میں زکوۃ دینا ہے یا جو اصل فلیٹ اس نے خریدا ہے اس کی زکوۃ ہوگی؟
جواب: فلیٹ پر کسی قسم کی کوئی زکوۃ نہیں ہے، زکوۃ کرایہ پر دینا ہے بشرطیکہ کرایہ نصاب کو پہنچ جائے اور اس پر سال لگ جائے۔ اگر کرایہ نصاب کو نہ پہنچے تب کرایہ پر بھی زکوۃ نہیں ہے۔
سوال: ایک طلاق یافتہ خاتون ہے جس کی طلاق کو چار سال ہوگئے ہیں(باہر ملک میں)۔ اسے اکیلے ہی بچوں کا بھی سارا کچھ کرنا پڑتا ہے۔ کسی وجہ سے یا لاعلمی کے باعث اس سے طلاق کی عدّت نہیں ہوسکی اور اب وہ عدت کرنا چاہ رہی ہے، وہ کیا کرے؟
جواب:جس وقت طلاق ہوتی ہے اسی وقت تین حیض عدت گزارنی پڑتی ہے۔ تین حیض گزرنے کے ساتھ عدت ختم ہوجاتی ہے اور چونکہ طلاق کو چار سال ہو گئے ہیں اس لئے عدت کب کی ختم ہوگئی، اب اسے کوئی عدت گزارنے کی ضرورت نہیں ہے۔
ہاں یہ بات ضرور ہے کہ عدت میں بلاضرورت گھر سے نکلنے کی ضرورت نہیں ہوتی ہے تاہم ضرورت کے پیش نظر عورت عدت میں بھی گھر سے نکل سکتی ہے۔ اگر ایسی کوئی خطا اس سے ہوئی ہو تو وہ اللہ رب العالمین سے معافی مانگ لے لیکن اب اس سے کوئی عدت نہیں گزارنی ہے۔
سوال: ایک شخص نماز پڑھ رہاہے اور آگے سترہ نہیں رکھا ہوا ہے ایسی صورت میں اگر کوئی آگے سے گذر جانے تو کیا نماز دہرانی چاہیے؟
جواب:اس سلسلے میں ایک بات یاد رہے کہ آدمی کے سجدہ کی جگہ کے بعد سے کوئی گزرنے والا گزر سکتا ہے اس میں حرج نہیں ہے لیکن نمازی کے قدم اور سجدے کے درمیان جو تقریبا تین ہاتھ کی جگہ ہوتی ہے اس درمیان سے نہیں گزرنا چاہیے۔
دوسری بات یہ ہے کہ نمازی کے سامنے سے صرف تین چیزوں کے گزرنے سے نماز باطل ہوتی ہے اور وہ تین چیزیں بالغہ عورت، کالا کتا اور گدھا ہے۔ ان کے علاوہ کوئی دوسری چیز گزرے تو اس سے نماز باطل نہیں ہوتی۔
جمہور علماء کا کہنا ہے کہ ان چیزوں کے گزرنے سے بھی نماز باطل نہیں ہوتی ہے صرف کمال نماز میں نقص پیدا ہوتا ہے جبکہ شیخ ابن باز نے کہا ہے کہ اس بارے میں صحیح بات یہ ہے کہ ان تین چیزوں میں سے کوئی گزرے تو نماز باطل ہو جاتی ہے اس لیے اگر کوئی فریضہ ادا کر رہا تھا تو اسے چاہیے کہ اپنی نماز دہرا لے۔
سوال:طواف کرتے ہوئے پاکستان میں رشتے داروں کو ویڈیو کال کرنا تاکہ وہ اپنے لئے دعا کرسکیں کیا یہ درست ہے یا کوئی بیمار ہو اسکو کال کرکے دکھا سکتے ہیں کہ وہ اپنے لئے دعا کرلے، ایسا کرنا جائز ہے؟
جواب:طواف ایک عظیم عبادت ہے بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے طواف کو نماز قرار دیا ہے۔ اس طواف کے وقت آدمی کو کثرت سے دعا اور ذکر و اذکار میں مشغول رہنا چاہیے۔ طواف وہ مقام نہیں جہاں آدمی اپنے رشتہ داروں سے ویڈیو کال کرے۔ طواف کے وقت آدمی خشوع و خضوع کے ساتھ طواف کرے، اس وقت ویڈیو کال کرنا ایک قسم کی ریاکاری اور دکھاوا ہے جس سے عبادت کا اجر ضائع ہو جائے گا۔
سوال: مجلس کے اختتام پر جو دعا پڑھی جاتی ہے، کیا وہ خود سے پڑھی جائے یا سارا مجمع مل کر پڑھے یعنی کوئی ایک آواز بلند سے سب کو پڑھائے، اس میں درست طریقہ کیا ہے؟
جواب: کفارہ مجلس کی دعا اپنے طور پر ہر کسی کو خود سے یعنی انفرادی طور پر پڑھنا ہے۔ کوئی نہ بھی پڑھے تو اس میں کوئی حرج کی بات نہیں ہے اور نہ ہی کسی کو امام کی طرح سب کو یہ دعا پڑھوانا ہے۔ جو پڑھنا چاہے اپنے طور پر پڑھے۔
سوال: بچوں کا اپنی ماں سے ممّی یا ممّہ یا موم اور اسی طرح والد کو ڈیڈ یا پاپا کہنا کیسا ہے۔ کیا ان الفاظ میں کوئی قباحت ہے یا صرف ماں کو امی اور والد کو پاپا یا ابّو ہی کہنا چاہیے؟
جواب: ماں اور باپ کو پکارنے کے لئے عرف میں جو لفظ استعمال ہوتا ہے وہ استعمال کرسکتے ہیں۔ اللہ اور اس کے رسول نے کہیں یہ قید نہیں لگایا ہے کہ تم اسی لفظ سے پکار سکتے ہو۔ آپ کی مرضی ہے جس لفظ سے پکاریں تاہم ایک بات کا خیال کرنا چاہئے کہ جس معاشرے میں والدین کے لئے مسلمانوں کے درمیان خصوصا جو الفاظ رائج ہوں ان کے ذریعہ پکارنا چاہئے۔ ہندوپاک میں ڈیڈ موم کہنا انگریزوں کی نقالی ہے، یہ امریکہ اور برطانیہ والے اپنے یہاں استعمال کریں تو یہ ان کی زبان ہے۔
سوال: کیا کسی اندھے شخص کو امام بنایا جا سکتا ہے؟
جواب:بلاکراہت اندھے کو امام بنایا جاسکتا ہے اگر اس میں امامت کی شرائط پائی جاتی ہوں۔ انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:
أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اسْتَخْلَفَ ابْنَ أُمِّ مَكْتُومٍ يَؤُمُّ النَّاسَ وَهُوَ أَعْمَى۔(ابوداؤد:595،قال الشيخ الألباني: حسن صحيح)
ترجمہ:نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کو اپنا جانشین مقرر فرمایا، وہ لوگوں کی امامت کرتے تھے حالانکہ وہ نابینا تھے۔
نبی ﷺ کے عمل میں ہمارے لئے نمونہ ہے، آپ نے نابینا کو امام بنایا ہے تو ہم بھی بناسکتے ہیں تاہم بہتر ہے کہ مستقل طور پر امام اسے بنایا جائے جو معذور نہ ہو ، پوری طرح صحت مند ہو تاکہ بلا کسی مشقت و حرج کے صحیح سے امامت کراتا رہے۔
سوال: ایک لڑکی جب بھی اپنا چہرہ دھوتی ہے وہ یہ آیت "وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ مُّسْفِرَةٌ،ضَاحِكَةٌ مُّسْتَبْشِرَةٌ" پڑھتی ہے تاکہ اس کا چہرہ چکمتا رہے، کیا یہ عمل صحیح ہے؟
جواب: محض اس آیت کے پڑھنے سے چہرہ چمکے گا۔ قیامت میں اس کا چہرہ چمکے گا جو ایمان والے اور اعمال صالحہ والے ہوں۔ اپنی مرضی سے کسی کام کے کرنے کا نام دین نہیں ہے بلکہ دین وہ ہے جو قرآن و حدیث میں ہے اور قرآن و حدیث میں چہرہ دھلنے پر اس آیت کے پڑھنے کی تعلیم نہیں دی گئی ہے۔
آپ کی ذمہ داری ہے کہ اس لڑکی سے پوچھیں کہ اس عمل کی کیا دلیل ہے، اگر وہ دلیل دے تو مجھے بھی بتائیں اور دلیل نہ دے تو تنبیہ کریں کہ بغیر دلیل کے اپنی مرضی سے کچھ بھی عمل نہیں کیا جائے گا۔
سوال: اگر کوئی شخص کسی کی غیبت کرے تو کیا اسکی نیکی اسکو مل جاتی ہے جسکی غیبت کی جائے اور وہ قیامت کے دن اپنی نیکیاں ڈھونڈے گا لیکن وہ نہ پائے گا۔ نیکیاں اس کو مل جائیگی جس کی اس نے غیبت کی ہوگی، کیا یہ بات صحیح ہے؟
جواب:اس طرح کی بات حدیث میں میرے علم کے مطابق نہیں ہے، حدیث میں حقوق العباد سے متعلق کیا آیا ہے، مفلس والی حدیث کو پڑھیں معلوم ہوجائے گا۔
سوال: سوکھی کھجور، کشمش، انجیر وغیرہ یہ سب ڈرائی فروٹس ایک ساتھ برتن میں پوری رات تیرہ سے پندرہ گھنٹے بھگاکر رکھنے سے کیا نشہ پیدا ہوگا، کیا اسلام میں الگ الگ بھگاکر کھانے کا حکم ہے؟
جواب: سوکھی کھجور اور کشمش کو ایک ساتھ پانی نہیں بھگونا ہے کیونکہ کچھ دیر بعد اس میں نشہ پیدا ہوجاتا ہے، اس لئے الگ الگ بھگونا چاہئے۔ اس سلسلے میں متعدد احادیث مروی ہیں۔ بخاری میں ہے، عبداللہ بن ابی قتادہ نے اپنے والد سے بیان کیا، انہوں نے کہا:
نَهَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُجْمَعَ بَيْنَ التَّمْرِ وَالزَّهْوِ، وَالتَّمْرِ وَالزَّبِيبِ، وَلْيُنْبَذْ كُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا عَلَى حِدَةٍ(صحیح البخاری:5602)
ترجمہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی ممانعت کی تھی کہ پختہ اور گدرائی ہوئی کھجور، پختہ کھجور اور کشمش کو ملا کر نبیذ بنایا جائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر ایک کو جدا جدا بھگونے کا حکم دیا۔
سوال: آپ نے کہا کہ کھجور کو کشمش کے ساتھ نہیں بھگونا ہے تو کیا صرف سوکھی کھجور اور کشمش کو الگ رکھنا ہے، باقی ڈرائی فروٹس ان دونوں میں سے کسی کے ساتھ مثلا کشمش کے ساتھ انجیر و کاجو وغیرہ یا پھر کھجور کے ساتھ انجیر و کاجو وغیرہ ملاکر بھگو سکتے ہیں؟
جواب:یہاں حدیث میں کھجور کو کشمش کے ساتھ یا ترکھجور کو خشک کھجور کے ساتھ پانی میں بھگونے سے منع کیا گیا ہے کیونکہ ایسا کرنے سے نشہ پیدا ہوتا ہے جبکہ الگ الگ پانی میں بھگونے سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ ان کے علاوہ دیگر ڈرائی فروٹ پانی میں بھگو سکتے ہیں مسئلہ نہیں ہے حتی کہ کھجور یا کشمش کے ساتھ بھی دوسرا فروٹ بھگوسکتے ہیں لیکن اگر اس سے پانی میں نشہ پیدا ہو تو پھر یہ بھی ممنوع ہوگا کیونکہ اصل ممانعت نشہ کی وجہ سے ہے، مطلب وہ نشہ آور پانی استعمال نہیں کرسکتے ہیں۔
سوال: جب ہم مختلف قسم کے ڈرائی فروٹس جیسے کشمش ، کھجور اور چھوہارے وغیرہ پیستے ہیں تو پہلے دودھ میں ڈالکر پکاتے ہیں طاقت کے لئے تو کیا ان میں نشہ پیدا ہوسکتا ہے؟
جواب:ڈرائی فروٹس کو پیس کر کھائیں یا دودھ میں ابال کر پئیں، کوئی مسئلہ نہیں ہے۔
سوال: ایک عورت خود بھی کماتی ہے اور شوہر بھی حج پر لے جانے کی استطاعت رکھتا ہے۔ اس عورت کے لئے خود سے خرچہ کر کے حج پر جانا بہتر ہے یا اگر شوہر اس کو حج پر لے جائے تو اس سے اس عورت کا حج ہو جائے گا جبکہ عورت خود کماتی ہے؟
جواب:پہلی بات یہ ہے کہ شوہر کے ذمہ بیوی کا حج کروانا نہیں ہے، اگر وہ اپنی چاہت سے بیوی کا حج کروائے تو اس کا احسان ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ حج کی فرضیت کا تعلق استطاعت سے ہے یعنی اگر عورت کے پاس حج کرنے کی مالی استطاعت ہوگئی ہے تو اس پر حج فرض ہے، اسے اپنے پیسے سے حج کرنا ضروری ہے بشرطیکہ اس کے پاس محرم کا انتظام ہو۔ اگر عورت کماتی ہے مگر حج کی استطاعت نہیں ہے تو اس پر حج فرض نہیں ہے پھر بھی اگر شوہر حج کرادے تو حج کا اجر اسے ملے گا۔ حج کے سلسلے میں عورت کے کمانے کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ استطاعت کا مسئلہ ہے۔
سوال: جو انڈیا کے حملے میں پاکستان میں فوت ہوئے ہیں، کیا وہ شہید مانے جائیں گے؟
جواب:حدیث کی ورشنی میں ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ جو مسلمان اپنے دین کی وجہ سے قتل کیا جائے اسے شہید کہا جائے گا اس وجہ سے ہم لفظ ان شاء اللہ کے ساتھ یہ کہہ سکتے ہیں کہ پاک حملہ میں مرنے والے ان شاء اللہ شہید ہیں۔
سعید بن زید رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”جو اپنے مال کی حفاظت کرتے ہوئے قتل کیا جائے وہ شہید ہے، جو اپنے دین کی حفاظت کرتے ہوئے قتل کیا جائے وہ شہید ہے، جو اپنی جان کی حفاظت کی خاطر مارا جائے وہ شہید ہے اور جو اپنے اہل و عیال کی حفاظت کرتے ہوئے قتل کیا جائے وہ شہید ہے“۔(سنن الترمذی:1421)
سوال: ایک عورت بچہ گود لینا چاہتی ہے، کیا بچہ گود لینا جائز ہے اور اگر اس بچے کے والد کا پتہ نہیں تو کیا اس کے والد کی جگہ خود اپنا نام لکھ سکتی ہے؟
جواب:بچہ گود لینا جائز ہے مگر اس کو اپنا نام دینا جائز نہیں ہے خواہ اس کا باپ معلوم ہو یا نامعلوم ہو۔ کسی بھی صورت میں لے پالک کو اپنا نام نہیں دیا جاسکتا ہے، گود لینے والا سرپرست یا گارجین کہلائے گا اس کا باپ ہرگز نہیں کہلائے گا۔ اگر کوئی اس کو اپنی طرف نسبت کرے تو وہ گنہگار ہوگا، اللہ نے قرآن نے حکم دیا ہے کہ لے پالک کو حقیقی باپ کے نام سے پکارو۔
سوال: ایک خاتون کہتی ہے کہ میں ساڑھے تین بجے عصر کی نماز پڑھ لیتی ہوں ، کیا عصر کی نماز کا وقت 3.30 بجے سے شروع ہوجاتی ہے؟
جواب: انسانی سایہ سے جڑا ہے۔ جب انسان کا سایہ ایک مثل ہوجائے اس وقت سے عصر شروع ہوتا ہے اور سورج ڈوبنے تک رہتا ہے یعنی نماز کا وقت ختم بھی سورج کے حساب سے ہوتا ہے، نہ کہ گھڑی کے وقت سے۔ اس وجہ سے دنیا کے تمام حصوں میں اسی اعتبار سے عصر کا وقت ہوگا۔ آپ کے علاقہ میں بھی جب سایہ ایک مثل ہو تو عصر کا وقت شروع ہوگا، اس بارے میں جاننے کے لئے وہاں کے عالم یا کلینڈر یا ام القری ایپ سے مدد لے سکتے ہیں۔
سوال: کیا اس طرح کے الفاظ بولنا "بریلوی بدعتی و مشرک ہیں" درست ہے۔ مشرکین مکہ نماز، روزہ، زکوۃ اور حج سب کچھ کرتے تھے لیکن وسیلہ لگانے کی وجہ سے مشرک قرار دیا گیا اس لئے ہم ان جیسے لوگوں کو مشرک کہہ سکتے ہیں جیسے بریلوی بھی وسیلہ لگاتے ہیں؟
جواب:مکہ کے مشرکین نماز ، روزہ ، زکوۃ اور حج یہ سارے اعمال انجام نہیں دیتے تھے، وہ بتوں کی عبادت کرتے تھے اس لیے مشرک قرار پائے نیز وہ حج بھی کیا کرتے تھے، بعد میں حجۃ الوداع کے موقع سے اللہ تعالی نے مشرکوں سے برات کا اعلان کیا اور مشرکوں کو حج کرنے سے بھی روک دیا گیا بلکہ پورے جزیرۃ العرب کو مشرکوں سے پاک کیا گیا۔
دوسری بات یہ ہے کہ ہم نام لے کر اور خاص کرکے بریلوی کو بدعتی اور مشرک کہہ کر نہیں پکاریں گے گو کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ بریلوی شرک و بدعت میں مبتلا ہیں مگر تخصیص کے ساتھ انہیں مشرک نہیں کہیں گے اور نہ ہی ہمارے علماء نے اس طرح کا کوئی فتوی دیا ہے۔ بغیر تخصیص کے عام انداز میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ جو شرک اکبر کا ارتکاب کرے وہ مشرک ہے۔
سوال: جمعہ کی نماز تو عورتوں پر فرض نہیں ہے لیکن کیا جمعہ کے دن غسل کرنا بھی مردوں ہی کے لیے ہے؟ عورتیں جمعہ کے دن کی مناسبت سے غسل کرے تو کیا اُن کو ثواب نہیں ملتا۔ اسی طرح عام دن میں بھی بنا غسل کی حاجت کے بھی اگر ہم غسل کریں تو کیا ہم کو ثواب ملتا ہے؟
جواب:غسل جمعہ واجب نہیں بلکہ مستحب ہے اور یہ غسل مردوں کے ساتھ عورتوں کے حق میں بھی مشروع ہے مگر ان عورتوں کے لئے جو جمعہ کی نماز ادا کرے کیونکہ غسل جمعہ کا تعلق نماز جمعہ سے ہے اس وجہ سے جو عورت، جمعہ کی نماز ادا کرے اس کے حق میں غسل مشروع و مستحب ہے اور جو نماز جمعہ نہ ادا کرے اس کے حق میں غسل نہیں ہے۔
جب کوئی اللہ اور اس کے رسول کے حکم کی وجہ سے غسل کرتا ہے اس وقت اسے اس عمل ہر ثواب ملے گا اور جب فریش ہونے یا گرمی اور عادت کی وجہ سے کوئی غسل کرے اس میں ثواب نہیں ہے۔
سوال: میرے دو بچے ہیں اور میری طلاق ہو چکی ہے، میں کرائے کے گھر میں رہتی ہوں اور اپنا خرچہ خود مشکل سے پورا کرپاتی ہوں۔ میرے بہن بھائی اپنے اپنے گھروں میں ہیں۔ امی کے پاس دو گھر ہیں اور وہ چاہ رہی ہیں کہ ایک گھر مجھے اپنی زندگی میں تحفہ دے تاکہ میرا بھی گھر ہو جائے کیونکہ کرایہ دینا میرے لیے بہت مشکل ہے۔ کیا یہ جائز ہے کہ امی اپنی زندگی میں مجھے اپنا ایک گھر تحفہ دیدے؟
جواب:ویسے والدین کے لئے مناسب یہی ہے کہ جب اپنی اولاد کو تحفہ دے تو ساری اولاد کو برابر برابر تحفہ دے تاہم جب اولاد شادی شدہ ہوں اور سب کے حالات اچھے ہوں، ان میں کوئی ضرورت مند ہو تو ضرورت کے مطابق اپنی اولاد کو کچھ دینے میں حرج نہیں ہے۔
جس لڑکی کے پاس اپنا گھر نہیں ہے اور وہ طلاق شدہ نیز صاحب اولاد بھی ہے، ایسے میں وہ بیٹی زیادہ محتاج ہے اس کو اس کی والدہ گھر دینا چاہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
سوال: کیا مسلمان مرد اہل کتاب کی عورتوں سے شادی کر سکتا ہے اس حال میں کہ وہ عورتیں اسلام قبول نہ کریں اور اپنے مذہب پر ہی رہیں؟
جواب:کتابیہ عورت سے شادی کرنا جائز ہے خواہ وہ اپنے دین پر کیوں نہ باقی رہے مگر صرف اس عورت سے نکاح کرنا جائز ہے جو پاکدامن ہو۔ اس کی دلیل قرآن کی یہ آیت ہے۔
﴿وَطَعامُ الَّذينَ أوتُوا الكِتـٰبَ حِلٌّ لَكُم وَطَعامُكُم حِلٌّ لَهُم ۖ وَالمُحصَنـٰتُ مِنَ المُؤمِنـٰتِ وَالمُحصَنـٰتُ مِنَ الَّذينَ أوتُوا الكِتـٰبَ مِن قَبلِكُم إِذا ءاتَيتُموهُنَّ أُجورَهُنَّ مُحصِنينَ غَيرَ مُسـٰفِحينَ وَلا مُتَّخِذى أَخدانٍ ۗ وَمَن يَكفُر بِالإيمـٰنِ فَقَد حَبِطَ عَمَلُهُ وَهُوَ فِى الـٔاخِرَةِ مِنَ الخـٰسِرينَ (المائدة:5)
ترجمہ:کل پاکیزہ چیزیں آج تمہارے لئے حلال کی گئیں اور اہل کتاب کا ذبیحہ تمہارے لئے حلال ہے اور تمہارا ذبیحہ ان کے لئے حلال، اور پاکدامن مسلمان عورتیں اور جو لوگ تم سے پہلے کتاب دیئے گئے ان کی پاک دامن عورتیں بھی حلال ہیں جب کہ تم ان کے مہر ادا کرو، اس طرح کہ تم ان سے باقاعدہ نکاح کرو یہ نہیں کہ اعلانیہ زنا کرو یا پوشیدہ بدکاری کرو، منکرین ایمان کے اعمال ضائع اور اکارت ہیں اور آخرت میں وہ ہارنے والوں میں سے ہیں۔
واضح رہے کہ جب کتابیہ بدکردار وفاحشہ ہو یا وہ منکر خدا ہو یا اس سے نکاح کرنے والے کا ایمان کمزور ہونے یا چھن جانے کا خطرہ ہو تو اس صورت میں نکاح جائز نہیں ہے۔
سوال: کیا جانداروں کی تصویروں والے کمرے میں قرآن مجید کی تلاوت کرنا جائز ہے؟
جواب:سوال یہ نہیں ہونا چاہئے کہ جاندار کی تصویر والے کمرہ میں تلاوت کرنا جائز ہے کہ نہیں بلکہ سوال یہ ہونا چاہئے کہ کمرہ میں جاندار کی تصویر رکھنا جائز ہے کہ نہیں ہے اور اس کا جواب ہوگا کہ نہیں۔
کوئی آدمی قرآن کی تلاوت کیوں کرنا چاہ رہا ہے، اللہ کی رضا اور ثواب کے لئے ، اسی اللہ کے دین میں جاندار کی تصویر بنانا یا رکھنا حرام ہے، قیامت میں اس کا بہت بھاری گناہ ملے گا پھر ایسی صورت میں اپنے کمرہ میں جاندار کی تصویر سجانا، لٹکانا یا حفاظت سے رکھنا جائز نہیں ہے، اسے گھر سے بلاتاخیر نکال باہر کرنا چاہئے۔
دوسری بات یہ ہے کہ اگر کہیں آپ دوسرے کے گھر یا دوسری جگہ پر موجود ہیں، وہاں تصویر لگی ہے تو اس سے آپ کو کوئی غرض نہیں ہے، وہاں پر تلاوت کرسکتے ہیں۔ تلاوت کا تصویر سے کوئی تعلق نہیں ہے، تصویر الگ چیز ہے اور تلاوت الگ چیز ہے۔ تصویر میں اصل یہ ہے کہ اگر ہمارے اختیار میں ہو تو اپنی جگہ پر جاندار کی تصویر نہیں رہنے دینا چاہئے۔
سوال: سنت نماز میں کوئی غلطی ہوجائے تب بھی سجدہ سہو کیا جاتا ہے یا یہ فرض نماز کے ساتھ خاص ہے؟
جواب:فرض نماز ہو یا سنت ہو یا نفل ہو ، کسی بھی قسم کی نماز میں رکن چھوٹنے پر اس رکن کا ادا کرنا ضروری ہے اور واجب چھوٹنے پر سجدہ سہو کرنا ہے۔
سوال: سورہ البقرہ کی 128 آیت والی دعا کو ہم دعا کے طور سے پڑھ سکتے ہیں اگر ہاں تو کس موقع کیلئے؟
جواب:جب ابراہیم علیہ السلام اور اسماعیل علیہ السلام خانہ کعبہ کی تعمیر کررہے تھے اس وقت اللہ رب العالمین سے یہ دعا کر رہے تھے، یہ ان دو پیغمبروں کی دعا ہے تاہم دوسرے مسلمان بھی یہ دعا کرسکتے ہیں۔ اس دعا کے لئے کوئی خاص وقت یا طریقہ نہیں ہے، جب چاہیں اس دعا کو پڑھ سکتے ہیں۔
سوال: عیدالاضحیٰ کے موقع پر جب سات افراد مل کر ایک گائے کی قربانی کرتے ہیں تو گوشت کی تقسیم کس طرح ہونی چاہیے، کیا حصے وزن کے اعتبار سے برابر تقسیم کئے جائیں یا ہم باہمی اتفاقِ رائے سے اپنی پسند کے حصے لے سکتے ہیں؟
جواب:جب قربانی کے ایک بڑے جانور میں سات افراد شریک ہوں تو جانور ذبح کرنے کے بعد سات افراد کا حصہ برابر تقسیم کیا جائے کیونکہ سبھی برابر کے حصہ دار ہیں۔ اس تقسیم کے لئے خواہ وزن کیا جائے یا بغیر وزن کے پورے جانور کا سات حصہ لگا دیا جائے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ شرکاء جس طرح تقسیم کرنے کے لیے راضی ہوں وہ طریقہ اختیار کیا جاسکتا ہے۔
سوال: کسی نے پوچھا ہے کہ وہ وتر پڑھنا بھول گیا اور اب دو دن ہوگئے ہیں تو اب وتر کیسے ادا کرے؟
جواب:وتر کی نماز واجب نہیں ہے اس لئے کبھی چھوٹ جائے تو اس میں گناہ نہیں ہے تاہم عمدا اس نماز کو نہیں چھوڑنا چاہئے اور کبھی رات میں نہ پڑھ سکے تو دن میں اس کی قضا کرسکتے ہیں۔
دو دن تین کے بعد اس کی قضا نہیں ہے، اسے کہیں کہ آئندہ سے اس کا خیال کرو اور جب کبھی رات میں چھوٹ جائے تو دن میں اس کی قضا کرلو اور پانچ وقتوں کی نماز کو اپنے اوقات میں ادا کرنے کی زیادہ فکر کرو ۔ اللہ تعالی نے ان پانچ نمازوں کی محافظت کا حکم دیا ہے، یہ نہ چھوٹنے پائے کیونکہ اس کے چھوڑنے پر قیامت میں محاسبہ ہوگا۔
سوال: بیٹے پر کوئی مشکل یا مصیبت پہنچے تو وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مسنون دعائیں پڑھتا ہے۔ میرا سوال ہے کہ کیا ماں اور اس کی بیوی بھی وہ دعائیں اس کے لیے کرسکتی ہیں کیونکہ جو مشکل ہے وہ ہم سب کی مشکل ہے جسے حسبنا اللہ ونعم الوکیل وغیرہ یا جس پر مشکل ہے صرف وہی پڑھے گا؟
جواب:سب سے پہلی بات یہ ہے کہ "حَسْبُنَا اللَّهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ" ایک عظیم دعا اور ایک عظیم ذکر ہے۔ جب جنگ احد کے بعد کافر لوگ مسلمانوں کو ڈرانے کی کوشش کرتے ہیں تو مسلمانوں کا ایمان مزید بڑھ جاتا ہے اور اپنی زبان سے یہ جملہ کہتے ہیں"حَسْبُنَا اللَّهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ"(ہمیں اللہ کافی ہے اور وہ بہت اچھا کارساز ہے)۔ (دیکھیں: آل عمران:173)
اس دعا کو مومن ابتلاء و آزمائش ، خوف اور زنج و غم کے موقع سے اپنی زبان سے کہہ سکتا ہے۔ صحیح بخاری کی ایک روایت میں ہے، ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ کلمہ «حسبنا الله ونعم الوكيل‏» ابراہیم علیہ السلام نے کہا تھا، اس وقت جب ان کو آگ میں ڈالا گیا تھا اور یہی کلمہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت کہا تھا جب لوگوں نے مسلمانوں کو ڈرانے کے لیے کہا تھا:
إِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوا لَكُمْ فَاخْشَوْهُمْ فَزَادَهُمْ إِيمَانًا وَقَالُوا حَسْبُنَا اللَّهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ۔سورة آل عمران آية 173.
کہ لوگوں (یعنی قریش) نے تمہارے خلاف بڑا سامان جنگ اکٹھا کر رکھا ہے، ان سے ڈرو لیکن اس بات نے ان مسلمانوں کا (جوش) ایمان اور بڑھا دیا اور یہ مسلمان بولے کہ ہمارے لیے اللہ کافی ہے اور وہی بہترین کام بنانے والا ہے۔ (صحیح البخاری:4563)
اس دعا سے متعلق کئی روایات مروی ہیں، ان سے بعض ضعیف بھی ہیں مگر یہ دعا اور ذکر ثابت ہے اور بہت ہی عظیم ہے، اسے مومن اپنی زندگی کے لئے اہم دعا اور ایک اہم ذکر کے طور پر ہمیشہ استعمال کرسکتا ہے۔
جیساکہ سوال میں مذکور ہے کہ جب باپ کو اپنے بیٹے کے بارے میں تکلیف ہو تو یہ دعا اور اس جیسی دوسری دعا پڑھتا ہے تو کیا ماں اور اس کی بیوی بھی پڑھ سکتی ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ بالکل پڑھ سکتی ہے۔ کسی بھی مومن کو کبھی بھی تکلیف پہنچے وہ اس دعا کو پڑھ سکتا ہے خواہ کسی قسم کی تکلیف پہنچی ہو اور اس کے علاوہ دیگر مسنون دعائیں بھی آدمی تکلیف کے وقت پڑھ سکتا ہے۔
ہاں اس جگہ ایک بات یہ سمجھ لیں کہ اگر کوئی اس دعا کو تعداد اور وقت مخصوص کرکے پڑھتا ہے تو یہ عمل بدعت ہے۔

مکمل تحریر >>