Monday, November 18, 2024

فرض نماز کے بعدفورا اللہ اکبر کہنا



فرض نماز کے بعدفورا اللہ اکبر کہنا
تحریر: مقبول احمد سلفی
جدہ دعوہ سنٹر، حی السلامہ- سعودی عرب
 
پاک وہند کے اہل حدیث کے یہاں فرض نماز سے سلام پھیرنے کے فورا بعد" اللہ اکبر "کہنے کا معمول ہے اور میں بھی اس پر عمل کرتا آرہا ہوں مگرعرب میں اس پہ عمل نہ پائے جانے کی وجہ سے بارہا یہ سوال آتا رہتا ہے اور پہلے کبھی اس مسئلہ کی چھان بین نہیں کیا تھا۔ جب حالیہ دنوں پھر یہ مسئلہ زیربحث آیا تو اس بارے میں دلائل پہ غورکرنا شروع کیا۔ پھر میرے سامنے جو بات آئی وہ حاضر خدمت ہے ۔
اس مسئلہ کی حقیقت جاننے کے لئے پہلے یہ دیکھنا ہے کہ سلام پھیرنے کے بعد "اللہ اکبر " کہنے کی  کون سی دلیل ہےچنانچہ اس بارے میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ایک اثر ملتا ہے وہ اثر یہ ہے۔
ابو معبد نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کی ہے کہ ابن عباس نے فرمایا:
كُنْتُ أعْرِفُ انْقِضاءَ صَلاةِ النبيِّ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ بالتَّكْبِيرِ(صحيح البخاري:842)
ترجمہ: میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز ختم ہونے کو تکبیر کی وجہ سے سمجھ جاتا تھا۔
جس دلیل کی وجہ سے فرض نماز کے فورا بعد "اللہ اکبر "کہا جاتا ہے وہ ابن عباس سے مروی یہی ایک اثر ہے ۔ اس اثر میں تکبیر کا لفظ آیا ہے اور کہاجاتا ہے کہ اس سے مراد اللہ اکبر ہے۔اب سطور ذیل میں تکبیر سے متعلق وضاحت ملاحظہ کریں ۔
جب ہم تکبیر سے متعلق احادیث پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ تکبیر سے کبھی اللہ اکبر مراد لیا جاتا ہے اور کبھی اس سے مراد ذکر کرنا ہوتا ہے بلکہ کلمہ  كبَّرَ يكبِّرجس سے مصدر تكبيرًا آتاہے۔ یہ فعل بھی کبھی اللہ اکبر کے معنی میں آتا ہے اور کبھی ذکر کرنے کے معنی میں آتا ہے۔ اس بات کو دلیل سے واضح کرتا ہوں تاکہ مسئلہ کی سمجھ آئے۔ تکبیر یا كبَّرَ يكبِّرسے مراد اللہ اکبر بھی ہوتا ہے اس کی دلیل دینے کی ضرورت نہیں ہے ، یہ بالکل واضح ہے تاہم یہاں اصل جس چیز کی ضرورت ہے اس کی دلیل بیان کرتا ہوں ۔
٭تکبیر سے مراد ذکر ہوتا ہے اس کی دلیل :
ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
لَمَّا غَزَا رَسولُ اللَّهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ خَيْبَرَ -أوْ قالَ: لَمَّا تَوَجَّهَ رَسولُ اللَّهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ- أشْرَفَ النَّاسُ علَى وادٍ، فَرَفَعُوا أصْوَاتَهُمْ بالتَّكْبِيرِ: اللَّهُ أكْبَرُ اللَّهُ أكْبَرُ، لا إلَهَ إلَّا اللَّهُ(صحيح البخاري:4205)
ترجمہ: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر پر لشکر کشی کی یا یوں بیان کیا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (خیبر کی طرف) روانہ ہوئے تو (راستے میں) لوگ ایک وادی میں پہنچے اور بلند آواز کے ساتھ تکبیر کہنے لگے اللہ اکبر، اللہ اکبر، لا الہٰ الا اللہ ”اللہ سب سے بلند و برتر ہے ‘ اللہ سب سے بلند و برتر ہے ‘ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔
٭ كبَّرَ يكبِّرسے مراد بھی کبھی ذکر ہوتا ہے اس کی دلیل:
عن ابنِ مسعودٍ رضي اللهُ عنهُ أنهُ كان يُكبِّرُ أيامَ التشريقِ اللهُ أكبرُ اللهُ أكبرُ لا إلهَ إلا اللهُ واللهُ أكبرُ اللهُ أكبرُ وللهِ الحمدُ( إرواء الغليل:3/125)
ترجمہ: ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ ایام تشریق میں اس طرح تکبیر کہتے : اللهُ أكبرُ اللهُ أكبرُ لا إلهَ إلا اللهُ واللهُ أكبرُ اللهُ أكبرُ وللهِ الحمدُ۔
جب ہمیں یہ معلوم ہوگیا کہ لفظ تکبیر سے اللہ اکبر بھی مراد ہوتا ہے اور ذکر بھی مراد ہوتا ہے اور ابن عباس کے اثر میں جو تکبیر کا لفظ آیا ہے وہ مجمل ہے اس میں یہ صراحت  نہیں ہے کہ یہاں تکبیر سے اللہ اکبر مراد ہے بلکہ ایسی کوئی روایت  بھی موجود نہیں جس سےمعلوم ہو کہ تکبیر سے مراد اللہ اکبر ہے  البتہ ابن عباس سے مروی دوسری روایت میں یہ صراحت ملتی ہے کہ عہد رسول میں صحابہ کرام سلام پھیرنے کے بعد بلند آواز سے ذکر کرتے  بلکہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اسی بلندذکر سے سلام پھیرنے کا علم ہوجاتا۔ روایت اس طرح سے ہے۔
٭  صحیح بخاری کی حدیث جسے امام بخاری نے " بَابُ الذِّكْرِ بَعْدَ الصَّلاَةِ" کے تحت ذکر کیا ہے:عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے غلام ابو معبد نے خبر دی:
أنَّ ابْنَ عبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عنْهما، أخْبَرَهُ: أنَّ رَفْعَ الصَّوْتِ، بالذِّكْرِ حِينَ يَنْصَرِفُ النَّاسُ مِنَ المَكْتُوبَةِ كانَ علَى عَهْدِ النبيِّ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ وقالَ ابنُ عبَّاسٍ: كُنْتُ أعْلَمُ إذا انْصَرَفُوا بذلكَ إذا سَمِعْتُهُ(صحيح البخاري:841)
ترجمہ: انہیں عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے خبر دی کہ بلند آواز سے ذکر، فرض نماز سے فارغ ہونے پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ مبارک میں جاری تھا۔ اور (ابو معبد) نے کہا: ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جب لوگ سلام پھیرتے تو مجھے اس بات کا علم اسی (بلندآواز کے ساتھ کیے گئے ذکر) سے ہوتا تھا۔
٭صحیح  مسلم کی حدیث جسے امام مسلم نے ": باب الذِّكْرِ بَعْدَ الصَّلاَةِ" کے تحت ذکر کیا ہے۔
ابن عباس رضی اللہ عنہ کے آزاد کردہ ےغلام ابو معبد نے بتایا:
أنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ أَخْبَرَهُ: أنَّ رَفْعَ الصَّوْتِ بالذِّكْرِ حِينَ يَنْصَرِفُ النَّاسُ مِنَ المَكْتُوبَةِ، كانَ علَى عَهْدِ النبيِّ صَلَّى اللَّهُ عليه وسلَّمَ. وَأنَّهُ قالَ: قالَ ابنُ عَبَّاسٍ: كُنْتُ أَعْلَمُ إذَا انْصَرَفُوا بذلكَ، إذَا سَمِعْتُهُ(صحيح مسلم:583)
ترجمہ:حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے انھیں خبر دی کہ جب لوگ فرض نماز سے سلام پھیرتے تو اس کے بعد بلند آواز سے ذکر کرنا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں (رائج) تھا اور (ابو معبد) نے کہا: ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جب لوگ سلام پھیرتے تو مجھے اس بات کا علم اسی (بلندآواز کے ساتھ کیے گئے ذکر) سے ہوتا تھا۔
٭سنن ابی داؤد کی حدیث جسے امام ابوداؤد نے " باب التَّكْبِيرِ بَعْدَ الصَّلاَةِ" کے تحت ذکرکیاہے:عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے غلام ابو معبد نے خبر دی:
أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ أَخْبَرَهُ، أَنّ" رَفْعَ الصَّوْتِ لِلذِّكْرِ حِينَ يَنْصَرِفُ النَّاسُ مِنَ الْمَكْتُوبَةِ، كَانَ ذَلِكَ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"، وَأَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ، قَالَ: كُنْتُ أَعْلَمُ إِذَا انْصَرَفُوا بِذَلِكَ وَأَسْمَعُهُ(سنن ابي داود:1003)
ترجمہ:عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے انہیں خبردی کہ ذکر کے لیے آواز اس وقت بلند کی جاتی تھی جب لوگ فرض نماز سے سلام پھیر کر پلٹتے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں یہی دستور تھا، ابن عباس کہتے ہیں: جب لوگ نماز سے پلٹتے تو مجھے اسی سے اس کا علم ہوتا اور میں اسے سنتا تھا۔
اب تکبیر والی مجمل روایت کو صحیح بخاری، صحیح مسلم اور ابوداؤد وغیرہ کی ایک دوسری حدیث سے ملاکر دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ تکبیر سے مراد ذکر کرنا ہے یعنی نماز کے بعد بلند آواز سے نماز کے بعد کے اذکار کئے جائیں گے۔یہی وجہ ہے کہ امام بخاری نےاوپر بیان کردہ باب کے تحت  تکبیر والی حدیث سے پہلے ذکر والی حدیث بیان کی ہےپھر ذکر والی حدیث اور امام مسلم نے پہلے تکبیروالی حدیث بیان کی پھر ذکر والی حدیث ۔اور امام ابوداؤد نے "باب التَّكْبِيرِ بَعْدَ الصَّلاَةِ" کے تحت پہلے تکبیروالی حدیث پھر ذکر والی حدیث بیان کی ۔ ان تمام محدثین نے دونوں احادیث ذکر کی ہیں ان کی نظر میں ایک حدیث دوسرے کی شرح ہے بلکہ شیخین نے باب الذکرقائم کرکے صراحت کردی کہ تکبیر سے مراد بھی ذکر ہی ہےمزید اس اجمال کی شرح ذکر والی حدیث سے ہوجاتی ہے۔
اب ایک اہم نکتہ سمجھیں کہ ابن عباس نے نبی ﷺ کے سلام پھیرنے کی علامت یہ بیان کی کہ آپ جب تکبیرکرتے تو ہم آپ کی نماز ختم ہونا سمجھ جاتے ۔ اس تکبیروالی حدیث کو ذکر والی حدیث سے ملاکر دیکھ چکے ہیں ، اب اس حدیث سے ملاکر دیکھتے ہیں جس میں مذکور ہے کہ آپ سلام پھیرکرتین مرتبہ استغفار کرتے ۔۔۔۔
حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
كانَ رَسولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عليه وسلَّمَ، إذَا انْصَرَفَ مِن صَلَاتِهِ اسْتَغْفَرَ ثَلَاثًا وَقالَ: اللَّهُمَّ أَنْتَ السَّلَامُ وَمِنْكَ السَّلَامُ، تَبَارَكْتَ ذَا الجَلَالِ وَالإِكْرَامِ. قالَ الوَلِيدُ: فَقُلتُ لِلأَوْزَاعِيِّ: كيفَ الاسْتِغْفَارُ؟ قالَ: تَقُولُ: أَسْتَغْفِرُ اللَّهَ، أَسْتَغْفِرُ اللَّهَ(: صحيح مسلم:591)
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب اپنی نماز سے فارغ ہوتے تو تین دفعہ استغفار کرتےاور اس کے بعد کہتے: اللہم انت السلام و منک السلام، تبارکت ذاالجلال والاکرام ” اے اللہ! تو ہی سلام ہے اور سلامتی تیری ہی طرف سے ہے، تو صاحب رفعت و برکت ہے، اے جلال والے اور عزت بخشنے والے!“ ولید نے کہا: میں نے اوزاعی سے پوچھا: استغفار کیسے کیا جائے؟ انھوں نے کہا: استغفر اللہ، استغفر اللہ کہے۔
ابن عباس سے مروی تکبیر والی حدیث میں  تکبیر کی صراحت نہیں ہے، ابن عباس سے مروی دوسری حدیث سے ذکر کرنا معلوم ہوتا ہے مگر پھربھی یہ معلوم نہیں ہوتا کہ آپ کیا ذکر کرتے تھے یعنی ذکر کے الفاظ کیا تھے جسے سن کر معلوم ہوجاتا کہ آپ نے سلام پھیردیا ہے۔ اب ثوبان کی حدیث سے یہ معاملہ واضح ہوجاتا ہے کہ نبی ﷺ جب سلام پھیرتے یا نماز سے فارغ ہوتے تو تین دفعہ استغفار کرتے پھر "اللھم انت السلام۔۔۔ کہتے ۔ اگر آپ ﷺ اللہ اکبر بھی کہتے تو یہاں اس حدیث میں اس کا ذکر ضرور ہوتا ۔ کیا آپ یہاں غور نہیں کرتے کہ راوی استغفار سے متعلق صیغہ پوچھتے کہ آپ ﷺکن الفاظ میں استغفار کرتے ۔ اس حدیث میں مذکور یہی وہ کلام ہے جسے آپ ﷺ نماز سے فراغت کے بعد قبلہ رخ ہوکرکہتے  اور استغفار سب سے عظیم ذکر ہے پھر اپنا چہرہ مقتدی کی طرف کرلیتے جیساکہ صحیح مسلم کی  اس روایت سے معلوم ہوتا ہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہم سے روایت ہے انہوں نے کہا:
كانَ النبيُّ صَلَّى اللَّهُ عليه وسلَّمَ إذَا سَلَّمَ لَمْ يَقْعُدْ إلَّا مِقْدَارَ ما يقولُ: اللَّهُمَّ أَنْتَ السَّلَامُ وَمِنْكَ السَّلَامُ، تَبَارَكْتَ ذَا الجَلَالِ وَالإِكْرَامِ. وفي رِوَايَةِ ابْنِ نُمَيْرٍ يا ذَا الجَلَالِ وَالإِكْرَامِ( صحيح مسلم:592)
ترجمہ:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سلام پھیرنے کے بعد صرف یہ ذکر پڑھنے تک ہی (قبلہ رخ) بیٹھتے: اللہم! انت السلام ومنک السلام تبارکت ذاالجلال والاکرام ”اے اللہ! تو ہی سلام ہے اور سلامتی تیری ہی طرف سے ہے، تو صاحب رفعت وبرکت ہے، اے جلال والے اور عزت بخشنے والے!“ ابن نمیر کی روایت میں: یا ذالجلال والاکرام (یا کے اضافے کے ساتھ) ہے۔
صحیح مسلم کی اس روایت میں استغفار کا ذکر نہیں ہے مگر دوسری حدیث سے جو زیادتی ثابت ہے اس پر عمل کرنا ہے بلکہ صحیح مسلم کی ثوبان والی روایت میں ذوالجلال والاکرام میں "یا" کا ذکر نہیں ہے مگر دوسری روایت میں یا مذکور ہے اس لئے معمولی زیادتی بھی ہم عمل میں لاتے ہیں ۔
ایک نکتہ کی وضاحت:
اہل علم کی ایک جماعت اس جانب گئی ہے کہ ابن عباس سے مروی تکبیروالی روایت ، ذکر والی روایت کے لئےشرح وبیان ہے اس وجہ سے تکبیر سے "اللہ اکبر" مراد ہے جبکہ دوسری جماعت اس جانب گئی ہے کہ تکبیر مجمل ہے اور اس سے ذکر کرنا مراد ہے۔
شیخ سلیمان الرحیلی سے سوال کیا گیا کہ سلام پھیرنے کے بعد اور استغفار سے پہلے اللہ اکبر کہنے کا کیا حکم ہےتو شیخ نے جواب دیا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ثابت ہے کہ وہ نبی ﷺ کی نماز ختم ہونے کو تکبیر سے جان لیتے تھے ۔اور یہ لفظ مجمل ہے ۔ تکبیرکا اطلاق ذکر پر ہوتا ہے اور اس سے اللہ اکبر کہنا بھی مراد لی جاتی ہے۔سلام پھیرنے کے اذکار تفصیل  سےبیان کئے گئے ہیں لیکن اس میں سلام کے فورا بعد اللہ اکبر کہنا موجود نہیں ہےاور نبی ﷺ سے تفصیل کے ساتھ جو چیز ثابت ہے وہ یہ ہے کہ آپ ﷺ سلام پھیرنے کے بعد استغفراللہ کہتے ۔ اس وجہ سے اہل  علم کے راحج قول کے مطابق سنت یہ ہے کہ سلام پھیرنے کے فورا بعد استغفار کرنا ہے۔ جہاں تک تکبیر کا معاملہ ہے تو اس سے مراد ذکر ہے ، نہ کہ خصوصیت کے ساتھ  اللہ اکبرکہنا مراد ہے۔("السنۃ سفینۃ النجاۃ "یوٹیوب چینل کے ایک سوال وجواب سے ماخوذ)

اس مسئلہ میں اختلافی باتوں اور طول کلامی سے بچتے ہوئے اختصار کے ساتھ محض نفس مسئلہ پرتوجہ مرکوز رکھی گئی ہے۔ اور مذکورہ ساری باتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی روایت میں تکبیر سے مراد نماز کے بعد ذکر کرنا ہےاور کیا ذکر کرنا ہے اس کی کچھ تفصیل اوپر ہے اور اس کے علاوہ مزید اذکار وارد ہیں جو کتب حدیث اور کتب صلاۃ میں موجود ہیں۔ 

مکمل تحریر >>

Thursday, November 7, 2024


 
نبی ﷺ کا اپنے مہمانوں اور میزبانوں کے ساتھ برتاؤ
تحریر: مقبول احمد سلفی
جدہ دعوہ سنٹر، حی السلامہ -سعودی عرب

نبی کریم ﷺکی ذات اقدس زندگی کے تمام مراحل میں پوری انسانیت کے لئے بہترین نمونہ ہے ، اللہ تعالی نے آپ کو ہمارے درمیان بھیج کر دنیاوالوں پر خصوصا مومنوں پر بڑا احسان کیا ہے ۔ اللہ تعالی کا ارشاد گرامی ہے:
لَقَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولًا مِّنْ أَنفُسِهِمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُوا مِن قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ (آل عمران:164)
ترجمہ:بیشک مسلمانوں پر اللہ تعالیٰ کا بڑا احسان ہے کہ انہیں میں سے ایک رسول ان میں بھیجا، جو انہیں اس کی آیتیں پڑھ کر سناتا ہے اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب اور حکمت سکھاتا ہے یقیناً یہ سب اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے۔
آپ ﷺ نے ہمیں ہرقسم کی بھلائی سے آگاہ کیا اور ہرقسم کے شروفساد پر تنبیہ فرمائی ۔ اور آپ بحیثیت انسان خود بھی بھلائی پرعمل کرنے اور منکر سے بچنے میں سب سے عمدہ نمونہ تھے ۔ اس تحریر کے ذریعہ آپ ﷺ کی زندگی سے مہمانوں اور میزبانوں کے ساتھ حسن سلوک کا پہلو عیاں کروں گا۔ مہمان کو عربی میں ضیف اور میزبان کو مضیف یا مستضیف کہتے ہیں ، اسی سے ضیافت کا لفظ نکلا ہے جسے ہم لوگ عام بول چال میں دعوت کہتے ہیں گویا یہاں آپ ضیافت یعنی دعوت کھانے اور دعوت کھلانے میں  رسول اللہ ﷺ کااسوہ پیش کروں گا۔
آپ ﷺ کی حیات طیبہ سے  ضیافت کے پہلو پرنظر ڈالتے ہیں تو آپ اپنے مہمانوں اورمیزبانوں کے ساتھ اچھے سے اچھے برتاؤ میں ہمارے لئے عمدہ ترین نمونہ نظرآتے ہیں اور پہلےعمومی دلائل آپ کابہترین نمونہ ہونا پانچ حیثیتوں سے واضح کروں گا پھراس سےمتعلق خصوصی دلائل پیش کروں گا ۔
پہلی حیثیت: عرب قوم جودوسخاوت میں بہت مشہور ہے ، قرآن نےسورہ توبہ(19) میں  مشرکوں کی خدمت حجاج کا ذکر کیاہے یعنی کفار ومشرکین حاجیوں کی خدمت اور ان کو کھلانے پلانے کو سب سے عظیم عمل جانتے تھے حتی کہ ایمان اور جہاد سے بھی بڑھ کر۔چنانچہ اس آیت کی شان نزول ملاحظہ فرمائیں ۔ ‏‏‏‏ سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منبر کے پاس بیٹھا تھا۔ ایک شخص بولا مجھے پرواہ نہیں مسلمان ہونے کے بعد کسی عمل کی جب میں پانی پلاؤں گا حاجیوں کو۔ دوسرا بوالا مجھے کیا پرواہ کسی عمل کی اسلام کے بعد میں تو مسجد حرام کی مرمت کرتا ہوں۔ تیسرا بولا ان چیزوں سے تو جہاد افضل ہے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ان کو ڈانٹا اور کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے منبر کے سامنے جمعہ کے دن مت پکارو لیکن میں جمعہ کی نماز کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھوں گا۔ اس بات کو جس میں تم نے اختلاف کیا تب اللہ تعالیٰ نے آیت اتاری، «أَجَعَلْتُمْ سِقَايَةَ الْحَاجِّ وَعِمَارَةَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ كَمَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ» یعنی ”کیا تم نے حاجیوں کا پانی پلانا اور مسجد حرام کی خدمت کرنا ایمان اور جہاد کے برابر کر دیا ہرگز نہیں اللہ کے سامنے برابر نہیں"۔(صحیح مسلم:4871)
نبی اکرم ﷺ نبوت سے قبل ہی  سے اخلاق واقدار اور تکریم انسانیت کے پیکرمجسم تھے بلکہ مہمانوں کی ضیافت آپ کی شخصیت کا ایک نمایاں پہلو تھا ، یہی وجہ ہے کہ جب آپ پر غارحرام میں پہلی وحی نازل ہوئی تو اس سے خوف زدہ ہوگئے اور اپنی جان کا خطرہ محسوس کرنے لگے، اس وقت سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے آپ کی ڈھارس بندھاتے ہوئے آپ سے فرمایا:
كَلَّا، أبْشِرْ فَوَاللَّهِ لا يُخْزِيكَ اللَّهُ أبَدًا، فَوَاللَّهِ إنَّكَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ، وتَصْدُقُ الحَدِيثَ، وتَحْمِلُ الكَلَّ ، وتَكْسِبُ المَعْدُومَ ، وتَقْرِي الضَّيْفَ، وتُعِينُ علَى نَوَائِبِ الحَقِّ(صحيح البخاري:4953)
ترجمہ:ایسا ہرگز نہ ہو گا، آپ کو خوشخبری ہو، اللہ کی قسم! اللہ آپ کو کبھی رسوا نہیں کرے گا۔ اللہ کی قسم! آپ تو صلہ رحمی کرنے والے ہیں، آپ ہمیشہ سچ بولتے ہیں، آپ کمزور و ناتواں کا بوجھ خود اٹھا لیتے ہیں، جنہیں کہیں سے کچھ نہیں ملتا وہ آپ کے یہاں سے پا لیتے ہیں۔ آپ مہمان نواز ہیں اور حق کے راستے میں پیش آنے والی مصیبتوں پر لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نبوت حاصل ہونے کے  پہلے سے ہی آپ ایک بہترین مہمان نواز تھے ۔
دوسری حیثیت: لوگوں اور قوم کی ضیافت کرنا انبیائے کرام کی سنت رہی ہے ، قرآن نے متعدد پیغمبروں کی مہمان نوازی کا تذکرہ کیا ہے جیسے سیدناابراہیم علیہ السلام سے متعلق اللہ کا فرمان ہے:
هَلْ أَتَاكَ حَدِيثُ ضَيْفِ إِبْرَاهِيمَ الْمُكْرَمِينَ، إِذْ دَخَلُوا عَلَيْهِ فَقَالُوا سَلَامًا ۖ قَالَ سَلَامٌ قَوْمٌ مُّنكَرُونَ، فَرَاغَ إِلَىٰ أَهْلِهِ فَجَاءَ بِعِجْلٍ سَمِينٍ، فَقَرَّبَهُ إِلَيْهِمْ قَالَ أَلَا تَأْكُلُونَ (الذاریات:24-27)
ترجمہ:کیا تجھے ابراہیم (علیہ السلام) کے معزز مہمانوں کی خبر بھی پہنچی ہے؟وہ جب ان کے ہاں آئے تو سلام کیا، ابراہیم نے جواب سلام دیا (اور کہا یہ تو) اجنبی لوگ ہیں۔ پھر (چپ چاپ جلدی جلدی) اپنے گھر والوں کی طرف گئے اور ایک فربہ بچھڑے (کا گوشت) لائے۔اور اسے ان کے پاس رکھا اور کہا آپ کھاتے کیوں نہیں۔
یہاں پر اللہ نے مہمان کو ضیف ابراہیم کہا ہے پھر بحیثیت میزبان ابراہیم علیہ السلام کی  جانب سے  پرتکلف بچھڑے کی ضیافت کا ذکر کیا ہے بلکہ غور کریں تو اس میں بڑے اہتمام وتکریم کے ساتھ مہمان نوازی اور آداب ضیافت کا ذکر ہے ۔ مہمان سے پوچھے بغیران کے لئے بہترین قسم کی ضیافت کا بلاتاخیرابراہیم علیہ السلام نے انتظام کیا اور حسن محبت وشفقت سے کھانا ان کے سامنے پیش کرتے ہوئے آپ ان سے ادبا مخاطب ہوئے اورکہاآپ کیوں نہیں کھاتے ؟
قرآن کے اس واقعہ ضیافت کو اس حدیث سے جوڑ کر دیکھیں جس میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا آپ ﷺ کےمتعلق بیان فرماتی ہیں :
كان خُلُقُه القرآنَ(صحيح الجامع:4811)
ترجمہ: نبی ﷺ کا اخلاق قرآن ہے۔
تو پتہ چلتا ہے کہ نبی ﷺ مہمان نوازی میں انبیاء کی اس سنت پر بحسن وخوبی عامل تھے ۔
تیسری حیثیت: مہمان کی تکریم، ان کی ضیافت وخدمت ، خبرگیری ، حسن سلوک اور تعاون و امداد اعلی اقدار کی نشانی ہے اور ہمارے نبی محمد ﷺ اخلاق کے بلند معیار پرفائز تھے بلکہ آپ تو مکارم اخلاق کی تکمیل کے لئے آتے تھے ۔
اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
 وَإِنَّكَ لَعَلَىٰ خُلُقٍ عَظِيمٍ (القلم:4)
ترجمہ:اور بیشک تو بہت بڑے (عمدہ) اخلاق پر ہے۔
اور نبی مکرم ﷺ کا ارشاد ہے:
إنما بُعِثْتُ لأُتَمِّمَ مكارمَ و في روايةٍ ( صالحَ ) الأخلاقِ(السلسلة الصحيحة:45)
ترجمہ:مجھے تو صرف اس (‏‏‏‏مقصد) کے لیے مبعوث کیا گیا کہ اخلاقی اقدار کی تکمیل کر سکوں۔
یعنی آپ دنیا میں بھیجے ہی اس لئے گئے کہ آپ لوگوں کو بہترین اخلاق وکردار اور عمدہ اعمال کا حکم دیں اور اوصاف رذیلہ سے منع کریں ۔ یہی وجہ ہے کہ آپ میں اخلاق حسنہ بدرجہ اتم موجود تھا۔آپ نہایت شفیق ورحم دل ، مہربان وغم گسار اور محسن وخادم خلق تھے یعنی مہمان ومیزبان کے ساتھ اچھے سلوک وبرتاؤسے پیش آنے والے تمام صفات حمیدہ آپ میں موجود تھے ۔
چوتھی حیثیت: اللہ کے رسول ﷺ کی ذات گرامی میں انسانوں کے لئے بہترین اسوہ موجودہے اور جو لوگوں کا اسوہ ہوتا ہے وہ لوگوں میں سب سے زیادہ باکمال ہوتا ہے ۔ اللہ کا فرمان ہے:
لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَن كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللَّهَ كَثِيرًا (الاحزاب:21)
ترجمہ:یقیناً تمہارے لئے رسول اللہ میں عمدہ نمونہ (موجود) ہے، ہر اس شخص کے لئے جو اللہ تعالیٰ کی قیامت کے دن کی توقع رکھتا ہے اور بکثرت اللہ تعالیٰ کی یاد کرتا ہے۔
بطور اسوہ محمد ﷺ کی نبوت والی زندگی کی ایک ایک بات محفوظ ہے ، تاریخ انسانی میں آپ جیسی کوئی شخصیت نہیں جس کی زندگی کے تمام پہلو مکتوب ہوں۔ صحابہ کرام نے آپ کی زندگی کے تمام پہلوؤں کو اس لئے رقم کیا کہ اس میں ہمارے لئے بہترین اسوہ ہے ۔ سبحان اللہ ، اللہ نے جس ذات گرامی کو ہمارے لئے اسوہ بنایاہے واقعتاان کے اندر زندگی کے تمام مراحل میں ہمارے لئے بہترین اسوہ ہے ۔
پانچویں حیثیت:اللہ تعالی نے آپ ﷺ کے ذریعہ ہی ہمیں خیروشر کی تعلیم دی ، آپ نے ہی ہمیں ضیافت کے آداب واحکام سکھائے اور مہمان ومیزان کے حقوق واحکام واضح کئے ۔  گویا مہمان ومیزبان کے ساتھ اچھے سلوک وبرتاؤ اور ان کی خدمت سے متعلق آپ کے جملہ فرامین اس بات پر شاہد ہیں کہ آپ خود بھی ان باتوں پر عمل پیراہونے والے تھے چنانچہ مہمان سے متعلق آپ ﷺ کے بعض اہم  فرامین دیکھتے ہیں ۔
(1)آپ ﷺنے مہمان نوازی کرنے اور لوگوں کو کھلانے پر ابھارا۔
سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
 لا خيرَ فِيمَنْ لا يُضِيفُ(صحيح الجامع:7492)
ترجمہ:اس بندے میں بھی کوئی خیر و بھلائی نہیں، جو مہمان نوازی نہیں کرتا۔
اسی طرح عبداللہ بن سلام رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ مدینہ پہنچے تو سب سے پہلے لوگوں سے جوبات کہی یہ تھی، آپ فرماتے ہیں:
أَيُّهَا النَّاسُ ، أَفْشُوا السَّلاَمَ ، وَأَطْعِمُوا الطَّعَامَ ، وَصَلُّوا وَالنَّاسُ نِيَامٌ ، تَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ بِسَلاَمٍ(صحيح الترمذي:2485)
آپ کی ان جنتی تعلیمات کے سبب صحابہ میں ایک دوسرے کو خصوصا حاجت مندوں کو کھلانےکا جذبہ پایا جاتا تھا چنانچہ ایک واقعہ سے اندازہ لگائیں، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،انھوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مَن أصْبَحَ مِنْكُمُ اليومَ صائِمًا؟ قالَ أبو بَكْرٍ: أنا، قالَ: فمَن تَبِعَ مِنْكُمُ اليومَ جِنازَةً؟ قالَ أبو بَكْرٍ: أنا، قالَ: فمَن أطْعَمَ مِنكُمُ اليومَ مِسْكِينًا قالَ أبو بَكْرٍ: أنا، قالَ: فمَن عادَ مِنْكُمُ اليومَ مَرِيضًا قالَ أبو بَكْرٍ: أنا، فقالَ رَسولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عليه وسلَّمَ: ما اجْتَمَعْنَ في امْرِئٍ إلَّا دَخَلَ الجَنَّةَ.(صحيح مسلم:1028)
ترجمہ:آج تم میں سے روزے دار کون ہے؟ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آج تم میں سے جنازے کے ساتھ کون گیا؟ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا: میں، آپ نے پوچھا: آج تم میں سے کسی نے کسی مسکین کو کھانا کھلایا ہے؟ابو بکر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: میں نے، آپ نے پوچھا: تو آج تم میں سے کسی بیمار کی تیمار داری کس نے کی؟ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کسی انسان میں یہ نیکیاں جمع نہیں ہوتیں مگر وہ یقیناً جنت میں داخل ہوتاہے۔
(2)آپ نے مہمان کی تکریم کو ایمان کی علامت قرار دیا۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مَن كانَ يُؤْمِنُ باللَّهِ واليَومِ الآخِرِ فَلْيُكْرِمْ ضَيْفَهُ(صحيح البخاري:6138)
ترجمہ:جو شخص اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اسے اپنے مہمان کی عزت کرنی چاہئے۔
(3)آپ نے مہمان کی ضیافت کو بطورحق متعین فرمایا۔
وإنَّ لضَيفِكَ علَيكَ حقًّا (صحيح أبي داود:1369)
ترجمہ: اور بے شک تم پر تمہارے مہمان کا بھی حق ہے۔
مہمان کا میزبان پر کس طرح حق ہے وہ بھی رسول اللہ ﷺ نے متعین کردیا، آپ فرماتے ہیں:
مَن كان يُؤمِنُ باللهِ واليومِ الآخِرِ فلْيُكرِمْ جارَهُ، ومَن كان يُؤمِنُ باللهِ واليومِ الآخِرِ فلْيُكرِمْ ضَيْفَهُ جائِزَتَه. قال : وما جائِزَتُه يا رسولَ اللهِ ؟ قال : يومٌ وليلةٌ، والضِّيافَةُ ثلاثةُ أيامٍ، فما كان وَراءَ ذلك فهو صدَقَةٌ عليه(صحيح البخاري:6019)
ترجمہ: جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے پڑوسی کا اکرام کرے اور جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے مہمان کی دستور کے موافق ہر طرح سے عزت کرے۔ پوچھا: یا رسول اللہ! دستور کے موافق کب تک ہے۔ فرمایا ایک دن اور ایک رات اور میزبانی تین دن کی ہے اور جو اس کے بعد ہو وہ اس کے لیے صدقہ ہے۔
جو مہمان کی ضیافت نہیں کرتے ایسے لوگوں کے بارے میں بھی نبی ﷺ نے ہماری رہنمائی فرمائی ہے۔ عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ ہمیں (تبلیغ وغیرہ کے لیے) بھیجتے ہیں اور راستے میں ہم بعض قبیلوں کے گاؤں میں قیام کرتے ہیں لیکن وہ ہماری مہمانی نہیں کرتے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اس سلسلے میں کیا ارشاد ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر ہم سے فرمایا:
إنْ نَزَلْتُمْ بقَوْمٍ فأمَرُوا لَكُمْ بما يَنْبَغِي لِلضَّيْفِ فَاقْبَلُوا، فإنْ لَمْ يَفْعَلُوا، فَخُذُوا منهمْ حَقَّ الضَّيْفِ الذي يَنْبَغِي لهمْ.( صحيح البخاري:6137)
ترجمہ:جب تم ایسے لوگوں کے پاس جا کر اترو اور وہ جیسا دستور ہے مہمانی کے طور پر تم کو کچھ دیں تو اسے منظور کر لو اگر نہ دیں تو مہمانی کا حق قاعدے کے موافق ان سے وصول کر لو۔
اور ایک دوسری روایت میں اس طرح مروی ہے، ابوکریمہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ليلةُ الضَّيفِ حقٌّ على كلِّ مسلمٍ ، فمن أصبح بفِنائِه ، فهو عليه دَينٌ ، إن شاء اقتَضى ، وإن شاء ترك(صحيح أبي داود:3750)
ترجمہ:ہر مسلمان پر مہمان کی ایک رات کی ضیافت حق ہے، جو کسی مسلمان کے گھر میں رات گزارے تو ایک دن کی مہمانی اس پر قرض ہے، چاہے تو اسے وصول کر لے اور چاہے تو چھوڑ دے۔
یہاں معلوم رہے کہ جس مہمان کی واجبی دعوت کرنی ہے وہ سفر یا دور سے آنے والا مسافر، یا رشتہ دار یا اجنبی شخص ہے البتہ قریبی رشتہ داروں کی ضیافت صلہ رحمی اور دیگر مسلمانوں کی دعوت احسان وسلوک کے درجے میں ہے۔
(4) آپ نے دعوت قبول کرنا فریضہ بلکہ ایک مسلمان کا دوسرے پر حق قرار دیا۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ فرماتے ہیں:
حَقُّ المُسْلِمِ علَى المُسْلِمِ خَمْسٌ: رَدُّ السَّلَامِ، وعِيَادَةُ المَرِيضِ، واتِّبَاعُ الجَنَائِزِ، وإجَابَةُ الدَّعْوَةِ، وتَشْمِيتُ العَاطِسِ.(صحيح البخاري:1240)
ترجمہ: مسلمان کے مسلمان پر پانچ حق ہیں سلام کا جواب دینا، مریض کا مزاج معلوم کرنا، جنازے کے ساتھ چلنا، دعوت قبول کرنا، اور چھینک پر (اس کے «الحمدلله» کے جواب میں) «يرحمک الله» کہنا۔
اسی طرح حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إِذَا دُعِيَ أَحَدُكُمْ إِلَى الْوَلِيمَةِ فَلْيُجِبْ(صحیح مسلم:1429)
ترجمہ:جب تم میں سے کسی کو ولیمے کی دعوت دی جائے تو وہ قبول کرے۔
اور جس کو دعوت دی جائے وہ روزہ دار ہو تو میزبان کو دعا دیدے، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إِذَا دُعِيَ أَحَدُكُمْ فَلْيُجِبْ، فإنْ كانَ صَائِمًا فَلْيُصَلِّ، وإنْ كانَ مُفْطِرًا فَلْيَطْعَمْ( صحيح مسلم:1431)
ترجمہ:جب تم میں سے کسی کو دعوت دی جائے تو وہ قبول کرے۔ اگر وہ روزہ دار ہے تو دعا کرے اور اگر روزے کے بغیر ہے تو کھانا کھائے۔
(5) مہمان کے لئے پہلے سے گھر میں بستر کا انتظام ہونے پر ابھارا۔
حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا:
فِرَاشٌ لِلرَّجُلِ، وَفِرَاشٌ لاِمْرَأَتِهِ، وَالثَّالِثُ لِلضَّيْفِ، وَالرَّابِعُ لِلشَّيْطَانِ.(صحيح مسلم:2084)
ترجمہ: ایک بستر مرد کے لیے ہے ایک اس کی بیوی کے لیے تیسرا بستر مہمان کے لیے اور چوتھا بستر شیطان کے لیے ہے۔
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ گھر میں پہلے سے مہمان کے لئے ضروری اسباب مہیا ہوں(جیسے بستر اور سہولت ہو تو مہمان خانہ و ٹوائلیٹ وغیرہ) تاکہ کوئی مہمان کسی کے گھر ٹھہر سکے اور گھر میں ضرورت سے زیادہ سامان نہ ہو۔
(6)دعوت میں مالدار کے ساتھ  فقراء ومساکین کوبھی بلانے کی ترغیب دی۔
اولا ہمارا کھانا اچھے لوگ کھائیں اور اپنی دعوت میں ہم مالداروں کے ساتھ فقراء کو بھی بلائیں اور جو دعوت قبول نہ کرے وہ اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرتا ہے۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں:
شَرُّ الطَّعَامِ طَعَامُ الوَلِيمَةِ ، يُدْعَى لَهَا الأغْنِيَاءُ ويُتْرَكُ الفُقَرَاءُ، ومَن تَرَكَ الدَّعْوَةَ فقَدْ عَصَى اللَّهَ ورَسولَه، صلَّى اللهُ عليه وسلَّم(صحيح البخاري:5177)
ترجمہ:ولیمہ کا وہ کھانا بدترین کھانا ہے جس میں صرف مالداروں کو اس کی طرف دعوت دی جائے اور محتاجوں کو نہ کھلایا جائے اور جس نے ولیمہ کی دعوت قبول کرنے سے انکار کیا اس نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی۔
(7) استطاعت ہو تو پرتکلف ورنہ جومیسر ہوضیافت میں پیش کرے۔
عَنْ أَنَسٍ، قَالَ:كُنَّا عِنْدَ عُمَرَ، فَقَالَ: نُهِينَا عَنِ التَّكَلُّفِ(صحيح البخاري:7293)
ترجمہ: انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم عمر رضی اللہ عنہ کے پاس تھے تو آپ نے فرمایا کہ ہمیں تکلف اختیار کرنے سے منع کیا گیا ہے۔
حضرت سلمان (رضی الله عنہ) کہتے ہیں:نَهانا رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ أنْ نَتكلَّفَ للضَّيفِ( السلسلة الصحيحة: 5/512)
ترجمہ:ہمیں رسول اللہ (ﷺ) نے مہمان کے لئے تکلف کرنے سے منع فرمایا ہے۔
حضرت سلمان فارسی  کی دعوت کی تفصیل اس طرح ہے۔ شقیق کہتے ہیں کہ میں اور میرا ایک دوست سیدنا سلمان رضی اللہ عنہ کے پاس گئے، انہوں نے (‏‏‏‏بطور میزبانی) روٹی اور کوئی نمکین چیز پیش کی اور کہا: اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تکلف سے منع نہ کیا ہوتا تو میں تمہاری خاطر میں تکلف کرتا۔ میرے دوست نے کہا: اگر نمکین ڈش میں پہاڑی پودینہ ڈال دیا جاتا (‏‏‏‏تو بہت اچھا ہوتا)۔ انہوں نے کوئی لوٹا نما برتن بطور گروی سبزی فروش کی طرف بھیجا اور پودینہ منگوایا۔ جب ہم کھانا کھا چکے تو میرے دوست نے کہا: "الحمدُ للهِ الذِي قنَّعنَا بما رزقَنا"(ساری تعریف اس اللہ کے لیے ہے جس نے ہمیں اس رزق پر قناعت کرنے کی توفیق بخشی)۔ سیدنا سلمان رضی اللہ عنہ نے کہا: اگر تو نے اپنے رزق پر قناعت کی ہوتی تو میرا برتن سبزی فروش کے پاس گروی نہ پڑا ہوتا۔(سلسلہ صحیحہ:2392)
(8)کھانے کے بعد بطور شکرگھروالوں کو دعا دینی چاہئے ۔
کھانا کھالینے کے بعد مہمان کو چاہئے کہ میزبان کو اچھی دعائیں دے اور یہ دعائیں بھی دے سکتا ہے ۔
اللهمَّ ! بارِكْ لهم في ما رزقتَهم . واغفرْ لهم وارحمْهم(صحيح مسلم:2042)
ترجمہ:اللہ برکت دے ان کی روزی میں اور بخش دے ان کو اور رحم کر ان پر۔
اللهمَّ ! أطعِمْ مَن أطعَمني . وأسْقِ من أسقاني(صحيح مسلم:2055)
ترجمہ: اسے اللہ ! جس نے مجھے کھلایا تو اس کوبھی پلا اور جس نے مجھے پلایا اس کو بھی پلا۔
مہمان نوازی سے متعلق چند فرامین نبوی پیش کئے ، ان فرامین کے ذکر کا مقصد مہمان نوازی کے آداب بیان کرنا ساتھ ہی یہ بتانا مقصود ہے کہ ان تعلیمات پر ہمارے نبی محمد ﷺ بھی عمل پیرا تھے کیونکہ آپ مہمانوں کے یہ حقوق وآداب متعین فرمائیں اور ان پر عمل پیرا نہ ہوں، ایسا ممکن نہیں ہے ، اور اللہ ایسے لوگوں کو تنبیہ فرمائی ہے جو اپنے قول کے مطابق عمل نہیں کرتے ، فرمان الہی ہے:
أَتَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنسَوْنَ أَنفُسَكُمْ وَأَنتُمْ تَتْلُونَ الْكِتَابَ ۚ أَفَلَا تَعْقِلُونَ (البقرة:44)
ترجمہ: لوگوں کو بھلائیوں کا حکم کرتے ہو اور خود اپنے آپ کو بھول جاتے ہو باوجودیکہ تم کتاب پڑھتے ہو، کیا اتنی بھی تم میں سمجھ نہیں؟
حاصل کلام یہ ہے کہ یہ سارے اوصاف محمد ﷺ کے تھے ۔ اب عمومی طور پر آپ کے بارے میں سرے دست یہ جانتے چلیں کہ آپ لوگوں کو کھلانے پینے اور ضرورت مند ومحتاجوں پر خرچ کرنے میں بہت زیادہ سخی اور فیاض تھے جبکہ اپنے لئے اللہ سے زندہ رہنے بھر روزی کا سوال کرتے تھے، ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی «اللهم ارزق آل محمد قوتا» ”اے اللہ! آل محمد کو اتنی روزی دے کہ وہ زندہ رہ سکیں۔(صحیح البخاری:6460)
اسی طرح رسول اللہ کے گھر کھانے کی قلت ہوتی، خود کم کھاتے لیکن مہمانوں کا زیادہ خیال کرتے۔
عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: إِنْ كُنَّا آلَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَنَمْكُثُ شَهْرًا مَا نَسْتَوْقِدُ بِنَارٍ، إِنْ هُوَ إِلَّا التَّمْرُ وَالْمَاءُ (صحیح مسلم:7449)
ترجمہ:حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی انھوں نے کہا: ہم آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم ایک ماہ تک اس حالت میں رہتے تھے کہ آگ نہیں جلاتے تھے بس کھجوراور پانی پر گزرہوتی تھی۔
رسول کریم خود قناعت فرماتے مگر دوسروں کے لئے بیحد سخی تھے، ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں:
كانَ النبيُّ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ أجْوَدَ النَّاسِ بالخَيْرِ، وأَجْوَدُ ما يَكونُ في شَهْرِ رَمَضَانَ، لأنَّ جِبْرِيلَ كانَ يَلْقَاهُ في كُلِّ لَيْلَةٍ في شَهْرِ رَمَضَانَ، حتَّى يَنْسَلِخَ يَعْرِضُ عليه رَسولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ القُرْآنَ، فَإِذَا لَقِيَهُ جِبْرِيلُ كانَ أجْوَدَ بالخَيْرِ مِنَ الرِّيحِ المُرْسَلَةِ.(صحيح البخاري:4997)
ترجمہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خیر خیرات کرنے میں سب سے زیادہ سخی تھے اور رمضان میں آپ کی سخاوت کی تو کوئی حد ہی نہیں تھی کیونکہ رمضان کے مہینوں میں جبرائیل علیہ السلام آپ سے آ کر ہر رات ملتے تھے یہاں تک کہ رمضان کا مہینہ ختم ہو جاتا وہ ان راتوں میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ قرآن مجید کا دورہ کیا کرتے تھے۔ جب جبرائیل علیہ السلام آپ سے ملتے تو اس زمانہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تیز ہوا سے بھی بڑھ کر سخی ہو جاتے تھے۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا:
كانَ رَسولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عليه وَسَلَّمَ أَحْسَنَ النَّاسِ، وَكانَ أَجْوَدَ النَّاسِ، وَكانَ أَشْجَعَ النَّاسِ(صحيح مسلم:2307)
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمام انسانوں میں سب سے بڑھ کر خوبصورت سب انسانوں سے بڑھ کر سخی اور سب سے زیادہ بہادرتھے۔
عربوں کے یہاں سخاوت کا مطلب مہمانوں کی ضیافت اور دوسروں کو کھلانا پلا نا ہے یعنی آپ عربوں میں سب سے زیادہ مہمانوں کا خیال کرنے اور لوگوں کو کھلانے پلانے والے تھے ۔
اب موضوع سے متعلق خصوصی دلائل دیکھتے ہیں اور معلوم کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ اپنے مہمانوں اور میزبانوں سے کیسا برتاؤ کرتے تھے  اور ایک جملہ میں یہ بات سمجھتے چلیں کہ جو رسول اللہ کا مہمان بنتا وہ خود کو خوش نصیب سمجھتا اور جو رسول اللہ کو اپنا مہمان بناتا وہ بھی خود کو بہت نصیب والا سمجھتااور ایسا کیوں نہ ہو کہ آپ کی ذات اقدس ہی ایسی بلندپایہ تھی ۔
پہلے محمد ﷺ کا اپنے مہمانوں کے ساتھ برتاؤدیکھتے ہیں پھرمیزبانوں کے ساتھ برتاؤدیکھیں گے ۔
(1) بغیر کسی بدلے کی نیت سے کھلاتے:
نبی ﷺ نے اپنے قول وعمل سے ہمیں آگاہ کیا ہے کہ ہم کسی کو کھلاتے پلاتے ہیں تو اس کے معاوضہ کی توقع نہ رکھیں جیساکہ اللہ تعالی فرماتاہے:
إِنَّمَا نُطْعِمُكُمْ لِوَجْهِ اللَّهِ لَا نُرِيدُ مِنكُمْ جَزَاءً وَلَا شُكُورًا (الانسان:9)
ترجمہ:ہم تمہیں صرف اللہ تعالیٰ کی رضامندی کے لئے کھلاتے ہیں نہ تم سے بدلہ چاہتے ہیں نہ شکرگزاری۔
ہاں کھانے والے کا حق بنتا ہے کہ اپنے محسن کا شکریہ ادا کرے اور اس کے دعا دے ۔
(2)مہمان ووفود کا استقبال کرتے:
نبی ﷺ آنےوالے مہمانوں اور وفد کا ترحیبی کلمات کے ذریعہ بہترین طریقہ پر استقبال کرتے تاکہ آنے والا اجنبیت کی بجائے اپنائیت اور محبت ومسرت محسوس کرے۔
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: لَمَّا قَدِمَ وَفْدُ عَبْدِ الْقَيْسِ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:مَرْحَبًا بِالْوَفْدِ الَّذِينَ جَاءُوا غَيْرَ خَزَايَا وَلَا نَدَامَى (بخاری:6176)
ترجمہ: ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ جب قبیلہ عبدالقیس کا وفد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مرحبا ان لوگوں کو جو آن پہنچے تو نہ وہ ذلیل ہوئے، نہ شرمندہ (خوشی سے مسلمان ہو گئے ورنہ مارے جاتے شرمندہ ہوتے)۔
(3)دعوت میں تکلف نہیں کرتے:
اللہ تعالی کا فرمان ہے:
قُلْ مَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ وَمَا أَنَا مِنَ الْمُتَكَلِّفِينَ (ص:86)
ترجمہ:کہہ دیجئے کہ میں تم سے اس پر کوئی بدلہ طلب نہیں کرتا اور نہ میں تکلف کرنے والوں میں سے ہوں ۔
نبی ﷺ زندگی کے تمام امور میں تکلف سے اجتناب کرتے اور اپنے اصحاب کو بھی منع فرماتے بلکہ آپ نے گزشتہ سطور میں پڑھا ہوگا کہ رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کو مہمان نوازی میں تکلف سے منع فرمایا، ہاں استطاعت ہو تو اچھے سے اچھا پکوان پیش کرسکتے ہیں اس میں حرج نہیں ہے تاہم استطاعت نہ ہونے پر تکلف ممنوع ہے۔
لقیط بن صبرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں بنی منتفق کے وفد کا سردار بن کر یا بنی منتفق کے وفد میں شریک ہو کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا،ہمارے لئے کھانا بنایا گیا اور تھالی لائی گئی، اس وقت نبی ﷺ گھر پر نہیں تھے پھر جب تشریف لائے تو آپ نے اپنے چرواہے سے کہاکہ ایک بکری ذبح کرو پھر آپ لقیط سے یہ بھی فرماتے ہیں :
 لَا تَحْسِبَنَّ، وَلَمْ يَقُلْ لَا تَحْسَبَنَّ أَنَّا مِنْ أَجْلِكَ ذَبَحْنَاهَا لَنَا غَنَمٌ مِائَةٌ لَا نُرِيدُ أَنْ تَزِيدَ، فَإِذَا وَلَّدَ الرَّاعِي بَهْمَةً ذَبَحْنَا مَكَانَهَا شَاةً( صحيح أبي داود:142)
ترجمہ:یہ نہ سمجھنا کہ ہم نے اسے تمہارے لیے ذبح کیا ہے، بلکہ (بات یہ ہے کہ) ہمارے پاس سو بکریاں ہیں جسے ہم بڑھانا نہیں چاہتے، اس لیے جب کوئی بچہ پیدا ہوتا ہے تو ہم اس کی جگہ ایک بکری ذبح کر ڈالتے ہیں۔
(4)کبھی دعوت میں آپسی کھانا ملاجلاکر کھاتے پیتے:
غزوہ خیبر کے موقع پر سفر میں ہی نبی نے صفیہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کیا اور ولیمہ کی دعوت کرتے وقت اپنے ساتھیوں سے فرمایا:
مَنْ كَانَ عَنْدَهُ شَيْءٌ، فَلْيَجِئْ بِهِ "، قَالَ: وَبَسَطَ نِطَعًا، قَالَ: فَجَعَلَ الرَّجُلُ يَجِيءُ بِالْأَقِطِ، وَجَعَلَ الرَّجُلُ يَجِيءُ بِالتَّمْرِ، وَجَعَلَ الرَّجُلُ يَجِيءُ بِالسَّمْنِ، فَحَاسُوا حَيْسًا، فَكَانَتْ وَلِيمَةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.(صحیح البخاری :3497)
ترجمہ:جس کے پاس (کھانے کی) کوئی چیز ہو تو وہ اسے لے آئے۔“ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چمڑے کا دسترخوان بچھوا دیا۔ کہا: تو کوئی آدمی پنیر لے کر آنے لگا، کوئی کھجور لے کر آنے لگا اور کوئی گھی لے کر آنے لگا۔ پھر لوگوں نے (کھجور، پنیر اور گھی کو) اچھی طرح ملا کر حلوہ تیار کیا۔ اور یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ولیمہ تھا۔
نبوی ضیافت میں کبھی کبھی ایسی مشترکہ ضیافت بھی دیکھنے کو ملتی ہے۔
(5)مہمانوں کی خدمت کرتے:
نبی ﷺ مہمان کو خود سے کھانا پیش کرتے، ان کی خدمت کرتے، ان کے ساتھ کھاتے اور ان سے بات چیت کرتے تھے۔مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں :
ضِفتُ النَّبيَّ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ ذاتَ ليلةٍ فأمرَ بِجَنبٍ فشُوِيَ، وأخذَ الشَّفرةَ فجعلَ يحزُّ لي بِها منهُ، قالَ: فجاءَ بلالٌ فآذنَهُ بالصَّلاةِ، قالَ: فألقى الشَّفرةَ، وقالَ: ما لَهُ ترِبَت يداهُ وقامَ يصلِّي زادَ الأنباريُّ: وَكانَ شاربي وفَى فقصَّهُ لي على سِواكٍ أو قالَ: أقصُّهُ لَكَ علَى سواكٍ(صحيح أبي داود:188)
ترجمہ:میں ایک رات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا مہمان ہوا تو آپ نے بکری کی ران بھوننے کا حکم دیا، وہ بھونی گئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چھری لی، اور میرے لیے اس میں سے گوشت کاٹنے لگے، اتنے میں بلال رضی اللہ عنہ آئے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز کی خبر دی، تو آپ نے چھری رکھ دی، اور فرمایا: اسے کیا ہو گیا؟ اس کے دونوں ہاتھ خاک آلود ہوں؟، اور اٹھ کر نماز پڑھنے کھڑے ہوئے۔ انباری کی روایت میں اتنا اضافہ ہے: میری موچھیں بڑھ گئی تھیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مونچھوں کے تلے ایک مسواک رکھ کر ان کو کتر دیا، یا فرمایا: میں ایک مسواک رکھ کر تمہارے یہ بال کتر دوں گا۔‏‏‏‏
جب آپ کو سہولت ہوتی تو آپ مہمانوں کی بہترین ضیافت کرتے جیساکہ اس مقام پر دیکھ سکتے ہیں ۔
(6) مہمان سے بات چیت کرتے اگرچہ عشاء کے بعد ہی کیوں نہ ہو:
نبی ﷺ عشاء کے بعد کلام نہیں کرتے جیساکہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں:
ما نامَ رسولُ اللَّهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ قبلَ العشاءِ ولا سَمَرَ بعدَها(صحيح ابن ماجه:582)
ترجمہ:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عشاء سے پہلے نہ سوئے، اور نہ اس کے بعد (بلا ضرورت) بات چیت کی۔
اس کے باوجود آپ مہمانوں کی تکریم وضیافت کے تئیں اور ضرورت کے سبب عشاء کے بعد بھی بات کرتے جیساکہ اصحاب صفہ کی دعوت سے متعلق حدیث پر امام بخاری نے(كِتَاب مَوَاقِيتِ الصَّلَاةِ) کے تحت باب باندھا ہے:بَابُ السَّمَرِ مَعَ الضَّيْفِ وَالأَهْلِ:باب: اپنی بیوی یا مہمان سے رات کو (عشاء کے بعد) گفتگو کرنا۔
یہ بخاری کی (602) نمبر کی حدیث ہے اور اصحاب صفہ کی دعوت سے متعلق ایک حدیث آگے آرہی ہے۔
(7)رسول اللہ کے مہمان اور ایثارکی عمدہ مثال:
ایک مرتبہ ایک مہمان آپ کی خدمت میں حاضر ہوا مگر گھر میں کچھ نہیں تھا تو آپ نے اپنے مہمان کو صحابہ کی جماعت پر پیش کیا تاکہ کوئی اس کی ضیافت کرے، واقعہ کی تفصیل اس طرح ہے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک صاحب خود حاضر ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ! میں فاقہ سے ہوں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ازواج مطہرات کے پاس بھیجاکہ وہ آپ کی دعوت کریں لیکن ان کے پاس کوئی چیز کھانے کی نہیں تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا کوئی شخص ایسا نہیں جو آج رات اس مہمان کی میزبانی کرے؟ اللہ اس پر رحم کرے گا۔ اس پر ایک انصاری صحابی (ابوطلحہ) کھڑے ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ آج میرے مہمان ہیں پھر وہ انہیں اپنے ساتھ گھر لے گئے اور اپنی بیوی سے کہا کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مہمان ہیں، کوئی چیز ان سے بچا کے نہ رکھنا۔ بیوی نے کہا اللہ کی قسم میرے پاس اس وقت بچوں کے کھانے کے سوا اور کوئی چیز نہیں ہے۔ انصاری صحابی نے کہا اگر بچے کھانا مانگیں تو انہیں سلا دو اور آؤ یہ چراغ بھی بجھا دو، آج رات ہم بھوکے ہی رہ لیں گے۔ بیوی نے ایسا ہی کیا۔ پھر وہ انصاری صحابی صبح کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے فلاں (انصاری صحابی) اور ان کی بیوی (کے عمل) کو پسند فرمایا۔ یا (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا کہ) اللہ تعالیٰ مسکرایا پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی «ويؤثرون على أنفسهم ولو كان بهم خصاصة‏» یعنی اور اپنے اوپر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں اگرچہ خود فاقہ میں ہی ہوں۔(صحيح البخاري:4889)
سبحان اللہ، رسول اللہ کا مہمان بننا کتنے نصیب کی بات ہے اور پھر میاں بیوی نے ضیف رسول کی کس انداز میں ضیافت کی کہ اللہ بھی مسکرادیا اور ان کی شان میں قرآن کی آیت نازل فرمادی ۔
(8) مہمانوں کی کثرت کا حسن انتظام کرتے:
آپ ﷺ اپنے کھانوں میں  فقراء ومساکین کا خاص خیال کرتے اور جب کبھی مہمانوں کی کثرت ہوتی تو انہیں اپنے اور صحابہ کے درمیان تقسیم کرتے تاہم سب کے کھانوں کو انتظام فرماتے ۔ اصحاب صفہ جو فقراء ومساکین کی جماعت تھی اور مسجد نبوی میں رہا کرتی تھی ، ان کے کھانے کا اہتمام آپ ﷺ اس طرح فرماتے۔عبدالرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا:
أنَّ أصْحَابَ الصُّفَّةِ كَانُوا أُنَاسًا فُقَرَاءَ، وأنَّ النبيَّ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ قالَ مَرَّةً:مَن كانَ عِنْدَهُ طَعَامُ اثْنَيْنِ فَلْيَذْهَبْ بثَالِثٍ، ومَن كانَ عِنْدَهُ طَعَامُ أرْبَعَةٍ فَلْيَذْهَبْ بخَامِسٍ أوْ سَادِسٍ أوْ كما قالَ: وأنَّ أبَا بَكْرٍ جَاءَ بثَلَاثَةٍ، وانْطَلَقَ النبيُّ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ بعَشَرَةٍ(صحيح البخاري:3581)
ترجمہ: صفہ والے محتاج اور غریب لوگ تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ فرمایا تھا کہ جس کے گھر میں دو آدمیوں کا کھانا ہو تو وہ ایک تیسرے کو بھی اپنے ساتھ لیتا جائے اور جس کے گھر چار آدمیوں کا کھانا ہو وہ پانچواں آدمی اپنے ساتھ لیتا جائے یا چھٹے کو بھی یا آپ نے اسی طرح کچھ فرمایا (راوی کو پانچ اور چھ میں شک ہے) خیر تو ابوبکر رضی اللہ عنہ تین اصحاب صفہ کو اپنے ساتھ لائے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھ دس اصحاب کو لے گئے۔
(9)کافر مہمان کی بھی ضیافت کراتے،اس میں تالیف قلب اور دعوت الی اللہ کا مقصد بھی ہوتا:
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک مہمان آیا وہ شخص کا فر تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے ایک بکری کا دودھ دوہنے کا حکم دیا اس نے دودھ پی لیا پھر دوسری بکری کا دودھ دوہنے کا حکم دیا اس نے اس کو بھی پی لیا، پھر ایک اور (بکری کا دودھ دوہنے) کا حکم دیا اس نے اس کا بھی پی لیا، حتی کہ اس نے اسی طرح سات بکریوں کا دودھ پی لیا پھر اس نے صبح کی تواسلام لے آیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے ایک بکری کا دودھ دوہنے کا حکم دیا اس نے وہ دودھ پی لیا پھر دوسری بکری کا دودھ دوہنے کا حکم دیا، وہ اس کا سارا دودھ نہ پی سکا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا: مسلمان ایک آنت میں پیتا ہے جبکہ کافر سات آنتوں میں پیتا ہے۔(صحیح مسلم:2063)
(9)فاقہ کشوں اور ضرورت مندوں کی مہمان نوازی:
‏‏‏ابوہریزہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ کے یہاں مہمانی کا اپنا ایک واقعہ بیان کرتے ہیں وہ کافی لمبا ہے ، خلاصہ یہ ہے کہ اللہ کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں میں (زمانہ نبوی میں) بھوک کے مارے زمین پر اپنے پیٹ کے بل لیٹ جاتا تھا اور کبھی میں بھوک کے مارے اپنے پیٹ پر پتھر باندھا کرتا تھا۔ اصحابہ رسول میں سے کوئی ان کو کھلانے والا نہ ملا بالآخر نبی دیکھ کر پہچان گئے ، اپنے ساتھ گھر لے گئے، گھر میں تحفہ کا ایک پیالہ دودھ تھا، آپ نے انہیں اصحاب صفہ کو بھی بلانے کو کہا، بظاہر ابوہریرہ کو لگ رہا تھاکہ یہ دودھ ان کے لئے بھی ناکافی ہے مگر جب اصحاب صفہ آئے ، سب ایک ایک کرکے پیتے گئے، آخر میں ابوہریرہ نے پیا حتی کہ شکم سیر ہوگئے اور پھر بچا ہوا نبی ﷺ پیتے ہیں۔(صحیح البخاری:6452)
سیدنا مقداد بن الاسود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، میں اور میرے دونوں ساتھی آئے اور ہمارے کانوں اور آنکھوں کی قوت جاتی رہی تھی تکلیف سے (فاقہ وغیرہ کے) ہم اپنے تئیں پیش کرتے تھے آپ کے اصحاب پر کوئی ہم کو قبول نہ کرتا۔ آخر ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہم کو اپنے گھر لے گئے، وہاں تین بکریاں تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ان کا دودھ دوہو ہم تم سب پیئں گے۔“ پھر ہم ان کا دودھ دوہا کرتے اور ہر ایک ہم میں سے اپنا حصہ پی لیتا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حصہ اٹھا رکھتے(صحیح مسلم:5362)
(10) دارالضیافہ اور وفود کے لئے مال مختص کرنا:
آپ ﷺ نے مہمانوں اور آنے والے وفود کے لئے مہمان خانہ کا اہتمام کیا تھا جہاں آپ کے مہمان قیام فرمایا کرتے اور ان کے لئے الگ سے مال مختص کرکے رکھا کرتے تھے ۔ بشیر بن یسار جو انصار کے غلام تھے بعض اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب خیبر پر غالب آئے تو آپ نے اسے چھتیس حصوں میں تقسیم فرمایا، ہر ایک حصے میں سو حصے تھے تو اس میں سے نصف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کے لیے ہوا اور باقی نصف آنے والے وفود اور دیگر کاموں اور اچانک مسلمانوں کو پیش آنے والے حادثات و مصیبتوں میں خرچ کرنے کے لیے الگ کر کے رکھ دیا۔(ابوداؤد:3012، قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد)
(11) ناگواری محسوس ہونے کے باوجودمہمان کے قلبی احساسات کا خیال کرتے :
ایک مرتبہ زینت رضی اللہ عنہا کے ولیمہ پر آپ کی دعوت پر صحابہ کرام آپ کے گھر آئے تو دیر تک بیٹھے رہ گئے جو آپ کو ناگوار محسوس ہوا مگر آپ نے مہمانوں کا خیال کیا اسی پس منظر میں قرآن کی یہ آیت نازل ہوئی:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَدْخُلُوا بُيُوتَ النَّبِيِّ إِلَّا أَن يُؤْذَنَ لَكُمْ إِلَىٰ طَعَامٍ غَيْرَ نَاظِرِينَ إِنَاهُ وَلَٰكِنْ إِذَا دُعِيتُمْ فَادْخُلُوا فَإِذَا طَعِمْتُمْ فَانتَشِرُوا وَلَا مُسْتَأْنِسِينَ لِحَدِيثٍ ۚ إِنَّ ذَٰلِكُمْ كَانَ يُؤْذِي النَّبِيَّ فَيَسْتَحْيِي مِنكُمْ ۖ وَاللَّهُ لَا يَسْتَحْيِي مِنَ الْحَقِّ(الأحزاب:53)
ترجمہ:اے ایمان والو! جب تک تمہیں اجازت نہ دی جائے تم بنی کے گھروں میں نہ جایا کرو کھانے کے لئے ایسے وقت میں اس کے پکنے کا انتظار کرتے رہو بلکہ جب بلایا جائے جاؤ اور جب کھا چکو نکل کھڑے ہو، وہیں باتوں میں مشغول نہ ہوجایا کرو، نبی کو تمہاری اس بات سے تکلیف ہوتی ہے، تو وہ لحاظ کر جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ (بیان) حق میں کسی کا لحاظ نہیں کرتا۔
گویا اس آیت کے ذریعہ مومنوں کو ضیافت کے آداب بتائے جارہے ہیں کہ کھانے پر اس وقت جایا جائے جب تیار ہوجائے اور کھالینے کے بعد بلاتاخیر گھر سے چلے جانا چاہئے تاکہ گھروالوں کو حرج محسوس نہ ہو۔
(12)مہمانوں کے ساتھ بے تکلفی اور کھانے پینے میں احتیاط :
آپ مہمانوں کے ساتھ بے تکلفی برتتے اور کھانے میں ان کے لئے کوئی احتیاط ہوتا تو آپ ان سے ضرور بیان کرتے:
عَنْ جَدِّهِ صُهَيْبٍ , قَالَ: قَدِمْتُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبَيْنَ يَدَيْهِ خُبْزٌ وَتَمْرٌ , فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" ادْنُ فَكُلْ" , فَأَخَذْتُ آكُلُ مِنَ التَّمْرِ , فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" تَأْكُلُ تَمْرًا وَبِكَ رَمَدٌ؟" , قَالَ: فَقُلْتُ إِنِّي أَمْضُغُ مِنْ نَاحِيَةٍ أُخْرَى , فَتَبَسَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.(ابن ماجہ:3443وصححہ البانی)
ترجمہ:صہیب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ کے سامنے روٹی اور کھجور رکھی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قریب آؤ اور کھاؤ، میں کھجوریں کھانے لگا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم کھجور کھا رہے ہو حالانکہ تمہاری آنکھ آئی ہوئی ہے، میں نے عرض کیا:میں دوسری جانب سے چبا رہا ہوں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرا دیے۔
نبی ﷺ کا اپنے میزبانوں کے ساتھ سلوک:
(1)رسول اللہ ایک متواضع مہمان ہوتےاور معمولی دعوت بھی قبول کرلیتے:
جب کبھی آپ ﷺ کسی کے یہاں مہمان بنتے ، آپ نہایت تواضع کا ثبوت دیتے اور جو کچھ بھی پیش کیا جاتا خواہ معمولی ہی چیز کیوں نہ ہو قبول فرمالیتے ۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
لَوْ دُعِيتُ إلى ذِراعٍ أوْ كُراعٍ لَأَجَبْتُ، ولو أُهْدِيَ إلَيَّ ذِراعٌ أوْ كُراعٌ لَقَبِلْتُ(صحيح البخاري:2568)
ترجمہ:اگر مجھے بازو اور پائے (کے گوشت) پر بھی دعوت دی جائے تو میں قبول کر لوں گا اور مجھے بازو یا پائے (کے گوشت) کا تحفہ بھیجا جائے تو اسے بھی قبول کر لوں گا۔
(2)میزبان ناراض نہ ہوتو آپ اپنے ساتھ دوسرے کو بھی دعوت پہ لے جاتے:
کبھی کبھار آپ دعوت کھانے کے لئے جاتے اور کوئی دوسرا مل جاتا اور یقین ہوتا کہ میزبان ناراض نہ ہوگاتواپنے ساتھ لےلیتے۔ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ ابوبکروعمر کو دیکھتے ہیں جو بھوکے ہوتے ہیں اور آپ خود بھی بھوکے ہوتے ہیں ، نبی نے کہا ساتھ چلو، ایک انصاری کے گھر گئے مگر وہ اس وقت موجودنہیں تھے، ان کی زوجہ تھیں، انہوں نے آپ کو خوش آمدید کہا پھر انصاری بھی آگئے اور آپ لوگوں کو دیکھ کر خوشی سے کہتے ہیں :
الْحَمْدُ لِلَّهِ مَا أَحَدٌ الْيَوْمَ أَكْرَمَ أَضْيَافًا مِنِّي(صحیح البخاری:2038) یعنی اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ آج کے دن کسی کے پاس ایسے مہمان نہیں ہیں جیسے میرے پاس ہیں۔ پھرانہوں نے بکری کی دعوت کی ۔
اسی لئے اس پر امام مسلم نے باب باندھاہے:(باب جَوَازِ اسْتِتْبَاعِهِ غَيْرَهُ إِلَى دَارِ مَنْ يَثِقُ بِرِضَاهُ بِذَلِكَ وَيَتَحَقَّقُهُ تَحَقُّقًا تَامًّا وَاسْتِحْبَابِ الاِجْتِمَاعِ عَلَى الطَّعَامِ)یعنی باب: اگر مہمان کو یقین ہو کہ میزبان دوسرے کسی شخص کو ساتھ لے جانے سے ناراض نہ ہو گا تو ساتھ لے جا سکتا ہے۔
(3) غلام کی بھی دعوت قبول کرلیتے:
ایک غلام جس کا پیشہ درزی کا تھا اس نے رسول اللہ کی دعوت کی ، آپ نے اس کی دعوت قبول فرمائی، انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک درزی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کھانے کی دعوت دی جو انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تیار کیا تھا۔ میں بھی آپ کے ساتھ گیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جَو کی روٹی اور شوربہ پیش کیا گیا۔ جس میں کدو اور خشک گوشت کے ٹکڑے تھے۔ میں نے دیکھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پیالے میں چاروں طرف کدو تلاش کر رہے تھے، اسی دن سے میں بھی کدو پسند کرنے لگا۔(صحیح البخاری:5436)
(4)میزبان کے ساتھ بے تکلفی :
صہیب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:
قَدِمْتُ علَى النَّبيِّ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ، وبينَ يديهِ خُبزٌ وتمرٌ، فقالَ النَّبيُّ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ: ادْنُ فَكُل فأخَذتُ آكُلُ مِنَ التَّمرِ، فقالَ النَّبيُّ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ تأكُلُ تمرًا وبِكَ رمَدٌ ؟ قالَ، فقُلتُ: إنِّي أمضُغُ من ناحيةٍ أُخرى، فتبسَّمَ رسولُ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ(صحيح ابن ماجه:2793)
ترجمہ:میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ کے سامنے روٹی اور کھجور رکھی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قریب آؤ اور کھاؤ“، میں کھجوریں کھانے لگا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم کھجور کھا رہے ہو حالانکہ تمہاری آنکھ آئی ہوئی ہے، میں نے عرض کیا: میں دوسری جانب سے چبا رہا ہوں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرا دئے۔
(5)بسا اوقات اپنے ساتھ دوسرے کی ضیافت کے لئے کہتے:
آپ ﷺ میزبانوں کے ساتھ اس قدر بے تکلف ہوتے کہ بسا اوقات جب کوئی دعوت دینے آتا تو ساتھ میں دوسرے کی دعوت کے لئے بھی اجازت لیتے ۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے ر وایت کی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک فارس سے تعلق رکھنے والا پڑوسی شوربا اچھا بناتا تھا، اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے شوربا تیار کیا، پھرآکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دعوت دی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف اشارہ کرکے فرمایا: ان کو بھی دعوت ہے؟اس نے کہا: نہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں (مجھے بھی تمہاری دعوت قبول نہیں) وہ دوبارہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بلانے آیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان کو بھی؟اس نے کہا: نہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو نہیں۔وہ پھر دعوت دینے کے لئے آیا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان کو بھی؟ توتیسری بار اس نے کہا: ہاں۔پھر آپ دونوں ایک دوسرے کے پیچھے چل پڑے یہاں تک کہ اس کے گھر آگئے۔(صحیح مسلم:2037)
(6)کھانے میں کبھی عیب نہ نکالتے :
نبی ﷺ نے کہیں بھی کسی کے یہاں کھاتے ہوئے کھانے میں عیب نہیں نکالا ، ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا:
ما عاب النبي صلى الله عليه وسلم طعاما قط إن اشتهاه اكله وإن كرهه تركه".(صحیح البخاری:5409)
ترجمہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کسی کھانے میں کوئی عیب نہیں نکالا۔ اگر پسند ہوا تو کھا لیا اور اگر ناپسند ہوا تو چھوڑ دیا۔
(7) تالیف قلب کے لئے یہودی کی دعوت قبول کی :
ایک مرتبہ ایک یہودی نے آپ کی دعوت کی تو آپ نے اس کی دعوت قبول کرلی ، حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
أنَّ يَهودِيًّا دَعا النَّبيَّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ إلى خُبْزِ الشَّعيرِ وإهالةٍ سَنِخةٍ، فأجابَه( أخرجه أحمد:13201و صححه شعيب الأرناؤوط)
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک مرتبہ ایک یہودی نے جو کی روٹی اور پرانے روغن کی دعوت دی جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قبول فرمالی۔
(8)دائیں جانب سے شروع کرنے کا حکم دیتےخواہ اس جانب ادنی آدمی ہی کیوں نہ ہو:
نبی ﷺکسی کے گھر جاتے اور کسی چیز کی حاجت ہوتی تو آپ طلب کرتے اور کھلانے پلانے میں دائیں جانب سے شروع کرنے کا حکم دیتے خواہ دائیں جانب کوئی ادنی مرتبہ کا آدمی ہی کیوں نہ ہو۔ انس رضی اللہ عنہ سےمروی ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ (ایک مرتبہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے اسی گھر میں تشریف لائے اور پانی طلب فرمایا۔ ہمارے پاس ایک بکری تھی، اسے ہم نے دوہا۔ پھر میں نے اسی کنویں کا پانی ملا کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں (لسی بنا کر) پیش کیا، ابوبکر رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بائیں طرف بیٹھے ہوئے تھے اور عمر رضی اللہ عنہ سامنے تھے اور ایک دیہاتی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دائیں طرف تھا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم پی کر فارغ ہوئے تو (پیالے میں کچھ دودھ بچ گیا تھا اس لیے) عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ یہ ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دیہاتی کو عطا فرمایا۔ (کیونکہ وہ دائیں طرف تھا) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، دائیں طرف بیٹھنے والے، دائیں طرف بیٹھنے والے ہی حق رکھتے ہیں۔ پس خبردار دائیں طرف ہی سے شروع کیا کرو۔ انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یہی سنت ہے، یہی سنت ہے، تین مرتبہ (آپ نے اس بات کو دہرایا)۔(صحیح البخاری:2571)
(9)دعوت کھانے کے بعد دعا دیتے :
آپ ﷺ کا یہ دستور رہا ہے کہ جب بھی کہیں کسی کے یہاں کھانا نوش فرماتے تو آخر میں اہل خانہ کے لئے دعائیہ کلمات کہتے ، اس سلسلے میں متعدد احادیث منقول ہیں ۔
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَارَ أَهْلَ بَيْتٍ مِنَ الْأَنْصَارِ فَطَعِمَ عِنْدَهُمْ طَعَامًا، فَلَمَّا أَرَادَ أَنْ يَخْرُجَ أَمَرَ بِمَكَانٍ مِنَ الْبَيْتِ فَنُضِحَ لَهُ عَلَى بِسَاطٍ فَصَلَّى عَلَيْهِ وَدَعَا لَهُمْ.(صحیح البخاری:بخاری:6080)
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قبیلہ انصار کے گھرانہ میں ملاقات کے لیے تشریف لے گئے اور انہیں کے یہاں کھانا کھایا، جب آپ واپس تشریف لانے لگے تو آپ کے حکم سے ایک چٹائی پر پانی چھڑکا گیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر نماز پڑھی اور گھر والوں کے لیے دعا کی۔
اسی طرح انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کے پاس آئے تو وہ آپ کی خدمت میں روٹی اور تیل لے کر آئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کھایا پھر آپ نے یہ دعا پڑھی: «أفطر عندكم الصائمون وأكل طعامكم الأبرار وصلت عليكم الملائكة» ”تمہارے پاس روزے دار افطار کیا کریں، نیک لوگ تمہارا کھانا کھائیں، اور فرشتے تمہارے لیے دعائیں کریں۔‏‏‏‏“(ابوداؤد:3854 وصححہ البانی)
اسی طرح عبداللہ بن بسر جو بنی سلیم سے تعلق رکھتے ہیں کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے والد کے پاس تشریف لائے اور ان کے پاس قیام کیا تو انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کھانا پیش کیا، پھر انہوں نے حیس کا ذکر کیا جسے وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے کر آئے پھر وہ آپ کے پاس پانی لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیا پھر جو آپ کے داہنے تھا اسے دیدیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھجوریں کھائیں اور ان کی گٹھلیاں درمیانی اور شہادت والی انگلیوں کی پشت پر رکھ کر پھینکنے لگے، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے تو میرے والد بھی کھڑے ہوئے اور انہوں نے آپ کی سواری کی لگام پکڑ کر عرض کیا: میرے لیے اللہ سے دعا کر دیجئیے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «اللهم بارك لهم فيما رزقتهم واغفر لهم وارحمهم» ”اے اللہ جو روزی تو نے انہیں دی ہے اس میں برکت عطا فرما، انہیں بخش دے، اور ان پر رحم فرما“۔(ابوداؤد:3729 وصححہ البانی)
(10) اپنے ساتھیوں کی بھی ضیافت کراتےاور خود بھی خدمت کرتے:
کبھی کوئی دعوت کرتا ہے اور آپ کے ساتھ کئی اصحاب ہوتے تو ان لوگوں کی ضیافت کے لئے بھی سبیل پیدا فرماتے جیسےغزوہ  خندق کے موقع پر جابر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ کو دعوت دینی چاہی اور کہا کہ کھانا کم ہے ، اپنے ساتھ ایک دو آدمی کو لے چلیں ، آپ نے کھانے کی کیفیت دریافت فرمائی اور ان سے کہا کہ اپنی بیوی سے کہوچولہے سے ہانڈی نہ اتارے اور روٹی پکائے پھر آپ اپنے تمام ساتھی یعنی انصار ومہاجرین کے ساتھ ان کے گھر پہنچے ، بیوی نے اس ازدہام کو دیکھ کر جابر سے کہا کہ اب کیا ہوگا ؟اور ہمارے رسول پاک خود سے روٹی کا چوراکرکے گوشت پر ڈالتے گئے حتی کہ سارے لوگوں نے شکم سیرہوکر کھانا کھالیابلکہ اور کھانا بچ بھی گیا۔(تفصیل کے لئے دیکھیں : صحیح البخاری:4101)
میں نے اختصار سے اس موضوع کو بیان کرنے کی کوشش کی تاہم اس قدر وضاحت ضرور کردی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا اپنے مہمانوں اور میزبانوں کے ساتھ برتاؤ کا علم بخوبی ہوجائے ، اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ ہمیں بھی رسول اللہ ﷺ کے اس اسوہ مبارک پر صحیح سے عمل کرنے کی توفیق بخشے۔آمین

مکمل تحریر >>

خواتین کی نماز اور ان کا لباس


 
خواتین کی نماز اور ان کا لباس
تحریر: مقبول احمد سلفی
جدہ دعوہ سنٹر-حی السلامہ – سعودی عرب

عام عورتوں کو نماز پڑھنے کے سلسلے میں لباس سے متعلق مختلف قسم کے ترددکا سامنا رہتا ہے بنابریں اس تحریر میں اختصارکے ساتھ اس مسئلہ کی وضاحت کی جارہی ہے کہ ایک عورت کس قسم کا لباس لگاکر نماز ادا کرے گی ۔
لباس سے متعلق بعض فرق:
اس سے پہلے کہ  خواتین کی نماز کے لباس کی وضاحت کی جائے ، لباس سے متعلق بعض اہم فرق کو پہلے بیان کیا جاتا ہے تاکہ بعض متفرق مسائل کااصل موضوع سے فرق واضح رہے۔
پہلا مسئلہ : مردوں اور عورتوں کی نماز کے لباس میں فرق ہے ، نیزمرد ایک ساتر لباس میں بھی نماز پڑھ سکتا ہے ۔
اس بات کی دلیل یہ ہے، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لا يُصَلِّي أحَدُكُمْ في الثَّوْبِ الواحِدِ ليسَ علَى عاتِقَيْهِ منه شيءٌ(صحيح مسلم:516)
ترجمہ:تم میں سے کوئی شخص ایک کپڑے میں نماز اس طرح نہ پڑھے کہ اس کے کندھوں پر اس کا کوئی حصہ نہ ہو۔
اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی کے پاس ایک ہی کپڑا ہو تو اس میں نماز پڑھ سکتا ہے، شرط یہ ہے کہ اس کپڑے سےنمازی اپنے ستر اور دونوں کندھوں کو ڈھک لے یعنی ستر کے ساتھ مردوں کے لئے کندھا بھی ڈھکنا ضروری ہے۔ نبی ﷺ سے بھی ایک کپڑے میں نماز پڑھنا ثابت ہے اور جب ایک کپڑا چادر کی شکل میں ہو تو اس کے استعمال کی کیفیت نبی ﷺ سے اس طرح منقول ہے۔
حضرت عمر بن ابی سلمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا:
رَأَيْتُ رَسولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عليه وسلَّمَ يُصَلِّي في ثَوْبٍ واحِدٍ مُلْتَحِفًا مُخَالِفًا بيْنَ طَرَفَيْهِ. زَادَ عِيسَى بنُ حَمَّادٍ: في رِوَايَتِهِ قالَ: علَى مَنْكِبَيْهِ.(صحيح مسلم:517)
ترجمہ:میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک کپڑے میں نماز پڑھتے دیکھا: آپ نے اس کو لپیٹا ہوا تھا اور اس کے دونوں کناروں کو مخالف سمت میں ڈالا ہوا تھا۔ عیسیٰ بن حماد نے اپنی روایت میں یہ اضافہ کیا: اپنے کندھوں پر ڈالے ہوئے تھے۔
حدیث سے واضح ہے کہ دونوں بغل کے نیچے سے گزار کر دائیں کنارا بائیں کندھے پر اور بائیں کنارا دائیں کندھے پر رکھ لے یا اس میں گردن کے پاس کانٹھ لگالے جیساکہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہا بیان کرتے ہیں کہ میں نے ستر اصحاب صفہ کو دیکھا کہ ان میں کوئی ایسا نہ تھا جس کے پاس چادر ہو۔ فقط تہہ بند ہوتا، یا رات کو اوڑھنے کا کپڑا جنھیں یہ لوگ اپنی گردنوں سے باندھ لیتے۔ (صحیح البخاری:442)
اور ایک کپڑا قمیص کی شکل میں سلا ہوا یا بٹن لگا ہو تو نمازی اسے کرتا کی طرح پہن لے جیساکہ سلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں :
قلتُ يا رسولَ اللَّهِ إنِّي رجلٌ أصيدُ أفأصلِّي في القميصِ الواحدِ قالَ نعم وازررهُ ولَو بشوكةٍ(صحيح أبي داود:632)
ترجمہ: میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں شکاری ہوں، کیا میں ایک کُرتے (قمیض) میں نماز پڑھ سکتا ہوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں، اور اسے ٹانک لیا کرو (بٹن لگا لیا کرو)، خواہ کسی کانٹے سے ہی سہی۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے بیان کیا:
قَامَ رَجُلٌ إلى النبيِّ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ فَسَأَلَهُ عَنِ الصَّلَاةِ في الثَّوْبِ الوَاحِدِ، فَقَالَ: أوَكُلُّكُمْ يَجِدُ ثَوْبَيْنِ ثُمَّ سَأَلَ رَجُلٌ عُمَرَ، فَقَالَ: إذَا وسَّعَ اللَّهُ فأوْسِعُوا، جَمع رَجُلٌ عليه ثِيَابَهُ، صَلَّى رَجُلٌ في إزَارٍ ورِدَاءٍ، في إزَارٍ، وقَمِيصٍ في إزَارٍ وقَبَاءٍ، في سَرَاوِيلَ ورِدَاءٍ، في سَرَاوِيلَ وقَمِيصٍ، في سَرَاوِيلَ وقَبَاءٍ، في تُبَّانٍ وقَبَاءٍ، في تُبَّانٍ وقَمِيصٍ، قَالَ: وأَحْسِبُهُ قَالَ: في تُبَّانٍ ورِدَاءٍ.(صحيح البخاري:365)
ترجمہ: ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کھڑا ہوا اور اس نے صرف ایک کپڑا پہن کر نماز پڑھنے کے بارے میں سوال کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا تم سب ہی لوگوں کے پاس دو کپڑے ہو سکتے ہیں؟ پھر (یہی مسئلہ) عمر رضی اللہ عنہ سے ایک شخص نے پوچھا تو انہوں نے کہا جب اللہ تعالیٰ نے تمہیں فراغت دی ہے تو تم بھی فراغت کے ساتھ رہو۔ آدمی کو چاہیے کہ نماز میں اپنے کپڑے اکٹھا کر لے، کوئی آدمی تہبند اور چادر میں نماز پڑھے، کوئی تہبند اور قمیص، کوئی تہبند اور قباء میں، کوئی پاجامہ اور چادر میں، کوئی پاجامہ اور قمیص میں، کوئی پاجامہ اور قباء میں، کوئی جانگیا اور قباء میں، کوئی جانگیا اور قمیص میں نماز پڑھے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ مجھے یاد آتا ہے کہ آپ نے یہ بھی کہا کہ کوئی جانگیا اور چادر میں نماز پڑھے۔
اس حدیث سے پوری طرح واضح ہے کہ لباس کی تنگی ہو تو ایک لباس میں بھی نماز جائز ہے بشرطیکہ ساتر ہو اور لباس کی تنگی نہ ہو تو کم ازکم دو کپڑوں میں نماز ادا کرے ۔ ایک کپڑا بطور قمیص اور دوسرا بطور تہ بند وازار جیساکہ عمر رضی اللہ عنہ نے جسم کے اوپری اور نچلے حصے کے لئے دو الگ الگ کپڑوں کا ذکر کیا ہے تاکہ نیچے پیرتک  اور اوپر کندھا تک ڈھک جائے۔
دوسرا مسئلہ : عورت کی نماز کا لباس اور عام حالات میں پہنے جانے والے لباس میں فرق ہے یعنی جس لباس میں عورت کا گھر میں رہنا جائز ہےوہ الگ لباس ہے اور نماز کا لباس الگ ہے، عورت کے ان دونوں لباس میں فرق ہے ۔مردوں کے سلسلے میں بھی عام لباس اور ان کی نماز کا لباس مختلف ہے جیسے مرد عام حالات میں کندھا کھول سکتا ہے مگر نماز میں اسے ڈھک کرنماز پڑھنا ہے ۔ عورت اپنے گھر میں محارم کے سامنے سر اور بال کھول سکتی ہے مگر نماز میں سراور بال ڈھکنا ضروری ہے ، اسی طرح عورت نماز میں چہرہ کھول سکتی ہے مگریہ اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ وہ عام حالات میں یا اجنبی مردوں کے پاس بھی چہرہ کھول سکتی ہے۔
تیسرا مسئلہ : عورت اگر گھر میں نماز پڑھتی ہے تو چہرہ کھول کرنماز پڑھ سکتی ہے لیکن جب وہ مسجد جائے گی تو اس کا لباس پھر وہ ہوگا جو گھر سے نکلنے والا لباس عورتوں کو بتایا گیا ہے یعنی اپنے آپ کوچہرہ سمیت  مکمل طورپر ڈھک کرگھر سے نکلنا ہے کیونکہ نبی ﷺ نے عورت کو سراپا پردہ کہا ہے۔
عورت اور لباس:  
مذکورہ بالا چند فرق کو نظر میں رکھنے کے بعد اب عورتوں کا عمومی لباس دیکھتے ہیں ۔ پتہ لگاتےہیں کہ عہد رسالت میں خواتین کے استعمال کا عام لباس کیا تھا، وہ گھر میں کیا پہنتی تھیں اور گھرسے نکلتے وقت کیا پہنتی تھی تاکہ اس بات سے نماز کے لباس کو سمجھنے میں کچھ تعاون مل جائے۔
گھرکی خواتین گھر میں عام طور سےبیک وقت دوکپڑے استعمال کرتیں ، ایک کپڑاقمیص ہوتاجس سے پورے بدن کو ڈھکا جاتا ہے اور دوسرا کپڑا خمار(دوپٹہ) ہوتا جس سے سرخصوصاسینے کو ڈھکا جاتا ۔ اس سلسلے میں دو احادیث پیش کرتا ہوں ۔
پہلی حدیث: صحیح بخاری میں حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہا کی والدہ کے اسلام لانے کا قصہ مذکور ہے اس قصہ کا خلاصہ یہ ہے کہ جب ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی ﷺ کے پاس مشرکہ ماں کی شکایت لے کر گئے اور ان کے حق میں آپ سے دعا کی درخواست کی توآپ نے ان کی ماں کے لئےہدایت کی دعا کی پھرابوہریرہ اپنے گھرواپس آتے ہیں تو گھرکا دروازہ بند تھا، والدہ نے بیٹے کے قدموں کی آہٹ سن کرکہا رک جاؤ، ماں غسل کررہی تھی ، ابوہریرہ اپنی والدہ کے بارے میں بیان کرتے ہیں :
فَاغْتَسَلَتْ وَلَبِسَتْ دِرْعَهَا، وَعَجِلَتْ عن خِمَارِهَا، فَفَتَحَتِ البَابَ، ثُمَّ قالَتْ: يا أَبَا هُرَيْرَةَ ، أَشْهَدُ أَنْ لا إلَهَ إلَّا اللَّهُ، وَأَشْهَدُ أنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ(صحيح مسلم:2491)
ترجمہ:میری ماں نے غسل کیا اور اپنا کرتہ پہن کر جلدی سے اوڑھنی اوڑھی، پھر دروازہ کھولا اور بولی کہ اے ابوہریرہ! ”میں گواہی دیتی ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ہے اور میں گواہی دیتی ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔
اس حدیث میں درع اور خمار کا ذکر ہے یعنی درع قمیص کو کہتے ہیں اور خمار دوپٹے کو ، عورتوں میں یہ عام رواج کا کپڑا تھا۔
دوسری حدیث: عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قالَتْ: يَرْحَمُ اللَّهُ نِسَاءَ المُهَاجِرَاتِ الأُوَلَ؛ لَمَّا أنْزَلَ اللَّهُ: {وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَى جُيُوبِهِنَّ} [النور: 31]، شَقَّقْنَ مُرُوطَهُنَّ فَاخْتَمَرْنَ بهَا.( صحيح البخاري:4758)
ترجمہ: عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ اللہ ان عورتوں پر رحم کرے جنہوں نے پہلی ہجرت کی تھی۔ جب اللہ تعالیٰ نے آیت «وليضربن بخمرهن على جيوبهن‏» ”اور اپنے دوپٹے اپنے سینوں پر ڈالے رہا کریں۔“ (تاکہ سینہ اور گلا وغیرہ نہ نظر آئے) نازل کی، تو انہوں نے اپنی چادروں کو پھاڑ کر ان کے دوپٹے بنا لئے۔
حجاب کا حکم نازل ہونے سے پہلے عورتوں میں ایک لباس ہوا کرتا مگر جب پردہ کا حکم نازل ہوا تو عورتوں نے اس ایک کپڑے کو پھاڑ کر دوپٹہ بنا لیا تاکہ سر، گردن، سینہ اور گرینان وغیرہ ڈھک سکے ۔
جب عورتیں گھر سے باہر نکلتیں تو عام طور سے جلباب کا استعمال کرتیں ، جلباب ایک بڑی چادر کو کہتے ہیں جو سرتا پیرڈھک دیتا ہے۔ عید کی نماز سے متعلق ام عطیہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی ﷺنے انہیں عورتوں کو عیدگاہ لے کا نکلنے کا حکم دیا تھا، اس حدیث میں ہے۔
قالتِ امْرَأَةٌ: يا رَسولَ اللَّهِ إحْدَانَا ليسَ لَهَا جِلْبَابٌ؟ قالَ: لِتُلْبِسْهَا صَاحِبَتُهَا مِن جِلْبَابِهَا(صحيح البخاري:351)
ترجمہ: ایک عورت نے کہا یا رسول اللہ! ہم میں بعض عورتیں ایسی بھی ہوتی ہیں جن کے پاس (پردہ کرنے کے لیے) چادر(جلباب) نہیں ہوتی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کی ساتھی عورت اپنی چادر (جلباب)کا ایک حصہ اسے اڑھا دے۔
گویا یہ گھر نے نکلنے کا عام رواج تھا کہ عورتیں بڑی چادر لگاکر اپنے گھروں سے باہر نکلتی تھی بلکہ بعض دیگر احادیث سے معلوم ہوتا ہے گھر سے نکلتے وقت عورتیں برقع یا نقاب اور دستانہ بھی لگاتی تھیں اسی لئے نبی ﷺ نے عورتوں کو احرام میں نقاب اور دستانہ لگانے سے منع فرمایا ہے۔
ولَا تَنْتَقِبِ المَرْأَةُ المُحْرِمَةُ، ولَا تَلْبَسِ القُفَّازَيْنِ.(صحيح البخاري:1838)
ترجمہ: اوراحرام کی حالت میں عورتیں منہ پر نقاب نہ ڈالیں اور دستانے بھی نہ پہنیں۔
گھرسے نکلتے وقت عورتیں جہاں چہرہ اور ہاتھ سمیت پورا جسم ڈھک کر نکلتی تھیں، وہیں ان کے لباس کا دامن اس قدر طویل ہوتا ہے کہ پیر بھی چھپ جاتا بلکہ کپڑا زمین سے گھسٹا ۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں :
رَخَّصَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأُمَّهَاتِ الْمُؤْمِنِينَ فِي الذَّيْلِ شِبْرًا ثُمَّ اسْتَزَدْنَهُ فَزَادَهُنَّ شِبْرًا فَكُنَّ يُرْسِلْنَ إِلَيْنَا فَنَذْرَعُ لَهُنَّ ذِرَاعًا(ابوداؤد:4119، صححہ البانی)
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امہات المؤمنین (رضی اللہ عنہن) کو ایک بالشت دامن لٹکانے کی رخصت دی، تو انہوں نے اس سے زیادہ کی خواہش ظاہر کی تو آپ نے انہیں مزید ایک بالشت کی رخصت دے دی چنانچہ امہات المؤمنین ہمارے پاس کپڑے بھیجتیں تو ہم انہیں ایک ہاتھ ناپ دیا کرتے تھے۔
عورت اور دوپٹہ :
چونکہ عورت سراپا پردہ ہے ، اسے ہمیشہ کپڑے کا دھیان رکھنا چاہئے اور گھر میں ہوتے ہوئے بھی  صحیح طورپر پردہ کرنا چاہئے اور گھر سے نکلتے وقت عہدرسالت کی خواتین کی طرح باپردہ نکلنا چاہئے ۔ آج کل دیکھنے کو ملتا ہے کہ عورتیں گھرمیں باریک یا چھوٹا لباس لگاتی ہیں جس سے پردہ نہیں ہوتا اور گھر میں دوپٹہ نہیں لگاتیں ۔ سوچتی ہیں کہ گھر میں بیٹا /باپ/بھائی ہی تو ہے ۔آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ عورت محارم کے سامنے سر، بال گردن اور ہاتھ وپیرکھلا رکھ سکتی ہے تاہم گھر میں بھی اپنے محارم کے سامنے دوپٹے کا استعمال ضروری ہے تاکہ سینہ اور گریبان کو صحیح سے چھپاسکے ۔ اور اسی طرح محارم کے سامنے ایسے باریک یا چست یا چھوٹے کپڑے بھی نہیں لگاسکتی ہے جو محارم سے چھپانے والے ستر نہ چھپ سکےاور غیرمحرم وہاں ہو تب چہرہ بھی ڈھک کر رکھنا ہے۔
المہم عورت گھر میں بھی دوپٹہ کا استعمال کرے گی اور اپنے سینہ وگریبان ڈھک کررکھے گی ۔ اگرگھر میں صرف شوہریا عورت اکیلی ہوتو بغیر دوپٹہ کے بھی رہ سکتی ہے کیونکہ عورت کا اپنے شوہر سے کوئی پردہ نہیں ہے۔ یاد رکھیں کہ دوپٹہ مومن عورت کی شان ہے یہی وجہ ہے کہ ہےکہ جنتی عورت بھی دوپٹہ استعمال کرے گی ، سبحان اللہ ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
ولو أنَّ امْرَأَةً مِن نِسَاءِ أهْلِ الجَنَّةِ اطَّلَعَتْ إلى الأرْضِ لَأَضَاءَتْ ما بيْنَهُمَا، ولَمَلَأَتْ ما بيْنَهُما رِيحًا، ولَنَصِيفُهَا -يَعْنِي الخِمَارَ- خَيْرٌ مِنَ الدُّنْيَا وما فِيهَا(صحيح البخاري:6567)
ترجمہ:اور اگر جنت کی عورتوں میں سے کوئی عورت روئے زمین کی طرف جھانک کر دیکھ لے تو آسمان سے لے کر زمین تک منور کر دے اور ان تمام کو خوشبو سے بھر دے اور اس کا دوپٹہ «دنيا وما فيها‏)‏‏.‏» سے بڑھ کر ہے۔
اس لئے مسلم بہنوں دوپٹہ ہرحال میں ساتھ رکھو بھلے گھر میں ہی رہواور جب گھر سے باہر نکلو تو جس طرح صحابیات پورے پردہ میں گھر سے نکلتیں اسی طرح گھر سے نکلا کروخواہ نماز کے لئے کیوں نہ نکلو۔
بالغہ عورت کی نماز اور دوپٹہ:
عورت کے لئے دوپٹہ شان بھی ہے اور نماز کے لئے ضروری حصہ بھی ہے ۔ جب عورت گھر میں نماز پڑھے گی تو قمیص کے ساتھ ہرحال میں دوپٹہ کا استعمال کرے گی اور دوپٹہ بھی چھوٹا یا باریک نہ ہوبلکہ سر کے پورے حصہ کو چھپاتا ہوں یعنی نماز پڑھنے والی عورت دوپٹہ کے ساتھ سر، اس کے بال، کان، گردن ، سینہ  اور گریبان ڈھکے ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے : لا يقبَلُ اللَّهُ صَلاةَ حائضٍ إلَّا بخِمارٍ(صحيح أبي داود:641)
اللہ تعالی حائضہ یعنی (بالغ عورت) کی نماز دوپٹہ کے بغیر قبول نہیں فرماتا۔
عورت کی نماز ایک لباس میں:
اسلام میں مجبوری کی گنجائش ہے اس کا لحاظ کرتے ہوئے کسی عورت کے پاس صرف ایک کپڑا ہو جو سر سے پیر تک ڈھک دیتا ہوں تومجبوری میں عورت ایک کپڑا میں بھی نماز ادا کرسکتی ہے جیسے اوپر مردوں کے تعلق سے آپ نے پڑھا ہے کہ مردبھی مجبوری میں ایک کپڑا میں نماز ادا کرسکتا ہے تاہم ضروری ہے کہ کندھا ڈھکا ہواہو۔
عورتوں کے ایک لباس میں نماز ہوجانے سے متعلق صحیح بخاری میں کتاب الصلاۃ کے تحت امام بخاری نے ایک باب باندھا ہے۔ "بَابٌ في كَمْ تُصَلِّي الْمَرْأَةُ فِي الثِّيَابِ" یعنی باب: عورت کتنے کپڑوں میں نماز پڑھے؟ اس باب کے تحت پہلے امام بخاری ؒ نے عکرمہ کا قول ذکر ہے۔
وقال عكرمة: لو وارت جسدها في ثوب لاجزته.(اور عکرمہ نے کہا کہ اگر عورت اپنا سارا جسم ایک ہی کپڑے سے ڈھانپ لے تو بھی نماز درست ہے)۔
امام بخاری یہ قول ذکر کرکے بتانا چاہتے ہیں کہ عورت ایک کپڑے میں بھی نماز پڑھ سکتی ہے بشرطیکہ وہ اپنے جسم کو پوری طرح ڈھک لے ۔ اس کے بعد حدیث ذکر کرتے ہیں ۔
عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، وہ بیان کرتی ہیں:
لقَدْ كانَ رَسولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ يُصَلِّي الفَجْرَ، فَيَشْهَدُ معهُ نِسَاءٌ مِنَ المُؤْمِنَاتِ مُتَلَفِّعَاتٍ في مُرُوطِهِنَّ، ثُمَّ يَرْجِعْنَ إلى بُيُوتِهِنَّ ما يَعْرِفُهُنَّ أحَدٌ.(صحيح البخاري:372)
ترجمہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فجر کی نماز پڑھتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز میں کئی مسلمان عورتیں اپنی چادریں اوڑھے ہوئے شریک نماز ہوتیں، پھر اپنے گھروں کو واپس چلی جاتی تھیں، اس وقت انہیں کوئی پہچان نہیں سکتا تھا۔
اس حدیث اور باب میں مناسبت یہ ہے کہ اس میں عورت کے ایک چادر(مروط) کا ذکر ہے ۔ مروط ، مرط کی جمع ہے، اونی اور ریشم وغیرہ سے بناہوا ایسا کپڑا جسے خاص طور پر عورتیں بطور تہ بند استعمال کرتی ہیں۔ اور یہاں پر عورتوں کے لئے بظاہر ایک ہی چادر کا ذکر ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ عورتیں ایک کپڑے میں نماز ادا کرتی تھیں ، یہی باب سے مناسبت ہے۔ تھوڑا غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ نزول آیت حجاب کے سلسلے میں اوپر جو حدیث گزری ہے وہاں بھی مروط کا ذکر ہے ، جب پردہ کا حکم ہوا تو اسی مروط کو عورتوں نے چاک کرکے اوڑھنی بنالیں۔ کوئی یہ اعتراض کرسکتا ہے کہ مروط کے ذکر سے لازم نہیں آتا کہ عورتیں ایک ہی کپڑے میں نماز کے لئے جاتی تھیں یعنی زائد کپڑے کا ذکر نہ ہونا ایک ہی کپڑے ہونے کی دلیل نہیں ہے مگر میں سمجھتا ہوں کہ اس زمانے میں کپڑے کی تنگی تو تھی اور اس میں مروط کا ذکر ہے جو لحاف و بسترجیسا بڑا پردہ ہوتا ہے ، اس میں عورت اچھی طرح پردہ کرسکتی ہے لہذا ظاہری طور پر ایک ہی لباس معلوم ہوتا ہے پھر جب آیت حجاب نازل ہوئی تو مروط کو پھاڑ کر عورتوں نے سب سے پہلے دوپٹہ بنایا۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ اگر عورت اچھی طرح بدن ڈھک لیتی ہے تو ایک کپڑے میں بھی وہ نماز ادا کرسکتی ہے، یہ انتہائی مجبوری کی بات ہے۔
عورت کی نماز دو لباس میں :
ابھی میں نے بتایا کہ عورت ایک بڑے کپڑے میں مکمل جسم ڈھک کر نماز ادا کرسکتی ہے ، یہ انتہائی مجبوری کا معاملہ ہے اور بظاہر مروط کے لفظ سے ایک کپڑے والی غیرصریح حدیث آیت حجاب کے نزول سے پہلے کی معلوم ہوتی ہے اور جب حجاب کا حکم ہوا تو سبھی عورتوں نے دوپٹہ بنالئے ، یہی وجہ ہے کہ بالغہ عورت کو نماز کے لئے دوپٹہ لازم قرار دیا گیا ہے یعنی عورت نماز پڑھنے کے لئے کم ازکم دو لباس استعمال کرے گی۔ ایک قمیص جو کندھے سے لے کر پیر تک پورے بدن کو ڈھک دے اور ایک دوپٹہ جس سے سر، بال، کان، گردن ، سینہ اور گریبان اچھی طرح ڈھکے۔
نبی ﷺ فرمان ہے: لا يقبَلُ اللَّهُ صَلاةَ حائضٍ إلَّا بخِمارٍ(صحيح أبي داود:641)
ترجمہ:اللہ تعالی حائضہ یعنی (بالغ عورت) کی نماز دوپٹہ کے بغیر قبول نہیں فرماتا۔
معلوا ہوا کہ عورت کی نماز کے لئے کم از کم دو کپڑے ایک قمیص اور دوسرا دوپٹہ ضروری ہے اور عہد رسالت میں عام عورتوں کا گھریلو لباس خصوصا آیت حجاب کے نزول کے بعد دو کپڑوں والا ہی ہوتا تھا جیساکہ اس بارے میں اوپر حدیث گزر چکی ہے۔
دوکپڑوں میں عورتوں کی نماز سے متعلق اثر بھی ملتا ہے ۔
عن عُبَيْدِ اللهِ الخولانيِّ - وَكانَ يتيمًا في حِجرِ مَيمونةَ - أنَّ مَيمونةَ كانت تصلِّي في الدِّرعِ والخمارِ ليسَ عليها إزارٌ۔
ترجمہ: عبیداللہ خولانی بیان کرتے ہیں جو میمونہ رضی اللہ عنہا کے گھر یتیم تھے کہ میمونہ ایک قمیص(درع) اور دوپٹہ(خمار) میں نماز ادا کرتیں اور آپ کے پاس تہ بند(ازار) نہیں ہوتا۔ (اس حدیث کو شیخ البانی نے صحیح کہا ہے، تمام المنة:162)
عورت کی نماز اور کپڑے کی افضل صورت:
٭ پہلے میں نے آپ کو بتایا کہ حالت مجبوری میں عورت ایک لباس میں بھی نماز ادا کرسکتی ہے بشرطیکہ مکمل جسم ڈھک لے کیونکہ نماز کے لئے اصل کپڑوں کی تعداد نہیں ہےبلکہ اصل یہ ہے کہ عورت اپنے جسم کو اچھی طرح ڈھک کر نماز ادا کرے ۔
٭ پھر میں نے بتایا کہ عورت کی نماز کے لئے کم ازکم دوکپڑے(قمیص ودوپٹہ) کا ہونا ضروری ہے، اس کے بغیر نماز نہیں ہوگی۔
٭ اب یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اس وقت عام طور پر کپڑوں کی تنگی نہیں ہے اس لئے کوئی عورت صرف قمیص ودوپٹہ استعمال نہیں کرتی بلکہ شلوار (تہ بند) بھی استعمال کرتی ہےگویا عموماعورتیں تین کپڑے استعمال کرتی ہیں ، انہی تین کپڑوں میں وہ نماز ادا کرسکتی ہیں ۔نماز میں قدم ڈھکنے سے متعلق اہم معاملہ ہے جس کا بیان آگے آرہا ہے۔
تین کپڑوں میں عورتوں کی نماز سے متعلق بعض آثار ملتے ہیں ، وہ آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔
پہلا اثر:عمرہ بنت عبدالرحمن سے روایت ہے:
قالت عائشَةُ لا بُدَّ للمرأةِ من ثَلاثَةِ أثوابٍ تُصلِّي فيهِنَّ : دِرعٌ وجلبابٌ وخِمارٌ ، وكانت عائشَةُ تحُلُّ إزارَها ، فتَجلبَبُ بِهِ۔
ترجمہ:سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ عورت کے لئے تین کپڑے ضروری ہیں، ان کپڑوں میں عورت نماز اداکرے، وہ کپڑے قمیص(درع)، بڑی چادر(جلباب) اور دوپٹہ(خمار) ہیں۔اور عائشہ اپنے ازار (تہ بند)اتارکر اسے بطورجلباب(پردہ) اوڑھ لیا کرتیں۔
(شیخ البانی نے کہا کہ اس کی سند مسلم کی شرط پر صحیح ہے۔ جلباب المرأة: 134)
دوسرا اثر:عن عمرَ بنِ الخطابِ قال تصلي المرأةُ في ثلاثةِ أثوابٍ : درعٍ وخمارٍ وإزارٍ۔
ترجمہ: عمربن خطاب سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ عورت تین کپڑوں میں نماز ادا کرے، وہ تین کپڑے قمیص، دوپٹہ اور تہ بند ہیں ۔
(شیخ البانی نے اس کی سند کو صحیح کہا ہے، تمام المنة:162)
تیسرا اثر:قالَ ابنُ عمرَ،: إذا صلَّتِ المرأةُ، فلتُصلِّ في ثيابِها كلِّها؛ الدِّرعُ ، والخمارُ، والمِلحفةُ.
ترجمہ: ابن عمر نے کہا کہ جب عورت نماز پڑھنے لگے تو ان تمام کپڑوں میں یعنی قمیص، دوپٹہ اور چادر میں نماز ادا کرے۔
(شیخ البانی نے اس کی سند کو صحیح کہا ہے، جلباب المرأة:135)
ان بعض آثار سے معلوم ہوتا ہے کہ عورت کے تین کپڑوں میں نماز بہتر و افضل ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ان تین کپڑوں سے عورت کا جسم اچھی طرح ڈھک جاتا ہے حتی کہ پیر بھی ڈھک جاتا ہے۔
اب تین کپڑوں کی تفصیل کیا ہوسکتی ہے، ہمارے یہاں تو قمیص وشلوار اور دوپٹہ ہے مگر ان تین کپڑوں سے پیر کا مسئلہ حل نہیں ہوتا ہے، شلوار پہننے سے پیر نہیں ڈھکتا ہے۔ ایسی صورت میں مذکورہ بالا آثار میں جس قسم کے کپڑے بیان کئے گئے ہیں عورتیں ان جیسے کپڑوں کا استعمال کرکے نماز ادا کریں تاکہ نماز کے لئے ڈھکنے والے تمام حصے پوری طرح ڈھک جائیں ۔ قمیص اور شلوار تو رہیں گے ہی کیونکہ یہ عام رواج کا کپڑا ہے، یہ دوکپڑے ہوگئے تیسرے کپڑے کے طور پر جلباب کی خصوصیت والا کوئی مخصوص لباس استعمال کریں جو سر تا قدم ڈھک دے ۔ عرب کی خواتین نماز کے لئےقمیص وازار کے علاوہ  ایک مخصوص لباس بھی  استعمال کرتی ہیں  جس کو "ملابس الصلاۃ" کا نام دیا جاتا ہے، یہ ایسا لباس ہے جس کا اوپری حصہ دوپٹہ کی طرح استعمال ہوتا ہے، اسے عورت سر سے اچھی طرح لپیٹ لیتی ہے اور نیچے زمین تک پہنچتا ہے جس سے دونوں قدم ظاہری و باطنی دونوں ڈھک جاتے ہیں۔ یہ واضح رہے کہ نماز کے لئے عورت کے واسطے کوئی کپڑا مخصوص نہیں کیا گیا ہے، یہ محض اپنی پسند کا لباس ہے جو خوب پردہ کے لئے استعمال کیا جاتا ہے ۔ آپ چاہیں تو یہ مخصوص کپڑا نماز کے لئے سلاسکتے ہیں اور ممکن ہے دوسرے ممالک میں اس کا رواج بھی ہو۔ عورتوں کی نماز میں لباس کا مقصد یہ ہے کہ آپ قمیص وشلوار کے ساتھ تیسرا کپڑا ایسا استعمال کریں جس سے سراوراس کے بالوں سمیت دونوں پیروں کو بھی ڈھک دے ۔ نماز کے لئے اس قسم کے تین لباس کا استعمال عورتوں کے لئے افضل ہے تاہم یہ بھی جائز ہے کہ عورت قمیص، شلواراور اوڑھنی کے ساتھ نماز ادا کرے مگر افضل نہیں ہے کیونکہ دوپٹہ سے صرف اوپری حصہ ڈھکے گا اور شلوار میں دونوں قدم ظاہرہوں گے جبکہ نماز میں دونوں قدموں کو ڈھکنا واجب تونہیں ہے مگر بطور احتیاط افضل ضرور ہےاور اس بارے میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے فرمان کو ضرور مدنظر رکھیں ۔ قمیص وشلوار اور اوڑھنی والی عورت نماز کے لئے جراب پہن سکتی ہے مگر اس میں تکلف ومشقت ہے ۔
عورت کا لباس اور چہرہ :
 نماز میں عورت کے لباس کا مسئلہ مذکور ہوچکا ہے اب یہ جاننا ہے کہ کیا عورت کو نماز پڑھتے ہوئے اپنا چہرہ بھی ڈھکنا ضروری ہے اس سلسلے میں کوئی اختلاف نہیں بلکہ ابن عبدالبر نے اس بات پر اجماع نقل کیا ہے کہ عورت نماز میں اپنا چہرہ کھلا رکھے گی ۔ اور نبی ﷺ نے نماز کی حالت کی چہرہ میں چہرہ ڈھکنے سے منع بھی فرمایا ہے، ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں :
أنَّ رسولَ اللَّهِ صلَّى اللهُ عليْهِ وسلَّمَ نَهى عنِ السَّدلِ في الصَّلاةِ وأن يغطِّيَ الرَّجلُ فاهُ(صحيح أبي داود:643)
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز میں سدل کرنے اور آدمی کو منہ ڈھانپنے سے منع فرمایا ہے۔
اس حکم میں مرد بھی داخل ہے اور عورت بھی داخل ہے تاہم ضرورت کے وقت مرد ہو یا عورت اپنے چہرے کو ڈھک سکتے ہیں جیسے کورونا کے وقت لوگ ماسک لگاکر نماز پڑھتے تھے ، اسی طرح جب عورت ایسی جگہ نماز پڑھے جہاں غیرمحرم مرد بھی ہوتو اس جگہ عورت کو اپنا چہرہ ڈھک کر نمازادا کرنا ہےخواہ اپنے گھر میں نماز ادا کرے یا گھر سے باہر کہیں نماز ادا کرے ۔
عورت کا لباس اور ہتھیلی:
نماز میں عورتوں کے دونوں ہاتھوں کو چھپانے سے متعلق اہل علم کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے ، بعض کہتے ہیں کہ عورت سراپا پردہ ہے اس لئے چہرے کے ماسوا تمام حصوں کو چھپاکر نماز ادا کرے لیکن اس سلسلے میں مناسب قول یہ ہے کہ عورت نماز پڑھتے ہوئے دونوں ہتھیلی کو کھول سکتی ہے تاہم اگر انہیں بھی چھپاکر نماز ادا کرتی ہے تو بہتر ہےمگر اسے ضروری قرار نہیں دیا جاسکتا ہے۔
عورتوں کا لباس اور قدم :
نماز کی حالت میں عورت اپنے قدموں کو چھپائے گی یا نہیں چھپائے گی اس بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے ۔ بعض علماء یہ کہتے ہیں کہ عورت کو نماز میں اپنے دونوں پیروں کا ڈھکنا واجب ہے جبکہ بعض علماء یہ کہتے ہیں کہ پیروں کا ڈھکنا واجب نہیں ہے ۔
اس سلسلے میں صحیح بات یہ ہے کہ نماز میں عورت کے لئے اپنے پیروں کا ڈھکنا واجب نہیں ہے کیونکہ وجوب پر دلالت کرنے والی کوئی صریح مرفوع حدیث نہیں ہے ۔ ابوداؤد میں ایک حدیث اس طرح مروی ہے۔
ام حرام والدہ محمد بن زید سے روایت ہے کہ انہوں نے ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا:
سألت أمَّ سلمةَ ماذا تصلِّي فيهِ المرأةُ منَ الثِّيابِ فقالت تصلِّي في الخمارِ والدِّرعِ السَّابغِ الَّذي يغيِّبُ ظُهورَ قدميها۔
ترجمہ:عورت کتنے کپڑوں میں نماز پڑھے؟ تو انہوں نے کہا: وہ اوڑھنی اور ایک ایسے لمبے کرتے میں نماز پڑھے جو اس کے دونوں قدموں کے اوپری حصہ کو چھپا لے۔
یہ موقوف روایت ہے اور شیخ البانی نے اسے ضعیف کہا ہے، (دیکھیں :ضعيف أبي داود:639)
ابوداؤ کی اگلی حدیث مرفوع ہے ، ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
أنَّها سألتِ النَّبيَّ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ أتصلِّي المرأةُ في درعٍ وخمارٍ ليسَ عليها إزارٌ قالَ إذا كانَ الدِّرعُ سابغًا يغطِّي ظُهورَ قدميها۔
ترجمہ:انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: کیا عورت کرتہ اور اوڑھنی میں جب کہ وہ ازار (تہبند) نہ پہنے ہو، نماز پڑھ سکتی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:(پڑھ سکتی ہے) جب کرتہ اتنا لمبا ہو کہ اس کے دونوں قدموں کے اوپری حصہ کو ڈھانپ لے۔
اس حدیث کو بھی شیخ البانی نے ضعیف کہا ہے۔ (ضعيف أبي داود:640)
چونکہ یہ دونوں احادیث ضعیف ہیں اس لئے ان سے استدلال نہیں کریں گے ، اسی طرح ایک اور حدیث کو یہاں ذکر کرنا مفید ہوگا۔
قبیلہ بنو عبدالاشھل کی ایک عورت کہتی ہیں کہ میں نے عرض کیا:
قلتُ: يا رسولَ اللَّهِ إنَّ لَنا طريقًا إلى المسجد مُنْتِنَةً، فَكَيفَ نفعَلُ إذا مُطِرْنا؟ قالَ: أليسَ بعدَها طريقٌ هيَ أطيَبُ منها؟ قالت: قلتُ بلَى. قالَ: فَهَذِهِ بِهَذِهِ.(صحيح أبي داود:384)
ترجمہ: میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہمارا مسجد تک جانے کا راستہ غلیظ اور گندگیوں والا ہے تو جب بارش ہو جائے تو ہم کیا کریں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا اس کے آگے پھر کوئی اس سے بہتر اور پاک راستہ نہیں ہے؟ میں نے کہا: ہاں ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو یہ اس کا جواب ہے۔
یہ صحیح حدیث ہے، اس میں یہ مذکور ہے کہ عہدرسالت میں  عورت جب نماز پڑھنے کے لئے جاتی تواس قدم ڈھکا ہوتا کہ کپڑے زمین سے گھسٹتے تھے ۔ اور میں پہلے یہ بات بتاچکا ہوں کہ عورت جب گھر سے مسجد کے لئے نکلے گی تو وہ پردہ لگائے گی جو باہر نکلنے والا پردہ ہوگا یعنی عورت کے گھر کا لباس الگ ہے مگر باہر نکلنے کا لباس الگ ہے جیسے عورتوں کے عیدگاہ نکلنے سے متعلق ام عطیہ رضی اللہ عنہا والی حدیث سے  بھی آپ نے جانا ہے لہذا یہ حدیث بھی اس بات کی دلیل نہیں بن سکتی کہ نماز میں عورت کے لئے اپنا پیر ڈھکنا واجب ہے ۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ عورت کےلئے نماز میں اپنے قدم ڈھکنا واجب نہیں ہے لیکن احتیاطا قدموں کو ڈھکنا افضل ضرور ہے کیونکہ عورتوں کے لئے نماز میں اوپر کپڑوں کی جو تعداد بیان کی گئی ہے ان سے معلوم ہوتا ہے کہ قرون مفضلہ کی خواتین اس طرح کے کپڑوں میں نماز پڑھتی تھیں جن سے پورا جسم حتی کہ پیر بھی ڈھک جاتے ہوں گے تاہم جو خواتین اپنے گھروں میں قمیص وشلواراور دوپٹے میں نماز ادا کرتی ہیں جن سے ان کے قدم ظاہرہوجاتے ہیں ان کی نماز اپنی جگہ درست ہے ، پیرچھپانا افضلیت کا مسئلہ ہےیعنی چھپانا افضل ہے اور نہ چھپائے تب بھی نماز ہوجائے گی ۔
عورتوں کے لباس سے متعلق بعض مسائل :
(1)عورت ایسے کپڑوں میں نماز نہ ادا کرے جس میں نقش ونگار ، بیل بوٹے یا تصاویر ہوں ۔ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے ، وہ بیان فرماتی ہیں:
أنَّ النبيَّ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ صَلَّى في خَمِيصَةٍ لَهَا أَعْلَامٌ، فَقالَ: شَغَلَتْنِي أَعْلَامُ هذِه، اذْهَبُوا بهَا إلى أَبِي جَهْمٍ وأْتُونِي بأَنْبِجَانِيَّةٍ(صحيح البخاري:752)
ترجمہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دھاری دار چادر میں نماز پڑھی۔ پھر فرمایا کہ اس کے نقش و نگار نے مجھے غافل کر دیا۔ اسے لے جا کر ابوجہم کو واپس کر دو اور ان سے (بجائے اس کے) سادی چادر مانگ لاؤ۔
حتی کہ نماز والی جگہ پر ایسے تصاویر ونقش ونگار بھی نہ ہوں جس سے دھیان بھٹک جائے ۔ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس ایک رنگین باریک پردہ تھا جسے انہوں نے اپنے گھر کے ایک طرف پردہ کے لیے لٹکا دیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے سامنے سے اپنا یہ پردہ ہٹا دو۔ کیونکہ اس پر نقش شدہ تصاویر برابر میری نماز میں خلل انداز ہوتی رہی ہیں۔(صحیح البخاری:374)
اس جگہ یہ مسئلہ بھی جان لیں کہ اگر کسی نے جاندار کی تصویر والے کپڑے میں یا بیل بوٹے والے کپڑےاور جائے نماز میں نماز ادا کرلی تو اس کی نماز اپنی جگہ درست ہے اسے نماز دہرانے کی ضرورت نہیں ہے تاہم ایسے کپڑے پہن کر نماز ادا نہ کرے بلکہ اصلا ایسے کپڑے پہننا ہی نہیں چاہئے۔
(2) بہت ساری خواتین ایسی جائے نماز پر نماز ادا کرتی ہیں جس پر نقش ونگار، بیل بوٹے اور خانہ کعبہ وغیرہ کی تصویر بنی ہوتی ہےجبکہ اس قسم کی جائے نماز پر نماز نہیں ادا کرنا چاہئے کیونکہ یہ چیزیں نماز سے دھیان ہٹانے والی ہیں ، نبی ﷺ نے نقش ونگار والی چادر کو گھر سے ہی نکال دینے کا حکم دیاتھاجوحدیث اوپر گذری ہے بلکہ اس سلسلے میں بخاری کی یہ حدیث بھی دیکھیں ۔عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس ایک رنگین باریک پردہ تھا جسے انہوں نے اپنے گھر کے ایک طرف پردہ کے لیے لٹکا دیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے سامنے سے اپنا یہ پردہ ہٹا دوکیونکہ اس پر نقش شدہ تصاویر برابر میری نماز میں خلل انداز ہوتی رہی ہیں۔(صحیح بخاری:374) اور سنن ابن ماجہ میں اس طرح سے مروی ہے ۔ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے اپنے روشن دان پر پردہ ڈالا یعنی اندر سے، پردے میں تصویریں تھیں، جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے، تو آپ نے اسے پھاڑ ڈالا، میں نے اس سے دو تکیے بنا لیے پھر میں نے دیکھا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان میں سے ایک تکیے پر ٹیک لگائے ہوئے تھے ۔(سنن ابن ماجہ:3653، قال الشيخ الألباني: حسن صحيح)
ان ساری احادیث کا مطلب یہ ہے کہ عورت نماز پڑھتے وقت بیل بوٹے والی جائے نماز پر نماز نہ پڑھےحتی کہ نماز سے دھیان بھٹکانے والی کوئی تصویر وعلامت جائے نماز میں یا لباس میں یا سامنے نہ ہو۔نماز پڑھنے کے لئے عام اور سادہ جائے نماز منتخب کرے کیونکہ خشوع وخضوع کے ساتھ  اللہ کی بندگی کرنا مقصدہے ۔
(3) بعض عورتیں نماز کے لباس کو ہلکے میں لیتی ہیں اور بغیر دوپٹہ کے نماز پڑھ لیتی ہیں یا دوپٹہ تو ہوتا ہے مگر باریک ہوتا ہے جس سے بال اور سر اچھی طرح نہیں ڈھکتےیا جھلکتے ہیں ، یاد رہے ایسے میں نماز نہیں ہوگی ۔ دوپٹہ موٹا ہو جس سے پورا سر، بالوں سمیت اچھی طرح ڈھکنا ہے ، صرف چہرہ کھلا رکھنا ہے ۔
(4)ضعیف وبیمار عورت نماز میں سروں کو ایسے دوپٹے سے چھپائے گی جس سے بال نہ ظاہر ہوں ، یہی حکم نوجوان عورت، عام عورت، مریضہ ، ضعیفہ اور بوڑھی کا بھی ہے ۔اگر مرض یا ضعف اس قدر شدید ہو کہ نماز میں حجاب کی مکمل پابندی کرنا ناممکن ہو اور کوئی مدد کرنے والا بھی نہ ہو تو جس قدر ہوسکے پابندی کرے ، اللہ تعالی کسی کو طاقت سے زیادہ کا مکلف نہیں بناتا۔  
(5) دوپٹہ کے علاوہ قمیص وتہ بند بھی باریک نہ ہومطلب ایسا نہ ہو جس سے خدوخال نمایاں ہوں اور نہ ہی کپڑے چھوٹے اور چست ہوں ، لباس ساتر اور ڈھیلے ہوں تاکہ آرام سے نماز ادا کی جاسکے ۔
(6) گرمی کے موسم میں بہت سی خواتین مجبوری یا سستی کی وجہ سے جھلکتے  دوپٹے یا باریک لباس میں نماز ادا کرتی ہیں ، ایسے میں نماز نہیں ہوگی کیونکہ نماز درست ہونے کے لئے مشروط لباس کا ہونا بھی ضروری ہے ۔ ممکن ہے کہ بہت ساری خواتین کو گرمی سے حفاظت کی سہولت میسر نہ ہو پھر بھی نماز کے لئے مناسب لباس کا ہونا ضروری ہے اور اس میں عورت کو جو تکلیف لاحق ہوگی اس پر اللہ کے یہاں زیادہ اجر ہے ۔
(7) آج کل عورتوں میں چست لباس خصوصا چست پاجامہ کا رواج عام ہے بلکہ کتنی عورتوں کے شلوار ٹخنے سے اوپر ہوتے ہیں ، نماز کے لئے اس قسم کا لباس نہیں چلے گا بلکہ عورت کو کبھی بھی چست یا چھوٹے کپڑے نہیں پہننا چاہئے، اکیلے میں یا شوہر کے سامنے کا مسئلہ الگ ہے۔
(8)  بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ عورت نماز میں اپنا چہرہ کھلا رکھتی ہے اس لئے اسلام میں عورت کے چہرے کا پردہ نہیں ہے ۔ یہ استدلال باطل ہے کیونکہ میں نے پہلے ہی اس بات کی وضاحت کردی ہے کہ عورت کی نماز کا پردہ الگ ہے اور جسم کا پردہ الگ ہے۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ عورت اپنے محرم کے سامنے سر کھول سکتی ہے مگر نماز میں عورت کے لئے سرڈھکنا واجب ہے ، ٹھیک یہی معاملہ چہرے کے پردہ کا ہے یعنی عورت نماز میں اپنے چہرے کو کھلا رکھے گی لیکن جب گھر سے باہر نکلے گی یا اس کے پاس اجنبی مرد ہو تو اپنے چہرے کو چھپائےگی حتی کہ نماز کے وقت وہاں کوئی اجنبی مردہو تو پھر نماز میں بھی اپنے چہرے کو چھپائے گی ۔
(9) عورتوں میں ایک غلط فہمی یہ ہے کہ اگراس نے نماز میں انڈرگارمنٹ نہ پہنی ہومثلا چڈی یا شلوار وپاجامہ نہ پہنی ہو تو اس کی نماز نہیں ہوگی کیونکہ شرمگاہ کا زمین سے بھی پردہ کرنا ہے لہذا عورت کا ساڑی وپیٹی کوٹ یا بغیرانڈرگارمنٹ کے نائٹی اور دوپٹہ میں نماز نہیں ہوتی حتی کہ عام حالت میں بھی عورتوں کو انڈرگارمنٹ کے بغیر رہنے سے منع کیا جاتا ہے ۔ یہی  بات  مردوں میں بھی مشہورہے، وہ بھی لنگی میں نماز کو صحیح نہیں مانتے ۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ بات سراسر غلط ہے اور لوگوں کا پھیلایا ہوا جھوٹ ہے ، قرآن وحدیث میں کہیں بھی شرمگاہ کو زمین سے پردہ کرانے کا حکم نہیں دیا گیا ہے ، فقط سترچھپانے کا حکم ہوا ہے ۔اب کوئی عورت ساڑی سے سترچھپائے یا نائٹی پہنے کوئی مسئلہ نہیں ہے ۔ ایک عورت چہرہ وہاتھ وپیر کے علاوہ سارے اعضاء کو ڈھک کر نماز پڑھتی ہے تو اس کی نماز درست ہے خواہ وہ جس طرح کے لباس سے بھی سترپوشی کرے۔ سطور بالا میں آپ نے پڑھا ہوگا کہ عہدرسالت کی خواتین تہ بند کے بغیر بھی رہتی تھیں ، صرف ایک قمیص اور دوپٹہ ہوتا تھااور اسی میں نماز ادا کرتی تھیں جو اس بات کی دلیل ہے کہ نماز میں عورت کو اپنا جسم چھپانا ہے خواہ جس لباس سے بھی ہو، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا تو نماز کے وقت تہ بند اتارلیاکرتیں اور اسے جلباب بناکراوڑھ لیتیں۔ اسی طرح مرد حضرات بھی بغیرانڈرگارمنٹ کے رہ سکتے ہیں اور نماز پڑھ سکتے ہیں ، انہیں  نماز میں کندھے سے لے کر گھٹنے سے نیچے تک اپنا جسم چھپانا ہے خواہ کسی بھی لباس سے چھپائے ۔ صحیح بخاری کی ایک حدیث سے مسجد نبوی میں رہنے والے صحابہ کے لباس کا اندازہ لگائیں ۔ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہ آپ نے فرمایا کہ میں نے ستر اصحاب صفہ کو دیکھا کہ ان میں کوئی ایسا نہ تھا جس کے پاس چادر ہو۔ فقط تہہ بند ہوتا، یا رات کو اوڑھنے کا کپڑا جنھیں یہ لوگ اپنی گردنوں سے باندھ لیتے۔ یہ کپڑے کسی کے آدھی پنڈلی تک آتے اور کسی کے ٹخنوں تک۔ یہ حضرات ان کپڑوں کو اس خیال سے کہ کہیں شرمگاہ نہ کھل جائے اپنے ہاتھوں سے سمیٹے رہتے تھے۔(بخاری:442)
اس حدیث میں اصحاب صفہ کا بیان ہے جن کے پاس محض ایک ہی کپڑا تھا، اسی کو عام حالت میں پہنتے ، اسی کو اوڑھتے اور اسی ایک کپڑا کو لپیٹ کر نماز ادا کرتے تھے اور بھی کتنی احادیث مذکور ہیں جن میں نبی اور صحابہ کے صرف ایک لباس پہننے اور ایک ہی لباس میں نماز پڑھنے کا بیان ہے  اس لئے یہ بات غلط اور جھوٹ ہے کہ مردیا عورت کو اپنی شرمگاہ زمین سے بھی چھپانا چاہئے ۔
(10)امام بخاری نے 351 نمبر کی حدیث سے قبل معلقا ایک اثرذکر کیا ہے ، امام بخاری ؒ بیان  کرتے ہیں کہ اور "وہ شخص جو اسی کپڑے سے نماز پڑھتا ہے جسے پہن کر وہ جماع کرتا ہے (تو نماز درست ہے) جب تک وہ اس میں کوئی گندگی نہ دیکھے"۔ اس سے ایک مسئلہ معلوم ہوتا ہے کہ جس کپڑے کو پہن کر میاں بیوی نے جماع کیا ہے اس کپڑے میں نماز درست ہے، اسے دھونے کی ضرورت نہیں ہے ، ہاں اگر اس میں منی لگ جائے تو فقط اس جگہ کو دھل لے، کافی ہے۔اسی طرح آپ ﷺ کے بارے میں بھی آتا ہے، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کپڑے سے جنابت کو دھوتی تھی۔ پھر (اس کو پہن کر) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لیے تشریف لے جاتے اور پانی کے دھبے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کپڑے میں ہوتے تھے۔(بخاری:229)
(11) حیض کی حالت میں پہنے گئے کپڑوں کے بارے میں عورتوں میں یہ خیال پایا جاتا ہے کہ ان کے کپڑے ناپاک ہوتے ہیں بلکہ یہاں تک مانا جاتا ہے کہ حیض والی عورت کے جسم سے کپڑا مس ہوجانے اور پسینہ وغیرہ بھی لگ جانے سے ناپاک ہوجاتا ہےلہذا اس میں نماز نہیں ادا کرسکتے ہیں ، حیض کا کپڑا الگ اور خاص ہوتا ہے ، استعمال کرکے اسے پھینک دینا چاہئے ۔ عورتوں کے یہ خیالات غلط ہیں ۔ آئیے آپ کو حدیث رسول کی روشنی میں صحیح بات بتاتے ہیں ۔ اسماء بنت ابوبکر رضی اللہ عنہما روایت کرتی ہیں:
جَاءَتِ امْرَأَةٌ النبيَّ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ فَقالَتْ: أرَأَيْتَ إحْدَانَا تَحِيضُ في الثَّوْبِ، كيفَ تَصْنَعُ؟ قالَ: تَحُتُّهُ، ثُمَّ تَقْرُصُهُ بالمَاءِ، وتَنْضَحُهُ، وتُصَلِّي فِيهِ(صحيح البخاري:227)
ترجمہ: ایک عورت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کی کہ یا رسول اللہ! فرمائیے ہم میں سے کسی عورت کو کپڑے میں حیض آ جائے (تو) وہ کیا کرے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (کہ پہلے) اسے کھرچے، پھر پانی سے رگڑے اور پانی سے دھو ڈالے اور اسی کپڑے میں نماز پڑھ لے۔
صحیح بخاری کی ایک دوسری روایت پیش کرتا ہوں، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے انہوں نے فرمایا:
كَانَتْ إحْدَانَا تَحِيضُ، ثُمَّ تَقْتَرِصُ الدَّمَ مِن ثَوْبِهَا عِنْدَ طُهْرِهَا، فَتَغْسِلُهُ وتَنْضَحُ علَى سَائِرِهِ، ثُمَّ تُصَلِّي فِيهِ(صحیح البخاری:308)
ترجمہ:ہ ہمیں حیض آتا تو کپڑے کو پاک کرتے وقت ہم خون کو مل دیتے، پھر اس جگہ کو دھو لیتے اور تمام کپڑے پر پانی بہا دیتے اور اسے پہن کر نماز پڑھتے۔
ان دونوں احادیث سے معلوم ہوا کہ حیض والی عورت جس کپڑے کو حیض کی حالت میں استعمال کی ہے اس کپڑے میں جہاں حیض کا خون لگاہو اس کو مل کر پانی سے دھولے، کپڑا پاک ہوجائے گا ، اب اسی کپڑے میں وہ نماز پڑھ سکتی ہے۔ اور جو کپڑا خشک ہو، اس میں حیض کا خون نہ لگا ہو وہ پہلے سے پاک ہے اس کو دھونے کی بھی ضرورت نہیں ہے جیسے قمیص اور دوپٹہ ، عموما ان میں خون نہیں لگتا ہے صرف شلوار میں خون لگتا ہے۔ اگر خدانخواستہ قمیص میں بھی خون لگ جائے تو اس کو بھی دھل لے اور دھل جانے کے بعد تو کپڑا بالکل پاک ہے اب اس میں نماز ادا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔
ہاں یہ ممکن ہے کہ دھلنے سے کپڑے کی نجاست دور ہوجائے مگر کپڑے پر خون کے نشانات لگے رہ جائیں تو ان نشانات کی وجہ سے بھی نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ کپڑا پاک ہوگیا ہے چاہے اس پر نشان کیوں نہ معلوم ہوتا ہو۔
(12) بہت ساری عورتیں شیرخوار بچوں کے پیشاب وپاخانہ کی وجہ سے نماز ہی نہیں ادا کرتیں جبکہ نمازایک اہم  فریضہ ہے اسے کسی بھی حال میں نہیں چھوڑنا ہے ۔ اگر بچہ کپڑے پر پیشاب کردے، یا کپڑے میں پاخانہ لگ جائے یا کپڑے پر الٹی کردے تو صرف اس جگہ کو دھلنا کافی ہے جہاں پرنجاست لگی ہے، پورا کپڑا دھونے کی ضرورت نہیں ہے  ۔نیز اگر کوئی عورت ایسے کپڑے میں نماز پڑھ لے جس میں نجاست لگی تھی ، نماز کے بعد نجاست کا علم ہوا تو اس کی نماز درست ہے، نماز دہرانے کی ضرورت نہیں ہے لیکن دوران نماز کپڑے میں نجاست لگنے کا علم ہواور بحالت نماز نجاست زائل کرنا ممکن نہ ہو تو نماز توڑکر پہلے نجاست کی صفائی کرلے اور پھر سے نماز ادا کرے ۔
(13) مردوں کے لبا س سے متعلق ذکر کردہ تمام  احادیث سے یہ بات  معلوم ہوتی ہے کہ نماز میں مردوں کاسر ڈھکنا ضروری نہیں ہے یا ٹوپی پہننا ضروری نہیں ہے تاہم نماز کے لئے زنیت (کپڑے) کا اہتمام کرنے کا حکم ہے اس لئے ٹوپی لگاتے ہیں تو اچھی بات ہے۔ورنہ نماز کے لباس میں ٹوپی کا ذکر نہیں ہے اورجولوگ کہتے ہیں کہ ٹوپی کے بغیر نماز نہیں ہوتی یا بغیرٹوپی کے نماز مکروہ ہوتی ہے ان کی بات غلط ہے ۔نماز میں سرڈھکنےکا حکم عورتوں کو ہوا ہے، نہ کہ مردوں کو۔

مکمل تحریر >>