نبی ﷺ کا اپنے
مہمانوں اور میزبانوں کے ساتھ برتاؤ
تحریر: مقبول احمد
سلفی
جدہ دعوہ سنٹر، حی
السلامہ -سعودی عرب
نبی کریم ﷺکی ذات
اقدس زندگی کے تمام مراحل میں پوری انسانیت کے لئے بہترین نمونہ ہے ، اللہ تعالی
نے آپ کو ہمارے درمیان بھیج کر دنیاوالوں پر خصوصا مومنوں پر بڑا احسان کیا ہے ۔ اللہ
تعالی کا ارشاد گرامی ہے:
لَقَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ
إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولًا مِّنْ أَنفُسِهِمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ
وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُوا مِن
قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ (آل عمران:164)
ترجمہ:بیشک مسلمانوں پر اللہ تعالیٰ کا بڑا
احسان ہے کہ انہیں میں سے ایک رسول ان میں بھیجا، جو انہیں اس کی آیتیں پڑھ کر
سناتا ہے اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب اور حکمت سکھاتا ہے یقیناً یہ سب
اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے۔
آپ ﷺ نے ہمیں ہرقسم
کی بھلائی سے آگاہ کیا اور ہرقسم کے شروفساد پر تنبیہ فرمائی ۔ اور آپ بحیثیت
انسان خود بھی بھلائی پرعمل کرنے اور منکر سے بچنے میں سب سے عمدہ نمونہ تھے ۔ اس
تحریر کے ذریعہ آپ ﷺ کی زندگی سے مہمانوں اور میزبانوں کے ساتھ حسن سلوک کا پہلو
عیاں کروں گا۔ مہمان کو عربی میں ضیف اور میزبان کو مضیف یا مستضیف کہتے ہیں ، اسی
سے ضیافت کا لفظ نکلا ہے جسے ہم لوگ عام بول چال میں دعوت کہتے ہیں گویا یہاں آپ
ضیافت یعنی دعوت کھانے اور دعوت کھلانے میں
رسول اللہ ﷺ کااسوہ پیش کروں گا۔
آپ ﷺ کی حیات طیبہ
سے ضیافت کے پہلو پرنظر ڈالتے ہیں تو آپ
اپنے مہمانوں اورمیزبانوں کے ساتھ اچھے سے اچھے برتاؤ میں ہمارے لئے عمدہ ترین
نمونہ نظرآتے ہیں اور پہلےعمومی دلائل آپ کابہترین نمونہ ہونا پانچ حیثیتوں سے واضح
کروں گا پھراس سےمتعلق خصوصی دلائل پیش کروں گا ۔
پہلی حیثیت: عرب قوم جودوسخاوت میں بہت مشہور ہے ، قرآن نےسورہ
توبہ(19) میں مشرکوں کی خدمت حجاج کا ذکر
کیاہے یعنی کفار ومشرکین حاجیوں کی خدمت اور ان کو کھلانے پلانے کو سب سے عظیم عمل
جانتے تھے حتی کہ ایمان اور جہاد سے بھی بڑھ کر۔چنانچہ اس آیت کی شان نزول ملاحظہ
فرمائیں ۔
سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
کے منبر کے پاس بیٹھا تھا۔ ایک شخص بولا مجھے پرواہ نہیں مسلمان ہونے کے بعد کسی
عمل کی جب میں پانی پلاؤں گا حاجیوں کو۔ دوسرا بوالا مجھے کیا پرواہ کسی عمل کی
اسلام کے بعد میں تو مسجد حرام کی مرمت کرتا ہوں۔ تیسرا بولا ان چیزوں سے تو جہاد
افضل ہے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ان کو ڈانٹا اور کہا کہ نبی صلی اللہ
علیہ وسلم کے منبر کے سامنے جمعہ کے دن مت پکارو لیکن میں جمعہ کی نماز کے بعد آپ
صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھوں گا۔ اس بات کو جس میں تم نے اختلاف کیا تب اللہ
تعالیٰ نے آیت اتاری، «أَجَعَلْتُمْ سِقَايَةَ الْحَاجِّ وَعِمَارَةَ الْمَسْجِدِ
الْحَرَامِ كَمَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ» یعنی ”کیا تم نے حاجیوں
کا پانی پلانا اور مسجد حرام کی خدمت کرنا ایمان اور جہاد کے برابر کر دیا ہرگز
نہیں اللہ کے سامنے برابر نہیں"۔(صحیح مسلم:4871)
نبی اکرم ﷺ نبوت سے قبل ہی سے اخلاق واقدار اور تکریم انسانیت کے پیکرمجسم
تھے بلکہ مہمانوں کی ضیافت آپ کی شخصیت کا ایک نمایاں پہلو تھا ، یہی وجہ ہے کہ جب
آپ پر غارحرام میں پہلی وحی نازل ہوئی تو اس سے خوف زدہ ہوگئے اور اپنی جان کا
خطرہ محسوس کرنے لگے، اس وقت سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے آپ کی ڈھارس بندھاتے
ہوئے آپ سے فرمایا:
كَلَّا، أبْشِرْ فَوَاللَّهِ لا يُخْزِيكَ
اللَّهُ أبَدًا، فَوَاللَّهِ إنَّكَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ، وتَصْدُقُ الحَدِيثَ،
وتَحْمِلُ الكَلَّ ، وتَكْسِبُ المَعْدُومَ ، وتَقْرِي الضَّيْفَ، وتُعِينُ علَى
نَوَائِبِ الحَقِّ(صحيح البخاري:4953)
ترجمہ:ایسا ہرگز نہ ہو گا، آپ کو خوشخبری
ہو، اللہ کی قسم! اللہ آپ کو کبھی رسوا نہیں کرے گا۔ اللہ کی قسم! آپ تو صلہ رحمی
کرنے والے ہیں، آپ ہمیشہ سچ بولتے ہیں، آپ کمزور و ناتواں کا بوجھ خود اٹھا لیتے
ہیں، جنہیں کہیں سے کچھ نہیں ملتا وہ آپ کے یہاں سے پا لیتے ہیں۔ آپ مہمان نواز
ہیں اور حق کے راستے میں پیش آنے والی مصیبتوں پر لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔
اس حدیث سے معلوم
ہوتا ہے کہ نبوت حاصل ہونے کے پہلے سے ہی
آپ ایک بہترین مہمان نواز تھے ۔
دوسری حیثیت: لوگوں اور قوم کی ضیافت کرنا انبیائے کرام کی سنت رہی
ہے ، قرآن نے متعدد پیغمبروں کی مہمان نوازی کا تذکرہ کیا ہے جیسے سیدناابراہیم
علیہ السلام سے متعلق اللہ کا فرمان ہے:
هَلْ أَتَاكَ حَدِيثُ ضَيْفِ إِبْرَاهِيمَ
الْمُكْرَمِينَ، إِذْ دَخَلُوا عَلَيْهِ فَقَالُوا سَلَامًا ۖ قَالَ
سَلَامٌ قَوْمٌ مُّنكَرُونَ، فَرَاغَ إِلَىٰ أَهْلِهِ فَجَاءَ بِعِجْلٍ سَمِينٍ،
فَقَرَّبَهُ إِلَيْهِمْ قَالَ أَلَا تَأْكُلُونَ (الذاریات:24-27)
ترجمہ:کیا تجھے ابراہیم (علیہ السلام) کے
معزز مہمانوں کی خبر بھی پہنچی ہے؟وہ جب ان کے ہاں آئے تو سلام کیا، ابراہیم نے
جواب سلام دیا (اور کہا یہ تو) اجنبی لوگ ہیں۔ پھر (چپ چاپ جلدی جلدی) اپنے گھر
والوں کی طرف گئے اور ایک فربہ بچھڑے (کا گوشت) لائے۔اور اسے ان کے پاس رکھا اور
کہا آپ کھاتے کیوں نہیں۔
یہاں پر اللہ نے
مہمان کو ضیف ابراہیم کہا ہے پھر بحیثیت میزبان ابراہیم علیہ السلام کی جانب سے
پرتکلف بچھڑے کی ضیافت کا ذکر کیا ہے بلکہ غور کریں تو اس میں بڑے اہتمام
وتکریم کے ساتھ مہمان نوازی اور آداب ضیافت کا ذکر ہے ۔ مہمان سے پوچھے بغیران کے
لئے بہترین قسم کی ضیافت کا بلاتاخیرابراہیم علیہ السلام نے انتظام کیا اور حسن
محبت وشفقت سے کھانا ان کے سامنے پیش کرتے ہوئے آپ ان سے ادبا مخاطب ہوئے اورکہاآپ
کیوں نہیں کھاتے ؟
قرآن کے اس واقعہ
ضیافت کو اس حدیث سے جوڑ کر دیکھیں جس میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا آپ ﷺ کےمتعلق
بیان فرماتی ہیں :
كان خُلُقُه القرآنَ(صحيح الجامع:4811)
ترجمہ: نبی ﷺ کا اخلاق قرآن ہے۔
تو پتہ چلتا ہے کہ نبی ﷺ مہمان نوازی میں
انبیاء کی اس سنت پر بحسن وخوبی عامل تھے ۔
تیسری حیثیت: مہمان کی تکریم،
ان کی ضیافت وخدمت ، خبرگیری ، حسن سلوک اور تعاون و امداد اعلی اقدار کی نشانی ہے
اور ہمارے نبی محمد ﷺ اخلاق کے بلند معیار پرفائز تھے بلکہ آپ تو مکارم اخلاق کی
تکمیل کے لئے آتے تھے ۔
اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
وَإِنَّكَ لَعَلَىٰ خُلُقٍ عَظِيمٍ
(القلم:4)
ترجمہ:اور بیشک تو بہت بڑے (عمدہ) اخلاق پر
ہے۔
اور نبی مکرم ﷺ کا ارشاد ہے:
إنما بُعِثْتُ لأُتَمِّمَ مكارمَ و في
روايةٍ ( صالحَ ) الأخلاقِ(السلسلة الصحيحة:45)
ترجمہ:مجھے تو صرف اس (مقصد) کے لیے
مبعوث کیا گیا کہ اخلاقی اقدار کی تکمیل کر سکوں۔
یعنی آپ دنیا میں بھیجے ہی اس لئے گئے کہ
آپ لوگوں کو بہترین اخلاق وکردار اور عمدہ اعمال کا حکم دیں اور اوصاف رذیلہ سے
منع کریں ۔ یہی وجہ ہے کہ آپ میں اخلاق حسنہ بدرجہ اتم موجود تھا۔آپ نہایت شفیق
ورحم دل ، مہربان وغم گسار اور محسن وخادم خلق تھے یعنی
مہمان ومیزبان کے ساتھ اچھے سلوک وبرتاؤسے پیش آنے والے تمام صفات حمیدہ آپ میں
موجود تھے ۔
چوتھی حیثیت: اللہ کے رسول ﷺ کی ذات گرامی میں انسانوں کے لئے بہترین
اسوہ موجودہے اور جو لوگوں کا اسوہ ہوتا ہے وہ لوگوں میں سب سے زیادہ باکمال ہوتا
ہے ۔ اللہ کا فرمان ہے:
لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ
أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَن كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ
اللَّهَ كَثِيرًا (الاحزاب:21)
ترجمہ:یقیناً تمہارے لئے رسول اللہ میں
عمدہ نمونہ (موجود) ہے، ہر اس شخص کے لئے جو اللہ تعالیٰ کی قیامت کے دن کی توقع
رکھتا ہے اور بکثرت اللہ تعالیٰ کی یاد کرتا ہے۔
بطور اسوہ محمد ﷺ کی نبوت والی زندگی کی
ایک ایک بات محفوظ ہے ، تاریخ انسانی میں آپ جیسی کوئی شخصیت نہیں جس کی زندگی کے
تمام پہلو مکتوب ہوں۔ صحابہ کرام نے آپ کی زندگی کے تمام پہلوؤں کو اس لئے رقم کیا
کہ اس میں ہمارے لئے بہترین اسوہ ہے ۔ سبحان اللہ ، اللہ نے جس ذات گرامی کو ہمارے
لئے اسوہ بنایاہے واقعتاان کے اندر زندگی کے تمام مراحل میں ہمارے لئے بہترین اسوہ
ہے ۔
پانچویں حیثیت:اللہ
تعالی نے آپ ﷺ کے ذریعہ ہی ہمیں خیروشر کی تعلیم دی ، آپ نے ہی ہمیں ضیافت کے آداب
واحکام سکھائے اور مہمان ومیزان کے حقوق واحکام واضح کئے ۔ گویا مہمان ومیزبان کے ساتھ اچھے سلوک وبرتاؤ
اور ان کی خدمت سے متعلق آپ کے جملہ فرامین اس بات پر شاہد ہیں کہ آپ خود بھی ان
باتوں پر عمل پیراہونے والے تھے چنانچہ مہمان سے متعلق آپ ﷺ کے بعض اہم فرامین دیکھتے ہیں ۔
(1)آپ ﷺنے مہمان نوازی کرنے اور لوگوں کو
کھلانے پر ابھارا۔
سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت
ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لا
خيرَ فِيمَنْ لا يُضِيفُ(صحيح الجامع:7492)
ترجمہ:اس بندے میں بھی کوئی خیر و بھلائی
نہیں، جو مہمان نوازی نہیں کرتا۔
اسی طرح عبداللہ بن سلام رضی الله عنہ کہتے
ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ مدینہ پہنچے تو سب سے پہلے لوگوں سے جوبات کہی یہ تھی، آپ
فرماتے ہیں:
أَيُّهَا النَّاسُ ، أَفْشُوا السَّلاَمَ ،
وَأَطْعِمُوا الطَّعَامَ ، وَصَلُّوا وَالنَّاسُ نِيَامٌ ، تَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ
بِسَلاَمٍ(صحيح الترمذي:2485)
آپ کی ان جنتی تعلیمات کے سبب صحابہ میں
ایک دوسرے کو خصوصا حاجت مندوں کو کھلانےکا جذبہ پایا جاتا تھا چنانچہ ایک واقعہ
سے اندازہ لگائیں، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،انھوں نے کہا: رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مَن أصْبَحَ مِنْكُمُ اليومَ صائِمًا؟ قالَ
أبو بَكْرٍ: أنا، قالَ: فمَن تَبِعَ مِنْكُمُ اليومَ جِنازَةً؟ قالَ أبو بَكْرٍ:
أنا، قالَ: فمَن أطْعَمَ مِنكُمُ اليومَ مِسْكِينًا قالَ أبو بَكْرٍ: أنا، قالَ:
فمَن عادَ مِنْكُمُ اليومَ مَرِيضًا قالَ أبو بَكْرٍ: أنا، فقالَ رَسولُ اللهِ
صَلَّى اللَّهُ عليه وسلَّمَ: ما اجْتَمَعْنَ في امْرِئٍ إلَّا دَخَلَ الجَنَّةَ.(صحيح
مسلم:1028)
ترجمہ:آج تم میں سے روزے دار کون ہے؟ابو
بکر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آج تم میں سے
جنازے کے ساتھ کون گیا؟ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا: میں، آپ نے پوچھا:
آج
تم میں سے کسی نے کسی مسکین کو کھانا کھلایا ہے؟ابو بکر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا:
میں نے، آپ نے پوچھا: تو آج تم میں سے کسی بیمار کی تیمار داری کس نے کی؟ابو بکر
رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کسی انسان
میں یہ نیکیاں جمع نہیں ہوتیں مگر وہ یقیناً جنت میں داخل ہوتاہے۔
(2)آپ نے مہمان کی تکریم کو ایمان کی علامت
قرار دیا۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی
کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مَن كانَ يُؤْمِنُ باللَّهِ واليَومِ
الآخِرِ فَلْيُكْرِمْ ضَيْفَهُ(صحيح البخاري:6138)
ترجمہ:جو شخص اللہ پر اور آخرت کے دن پر
ایمان رکھتا ہو اسے اپنے مہمان کی عزت کرنی چاہئے۔
(3)آپ نے مہمان کی ضیافت کو بطورحق متعین
فرمایا۔
وإنَّ لضَيفِكَ علَيكَ حقًّا (صحيح أبي
داود:1369)
ترجمہ: اور بے شک تم پر تمہارے مہمان کا
بھی حق ہے۔
مہمان کا میزبان پر کس طرح حق ہے وہ بھی
رسول اللہ ﷺ نے متعین کردیا، آپ فرماتے ہیں:
مَن كان يُؤمِنُ باللهِ واليومِ الآخِرِ
فلْيُكرِمْ جارَهُ، ومَن كان يُؤمِنُ باللهِ واليومِ الآخِرِ فلْيُكرِمْ ضَيْفَهُ
جائِزَتَه. قال : وما جائِزَتُه يا رسولَ اللهِ ؟ قال : يومٌ وليلةٌ، والضِّيافَةُ
ثلاثةُ أيامٍ، فما كان وَراءَ ذلك فهو صدَقَةٌ عليه(صحيح البخاري:6019)
ترجمہ: جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر
ایمان رکھتا ہو وہ اپنے پڑوسی کا اکرام کرے اور جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر
ایمان رکھتا ہو وہ اپنے مہمان کی دستور کے موافق ہر طرح سے عزت کرے۔ پوچھا: یا
رسول اللہ! دستور کے موافق کب تک ہے۔ فرمایا ایک دن اور ایک رات اور میزبانی تین
دن کی ہے اور جو اس کے بعد ہو وہ اس کے لیے صدقہ ہے۔
جو مہمان کی ضیافت نہیں کرتے ایسے لوگوں کے
بارے میں بھی نبی ﷺ نے ہماری رہنمائی فرمائی ہے۔ عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ نے
بیان کیا کہ ہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ ہمیں (تبلیغ وغیرہ کے لیے) بھیجتے
ہیں اور راستے میں ہم بعض قبیلوں کے گاؤں میں قیام کرتے ہیں لیکن وہ ہماری مہمانی
نہیں کرتے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اس سلسلے میں کیا ارشاد ہے؟ نبی کریم
صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر ہم سے فرمایا:
إنْ نَزَلْتُمْ بقَوْمٍ فأمَرُوا لَكُمْ
بما يَنْبَغِي لِلضَّيْفِ فَاقْبَلُوا، فإنْ لَمْ يَفْعَلُوا، فَخُذُوا منهمْ
حَقَّ الضَّيْفِ الذي يَنْبَغِي لهمْ.( صحيح البخاري:6137)
ترجمہ:جب تم ایسے لوگوں کے پاس جا کر اترو
اور وہ جیسا دستور ہے مہمانی کے طور پر تم کو کچھ دیں تو اسے منظور کر لو اگر نہ
دیں تو مہمانی کا حق قاعدے کے موافق ان سے وصول کر لو۔
اور ایک دوسری روایت میں اس
طرح مروی ہے، ابوکریمہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے
فرمایا:
ليلةُ الضَّيفِ حقٌّ على كلِّ مسلمٍ ، فمن
أصبح بفِنائِه ، فهو عليه دَينٌ ، إن شاء اقتَضى ، وإن شاء ترك(صحيح أبي
داود:3750)
ترجمہ:ہر مسلمان پر مہمان کی ایک رات کی
ضیافت حق ہے، جو کسی مسلمان کے گھر میں رات گزارے تو ایک دن کی مہمانی اس پر قرض
ہے، چاہے تو اسے وصول کر لے اور چاہے تو چھوڑ دے۔
یہاں معلوم رہے کہ جس مہمان کی واجبی دعوت
کرنی ہے وہ سفر یا دور سے آنے والا مسافر، یا رشتہ دار یا اجنبی شخص ہے البتہ قریبی
رشتہ داروں کی ضیافت صلہ رحمی اور دیگر مسلمانوں کی دعوت احسان وسلوک کے درجے میں
ہے۔
(4) آپ نے دعوت قبول کرنا فریضہ بلکہ ایک
مسلمان کا دوسرے پر حق قرار دیا۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں
نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ فرماتے ہیں:
حَقُّ المُسْلِمِ علَى المُسْلِمِ خَمْسٌ:
رَدُّ السَّلَامِ، وعِيَادَةُ المَرِيضِ، واتِّبَاعُ الجَنَائِزِ، وإجَابَةُ
الدَّعْوَةِ، وتَشْمِيتُ العَاطِسِ.(صحيح البخاري:1240)
ترجمہ: مسلمان کے مسلمان پر پانچ حق ہیں
سلام کا جواب دینا، مریض کا مزاج معلوم کرنا، جنازے کے ساتھ چلنا، دعوت قبول کرنا،
اور چھینک پر (اس کے «الحمدلله» کے جواب میں) «يرحمک الله» کہنا۔
اسی طرح حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے
روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إِذَا دُعِيَ أَحَدُكُمْ إِلَى
الْوَلِيمَةِ فَلْيُجِبْ(صحیح مسلم:1429)
ترجمہ:جب تم میں سے کسی کو ولیمے کی دعوت
دی جائے تو وہ قبول کرے۔
اور جس کو دعوت دی جائے وہ روزہ دار ہو تو
میزبان کو دعا دیدے، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إِذَا دُعِيَ أَحَدُكُمْ فَلْيُجِبْ، فإنْ
كانَ صَائِمًا فَلْيُصَلِّ، وإنْ كانَ مُفْطِرًا فَلْيَطْعَمْ( صحيح مسلم:1431)
ترجمہ:جب تم میں سے کسی کو دعوت دی جائے تو
وہ قبول کرے۔ اگر وہ روزہ دار ہے تو دعا کرے اور اگر روزے کے بغیر ہے تو کھانا
کھائے۔
(5) مہمان کے لئے پہلے سے گھر میں بستر کا
انتظام ہونے پر ابھارا۔
حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے
روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا:
فِرَاشٌ لِلرَّجُلِ، وَفِرَاشٌ
لاِمْرَأَتِهِ، وَالثَّالِثُ لِلضَّيْفِ، وَالرَّابِعُ لِلشَّيْطَانِ.(صحيح
مسلم:2084)
ترجمہ: ایک بستر مرد کے لیے ہے ایک اس کی
بیوی کے لیے تیسرا بستر مہمان کے لیے اور چوتھا بستر شیطان کے لیے ہے۔
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ گھر میں پہلے
سے مہمان کے لئے ضروری اسباب مہیا ہوں(جیسے بستر اور سہولت ہو تو مہمان خانہ و
ٹوائلیٹ وغیرہ) تاکہ کوئی مہمان کسی کے گھر ٹھہر سکے اور گھر میں ضرورت سے زیادہ
سامان نہ ہو۔
(6)دعوت میں مالدار کے ساتھ فقراء ومساکین کوبھی بلانے کی ترغیب دی۔
اولا ہمارا کھانا اچھے لوگ کھائیں اور اپنی
دعوت میں ہم مالداروں کے ساتھ فقراء کو بھی بلائیں اور جو دعوت قبول نہ کرے وہ
اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرتا ہے۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت
ہے وہ بیان کرتے ہیں:
شَرُّ الطَّعَامِ طَعَامُ الوَلِيمَةِ ،
يُدْعَى لَهَا الأغْنِيَاءُ ويُتْرَكُ الفُقَرَاءُ، ومَن تَرَكَ الدَّعْوَةَ فقَدْ
عَصَى اللَّهَ ورَسولَه، صلَّى اللهُ عليه وسلَّم(صحيح البخاري:5177)
ترجمہ:ولیمہ کا وہ کھانا بدترین کھانا ہے
جس میں صرف مالداروں کو اس کی طرف دعوت دی جائے اور محتاجوں کو نہ کھلایا جائے اور
جس نے ولیمہ کی دعوت قبول کرنے سے انکار کیا اس نے اللہ اور اس کے رسول کی
نافرمانی کی۔
(7) استطاعت ہو تو پرتکلف ورنہ جومیسر
ہوضیافت میں پیش کرے۔
عَنْ أَنَسٍ، قَالَ:كُنَّا عِنْدَ عُمَرَ،
فَقَالَ: نُهِينَا عَنِ التَّكَلُّفِ(صحيح البخاري:7293)
ترجمہ: انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم
عمر رضی اللہ عنہ کے پاس تھے تو آپ نے فرمایا کہ ہمیں تکلف اختیار کرنے سے منع کیا
گیا ہے۔
حضرت سلمان (رضی الله عنہ) کہتے ہیں:نَهانا
رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ أنْ نَتكلَّفَ للضَّيفِ( السلسلة الصحيحة:
5/512)
ترجمہ:ہمیں رسول اللہ (ﷺ) نے مہمان کے لئے
تکلف کرنے سے منع فرمایا ہے۔
حضرت سلمان فارسی کی دعوت کی تفصیل اس طرح ہے۔ شقیق کہتے ہیں کہ
میں اور میرا ایک دوست سیدنا سلمان رضی اللہ عنہ کے پاس گئے، انہوں نے (بطور
میزبانی) روٹی اور کوئی نمکین چیز پیش کی اور کہا: اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم نے تکلف سے منع نہ کیا ہوتا تو میں تمہاری خاطر میں تکلف کرتا۔ میرے دوست نے
کہا: اگر نمکین ڈش میں پہاڑی پودینہ ڈال دیا جاتا (تو بہت اچھا ہوتا)۔ انہوں
نے کوئی لوٹا نما برتن بطور گروی سبزی فروش کی طرف بھیجا اور پودینہ منگوایا۔ جب
ہم کھانا کھا چکے تو میرے دوست نے کہا: "الحمدُ للهِ الذِي قنَّعنَا بما
رزقَنا"(ساری تعریف اس اللہ کے لیے ہے جس نے ہمیں اس رزق پر قناعت کرنے کی
توفیق بخشی)۔ سیدنا سلمان رضی اللہ عنہ نے کہا: اگر تو نے اپنے رزق پر قناعت کی
ہوتی تو میرا برتن سبزی فروش کے پاس گروی نہ پڑا ہوتا۔(سلسلہ صحیحہ:2392)
(8)کھانے کے بعد بطور شکرگھروالوں کو دعا
دینی چاہئے ۔
کھانا کھالینے کے بعد مہمان کو چاہئے کہ
میزبان کو اچھی دعائیں دے اور یہ دعائیں بھی دے سکتا ہے ۔
اللهمَّ ! بارِكْ لهم
في ما رزقتَهم . واغفرْ لهم وارحمْهم(صحيح مسلم:2042)
ترجمہ:اللہ برکت دے ان
کی روزی میں اور بخش دے ان کو اور رحم کر ان پر۔
اللهمَّ ! أطعِمْ مَن
أطعَمني . وأسْقِ من أسقاني(صحيح مسلم:2055)
ترجمہ: اسے اللہ ! جس
نے مجھے کھلایا تو اس کوبھی پلا اور جس نے مجھے پلایا اس کو بھی پلا۔
مہمان نوازی سے متعلق چند فرامین نبوی پیش
کئے ، ان فرامین کے ذکر کا مقصد مہمان نوازی کے آداب بیان کرنا ساتھ ہی یہ بتانا
مقصود ہے کہ ان تعلیمات پر ہمارے نبی محمد ﷺ بھی عمل پیرا تھے کیونکہ آپ مہمانوں
کے یہ حقوق وآداب متعین فرمائیں اور ان پر عمل پیرا نہ ہوں، ایسا ممکن نہیں ہے ، اور
اللہ ایسے لوگوں کو تنبیہ فرمائی ہے جو اپنے قول کے مطابق عمل نہیں کرتے ، فرمان
الہی ہے:
أَتَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبِرِّ
وَتَنسَوْنَ أَنفُسَكُمْ وَأَنتُمْ تَتْلُونَ الْكِتَابَ ۚ
أَفَلَا تَعْقِلُونَ (البقرة:44)
ترجمہ: لوگوں کو بھلائیوں کا حکم کرتے ہو
اور خود اپنے آپ کو بھول جاتے ہو باوجودیکہ تم کتاب پڑھتے ہو، کیا اتنی بھی تم میں
سمجھ نہیں؟
حاصل کلام یہ ہے کہ یہ سارے اوصاف محمد ﷺ
کے تھے ۔ اب عمومی طور پر آپ کے بارے میں سرے دست یہ جانتے چلیں کہ آپ لوگوں کو
کھلانے پینے اور ضرورت مند ومحتاجوں پر خرچ کرنے میں بہت زیادہ سخی اور فیاض تھے
جبکہ اپنے لئے اللہ سے زندہ رہنے بھر روزی کا سوال کرتے تھے، ابوہریرہ رضی اللہ
عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی «اللهم ارزق آل محمد
قوتا» ”اے اللہ! آل محمد کو اتنی روزی دے کہ وہ زندہ رہ سکیں۔(صحیح البخاری:6460)
اسی طرح رسول اللہ کے گھر کھانے کی قلت
ہوتی، خود کم کھاتے لیکن مہمانوں کا زیادہ خیال کرتے۔
عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: إِنْ كُنَّا آلَ
مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَنَمْكُثُ شَهْرًا مَا نَسْتَوْقِدُ
بِنَارٍ، إِنْ هُوَ إِلَّا التَّمْرُ وَالْمَاءُ (صحیح مسلم:7449)
ترجمہ:حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت
کی انھوں نے کہا: ہم آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم ایک ماہ تک اس حالت میں رہتے تھے
کہ آگ نہیں جلاتے تھے بس کھجوراور پانی پر گزرہوتی تھی۔
رسول کریم خود قناعت فرماتے مگر دوسروں کے
لئے بیحد سخی تھے، ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں:
كانَ النبيُّ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ
أجْوَدَ النَّاسِ بالخَيْرِ، وأَجْوَدُ ما يَكونُ في شَهْرِ رَمَضَانَ، لأنَّ
جِبْرِيلَ كانَ يَلْقَاهُ في كُلِّ لَيْلَةٍ في شَهْرِ رَمَضَانَ، حتَّى
يَنْسَلِخَ يَعْرِضُ عليه رَسولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ القُرْآنَ،
فَإِذَا لَقِيَهُ جِبْرِيلُ كانَ أجْوَدَ بالخَيْرِ مِنَ الرِّيحِ
المُرْسَلَةِ.(صحيح البخاري:4997)
ترجمہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خیر
خیرات کرنے میں سب سے زیادہ سخی تھے اور رمضان میں آپ کی سخاوت کی تو کوئی حد ہی
نہیں تھی کیونکہ رمضان کے مہینوں میں جبرائیل علیہ السلام آپ سے آ کر ہر رات ملتے
تھے یہاں تک کہ رمضان کا مہینہ ختم ہو جاتا وہ ان راتوں میں نبی کریم صلی اللہ
علیہ وسلم کے ساتھ قرآن مجید کا دورہ کیا کرتے تھے۔ جب جبرائیل علیہ السلام آپ سے
ملتے تو اس زمانہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تیز ہوا سے بھی بڑھ کر سخی ہو
جاتے تھے۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے
انہوں نے کہا:
كانَ رَسولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عليه
وَسَلَّمَ أَحْسَنَ النَّاسِ، وَكانَ أَجْوَدَ النَّاسِ، وَكانَ أَشْجَعَ
النَّاسِ(صحيح مسلم:2307)
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمام
انسانوں میں سب سے بڑھ کر خوبصورت سب انسانوں سے بڑھ کر سخی اور سب سے زیادہ
بہادرتھے۔
عربوں کے یہاں سخاوت کا مطلب مہمانوں کی
ضیافت اور دوسروں کو کھلانا پلا نا ہے یعنی آپ عربوں میں سب سے زیادہ مہمانوں کا
خیال کرنے اور لوگوں کو کھلانے پلانے والے تھے ۔
اب موضوع سے متعلق خصوصی دلائل دیکھتے ہیں
اور معلوم کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ اپنے مہمانوں اور میزبانوں سے کیسا برتاؤ کرتے
تھے اور ایک جملہ میں یہ بات سمجھتے چلیں
کہ جو رسول اللہ کا مہمان بنتا وہ خود کو خوش نصیب سمجھتا اور جو رسول اللہ کو
اپنا مہمان بناتا وہ بھی خود کو بہت نصیب والا سمجھتااور ایسا کیوں نہ ہو کہ آپ کی
ذات اقدس ہی ایسی بلندپایہ تھی ۔
پہلے محمد ﷺ کا اپنے مہمانوں کے ساتھ برتاؤدیکھتے
ہیں پھرمیزبانوں کے ساتھ برتاؤدیکھیں گے ۔
(1) بغیر کسی بدلے کی
نیت سے کھلاتے:
نبی ﷺ نے اپنے قول وعمل سے ہمیں آگاہ کیا
ہے کہ ہم کسی کو کھلاتے پلاتے ہیں تو اس کے معاوضہ کی توقع نہ رکھیں جیساکہ اللہ
تعالی فرماتاہے:
إِنَّمَا نُطْعِمُكُمْ لِوَجْهِ اللَّهِ
لَا نُرِيدُ مِنكُمْ جَزَاءً وَلَا شُكُورًا (الانسان:9)
ترجمہ:ہم تمہیں صرف اللہ تعالیٰ کی رضامندی
کے لئے کھلاتے ہیں نہ تم سے بدلہ چاہتے ہیں نہ شکرگزاری۔
ہاں کھانے والے کا حق بنتا ہے کہ اپنے محسن
کا شکریہ ادا کرے اور اس کے دعا دے ۔
(2)مہمان ووفود کا
استقبال کرتے:
نبی ﷺ آنےوالے مہمانوں اور وفد کا ترحیبی
کلمات کے ذریعہ بہترین طریقہ پر استقبال کرتے تاکہ آنے والا اجنبیت کی بجائے
اپنائیت اور محبت ومسرت محسوس کرے۔
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ
عَنْهُمَا، قَالَ: لَمَّا قَدِمَ وَفْدُ عَبْدِ الْقَيْسِ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى
اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:مَرْحَبًا بِالْوَفْدِ الَّذِينَ جَاءُوا غَيْرَ
خَزَايَا وَلَا نَدَامَى (بخاری:6176)
ترجمہ: ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان
کیا کہ جب قبیلہ عبدالقیس کا وفد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر
ہوا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مرحبا ان لوگوں کو جو آن پہنچے
تو نہ وہ ذلیل ہوئے، نہ شرمندہ (خوشی سے مسلمان ہو گئے ورنہ مارے جاتے شرمندہ
ہوتے)۔
(3)دعوت میں تکلف
نہیں کرتے:
اللہ تعالی کا فرمان ہے:
قُلْ مَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ
أَجْرٍ وَمَا أَنَا مِنَ الْمُتَكَلِّفِينَ (ص:86)
ترجمہ:کہہ دیجئے کہ میں تم سے اس پر کوئی
بدلہ طلب نہیں کرتا اور نہ میں تکلف کرنے والوں میں سے ہوں ۔
نبی ﷺ زندگی کے تمام امور میں تکلف سے
اجتناب کرتے اور اپنے اصحاب کو بھی منع فرماتے بلکہ آپ نے گزشتہ سطور میں پڑھا
ہوگا کہ رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کو مہمان نوازی میں تکلف سے منع فرمایا، ہاں استطاعت
ہو تو اچھے سے اچھا پکوان پیش کرسکتے ہیں اس میں حرج نہیں ہے تاہم استطاعت نہ ہونے
پر تکلف ممنوع ہے۔
لقیط بن صبرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں
بنی منتفق کے وفد کا سردار بن کر یا بنی منتفق کے وفد میں شریک ہو کر رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا،ہمارے لئے کھانا بنایا گیا اور تھالی لائی
گئی، اس وقت نبی ﷺ گھر پر نہیں تھے پھر جب تشریف لائے تو آپ نے اپنے چرواہے سے
کہاکہ ایک بکری ذبح کرو پھر آپ لقیط سے یہ بھی فرماتے ہیں :
لَا
تَحْسِبَنَّ، وَلَمْ يَقُلْ لَا تَحْسَبَنَّ أَنَّا مِنْ أَجْلِكَ ذَبَحْنَاهَا
لَنَا غَنَمٌ مِائَةٌ لَا نُرِيدُ أَنْ تَزِيدَ، فَإِذَا وَلَّدَ الرَّاعِي
بَهْمَةً ذَبَحْنَا مَكَانَهَا شَاةً( صحيح أبي داود:142)
ترجمہ:یہ نہ سمجھنا کہ ہم نے اسے تمہارے
لیے ذبح کیا ہے، بلکہ (بات یہ ہے کہ) ہمارے پاس سو بکریاں ہیں جسے ہم بڑھانا نہیں
چاہتے، اس لیے جب کوئی بچہ پیدا ہوتا ہے تو ہم اس کی جگہ ایک بکری ذبح کر ڈالتے
ہیں۔
(4)کبھی دعوت میں
آپسی کھانا ملاجلاکر کھاتے پیتے:
غزوہ خیبر کے موقع پر سفر میں ہی نبی نے
صفیہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کیا اور ولیمہ کی دعوت کرتے وقت اپنے ساتھیوں سے
فرمایا:
مَنْ كَانَ عَنْدَهُ شَيْءٌ، فَلْيَجِئْ
بِهِ "، قَالَ: وَبَسَطَ نِطَعًا، قَالَ: فَجَعَلَ الرَّجُلُ يَجِيءُ
بِالْأَقِطِ، وَجَعَلَ الرَّجُلُ يَجِيءُ بِالتَّمْرِ، وَجَعَلَ الرَّجُلُ يَجِيءُ
بِالسَّمْنِ، فَحَاسُوا حَيْسًا، فَكَانَتْ وَلِيمَةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى
اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.(صحیح البخاری :3497)
ترجمہ:جس کے پاس (کھانے کی) کوئی چیز ہو تو
وہ اسے لے آئے۔“ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چمڑے کا دسترخوان بچھوا دیا۔ کہا:
تو کوئی آدمی پنیر لے کر آنے لگا، کوئی کھجور لے کر آنے لگا اور کوئی گھی لے کر
آنے لگا۔ پھر لوگوں نے (کھجور، پنیر اور گھی کو) اچھی طرح ملا کر حلوہ تیار کیا۔
اور یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ولیمہ تھا۔
نبوی ضیافت میں کبھی کبھی ایسی مشترکہ
ضیافت بھی دیکھنے کو ملتی ہے۔
(5)مہمانوں کی خدمت
کرتے:
نبی ﷺ مہمان کو خود سے کھانا پیش کرتے، ان
کی خدمت کرتے، ان کے ساتھ کھاتے اور ان سے بات چیت کرتے تھے۔مغیرہ بن شعبہ رضی
اللہ عنہ کہتے ہیں :
ضِفتُ النَّبيَّ صلَّى اللَّهُ عليهِ
وسلَّمَ ذاتَ ليلةٍ فأمرَ بِجَنبٍ فشُوِيَ، وأخذَ الشَّفرةَ فجعلَ يحزُّ لي بِها منهُ،
قالَ: فجاءَ بلالٌ فآذنَهُ بالصَّلاةِ، قالَ: فألقى الشَّفرةَ، وقالَ: ما لَهُ
ترِبَت يداهُ وقامَ يصلِّي زادَ الأنباريُّ: وَكانَ شاربي وفَى فقصَّهُ لي على
سِواكٍ أو قالَ: أقصُّهُ لَكَ علَى سواكٍ(صحيح أبي داود:188)
ترجمہ:میں ایک رات نبی اکرم صلی اللہ علیہ
وسلم کا مہمان ہوا تو آپ نے بکری کی ران بھوننے کا حکم دیا، وہ بھونی گئی، آپ صلی
اللہ علیہ وسلم نے چھری لی، اور میرے لیے اس میں سے گوشت کاٹنے لگے، اتنے میں بلال
رضی اللہ عنہ آئے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز کی خبر دی، تو آپ نے چھری
رکھ دی، اور فرمایا: اسے کیا ہو گیا؟ اس کے دونوں ہاتھ خاک آلود ہوں؟، اور اٹھ کر
نماز پڑھنے کھڑے ہوئے۔ انباری کی روایت میں اتنا اضافہ ہے: میری موچھیں بڑھ گئی
تھیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مونچھوں کے تلے ایک مسواک رکھ کر ان کو کتر
دیا، یا فرمایا: میں ایک مسواک رکھ کر تمہارے یہ بال کتر دوں گا۔
جب آپ کو سہولت ہوتی تو آپ مہمانوں کی
بہترین ضیافت کرتے جیساکہ اس مقام پر دیکھ سکتے ہیں ۔
(6) مہمان سے بات چیت کرتے اگرچہ عشاء کے
بعد ہی کیوں نہ ہو:
نبی ﷺ عشاء کے بعد کلام نہیں کرتے جیساکہ
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں:
ما نامَ رسولُ اللَّهِ صلَّى اللهُ عليهِ
وسلَّمَ قبلَ العشاءِ ولا سَمَرَ بعدَها(صحيح ابن ماجه:582)
ترجمہ:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عشاء
سے پہلے نہ سوئے، اور نہ اس کے بعد (بلا ضرورت) بات چیت کی۔
اس کے باوجود آپ مہمانوں کی تکریم وضیافت
کے تئیں اور ضرورت کے سبب عشاء کے بعد بھی بات کرتے جیساکہ اصحاب صفہ کی دعوت سے
متعلق حدیث پر امام بخاری نے(كِتَاب مَوَاقِيتِ الصَّلَاةِ) کے تحت باب باندھا
ہے:بَابُ السَّمَرِ مَعَ الضَّيْفِ وَالأَهْلِ:باب: اپنی بیوی یا مہمان سے رات کو
(عشاء کے بعد) گفتگو کرنا۔
یہ بخاری کی (602) نمبر کی حدیث ہے اور
اصحاب صفہ کی دعوت سے متعلق ایک حدیث آگے آرہی ہے۔
(7)رسول اللہ کے
مہمان اور ایثارکی عمدہ مثال:
ایک مرتبہ ایک مہمان آپ کی خدمت میں حاضر
ہوا مگر گھر میں کچھ نہیں تھا تو آپ نے اپنے مہمان کو صحابہ کی جماعت پر پیش کیا
تاکہ کوئی اس کی ضیافت کرے، واقعہ کی تفصیل اس طرح ہے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے
بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک صاحب خود حاضر ہوئے اور
عرض کیا: یا رسول اللہ! میں فاقہ سے ہوں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں
ازواج مطہرات کے پاس بھیجاکہ وہ آپ کی دعوت کریں لیکن ان کے پاس کوئی چیز کھانے کی
نہیں تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا کوئی شخص ایسا نہیں جو آج رات
اس مہمان کی میزبانی کرے؟ اللہ اس پر رحم کرے گا۔ اس پر ایک انصاری صحابی
(ابوطلحہ) کھڑے ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ آج میرے مہمان ہیں پھر وہ
انہیں اپنے ساتھ گھر لے گئے اور اپنی بیوی سے کہا کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم کے مہمان ہیں، کوئی چیز ان سے بچا کے نہ رکھنا۔ بیوی نے کہا اللہ کی قسم میرے
پاس اس وقت بچوں کے کھانے کے سوا اور کوئی چیز نہیں ہے۔ انصاری صحابی نے کہا اگر
بچے کھانا مانگیں تو انہیں سلا دو اور آؤ یہ چراغ بھی بجھا دو، آج رات ہم بھوکے ہی
رہ لیں گے۔ بیوی نے ایسا ہی کیا۔ پھر وہ انصاری صحابی صبح کے وقت رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
کہ اللہ تعالیٰ نے فلاں (انصاری صحابی) اور ان کی بیوی (کے عمل) کو پسند فرمایا۔
یا (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا کہ) اللہ تعالیٰ مسکرایا پھر اللہ تعالیٰ
نے یہ آیت نازل کی «ويؤثرون على أنفسهم ولو كان بهم خصاصة» یعنی اور اپنے اوپر
دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں اگرچہ خود فاقہ میں ہی ہوں۔(صحيح البخاري:4889)
سبحان اللہ، رسول اللہ کا مہمان بننا کتنے
نصیب کی بات ہے اور پھر میاں بیوی نے ضیف رسول کی کس انداز میں ضیافت کی کہ اللہ
بھی مسکرادیا اور ان کی شان میں قرآن کی آیت نازل فرمادی ۔
(8) مہمانوں کی کثرت
کا حسن انتظام کرتے:
آپ ﷺ اپنے کھانوں میں فقراء ومساکین کا خاص خیال کرتے اور جب کبھی
مہمانوں کی کثرت ہوتی تو انہیں اپنے اور صحابہ کے درمیان تقسیم کرتے تاہم سب کے
کھانوں کو انتظام فرماتے ۔ اصحاب صفہ جو فقراء ومساکین کی جماعت تھی اور مسجد نبوی
میں رہا کرتی تھی ، ان کے کھانے کا اہتمام آپ ﷺ اس طرح فرماتے۔عبدالرحمٰن بن ابی
بکر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا:
أنَّ أصْحَابَ الصُّفَّةِ كَانُوا أُنَاسًا
فُقَرَاءَ، وأنَّ النبيَّ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ قالَ مَرَّةً:مَن كانَ
عِنْدَهُ طَعَامُ اثْنَيْنِ فَلْيَذْهَبْ بثَالِثٍ، ومَن كانَ عِنْدَهُ طَعَامُ
أرْبَعَةٍ فَلْيَذْهَبْ بخَامِسٍ أوْ سَادِسٍ أوْ كما قالَ: وأنَّ أبَا بَكْرٍ
جَاءَ بثَلَاثَةٍ، وانْطَلَقَ النبيُّ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ بعَشَرَةٍ(صحيح
البخاري:3581)
ترجمہ: صفہ والے محتاج اور غریب لوگ تھے
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ فرمایا تھا کہ جس کے گھر میں دو
آدمیوں کا کھانا ہو تو وہ ایک تیسرے کو بھی اپنے ساتھ لیتا جائے اور جس کے گھر چار
آدمیوں کا کھانا ہو وہ پانچواں آدمی اپنے ساتھ لیتا جائے یا چھٹے کو بھی یا آپ نے
اسی طرح کچھ فرمایا (راوی کو پانچ اور چھ میں شک ہے) خیر تو ابوبکر رضی اللہ عنہ
تین اصحاب صفہ کو اپنے ساتھ لائے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھ دس
اصحاب کو لے گئے۔
(9)کافر مہمان کی بھی
ضیافت کراتے،اس میں تالیف قلب اور دعوت الی اللہ کا مقصد بھی ہوتا:
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی،
کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک مہمان آیا وہ شخص کا فر تھا رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے ایک بکری کا دودھ دوہنے کا حکم دیا اس نے دودھ پی لیا
پھر دوسری بکری کا دودھ دوہنے کا حکم دیا اس نے اس کو بھی پی لیا، پھر ایک اور
(بکری کا دودھ دوہنے) کا حکم دیا اس نے اس کا بھی پی لیا، حتی کہ اس نے اسی طرح
سات بکریوں کا دودھ پی لیا پھر اس نے صبح کی تواسلام لے آیا رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم نے اس کے لیے ایک بکری کا دودھ دوہنے کا حکم دیا اس نے وہ دودھ پی لیا
پھر دوسری بکری کا دودھ دوہنے کا حکم دیا، وہ اس کا سارا دودھ نہ پی سکا تو رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا: مسلمان ایک آنت میں پیتا ہے جبکہ کافر سات
آنتوں میں پیتا ہے۔(صحیح مسلم:2063)
(9)فاقہ کشوں اور
ضرورت مندوں کی مہمان نوازی:
ابوہریزہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ کے
یہاں مہمانی کا اپنا ایک واقعہ بیان کرتے ہیں وہ کافی لمبا ہے ، خلاصہ یہ ہے کہ
اللہ کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں میں (زمانہ نبوی میں) بھوک کے مارے زمین پر
اپنے پیٹ کے بل لیٹ جاتا تھا اور کبھی میں بھوک کے مارے اپنے پیٹ پر پتھر باندھا
کرتا تھا۔ اصحابہ رسول میں سے کوئی ان کو کھلانے والا نہ ملا بالآخر نبی دیکھ کر
پہچان گئے ، اپنے ساتھ گھر لے گئے، گھر میں تحفہ کا ایک پیالہ دودھ تھا، آپ نے
انہیں اصحاب صفہ کو بھی بلانے کو کہا، بظاہر ابوہریرہ کو لگ رہا تھاکہ یہ دودھ ان
کے لئے بھی ناکافی ہے مگر جب اصحاب صفہ آئے ، سب ایک ایک کرکے پیتے گئے، آخر میں
ابوہریرہ نے پیا حتی کہ شکم سیر ہوگئے اور پھر بچا ہوا نبی ﷺ پیتے ہیں۔(صحیح
البخاری:6452)
سیدنا مقداد بن الاسود رضی اللہ عنہ سے
روایت ہے، میں اور میرے دونوں ساتھی آئے اور ہمارے کانوں اور آنکھوں کی قوت جاتی
رہی تھی تکلیف سے (فاقہ وغیرہ کے) ہم اپنے تئیں پیش کرتے تھے آپ کے اصحاب پر کوئی
ہم کو قبول نہ کرتا۔ آخر ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، آپ صلی اللہ
علیہ وسلم ہم کو اپنے گھر لے گئے، وہاں تین بکریاں تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے
فرمایا: ”ان کا دودھ دوہو ہم تم سب پیئں گے۔“ پھر ہم ان کا دودھ دوہا کرتے اور ہر
ایک ہم میں سے اپنا حصہ پی لیتا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حصہ اٹھا
رکھتے(صحیح مسلم:5362)
(10) دارالضیافہ اور وفود کے لئے مال مختص
کرنا:
آپ ﷺ نے مہمانوں اور آنے والے وفود کے لئے
مہمان خانہ کا اہتمام کیا تھا جہاں آپ کے مہمان قیام فرمایا کرتے اور ان کے لئے
الگ سے مال مختص کرکے رکھا کرتے تھے ۔ بشیر بن یسار جو انصار کے غلام تھے بعض
اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
جب خیبر پر غالب آئے تو آپ نے اسے چھتیس حصوں میں تقسیم فرمایا، ہر ایک حصے میں سو
حصے تھے تو اس میں سے نصف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کے لیے ہوا
اور باقی نصف آنے والے وفود اور دیگر کاموں اور اچانک مسلمانوں کو پیش آنے والے حادثات
و مصیبتوں میں خرچ کرنے کے لیے الگ کر کے رکھ دیا۔(ابوداؤد:3012، قال الشيخ
الألباني: صحيح الإسناد)
(11) ناگواری محسوس
ہونے کے باوجودمہمان کے قلبی احساسات کا خیال کرتے :
ایک مرتبہ زینت رضی اللہ عنہا کے ولیمہ پر
آپ کی دعوت پر صحابہ کرام آپ کے گھر آئے تو دیر تک بیٹھے رہ گئے جو آپ کو ناگوار
محسوس ہوا مگر آپ نے مہمانوں کا خیال کیا اسی پس منظر میں قرآن کی یہ آیت نازل
ہوئی:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا
تَدْخُلُوا بُيُوتَ النَّبِيِّ إِلَّا أَن يُؤْذَنَ لَكُمْ إِلَىٰ طَعَامٍ غَيْرَ
نَاظِرِينَ إِنَاهُ وَلَٰكِنْ إِذَا دُعِيتُمْ فَادْخُلُوا فَإِذَا طَعِمْتُمْ
فَانتَشِرُوا وَلَا مُسْتَأْنِسِينَ لِحَدِيثٍ ۚ إِنَّ
ذَٰلِكُمْ كَانَ يُؤْذِي النَّبِيَّ فَيَسْتَحْيِي مِنكُمْ ۖ
وَاللَّهُ لَا يَسْتَحْيِي مِنَ الْحَقِّ(الأحزاب:53)
ترجمہ:اے ایمان والو! جب تک تمہیں اجازت نہ
دی جائے تم بنی کے گھروں میں نہ جایا کرو کھانے کے لئے ایسے وقت میں اس کے پکنے کا
انتظار کرتے رہو بلکہ جب بلایا جائے جاؤ اور جب کھا چکو نکل کھڑے ہو، وہیں باتوں
میں مشغول نہ ہوجایا کرو، نبی کو تمہاری اس بات سے تکلیف ہوتی ہے، تو وہ لحاظ کر
جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ (بیان) حق میں کسی کا لحاظ نہیں کرتا۔
گویا اس آیت کے ذریعہ مومنوں کو ضیافت کے
آداب بتائے جارہے ہیں کہ کھانے پر اس وقت جایا جائے جب تیار ہوجائے اور کھالینے کے
بعد بلاتاخیر گھر سے چلے جانا چاہئے تاکہ گھروالوں کو حرج محسوس نہ ہو۔
(12)مہمانوں کے ساتھ
بے تکلفی اور کھانے پینے میں احتیاط :
آپ مہمانوں کے ساتھ بے تکلفی برتتے اور
کھانے میں ان کے لئے کوئی احتیاط ہوتا تو آپ ان سے ضرور بیان کرتے:
عَنْ جَدِّهِ صُهَيْبٍ , قَالَ: قَدِمْتُ
عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبَيْنَ يَدَيْهِ خُبْزٌ
وَتَمْرٌ , فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" ادْنُ
فَكُلْ" , فَأَخَذْتُ آكُلُ مِنَ التَّمْرِ , فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى
اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" تَأْكُلُ تَمْرًا وَبِكَ رَمَدٌ؟" ,
قَالَ: فَقُلْتُ إِنِّي أَمْضُغُ مِنْ نَاحِيَةٍ أُخْرَى , فَتَبَسَّمَ رَسُولُ
اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.(ابن ماجہ:3443وصححہ البانی)
ترجمہ:صہیب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ کے سامنے روٹی اور کھجور
رکھی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قریب آؤ اور کھاؤ، میں کھجوریں
کھانے لگا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم کھجور کھا رہے ہو حالانکہ
تمہاری آنکھ آئی ہوئی ہے، میں نے عرض کیا:میں دوسری جانب سے چبا رہا ہوں تو رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرا دیے۔
نبی ﷺ کا اپنے
میزبانوں کے ساتھ سلوک:
(1)رسول اللہ ایک
متواضع مہمان ہوتےاور معمولی دعوت بھی قبول کرلیتے:
جب کبھی آپ ﷺ کسی کے
یہاں مہمان بنتے ، آپ نہایت تواضع کا ثبوت دیتے اور جو کچھ بھی پیش کیا جاتا خواہ
معمولی ہی چیز کیوں نہ ہو قبول فرمالیتے ۔ ابوہریرہ رضی اللہ
عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
لَوْ دُعِيتُ إلى ذِراعٍ أوْ كُراعٍ
لَأَجَبْتُ، ولو أُهْدِيَ إلَيَّ ذِراعٌ أوْ كُراعٌ لَقَبِلْتُ(صحيح البخاري:2568)
ترجمہ:اگر مجھے بازو اور پائے (کے گوشت) پر
بھی دعوت دی جائے تو میں قبول کر لوں گا اور مجھے بازو یا پائے (کے گوشت) کا تحفہ
بھیجا جائے تو اسے بھی قبول کر لوں گا۔
(2)میزبان ناراض نہ
ہوتو آپ اپنے ساتھ دوسرے کو بھی دعوت پہ لے جاتے:
کبھی کبھار آپ دعوت
کھانے کے لئے جاتے اور کوئی دوسرا مل جاتا اور یقین ہوتا کہ میزبان ناراض نہ ہوگاتواپنے
ساتھ لےلیتے۔ایک
مرتبہ رسول اللہ ﷺ ابوبکروعمر کو دیکھتے ہیں جو بھوکے ہوتے ہیں اور آپ خود بھی
بھوکے ہوتے ہیں ، نبی نے کہا ساتھ چلو، ایک انصاری کے گھر گئے مگر وہ اس وقت موجودنہیں
تھے، ان کی زوجہ تھیں، انہوں نے آپ کو خوش آمدید کہا پھر انصاری بھی آگئے اور آپ
لوگوں کو دیکھ کر خوشی سے کہتے ہیں :
الْحَمْدُ لِلَّهِ مَا أَحَدٌ الْيَوْمَ
أَكْرَمَ أَضْيَافًا مِنِّي(صحیح البخاری:2038) یعنی اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ آج
کے دن کسی کے پاس ایسے مہمان نہیں ہیں جیسے میرے پاس ہیں۔ پھرانہوں نے بکری کی
دعوت کی ۔
اسی لئے اس پر امام مسلم نے باب باندھاہے:(باب جَوَازِ اسْتِتْبَاعِهِ غَيْرَهُ
إِلَى دَارِ مَنْ يَثِقُ بِرِضَاهُ بِذَلِكَ وَيَتَحَقَّقُهُ تَحَقُّقًا تَامًّا
وَاسْتِحْبَابِ الاِجْتِمَاعِ عَلَى الطَّعَامِ)یعنی باب: اگر مہمان کو یقین ہو کہ
میزبان دوسرے کسی شخص کو ساتھ لے جانے سے ناراض نہ ہو گا تو ساتھ لے جا سکتا ہے۔
(3) غلام کی بھی دعوت
قبول کرلیتے:
ایک غلام جس کا پیشہ
درزی کا تھا اس نے رسول اللہ کی دعوت کی ، آپ نے اس کی دعوت قبول فرمائی، انس بن
مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک درزی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو
کھانے کی دعوت دی جو انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تیار کیا تھا۔
میں بھی آپ کے ساتھ گیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جَو کی روٹی اور
شوربہ پیش کیا گیا۔ جس میں کدو اور خشک گوشت کے ٹکڑے تھے۔ میں نے دیکھا کہ نبی
کریم صلی اللہ علیہ وسلم پیالے میں چاروں طرف کدو تلاش کر رہے تھے، اسی دن سے میں
بھی کدو پسند کرنے لگا۔(صحیح البخاری:5436)
(4)میزبان کے ساتھ بے
تکلفی :
صہیب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:
قَدِمْتُ علَى النَّبيِّ صلَّى اللَّهُ
عليهِ وسلَّمَ، وبينَ يديهِ خُبزٌ وتمرٌ، فقالَ النَّبيُّ صلَّى اللَّهُ عليهِ
وسلَّمَ: ادْنُ فَكُل فأخَذتُ آكُلُ مِنَ التَّمرِ، فقالَ النَّبيُّ صلَّى اللَّهُ
عليهِ وسلَّمَ تأكُلُ تمرًا وبِكَ رمَدٌ ؟ قالَ، فقُلتُ: إنِّي أمضُغُ من ناحيةٍ
أُخرى، فتبسَّمَ رسولُ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ(صحيح ابن ماجه:2793)
ترجمہ:میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی
خدمت میں حاضر ہوا، آپ کے سامنے روٹی اور کھجور رکھی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم
نے فرمایا: ”قریب آؤ اور کھاؤ“، میں کھجوریں کھانے لگا تو نبی اکرم صلی اللہ
علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم کھجور کھا رہے ہو حالانکہ تمہاری آنکھ آئی ہوئی ہے،
میں نے عرض کیا: میں دوسری جانب سے چبا رہا ہوں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
مسکرا دئے۔
(5)بسا اوقات اپنے
ساتھ دوسرے کی ضیافت کے لئے کہتے:
آپ ﷺ میزبانوں کے
ساتھ اس قدر بے تکلف ہوتے کہ بسا اوقات جب کوئی دعوت دینے آتا تو ساتھ میں دوسرے
کی دعوت کے لئے بھی اجازت لیتے ۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے ر وایت کی کہ نبی
کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک فارس سے تعلق رکھنے والا پڑوسی شوربا اچھا بناتا
تھا، اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے شوربا تیار کیا، پھرآکر آپ صلی
اللہ علیہ وسلم کو دعوت دی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی
طرف اشارہ کرکے فرمایا: ان کو بھی دعوت ہے؟اس نے کہا: نہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم
نے فرمایا: نہیں (مجھے بھی تمہاری دعوت قبول نہیں) وہ دوبارہ آپ صلی اللہ علیہ
وسلم کو بلانے آیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان کو بھی؟اس نے کہا:
نہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو نہیں۔وہ پھر دعوت دینے کے لئے
آیا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان کو بھی؟ توتیسری بار اس نے کہا:
ہاں۔پھر آپ دونوں ایک دوسرے کے پیچھے چل پڑے یہاں تک کہ اس کے گھر آگئے۔(صحیح
مسلم:2037)
(6)کھانے میں کبھی
عیب نہ نکالتے :
نبی ﷺ نے کہیں بھی کسی کے یہاں کھاتے ہوئے
کھانے میں عیب نہیں نکالا ، ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا:
ما عاب النبي صلى الله عليه وسلم طعاما قط
إن اشتهاه اكله وإن كرهه تركه".(صحیح البخاری:5409)
ترجمہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے
کبھی کسی کھانے میں کوئی عیب نہیں نکالا۔ اگر پسند ہوا تو کھا لیا اور اگر ناپسند
ہوا تو چھوڑ دیا۔
(7) تالیف قلب کے لئے
یہودی کی دعوت قبول کی :
ایک مرتبہ ایک یہودی
نے آپ کی دعوت کی تو آپ نے اس کی دعوت قبول کرلی ، حضرت انس رضی اللہ
عنہ سے مروی ہے:
أنَّ يَهودِيًّا دَعا النَّبيَّ صلَّى
اللهُ عليه وسلَّمَ إلى خُبْزِ الشَّعيرِ وإهالةٍ سَنِخةٍ، فأجابَه( أخرجه
أحمد:13201و صححه شعيب الأرناؤوط)
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو
ایک مرتبہ ایک یہودی نے جو کی روٹی اور پرانے روغن کی دعوت دی جو نبی صلی اللہ
علیہ وسلم نے قبول فرمالی۔
(8)دائیں جانب سے
شروع کرنے کا حکم دیتےخواہ اس جانب ادنی آدمی ہی کیوں نہ ہو:
نبی ﷺکسی کے گھر جاتے
اور کسی چیز کی حاجت ہوتی تو آپ طلب کرتے اور کھلانے پلانے میں دائیں جانب سے شروع
کرنے کا حکم دیتے خواہ دائیں جانب کوئی ادنی مرتبہ کا آدمی ہی کیوں نہ ہو۔ انس
رضی اللہ عنہ سےمروی ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ (ایک مرتبہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم ہمارے اسی گھر میں تشریف لائے اور پانی طلب فرمایا۔ ہمارے پاس ایک بکری تھی،
اسے ہم نے دوہا۔ پھر میں نے اسی کنویں کا پانی ملا کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی
خدمت میں (لسی بنا کر) پیش کیا، ابوبکر رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی
بائیں طرف بیٹھے ہوئے تھے اور عمر رضی اللہ عنہ سامنے تھے اور ایک دیہاتی آپ صلی
اللہ علیہ وسلم کے دائیں طرف تھا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم پی کر فارغ ہوئے تو
(پیالے میں کچھ دودھ بچ گیا تھا اس لیے) عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ یہ ابوبکر
رضی اللہ عنہ ہیں۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دیہاتی کو عطا فرمایا۔
(کیونکہ وہ دائیں طرف تھا) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، دائیں طرف بیٹھنے
والے، دائیں طرف بیٹھنے والے ہی حق رکھتے ہیں۔ پس خبردار دائیں طرف ہی سے شروع کیا
کرو۔ انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یہی سنت ہے، یہی سنت ہے، تین مرتبہ (آپ نے اس بات
کو دہرایا)۔(صحیح البخاری:2571)
(9)دعوت کھانے کے بعد
دعا دیتے :
آپ ﷺ کا یہ دستور
رہا ہے کہ جب بھی کہیں کسی کے یہاں کھانا نوش فرماتے تو آخر میں اہل خانہ کے لئے
دعائیہ کلمات کہتے ، اس سلسلے میں متعدد احادیث منقول ہیں ۔
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ
عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَارَ أَهْلَ بَيْتٍ مِنَ الْأَنْصَارِ فَطَعِمَ عِنْدَهُمْ
طَعَامًا، فَلَمَّا أَرَادَ أَنْ يَخْرُجَ أَمَرَ بِمَكَانٍ مِنَ الْبَيْتِ
فَنُضِحَ لَهُ عَلَى بِسَاطٍ فَصَلَّى عَلَيْهِ وَدَعَا لَهُمْ.(صحیح
البخاری:بخاری:6080)
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قبیلہ
انصار کے گھرانہ میں ملاقات کے لیے تشریف لے گئے اور انہیں کے یہاں کھانا کھایا،
جب آپ واپس تشریف لانے لگے تو آپ کے حکم سے ایک چٹائی پر پانی چھڑکا گیا اور نبی
کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر نماز پڑھی اور گھر والوں کے لیے دعا کی۔
اسی طرح انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی
اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کے پاس آئے تو وہ آپ کی خدمت
میں روٹی اور تیل لے کر آئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کھایا پھر آپ نے یہ دعا
پڑھی: «أفطر عندكم الصائمون وأكل طعامكم الأبرار وصلت عليكم الملائكة» ”تمہارے پاس
روزے دار افطار کیا کریں، نیک لوگ تمہارا کھانا کھائیں، اور فرشتے تمہارے لیے
دعائیں کریں۔“(ابوداؤد:3854 وصححہ البانی)
اسی طرح عبداللہ بن بسر جو بنی سلیم سے
تعلق رکھتے ہیں کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے والد کے پاس تشریف
لائے اور ان کے پاس قیام کیا تو انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کھانا
پیش کیا، پھر انہوں نے حیس کا ذکر کیا جسے وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے کر
آئے پھر وہ آپ کے پاس پانی لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیا پھر جو آپ کے
داہنے تھا اسے دیدیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھجوریں کھائیں اور ان کی گٹھلیاں
درمیانی اور شہادت والی انگلیوں کی پشت پر رکھ کر پھینکنے لگے، جب آپ صلی اللہ
علیہ وسلم کھڑے ہوئے تو میرے والد بھی کھڑے ہوئے اور انہوں نے آپ کی سواری کی لگام
پکڑ کر عرض کیا: میرے لیے اللہ سے دعا کر دیجئیے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے
فرمایا: «اللهم بارك لهم فيما رزقتهم واغفر لهم وارحمهم» ”اے اللہ جو روزی تو نے
انہیں دی ہے اس میں برکت عطا فرما، انہیں بخش دے، اور ان پر رحم
فرما“۔(ابوداؤد:3729 وصححہ البانی)
(10) اپنے ساتھیوں کی
بھی ضیافت کراتےاور خود بھی خدمت کرتے:
کبھی کوئی دعوت کرتا
ہے اور آپ کے ساتھ کئی اصحاب ہوتے تو ان لوگوں کی ضیافت کے لئے بھی سبیل پیدا
فرماتے جیسےغزوہ خندق کے موقع پر جابر رضی
اللہ عنہ نے رسول اللہ کو دعوت دینی چاہی اور کہا کہ کھانا کم ہے ، اپنے ساتھ ایک
دو آدمی کو لے چلیں ، آپ نے کھانے کی کیفیت دریافت فرمائی اور ان سے کہا کہ اپنی
بیوی سے کہوچولہے سے ہانڈی نہ اتارے اور روٹی پکائے پھر آپ اپنے تمام ساتھی یعنی
انصار ومہاجرین کے ساتھ ان کے گھر پہنچے ، بیوی نے اس ازدہام کو دیکھ کر جابر سے
کہا کہ اب کیا ہوگا ؟اور ہمارے رسول پاک خود سے روٹی کا چوراکرکے گوشت پر ڈالتے گئے
حتی کہ سارے لوگوں نے شکم سیرہوکر کھانا کھالیابلکہ اور کھانا بچ بھی گیا۔(تفصیل
کے لئے دیکھیں : صحیح البخاری:4101)
میں نے اختصار سے اس
موضوع کو بیان کرنے کی کوشش کی تاہم اس قدر وضاحت ضرور کردی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا
اپنے مہمانوں اور میزبانوں کے ساتھ برتاؤ کا علم بخوبی ہوجائے ، اللہ سے دعا کرتا
ہوں کہ وہ ہمیں بھی رسول اللہ ﷺ کے اس اسوہ مبارک پر صحیح سے عمل کرنے کی توفیق
بخشے۔آمین
مکمل تحریر >>