Wednesday, February 6, 2019

کیا نبی ﷺ نے نبوت کے بعد اپنا عقیقہ کیا تھا؟


کیا نبی ﷺ نے نبوت کے بعد اپنا عقیقہ کیا تھا؟



مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹر، شمالی طائف (مسرہ) سعودی عرب

اس مختصر مضمون میں جاننے کی کوشش کریں گے کہ نبی ﷺ نے اپنا عقیقہ کیا یا نہیں ؟ چنانچہ السنن الکبری للبیہقی کی روایت سند ومتن کے ساتھ پیش ہے ۔
أَخْبَرَنَا أَبُو الْحَسَنِ مُحَمَّدُ بْنُ الْحُسَيْنِ بْنِ دَاوُدَ الْعَلَوِيُّ رَحِمَهُ اللَّهُ ، أنبا حَاجِبُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ سُفْيَانَ الطُّوسِيُّ ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ حَمَّادٍ الأَبْيُورْدِيُّ ، ثنا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أنبا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَرَّرٍ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ،أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَقَّ عَنْ نَفْسِهِ بَعْدَ النُّبُوَّةِ ( السنن الكبرى» كتاب الضحايا»جماع أبواب العقيقة» باب العقيقة سنة، رقم:18678)
ترجمہ: انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے اپنا عقیقہ نبوت کے بعد کیا ۔
بیہقی کی اس روایت پر بہت سارے محدثین نے ضعف کا حکم لگا ہے کیونکہ اس میں ایک راوی عبداللہ بن محرر کے ضعف پہ سب کا اتفاق ہے ۔ بیہقی ، نسائی، ابن ابی حاتم رازی(ایک قول)، ابن حجر، دارقطنی(ایک قول)، علی بن جنید رازی، عمر وبن علی فلاس نے متروک الحدیث کہا ہے۔ ابوزرعہ رازی اور ابن ابی حاتم زاری(دوسرا قول) نے ضعیف الحدیث کہا ہے۔ امام بخاری، ابن ابی حاتم رازی(تیسرا قول) اور ہلال بن علاء رقی نے منکر الحدیث کہا ہے ۔ ابونعیم اصبہانی، دارقطنی(دوسرا قول)،محمد بن سعد کاتب الواقدی ، یحی بن معین اور یعقوب بن سفیان الفسوی نے ضعیف کہا ہے ۔
اب چند اہل علم کے حکم بیان کردینا یہاں کافی ہوگاکیونکہ راوی کے ضعف کی طرف اشارہ کردیا گیا ہے۔
٭ بیہقی نے کہا یہ حدیث منکر ہے اور وہ عبدالرزاق کے طریق سے بیان کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ یہ حدیث دوسرے طریق سے بھی مروی ہے قتادہ کے طریق سے اور انس کے طریق سے ۔ ان تمام طرق سے یہ روایت باطل ہے ۔
٭ امام نووی نے بیہقی کی روایت عن عبد الله بن محرر بالحاء المهملة والراء المكررة عن قتادة عن أنس والی روایت کو باطل قرار دیا ہے ۔(المجموع:8/431)
* امام احمد نے بیہقی کی روایت عبد الله بن محرر عن أنس والی روایت کو منکر قرار دیا ہے۔
٭ ابن العراقی کہتے ہیں کہ اس کی سند میں عبداللہ بن محرر ہے جس کے متعلق امام نووی نے کہا کہ اس کے ضعیف پہ اہل علم کا اتفاق ہے ۔ (طرح التثريب:5/209)
٭ حافظ ابن حجر نے اس روایت پہ کلام کرتے ہوئے لکھا ہے کہ بزار نے کہا کہ اس میں عبداللہ منفرد ہے اور وہ ضعیف ہے ۔ (فتح الباری)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے کہ ابوالشیخ نے اس روایت کو مزید دو سندوں سے ذکر کیا ہے ۔
پہلی سند اسماعیل بن مسلم عن قتادہ سے مروی ہے اور اسماعیل ضعیف ہے ۔
دوسری سند أبي بكر المستملي عن الهيثم بن جميل وداود بن محبر قالا حدثنا عبد الله بن المثنى عن ثمامة عن أنس ہے ۔ اس سند میں داؤد ضعیف ہے مگر ان کے ساتھ اسی طبقہ میں ہیثم بن جمیل ثقہ ہیں اور عبداللہ بن مثنی سے امام بخاری نے استدلال کیا ہے ۔ اس وجہ سے اس سند سے یہ روایت صحیح ہے، اس روایت کے الفاظ اس طرح ہیں ۔
أنَّ النبيَّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم عقَّ عنِ نفسِهِ بعدَ ما بُعِثَ نبيًّا.
ترجمہ: نبی ﷺ نے بعثت کے بعد اپنی طرف سے عقیقہ کیا ۔
ہیثمی نے کہا کہ اس کے رجال صحیح کے رجال ہیں سوائے ہیثم بن جمیل کے کہ وہ ثقہ ہیں یعنی ہیثمی کی نظر میں یہ سند بالکل صحیح ہے ، اس میں کوئی ضعیف راوی نہیں ہے ۔
شیخ البانی رحمہ اللہ  نے عقیقہ والی روایت پہ سلسلہ صحیحہ میں طویل بحث کی ہے ، اس کا خلاصہ وہی ہے جو اوپر پیش کیا گیا ہے کہ عبداللہ بن محرر کے طریق سے آنے والی روایت ضعیف ہے تاہم ہیثم بن جمیل کے طریق سے آنے والی روایت قوی الاسناد ہے اور شیخ نے اس سند کو حسن کا درجہ دیا ہے ۔ (السلسلة الصحيحة: 2726)
خلاصہ کلام یہ ہوا کہ یہ بات نبی ﷺ سے ثابت ہے کہ آپ ﷺ نے بنوت کے بعد اپنا عقیقہ خود کیا تھا۔ اس حدیث کی بنیاد پر ہم یہ مسئلہ استنباط کر سکتے ہیں کہ بڑی عمر میں بھی عقیقہ دیا جاسکتا ہے یعنی ساتویں دن  جس کا عقیقہ نہ ہوسکے،بعد میں جب سہولت ہو  اس کی طرف سے عقیقہ دیا جا سکتا ہے ۔ اسی طرح یہ مسئلہ بھی مستنبط ہوتا ہے کہ آدمی اپنی جانب سے خود بھی عقیقہ کرسکتا ہے یعنی اگر کسی کی جانب سے اس کے والد یا سرپرست نے عقیقہ نہ کیا ہو تو وہ خود ہی اپنی جانب سے عقیقہ کرسکتا ہے ۔
یہاں دو اشکال کا جواب بھی جان لینا ضروری ہے ۔
پہلا اشکال :اس حدیث سے بعض لوگ میلاد النبی منانے کی دلیل پکڑتے ہیں جبکہ یہ حدیث عقیقہ سے متعلق ہے ، میلاد اور عقیقہ میں زمین وآسمان کا فرق ہے ۔ یہ حدیث ہرگز میلاد کی دلیل نہیں بن سکتی ہے۔ عقیقہ میں مولود کی جانب سےجانور ذبح کیا جاتا ہے جبکہ میلادالنبی میں شرکیہ اور بدعیہ اعمال انجام دئے جاتے ہیں ۔
دوسرا اشکال : بعض اہل علم نے نبی ﷺ کے اس عمل کو آپ کے ساتھ خاص مانا ہے جبکہ ہمیں معلوم ہے کہ خصوصیت کی دلیل چاہئے اور نبوت کے بعد آپ ﷺ کا عقیقہ کرنا آپ کے ساتھ خاص ہونے کی کوئی دلیل نہیں ہے ۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔