Wednesday, March 7, 2018

سسر کا اپنی بہو کے ساتھ زنا کرنے سے نکاح کا حکم

سسر کا اپنی بہو کے ساتھ زنا کرنے سے نکاح کا حکم

مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹرشمالی طائف(مسرہ)

فقہ حنفی کی شرع مخالف تعلیمات نے ملت اسلامیہ اور اس کے افراد کو بہت نقصان پہنچایا ہے ۔ امت کا اختلاف وانتشار ، آپسی تنازع، ایک دوسرے کی تکفیروتذلیل اور مسلمانوں کے درمیان فساد اسی نقصان کاپیش خیمہ ہے ۔ آج بھی مسلمان ایک ہوسکتے ہیں ، ہماری بکھری ہوئی طاقت یکجا ہوسکتی ہے ، عظمت رفتہ پھر سے بحال ہوسکتی ہے اور چہار دانگ عالم میں اسلام اور مسلمانوں کا بول بالا ہوسکتا ہے اس شرط کے ساتھ کہ امت کو خالص کتاب وسنت کی تعلیم دی جائے، علماء کے اقوال اور ائمہ کے اجتہادات کو نصوص شرعیہ پر ترجیح نہ دی جائے اور عقائدواعمال صرف اور صرف اللہ اور اس کے رسول کے فرامین سے لئے جائیں ۔
فقہ حنفی کے شرع مخالف مسائل میں ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ اگر سسر شہوت سے بہو کو چھو لے یا اس سے زنا کرلے تو بہو اپنے شوہر پر حرام ہوجاتی ہے ۔
سسر اور بہو یا داماد اور ساس کا رشتہ برصغیر میں بہت ہی مقدس مانا جاتاہے ، اسی تقدس کے تئیں ساس وسسر کو ابو امی کہہ کر لوگ پکارتے ہیں ۔ اپنے ذہن میں ایک طرف یہ تقدس رکھیں اور دوسری طرف یہ دیکھیں کہ ہمارے یہاں عموما فیملیاں مشترکہ طور پر رہتی ہیں ، اور آج کے پرفتن دور میں مشترکہ فیملی کے برے اثرات کسی کے ڈھکے چھپے نہیں ہیں ۔ساس، سسربہوئیں، بیٹے، نندیں، جیٹھ، دیورسب ایک ساتھ ایک جگہ رہتے سہتے ہیں جبکہ ایسا نہیں ہونا چاہئے تھا۔ مشترکہ خاندانی نظام بہت سارے جرائم ومعاصی کا سبب ہے اس وجہ سے شادی کے بعد والدین کو چاہئے کہ اپنے بچوں کو الگ الگ کردے ۔ یہاں ایک بات یہ بھی جان لی جائے کہ سسر اپنی بہو کے لئے محرمات میں سے ہے اس لئے بہو اپنے سسر کے سامنے چہرہ کھول سکتی ہے ، خلوت(خلوت) کرسکتی ہے حتی کے اس کے ساتھ مصافحہ کرنا اورسفر کرنا بھی جائز ہے ۔
مذکورہ بنیادی باتوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے ذرا یہ خیال کریں کہ اگر سسر اپنی بہو کے ساتھ بدفعلی کرتا ہے تو وہ کس درجے کا مسلمان رہ جاتا ہوگا؟
زنا ایک سنگین جرم اور گھناؤنا عمل ہے ، اس سے ایمان کا جنازہ نکل جاتا ہے اور زناکار ایمان سے محروم ہوکر قہر الہی کا مستحق ہوجاتا ہے قہر الہی کے ساتھ دنیا میں بھی اس کی عبرت ناک سزا ہے جسے دیکھ کر پھر کسی میں احساس زنا باقی نہیں رہ سکے گا ۔ اے کاش ! دنیا میں زنا کی بابت شرعی قانون نافذ ہوجائے تو سماج وسوسائٹی کی سب سے بڑی گندگی دور ہوجائے۔ سماج سے اگر یہ گندگی دور ہوجائے تو بہت ساری سماجی خرابیاں آپ خود دور ہوجائیں۔
اسلام میں زنا کے متعلق یہی پتہ چلتا ہے کہ اس کا گناہ اور اثراس کے سر ہے جس نے اس کا ارتکاب کیا ہے ۔ اگر سسر نے زبردستی اپنی بہو کے ساتھ زنا کیا ہے تو اس کا مکمل گناہ ووبال سسر کے سر ہے ۔ اللہ کا فرمان ہے :
وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى(فاطر:18)
ترجمہ: کوئی جان کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گی۔
قرآن کا یہ اصول ہرقسم کے گناہ کے سلسلے میں ہے خواہ قتل کا معاملہ ہو یا زنا کا اور زنا سسر وبہو کے درمیان ہو یا ان کے علاوہ کے درمیان ۔ یہی اصول دنیاوی علالتوں اور سماجی معاملوں میں بھی برتے جاتے ہیں کہ جس کی غلطی اسی کو سزا ۔ ایسا نہیں ہے کہ قاتل ابن زیاد ہو اور مجرم یزید ٹھہرے ۔
اور اگر زنا میں سسر کے ساتھ بہو کی بھی رضامندی تھی تو سسروبہو دونوں گنہگار ہیں اور دونوں رجم کے قابل ہیں لیکن اس کی سزا شوہر کو نہیں ملے گی وہ اس معاملے میں معصوم ہے۔
اب مسئلہ یہ ہے کہ اگر کوئی سسر جبرا یا بہو کی رضامندی سے زنا کا ارتکاب کر لیتا ہے تو اس سے وہ عورت اپنے شوہر پر حرام نہیں ہوگی کیونکہ حرام کا ارتکاب کرنے سے کوئی حلال کام حرام نہیں ہوجائے گا۔ ایک حدیث میں وارد ہے کہ حرام کام کسی حلال کو حرام نہیں کرسکتا (ابن ماجہ: 2015) گوکہ اس حدیث کو شیخ البانی نے ضعیف کہا ہے مگر کئی آثار سے یہ بات منقول ہے ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی صحیح اثر میں مذکور ہے :
عنِ ابنِ عباسٍ أنَّ وطءَ الحرامِ لا يُحرِّمُ۔
ترجمہ: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حرام وطی (مباشرت) سے (کوئی حلال چیز) حرام نہیں ہوجاتی ۔
اس اثر کو شیخ البانی نے صحیح کہا ہے۔ (إرواء الغليل:1881)
یہی مسلک حق ہے اور اسی کے قائل مالکیہ وشافعیہ ہیں لیکن احناف اور شوافع کے یہاں زنا سے حرمت ثابت ہوجاتی ہے ۔ ان کا استدلال ہے کہ جس طرح ربیبہ (بیوی کے پہلے خاوند کی لڑکی) سے نکاح اس وقت حرام ہوجاتا ہے جب مرد اس کی ماں سے جماع کرلے یعنی یہاں وطی سے حرمت ثابت ہورہی ہےٹھیک اسی طرح زنا سے جو لڑکی پیدا ہو وہ بھی اس زانی پر حرام ہے کیونکہ یہ بھی بیٹی کے حکم میں ہے اور بیٹی سے نکاح حرام ہے۔
اللہ کا فرمان ہے :
وَرَبَائِبُكُمُ اللَّاتِي فِي حُجُورِكُمْ مِنْ نِسَائِكُمُ اللَّاتِي دَخَلْتُمْ بِهِنَّ فَإِنْ لَمْ تَكُونُوا دَخَلْتُمْ بِهِنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ(النساء:23).
ترجمہ: اور تمہاری وہ پرورش کردہ لڑکیاں جو تمہاری گود میں ہیں ،تمہاری ان عورتوں سے جن سے تم دخول کرچکے ہو ،ہاں اگر تم نے ان سے جماع نہ کیا ہو تو تم پر کوئی گناہ نہیں ۔
یہ استدلال بالکل صحیح نہیں ہے کیونکہ یہاں نکاح کا ذکرہے ،اللہ کا فرمان ہے:ولاتنکحوا مانکح آباؤکم من النساء الا ما قد سلف یعنی تم ان عورتوں سے نکاح نہ کرو جن سے تمارے باپوں نے نکاح کیا ہےمگر جو گزرچکا۔
اور نکاح کو زنا پر کیسے قیاس کیا جائے گا؟ اگر کوئی رشتہ نکاح کی وجہ سے حرام ہورہاہے تو زنا کرنے سے کوئی رشتہ کیسے حرام ہوجائے گا؟ دونوں دو الگ الگ چیزیں ہیں ۔ نکاح سے بعض رشتے کی حرمت کا ثبوت موجود ہے جبکہ زنا سے رشتے کی حرمت کا کوئی ثبوت نہیں ہے ۔
احناف کا یہ فتوی جہاں خلاف شریعت ہے وہیں اس فتوی پر سختی قابل مذمت اور حددرجہ افسوس ناک ہے ۔ اگر کسی کے یہاں سسر وبہو کے زنا کا واقعہ رونما ہوجائے تو سماج والے زبردستی میاں بیو ی میں تفریق کردیتے ہیں ۔ جس طرح سختی سے طلاق ثلاثہ کے مسئلہ میں عورتوں کا جبرا حلالہ بلفظ دیگر زنا کروایا جاتا ہے اسی طرح سختی سے اس معاملہ میں بھی بے قصور شوہر کو بیوی سے الگ کردیا جاتا ہے۔
اس بات پر مجھے جس قدر حیرت ہے اس سے کہیں زیادہ اس بات پر حیرانی ہے کہ جب احناف کو اپنے فتوی کا اتنا ہی پاس ولحاظ ہے تو پھر جو چیز شرعا ثابت ہے اور جسے احناف بھی مانتے ہیں کہ شادی شدہ زانی کو سنگسار کیا جائے گا تو پھر اس معاملے میں خاموشی کیوں ،اسے کیوں نافذ نہیں کرتے؟ ۔ خودساختہ فتوی پر اس قدر سختی اور ثابت شدہ مسئلہ میں اس قدر غفلت ؟  شتان بین یزیدین
جس طرح زنا کی بابت سسر وبہو کا مسئلہ فقہ حنفی میں درج ہے اسی طرح ساس وداماد کا بھی مسئلہ ہے ۔داماد نے اپنی ساس سے زنا کیا تو اپنی بیوی حرام ہوگئی ۔ یہ مسئلہ بالکل خلاف شریعت ہے اس لئے عوام سے میری درخواست ہے کہ آج کے علمی اور ترقی یافتہ دورمیں اندھے بہرے ہوکر کسی فتوی پر عمل نہ کریں ۔ پہلے صاحب علم وبصیرت سے مسئلہ کو دلائل کی روشنی میں جانیں پھر عمل کریں ۔ آج علم کا حصول اورمسئلے کی دریافت پہلے سے کہیں زیادہ آسان ہے، اکثر مراجع ومصادراور دین کی اہم کتابیں انٹرنیٹ پر موجود ہیں ، بڑے سے بڑے علماء سے رابطہ آسان ہے خواہ وہ دنیا کے کسی کونے میں ہوں پھر صحیح بات کی جانکاری کے لئے سستی کیوں ؟ یہ تو دین و شریعت کا معاملہ ہے نہ دنیا کا ۔ آپ دین پر اس لئے عمل کرتے ہیں کہ اللہ آپ سے راضی ہو اور اس کے بدلےآخرت میں اس کی توفیق سے جنت ملے، نہ کہ اس لئے کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ یا دنیا کا کوئی عالم  و مفتی آپ سے خوش ہو۔ہرکس وناکس کو میرا یہ پیغام ہے کہ صحیح دین کو پہچانیں ، سنت کے مطابق عمل کریں اور ہرعمل میں اللہ کی رضا تلاش کریں ۔ ایک مسلمان کی زندگی کا یہی مطلوب ومقصود ہونا چاہئے۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔