تقریر و تحریر میں آیت و حدیث کا نمبر بتانا
مقبول احمد سلفی
جدہ دعوہ سنٹر، حی السلامہ
قرآن و حدیث دین کے ماخذ اور اس کی دلیل ہیں ۔ ہمیں کسی بھی
مسئلہ میں دینی رہنمائی چاہئے تو انہی دو کتابوں میں دلیل تلاش کرنی ہے یا اس بات
کو یوں کہیں کہ جب ہم قرآن یا حدیث کی روشنی میں کوئی مسئلہ بیان کرتے ہیں تو آیت
اور حدیث ذکر کرتے ہیں ۔
کسی مسئلہ میں حوالہ کے طور پر آیت اور حدیث ذکر کردینا ہی
کافی ہے ، عہد صحابہ میں دینی مسئلہ اسی طرح بیان کیا جاتا تھا کہ قرآن میں اللہ
نے یہ فرمایا اور حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے یہ فرمایا۔ جیسے جیسے زمانہ گزرتا گیا،
دین میں نئی نئی چیزیں داخل ہوتی گئیں بلکہ یہ کہہ لیں جس قدر اسلام کے نام پر
گمراہ فرقے بنتے گئے ان کے ذریعہ دین کے نام پر نئی نئی باتیں پھیل گئیں۔ ایک عام
آدمی کےلئےصحیح اور غلط میں فرق کرنا دشوار ہوگیا۔
قرآن کی حفاظت اللہ نے لے رکھی ہے ، اس وجہ سے الحمد للہ
قرآن مکمل محفوظ رہا لیکن حدیث کچھ مدون اور کچھ بکھری پڑی تھیں ، یہی وجہ ہے کہ مکرکرنے
والے جھوٹی جھوٹی باتیں گھڑ گھڑ اسلام کی طرف منسوب کرنے لگے ، ایسے میں اللہ
تعالی نے نیک لوگوں کو حدیث کی تدوین کی توفیق دی اور اس طرح احادیث بھی مدون
ہوگئیں تاہم امام بخاری وامام مسلم کے علاوہ اکثر محدثین نےتدوین حدیث میں صحت وضعف کا اس طرح التزام نہیں کیا بلکہ حدیث کے نام سے
موسوم کلام کو اپنی اپنی کتابوں میں جمع کردیا یہی وجہ ہے کہ صحیح بخاری اور صحیح
مسلم کے علاوہ تمام کتب احادیث میں صحیح وضعیف دونوں قسم کی احادیث پائی جاتی ہیں۔
اس کے پیچھے بھی ان محدثین کی نیک نیتی ہی تھی مگر اہل بدعت وتصوف اورگمراہ لوگوں
نے ان کتابوں میں موجود ضعیف احادیث کو اپنے فائدے کے لئے استعمال کیا۔ محدثین نے
اللہ کی توفیق سے ان کتب کی احادیث کی صحت و ضعف کو بھی بیان کردیا ہے مگر خواہش
پرست لوگ قیامت تک ضعیف و موضوع احادیث سناسناکرسادہ لوح عوام کو گمراہ کرتے رہیں گے اور بتاتے رہیں گے
دیکھو، یہ بات حدیث میں آئی ہے۔
دین اسلام کے صاف شفاف چہرے کو داغدار کرنے والے جھوٹے
مسلمانوں نے جہاں ضعیف وموضوع احادیث کا سہارا لیا وہیں قرآنی آیات کی من مانی
تفسیر وتشریح کی ، صحیح احادیث کا غلط مفہوم بیان کیاچنانچہ اس طرح بھی عوام کو
گمراہ کیا گیا اور گمراہ کیا جارہا ہے ۔
جو علمائے حق ہیں وہ صوفیوں ، بدعتیوں ، گمراہوں اور باطل
پرستوں کی فریب کاریوں سے بالکل واقف ہیں اور احقاق حق اور ابطال باطل کے لئے
ہمیشہ سے کوشاں رہے ہیں لیکن اہل باطل کی کوششوں کے مقابلے میں اہل حق کی کوشش کم
ہونے کے سبب عوام کی اکثریت گمراہی کا شکار ہے۔
ایسے حالات میں جب امت کو جھوٹی دلیل دے کریا سچی دلیل کا
غلط معنی بتاکر گمراہ کیا جاتا ہو ہمارے لئے بہتر ہے کہ قرآن وحدیث کے نصوص کا
حوالہ بھی پیش کریں۔ اور ایسا نہیں ہے کہ حوالہ پیش کرنا کوئی غلط بات ہےیا کسی
ڈاکٹر وانجینئر کی تقلید ہے بلکہ جب سے کتابیں مدون ہوئیں تب سے حوالہ ذکر کئے
جاتے ہیں تاکہ اصل مرجع سے حوالہ کو ملایا جاسکے ۔
اب رہا مسئلہ قرآن کی آیت نمبر اور حدیث نمبر کا تو میں نے
بتلایا کہ یہ اسلاف سے ہی روایت چلی آرہی ہے تاہم اس وقت حوالہ میں آسانی پیدا
ہوگئی ہے۔
نبی ﷺ کا ایک فرمان جو صحیح بخاری میں ہے اور ظاہر سی بات
ہے کہ اس وقت جو بھی عالم تقریر کرے یا تحریر لکھے، صحیح بخاری کی حدیث ذکر کرتے
وقت صحیح بخاری کا حوالہ ضرور ذکر کریں گے ۔ مذکورہ کتاب میں نبی ﷺ کا فرمان ہے: "ام القرآن هي السبع
المثاني والقرآن العظيم"(صحیح البخاری:4704)
ترجمہ:ام
القرآن (یعنی سورۃ فاتحہ) ہی سبع مثانی اور قرآن عظیم ہے۔
اس
حدیث میں نبی ﷺ نے سورہ فاتحہ کو سبع مثانی کہاہے یعنی سورہ فاتحہ سات آیتوں والی سورت ہے، نبی ﷺ کا آیات کی تعداد بیان کرنا اس بات کی طرف
اشارہ ہے کہ آپﷺ بھی آیات شمار کرتے تھے۔ جب اسی طرح کوئی مقرر آیت پیش کرکے نمبر
بتاتا ہے تاکہ لوگوں کے لئے مصدرتک جلد پہنچنا آسان رہے، اس میں کوئی حرج نہیں
بلکہ مفیدسے مفید تر ہے ۔
ماخذ کی تدوین کے
بعد کتب ومقالات اور فتاوی میں حدیث کا مکمل حوالہ ہمیں ملتا ہےیعنی نام
کتاب، جلد نمبرپھرکس کتاب اور کس باب میں ہے ، احادیث کی تخریج میں بھی یہی اہتمام
کیاجاتا ہے۔ اب چونکہ احادیث پہ رقم درج کردیا گیا ہے جوکہ پہلے نہیں تھا تو حوالہ
میں کتاب اور باب ذکر کرنے کے بجائے نمبر بتا دینا کافی ہوجاتا ہے ، گویا حدیث کی
کتاب وباب بتانے کا مقصد بھی وہی تھا جو اس وقت حدیث نمبر بتانے کا ۔
ایک حافظ قرآن کو بھی بسا اوقات ایک آیت تلاش کرنے میں وقت
لگ جاتا ہے اور ایک عالم کو بھی آیت اور حدیث تلاش کرنے میں محنت لگتی ہے پھر عوام کے لئے یہ کام کس قدر
دشوار ہوگا اندازہ لگاسکتے ہیں ۔
اس لئے میں سمجھتا ہوں اس وقت قرآن کی آیت اور حدیث کا نمبر
فراہم کرنے میں جہاں اہل علم کے لئے آسانی ہےوہاں عوام کے لئے بھی بیحد آسانی ہے ۔
اس آسانی کا فائدہ یہ ہے کہ ایک عام آدمی بھی بآسانی نمبر کے ذریعہ قرآن میں اور حدیث میں اصل دلیل دیکھ کر اطمینان قلب کرسکتا ہے ،
بلکہ بہت سے بھٹکے ہوئے لوگوں کی سیدھی رہنمائی کا سبب بن سکتا ہے اور واقعتا یہ
سبب بن بھی رہاہے، مجھے اس کا تجربہ اور مشاہدہ ہے۔ اگر پرانے حوالہ کی طرح حدیث
بتائی جائے یعنی نام کتاب، جلد نمبر، کتاب اور باب تو عام آدمی کے لئے دشوار حوالہ
ہے جبکہ نمبر کے ذریعہ بتایا گیا حوالہ سب کے لئے یکسان مفید وآسان ہے ، اسی غرض
سے نمبر بھی دیا گیا ہےجبکہ یہ نمبر پہلے نہیں تھا۔
ان سارے حقائق کی روشنی میں ایک پڑھا لکھا آدمی تقریر میں
آیت نمبر اور حدیث نمبر بتانے کا مذاق اڑائے تو
اس کا مطلب ہےیا تو وہ عوام کی پہنچ سے دوراور ان کی ضرورت سے ناواقف ہے یا
کسی کے کام سے حسد ہے۔
بہرحال قرآن کی آیات اور احادیث پر نمبرڈالنے کا کام علماء
نے ہی کیا ہےاور امت کی بہتری و فائدے کے لئے کیا ہے، یہ کسی ڈاکٹراورانجینئر کا
کام نہیں ہےاس لئے جو تقریرمیں آیت وحدیث نمبر بیان کرنے کو کسی ڈاکٹر کی تقلید کہتے
ہیں ان کو اپنی معلومات واسلوب درست کرنا چاہئے ۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔
اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔