بنت حوا کے مسائل اور ان کا شرعی حل (قسط-28)
جواب از شیخ مقبول احمد سلفی
جدہ دعوہ سنٹر، حی السلامہ –سعودی عرب
سوال(1): کیا ہاتھ سے یا مشین سے کفن کے کپڑے میں سلائی کر سکتے ہیں مثلا عورت کے
لیے پاجامہ سلائی کرنا اور لپیٹنے والی چادروں کو سلائی کردینا ؟
جواب: رسول اللہ ﷺ سےسادہ کپڑے کے ٹکڑے میں کفن
دینا ثابت ہے،آپ نےکفن کو نہ سلا ہے اور نہ سلنے کا حکم دیا ہے اس لئے ہمیں بھی
کفن کو سلنا نہیں ہے، کفن کے سادہ ٹکڑے میں ہی میت کو لپیٹ کر دفن کرنا ہے چاہے
عورت ہو یا مرد ۔ ویسے میت کے لئے سلائی کی ضرورت بھی معلوم نہیں ہوتی ، اسے تو
قبر میں ڈال کر اس پر مٹی ڈال دی جاتی ہے، اگر سلائی کی کوئی ضرورت معلوم ہوتی تو
اس بارے میں شریعت خود ہماری رہنمائی کرتی۔ہاں اگر کہیں کفن میسر نہ ہو تو ایسی
صورت میں لباس میں بھی کفن دے سکتے ہیں مگر الگ سے لباس کی طرح سل کر کفن تیار
نہیں کرنا ہے، رسول اللہ ﷺ نے اپنی بیٹی زینت رضی اللہ عنہا کی وفات پر برکت کی
نیت سے اپنا ازاردیا تھااور فرمایااسے جسم سے متصل کفن میں سب سے نیچے رکھو۔(ابن
ماجہ:1458)
سوال(2): جمعہ کو ایک ساعت ہو تی ہے جس میں
دعائیں قبول ہو تی ہیں ، گھریلو مصروفیت کی وجہ سے جیسے عورت عموما مصروف رہتی ہے
اگر دعا مانگنے کا ٹائم نہ پا سکے تو کیا نیت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اس کی دعائیں
بغیر مانگے بھی قبول کر تا ہے؟
جواب: دعا کے لئے الگ سے وقت نکالنے کی ضرورت
نہیں ہے ، کام کاج کرتے ہوئے دل سے دعا مانگ سکتے ہیں ، اس لئے ایسا عمل جو انجام
دیا جاسکتا ہے اس کی محض نیت پر اجر نہیں ملے گا بلکہ انجام دینے پر ملے گااور دعا
بھی مانگنے والی عبادت ہے، جب دعا مانگی نہیں گئی تو پھر کون سی دعا قبول کی جائے
گی لہذا عورت کو چاہئے کہ دعا کے لئے یا تو خود کو افضل وقت میں متفرغ کرے یا کام
کرتے ہوئے ہی دعا کا التزام کرے ۔
سوال(3): ہمارے سندھی لوگ زمین کو ماں کہتے ہیں
یعنی مٹی ماں کیا یہ صحیح ہے؟
جواب: ہندؤں کے یہاں زمین کی عبادت کی جاتی ہے
اس وجہ سے وہ لوگ زمین کودھرتی ماتا کہتے ہیں، اس سے ان کی مراد زمین ان لوگوں کا
معبود ہے۔میں سمجھنا ہوں ، سندھی لوگ اس عقیدہ کے حساب سے زمین کو ماں نہیں کہتے
ہوں گے بلکہ عرفا ایک لفظ مشہورہوگیا جس سے مراد پیدائش کی جگہ ہے جیسے مادری زبان
کی طرح مادری زمین کہی جاتی ہے ۔ ایسی صورت میں اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔تاہم
دھرتی ماں کا ایک ہندوانہ تصور پایا جاتا اس کی مشابہت سے بچنے کے لئے مٹی ماں
کہنے سے بچا جائے تو بہتر
ہے ۔ کسی کا سوال ہو کہ تمہاری مادری زمین کیا ہے تو ہم کہہ سکتے ہیں فلاں جگہ ،
اس میں کوئی حرج نہیں ہے جس کا اوپر ذکر کیا ہوں۔
سوال(4):مرد تو مسجد میں نماز پڑھتے ہیں لیکن
عورتیں گھر میں نماز پڑھتی ہیں اس وجہ سے کبھی غلطی سے دوسری نماز پڑھ لیتی ہیں
جیسے مجھے عصر کی نماز پڑھنی تھی غلطی سے مغرب کی نماز پڑھ لی ، ایسے میں کیا گناہ
ہوگا اور عصر کی نماز دوبارہ پڑھنی ہوگی؟
جواب: وہ وقت کون سا تھا جس وقت آپ نے مغرب کی
نماز پڑھی تھی؟ عصر کا ہی وقت تھا یا مغرب کا وقت ؟ اگر مغرب کا وقت تھا اور مغرب
کی نیت سے نمازپڑھی گئی تو یہ پڑھی گئی نماز مغرب کی ہوجائے گی اور عصر الگ سے پڑھ
لیں گے ۔ لیکن اگر عصر کا وقت تھا اور عصر کی جگہ غلطی سے مغرب کی نیت سے مغرب کی
طرح نماز پڑھ لی گئی تو گناہ نہیں ہوگا مگر عصر کی نماز دوبارہ پڑھنی ہوگی کیونکہ
نماز میں نیت اور وقت دونوں کا اعتبار کیا جائے گا یعنی جس نماز کا جو وقت ہو وہی
نماز اس وقت پر اس نماز کی نیت سے پڑھیں گے۔
سوال(5): اھل حدیث مسلک کی لڑکی حنفی مسلک کے
لڑکے سے شادی کرسکتی ہے ؟
جواب: دارالعلوم دیوبند کی ویب سائٹ پر ایسے
سوال کا جواب یہ لکھا ہے کہ غیرمقلد سے نکاح نہ کریں جیسے 166027 نمبر کا جواب
دیکھ لیں ۔ایسے بعض فتاوے اہل حدیث کی جانب سے بھی ہوسکتے ہیں کہ احناف میں شادی
نہ کریں لیکن ہم یہ عرض کریں گے کہ شادی میں ترجیح اہل حدیث کو ہی دیں کیونکہ وہ
عقیدہ کے باب میں خالص ہوتے ہیں تاہم مجبوری میں دیوبندی کے یہاں بھی شادی کرسکتے
ہیں ۔ ایک عورت جب دیوبندی کے یہاں جاتی ہے تواسے مردوں کی طرح نماز پڑھنے
کا طعنہ کچھ زیادہ ہی دیا جاتا ہے جو کبھی کسی اہل حدیث بہن کے لئے حد سے زیادہ
تکلیف کا باعث بن سکتا ہے اس لئے دیکھ بھال کر شادی کریں ،لڑکے کے دین واخلاق اور
گھریلو ماحول کا جائزہ ضرور لیں ۔
سوال(6): فراہم کردہ ویڈلنک میں قلم کے ذریعہ
جسم پردم کرنے کا طریقہ بتایا جا رہا ہے کہ یہ صحیح ہے؟
https://youtu.be/d5YDbrdDreo
جواب : قرآن وحدیث میں دم کرنے کا ایسا طریقہ
کہیں مذکور نہیں ہے، یہ اس صاحب کا خودساختہ طریقہ ہے ۔ یہ مسلکا دیوبندی لگتے ہیں
، اور دیوبندیوں یہاں دم کے معاملہ میں کوئی روک ٹوک نہیں ہے۔ اپنی مرضی کسی آیت
کو کسی بیماری کے لئے خاص کرتے ہیں، اپنی مرضی سے الگ الگ بیماری کا الگ الگ وظیفہ
گھڑتے ہیں اور مجرب وظیفہ کہہ کر عمل کرتے ہیں ۔ عوام کے علاوہ ان کے علماء بھی
اپنی طرف سے وظائف بناتے ہیں ۔ ظاہر سی بات ہے کہ یہ شرعی دم نہیں ، خودساختہ
طریقہ ہے ، اس طریقہ کا اسلام سے تعلق نہیں ہے ۔دم کرنے میں وہی پڑھنا ہے
جو رسول ﷺ نے سکھایا ہے اور اسی طریقہ سے دم کرنا جیساکہ آپ سے منقول ہے۔ یہ حضرت قلم سے دم
کرنے کا جو طریقہ بتارہے ہیں اس طریقہ کا اسلام سے تعلق نہیں ہے ۔ دین ،رسول اللہ کی سنت پر
عمل کرنے کا نام ہے۔ آپ کو رسول اللہ ﷺ کے دم کرنے کا طریقہ بتاتاہوں اس طرح دم
کیا کریں ۔
عن عائشة رضي الله عنها" ان النبي صلى الله
عليه وسلم كان ينفث على نفسه في المرض الذي مات فيه بالمعوذات، فلما ثقل كنت انفث
عليه بهن، وامسح بيد نفسه لبركتها"، فسالت الزهري: كيف ينفث؟، قال: كان ينفث
على يديه ثم يمسح بهما وجهه(صحيح البخاري:5735)
ترجمہ:عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی
کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مرض الوفات میں اپنے اوپر معوذات (سورۃ الاخلاص،
سورۃ الفلق اور سورۃ الناس) کا دم کیا کرتے تھے۔ پھر جب آپ کے لیے دشوار ہو گیا تو
میں ان کا دم آپ پر کیا کرتی تھی اور برکت کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا
ہاتھ آپ کے جسم مبارک پر بھی پھیر لیتی تھی۔ پھر میں نے اس کے متعلق پوچھا کہ نبی
کریم صلی اللہ علیہ وسلم کس طرح دم کرتے تھے، انہوں نے بتایا کہ اپنے ہاتھ پر دم
کر کے ہاتھ کو چہرے پر پھیرا کرتے تھے۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جب کوئی خود پر دم کرے
تو معوذات (سورہ اخلاص، سورہ فلق اور سورہ ناس ) پڑھ کر اپنے ہاتھوں میں پھونک مار
کر اپنے چہرہ اور بدن پر پھیرلے اور جب کوئی دوسرے پر دم کرے تو یہی معوذات پڑھ کر
مریض پر پھونک ماردے۔
سوال(7): ایک بہن کو اپنی کسی حاجت کے لیے ایک
آیت محدود وقت تک پڑھنی ہے اور لوگوں سے بھی پڑھوانی ہے کیا یہ طریقہ درست ہے؟
جواب: یہ بدعت ہے ، نہ وہ بہن ایسا کام کرے اور
نہ آپ خواتین اس کام پر اس بہن کی مدد کریں۔ ہمیں رسول اللہ ﷺ نے کسی حاجت کے لئے
اس طرح ایک آیت مخصوص کرکے متعین تعداد کے ساتھ وظیفہ کرنے کی تعلیم نہیں دی ہے
اور ایک آیت کو چند عورتیں مل کر متعدد بار پڑھے اس کی بھی کوئی دلیل نہیں ہے اس
لئے یہ طریقہ بدعت ہے ۔ اس بدعتی طریقہ سے ہم کو بچنا ہے۔اسلام نے مشکلات کے حل کے
لئے جو تعلیمات پیش کی ہے ان کو مدنظر رکھیں ، اس بارے میں میرے بلاگ پر میرا مضمون
بھی پڑھ سکتے ہیں اور یوٹیوب پر بیان بھی سن سکتے ہیں۔
سوال(8): میں مدرسہ میں بچوں کو تعلیم دیتی ہوں،
جو بچیاں بالغ ہو چکی ہیں کیا وہ اپنے پیریڈ کے دنوں میں سبق لے سکتی ہیں؟
جواب: ہاں پیریڈ میں آپ بچیوں کو ان کا سبق دے
سکتی ہیں ، ان دنوں قرآن چھونے کے لئے دستانہ کا استعمال کرائیں ، بقیہ دوسری
کتابوں اور کاپی کا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔
سوال(9): طلب علم کے لیے جو گھر سے چل کے جاتا
ہے اس کے لیے مچھلیاں دعا کرتی ہیں، ہم طالبات قرآن پڑھنے کے لیے گاڑی میں جاتے
ہیں کیا ہمارا شمار ان لوگوں میں ہوگا؟
جواب: جوکوئی گھر سے تعلیم حاصل کرنے نکلتا ہے
خواہ سوار یا پیدل اس کے حق میں مچھلیاں دعائیں کرتی ہیں، اس دعا میں وہ طالبات
بھی شامل ہیں جو گاڑی پہ سوار ہوکر دینی تعلیم حاصل کرنے جاتی ہیں ۔
سوال(10): کسی نے پوچھا ہے کہ اگر لڑکا شیعہ ہو
تو کیا ایک سنی لڑکی اس سے شادی کر سکتی ہے۔ دوسرا یہ کہ شیعہ مسلک میں کون سے کام
غیر شرعی ہیں؟
جواب: سنی لڑکی شیعہ لڑکا سے شادی نہیں کرے
کیونکہ شیعہ کے پاس کفریہ عقائد ہیں ۔ ہم میں اور شیعہ میں بنیادی فرق یہ ہے کہ ہم
محمد ﷺ پرنازل کردہ شریعت(قرآن و حدیث) کی پیروی کرتے ہیں جبکہ شیعہ حضرات قرآن پر
من مانی طریقے سے ایمان لاتے ہیں اور الگ ڈھنک سے اس کو سمجھتے ہیں بلکہ کتنے تو
اس میں تحریف کےبھی قائل ہیں ، اور حدیث کے نام پر خودساختہ اماموں کی طرف منسوب
باتوں کو دین کا درجہ دے کر ان پر عمل کرتے ہیں جبکہ ہم مسلمان رسول اللہ ﷺ سے ایک
قول برابر بھی تجاوز کرناکفر سمجھتے ہیں ۔
سوال(11): ایک بہن کا سوال ہے کہ وہ اپنے رشتہ
کے لیے لڑکے کے والد سے بات کر سکتی ہے جس کی عمر 65 سال ہے اور لڑکی کا ولی
لاپرواہ قسم کا ہے، لڑکی کے بات کرنے سے ولی تک بات پہنچے گی اور ممکن ہے پھر نکاح
پر توجہ دے ؟
جواب:اصل تو یہی ہے کہ لڑکی کی جانب سے رشتہ کے
لئے اس کا محرم یا ولی بات کرے گا ، محرم موجود نہ ہو یا موجود ہو مگر شادی کے
بارے میں لاپرواہی برت رہا ہوتوپھر ایسی صورت میں لڑکی خود بھی اپنے رشتہ کے لئے
ذمہ دار سے بات کرسکتی ہے ۔بات کرنے کا یہ مطلب نہیں کہ لڑکا سے فضول بات کرے بلکہ
جو ذمہ دار ہو اس سے بقدر ضرورت بات کرلے تاہم شادی کی بات چلانے کے لئے اپنی خبر
کسی کے معرفت بھی بھجوا سکتی ہے ۔ بہرکیف اسلام نے ضرورت کا خیال رکھا ہے ، ضرورت
کے وقت کوئی عورت یا لڑکی بقدر ضرورت مرد سے شادی کی بات کرسکتی ہے ۔
سوال(12): کیا میاں بیوی ایک دوسرے کے غیرضروری
بال صاف کرسکتے ہیں؟
جواب : میاں بیوی کے درمیان کسی قسم کا پردہ
نہیں ہے اس لئے میاں بیوی ایک دوسرے کے غیرضروری بال صاف کرسکتے ہیں۔
سوال(13):اس بات کی کیا دلیل ہے کہ عورت کا
عورت کے لئے ستر ناف سے گھٹنے تک ہے؟
جواب:سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت
ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لا يَنْظُرُ الرَّجُلُ إلى عَوْرَةِ الرَّجُلِ،
ولا المَرْأَةُ إلى عَوْرَةِ المَرْأَةِ، ولا يُفْضِي الرَّجُلُ إلى الرَّجُلِ في
ثَوْبٍ واحِدٍ، ولا تُفْضِي المَرْأَةُ إلى المَرْأَةِ في الثَّوْبِ الواحِدِ
(صحيح مسلم:338)
ترجمہ:مرد دوسرے مرد کے ستر کو (یعنی عورت کو جس
کا چھپانا فرض ہے) نہ دیکھے اور نہ عورت دوسری عورت کے ستر کو دیکھے اور مرد دوسرے
مرد کے ساتھ ایک کپڑے میں نہ لیٹے اور نہ عورت دوسری عورت کے ساتھ ایک کپڑے میں
لیٹے۔
یہ دلیل اقتران ہے، اس حدیث میں مرد کا مرد کے
لئے ستر بتایا گیا ہے وہ ظاہر سی بات ہے، ناف سے گھٹنے کے درمیان ہے، اس بنیاد پر
عورت کا ستر عورت کے لئے بھی وہی ہوگا جو مرد کاسترمردکے لئے ہے۔
سوال(14): ایک بہن کا شوہر بیرون ملک رہتا تھا،
اس کے ساتھ بیوی کی ناراضگی تھی ، ابھی پتہ چلا ہے کہ اس کے شوہر کا انتقال دوماہ
قبل ہی ہوگیا تھا، ایسے میں عدت کب سے شروع ہوگی اور پہلے کا وقت کیا مانا جائے
گا؟
جواب: جب شوہر فوت ہوا ہے اسی وقت سے عدت شمار
کی جائے گی لہذا وفات سے لیکر چار ماہ دس دن تک عدت کے دن پورے کرےاورجو وقت پہلے
گزرگیا، اس پہ عورت کے لئے کچھ بھی نہیں ہے البتہ آپس میں ناراضگی تھی جوکہ میاں
بیوی دونوں کی خطا ہےاس لئے اللہ تعالی سے اپنی طرف سے اور شوہر کی طرف سے کثرت سے
توبہ واستغفار کرے ۔
سوال(15): کوئی لڑکی کسی نامحرم کو نکاح کے لے
اپنی دعاؤں میں مانگ سکتی ہے؟
جواب: اگرکسی لڑکی کو کوئی لڑکا دینی اعتبار سے پسند ہو تووہ اللہ تعالیٰ سے یہ دعا
مانگ سکتی ہے کہ اے اللہ ! میرا نکاح فلاں کے ساتھ ہونا میسرفرمادے، ساتھ ہی اس
کام کی کوشش بھی کرے یعنی اپنے سرپرست تک
یہ بات کسی ذریعہ سے پہنچائے کہ فلاں لڑکا دین واخلاق کے اعتبار سے بہتر ہے، اس سے
میرے نکاح کی بات کی جائے۔ ولی کی کوشش ورضامندی سے وہاں نکاح میسر ہوجائے تو اللہ
کا شکر بجائے اور اگر وہاں سے پیغام نکاح مسترد کردیاجائے تو اسی کا خیال لے کر
زندگی نہ گزارےبلکہ اس سے شادی کا خیال چھوڑ کر تقدیر پر راضی رہے ، دوسری جگہ
کوشش کرے، جہاں تقدیر میں لکھا ہوگا اللہ کی توفیق سے وہاں شادی ہوجائے گی ۔
سوال(16): شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا
کہنا ہے کہ اگر کوئی شخص کسی عورت سے محبت کرتا ہے لیکن اس آدمی کا دنیا میں اس سے
نکاح نہیں ہوتا تو وہ اس کا حق مہر صدقہ کردیتا ہے اور اللہ تعالی سے دعا کرتا ہے
کہ آخرت میں وہ عورت اس کی بیوی ہو تو اللہ تعالی سے اس کی امید کی جاسکتی ہے ۔
(الفتاوی الکبری: 5/461)کیا یہ بات صحیح ہے اور مہر کتنا صدقہ کرنا چاہئے ؟
جواب: دنیا کا کوئی بھی آدمی جو جنت میں جائے
گا ، وہ بنا شادی نہیں رہے گا۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے :"وما في الجنة اعزب"
یعنی جنت میں کوئی بن بیوی کے نہ ہوگا۔(صحیح مسلم:7147)
اور پھر جنت میں عورتوں کے مختلف حالات ہوں گے ،
جس کا شوہر بھی جنتی ہوگا وہ بیوی اس شوہر کے ساتھ ہوگی لیکن جس بیوی کا دنیاوی
شوہر جنتی نہ ہو یا جس عورت کی دنیا میں شادی نہ ہوئی ہو اس بارے میں اہل علم کی
متعدد آراء ہیں ، ان میں سے ایک
رائے یہ ہے کہ دنیا کے مردوں میں سے کسی کے ساتھ شادی کردی جائے گی۔ شیخ ابن
عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ایسی عورت جو جنتی ہو مگرشادی شدہ نہ ہو یا شادی
شدہ تو ہو مگر اس کا شوہر جنتی نہ ہو تو دنیاوی مردوں میں سے جن کی شادی نہ ہوئی
ہو کسی سے شادی کردی جائے گی ۔ اس بحث میں مزید تفاصیل ہیں ۔
بہرحال یہ مسئلہ غیبی امور میں سے ہے
اس لئے بہتر ہے کہ انسان اللہ سے ان چیزوں کے لئے دعاکرے جن کے بارے میں صریح
دلائل ہیں بطور خاص جنت الفردوس کا سوال کرے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا ہے اور
جو جنت میں چلا جائے گا، اس کو وہاں ہر چیز ملے گی جس کی وہ خواہش کرے گا،
اس لئے انسان دنیا میں جنت
میں لے جانے والے اعمال انجام دے اور اس میں داخلہ پانے کی اللہ سے بکثرت دعا کرے،
اپنی لئے بھی اور اپنے گھروالوں کے لئے بھی ۔ جس سے شادی نہ ہو اس کے نام سے مہر
صدقہ کرنے کی کوئی دلیل نہیں ہے لہذا بغیر شادی کے مہر صدقہ کرنے کی ضرورت نہیں
ہے۔
سوال(17) : جب ہم کوئی دینی بیان ویڈیو کی شکل
میں سنتے ہیں تو عام طور سے پہلے سلام کیا جاتا ہے ،کیاہمیں اس سلام کا جواب دینا
چاہئے ؟
جواب:ہاں جب ہم کوئی اسلامی ویڈیو دیکھیں اور اس
میں سلام سنیں تو اس کا جواب دیں، تاہم جواب دینا ضروری نہیں ہے کیونکہ اس سلام کے
اصل مخاطب وہ ہیں جو مقرر کے سامنے بیٹھےتقریرسن رہے تھے ، اس لئےجواب دیتے ہیں تو
اجر ملے گا اور جواب نہیں دیتے ہیں تو کوئی گناہ نہیں ہے ۔
سوال(18):کہا جاتا ہے کہ جو بچیاں سکول و کالج
جاتی ہیں اگر انہیں سورہ یاسین کی آیت نمبر 9 یاد کروا دی جائے تو وہ ہر شر سے
محفوظ رہیں گی، کیا یہ بات درست ہے؟
جواب:کسی کی کوئی بات اسی وقت صحیح ہوگی جب اس
کی دلیل ہوگی اور ہم کو قرآن وحدیث میں اس بات کی کوئی دلیل نہیں ملتی ہے لہذا یہ
بات غلط ہے اور یہ طریقہ بھی غلط ہے۔ہم لڑکیوں کویہ بتائیں کہ گھرسے نکلتے وقت
باحجاب نکلیں،خوشبولگاکر باہر نہ نکلیں،چلتے ہوئے نگاہیں نیچی کرکےچلیں، بغیرضرورت
کسی اجنبی مرد سے نہ بات کریں، نہ اس سے سلام ومصافحہ کریں،کسی اجنبی مرد کی خلوت
سے بچیں ، مخلوط تعلیم نہ حاصل کریں ، بغیر محرم سفر نہ کریں ، برائی اور بے حیائی
والی جگہ نہ جائیں ، سواری پر بیٹھیں تو سواری کی دعا کریں اور گھر میں داخل ہونے
اور نکلنے کی دعا کریں بلکہ راستہ بھراذکار پڑھتی رہےتو ان باتوں سے اللہ تعالی
بچیوں کی حفاظت فرمائے گا۔
سوال(19):کیا کوئی مسلمان عورت کسی کرسچن کو غسل
میت کروا سکتی ہے؟
جواب:کافر میت کے غسل ، تکفین اور دفن کے متعلق
شریعت کے نصوص اور اہل علم کے اقوال کی روشنی میں معلوم ہوتا ہے کہ ایک مسلمان
عمومی طور پر کافر کے غسل ، اس کی تکفین اور دفن کے کام میں شریک نہیں ہوگا البتہ
کسی مسلمان کا کافررشتہ دار فوت ہوجائے اس حال میں کہ اس کو دفن کرنے والا کوئی
دوسرا نہ ہو تو اسے کسی جگہ گڈھا کھود کر اس میں دفن کردیا جائے گا ، اسے غسل دینے
کی ضرورت نہیں ، اور ویسے بھی کافر نجس ہوتا ہے مگرجن کافروں کے یہاں میت کونہلانے
کا رواج ہے اور اسے کوئی دفن کرنے والا بھی نہیں ہے تو مسلمان اسے نہلاکر کسی کپڑے
میں لپیٹ کر ایک گڈھے میں چھپا دے گا۔ یہاں معلوم رہے کہ غسل ، تکفین اور دفن کا
مطلب اسلامی طریقے سےکافوروبیری کے ساتھ غسل دینا، یا تین کپڑوںمیں کفن دینا
اورقبرستان میں باقاعدہ قبرکھودکر دفن کرنا نہیں ہے بلکہ نہانے سے مراد بدن پر
پانی بہانا، کفن سے مراد کسی کپڑے میں لپیٹ دینا اور دفن سے مراد کسی کھائی میں یا
گڈھا کھود کر گاڑ دیناہے ۔
سوال(20):ایک خاتون ہیں انہوں نے لگ بھگ 20 سال
پہلے آنت کا آپریشن کرایا تھا تب سے لیکر آج تک وہ رمضان المبارک کا روزہ نہیں رکھ
پا رہی ہیں اور ان کو کفارے کے بارے میں علم بھی نہیں تھا ، اب انہیں اس بات کا
علم ہوا تو وہ کفارہ آئندہ رمضان سے دینا شروع کرے گی اور پہلے جو قضاء روزے تھے
ان کے کفارے کا کیا حکم ہے؟
جواب:اللہ تعالی سے دعا کرتاہوں اس بہن کو صحت و
تندرستی عطا فرمائے ۔ اس مسئلہ میں اس بہن سے اور اس کے گھروالوں سے غفلت ہوئی ہے۔
غفلت یہ ہے کہ بیس سال سے رمضان گزررہا ہے مگر کبھی یہ بات جاننے کی کوشش نہیں کی
گئی کہ اس بہن کے روزہ کا کیا حکم ہے؟ اللہ تعالی اس بہن کو معاف فرمائے اور
دنیاوی تکلیف کو گناہوں کا
کفارہ بنادے ۔ اس بہن کو چاہئے کہ اس معاملہ میں غفلت ہوجانے کی وجہ سے اللہ تعالی
سے توبہ کرے اور پھر ابھی ہی بغیر تاخیر کے بیس سالوں کے روزوں کا فدیہ ادا کرے،
جب اگلا رمضان آئے تو اگلے رمضان کا فدیہ دے، ابھی سابقہ روزوں کافدیہ ادا کرے۔
اور فدیہ میں غلہ دینا ہے ۔ہر روزہ کے بدلے ایک مسکین کو نصف صاع(تقریبا ڈیڑھ کلو)
گیہوں، چاول یا کھائی جانے والی دوسری کوئی چیز دے ۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے :
وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ
طَعَامُ مِسْكِينٍ(البقرة:184)
ترجمہ :اور اس کی طاقت رکھنے والےفدیہ میں ایک
مسکین کو کھانادیں۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔
اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔