Wednesday, October 19, 2022

حج وعمرہ اور آج کل کے مسلمان

 حج وعمرہ اور آج کل کے مسلمان

مقبول احمد سلفی/ جدہ دعوہ سنٹر-حی السلامہ
 
ان دنوں حج و عمرہ کے تعلق سے ہم عجیب وغریب منظر دیکھتے ہیں ، لگتا ہی نہیں یہ کوئی عبادت ہے ۔ ایسا محسوس ہوتا ہے یہ کوئی دنیاوی فنکشن ہے۔ حج وعمرہ پہ جانے سے پہلے رشتہ داروں سے دعوتی ملاقات، محلے میں حاجی اور معتمر کی دعوتوں کی لمبی قطار ، گھر پہ اجتماع پہ اجتماع ، مکہ جاتے وقت گلے میں ہارومالا پہناپہناکر راجاؤں مہاراجاؤں کی طرح رخصتی مانو کسی ملک کو فتح کرنے جارہے ہیں۔ پھردوران عبادت مکہ میں مختلف قسم کے اعمال جو عبادت کےلئے نقصان دہ وہ کئے جاتے ہیں ۔ ان میں ایک کام لمحہ بہ لمحہ کی تصویر کشی یا عبادت کرتے ہوئے ویڈیو کالنگ تاکہ اپنی عبادت کو دکھاسکیں۔
بیت اللہ سے واپسی اور اپنے گھر پہنچنے پراستقبال کا منظر بھی بیحد افسوسناک ہوتا ہے۔ پھول مالا لئے ملنے والوں کی ایک لمبی قطار جو مالا پہناپہناکر ملک و قلع فتح کرلینے جیسی مبارکبادی دیتی ہے، بعدہ اسے سرٹیفائڈحاجی اور معتمرکالقب مل جاتاہے پھرمرتے دم تک بلکہ مرنے کے بعد بھی  حاجی صاحب ، حاجی صاحب سے پکارے جانے لگتے ہیں۔ الغیاذ باللہ
ہمیں معلوم ہونا چاہئے کہ حج اور عمرہ عظیم عبادت ہے اور عبادت کی قبولیت کے لئے اخلاص نیت اوراتباع سنت ضروری ہے۔ بغیر اخلاص اور بغیراتباع رسول کے حج وعمرہ قبول نہیں ہوگا بلکہ دین کا کوئی عمل اس کے بغیر قبول نہیں ہوتا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ آج کل کے حج و عمرہ میں نہ اخلاص ہے اور نہ ہی اتباع رسول ہے۔  
اخلاص اس لئے نہیں ہے کہ لوگوں کو دکھانے کے لئے حج  وعمرہ کیا جارہا ہے ، جو اخلاص کے ساتھ حج وعمرہ  کرے گا وہ کبھی اپنی عبادت کا پرچار نہیں کرے گا۔لوگوں کو اپنے گھربلابلاکراجتماع کرنا، گھر گھر جاکردعوت کھانا، گاؤں گاؤں گھوم کراپنے پرائے سب سےملاقات کرنایہ سب اخلاص کے منافی ہیں۔
اور اتباع سنت اس لئے نہیں کہ ہمیں نبی ﷺ اور آپ کے پیارے اصحاب کی زندگی میں حج یا عمرہ کی انجام دہی میں اس قسم کا کوئی نمونہ نہیں ملتا ، اور کیسے ملے گا ، یہ تو شہرت کی باتیں ہیں جو اخلاص کے منافی اور عمل کو غارت کرنے والی ہیں۔
گویا عبادت کی قبولیت کی دونوں شرطیں آج کل کے اکثر حج وعمرہ انجام دینے والوں میں نہیں پائی جاتیں۔پھر ایسی عبادت کا انجام کیا ہوگا۔ آئیے نبی ﷺ کی حدیث دیکھتے ہیں ۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا:
قیامت کے روز سب سے پہلا شخص جس کے خلاف فیصلہ آئے گا، وہ ہو گا جسے شہید کر دیا گیا۔ اسے پیش کیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ اسے اپنی (عطا کردہ) نعمت کی پہچان کرائے گا تو وہ اسے پہچان لے گا۔ وہ پوچھے گا تو نے اس نعمت کے ساتھ کیا کیا؟ وہ کہے گا: میں نے تیری راہ میں لڑائی کی حتی کہ مجھے شہید کر دیا گیا۔ (اللہ تعالیٰ) فرمائے گا تو نے جھوٹ بولا۔ تم اس لیے لڑے تھے کہ کہا جائے: یہ (شخص) جری ہے۔ اور یہی کہا گیا، پھر اس کے بارے میں حکم دیا جائے گا تو اس آدمی کو منہ کے بل گھسیٹا جائے گا یہاں تک کہ آگ میں ڈال دیا جائے گا اور وہ آدمی جس نے علم پڑھا، پڑھایا اور قرآن کی قراءت کی،اسے پیش کیا جائے گا۔ (اللہ تعالیٰ) اسے اپنی نعمتوں کی پہچان کرائے گا، وہ پہچان کر لے گا، وہ فرمائے گا: تو نے ان نعمتوں کے ساتھ کیا کیا؟ وہ کہے گا: میں نے علم پڑھا اور پڑھایا اور تیری خاطر قرآن کی قراءت کی، (اللہ) فرمائے گا: تو نے جھوٹ بولا، تو نے اس لیے علم پڑھا کہ کہا جائے (یہ) عالم ہے اور تو نے قرآن اس لیے پڑھا کہ کہا جائے: یہ قاری ہے، وہ کہا گیا، پھر اس کے بارے میں حکم دیا جائے گا، اسے منہ کے بل گھسیٹا جائے گا حتی کہ آگ میں ڈال دیا جائے گا۔ اور وہ آدمی جس پر اللہ نے وسعت کی اور ہر قسم کا مال عطا کیا، اسے لایا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ اسے اپنی نعمتوں کی پہچان کرائے گا، وہ پہچان لے گا۔ اللہ فرمائے گا: تم نے ان میں کیا کیا؟ کہے گا: میں نے کوئی راہ نہیں چھوڑی جس میں تمہیں پسند ہے کہ مال خرچ کیا جائے مگر ہر ایسی راہ میں خرچ کیا۔ اللہ فرمائے گا: تم نے جھوٹ بولا ہے، تم نے (یہ سب) اس لیے کیا تاکہ کہا جائے، وہ سخی ہے، ایسا ہی کہا گیا، پھر اس کے بارے میں حکم دیا جائے گا، تو اسے منہ کے بل گھسیٹا جائے گا، پھر آگ میں ڈال دیا جائے گا۔ (صحیح مسلم: 1905) 
اس حدیث سے آپ نے جان لیا کہ شہرت کے لئے جہاد کرنا، شہرت کے لئے علم حاصل کرنااور شہرت کے مال خرچ کرنا جہنم میں لے جانے کا سبب ہے تو جو شہرت والا حج یا عمرہ کرےوہ اپنا مال بھی ضائع کرتا ہے، وقت بھی ضائع کرتاہے اور ایسے آدمی کا بھیانک انجام یہ ہوگا کہ اسے گھسیٹ کر جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔ اللہ ہمیں شہرت سے بچائے۔
اسلامی بھائیواور بہنو!ہمیں اپنے رب سے ڈرنا چاہئے اور عبادت کی انجام دہی میں اخلاص وللہیت کو مدنظر رکھتے ہوئے اسوہ رسول کو اپنانا چاہئے۔
عمرہ کے تعلق سے ایک بات مزید واضح کرنا چاہتا ہوں کہ آج کل حرم شریف میں زمین پر اصل مطاف میں بغیر احرام کے طواف کرنے پر پابندی لگی ہوئی ہے تو وہ لوگ جو صرف طواف کرنا چاہتے ہیں نیچے طواف کرنے کے لئے احرام کا لباس لگالیتے ہیں ۔ یہ عمل شرعا بھی غلط ہے اور قانونا بھی ۔ شرعا اس لئے کہ نبی ﷺ جب فتح مکہ کے موقع پر طواف کرتے ہیں تو بغیر احرام کے طواف کرتے ہیں اس لئے صرف طواف کرنے کے لئے احرام باندھنے کی ضرورت نہیں ہے اور قانونی طور پر غلط تو ہےہی۔
آخر میں اپنے مسلمان بھائیوں کو نصیحت کرنا چاہتا ہوں کہ اپنے حج وعمرہ میں اخلاص پیداکریں،حج یا عمرہ کرنے سے پہلے یا دوران حج وعمرہ یا حج وعمرہ کے بعد ایسے کام کرنے سے بچیں جو آپ کی عبادت کو برباد کردے،  آپ یہ نہ کہیں کہ لوگ ایسا کرتے، ہم ان لوگوں کو ایسا کرنے کا حکم نہیں دیتے ۔ نہیں یہ آپ کرتے ہیں کیونکہ آپ کے ساتھ یہ ہوتا ہےاور آپ صاحب معاملہ ہیں۔آپ چاہیں تو یہ سب کام ہوتے رہیں گے اور آپ نہ چاہیں تو یہ سب کام بند ہوجائیں گے۔
آپ کو کوئی آگ پر چلنے کو کہےیا گولی مارنے کوکہے آپ انکار کردیں گے، پھر جو لوگ آپ کے حج کو برباد کرنے میں لگے ہیں  ، ان کے حساب سے کیوں چلتے ہیں؟۔ آپ حج کررہے ہیں اور آپ صاحب معاملہ ہیں تو آپ کے ساتھ ہونے والے معاملات کامکمل آپ ہی ذمہ دار ہیں۔  اس لئے خدارا ! عبادت کو عبادت ہی رہنے دیں، اس کو کھیل تماشہ، رسم ورواج اور فنکشن نہ بنائیں۔ یہ بڑی عظیم عبادت ہے ، زندگی میں ایک بار ہی حج فرض ہے ، زندگی بھر کی ایک عظیم عبادت کو اللہ کی رضا کے لئے انجام دیں۔ خود بھی غلط کاموں سے بچیں اور دوسروں کو بھی بچائیں۔ وماعلینا الاالبلاغ المبین

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔