Tuesday, July 26, 2022

شہاب چٹور ،مکہ کا پیدل سفر اور اعمال حج کی انجام دہی


 شہاب چٹور، مکہ کا پیدل سفر اور اعمال حج کی انجام دہی 

 

(تکملہ سابق مضمون)
مقبول احمد سلفی – طائف
 
ان دنوں شہاب چٹور نامی ایک لڑکا کافی چرچا میں ہے جو کیرلا سے مکہ کے لئے پاپیادہ عازم سفر ہے ۔ اس مسئلہ پر مجھ سے کافی لوگوں نے سوال کیا تو مختصر طورپر ہی سہی مختلف پہلوؤں سے میں نے مسئلہ کی وضاحت کردی تھی۔ پھر بھی بعض لوگ چندایک جزئیات کی وضاحت چاہتے ہیں جن کو میں نے مضمون میں بھی ذکر کیا ہے لیکن چونکہ سوشل میڈیا پرعام لوگ بھی موجود ہیں انہیں ہربات اشاروں میں یا اختصار میں سمجھ نہیں آتی ،ان لوگوں کے لئے سابقہ مضمون کی روشنی میں ہی چند ایک جزئیات کی مزید وضاحت کردیتا ہوں تاکہ ہرکس وناکس کے لئے بات واضح رہے ۔
پہلامسئلہ : کیا پیدل سفر کرنا عبادت ہے یا طاعت وبھلائی کا کام ہے جس پر اجر دیا جائے گا؟ 
اس کا جواب یہ ہےکہ پیدل سفر کرنا نہ کوئی عبادت ہے ، اور نہ کوئی طاعت و خیر کا کام ہےجس پر مسلمان کو اجر ملے گا۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ جب ایک عورت نے پیدل کعبہ تک سفر کرنے کی نذرمانی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ان اللہ لغنی عن مشیھا(صحیح الترمذی:1536) یعنی اللہ تعالی اس عورت کے پیدل چلنے سے بے نیاز ہے۔ حدیث کا یہ ٹکڑا بتاتا ہے کہ پیدل چلنا کوئی طاعت کا کام نہیں تھا اس لئے رسول اللہ ﷺ نے اس عورت کوپیدل سفرکرکے بیت اللہ پہنچنے سے منع فرمایا ،اگر ایسی بات نہ ہوتی تو آپ کیوں منع فرماتےجبکہ نذر عبادت ہے اور اس کا پورا کرنا واجب ہے۔ آپ نے حجۃ الوداع کے موقع سے پیدل حجاج کو منع نہیں کیا تو یہاں کیوں منع فرمایا؟ 
اس طرح ایک بات صاف ہوگئی کہ پیدل سفر کرنا کوئی بھلائی نہیں ہے اس لئے کوئی مسلمان اس امید میں کہیں کا پیدل سفر کرے کہ اسے پیدل سفر کرنے کی وجہ سے اجر ملے گا شریعت کی نظر میں غلط ہے۔ 
دوسرا مسئلہ : کیا عبادت میں جسمانی تکلیف مطلوب ہے ؟ 
ہرگز نہیں، عبادت کا مطلب اللہ اور اس کے رسول کے احکام کی بجاآوری ہے۔اس بارے میں میرا ایک تفصیلی مضمون ہے"کیا روزے کا مقصد جسم کو تکلیف پہنچانا ہے؟ " اس کا مطالعہ مفید ہوگا۔ اسلام نے تو ہر اس عمل سے روکا ہے جس میں جان کا خطرہ ہے یا جسم اور اس کے کسی عضو کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ اللہ کا فرمان ہے: اپنے ہاتھ کو ہلاکت میں مت ڈالو۔(القرآن) یعنی ایسا کام نہ کرو جس میں ہلاکت ونقصان کا اندیشہ ہو۔ 
ذرا اندازہ کیجئے کہ کیرلا سے پاکستان، ایران، عراق اورکویت ہوتے ہوئے مکہ کا 8640 کلو میٹر کا سفر کس قدر طویل ہے۔ اس سفر میں سردی، کھانسی، بخار، تھکاوٹ، ضروریات ، غسل وحاجت، پاکی وناپاکی ، نماز کی پابندی، نیند وآرام ، کھاناپینا،موسم کے اثرات، راستے کی ناہمواری اوردیگرسفری صعوبات وغیرہ جیسے کتنے سارے مسائل شہاب کے لئے ہوسکتے ہیں ۔ کیا اسلام ہمیں ایسی تعلیم دیتا ہے کہ اتنے سارے مسائل میں الجھ کر اور جان جوکھم میں ڈال کر کوئی عبادت انجام دیں ؟ اسلام ہرگز ایسی تعلیم نہیں دیتا ہے۔ 
شہاب کے ان مسائل کو ذہن میں رکھتے ہوئے ان کے ایک سال کے سفر کو رسول اللہ ﷺکی اس حدیث کی روشنی میں پرکھیں اور صحیح وغلط کا فیصلہ کریں ۔ نبی ﷺ نے فرمایا: سفر عذاب کا ایک ٹکڑا ہے، آدمی کو کھانے، پینے، اور سونے(ہرایک چیز) سے روک دیتا ہےاس لئے جب کوئی اپنی ضرورت پوری کرچکے تو فورا گھر واپس آجائے۔ (صحیح بخاری:1804)
اس حدیث میں ان تمام بھائیوں کے لئے عبرت ہے جو شہاب اور ان جیسے نوجوانوں کوجوش دلاکر پیدل لمباسفر کرنے پر تعریف کے پل باندھنے میں لگے ہیں ، اس طرح جوش میں پھر کوئی شہاب نکلے گا ۔ہمیں سفر کم سے کم ، مختصر اورحسب سہولت کرنا ہے اور فورا گھر(اہل وعیال میں)لوٹ جانا ہے نہ کہ اپنے سفر کو طول دینا ہے۔
تیسرا مسئلہ: کون سی تکلیف پر اجر ہے؟ 
متعد د احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جسمانی تکلیف پر بھی مومن کو اجر ملتا ہےتو اب سوال یہ ہے کہ وہ کون سی تکلیف ہے جس پر اجر ملتا ہے؟ 
شہاب کے مسئلہ کو صحیح سے سمجھنے کے لئے اس باریکی کو سمجھنا ضروری ہے۔ تکلیف دو قسم کی ہیں ۔ ایک تکلیف تو وہ ہے جو آدمی خود سے مول لے جیسا کہ ایک شخص نے نذر مان لی کہ وہ نہ بیٹھے گا ،نہ سایہ لےگا بلکہ دھوپ میں کھڑارہے گا، جب نبی ﷺ کو معلوم ہوا توآپ نےاس سے منع فرمادیا۔ یہ وہ تکلیف ہے جو خود سے آدمی مول لے رہا ہے، شریعت میں ایسی تکلیف نہ مطلوب ہے ،نہ ماجور۔ دوسری قسم کی تکلیف وہ ہے جو عبادات کی انجام دہی سے لاحق ہوتی ہےجیسے کوئی عمرہ کرے، اس عمرہ میں طواف سے اور سعی سے جو جسمانی الم لاحق ہو اس پر اجر دیا جائے گا،یہ وہ تکلیف ہے جس کو انسان نے خود اپنے اوپرنہیں ڈالا ہے بلکہ نفس عبادت کی تکلیف ہے جو مطلوب وماجور ہے۔
یہاں ہمیں اصل مسئلہ کا حل معلوم ہوتا ہے کہ وہ یہ ہے کہ سہولت چھوڑکر انڈیا سے بیت اللہ کا پیدل سفر کرنا خود سے تکلیف مول لینا ہے جس پر اجر تو نہیں ملے گا لیکن نیت میں فسادہو تو گناہ ضرور ملے گا۔ گویا فریضہ حج کی ادائیگی کے لئے انڈیا سے مکہ کاپیدل سفر کرناالگ معاملہ ہے اور دوران حج ، پیدل اعمال حج انجام دینا الگ معاملہ ہے۔ انڈیا سے مکہ پیدل سفر کرنا کوئی اجر کا کام نہیں ہے لیکن اعمال حج پیدل انجام دینا اجر کا معاملہ ہے کیونکہ ایک جگہ سہولت چھوڑکر خود سے مصیبت مول لی جارہی ہےجبکہ دوسری جگہ عبادت کی انجام دہی سے جسم کو تکلیف ہو رہی ہے۔
رسول اللہ ﷺنے کسی صحابی یا صحابیہ کو مناسک حج کی ادائیگی پیدل کرنے سے منع نہیں فرمایا ہے بلکہ دوردرازمقامات سے بیت اللہ کا پیدل سفر کرنے سے منع فرمایا ہے۔ اس لئے ہم یہ کہیں گے کہ انڈیا سے بیت اللہ کا پیدل سفر کرنا آج کے زمانے میں غلط ہے لیکن اعمال حج کی ادائیگی پیدل انجام دینا صحیح ہے اور اگر کوئی رسول کی اقتداء میں حج کے اعمال سواری کے ذریعہ انجام دے تو بھی جائز ہے۔ 
چوتھامسئلہ: مشکل و آسان کے درمیان دومعاملات میں کس کو اختیار کیا جائے گا؟ 
آج سےکچھ سالوں پہلے عموما لوگ ایک مقام سے دوسرے مقام کا سفر پیدل کیا کرتے تھے، وہ اس لئے پیدل سفر نہیں کرتے تھے کہ اس پہ اجر ملے گا بلکہ سواری کی سہولت میسرنہیں تھی، جس کو سواری میسر تھی وہ سفر کے لئے سواری استعمال کرتے تھے۔ پھر طویل مسافتی سفر کے لئےسواری کسی کسی کو میسر ہوتی تھی اس لئے حج کے بارے میں ہم سنتے ہیں کہ فلاں فلاں نے بیت اللہ کا پیدل سفر کیا جبکہ کوئی کوئی سواری پر آیا کرتا جسے سواری نصیب ہوتی ۔ اللہ تعالی نے بیت اللہ کی طرف آنے والے اسی کیفیت کا ذکر کیا ہے"یاتوک رجالاوعلی کل ضامر"لوگ پاپیادہ بھی آئیں گے اور دبلے پتلے اونٹوں پر بھی ۔ یہاں اللہ تعالی بندوں کو پیدل سفر کرنے کا حکم نہیں دے رہا ہے بلکہ اس زمانے کی کیفیت بیان کررہا ہے۔ 
جب آج سفر کے لئے سہولت موجود ہے اور ہم دنیاوی ہرکام کاج کے لئے اس سہولت سے فائدہ اٹھاتے ہیں ،ہمارا حال یہ ہے کہ معمولی سی معمولی دوری گاڑی کے ذریعہ طے کرتے ہیں پھر حج کے لئے تکلف اور تکلیف کیوں؟ یہ کافی اہم سوال ہے؟ شاید آپ سمجھتے ہیں کہ بیت اللہ کا پیدل سفر کرنا اجر کا باعث ہے جبکہ میں نے اوپربتلایا دیا ہے کہ یہ عمل اجر کا باعث نہیں ہے ۔ ہاں آپ پیدل حج کے مناسک انجام دیتے ہیں تو یہ باعث اجر ہے اور سواری لیتے ہیں تو یہ بھی جائز ہے۔ 
اس بات کو رسول اللہ کی ایک حدیث سے بھی سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں ۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ جب بھی رسول اللہ ﷺ کو دوچیزوں میں سے ایک کو اختیار کرنے کا اختیار دیاگیا تو آپ نے ہمیشہ ان میں آسان چیز کو اختیار فرمایا۔(صحیح بخاری:6126)
اس حدیث کی روشنی میں شہاب چٹور(مع اہل وعیال) کی ایک سال کی مسلسل تکلیف کو دیکھیں تو کیا شریعت کی روشنی میں ان کا عمل غلط نہیں ہے، کیا انہیں رسول اللہ ﷺ کی سنت پر عمل کرتے ہوئے آسان طریقہ یعنی سواری کا استعمال نہیں کرنا چاہئے تھا؟ وہ لوگ زیادتی کررہےہیں جو مسائل کے استنباط میں قدیم زمانے کے لحاظ سے وارد ہونے والی ایک بات کو لے لیتے ہیں اور شریعت کے بہت سارے نصوص کو بھول جاتے ہیں ۔ایک صحابی جسے سفر میں احتلام ہوگیا ،اس حال میں کہ ان کا سرزخمی تھا تو صحابہ نے غسل کا حکم دے دیا ، اس وجہ سےوہ وفات پاگئے ، رسول اللہ نے کہا لوگوں نے اسے ہلاک کردیا ، سر کو چھوڑکر باقی جسم دھولینا کافی تھا۔ (ابن ماجہ:572) ہم لوگ اس طرح کسی کی ہلاکت کا سبب نہ بنیں۔ 
ایک اشکال کی وضاحت: پہلے لوگ بیت اللہ کا پیدل سفر کرتےتھے تو کیا وہ غلط تھے؟
نہیں وہ غلط نہیں تھے، وہ صحیح پر تھےکیونکہ ان کے زمانے میں قدموں سے چلنا ہی اصل ذریعہ تھا۔ اگر آپ یہ کہتے ہیں کہ آدم علیہ السلام نے ایک ہزار مرتبہ پیدل سفر کرکے حج کیا تو آپ یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ آدم علیہ السلام دوسری جگہوں کا بھی پیدل ہی سفر کرتے تھے،ابراہیم اور اسماعیل علیہما السلام نے بیت اللہ کا پیدل سفر کیا تو وہ اور مقامات کے اسفار بھی پیدل ہی کیا کرتے تھے ، جہاں کہیں سواری میسر ہوئی تو سوار ہوگئے ورنہ عموما لوگ پیدل ہی چلتے تھے ۔ اپنے گھر کے بوڑھے پرانے سے پوچھیں وہ ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں کیسے جاتے تھے ؟ جیسے جیسے سہولت پیدا ہوئی ، لوگ سہولت اختیار کرنے لگے اور اب کوئی ایک شہر سے دوسرے شہر کا پیدل سفر نہیں کرتا ۔ پھر بات وہیں پہنچتی ہے کہ جب ہم ہرکام کاج کے لئے سواری استعمال کرتے ہیں تو مکہ کے سفر کے لئے سواری کیوں مانع ہےجبکہ پیدل چلنا کوئی عبادت کا معاملہ بھی نہیں ہے ۔ساتھ ہی ان دنوں پیدل مکہ کا سفر کرنے سے عبادت میں ریا کا امکان پیدا ہونے کا ڈر ہےجیساکہ اس معاملہ میں ہم دیکھ بھی رہے ہیں۔ بس اتنا فرق ذہن میں رکھیں کہ سفر دنیاوی معاملہ ہے اور کل و آج کے سفر میں فرق ہے، کل لوگ عدم سہولت کی وجہ سےعموما پیدل سفر کرتے تھے جبکہ آج سہولت ہونے کی وجہ سے سواری پہ سفر کرتے ہیں۔ 
پیدل حج کی فضیلت میں سنن کبری للبیہقی کی روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: جو مکہ سے پیدل حج کرے یہاں تک کہ مکہ واپس لوٹ جائے تو اللہ اس کے لئے ہرقدم پر سات سو نیکیاں لکھتا ہے اور ہر نیکی حرم کی نیکی کے برابر ہے۔ (بیہقی) اولا یہ حدیث انڈیا سے بیت اللہ تک سفر کرنے سے متعلق نہیں ہےبلکہ جہاں اعمال حج انجام دینا ہے وہاں کے لئے ہے ، ثانیا اسے شیخ البانی رحمہ اللہ نے ضعیف الترغیب میں موضوع قرار دیا ہے۔(ضعیف الترغیب:691)اس لئے اس حدیث سے کسی قسم کا استدلال باطل ہے۔ 
خلاصہ کلام یہ ہے کہ دین کے معاملہ میں ہم وہاں آسانی پر عمل کریں جہاں رخصت دی گئی ہو اور نفس کو ایسی مشقت سے بچائیں جو اللہ کی نظر میں لغو و بے معنی ہو۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے عبادت کے معاملہ میں رسول اللہ سے ایک عورت کی نماز کے بارے میں کثرت اشتیاق وپابندی کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا:علیکم بماتطیقون(بخاری:43) تمہارے اوپراتنا ہی عمل واجب ہے جتنے عمل کی تمہارے اندر طاقت ہے ۔ غور کریں جب عبادت کے معاملہ میں تکلیف مالایطاق سے منع کیا جارہا ہے تو دنیاوی معاملات میں نفس پر خود سے ناقابل برداشت بوجھ ڈالنا کیوں کر ممنوع نہ ہوگا؟۔ غورفرمائیں۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔