Friday, January 8, 2021

اللہ کی نظر میں کامیاب کون ہے؟

 
اللہ کی نظر میں کامیاب کون ہے؟
 
مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوہ سنٹر مسرہ- طائف
 
دنیا میں آنے والا ہرآدمی خودکو کامیاب بنانا چاہتا ہے اور کامیابیوں کی حصولیابی کے لئے ہرممکن جتن کرتا ہے اور جب من مرضی کی چاہت پوری ہوجاتی ہے تو سمجھتا ہے کہ وہ اب کامیاب ہوگیا۔ لوگوں کی طبیعتیں مختلف ہیں اس لئے ان کی کامیابیوں کے معیار وپیمانے بھی الگ الگ ہیں ۔ کسی کی نظر میں ماؤنٹ ایوریسٹ چڑھنا کامیابی ہے ، کسی کی نظر میں بین الاقوامی کھلاڑی بنناکامیابی ہے، کسی کی نظر میں فلمی اکٹربننا کامیابی ہے ، کسی کی نظر میں ڈاکٹر، انجینئر، سائنس داں ، پروفیسر، سیاسی قائد اور وکیل وجج بننا کامیابی ہے ۔ غرضیکہ ہر کوئی اپنے ذوق وچاہت کی تکمیل کو کامیابی سمجھتا ہے او ر دنیا والے بھی شہرت وناموری والے مقام ومرتبہ کوپانا کامیابی سمجھتے ہیں ۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ لوگ جس کو کامیابی سمجھتے ہیں کیا وہ انسان کی اصل کامیابی ہے اور ایسے لوگ واقعی کامیاب کہلانے کے لائق ہیں ؟ اس سوال کا جواب دنیابنا والے خالق اوردنیا میں انسانوں کو بھیجنے والے مالک سے جانتے ہیں کہ اس کا کیا جواب ہے ؟
جواب معلوم کرنے سےپہلے انسانی تخلیق کا مقصد یا انسانوں کا دنیا میں آنے کا مقصد جان لیتے ہیں تاکہ جواب سمجھنے میں آسانی ہو۔ اللہ کا فرمان ہے:
وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ(الذاريات:56)
ترجمہ: میں نے جنات اور انسانوں کو محض اسی لئے پیدا کیا کہ وہ صرف میری عبادت کریں۔
اور دوسری جگہ ارشاد ہے :الَّذِي خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيَاةَ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا ۚ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْغَفُورُ (الملك:2)
ترجمہ: جس نے موت اور حیات کو اس لئے پیدا کیا کہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے اچھے کام کون کرتا ہے اور وہ غالب ، بخشنے والا ہے۔
ان دو آیات کے ذریعہ دنیا میں آنے کے دواہم مقاصد معلوم ہوئے، ایک تو یہ ہے کہ ہم اللہ کی عبادت کے لئے پیدا کئے گئے ہیں یعنی ہمیں اس دنیا میں اللہ کے اوامرکی بجاآوری کرنی ہے اور نواہی سے اجتناب کرناہے ۔ دوسرا مقصد یہ ہے کہ دنیا میں ہمیں بطور آزمائش بھیجا گیا ہے ، یہاں ہمیں اچھا اور برا دونوں راستے بتلا دئے گئے ، اس میں ہماری آزمائش یہ ہےکہ برائی سے بچتے ہوئے اچھے راستے پر چلیں تاکہ انجام بھلا ہو۔ ویسے برائی والا راستہ بھی اختیار کرسکتے ہیں مگر اس کا انجام برا ہے۔
مقصد حیات کو سامنے رکھتے ہوئے آل عمران کی مندرجہ ذیل آیت ملاحظہ فرمائیں ۔ فرمان الہی ہے :
كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ ۗ وَإِنَّمَا تُوَفَّوْنَ أُجُورَكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۖ فَمَن زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَأُدْخِلَ الْجَنَّةَ فَقَدْ فَازَ ۗ وَمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلَّا مَتَاعُ الْغُرُورِ(آل عمران:185)
ترجمہ: ہر جان موت کا مزہ چکھنے والی ہے  اور قیامت کے دن اپنے بدلے پورے پورے دئے جاؤگے ، پس جو شخص آگ سے ہٹا دیا جائے اور جنت میں داخل کردیا جائے بے شک وہ کامیاب ہوگیا اور دنیا کی زندگی تو صرف دھوکے کی جنس ہے ۔
اب بات بالکل واضح ہوگئی اور مذکورہ سوال کا جواب سامنے آگیا کہ لوگ جس دنیا میں اپنی اپنی چاہتوں کی تکمیل کو کامیانی سمجھ رہے وہ دھوکے میں ہیں کیونکہ یہ دنیا خود ہی دھوکے والی ہے ، یہاں سے تو سب کو مرکرنہ ختم ہونے والی دنیا کی طرف کوچ کرجانا ہے جہاں ہمارے اچھے اور برے تمام عملوں کا بدلہ دیا جائے گا۔ جو اچھے عملوں کی وجہ سے جہنم سے بچا لیا جائے گا اور جنت میں داخل کردیا جائے گا دراصل وہی اللہ کی نظر میں کامیاب ہے ۔
اس بات کو اللہ نے ایک جگہ یوں بیان کیا ہے ، فرماتاہے :فَمَن ثَقُلَتْ مَوَازِينُهُ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ (المومنون:102)
ترجمہ: جن کی ترازو کا پلڑا بھاری ہوگیا وہ تو نجات پانے والے ہوگئے۔
اور ایک دوسری جگہ ارشاد فرمایا ہے:وَوَقَاهُمْ عَذَابَ الْجَحِيمِ، فَضْلًا مِّن رَّبِّكَ ۚ ذَٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ (الدخان:56-57)
ترجمہ: انہیں اللہ نے دوزخ کی سزا سے بچادیا ، یہ تیرے رب کا فضل ہے ، یہی سب سے بڑی کامیابی ہے۔
اور ایک مقام پر اللہ جل شانہ اس طرح بیان کرتا ہے :مَّن يُصْرَفْ عَنْهُ يَوْمَئِذٍ فَقَدْ رَحِمَهُ ۚ وَذَٰلِكَ الْفَوْزُ الْمُبِينُ (الانعام:16)
ترجمہ: جس شخص سے اس روز وہ عذاب ہٹا دیا جائے تو اس پر اللہ نے بڑا رحم کیا اور یہ صریح کامیابی ہے۔
ان ساری آیات کی روشنی میں یہ معلوم ہوگیا کہ اللہ کی نظر میں سب سے بڑی کامیابی جہنم اور اس کے عذاب سے بچ جانا اور جنت میں داخل ہوجاناہے۔اب ساتھ ساتھ یہ بھی جان لیتے ہیں کہ ایسے لوگوں کی کیا پہچان ہے جو آخرت میں کامیاب ہونے والے ہیں یعنی وہ کون لوگ ہوں گے جو جہنم سے بچالئے جائیں گے اور جنت میں داخل کئے جائیں گے؟
اس کا مختصر جواب یہ ہے کہ جو بھی حقیقی ایمان والا ہوگا اور ایمان کا تقاضہ پورا کرتا ہوگا وہ آخرت میں کامیاب ہونے والا ہوگاجس کا ذکر اللہ تعالی سورہ مومنون کی پہلی ہی آیت میں کیا ہے اور اس کے بعد مومنوں کے کیا صفات ہیں انہیں بیان کیا ہے۔اللہ مومنوں کو کامیابی کی بشارت سناتے ہوئے کہتا ہے:"قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ"یعنی یقینا ایمان لانے والوں نے کامیابی حاصل کرلی۔
اور نبی ﷺ کافرمان ہے: يا أيُّها النَّاسُ قولوا: لا إلهَ إلَّا اللهُ تُفلِحوا(صحيح ابن حبان:6562)
ترجمہ: اے لوگو! تم لاالہ الا اللہ کہہ دو کامیاب ہوجاؤگے۔
ایمان کے ساتھ ہر چھوٹی بڑی نیکی آخرت میں کام آئے گی اور کامیابی دلانے میں مدد کرے گی ، یہاں ان سارے اعمال کا احاطہ ناممکن ہے تاہم چند ان اعمال صالحہ کا ذکر کردیتا ہوں جن میں خصوصیت کے ساتھ کامیابی کا ذکر کیا گیا ہے۔
ایمان کے ساتھ رب کی بندگی اور خیرکے کاموں کا انجام دینا کامیانی کا ذریعہ ہے ، اللہ کا فرمان ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ارْكَعُوا وَاسْجُدُوا وَاعْبُدُوا رَبَّكُمْ وَافْعَلُوا الْخَيْرَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ (الحج:77)
ترجمہ:اے ایمان والو! رکوع سجدہ کرتے رہو اور اپنے پروردگار کی عبادت میں لگے رہو اور نیک کام کرتے رہو تاکہ تم کامیاب ہوجاؤ۔
اس آیت میں اللہ نے عبادت کا حکم دینے کے لئے تین کلمے ذکر کئے ہیں جن سے اللہ کی بندگی کی اہمیت تاکید کے ساتھ اجاگر ہوتی ہے ، یہی وجہ ہے کہ قیامت میں نماز کی پوچھ بھی سب سے پہلے ہوگی اور جو نمازی ہوگا وہ نجات بھی پانےوالا ہوگا۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے :
إنَّ أوَّلَ ما يحاسبُ بِه العبدُ يومَ القيامةِ من عملِه صلاتُه فإن صلحت فقد أفلحَ وأنجحَ وإن فسدت فقد خابَ وخسرَ(صحيح الترمذي:413)
ترجمہ: قیامت کے روز بندے سے سب سے پہلے اس کی نماز کا محاسبہ ہو گا، اگر وہ ٹھیک رہی تو کامیاب ہو گیا، اور اگر وہ خراب نکلی تو وہ ناکام اور نامراد رہا۔
توبہ کرنے والا مومن کامیاب ہوگا، اللہ کا فرمان ہے:وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعًا أَيُّهَ الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ (النور:31)
ترجمہ: اور اے ایمان والو! تم سب اللہ کی جناب میں توبہ کرو تاکہ تم کامیاب ہوسکو۔
تقوی سے متعلق اللہ بیان کرتا ہے : وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ (البقرۃ:189)
ترجمہ: اور تم اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ تم کامیاب ہوسکو۔
اللہ تعالی تقوی ، اعمال صالحہ اور عقیدہ صحیحہ والے مومنوں کے بارے میں ارشاد فرماتاہے:
أُولَٰئِكَ عَلَىٰ هُدًى مِّن رَّبِّهِمْ ۖ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ(البقرۃ:5)
ترجمہ: یہی لوگ اپنے رب کی طرف سے ہدایت پر ہیں اور یہی لوگ فلاح اور نجات پانے والے ہیں ۔
نفس کا اخلاق رذیلہ اور دلوں کو شرک ومعصیت کی آلائشوں سے پا ک کرنا بھی کامیابی کا ذریعہ ہے ، اللہ فرماتا ہے :
قَدْ أَفْلَحَ مَن تَزَكَّىٰ (الاعلی:14) یعنی بے شک اس نے فلاح پالی جو پاک ہوگیا۔
خیروبھلائی کا حکم دینے والے اور برائی سے روکنے والے بھی کامیاب ہیں ، اللہ کا ارشاد ہے:
وَلْتَكُن مِّنكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ ۚ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ (آل عمران:104)
ترجمہ: تم میں سے ایک جماعت ایسی ہونی چاہئے جو بھلائی کی طرف بلائے اور نیک کاموں کا حکم کرے اور برے کاموں سے روکے اور یہی لوگ فلاح ونجات پانے والے ہیں ۔
نبی پر ایمان لانے والا ، آپ کی حمایت واتباع کرنے والا بھی کامیاب ہے، فرمان الہی ہے:
فَالَّذِينَ آمَنُوا بِهِ وَعَزَّرُوهُ وَنَصَرُوهُ وَاتَّبَعُوا النُّورَ الَّذِي أُنزِلَ مَعَهُ ۙ أُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ (الاعراف:157)
ترجمہ: جو لوگ اس نبی پر ایمان لاتے ہیں اور ان کی حمایت کرتے ہیں اور ان کی مدد کرتے ہیں اور اس نور کا اتباع کرتے ہیں جو ان کے ساتھ بھیجا گیا ہے ایسے لوگ پوری طرح فلاح پانے والے ہیں ۔
جو اللہ کی راہ میں خرچ کرتاہے اور نفس کی بخیلی سے بچتا ہے وہ بھی کامیاب ہے ، اللہ کہتا ہے:
وَأَنفِقُوا خَيْرًا لِّأَنفُسِكُمْ ۗ وَمَن يُوقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ (التغابن:16)
ترجمہ: اور اللہ کی راہ میں خیرات کرتے رہو جو تمہارے لئے بہتر ہے اور جو شخص اپنے نفس کی حرص سے محفوظ رکھا جائے وہی کامیاب ہے۔
کامیاب ہونے والے مومنوں کے، اوپر جو بھی اوصاف بیان کئے گئے ہیں وہ سب اعمال صالحہ سے متعلق ہیں یعنی ایمان کے ساتھ اعمال صالحہ کی انجام دہی کامیابی کا ذریعہ ہےساتھ ساتھ ہرقسم کے محرمات سے بھی بچنا ہے اور محرمات سے بچنا کامیاب ہونے والوں کی صفت ہے، اللہ کا فرمان ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ (المائدۃ:90)
ترجمہ: اے ایمان والو! بات یہی ہے کہ شراب اور جوا اور تھان اور فال نکالنے کے پانسے کے تیر یہ سب گندی باتیں ، شیطانئ کام ہیں ، ان سے بالکل الگ رہو تاکہ تم فلاح یاب ہوسکو۔
ان باتوں کا خلاصہ یہ ہوا کہ جو اللہ پر ایمان لاکراس کی بندگی کرے گا، اس کا تقوی اختیار کرے گا، ہدایت کے راستے پر گامزن رہے گا، توبہ کا التزام کرے گا، دلوں اور نفوس کو پاک کرے گا، امربالمعروف ونہی عن المنکر کا فریضہ انجام دے گا، رسول کی حمایت ومدد اور ان کی پیروی کرے گا، اللہ کی راہ میں خرچ کرتا رہے گا اور ہر قسم کے منکرات وسیئات سے بچتا رہے گا ایسا آدمی اللہ کی نظر میں کامیاب ہے ، آخرت میں اس کی نیکی کا پلڑا بھاری ہوجائے گا، جہنم سے بچا لیا جائے گا اور جنت میں داخل کیا جائے گا جو آخرت کی سب سے بڑی کامیابی ہے ۔ نیز جو ایمان میں داخل نہیں ہوگا یا برائے نام ایمان لاکر اعمال صالحہ سے دورہوگا، رب کی بندگی نہیں کرےگا، کفر وعصیاں کی راہ چلے گا، فحش ومنکرات کا ارتکاب کرے گا، حرام خوری اور حرام کاری میں ملوث ہوگا ، دنیا میں ظلم وفساد اور لہوولعب میں مگن شیطانی چال ڈھال والا ہوگا ایسے لوگوں کو ان کے بائیں ہاتھ میں جہنم کا پروانہ ملے گا اور گھسیٹتے ہوئے جہنم کی آگ میں پھینک دیا جائے گا، دراصل یہی لوگ دنیا میں خود کو کامیاب کہلانے والے تھے مگر آخرت میں انہیں منہ کی کھانی پڑے گی اور اپنی ناکامی کا دن اور اس کی سزا بھگتنی پڑے گی ۔
ایک آخری اور بہت اہم نکتہ بیان کرنا چاہتا ہوں کہ کیا اسلام دولت کمانے سے روکتا ہے ؟ کیا عہدومنصب حاصل کرنے سے منع کرتا ہے؟ کیا دنیاوی علوم کا حصول ممنوع ہے؟ کیا دنیا وی اور سائنسی ترقیوں میں مسلمان حصہ نہیں لے سکتے ہیں ؟ ان باتوں کا جواب یہ ہے کہ ہم دولت بھی کماسکتے ہیں، عہدہ ومنصب بھی حاصل کرسکتے ہیں، عصری علوم سے فیضیاب بھی ہوسکتے ہیں اور ترقی یافتہ سے ترقی یافتہ انسان اور سائنس داں بن سکتے ہیں بس ہمیشہ یہ خیال رہے کہ ہم مسلمان ہیں ، ایک مسلمان کی جو ذمہ داریاں ہیں وہ بنھاکر آپ دنیا کے وہ سارے کام کرسکتے ہیں جن سے اسلام نے ہمیں منع نہیں کیا ہےبلکہ ایک اچھا مسلمان چاہے تو تمام شعبہ حیات میں اپنی قوم کی مدد کرسکتا ہےمثلا ڈاکٹرغریب بیماروں کی مدد کرسکتا ہے، وکیل بے گناہ لوگوں کو بچا سکتا ہے اور سائنس داں مسلمانوں کے مفاد میں نئی سہولیات فراہم کرسکتا ہے وغیرہ۔
عموما لوگ دنیاوی کامیابیوں سے ڈھیر سارے پیسے کمانا چاہتے ہیں تاکہ عیش وعشرت کی زندگی گزار سکیں ۔ اسلام نے اپنے ماننے والوں کو دولت کمانے سے کبھی نہیں روکا ہے بلکہ اس کام پر ابھاراہےاورتجارت کے اصول بتائےہیں ۔حلال طریقے سے کوئی جس قدر دولت حاصل کرنا چاہے اس میں کوئی برائی نہیں ہے ۔ جیش عسرہ کی تیاری کے موقع پر عثمان رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ کی خدمت میں ایک ہزار دینار (چارکلوسے زائدسونے کی مقدار یعنی کروڑوں کی مالیت)پیش کئے تھے جس پر آپ نے فرمایا کہ آج کے بعد عثمان کو کوئی برائی نقصان نہیں پہنچائے گی۔آخر اس قدر مال عثمان کے پاس کہاں سے آئے ، یقیناوہ کمائے ہوں گے ، رسول اللہ نے ان کو زیادہ مال سے منع نہیں کیا بلکہ زیادہ خرچ کرنے کی وجہ سے خوش ہوئے ۔ آپ ذرا سوچیں مسلمان مال نہ کمائیں تو اسلام کا چوتھا رکن زکوۃ کا نظام کیسے قائم کیا جائے گا؟ فقراء ، مساکین، محتاجوں، بے واؤں، یتیموں ، مقروضوں اور ضرورتمندوں کی مدد کیسے کی جائے گی؟ مساجد کی کیسے تعمیر ہوگی، مدراس کیسے چلیں گے ؟جہاد پر کہاں سے خرچ کیا جائے گا اور علماء ومبلغین کی تنخواہ کا انتظام کیسے ہوگا؟ ان کے علاوہ بھی بہت سارے مالی مصارف ہیں۔ غرض یہ ہے کہ اسلام میں جائز طریقے سے پیسے کمانا کوئی معیوب نہیں ہے اور زیادہ سے زیادہ پیسے کمانے کے لئے بڑی سے بڑی ڈگری اور بڑا سے بڑا منصب حاصل کرسکتے ہیں بشرطیکہ آپ مسلمان رہیں ، اسلام کا تقاضہ پورا کرتے رہیں اور مال کو مستحق حضرات میں بھی خرچ کرتے رہیں ۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔