دودھاری
اور حاملہ جانور کی قربانی کا حکم
تحریر:
مقبول احمد سلفی
اسلامک
دعوۃ سنٹر، مسرہ ۔ طائف
جانور
کا دودھاری یا حاملہ ہونا قربانی سے مانع نہیں ہے اس لئے بلاشبہ دودھاری اور حاملہ
اونٹنی، گائے اور بکری بطور قربانی ذبح کرسکتے ہیں ، اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے ۔
عن
أبي سعيدٍ الخدري قالَ سألتُ رسولَ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليْهِ وسلَّمَ عنِ
الجنينِ فقالَ كلوهُ إن شئتُم . وقالَ مسدَّدٌ قلنا يا رسولَ اللَّهِ ننحرُ
النَّاقةَ ونذبحُ البقرةَ والشَّاةَ فنجدُ في بطنِها الجنينَ أنلقيهِ أم نأْكلُهُ
قالَ كلوهُ إن شئتُم فإنَّ ذَكاتَهُ ذَكاةُ أمِّهِ(صحيح أبي داود:2827)
ترجمہ:
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے
اس بچے کے بارے میں پوچھا جو ماں کے پیٹ سے ذبح کرنے کے بعد نکلتا ہے، آپ صلی اللہ
علیہ وسلم نے فرمایا: اگر چاہو تو اسے کھا لو۔ مسدد کی روایت میں ہے: ہم نے کہا:
اللہ کے رسول! ہم اونٹنی کو نحر کرتے ہیں، گائے اور بکری کو ذبح کرتے ہیں اور اس
کے پیٹ میں مردہ بچہ پاتے ہیں تو کیا ہم اس کو پھینک دیں یا اس کو بھی کھا لیں؟ آپ
صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: چاہو تو اسے کھا لو، اس کی ماں کا ذبح کرنا اس کا
بھی ذبح کرنا ہے۔
اس
حدیث سے ایک مسئلہ یہ معلوم ہوا کہ حاملہ جانور (اونٹنی ،گائے،بکری)کی قربانی کرنا
جائز ہے اور دوسرا مسئلہ یہ معلوم ہوا کہ حاملہ جانور کو ذبح کرنے کے بعد پیٹ سے
جو بچہ نکلے گا اس کو ذبح کرنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم نے بتایا کہ ماں کا ذبح کرنا گویا بچے کا بھی ذبح کرنا ہےاس لئے بچے کو ذبح کرنے
کی ضرورت نہیں ہے ، بغیر ذبح کے اسے کھاسکتے ہیں خواہ پیٹ سے زندہ باہر نکلے یا
مردہ ۔
اسی
طرح دودھاری جانور کی قربانی کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے ، بلا شک وشبہ دودھاری
جانور کی قربانی کرسکتے ہیں ۔ عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما بیان کرتے
ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
أمرت
بيوم الأضحى عيدا جعله الله عز وجل لهذه الأمة قال الرجل أرأيت إن لم أجد إلا
أضحية أنثى أفأضحي بها قال لا ولكن تأخذ من شعرك وأظفارك وتقص شاربك وتحلق عانتك
فتلك تمام أضحيتك عند الله عز وجل(سنن أبي داود:2789)
ترجمہ:
مجھے اضحیٰ کے دن کے متعلق حکم دیا گیا ہے کہ اسے بطور عید مناؤں جسے کہ اللہ
عزوجل نے اس امت کے لیے خاص کیا ہے ۔ ایک شخص کہنے لگا : بتائیے اگر میں بجز مادہ
اونٹنی یا بکری کے کوئی اور چیز نہ پاؤں تو کیا اسی کی قربانی کر دوں ؟ آپ ﷺ نے
فرمایا : نہیں ، تم اپنے بال کتر لو ، ناخن تراش لو ، مونچھ کتر لو ، اور زیر ناف
کے بال لے لو ، اللہ عزوجل کے نزدیک ( ثواب میں ) بس یہی تمہاری پوری قربانی ہے ۔
اس
حدیث کو شیخ البانی نے ایک راوی عیسی بن ہلال صدفی کی وجہ سے ضعیف کہا ہے مگر
دوسرے محدثین سے ان کی توثیق بھی ثابت ہے ۔
اس
حدیث میں " أضحية أنثى" یعنی مادہ قربانی کا ذکر ہے جبکہ سنن نسائی میں
دودھاری قربانی کا ذکر ہے ۔ الفاظ اس طرح وارد ہیں ۔
أرأيتَ
إن لم أجِدْ إلَّا مَنيحةً أنثى أفأُضحِّي بِها ؟(سنن النسائي:4370)
ترجمہ:اگر
میرے پاس سوائے ایک دو دھاری بکری کے کچھ نہ ہو تو آپ کا کیا خیال ہے؟ کیا میں اس
کی قربانی کروں؟
ان
دونوں حدیث سے بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دودھاری بکری کی
قربانی سے منع کیا ہے مگر بات ایسی نہیں ہے ۔ آپ نے صرف اس صحابی کو (جس کے پاس
گزربسرکے لئے ایک ہی مادہ یعنی دودھاری جانور تھا ) منع کیا تاکہ وہ اس جانور کے
دودھ سے فائدہ اٹھائے ۔ اگر اس کے پاس دوسرا جانور بھی ہوتا یا دوسری قربانی
خریدنے کی وسعت ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے ضرور دوسرے جانور کی قربانی کا
حکم دیتے ۔ تو یہ ایک خاص واقعہ ہے جو ایک خاص صحابی سے متعلق ہے ، آج بھی کسی کے
ساتھ ایسی صورت حال ہو تو اس کا بھی یہی حکم ہوگا۔
بعض
لوگوں کو شبہ ہوتا ہے کہ شریعت نے حاملہ جانور کی قربانی کی اجازت دی ہے جبکہ
دودھاری جانور سے منع کیاہے ، یہ حقیقت نہیں ہے اور مذکورہ حدیث سے یہ مفہوم نہیں
نکلتا ہے ۔ اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی کے پاس ایک ہی جانور ہو جو اس کی
ضرورت کے لئے ہو تو اس کی قربانی دینا اس کے ضروری نہیں ہےاور دودھاری جانور کی
قربانی بالکل جائز ہے ۔
اللہ
کی راہ میں پسندیدہ جانورقربان کرنا تو بہت اعلی معیار ہے ، اور دودھاری جانور
انسانی سماج میں قیمتی مانا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے
جانور کا ہدیہ دخول جنت کا سبب قرار دیا ہے ۔ آپ نے ارشاد فرمایا:
أرْبَعُونَ
خَصْلَةً أعْلَاهُنَّ مَنِيحَةُ العَنْزِ، ما مِن عَامِلٍ يَعْمَلُ بخَصْلَةٍ منها
رَجَاءَ ثَوَابِهَا، وتَصْدِيقَ مَوْعُودِهَا، إلَّا أدْخَلَهُ اللَّهُ بهَا
الجَنَّةَ(صحيح البخاري:2631)
ترجمہ:چالیس
خصلتیں جن میں سب سے اعلیٰ و ارفع دودھ دینے والی بکری کا ہد یہ کرنا ہے۔ ایسی ہیں
کہ جو شخص ان میں سے ایک خصلت پر بھی عامل ہوگا ثواب کی نیت سے اور اللہ کے وعدے
کو سچا سمجھتے ہوئے تو اللہ تعالیٰ اس کی وجہ سے اسے جنت میں داخل کرے گا۔
خلاصہ
کلام یہ ہے کہ حاملہ اور دودھاری جانور کی قربانی کرنا جائز ومشروع ہے اور حاملہ قربانی
کے بچے کو ذبح کرنے یا نہ کرنے میں اہل علم کے درمیان اختلاف ہے تاہم اللہ کے رسول
کےفرمان سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ بچے کو ذبح کرنا ضروری نہیں ہے ، اس کی
ماں کا ذبح کرنا ہی کافی ہے اور بغیرذبح کے اس بچے کا گوشت کھاسکتے ہیں ۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔
اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔