Tuesday, January 21, 2020

ہندوستانی مسلمانوں کی مصیبت کاسرحدپار سے مذاق اڑانا


ہندوستانی مسلمانوں کی مصیبت کاسرحدپار سے مذاق اڑانا
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
تحریر: مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹر طائف ، سعودی عرب

میں ایک سنجیدہ مزاج آدمی ہوں جو ہزار مخالف تبصروں پر بھی خموش رہنے میں ہی آج کے سوشل میڈیائی دور میں عافیت سمجھتا ہوں کیونکہ یہاں اکثرتنقیدبے جاوجارحانہ ہوتی ہے اور فائدہ کی بجائے نقصان پہنچتا ہے۔آپ بھی خموشی سے مثبت کام کرتے جائیں اورلایعنی تبصرہ نگاری میں وقت ضائع کرنے سے پرہیز کریں ۔
جب سے ہندوستان میں برسرے اقتدار جماعت نے سی اے اے نامی ایکٹ پاس کیا ہے تب سے اکثر ہندوستانی باشندوں( بشمول ہندوسکھ وغیرہ)میں بے چینی کی لہر پیدا ہوگئی ہے اور بے چین ہونا معقول بھی ہے ، پورے بھارت میں اس نظام کو نافذ کرنے کے لئے اس بات کی ضرورت ہے کہ سب کو اپنی اپنی شہریت ثابت کرنی ہوگی ، جو اپنی شہریت ثابت نہ کرسکے وہ مشکوک قرار پائے گا خواہ وہ مسلم ہویا ہندو، سزا جو مقرر ہوگی وہ الگ ایک بڑی مشکل ہے ۔ شہریت ثابت کرنے کے لئے پرانے دستاویزوکاعذات کی ضرورت ہے، بڑی مشکل یہ ہے کہ بہت سارے اصلی باشندوں کے پاس کاعذات نہیں مل سکیں گے اور پچاس فیصد سے زیادہ لوگوں کے آباؤ واجداد کے ناموں میں لفظی غلطیاں ملیں گی جس کی وجہ سے یہ لوگ بھی مشکوک قرار پائیں گے اس طرح ہندوستان کی آدھی سے زیادہ آبادی اپنی شہریت ثابت نہیں کر پائے گی ۔ قطاروں میں کھڑا ہونا، کاعذات مہیا کرنے میں بھاگ دوڑ کرنا اور رشوت کے نام پر لاکھوں روپئے خرچ کرنا وغیرہ پریشانیاں اپنی جگہ ہیں ۔ آسام میں شہریت کی چھان بین کی مثال سامنے موجود ہے ، ایک معمولی نوٹ بندی سے جانوں کا نقصان اور معاشی بحران جیسی کیفیت بھی سب کو معلوم ہے۔
انہی سب باتوں کی وجہ سے جب سے سی اے اے جیسا دستور مخالف نظام ایوان حکومت سے پاس ہوا ہے تب سے سارے مذاہب کے لوگ بے چیں ہیں،مسلمانوں کی بے چینی دیگرمذاہب سے کہیں زیادہ ہے اس وجہ سے گھروں میں سکون اختیار کرنے والی مسلم خواتین آج سڑکوں پر ٹھنڈی میں ٹھٹھر کر رات گزاررہی ہیں ۔کتنی آنکھوں میں آنسو چھلکتے دیکھا ہوں اور کتنی ماؤں کو روتے بلکتے دیکھا ہوں ، آخر کیوں نہ روئیں ؟ اپنے وجود کا مسئلہ ہے۔
ایک طرف ہندوستانی مسلمانوں کی یہ حالت زار کہ جان کے لالے پڑے ہیں تو دوسری طر ف شروع دن سے سرحدپار سےکچھ ناعاقبت اندیش ہندی مسلمانوں کی بے بسی پہ مستقل طور پر ہرزہ سرائی کرتے نظر آرہے ہیں ۔نہ جانے کیسے کیسے طعنے مولانا آزادرحمہ اللہ کو اور پورے ہندوستانی مسلمانوں کو دئے جارہے ہیں اور ان کا مذاق اڑایا جارہاہے ۔میں ان ناعاقبت اندیشوں کو بتا دینا چاہتا ہوں کہ ہندوستان کا ادنی سے ادنی مسلمان پاکستانی مسلمانوں پر آنے والی مصیبت پر کبھی مذاق نہیں اڑائے گا بلکہ ان کے حق میں دعائے خیرکیا ہے اور کرتا رہے گا۔ ابھی حال ہی میں اہل حدیث کی مسجد شہید کی گئی ہم نے افسوس کا اظہار کیا ، مذاق نہیں اڑایا کہ جناح کے اسلامی ملک میں اللہ کے مقدس گھر کو گرایا جارہاہے ۔ منفی پہلو تو ہرجگہ ملے گی مگر بات ہندوستان اور اسلامی ملک پاکستان کے موازنہ کی کی جائے تو یقینا پاکستان اسلام کے نام پر مات کھاجائے گا ۔ ہندوستان تو غیرمسلم ملک ہے مگر پاکستا ن جیسے اسلامی ملک میں شیعہ ڈنکے کی چوٹ پر کہے کہ اہل حدیث مدرسہ سے فارغ ہونے والا دہشت گرد ہے تو سوچنے کا مقام ہے ، نصاب تعلیم بدلنے کی بات کرے تو فکر کرنے کی بات ہے ۔ مزیدار بات تو یہ ہے کہ وہ شیعہ خود کواوربریلوی کو دہشت گردی سے بری کررہا ہے ۔ وہاں پر قادیانیوں ، عیسائیوں اور شیعوں کی غلاظتوں کے انبار لگے ہیں،احاطہ شمار میں لانا مشکل ہے ، ایک لفظ میں یہ کہاجائے گاکہ بس نام اسلامی ہے کام سب غیر اسلامی ۔
میں عرض کررہا تھا کہ اگر کسی پاکستانی بھائی پر کوئی مصیبت آتی ہے تو ہم اس کے دکھ میں شریک ہوتے ہیں مگر یہ کیا کہ جب ہم پر مصیبت آئی تو مذاق اڑانے لگے ، گالیاں دینے لگے ، طرح طرح کے الزام دھرنے لگے اور آنسوپوچھنے کی بجائے خوشی کے شادیاں بجانے لگے ۔ لاحول ولاقوۃ
ہندوستان تقسیم ہونا تھا سوہوگیااب آزاد اور جناح کی قبریں کھودنا بند کرو، یہ مردہ لاشیں ہیں انہیں اکھاڑنے سے کچھ نہیں ملے گا۔کچھ کرسکتے ہو تو مظلوم مسلمانوں کی مدد کرو، ان کے حق میں دعائے خیر کرو، ایک مسلمان کے ہونے کے ناطے مولانا آزاد کو برا بھلا مت کہواور شیعہ کے لئے مغفرت کی دعاکرنا بند کرو۔ ہندوستانی بھائیوں کا درد بانٹ نہیں سکتے تو زخم پہ نمک چھڑکنے کا کام بھی نہ کرو، بہت غیور ہو تو اپنے ملک کی ہی اصلاح کرلو۔ جس نظریہ تقسیم پہ نازاں وفرحاں ہواس نظریہ کو ہی پورا کرکے دکھادو، ملک میں اسلام نافذ کرسکو تو کرکے دکھادو، کم ازکم کسی مولوی کو ہی ملک کا حاکم بناکردکھادو ، اپنے ملک کو بت پرستوں اور ان کے بتکدوں سے پاک کرکے دکھادو۔ اللہ ، رسول ، بنات رسول ، ازواج رسول کے بارے میں نازیباباتیں کرنے والوں کی زبان کاٹ کر دکھادو ،کم ازکم زبان بند ہی کرکے دکھادو، کفریہ نشریات پہ پابندی لگاکردکھادو، قادیانیوں اور شیعوں کی گستاخ کتابوں اور تقریروں کو مٹا کر دکھادو، اسلامی ریاست بناکراسے غیرمسلموں سے پاک کرکے دکھادو،زنا کے اڈے اور مجروں کا بازار بند کرکے دکھادو۔کیا کیا بتاؤں ، بس نظریہ تقسیم پورا کرکے دکھادو ۔ یہ نہیں کرسکتے تو جناح کی تقسیم پر اتراتے کیوں ہو؟ جناح کے نظریہ پہ فخر کرتے کیوں ہو؟ کیا ہے جناح کا نظریہ ہے ؟ ہندوستان سے الگ ہوکر پاکستان نامی جگہ میں بس تعداد اکٹھی کرنا جہاں ربوہ جیسے بڑے شہر میں قادیانی کو بساؤ، حکومت کی بڑی بڑی کرسی پرشیعہ کو بٹھاؤ تاکہ بڑی بڑی گستاخیاں کرے ، ہندؤں کو بھی پالو ۔ جب تعداد ہی اکٹھی کرنی تھی تو ہندوستان میں اکٹھا رہنے میں کیا برائی تھی ؟
آخر میں ان تمام احباب سے معذرت کے ساتھ جن کی توقعات کے خلاف میری یہ تحریر ہے ،دراصل کئی دنوں سے کچھ سرحدی احباب کو خوشی مناتے دیکھتا آرہا ہوں،اسی سبب مجھے یہ لکھنا پڑا ۔ میرا اصل مخاطب ہندوستانی مسلمانوں کے غم پہ سرحدپارسے خوشی منانے والاہے مزید اس بات کی تاکید کے ساتھ کہ پاکستان کا مطلب لاالاالا اللہ یعنی کلمہ کو نافذ کرناہے، اس مطلب کو پورا کرسکے تو ہندوستانیوں کے غم پہ تمہاراخوشی منانا اس وقت میرے لئے افسوسناک نہیں ہوگا۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔