Thursday, January 31, 2019

حق کے حقیقی پاسبان ہم ہی ہیں





حق کے حقیقی پاسبان ہم ہی ہیں

آج دنیا میں مسلمانوں کی بہتات ہے مگر ان مسلمانوں کی تعداد زیادہ ہے جوقرآن کی اس آیت کے مصداق ہیں:
وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُم بِاللَّهِ إِلَّا وَهُم مُّشْرِكُونَ (یوسف:106)
ترجمہ:ان میں سے اکثر لوگ باوجود ایمان لانے کےبھی مشرک ہی ہیں۔
شرعت وبدعت میں پڑے مسلمان خود کو ہی راہ راست پہ گمان کرتے ہیں اور بڑے ڈھٹائی سے کفرو شرک پہ جمے ہوئے ہیں ، کوئی موحد اس نجاست پہ انہیں متنبہ کرے اور توحید وسنت کی سچی بات بتائے تو موحد پرہی کفروضلالت کا فتوی لگاتے ہیں ۔ ان مسلمانوں کی بھی تعداد بے پناہ ہے جو دامن سنت کو چھوڑ کر تقلید کی روش اختیار کئے ہوئے ہیں ۔ دنیا میں یہ دونوں قسم کے مسلمان تعداد میں بہت ہیں مگر اصل دین سے بہت دور ہیں ، امت کو ملفوظات بزرگاں اور اقوال اکابرین کی تعلیم کو کامیابی اور نجات کا ذریعہ بتلاتے ہیں جبکہ اللہ نے اپنی اور اپنے رسول کی اطاعت کرنے کو کامیابی کا ذریعہ قرار دیا ہے:
وَمَن يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا (الاحزاب:71)
ترجمہ:اور جو بھی اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا درحقیقت نے اس نے سب سے بڑی کامیابی حاصل کرلی۔
جب دنیا کی صورت حال ایسی ہو کہ ایمان لانے کے باوجود اکثریت کفروشرک میں مبتلا ہو، دین حنیف سے برگشتہ ہو، اتباع سنت سے کوسوں دور ہو اور محض محبت نبی کا کھوکھلا دعوی کرتے ہوں ، ایسے میں ہم سلفیان ہندوعالم کو اللہ کےبے پایاں فضل واحسان  کا احساس ہوتا ہے کہ اس نے ہمیں صراط مستقیم کی توفیق بخشی ہے، اسی کی توفیق سے ہمیں توحید کی نعمت ملی، سلف کا طریقہ ملا اور اتباع سنت کی راہ پر گامزن ہوسکے ۔
بلاشبہ حق ہمارے پاس ہے ، حق کے حقیقی پاسبان ہم ہی ہیں ، احقاق حق اور ابطال باطل کا اہم فریضہ ہم میں سے ہرفرد بشر کے کندھے پر ہے ، اس فریضے کا احساس ہمیں ہرآن ہو اور احساس کے ساتھ دعوت حق کی نشر واشاعت میں کمربستہ رہیں ۔ یہ کانٹوں بھری راہ ہے ، اس سے گزرنے کے لئےصبرو ثبات چاہئے ، کہیں راستے کی مشکلات ہمارے عزم وحوصلے کو کمزور نہ کردے ،اس کی بھی پرواہ کرتے رہیں۔
مجھے اس بات پہ بیحد خوشی ہے کہ جامعۃ التوحید کئی سالوں سے بھونڈی میں تعلیم کی شمع فروزاں کئے ہوا ہے ، صنعتی جگہ ہونے کی وجہ سے برسوں سے یہاں مسلمان معاشی جدوجہد میں مصروف ہیں ، ان لوگوں پر ہر قسم کی دعوتی محنت کی گئی۔تبلیغی جلسے ہوئے، تبلیغی گشت ہوا، تبلیغی چلے ہوئےمگرپھربھی یہ لوگ منہج سلف کی خوشبو سے محروم رہے ۔ اللہ ان تمام جیالوں کو اجرجزیل سے نوازے جنہوں نےیہاں پر دعوتی کارگزاریوں کا آغاز کیا اور آج ان سب کی ہمہ جہت کوششوں سے سلفیت کی کرن پھوٹ رہی ہے ۔ ایک طرف جامعہ اپنا نور برسارہا ہے تو دوسری طرف اس کا مجلہ علم کی روشنی بکھیر رہا ہے ۔ یہ جامعہ سدا حق کا محافظ پیدا کرتا رہے گا اور اس کے محافظین سدا خطابت  وصحافت کے ذریعہ ، حکمت وبصیرت کے ساتھ حق کا علم بلندکرتے رہیں گے ۔
جامعۃ التوحید کےسہ لسانی مجلہ التوحید میں بچوں کی قلمی کاوشیں دیکھ کردل خوشی سے جھوم اٹھا ، زباں سے باری تعالی کا شکر جاری ہوااور دل سے ان معصوم غنچوں کے لئے دعا نکلی۔ یقینا یہ مجلہ فقط اوراق نہیں ، سلفیت کا ترجمان ہے ، یہ نہ صرف بھونڈی میں بلکہ بہت دور تک، جہاں پہنچے وہاں تک سلفیت کی ترجمانی کرتا رہے گا اور لوگ اس کے قریب ہوتے رہیں گے ، اس طرح منہج سلف پھیلتا ہی رہے گا۔ ان شاء اللہ
جامعہ کے ذمہ داران سے لیکر مجلہ کے سرپرست ومشرف تک قابل قدرہیں ،مجھے قوی امید ہے کہ ان سب کی کوششیں دن بدن رنگ لاتی رہیں گی،جامعہ کی ترقی اور اس کی خوبی دوچند ہوتی رہیں گی اور اس سے فارغ ہونے والے طلبا ء شر ک وبدعت کی تاریک شبوں میں علم وحکمت کی روشنی جلاتے رہیں گے ۔
اپنے تاثرات کے اختتام پہ ادارے کے جملہ کارکنان کو ان کی دینی خدمات پہ تہ دل سے مبارکباد پیش کرتاہوں اور صحافتی کیرئرکے سرپرست شیخ رشید عبدالسمیع سلفی اور شیخ شفیق الرحمن سلفی صاحبان کی خدمت میں گلہائے عقیدت ومحبت کے پھول نچھاور کرتا ہوں ۔ میرے شکریہ کا مستحق عزیزم عبدالمتین عبدالحمید خان بھی ہیں جنہوں نے مجھے یاد کیا اور چندسطریں زیب قرطاس کرنے کی فرمائش کی ۔ اللہ تعالی اس ادارے اور اس کی جملہ شاخوں کی حفاظت فرمائے ۔ اس کے جملہ کارکنان کو مزید ہمت وحوصلہ دے اور شرپسندوں کی شرانگیزی سے اپنی پناہ میں رکھے ۔ آمین

بقلم
مقبول احمد سلفی
داعی ومبلغ / دفترتعاونی برائے دعوت وارشاد ، مسرہ (طائف) سعودی عرب

مکمل تحریر >>

Thursday, January 24, 2019

ویسٹیج مارکیٹنگ میں ممبرسازی کا شرعی حکم


ویسٹیج مارکیٹنگ میں ممبرسازی کا شرعی حکم

مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹر،شمالی طائف (مسرہ)

اس وقت ویسٹیج (Vestige) نامی نٹورک مارکٹنگ کا لوگوں میں بڑا چرچا ہے ، کئی سالوں سے یہ کمپنی ملٹی لیول تجارت کے میدان میں کام کررہی ہے ، عوام کی اکثریت اس کمپنی پر اعتماد رکھتی ہے اور ایک کثیر تعداد میں اس سے جڑ کر پیسے کمارہی ہے ۔ غیرمسلموں کے طرح مسلمانوں کی بھی بڑی تعداد اس سے جڑ کر اپنی معاشی حالت بہتر بنانے میں مصروف ہے بلکہ بعض مسلمانوں کا کہنا ہے اس بزنس سے منسلک ہوکر ہم اپنے اہل خانہ کی کفالت بہتر انداز میں کر رہے ہیں ۔
اسلام ہمیں تجارت کرنے سے نہیں روکتا ، اسلام معاشی حالت بہتر بنانے سے نہیں روکتا اور نہ ہی اہل خانہ کی بہترطور پر کفالت کرنے سے روکتا ہے تاہم اسلام نے ہمیں فطری نظام زندگی دیاہے جس میں اللہ اور اس کے رسول نے تجارت کے صاف ستھرے اصول بتلائے ہیں ۔ یقینا اسلام کے پاکیزہ تجارتی اصول میں ہی زندگی کی حقیقی سعادت، فردوجماعت کی اصل کامیابی اور دنیا کے ساتھ آخرت کی بھی بھلائی ہے۔اسلام ہمیں کسب معاش کے لئے محنت پر ابھارتا ہے ، اسے شرف اور فضیلت کا مقام دیتا ہے ، محنت بھی جائز طریقے سے کرنی ہوگی تبھی روزی پاکیزہ اور حلال ہوگی ورنہ ناجائز طریقے سے انتھک محنت کرکے حاصل کی گئی روزی حرام ہوگی ۔
ویسٹیج کا جتنا شہرہ ہے اس کے بارے میں لوگوں میں اور انٹرنیٹ پہ اتنی ہی باتیں پھیلی ہوئی ہیں ۔ میں نے اس کمپنی کو کے اصول و مقاصد کوجاننے کی کوشش کی اور اس کے طریقہ کار کا جائز لیا تو وہی کچھ خامیاں جو میں نے ملٹی لیول کمپنی کے متعلق سابقہ مضمون میں بیان کیا ہے پائی ہے کیونکہ یہ بھی ممبر سازی والی کمپنی ہے اور ظاہر سی بات ہے کہ ممبر سازی کے جو بنیادی اصول ہیں وہ ہر ایسی کمپنی میں پائی جائے گی ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کمپنی کے پاس اپنے کچھ پراڈکٹس ہیں جن کے سہارے یہ کمپنی چلائی جارہی ہے ۔ دعوی کرنے والے ممبران نے کچھ سو کی تعداد تو کچھ دو سو کی تعداد تک بتلائی ہے ۔لوگوں کو نظر بھی آتا ہے کہ یہ کمپنی اپنے پراڈکٹس کی تجارت کررہی ہے۔اس کمپنی سے جڑتے وقت کوئی فیس وصول نہیں کی جاتی ، بغیر فیس کے اور بغیر کوئی شرط لگائے ممبر کا اکاؤنٹ کھول دیا جاتا ہے ۔ اب یہ ممبر ویسٹیج سے تجارت کرکے پیسہ کمانا چاہتا ہے ۔ ویسٹیج سے جڑکرمال کمانے کے دو طریقے اہم ہیں ۔
٭پہلا طریقہ تو یہ ہے کہ جب وہ اس کمپنی کا ممبر بنا ہے تو ظاہر سی بات ہے وہ یا تو سامان خرید کرے گا یا ممبر سازی کرے گا۔ گوکہ یہ اختیاری ہے مگر اور کوئی آبشن بھی نہیں ہے ۔ سامان خرید نے پہ کچھ چھوٹ ملتی ہے اور کچھ بونس پوائنٹ ملتے ہیں ۔ پھر اس خریدے گئے سامان کو یا تو خود استعمال کرتا ہے یا مارکیٹ میں بیچ کر کچھ نفع کمانا چاہتا ہے۔
٭ دوسرا سب سے بڑا منافع کمانے کا طریقہ ممبر سازی کرنا یعنی وہ لوگوں میں اس کمپنی اور اس کی تجارت کی تشہیر کرکے انہیں اس سے جوڑے ۔ کسی نے مثلا چھ آدمی جوڑے تو ان چھ آدمی کی کمپنی سے خرید پہ منافع کا کچھ کمیشن جوڑنے والے کوملے گا۔ یہ چھ اشخاص پھر اپنے ساتھ چھ چھ آدمی کو جوڑتے ہیں تو ان سب کی خرید کے منافع کا کمیشن پہلے شخص کو بھی ملے گا۔ اس طرح جس قدر لیول بنتے جائیں گے سارے لیول کے منافع کا کمیشن اول شخص کو بھی ہمشہ آتا رہے گا حتی کہ وہ مر جائے تب بھی ۔
اس مارکیٹ میں امیر بننے اور اچانک غریبی دور کرنے کا جو نیا نیا فارمولہ لوگوں کو بتایا جاتا ہے اس جھانسے میں آکرلوگ اس کا ممبر بن جاتے ہیں اور ایک دفعہ ممبر بننے کے بعد یاتو وہ کمپنی کا پراڈکٹ خریدے گا ، سامان نہیں خریدنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کیونکہ ممبر بنا ہی جاتا ہے سامان خریدنے کے لئے ورنہ تجارت کس نام کی ۔ مارکیٹ ریٹ سے کئی گنا مہنگے سامان خرید نے سے ممبر کو فائدہ نہیں بہت زیادہ نقصان اٹھانا پڑتا ہے مگر یہ نقصان دراصل امیر بننے کے لالچ میں برداشت کیا جاتا ہےاور اس بات کو عام لوگوں پرمخفی رکھا جاتا ہے ۔ جن اشیاء کی ضرورت نہیں ، وہ بھی مہنگے داموں پر کمپنی سے خرید کر ممبر اپنا پوائنٹ بڑھانا چاہتا ہے ۔ یہاں ایک ممبر ،ممبر نہیں رہ جاتا ،انوسٹر بن جاتا ہےپھر بھی کمپنی کی نظر میں کسٹمر ہی کہلاتا ہے۔ اشیاء کی خریدوفروخت سے حاصل شدہ پوائنٹ، کمیشن اور چھوٹ معمولی ہوتی ہے اصل منافع تو ممبر سازی میں ہے ۔ ایک بار چند ممبر بنالئے پھر گھر بیٹھے بلامحنت منافع آتا رہتا ہے ۔
ویسٹیج سے مسلمان بھی بڑی تعداد میں جڑے ہیں ، ان کے جڑنے کی وجہ یہ خوش فہمیاں ہیں کہ مرکزی جمعیت علمائے ہنداور دبئی حلال مراکز نے اس کمپنی کی تصدیق کی ہےیعنی یہ کمپنی حلال سرٹیفائیڈ ہے۔یہ بھی کہنا ہے بہت سارے مسلمان اس سے جڑے ہوئے ہیں اورآج تک مسلمان علماء کی طرف سے اس کی مخالفت نہیں ہوئی ہے ۔ خوش فمہیوں میں مزید اضافہ کرنے والا دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤکا فتوی ہے جس میں اس بزنس کو حلال اوراس سے مسلمانوں کے جڑنے کو جائز کہا گیاہے ۔
میں ان مسلمانوں بھائیوں کو بتلانا چاہتا ہوں کہ ویسٹیج کے تعلق سے اپنی خوش فہمی ختم کریں اور حلال طریقے سے روزی کمائیں ، اللہ نے زمین بہت کشادہ بنائی ہے ، اس روئے زمین پر روزی کمانے کے لاکھوں جائز ذرائع آمدنی ہیں ۔
مسلمانوں کی خوش فہمیوں سے متعلق پہلی بات یہ ہے کہ مرکزی جمعیت علمائے ہنداور دبئی حلال مراکز نے ویسٹیج کے پراڈکٹس کو حلال کہا ہے ، یہ نہیں کہا ہے کہ پراڈکٹس بیچنے کا طریقہ بھی حلال ہے۔ اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے اور جہاں تک ندوہ کے فتوی کی بات ہے تو سائل نے فتوی میں چالاکی سے سوال کیا ہے ،کمپنی کی حقیقی صورت حال کا ذکر نہیں کیا ہےاور مفتی صاحبان نے بھی تحقیق کرکےجواب دینے کی بجائے عجلت سے کام لیا ہے ۔ بہرکیف ! تازہ اطلاع کے مطابق ندوہ نے سابقہ فتوی سے رجوع کرلیا ہے اور بعد میں اس کمپنی سے پرہیز کرنے کی صلاح دی ہے ۔دارالعلوم دیوبند نے بھی ویسٹیج سے جڑ کر ممبرسازی کے ذریعہ منافع کمنانے کو جائز نہیں کہا ہے ۔
آئیے میں آپ کو ویسٹیج سے جڑنےکی شرعی حیثیت بتاؤں ، اگر آپ اس کمپنی کا ممبر بن کر صرف سامان کی خریدوفروخت تک اپنے آپ کو محدود رکھتے ہیں اور کسی قسم کی غلط تشہیر میں حصہ نہیں لیتے ہیں تو یہاں تک معاملہ درست ہے مگر کوئی بھی ممبر ملٹی لیول کمپنی میں ممبرسازی سے باز نہیں رہ سکتا ، آخر اسی میں امیر بننے کا نسخہ ہے اور اس بات کے جھانسے میں آکر کمپنی میں شمولیت اختیار کیا گیاہے ۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی ممبر اس کمپنی کے سستے اور بلاکام والاسامان مہنگے داموں میں خرید کر تا رہے جبکہ بازا ر میں اس سے کئی گنا سستا سامان موجود ہے ؟
ممبرسازی کے ذریعہ پیسہ کماناپہلے لیول تک تو جائز ہے جن کو خود سے بلاواسطہ کمپنی کا ممبر بنایا ہے لیکن انہوں نے جن لوگوں کو ممبر بنایا ہے یا ان کے بعد والے جن کو ممبر بنائیں گے ان لوگوں کے منافع سے کمیشن لینا جائز نہیں ہے ۔ شریعت کی رو سے منافع کی جائز تین صورتیں بنتی ہیں ۔ (1)یاتو ہم نے کاروبار میں رقم لگائی ہو اور محنت بھی کرتے ہوں ، یہ شرکت ہے (2)یا صرف رقم لگائی ہو محنت کوئی دوسراکرے، یہ مضاربت ہے۔(3) یا بغیر رقم کے محنت کرتے ہوں اسے اجارہ یعنی مزدوری کہتے ہیں ۔ممبرسازی کا تعلق اس تیسری قسم ہے ۔ اس لحاظ سے اپنی محنت کی مزدوری صرف پہلے لیول تک ہی جائز ہے اس کے بعد والے مرحلوں کا منافع اورکمیشن لینا ناجائز ہے ۔
ویسٹیج کی مزید چند خامیاں آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں تاکہ اس کے نقصانات سے ایک مسلمان باخبر رہے اور خود کو اس کمپنی سے الگ رکھے ۔
(1) دنیا بھر کی ملٹی لیول کمپنیاں اپنے سے جوڑ نے کے لئے جھوٹے قصے ، بناوٹی کہانی اور لفاظی کے ذریعہ لوگوں کو اپنا شکار بناتی ہیں ، یہ کمپنیاں اپنے ممبران کو اسکی ہی اصل ٹریننگ دیتی ہیں کہ لوگوں کو کیسے کنونس کرنا ہے اور کس طرح کمپنی جوائن کروانا ہے ؟ گاؤں والوں کو کیسے پھنسانا ہے اور شہریوں کو کیسے لبھانا ہے؟ ویسٹیج کی ہزاروں ویڈیوز یوٹیوب پر دستیاب ہیں جہاں لوگوں کو اپنا شکار بنانے کے طرح طرح کے فارمولے بیان کئے گئے ہیں۔دنیا کی گھٹیا سے گھٹیا تجارتی کمپنی (جو ملٹی لیول نہ ہو)اپنا سامان فروخت کرنے کے لئے ایسے حربے نہیں اپناتی ۔
(2) یہ صحیح ہے کہ ویسٹیج کے پاس ذاتی پراڈکٹس ہیں بظاہر اسی کی تجارت نظر آتی ہے اور حکومت سے رجسٹرڈ کرانے کے لئے بھی کوئی نہ کوئی ثبوت دینا پڑے گا ، یہ پراڈکٹس حکومت کی نظر میں تجارتی ثبوت ہیں تاہم اس کے تمام ممبران کی توجہ کا مرکزاصیل فقط ممبر سازی ہے۔گویا برائے نام تجارت ہے اس کے پس پردہ لوگوں کا مال باطل طریقے سے کھایا جارہا ہے ۔
(3) کمپنی اور اشیاء کی تشہیر میں جھوٹ، فریب، غلو، ملمع سازی اور انوکھے خواب بیان کئے جاتے ہیں حتی کہ دباؤ تک بنایا جاتا ہے۔اسلام میں نہ اس طرح کوئی سامان فروخت کرنے کی اجازت ہے اور نہ ہی کسی کمپنی کی اس طرح تشہیر کرنے کی اجازت ہے۔
(4) ممبرسازی کے ذریعہ ایک طرح سےپورے شہر اور ملک کو یرغمال بنانے کی کوشش ہے ،اس نٹورک مارکیٹ سے جڑنے والا پھر دوسرے تمام مارکیٹ سے محروم ہوجاتا ہے یا یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ شہر اور ملک کی تمام تجارت کے لئے نقصان دہ ہے ۔
(5) جس طرح آدمی جوا میں پیسہ لگاتا جاتا ہے تاکہ کبھی نہ کبھی اچانک امیر بن جائے گا اسی طرح اس کے ممبران لالچ میں ہرماہ زیادہ سے زیادہ کمپنی کے پراڈکٹس خریدتے ہیں حالانکہ انہیں ان کی ضرورت نہیں ہوتی ہے محض لالچ اسے یہ سامان خریدواتا ہے۔
(6) اگر کوئی ممبر کمپنی سے آن لائن سامان خریدتا ہے اور اس سامان پر قبضہ کرنے سے پہلے فروخت کردیتا ہے تو یہ صورت بھی جائز نہیں ہے ، اس کو مثال سے ایسے سمجھیں کہ کسی ممبر نے ویسٹیج کا کوئی پراڈکٹ بک کرایا پھر اس سامان پر اپنا قبضہ کرنے سے پہلے ہی کسی دوسرے کے ہاتھ بیچ دیتا ہے۔
(7) ویسٹیج کے بہت ہی موٹیویشنل مانے جانےوالےاسپیکراجے شرما کا کہنا ہے کہ ایک شخص کی وفات کے بعدبھی اس کی بیوی کو سترہ لاکھ کا چیک ملاکیونکہ اس نے ممبروں کا جال بنا تھاگویا ممبرسازی کا کمیشن لامحدود ہے ۔جو مسلمان بھائی یہ کہتے ہیں کہ ہم کو کمپنی صرف آٹھ یا نو لیول تک کمیشن دیتی ہے کیونکہ ہماری محنت ان لیول تک ہی محدود رہتی ہے سراسر جھوٹ ہے۔ بھلا ایک شخص مرنے کے بعد کیا محنت کرتا ہے؟
(8) ممبرسازی کے علاوہ لالچ میں مہنگے سامان کی خرید پہ ممبر جتنا پیسہ سال بھر ضائع کرتا ہےاس سے اپنی کوئی چھوٹی موٹی تجارت شروع کرسکتا ہے۔
(9) جو لوگ سمجھتے ہیں کہ ویسٹیج کے ذریعہ ہم اچانک امیر ہوجائیں گے وہ بڑی بھول میں واقع ہیں اور جھوٹے لوگوں کی جھوٹی تسلی میں پڑے ہوئے ہیں ، وہ کم ازکم اس کمپنی کے سب سے زیادہ مشہور اور موٹیویشنل مانے جانے والے اسپیکر اجے شرما کے بیانات سن لیں کہ کامیابی کے لئے کس قدر محنت چاہئے ؟ جب ویسٹیج کے ذریعہ کمانے کے لئے اس کا ممبر بن کر اپنے پیسے سے آفس کھولناہے، اپنے پیسے سے پراڈکٹس خریدنا ہے اور انتھک محنت کرنی ہے تو پھر کیوں نہ ذاتی تجارت کھول لیں یا کسی حلال تجارت کی ایجنسی لے لیں ، ممکن ہےآمدنی کم ہو مگر جائز اور حلال تو ہوگی۔
(10) ایک بات اور آپ بتادوں کہ ملٹی لیول کمپنیوں میں کامیابی چند لوگوں کو ملتی ہے ، ویسٹیج کے ممبران ستر لاکھ سے زائد ہیں اور اس کمپنی کی ویب سائٹ پہ سولہ لوگوں کی کامیابی کا معمولی ذکر ملے گا، بقیہ انہتر لاکھ ننانوے ہزار نو سو چوراسی کی کامیابی کا کوئی ذکر نہیں ملے گا۔ مہینوں میں لاکھوں اور کروڑوں کمانے والے دو ایک ہوں گے باقی سارے لاکھوں ممبران انوسٹ کررہے ہیں اور کڑی محنت کررہے ہیں مگروہ کامیابی ان کے حصے میں نہیں ہے۔ یہ دولت کی غیر منصفانہ تقسیم ہے جو سرمایہ دارانہ نظام میں پائی جاتی تھی پھر اشتراکیت نے مساوات کا نعرہ لگایا اور وہ بھی اپنی موت آپ مرگئی ۔ اسلامی نظام معیشت کی خوبی ہے کہ اس میں سرمایہ دارانہ نظام کی طرح نہ دولت کی غیرمنصفانہ تقسیم ہے اور نہ ہی اشتراکیت کی طرح مساوات کا ناقابل قبول دعوی بلکہ اسلام ان دونوں کے بیچ لوگوں کے درمیان عدل کے ساتھ اعتدال وتوازن قائم کرتا ہے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے : كَيْ لَا يَكُونَ دُولَةً بَيْنَ الْأَغْنِيَاءِ مِنكُمْ ۚ(الحشر:7)
ترجمہ: تاکہ تمہارے دولت مندوں کے ہاتھ میں ہی مال گردش کرتا نہ رہے ۔
ان ساری باتوں کے بعد آخر ی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ویسٹیج سے جڑ کر ممبرسازی کے ذریعہ پیسہ کمانا مسلمانوں کے لئے جائز نہیں ہے لہذا ہمیں اس سے نہیں جڑنا چاہئے ،ہاں اس کمپنی سے کوئی آدمی حلال فوڈ یا حلال پراڈکٹ خریدتا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے ۔
مکمل تحریر >>

Sunday, January 20, 2019

بنت حوا کے مسائل اور ان کا شرعی حل (نویں قسط)


بنت حوا کے مسائل اور ان کا شرعی حل (نویں قسط)

جوابات ازشیخ مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹر ،شمالی طائف (مسرہ)

سوال(1):تہجد کی نماز میں کون سی دعا پڑھی جائے گی؟
جواب : تہجد کی نماز کے لئے نبی ﷺ سے کوئی خاص دعا وارد نہیں ہے ، یہ رات کی عموما طویل نماز ہے ، اس نماز میں رب سے جو چاہیں مانگیں ،جتنی چاہیں رات کے اندھیرے میں اپنے خالق ومالک کے سامنے آنسو بہائیں ۔ اللہ رات میں بندوں کو خوب نوازتا ہے بلکہ رات میں اپنے بندوں کو پکارتا ہے کہ ہے کوئی مانگنے والا؟ تہجد کی نماز کے لئےدعائے استفتاح کا ثبوت ملتا ہے ، وہ یہ ہے :
«اللهم لك الحمد،‏‏‏‏ أنت نور السموات والأرض ومن فيهن،‏‏‏‏ ولك الحمد أنت قيم السموات والأرض ومن فيهن،‏‏‏‏ ولك الحمد،‏‏‏‏ أنت الحق ووعدك حق،‏‏‏‏ وقولك حق،‏‏‏‏ ولقاؤك حق،‏‏‏‏ والجنة حق،‏‏‏‏ والنار حق،‏‏‏‏ والساعة حق،‏‏‏‏ والنبيون حق،‏‏‏‏ ومحمد حق،‏‏‏‏ اللهم لك أسلمت وعليك توكلت وبك آمنت،‏‏‏‏ وإليك أنبت،‏‏‏‏ وبك خاصمت،‏‏‏‏ وإليك حاكمت،‏‏‏‏ فاغفر لي ما قدمت وما أخرت،‏‏‏‏ وما أسررت،‏‏‏‏ وما أعلنت،‏‏‏‏ أنت المقدم وأنت المؤخر لا إله إلا أنت»
ترجمہ:اے اللہ! تیرے ہی لیے تمام تعریفیں ہیں تو آسمان و زمین اور ان میں موجود تمام چیزوں کا نور ہے، تیرے ہی لیے تمام تعریفیں ہیں تو آسمان اور زمین اور ان میں موجود تمام چیزوں کا قائم رکھنے والا ہے اور تیرے ہی لیے تمام تعریفیں ہیں، تو حق ہے، تیرا وعدہ حق ہے، تیرا قول حق ہے، تجھ سے ملنا حق ہے، جنت حق ہے، دوزخ حق ہے، قیامت حق ہے، انبیاء حق ہیں اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حق ہیں۔ اے اللہ! تیرے سپرد کیا، تجھ پر بھروسہ کیا، تجھ پر ایمان لایا، تیری طرف رجوع کیا، دشمنوں کا معاملہ تیرے سپرد کیا، فیصلہ تیرے سپرد کیا، پس میری اگلی پچھلی خطائیں معاف کر۔ وہ بھی جو میں نے چھپ کر کی ہیں اور وہ بھی جو کھل کر کی ہیں تو ہی سب سے پہلے ہے اور تو ہی سب سے بعد میں ہے، صرف تو ہی معبود ہے اور تیرے سوا کوئی معبود نہیں۔
 اس دعاکے متعلق بخاری میں مذکور ہے : حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا:
كان النبيُّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم إذا قام منَ الليلِ يتهَجَّدُ قال : اللهمَّ لك الحمدُ،،،،،(صحيح البخاري:1120)
ترجمہ: نبی ﷺ جب رات کے وقت تہجد پڑھنے کے لیے کھڑے ہوتے تو یہ دعا پڑھتے:اللهم لك الحمدُ,,,,,
صحیح بخاری میں دوسری جگہ یہ الفاظ ہیں :كان النبيُّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم يدعو من الليلِ : ( اللهم لك الحمدُ,,,,,(صحيح البخاري:7385)
اس کا معنی بھی قریب قریب ہے کہ نبی ﷺ رات میں یہ دعا پڑھتے :اللهم لك الحمدُ,,,,,
صحیح ابن خزیمہ میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ہی مذکور ہے :كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا قام للتهجد قال بعد ما يكبر : اللهم لك الحمد،،،(صحیح ابن خزیمۃ:1152)
ترجمہ: رسول اللہ ﷺ جب تجہد کی نماز کے لئے کھڑے ہوتے تو تکبیر کے بعد کہتے:اللهم لك الحمد،،،
اس پہ امام ابن خزیمہ نے باب باندھا ہے :((باب ذكر الدليل على أن النبي إنما كان يحمد بهذا التحميد ويدعو بهذا الدعاء لافتتاح صلاة الليل بعد التكبير لا قبل))
ترجمہ: اس بات کے ذکر میں کہ نبی ﷺ تکبیر کے بعد ، نہ کہ اس سے پہلے اس حمد اوردعا کے ساتھ تہجد کی نماز کا افتتاح کرتے ۔
اب بات واضح ہوگئی کہ نبی ﷺ تہجد کی نماز شروع کرتے تو دعائے استفتاح کے طور پر مذکورہ ثنا کے ذریعہ اللہ سے دعا کرتے ، اگر کوئی اس کے علاوہ بھی ثنا پڑھتاہے تو کوئی حرج نہیں ہے ۔
سوال(2):گھر میں جمع ہوکر عورتیں نماز جنازہ جماعت سے ادا کر سکتی ہیں ؟
جواب : عورتیں بھی میت کا جنازہ پڑھ سکتی ہیں ۔ حضرت ابوسلمی بن عبدالرحمن روایت کرتے ہیں کہ جب سعد بن وقاص رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: ادخُلوا به المسجدِ حتى أصليَ عليه(صحيح مسلم:973)
ترجمہ: سعد کا جنازہ مسجد میں لاؤ تاکہ میں بھی نماز جنازہ ادا کرسکوں ۔
عورتوں کی افضل نماز تو گھر میں ہی ہے ، اس لحاظ سے عورتیں میت کے غسل اور کفن کے بعد جمع ہوکر جماعت سے میت کی نماز جنازہ گھر ہی میں پڑھ لے تو کوئی حرج نہیں اور وہ مردوں کے ساتھ مسجد میں ادا کرنا چاہے تو بھی کوئی حرج نہیں ہے جیساکہ اوپر والی حدیث عائشہ گزری جس سے مسجد میں عورت کا نماز جنازہ پڑھنا ثابت ہوتا ہے۔
اس بارے میں شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے سوال کیا گیا کہ کیا عورتوں کے لئے جائز ہے کہ گھر کی ساری عورتیں جمع ہوکر گھر ہی میں میت کی نماز جنازہ پڑھ لے؟
توشیخ رحمہ اللہ نے جواب کہ کوئی حرج نہیں عورتیں نماز جنازہ مردوں کے ساتھ مسجد میں ادا کرے یا جنازہ والے گھر میں ادا کرلے کیونکہ عورتوں کو نماز جنازہ پڑھنے سے منع نہیں کیا گیا بلکہ قبروں کی زیارت کرنے سے منع کیا گیا ہے ۔ (مجموع فتاوى ابن عثيمين:17/157)
سوال(3):عورت کے سجدہ کا طریقہ کیا ہے ؟
جواب :عورت اور مرد کی نماز یعنی قیام ، رکوع اور سجود  وغیرہ میں کوئی فرق نہیں ہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے مردوعورت دونوں کے متعلق حکم فرمایا کہ تم لوگ اسی طرح نماز پڑھو جس طرح مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھتے ہواور سجدہ کرنے کا جو طریقہ ہمیں رسول نے بتلایا ہے اس میں مردوعورت کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے ۔ احناف کے یہاں عورتوں کے سجدہ میں بازو بند اور پیٹ کو رانوں سے لگایا جاتا ہے ۔ اس بات کی کوئی دلیل نہیں سوائے اقوال رجال کے ۔ سجدہ آٹھ اعضاء پر کئے جائیں ، ناک زمین سے سٹی ہو، بازو اپنے پہلوؤں سے الگ اور ہاتھ کندھے کے برابر زمین پر ہوحتی کہ سجدہ میں آپ کے بغل کی سفیدی ظاہر ہوتی، بازؤں کے درمیان سے ایک بکری گزرنے کی جگہ ہوتی ۔ سجدہ کی حالت میں کتے کی طرح بازو بچھانے سے منع کیا گیا ہے ۔ سجدہ کی یہی کیفیت مردوں کے لئے ہے اور یہی کیفیت عورتوں کے لئے ہے ۔ جو لوگ عورتوں کے لئے زیادہ پردہ کی بات کرتے ہوئے کتے کی طرح بازو بچھانے کا حکم دیتے ہیں وہ حدیث کی مخالفت کرتے ہیں اور وہ سن لیں کہ پردے کا جوحکم رسول اللہ ﷺ بتلاگئے وہی مومنہ کے لئے مناسب ہے ۔دوسری بات یہ ہے کہ عورتوں کا جو اسلامى لباس ہے اس میں بدن کا کوئی عضو نمایاں نہیں ہوگا خواہ نماز ہو یا غیرنماز ، اسی طرح تیسری بات یہ ہے کہ عورتوں کی افضل نماز اس کے گھر میں ہے جس میں سب سے زیادہ پردہ ہے اور مردوں کے ساتھ سب سے پچھلی صف ہے ۔ اسلام کی یہ تعلیمات عورتوں کے حق میں کافی وافی ہیں ۔
سوال(4):بیوی وفات پاجائے اور شوہر نے مہر ادا نہ کیا ہو تو کیا کرے یا شوہر وفات پاجائے اس حال میں کہ اس نے بیوی کا مہر ادا نہیں کیا ہے تو مہر کی ادائیگی کیا صورت ہوگی ؟
جواب: بیوی کی وفات ہوجائے اس حال میں کہ شوہر نے مہر ادا نہیں کیا تھا تو وہ وارثین کا حق ہے ،مرد سے مہر کا مطالبہ کرکے میت کے وارثین میں تقسیم کردیا جائے اور اگر شوہر وفات پاجائے اس حال میں کہ اس نے مہر ادا نہیں کیا تھا تو میت کے ترکہ میں سے بیوی اپنا مہر پہلے وصول کرلے پھر بقیہ ترکہ وارثین میں تقسیم ہوگا۔
سوال(5):اگر کوئی عورت اکسڈنٹ میں وفات پاجائے تو اسے شہید کہا جائے گا؟
جواب : اکسڈنٹ میں قتل ہونے والا ڈوب کر مرنے والے اور ملبے میں دب کر مرنے والے کی طرح ہے اور رسول اللہ ﷺ نے ڈوب کرمرنے والے اور ملبے میں دب کر مرنے والے کو شہید کہا ہے ، اس وجہ سے اکسڈنٹ میں قتل ہونے والے کو بھی بالیقین نہیں تو ان شاء اللہ کے ساتھ شہید کہہ سکتے ہیں ۔ شیخ ابن باز اور شیخ ابن عثیمین رحمہما اللہ نے اکسڈنٹ میں مرنے والے کو شہید کہا ہے۔
سوال(6):اگر کسی نے یہ منت مانی کہ وہ جب بھی مکہ جائے گا اپنی ماں کے نام سے عمرہ کرے گا؟ یہ نذر ماننا صحیح ہے اور اگر یہ نذر صحیح ہے تو اس کے سامنے بڑی مشکل ہے کہ ایسی نذر ہمیشہ کیسے پوری کرے ؟
جواب : نذر ماننے سے کوئی بھلائی نہیں ملتی پھر بھی کسی نے ایسی نذر مان لی جس میں معصیت نہیں ہے تو اس کا پورا کرنا واجب ہے ۔ سوال میں مذکور ماں کے نام سے مسلسل عمرہ کرنا صحیح نہیں ہے ، میت کی طرف سے ایک عمرہ کرنا کافی ہے ،زندہ شخص خود نیکیوں کا محتاج ہے وہ اپنے لئے باربار عمرہ کرے اور اپنی ماں طرف سے نذر کا ایک عمرہ کرکے آئندہ کثرت سے فقط استغفار کرے اور مشکل نذر مان لینے کی وجہ سے قسم کا کفارہ ادا کردے۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے :كفارةُ النذرِ كفارةُ اليمينِ(صحيح مسلم:1645)
ترجمہ: نذر کا کفارہ وہی ہے جو قسم کا کفارہ ہے۔
سوال(7):خلع والی کا نقفہ ہے کہ نہیں ؟
جواب : خلع والی عورت کی عدت شوہر کے گھر گزارنا واجب نہیں تاہم چاہے تو گزارسکتی ہے اور خلع کی عدت میں شوہر کے ذمہ نفقہ نہیں ہے ۔ جب فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کا خلع ہوا تو آپ نے ان سے فرمایا: لا نفَقةَ لَكِ إلَّا أن تَكوني حاملًا (صحيح أبي داود:2290)
ترجمہ: تیرے لیے کوئی خرچہ نہیں الا یہ کہ تو حاملہ ہو ۔
ا س حدیث سے معلوم ہوا کہ خلع والی عورت کے لئے سابقہ شوہر کے ذمہ نفقہ نہیں ہے لیکن اگر وہ حاملہ ہو تو پھر رہائش اور کھانے کا خرچہ شوہر کے ذمہ ہے ۔
سوال(8):ایک مسلم لڑکی کافر لڑکے کے ساتھ شادی کرلیا اور وہ اپنے اسلام پر باقی ہے کیا اسے باپ کے میراث میں سے حصہ ملے گا؟
جواب : مسلم لڑکی کافر کے ساتھ شادی کرکے زندگی گزار رہی ہے گویا وہ اس کے دین پر راضی ہے ورنہ وہ اس کے ساتھ حرام کاری نہیں کرتی اور جو کافر کے دین سے راضی ہو وہ کافر ہے ،اس کے لئے مسلمان کی وراثت میں کوئی حصہ نہیں ہے ۔ نبی ﷺکا فرمان ہے :
لا يرثُ المسلمُ الكافرَ ولا الكافرُ المسلمَ(صحيح البخاري:6764)
ترجمہ: مسلمان کافر کا وارث نہیں ہوتا اور نہ کافر کسی مسلمان ہی کا وارث بنتا ہے۔
سوال(9):ایمو پر میاں بیوی ویڈیو کال کرتے ہوئے ایک دوسرے کی شرمگاہ دیکھ سکتے ہیں جبکہ دونوں کئی مہینوں سے دور ہوں؟
جواب : میاں بیوی کو ایک دوسرے کی شرمگاہ دیکھنا جائز ہے ، یہ اللہ کے فضل واحسان میں سے ہے تاہم ایمو پر ویڈیو کال کرتے ہوئے میاں بیوی کا ایک دوسرے کے سامنے برہنہ ہونا فتنہ وفساد، ضرراور فحاشیت کا سبب بن سکتا ہے ۔
اولا: ایسا ممکن ہے کہ ایمو بنانے والے کے پاس نہ صرف ہماری باتیں رکارڈ ہوتی ہوں بلکہ ویڈیوز بھی رکارڈ ہوتی ہوں ایسی صورت میں یہ کام میاں بیوی کے لئے حرام ہوگا۔
ثانیا: میاں بیوی جب ننگےہوکر ویڈیو کال کررہے ہوں تو ممکن ہے کسی کی نظرپڑجائے یا شہوانی آواز وکیفیت کا ادراک کرنے والا ہوخواہ گھر کے بچے ہی سہی ، اس صورت میں بھی شرعی قباحت ہے ۔
ثالثا:جب میاں بیوی ایک دوسرے سے دور ہوں اور عریاں ہوکر باتیں کریں اور اپنی شہوت کو ابھاریں تو پھر یہ شہوت بدکاری کا سبب بن سکتی ہے ۔ پاس میں میاں بیوی ہوتے تو ایک دوسرے سے جنسی خواہش پوری کر لیتے مگر دور ہونے کی وجہ سے ممکن ہے غلط طریقے سے جنسی خواہش پوری کرنے کی کوشش کی جائے، یہ غلط طریقہ کوئی بھی ہوسکتا ہے فحش ویڈیودیکھنا، مشت زنی کرناحتی کہ زنامیں بھی وقوع کا اندیشہ ہوسکتا ہے ۔ یہ صورت بہت ہی قبیح ہے۔ لہذا میاں بیوی کو ویڈیوکال پہ بات کرتے ہوئےایک دوسرے کی شرمگاہ دیکھنے سے پرہیز کرناچاہئے ۔
سوال(10):کیا ہم جنات کو دیکھ سکتے ہیں اور حیوانات بھی جنات کو دیکھتے ہیں ؟
جواب: جنات کی تخلیق آگ سے ہوئی ہے اس وجہ سے کوئی انسان اس کو اپنی اصلی خلقت پہ نہیں دیکھ سکتا ہے تاہم جب انسان یا حیوان وغیرہ کی صورت اختیار کرے تو دیکھا جاسکتا ہے جیساکہ  بعض صحابہ نے بھی دیکھا ۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو شیطان نے ہی آیۃ الکرسی کے بارے میں خبر دی ۔ جہاں تک حیوانات کے دیکھنے کا مسئلہ ہے تو اس سلسلے میں بعض احادیث میں کتے ، گدھے اور مرغ کا جنات کو دیکھنے سے متعلق ذکر ملتا ہے۔
سوال(11):میرا ایک پڑوسی ہے اس نے بلی پال رکھا ہے اور اپنی بلی کا نام عائشہ رکھا ہے کیا یہ درست ہے ؟
جواب : بلی ایک حیوان ہے اور عائشہ زوجہ رسول یعنی  محترم انسان کا نام ہے ، اللہ نے انسانوں کو حیوانات پر فوقیت وفضیلت دی ہے اس لئے حیوانات کا نام نیک لوگوں کے ناموں پر رکھنا صحیح نہیں ہے تاہم حیوانات کا بھی مخصوص نام رکھا جاسکتا ہے جیسے رسول اللہ ﷺ کی اونٹنی کانام عضباء تھا۔ (صحیح بخاری:2872)
سوال(12):بدزبان عورت کے شر و بدزبانی سے کیسے بچا جائے جبکہ چوبیس گھنٹے کا واسطہ ہو اور ایسی بدزبان عورت نصیحت و وعظ جذب کرنے سے بھی محروم ہو؟
جواب : منکر کو مٹانے کا رسول اللہ ﷺ نے تین درجہ بتلایا ہے ، اس کے حساب سے پہلا درجہ تو یہ بنتا ہے کہ بدزبان عورت کو اس کی بدزبانی سے باز رکھنے کے لئے کاروائی کی جائے ۔ اگر کاروائی نہیں کرسکتے تو زبان سے حتی المقدور اس سے باز رکھنے کی نصیحت کی جائے اور نصیحت کے لئے جو بھی مناسب اقدام ہوسکتے ہیں کرنا چاہئے مثلا اسلامی محفل میں لے جانا، علماء کی تقریریں سنانا، کتابیں مہیا کرنا اور وعظ ونصیحت کرنا وغیرہ ۔ جب نصیحت بھی بے سود ہو اور بدزبانی سے باز نہ آئے تو آخری مرحلہ اس برے کام کو دل میں برا جاننا ہے۔ ساتھ ہی ایسی عورت کی بدکلامی پہ خاموشی اختیار کرنا ہے، اللہ کا فرمان ہے :وَإِذَا خَاطَبَهُمُ الْجَاهِلُونَ قَالُوا سَلَامًا (الفرقان:63)
ترجمہ: اور جب بے علم لوگ ان سے باتیں کرنے لگتے ہیں تو وہ کہہ دیتے ہیں کہ سلام ہے۔
یہاں سلام کہنے سے مراد ہے جہالت پہ خاموشی اختیار کرنا۔ اسی سورت میں آگے اللہ کا ارشاد ہے :
إِذَا مَرُّوا بِاللَّغْوِ مَرُّوا كِرَامًا (الفرقان:72)
ترجمہ: اور جب کسی لغو چیز پر ان کا گزر ہوتا ہے تو شرافت سے گزر جاتے ہیں ۔
یہاں بھی شرافت سے گزر جانے کا مطلب ہے بدکلامی پہ خاموشی اختیار کرنا اور جو بدکلامی پہ خاموشی اختیار کرلے وہ فتنے سے محفوظ ہوجائے گا۔ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے :مَن صَمت نَجا(صحيح الترمذي:2501)
ترجمہ: جس نے خاموشی اختیار کی اس نے نجات پالی۔
سوال(13):کیا بیوی اپنے شوہر کا نام لے سکتی ہے ؟
جواب : بیوی اپنے شوہر کا نام لے سکتی ہے ، اولاد کی طرف نسبت کرکےکنیت کے ساتھ بھی پکار سکتی ہے یا شوہر کو محبوب کسی نام سے موسوم کرسکتی ہے ان تمام صورتوں میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ یہ شوہر پہ منحصر ہے کہ وه کیا پسند کرتا ہے،اپنے نام سے پکارا جانا یا کسی اور نام سے ؟ شوہر جو پسند کرے بیوی کو اسے اختیار کرنا چاہئے تاکہ شوہر کو بلاتے وقت اسے خوشی محسوس ہواور کسی قسم کی ناگواری کا احساس نہ ہو۔
سوال(14):اگر تین بچے آپریشن سے ہوئے ہوں تو چوتھی بار حمل ہونے پر نس بندی کرانا جائز ہوگا؟
جواب: نس بندی حالات پہ منحصر ہے ، اگر بھروسے مند ڈاکٹرز نس بندی کرانے کا مشورہ دیں تو شوہر کی رضامندی کے ساتھ ہلاکت سے بچنے کے لئےنس بندی کرانا جائز ہوگا۔ نس بندی کے کئی طریقے ہیں ان میں سے سہل طریقہ اپنایا جائے تاکہ آئندہ خطرات ٹل جائیں تو دوبارہ بچے کی پیدائش کا امکان ہواور اگر سرے سے رحم مادر ہی نکالنا پڑجائے تو ضرورت کے تحت یہ عمل بھی جائز ہے۔
سوال(15): اپنے بچے کی نجاست صاف کرتے وقت عورت کا ہاتھ بچے کی شرمگاہ سے لگ جائے تو وضو ٹوٹ جائے گا؟
جواب : ایسی دلیل ملتی ہے کہ بغیر پردے کے شرمگاہ سے ہاتھ چھوجائے تو وضو ٹوٹ جاتا ہے ، نبی ﷺ کا فرمان ہے :
إذا أفضى أحدُكم بيدِه إلى فرجِه و ليس بينه و بينها حجابٌ و لا سِترٌ ، فقد وجب عليه الوضوءُ(صحيح الجامع:362)
ترجمہ: تم میں کسی کا ہاتھ اس کی شرم گاہ کو لگے اور (ہاتھ اور شرم گاہ کے ) درمیان میں کوئی ستر و حجاب نہ ہو یعنی ہاتھ براہ راست شرم گاہ کو مس کرے تو اس پر وضو لازم ہوگیا۔
جو اہل علم ناقض وضو کے لئے شہوت کی قید لگاتے ہیں یا وضو کو محض مستحب کہتے ہیں ان کا موقف اس حدیث کے خلاف ہے ۔ شہوت کی قید کسی حدیث میں نہیں ہے بلکہ محض ستروحجاب کا ذکر ہے اور نص میں وجوب کا لفظ موجود ہوتے ہوئے استحباب کا معنی اخذ کرنا حدیث کے خلاف ہے ۔ اس وجہ سے جو علماء یہ کہتے ہیں کہ چھوٹے بچے کی شرمگاہ کو براہ راست ہاتھ لگنے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے وہ دلیل کے قریب ہے ۔ دائمی فتوی کمیٹی کا یہی جواب ہے کہ براہِ راست شرمگاہ کو ہاتھ لگنے سے وضو ٹوٹ جائے گا، چاہے کسی چھوٹے بچے کی شرمگاہ ہو یا بڑے کی کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ نے فرمایا: (جس شخص نے اپنی شرمگاہ پر ہاتھ لگایا تو وہ وضو کرے)اور اپنی یا کسی کی شرمگاہ دونوں ایک ہی حکم رکھتی ہیں۔ (فتاوى اللجنة الدائمة :5/ 265)

مکمل تحریر >>

Saturday, January 19, 2019

میت کی طرف سے عمرہ کرنے کا حکم



میت کی طرف سے عمرہ کرنے کا حکم


مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹر، شمالی طائف (مسرہ)


آج زمانے کی ترقی ، وسائل کی فراوانی، دولت کی کثرت اور اسفار کی سہولت فراہم ہونے سے حج وعمر ہ جیسی عظیم الشان عبادات کی ادائیگی میں کافی آسانی پیدا ہوگئی ہے ۔ یہ اللہ کے عظیم فضل واحسان میں سے ہے ۔ اس فضل سے بہت سےمالی فقیر ومسکین بھی اجر وثواب میں غنی ہوگئے ، بہت سے عاصی کعبۃ اللہ کی زیارت سے فیضیات ہوکر دھنی ہوگئے، بہت سی ترسنے والی آنکھوں نے قریب سے روئے زمین پہ رب الجلال کے پہلے گھر کا دیدار کرلیا۔ آج اللہ کے فضل کی وجہ سے حرمین شریفین کی زیارت کرنے والوں کی تعداد بہت ہی زیادہ ہے، یہ فضیلت مالداروں کے علاوہ کم پیسے والوں کو بھی اکثر میسر ہوجارہی ہے۔ اس فضل ربانی پر جس قدر حمد وثنا بیان کی جائے کم ہے ۔
آج کل بڑی تعداد میں دنیا کے کونے کونےسے لوگ عمرہ کی ادائیگی کے لئے آتے ہیں ، اپنی جانب سے عمرہ ادا کرنے کے بعد اکثر کے دل میں میت کی جانب سے خصوصا فوت شدہ والدین کی طرف سے عمرہ بدل کرنے کے خواہش مند ہوتے ہیں اور بہت سے لوگ  اپنے ملک سے ہی وفات یافتہ والدین کی طرف سے عمرہ کرنے آتے  ہیں ۔ بسااوقات کچھ علماء میت کی طرف عمرہ کرنے سے منع کرتے ہیں ایسے میں عام لوگوں کے دل میں تردد پیدا ہوتا ہے اور صحیح بات جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ میت کی جانب سے عمرہ کیا جاسکتا ہے کہ نہیں ؟
میں نےدلائل کا بنظرغایر مطالعہ کیا تو مجھے یہ معلوم ہوا کہ جس طرح میت کی جانب سے حج کرسکتے ہیں اسی طرح میت کی جانب سے فقط عمرہ بھی کرسکتے ہیں ۔ آئیے اس سلسلے میں چند دلائل پہ غور کرتے ہیں اور میت کی جانب سے عمرہ کرنے کے جواز کا علم حاصل کرتے ہیں ۔
سب سے پہلے وہ حدیث پیش کرتا ہوں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک زندہ شخص دوسرے زندہ عاجز شخص کی جانب سے جس طرح حج کرسکتا ہے اسی طرح عمرہ بھی کرسکتا ہے ۔
عن أبي رزينٍ رجلٌ من بني عامرٍ أنَّهُ قالَ: يا رسولَ اللَّهِ إنَّ أبي شيخٌ كبيرٌ لاَ يستطيعُ الحجَّ ولاَ العمرةَ ولاَ الظَّعن. قالَ: احجج عن أبيكَ واعتمر.(صحيح أبي داود:1810)
ترجمہ : حضرت ابو رزین عقیلی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سوال کیا : اے اللہ کے رسول میرے باپ بہت بوڑھے ہیں ، حج و عمرہ نہیں کرسکتے اور نہ ہی سواری پر بیٹھ سکتے ہیں ؟ { تو کیا میں ان کی طرف سے حج و عمرہ کروں ؟ } آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اپنے باپ کی طرف سے حج و عمرہ کرو ۔
اس میں کوئی شک اور اختلاف نہیں ہے کہ عمرہ بھی حج ہی کی طرح ہے ، جس طرح ایک شخص اپنی جانب سے فریضہ حج ادا کرنے کے بعد بھی نفلی حج باربار کرسکتا ہے اسی طرح عمرہ بھی باربار کرسکتا ہے ۔ اس کی دلیل ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی یہ حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:العمرةُ إلى العمرةِ كفَّارَةٌ لمَا بينَهمَا ، والحجُّ المبرورُ ليسَ لهُ جزاءٌ إلا الجنَّةُ .(صحيح البخاري:1773)
ترجمہ: ایک عمرہ کے بعد دوسرا عمرہ دونوں کے درمیان کے گناہوں کا کفارہ ہے اور حج مبرور کا بدلہ جنت کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔
ان دونوں احادیث سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح ایک زندہ شخص اپنے لئےصرف حج یا صرف  عمرہ کرسکتا ہے اسی طرح کسی غیر کی طرف سے بھی صرف حج یا صرف عمرہ  بھی کرسکتا ہے ۔ جن لوگوں نے یہ کہا کہ عمرہ کو حج پہ قیاس کرنا صحیح نہیں ہے ان کا کہنا درست نہیں ہے ، یہاں قیاس ہی نہیں واضح طور پر نص سے یہ معنی ومفہوم نکلتا ہے ۔ آگے بھی اس بات کا ذکر آئے گا۔
اب وہ دلیل دیکھیں جس میں میت کی جانب سے حج کا ثبوت ملتا ہے ۔حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے:
أنَّ امرأةً من جُهينةَ، جاءت إلى النبيِّ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ فقالت : إن أمي نذرت أن تحجَّ، فلم تحج حتى ماتت، أفأحجُّ عنها ؟ قال : نعم، حجي عنها، أرأيتِ لو كان على أمكِ دينٌ أكنتِ قاضيتِة ؟ . اقضوا اللهَ، فاللهُ أحقُّ بالوفاءِ .(صحيح البخاري:1852)
ترجمہ: قبیلہ جہینہ کی ایک عورت نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا: میری ماں نے حج کرنے کی نذر مانی تھی مگر اسے حج کیے بغیر موت آگئی ہے۔ آیا میں اس کی طرف سے حج کرسکتی ہوں؟آپ نے فرمایا::ہاں اس کی طرف سے حج کرو۔ مجھے بتاؤ اگر تمھاری ماں کے ذمے قرض ہوتا تو کیا تو اسے ادا کرتی؟اللہ کا حق بھی ادا کرو۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ زیادہ لائق ہے کہ اس کا قرض ادا کیا جائے۔
یہ حج نذر ہے اور نذر کا مطلب یہ ہے کہ جس نےکوئی نذر مانی اسے پورا کرنا واجب ہوجاتا ہے ۔ اگر پورا کئے بغیر مرجائے تو اس کے اولیاء میت کی طرف سے نذر پوری کریں گے ۔ایک دوسری حدیث میں ماں کے بجائے بہن کا ذکر ہے ۔ إن اختي قد نذرت ان تحج وإنها ماتت(صحيح البخاري:6699)
ترجمہ: میری بہن نے نذر مانی تھی کہ حج کریں گی لیکن اب ان کا انتقال ہو چکا ہے؟
ایک تیسری حدیث میں نذر کے بغیر ایک عورت کا واقعہ اس طرح مذکور ہے کہ میری ماں جو وفات پاگئی ہے انہوں نے کبھی حج نہیں کیا ۔
إنها لم تحجَّ قط . أفأحجُّ عنها ؟ قال " حُجِّي عنها (صحيح مسلم:1149)
ترجمہ:انہوں نے کبھی حج نہیں کیا، کیا میں ان کی طرف سے حج کر لوں؟ آپ نے فرمایا:ہاں، ان کی طرف سے حج کر لے۔
بظاہر یہ الگ الگ واقعات ہیں ، ان سے ایک بات تو بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ جس نے کبھی حج نہ کیا ہو اس کی وفات ہوجائے تو اس کی جانب سے حج یا عمرہ کیا جاسکتا ہے۔
اس حدیث کے علاوہ ایک عمومی حدیث ملتی ہے جس میں ایک صحابی میت کی طرف سے حج کرتےہیں ۔ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے:
أنَّ النَّبيَّ صلى الله عليه وسلم سمعَ رجلاً يقولُ: لبَّيْكَ عن شبرمة. قالَ: من شبرمةَ؟ قالَ: أخٌ لي أو قريبٌ لي. قالَ: حججتَ عن نفسِكَ؟ قالَ: لا. قالَ: حجَّ عن نفسِكَ ثمَّ حجَّ عن شبرمةَ.(صحيح أبي داود:1811)
ترجمہ: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو کہتے سنا:«لبيك عن شبرمة» حاضر ہوں شبرمہ کی طرف سے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا: شبرمہ کون ہے؟، اس نے کہا: میرا بھائی یا میرا رشتے دار ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: تم نے اپنا حج کر لیا ہے؟، اس نے جواب دیا: نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پہلے اپنا حج کرو پھر (آئندہ) شبرمہ کی طرف سے کرنا۔
سنن ابن ماجہ میں اس حدیث پہ باب قائم ہے "بَابُ :الْحَجِّ عَنِ الْمَيِّتِ"(باب: میت کی طرف سے حج کرنے کا بیان)
اس حدیث میں مذکور ہے کہ رسول اللہ ﷺنے حج بدل کرنے والے سے یہ پوچھا کہ شبرمہ کون ہے ؟ اور پوچھا کہ اپنا حج کیا کہ نہیں ؟ اور کوئی سوال نہیں کیا کہ حج فریضہ تھا کہ نہیں ؟
اس حدیث سے اور اوپر والی احادیث سے صاف صاف ظاہر ہے کہ جس نے زندگی میں حج یا عمرہ نہ کیااس کی جانب سے حج یا عمرہ انجام دیا جاسکتا ہے ۔ عمرہ بھی حج کی طرح ہے جیساکہ اوپر حدیث بھی گزری ہے ۔ محض عمرہ کرنا، محض حج(افراد) کرنا یا حج وعمرہ (قران وتمتع) کرنا ساری صورتیں جائز ہیں ۔ اس وجہ سے جیسے ایک زندہ شخص اپنی جانب سے یہ ساری صورتیں انجام دے سکتا ہے میت کی طرف سے بھی انجام دے سکتا ہے یعنی کوئی چاہے تو میت کی طرف سے محض عمرہ کرسکتا ہے ،کوئی چاہئے تو میت کی طرف سے محض حج ادا کرسکتا ہے اور کوئی چاہے تو میت کی طرف سے حج وعمرہ دونوں ادا کرسکتا ہے ۔
اہل علم کا ماننا ہے کہ جس کے اوپر حج یا عمرہ فرض نہیں ہے اگر اسے کوئی پیسہ دے کر حج کرائے تو حج وعمرہ صحیح ہے حتی کہ ایک مسکین و فقیر کو بھی پیسہ دے کر حج کرایا جاسکتا ہے ۔ جب زندہ غریب شخص کو پیسہ دے کر حج وعمرہ کرایا جائے تو حج  وعمرہ ہوجائے گا  تو  میت اس سے بھی زیادہ نیکیوں کا محتاج ہے کیونکہ اس کے عملوں کا سلسلہ منقطع ہوچکا ہے،اس وجہ سےمیت کی جانب سے حج یا عمرہ نفلی طور پر بھی ادا کیا جاسکتا ہے یعنی کسی کے اوپر حج یا عمرہ فرض نہیں تھا اس کا انتقال ہوگیا ہے تو اس کی جانب سے اولیاء حج وعمرہ کر سکتے ہیں ۔
ایک اہم بات کی طرف مزید اشارہ کردینا مناسب سمجھتا ہوں کہ حج وعمرہ خالص بدنی عبادت نہیں ہے بلکہ بدنی کے ساتھ مالی بھی ہے اور میت کی طرف سے مالی صدقہ کرنے میں اہل علم کے یہاں کوئی اختلاف نہیں ہے ۔ ان ساری باتوں کاخلاصہ یہ ہوا کہ میت کی طرف سے حج کی طرح عمرہ بھی کرسکتے ہیں ۔
عمرہ بدل کرنےکی نیت اور اس کا طریقہ :
میت کی طرف سے عمرہ کاوہی طریقہ ہے جو زندوں کے لئے ہے ،دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے البتہ نیت کرتے وقت نام لینا چاہئے ، اس کا طریقہ یہ ہے کہ عمرہ کا احرام باندھتے وقت میقات پہ کہے۔ لبیک عمرۃعن فلاں۔۔ فلاں کی جگہ میت کا نام لے لیں ۔ دل میں پہلے سے نام ہو اور عمرہ کی نیت کرتے وقت نام لینا بھول گئے تو کوئی حرج نہیں ہے ۔ نیت کرنے کے بعد اسی طرح عمرہ کرنا ہے جس طرح رسول اللہ ﷺ سے عمرہ کا طریقہ احادیث میں بیان کیا گیا ہے ۔
عمرہ بدل کے چند احکام ومسائل :
٭ عمرہ بدل کی شرط یہ ہے کہ عمرہ کرنے والا پہلے اپنا عمرہ کرچکا ہو تب ہی میت کی طرف سے عمرہ کرسکتا ہے ۔
٭ میت نے عمرہ کی نذر مانی تھی یا وصیت کی تھی تو اس کے وارثین پر واجب کہ ترکہ سے عمرہ کرے لیکن اگر مال نہیں چھوڑا تواس صورت میں واجب نہیں ہے تاہم وارث کے لئے اپنے مال سے عمرہ بدل کرنے کا استحباب باقی رہتا ہے۔
٭میت نے عمرہ کی وصیت نہ بھی کی ہو تب بھی اس کی جانب سے عمرہ کرنا مشروع ہے یعنی عمومی طور پر میت کی طرف سے عمرہ کرسکتے ہیں اوراس کا ثواب میت کو پہنچے گا ۔
٭ بعض لوگ جہالت کی وجہ سے ایک ساتھ ماں اور باپ دونوں کی جانب سے عمرہ کی نیت کرلیتے ہیں جبکہ ایک بار میں ایک نیت سے یا تو باپ کی طرف سے عمرہ کرسکتے ہیں یا ماں کی طرف سے۔
٭ مرد عورت کی طرف سے اور عورت مرد کی طرف سے عمرہ بدل کرسکتے ہیں۔
٭لوگوں میں جو یہ خیال مشہور ہے کہ میت کی طرف سے عمرہ ہوتا ہے اور زندہ کی طرف سے طواف ہوتا ہے غلط ہے ۔ میت کی طرف سے عمرہ والی بات صحیح ہے مگر زندوں کی طرف سے طواف والی بات غلط ہے ۔ زندہ بدنی طوپرعاجز شخص (جس کی شفایابی کی امید نہ ہو)کی طرف سے عمرہ کرسکتے ہیں مگر تندرست شخص کی طرف سے نہ طواف کرسکتے ہیں اور نہ ہی عمرہ ۔
٭ والدین کے علاوہ دوسرے وفات پافتہ رشتہ دار کی طرف سے بھی عمرہ کرسکتے ہیں اور ایک میت کی طرف سے ایک بار عمرہ کافی ہے ، زندہ خود نیکیوں کا محتاج ہے اس لئے اپنی جانب سے باربار عمرہ کرے ۔
٭ سعودی عرب میں رہنے والوں کے لئے آسانی ہے وہ ایک سفر میں ایک ہی عمرہ پہ اکتفا کریں، یہی سنت ہے اور جو باہری ممالک سے عمرہ پہ آتے ہیں ان (آفاقی)کے حق میں بھی ایک سفر میں ایک ہی عمرہ مسنون ہے تاہم زندگی میں دوبارہ آنے کی امید نہ ہو اور وہ اپنا عمرہ کرنے کے بعد  اپنے وفات یافتہ والدین کی جانب سے عمرہ بدل کرنا چاہتے ہوں تو ایسی صورت میں بعض علماء نے جواز کا فتوی دیا ہے ۔عمرہ بدل کرنے کے لئے حدود حرم سے باہر جاکر کسی جگہ (مسجدہ عائشہ وغیرہ) سے احرام باندھ کر عمرہ کرسکتے ہیں ۔
٭جس طرح عمرہ بدل کا اجر میت کو ملتا ہے اسی طرح عمرہ کرنے والے کو بھی ملے گا۔
٭ بہتر تو یہی ہے کہ میت کی جانب سے کوئی قریبی آدمی عمرہ کرے تاہم دوسرے کسی امین وصالح آدمی کو بھی اجرت دے کر عمرہ بدل کراسکتے ہیں ، بعض لوگ محض مال کمانے کی غرض سے حج بدل یا عمرہ بدل تلاش کرتے ہیں جو کہ جائز نہیں ہے۔
٭ قرض کی ادائیگی کرنا آسان ہو تو قرض لیکر بھی میت کی جانب سے عمرہ بدل کرسکتے ہیں اور آسانی سے قرض نہیں چکاسکتے ہیں تو قرض لیکر خود کومشقت میں نہ ڈالیں۔

مکمل تحریر >>