Monday, December 31, 2018

طلاق ثلاثہ پہ عقلی دلیل کا عقلمندانہ جائزہ


طلاق ثلاثہ پہ عقلی دلیل کا عقلمندانہ جائزہ

تجزیہ نگار: مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹر، شمالی طائف (مسرہ)

قرآن وحدیث کے دلائل سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک شخص کو ایک بار میں ایک ہی طلاق دینے کا اختیار ہے ، دوسری طلاق دوسری بار دے سکتا ہے اور تیسری طلاق تیسری بار۔ اللہ نے اس طرح متعدد اوقات میں طلاق کو مربوط کرکے مردوعورت کے رشتے کی حفاظت کی ہے کیونکہ پہلی یا دوسری طلاق میں پھر سے شوہر کو رجوع کرنے کا حق ہوتا ہےحتی کہ رجوع نہ کرسکے تو نئے نکاح سے پھر دونوں ایک ہوسکتے ہیں۔ اسی لئے عدت کے دوران بیوی کو گھر سے نکالنا منع کیا گیا ہے ، شاید طلاق کے بعد اللہ کی طرف سے کوئی نئی بات پیدا ہوجائے۔ ایک ساتھ تین طلاق  دینا  شرعا منع  بھی ہے  اور اگر کسی نے ایک ساتھ تین طلاق دیدی توایک ساتھ تین واقع نہیں ہوتیں ، صرف ایک واقع ہوتی ہے۔ عقلا بھی مان لیا جائے تو کم ازکم دو زندگی کی تباہی کا سوال پیدا ہوتا ہے جو اچانک اور ایک جھٹکے میں یہ تباہی دیکھنے کو ملتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب سے برصغیر میں طلاق ثلاثہ کا موضوع اخبارات کی سرخیاں بنا ہےتب سے غیرمسلموں کو بھی حلالہ اور طلاق ثلاثہ کے بہانے اسلام پہ معترض ہونے کا بڑا وسیلہ ہاتھ لگ گیا ہے ۔ آج وہ وقت آگیا ہے کہ مسلم پرسنل لابورڈ اور مسلم سماج کی اگوائی کرنے والی حنفی تنظیموں کے طلاق ثلاثہ  کی مجرمانہ حرکتوں کی وجہ سے امت مسلمہ کو پیچیدہ مشکلات کا شکاربنا دیا ہے۔ طلاق ثلاثہ پہ اہل حدیث کا موقف قرآن وحدیث کا موقف ہے، عالمی اور مرکزی پیمانےپراس موقف کوتسلیم کرلینے سے نہ صرف میاں بیوی کی زندگیاں تباہی سے بچ رہی ہیں بلکہ امت مسلمہ جس مشکل گھڑی سے گزر رہی ہے اس کا بھی حل نکل جاتا ہے۔
طلاق ثلاثہ کے نتیجے میں حلالہ مروجہ نےکتنی خواتین کو خودکشی کرنے پر مجبور کیا، کتنی خواتین اپنی نظروں میں آپ گرجاگئیں اور زندگی بھر شرمندگی کی عار لئے سرجھکاکے چلتی رہیں ، کتنی معصوم جبراغیروں کی ہوس کا شکار ہوئیں  ، درندے صفت انسانوں کو عفت وعزت سے کھلواڑ کرنے کا بہترین موقع ہاتھ آیا،حد تو یہ ہوئی کہ مسلمانوں کی رسوائی  کا کفار کے ہاتھ سامان آگیا۔
اب بھی ہوش کا ناخن لینے کی بجائے مرکزی سطح پرطلاق ثلاثہ اور حلالہ پہ اپنے موقف میں تبدیلی کا کوئی رجحان نظر نہیں آتا ہے۔ مولانا بدرالدین اجمل نے طلاق ثلاثہ کے وقوع پہ دلیل یہ دی ہے کہ اگر کوئی بندوق سے کسی کو تین گولی مارے تو کیا گولی نہیں لگے گی؟ آدمی  تو مرا پڑا ہے اور آپ کہتے ہیں کچھ ہوا ہی نہیں ۔
ہندو کے سامنے یہ بات تو مزے کی ہے مگر شریعت کے سامنے شریعت کے انکار کے مترادف ہے۔عموما طلاق ثلاثہ پہ احناف کی جانب سے عقلی دلیل کے طور پر یہی بات پیش کی جاتی ہے اور عام لوگ سمجھتے ہیں کہ بات تو پتے کی ہے ۔ آئیے اس عقلی دلیل کا جائز ہ لیتے ہیں اور پتے کی بات کا ذرا اندر تک پتہ لگاتے ہیں ۔
اسلام قرآن وحدیث کی بنیاد پر قائم ہے ، عقل کے معیار پر نہیں ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں دین کا دارومدار رائے اور عقل پر ہوتا تو موزوں کے نیچے مسح کرنا اولی ہوتا بنسبت اوپر مسح کرنے کے اور بلاشبہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو موزوں کے اوپر مسح کرتے دیکھا ۔اس لئے شریعت میں اپنی عقل کو کنارے ہی رکھنا چاہئے ۔عقل کی فراوانی ہے تو یہود ونصاری کی طرح دنیاوی معاملات میں اس کو کھپائیں اور دنیا کے سامنے کوئی جدید آلہ، نیا انکشاف اور خصوصا امت مسلمہ کی آسانی کے لئے کچھ نیا کر دکھائیں تاکہ غیروں کو بھی لگے کہ اس میدان میں مسلمان بھی پیچھے نہیں ہیں ۔ اے کاش،،،،
بہرکیف! فرض کرتے ہیں کہ ایک شوہر نے بیوی کو غصےمیں بندوق سے تین گولیاں ماری ۔ ایک دوسرے شوہر نے اپنی بیوی کو زبان سے تین طلاق دی۔ اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا دونوں شوہروں کی بیویاں مر گئیں یا ایک شوہر کی بیوی زندہ ہے؟ 
ظاہر سی بات ہے نرسری کلاس کا بچہ بھی کہے گا کہ جس عورت کو گولی لگی ہے وہی مرے گی اور جس کو طلاق دی گئی ہے وہ نہیں مرے گی ۔ اب بات  واضح ہوگئی کہ گولی اور طلاق میں بہت  فرق ہے ۔ بھئی ایک گولی بھی بیوی کو مار دو مر جائے گی تو پھر بدالدین اجمل جیسے مولویوں کو یہ ماننا چاہئے کہ ایک طلاق سے بھی بیوی مر جائے گی  ، میرے کہنے کا مطلب جس طرح تین گولی کا اثر موت ہے وہی اثر یہاں ایک گولی سے ظاہر ہے تو جس طرح تین طلاق کا اثر آپ کے نزدیک ہے کیا وہی اثر گولی کی طرح ایک طلاق کا بھی ہوگا؟ ۔  آپ کہیں گے نہیں ؟ پھر میں کہوں گا کہ آپ طلاق پہ گولی کی مثال کیوں دیتے ؟
بنیادی طور پر ذہن میں یہ بات رکھیں کہ دین میں عقل کا دخل نہیں ہے اور یہ بھی مان کر چلیں کہ کتاب وسنت کی روشنی میں ایک مجلس کی تین طلاق ایک ہی مانی جاتی ہے ۔ ان دونوں باتوں کو ذہن نشین کرتے ہوئے بات آگے بڑھاتے ہوئے کہتا ہوں کہ  گولی کا بھی اثر ہوتاہےاور  طلاق ثلاثہ کا بھی اثر ہوتاہے۔ اب ہمیں  دیکھنا یہ ہے کہ طلاق کا اثر کیسا ہوتا ہے؟ کتنا گہرا ہوتاہے؟ اس اثر سے کیا کچھ ممکن ہے ؟ پہلے مقصد طلاق پہ ایک بات پیش کردیتاہوں ۔
فرض کریں حکومت نے ہمیں بندوق دی ہے اس بات کا پابند کرکے ہمیں کسی کےجسم پہ گولی نہیں چلانی ہے، مجبوری میں پیر پر چلاسکتے ہیں تاکہ کم سے کم وہ زندہ رہے ۔ اب کوئی انسان مجرم کے پیر پر تین گولی چلائے یا تین ہزار اس کی زندگی محفوظ ہے ۔ اثر تو ایک گولی بھی دکھائے گی اور تین اور تین ہزار بھی مگر جو مقصد تھا پورا ہوا۔ اللہ کے فرمان طلاق دو مرتبہ ہے اس سے بھی یہی مقصد ہے کہ تم الگ الگ وقت میں طلاق دو اور رجعت کی حالت میں بیوی کو اپنے گھر میں ہی رکھو اور انتظار کرو ممکن ہے کہ اللہ کی طرف سے کوئی کرشمہ ہوجائے اور میاں بیوی پھر سے ایک ہوجائیں ۔ یہ ہے زندگی کا تحفظ  ۔
اب اس گولی کے اثر کو دین کے احکام کے پس منظر میں دیکھتے ہیں کیونکہ ہمارا دین دلیل وبرہان پر قائم ہے ، اگر عقل کو آزاد کردیا جائے اور دین میں عقل کو معیار بنالیا جائے تو لوگ بہت ساری دینی باتوں کا انکار کربیٹھیں گے ، بہت ساری باتوں کو فرسودہ مانیں گے اور بہت ساری باتیں اپنی جانب سے اضافہ کریں گے مگر ہمارا دین فطری ہے جو اللہ کی طرف سے نازل شدہ ہے اس میں انسانی عقل کا کوئی کام ہی نہیں ہے ، یہ دین اس کی عقل سے بلند ہے۔ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ایمان کی مثال موجود ہے ، جب آپ ﷺ کواسراء ومعراج ہوا تو کافروں نے عقل لگائی مگر ابوبکر صدیق  رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اگر یہ بات محمد ﷺ نے بیان کی ہے تو سچ ہے جبکہ آپ نے  ابھی زبان رسالت سے اس واقعہ کے متعلق کچھ سنا بھی نہیں تھا ۔ سبحان اللہ
کیا طلاق ثلاثہ اور گولی  کا اثر دونوں برابر ہیں ؟ اوپر ایک جائز ہ ہم نے پیش کیا کہ گولی سے بیوی مرجاتی ہے لیکن طلاق سے نہیں مرتی ۔ کیا طلاق ثلاثہ سے کوئی اثر نہیں ہوتا ؟ ہاں اثر ہوتا ہے ، میں مانتا ہوں کہ اثر ہوتا ہے اور اثر بھی اتنا ہی مانوں گا جتنا ہمیں رسول اللہ ﷺ نے بتلایا ہے ، اس میں اپنی عقل سے کچھ اضافہ نہیں کرسکتا ۔ طلاق ثلاثہ کا اثر یہ ہے کہ کوئی شوہر ایک مجلس میں اپنی بیوی کو تین طلاق دے تو ایک طلاق واقع ہوگی یعنی طلاق کا اثر ہوا مگر ایک طلاق کا اثر ہوگا۔
دینی احکام کے پس منظر میں اس بات کا جائزہ لیتے ہیں  ۔ اللہ نے قرآن میں فرمایا ہے کہ نماز اپنے اپنے وقتوں پر فرض ہے ۔ اگرکوئی موذن فجر کے وقت دن بھر کی پانچ اذانیں دیدے اور مسجد کا امام دن بھرکی پانچ نمازیں پڑھادے تاکہ ایک بار ہی چھٹی مل جائے ۔کیا ایسا کرنا صحیح ہے ، کیا یہ پانچ اذانیں اور پانچ نمازیں  بیک وقت قبول کی جائیں گی ؟ اب سوال یہ پیداہوتا ہے کہ فجر کے وقت میں پانچ اذان اور پانچ نمازمیں سے کتنی وقت کی نماز مانی جائے گی ؟ تو اس کا جواب یہ ہوگا کہ صرف ایک وقت کی نماز مانی جائے گی ۔ اسی طرح اللہ تعالی نے بلاشبہ ہمیں طلاق کا اختیار دیا ہے مگر اس اختیار میں بھی اصول وپابندی ہے ۔ وہ پابندی یہ ہے کہ ایک وقت میں ہمارے اختیار میں ایک ہی طلاق ہے ،اگر کوئی ایک وقت میں دو یا تین طلاق دیتا ہے تو یہ واقع ہی نہیں ہوگی کیونکہ اس نے اپنے اختیار سے زائد استعمال کیا ہے ، مانا وہی جائے گا جتنا اختیار ملا ہے ۔
اس بات کو ایک اور ناحیہ سے پرکھتے ہیں ۔ ایک شوہر اپنی  بیوی کو دس گولیاں مارتا ہے ، دوسرا شوہر اپنی بیوی کو دس طلاق دیتا ہے ؟  کیا دونوں کا اثر ایک ہی ہوگا یا الگ الگ ؟ اس کا جواب اوپر گزر چکا ہے ، ایک جواب مزید یہاں ملاحظہ فرمائیں ۔
 جو لوگ کہتے ہیں کہ ایک وقت میں تین طلاق تین ہوجاتی ہے اور اس کی مثال گولی سے دیتے ہیں ، ہم ان لوگوں سے پوچھتے ہیں کہ جس نے اپنی بیوی کو دس گولیاں ماری ہیں اس عورت پر دس گولیوں کا اثر ہوا ہے لیکن جس شوہر نے اپنی بیوی کو دس طلاقیں دی ہے کیا اس کی بیوی کو دس طلاق بھی ہوگئی ہیں ؟ میرے خیال سے  جواب میں تلملانے کے سوا  اور کچھ نہیں ہوگا ۔
اتنی باتوں سے طلاق ثلاثہ پہ گولی کی بات کرنے والوں کا جائز ہ سامنے آجاتا ہے ، اب  جوعقلمند ہوگا وہ خالص دین اختیار کرے گا اورجو بے وقوفی کرے گا وہ  عقل کی پوجا کرے گا اور اپنی عقل سے دین میں دخل اندازی کرکے خود بھی تباہ ہوگا اور دوسروں کو بھ ی تباہ کرے گا۔
معذرت کے ساتھ ، کوئی یہ نہ کہے کہ میں دین میں عقلیت کا انکار بھی کرتا ہوں اور طلاق ثلاثہ پہ عقل بھی لگاتا ہوں ۔ میں نے دین میں عقل نہیں لگایا ہے بلکہ جو لوگ دین میں عقل لگاتے ہیں ان کی عقلمندی کا عقلمندانہ جائزہ لیا ہے ۔ دوسری معذرت یہ ہے کہ میں نے کسی کے خلاف دشمنی میں یہ تحریر نہیں لکھی ہے بلکہ جو دین کا مذاق اڑاتے ہیں انہیں متنبہ کرنے اور دوسروں کو اس سے بچانے کے لئے لکھی ہے۔
مکمل تحریر >>

Saturday, December 29, 2018

اہل تقلید کوسلفیت سے خوف کیوں ؟


اہل تقلید کوسلفیت سے خوف کیوں ؟

تحریر: مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹر،شمالی طائف (مسرہ)

سلفیت رسول اللہ ﷺ اور آپ کے اصحاب کا طریقہ  ومنہج ہے ، سلفی حضرات اسی منہج اور طریقہ کے عین مطابق اپنی زندگی گزارتے ہیں ۔ امت مسلمہ میں سلفی کے علاوہ تمام فرقے، جماعتیں اور مسالک احکام ومسائل میں منہج نبوی اور منہج صحابہ سے منحرف ہیں بلکہ بہت سارے فرق میں عقائد کی گمراہیاں بھی پائی جاتی ہیں اور شرک وبدعات سے تو صرف سلفی ہی پاک وصاف ہیں ۔ کوئی مانے یا نہ مانے مگر میرا یہ ماننا ہے کہ اگر کوئی جماعت دین اسلام کے لئے مخلص ہے ، وہ قرآن وحدیث پر چلنے کا دعوی کرتی ہے اور وہ اپنے دعوی میں سچی اور پکی ہے تو اس جماعت کو بھی سلفی ، اہل الحدیث اورمحمدی کہہ سکتے ہیں مگرکیا آپ کو معلوم ہے کہ اہل تقلیداورخاص مسلک کی تقلیدکرنے والے خود کومحمد ﷺ کی طرف ، صحابہ کی طرف اور محدثین کی طرف نسبت کرکے محمدی، سلفی اور اہل الحدیث کیوں نہیں کہلواتے ؟ کیونکہ وہ قرآن وحدیث کی تعلیمات سے دور ہیں، اگر وہ دعوی بھی کریں کہ ہم قرآن وحدیث کے ماننے والے ہیں تو وہ اپنے دعوی میں جھوٹے ہیں ۔ سبھی جانتے ہیں کہ دعوی بغیر دلیل کے باطل ہے۔
اسلام کا ایک اہم اصول ہے کوئی دعوی ہم بغیر دلیل کے تسلیم نہیں کریں گے کیونکہ ہمارا دین دلیل و ثبوت پر قائم ہے ۔حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
لو يُعطى الناس بدعواهُم ، لادّعَى ناسٌ دماءَ رجالٍ وأموالهُم . ولكن اليمينَ على المدّعَى عليهِ(صحيح مسلم:1711)
ترجمہ: اگر صرف دعویٰ کی وجہ سے لوگوں کا مطالبہ مان لیا جانے لگے تو بہت سوں کا خون اور مال برباد ہو جائے گا لیکن قسم مدعیٰ علیہ پر ہے ۔
یہ حدیث ہمیں بتلاتی ہے کہ دعوی کرنے والے پر لازما دلیل دینی ہے بغیر دلیل کے کوئی دعوی تسلیم نہیں کیا جائے اور جو کسی معاملہ میں انکار کرے تو اسے قسم کھانی ہے ۔ مدعی کے ذمہ دلیل و برہان دینا ہے اس کی ایک واضح حدیث یہ ہے ۔
البيِّنةُ على المدَّعي واليَمينُ علَى مَن أنكرَ(إرواء الغليل:2685)
ترجمہ:دلیل دینا اس کے اوپرہے جو دعوی کرے اور قسم کھانا اس کے اوپر ہے جو انکار کرے ۔
المہم ،یہ بات صاف ہوگئی کہ اہل تقلید خود کو سلفی ، اہل الحدیث اور محمدی نہیں کہہ سکتے ، وجہ صاف ظاہر ہے۔ ایک ادنی اور معمولی جگہ کی طرف نسبت کرکےدیوبندی اور بریلوی کہلانے پر فخر کرتے ہیں مگر سلفی ومحمدی کہلانے میں خوف کیوں ہے؟ دراصل سلفیت سے انہیں بیر ہے۔ سلف کی تعلیمات سے کوسوں دور ہیں اورقرآن وحدیث کے نام پر خودساختہ ملفوظات پر کاربند ہیں۔
سلفیت ایک صاف وشفاف منہج ہے جو ہمیں رسول اللہ ﷺ نے عطا فرمایا ہے اور جس پہ خیرالقرون کے مسلمان چل کردکھائے ہیں ۔ زہے نصیب جو خیرالقرون کا منہج اختیار کرتے ہیں اور وائے بدنصیبی جو بعد کے زمانے والوں کی تقلید کرتے ہیں ۔
نبی ﷺ کا فرمان صادق آرہاہے:اتَّخذ النَّاسُ رؤوسًا جُهَّالًا ، فسُئِلوا فأفتَوْا بغيرِ علمٍ . فضلُّوا وأضلُّوا(صحيح مسلم:2673)
ترجمہ: لوگ جاہلوں کو سردار بنا لیں گے،ان سے سوالات کئے جائیں گے اور وہ بغیر علم کے جواب دیں گے اس لئے خود بھی گمراہ ہوں گے اور لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے۔
آج کے زمانے میں اہل تقلید کے سلفیوں کے ساتھ متعصبانہ سلوک ، جاہلانہ رویہ، پرتشدد معاملہ اور مجرمانہ کردارسے ایک بات تو روز روشن کی طرح عیاں ہوکر ہرکس وناکس پر واشگاف ہوگئی ہے کہ ان کے دل میں منہج سلف پر چلنے والوں کے لئے وہی نفرت وعداوت ہے جو کافروں کو اسلام کے تئیں ہے ۔ اہل حدیث مساجد کا انہدام، اللہ کے پاکیزہ گھروں پر قبضہ، مساجد ومدراس میں موحد وں کے خلاف ناپاک منصوبے ، بستی کے سلفی مسلمانوں کے ساتھ ظلم وزیادتی، دن ورات وہابی کا طعنہ، ان کاسوشل بائیکاٹ ، حکومت کے ناپاک عزائم میں امداد ، معصوموں پر فرضی مقدمات ، اہل حدیث کے خلاف عوام کو مشتعل کرنا،کافروں سے جہاد کی طرح اپنے طلبہ کومناظرہ بازی کا فن سکھانا،سلفیوں سے لین دین، شادی بیاہ حتی کہ ان کے مساجد ومدارس اور ان کی کتابوں سے کلی طور پرعوام وخواص کو دور رہنے کی تعلیم دینا، سلفی مسلمان اور سلفی تنظیم کی طرف دہشت گردی کا انتساب کرنا ، خالص کتاب وسنت کی تعلیم ، ان کی نشر واشاعت اور دعوت وتبلیغ میں رخنہ ڈالنا۔ یہ سارے گھناؤنے کام اگر کافر کرتے تو اس قدر حیرانی نہیں ہوتی جس قدر حیرانی ان لوگوں پر ہےجواکرام مسلم کا درس دینےوالے، نبوی مشن تبلیغ کے نام پر دن ورات، گلی کوچے گھومنے والے  ہیں ۔
ڈاکٹر ذاکر نائک کو دعوت وتبلیغ سے روکنے، ہندوستان میں ان پر عرصہ حیات تنگ کرنے، انہیں دہشت گرد قرار دینے، ان کے مشن کو دہشت گردی سے جوڑنے اور خالص کتاب وسنت کی تعلیم عام ہونے سے روکنے والے اہل تقلید ہی ہیں ۔ انہوں نے نہ کسی پر ڈاکہ ڈالا، نہ کسی کی دوکان بند کی،نہ کسی پر ظلم وستم کئے، نہ کسی کا گھر اجاڑا، نہ کسی کا قتل کیا۔توحید کی دعوت دینا اگر جرم ہے تو بس ایک یہی جرم کیا جو انبیاء نے بھی کیا ۔ خالص توحید کی دعوت دی، لوگوں کو ایک اللہ کا سجدہ کرنے کی طرف بلایا۔اس کام کی سزا جس طرح انبیاء کو کافروں نے دی اسی طرح کی سزا  ڈاکٹر صاحب کو ہندوستان کے سلفیوں سے خائف مسلمانوں نے دی ۔کس قدر کافروں کے اطوار اور آج کے جھوٹے مسلمانوں کے کردار میں مساوات پایا جاتا ہے؟۔
خیر،اللہ کا دین کسی کا محتاج نہیں ہے ، کسی ایک کو دعوت سے روک دینے پر یہ دین مٹے گا بھی نہیں ،اللہ جس سے چاہتا ہے اپنے دین کا کام لیتا ہے اور یہ دین غالب ہوکر رہے گا اگرچہ لوگ دین حق اور منہج سلف سے دشمنی کرتے رہیں۔
انگریزوں نے وطن کا سچا پاسبان اور صحیح معنوں میں اصلی مسلمان سلفیوں کوہی سمجھا اسی لئے انہیں ہی اپنا سب سے بڑا دشمن سمجھ کر خاص نشانہ بنایااور وہابی کہہ کر پکارا۔ اس وقت نہ صرف ہندوستان میں بلکہ چہار دانگ عالم میں سلفیوں سے کافروں کی اور تمام مسالک کے مسلمانوں کی کھلی اور سخت ترین دشمنی ظاہر کرتی ہے کہ ہم سلفی ہی سچے پکے مسلمان ہیں جو حقیقی طورپر صراط مستقیم پر گامزن ہیں ۔ ہماری خالص توحید کی دعوت سے جہاں کفار خائف ہیں وہیں خودساختہ مسالک پربھی خوف کا گہرا  اثر ہے۔ ایک طرف کلمہ توحید پڑھ کر نئے نئے مسلمان اسلام میں جوق در جوق داخل ہورہے ہیں تو دوسری طرف تقلید اور شرک وبدعت سے توبہ کرکے بہت سارے لوگ سچے پکے سلفی بن رہے ہیں ۔ کیوں نہ کافروں کو سلفی سے خوف ہواور کیوں نہ ہم اہل تقلید کی نظر میں دہشت گرد قرار پائیں ؟۔ اپنے ساتھ اس قدر ظلم وزیادتی ہونے کے باوجود ہم نے اہل تقلید کو دشمن کہہ کر نہیں پکارا، نہ کوئی الزام لگایا اور نہ کبھی طعنہ کشی کی،کسی مسجد یا مدرسہ پر قبضہ نہیں کیا، کورٹ کچہری میں فرضی کیس درج نہیں کیا،حکومت کے لئے کسی معصوم کوآلہ کار نہیں بنایا۔ ہم نےہمیشہ اپنے صبر کا دامن وسیع رکھا،طعنہ پہ طعنہ کھاکے بھی زبان پہ حرف شکایت نہیں آنے دیا تاہم  آج جب ہندوستانی پارلمنٹ میں مدرسہ سے فارغ التحصیل، سلفی ممالک کے ریالوں سے بدن کا گوشت وپوست بڑھانے والا ، اپنے چہرہ پہ داڑھی کی سنت سجانے والا بدرالدین اجمل نے سربراہان ملک کے سامنے سلفیوں کو دہشت گرد قرار دے کر اپنے مسلکی بغض وعناد کو دوٹوک انداز میں ظاہر کردیا ۔ ہم توجانتے ہی ہیں کہ انہیں سلفیت سے خداواسطے کا بیر ہے،کافروں نے بھی اس کا نظارہ دیکھا ۔ مسلمانوں کے ایسے ہی  خوبصورت نظاروں سے کافروں کو سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے اور ضمیر فروش ملاؤں کے ضمیر کا سودا کرکےپھر سچے مسلمانوں کا قتل عام کرتے ہیں ۔
میں آخر میں سلفیت سے بغض رکھنے والوں کو یہ پیغام دینا چاہتا ہوں کہ ایک دن تمہارا سامنا اللہ سے ہونے والا ہے، اسلام کا دعویدار ہوکر مسلمانوں کی ذلت ورسوائی کا سامان بہم پہنچانے والے اس دن کو یاد کرو جب تمہارے کالے کرتوت شرمندگی کے بوجھ تلے تمہیں دبا دے گی۔ کچھ تو رب سے ملاقات کا خوف کھاؤ، اپنے بھائیوں کی گردن پہ کب تک چھری چلاتے رہوگے؟کب تک مسلمانوں کو مسلمانوں سے جدا کرتے رہوگے؟ کب تک اپنے بھائیوں کو کافروں کے ظلم کے حوالے کرتے رہوگے؟  کب تک منہج سلف سے دشمنی نبھاتے رہوگے؟ اللہ نے تمہیں ایک امت بناکر بھیجا ہے ۔ اپنے بھائیوں کی مدد کرنے کے لئےبھیجا ہے ، کافروں سے جہاد کرنے اور ان پر دین حق پیش کرنے کے لئےبھیجا ہے۔کتاب اللہ اور سنت رسول کو مضبوطی سے تھامنے کے لئے بھیجا ہے۔ ذرا اپنی تخلیق کا مقصد یاد کرو جسے تم بھول بیٹھے ہو۔ دین میں اپنے ہی بھائیوں کے خلاف سیاسی بازی گری کرنے سے باز آجاؤ۔ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ کو ہماری طرح اپنا معیار زندگی بنالو پھر دیکھو ہماری طاقت کتنی مضبوط بن جاتی ہے اور کیسے کافر حکومت ہم سے تھراتی ہے؟۔ اے کاش کہ تم جس طرح محمد ﷺ سے محبت کا نعرہ لگاتے ہو ان سے سچی محبت کرتے اور ان کے پیغام کو اپنی زندگی میں نافذ کرتے ۔
 ہم اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ تمام مسلمانوں کو دین حق کی سمجھ دے، انہیں مسلکی منافرت سے دور کرے، عقائد واعمال کی اصلاح فرمادے اور سب کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرکے کفارومشرکین پر غلبہ عطا فرمائے ۔ آمین

مکمل تحریر >>

Thursday, December 27, 2018

نکاح نامہ پر لڑکی کی بہن نے دستخط کیا


نکاح نامہ پر لڑکی کی بہن نے دستخط کیا

السلام علیکم ورحمة الله وبرکاته
امید کہ سب بخیر ہوگا۔
کسی کی شادی ہوئی لڑکی تیار نہیں تھی ۔ نکاح نامہ پے دستخط کرنے کیلئے تیار نہیں تھی لڑکی کی دوسری بہن نے بدلے میں دستخط کردیا، اس بات کا علم کسی کو نہیں تھا۔ دونوں خوشی خوشی رہنے لگے، اب لڑکی حمل سے ہے، لڑکا کو حال ہی میں چند دنوں پہلے معلوم ہوا کہ میرے ساتھ اس طرح ہوا ہے۔
اب وہ پریشان ہے آپ سے مؤدبانہ التماس ہے، اس مسئلہ کا حل کتاب و سنت کے مطابق بتاکر شکریہ کا موقع دیں بڑی مہربانی ہوگی اور ساتھ میں یہ بھی واضح کریں کہ گواہ کا کیا ہوگا، میں جواب کا منتظر ہوں۔
والسلام علیکم
محمد أسرار محمدرستم
نظام چوک سپول

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
الحمد للہ :
لڑکی کی شادی کے لئے ولی کا ہونا شرط ہے، ولی نے کسی لڑکے سے شادی طے کی اور اس کا نکاح اس سے کردیا اس حال میں کہ لڑکی نے ولی کے فیصلے پر خاموشی اختیار کی تو یہ نکاح صحیح ہے ۔ کئی احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ باکرہ عورت کی اجازت خاموشی ہے یعنی ولی کے فیصلے کی مخالفت نہ کرنا بلکہ اس پہ رضامندی یا خاموشی کا اظہار کرنا رضامندی ہے ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے : الثَّيِّبُ أحقُّ بنفسِها من وليِّها والبِكرُ تستأمرُ وإذنُها سُكوتُه(صحيح مسلم:1421)
ترجمہ: ثیبہ اپنے نفس کا اپنے ولی سے زیادہ حقدار ہے اور کنواری لڑکی سے اس کے بارے میں اجازت لی جائے گی اور اس کی خاموشی ہی اس کی اجازت ہے ۔
نبی ﷺ کا فرمان ہے :
لا تُنكَحُ الأيِّمُ حتى تُستأمَرَ، ولا تُنكَحُ البكرُ حتى تُستأذَن. قالوا: يا رسولَ الله، وكيف إذنُها؟ قال: أن تسكُتَ(صحيح البخاري:5136)
ترجمہ: بیوہ عورت کا نکاح اس وقت تک نہ کیا جائے جب تک اس کی اجازت نہ لی جائے اور کنواری عورت کا نکاح اس وقت تک نہ کیا جائے جب تک اس کی اجازت نہ مل جائے۔ صحابہ نے کہا کہ یا رسول اللہ! کنواری عورت اذن کیونکر دے گی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کی صورت یہ ہے کہ وہ خاموش رہ جائے۔ یہ خاموشی اس کا اذن سمجھی جائے گی۔
عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں:
أنَّ رسولَ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليْهِ وسلَّمَ قالَ ليسَ للوليِّ معَ الثَّيِّبِ أمرٌ واليتيمةُ تستأمرُ وصمتُها إقرارُها(صحيح أبي داود:2100)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ولی کا ثیبہ عورت پر کچھ اختیار نہیں، اور یتیم لڑکی سے پوچھا جائے گا اس کی خاموشی ہی اس کا اقرار ہے ۔
ان ساری احادیث سے ہمیں معلوم ہوا کہ اگر لڑکی ولی کے فیصلے پہ خاموش رہی تو یہ اس کی طرف سے رضامندی ہے ۔ سوال سے بھی ظاہر ہے کہ نکاح کے بعد لڑکی اپنے شوہر کے ساتھ خوشی خوشی رہنے لگی ۔ یہ شادی اپنی جگہ بالکل صحیح ہے،اس میں کسی قسم کا شک کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ رہ گیا معاملہ نکاح نامہ پر اس کی بہن کے دستخط کرنے کا تو اس سے نکاح پر کوئی فرق نہیں پڑتا ہے۔ لڑکی کی طرف سے نکاح نامہ پہ دستخط کا ہونا نکاح کی صحت کے لئے شرط نہیں ہے ، اس کی طرف سے خاموشی ہی کافی ہے۔
ایک دوسرا مسئلہ یہ بھی ہے کہ شادی کے وقت لڑکی شادی سے راضی نہیں تھی اس کا علم صرف لڑکی کی بہن کو تھا مگر پھر نکاح کے بعد رخصتی ہوکر شوہر کے یہاں جانا اور خوشی خوشی رہنا یہاں تک کہ بچہ بھی ٹھہرجائے اس بات کی دلیل ہے کہ لڑکی راضی ہوگئی تھی ۔ اگر لڑکی ولی کے فیصلے سے انکار کرتی تو اسے ولی سے انکار کرنا تھا ، انکار کی صورت میں بھی ولی شادی کردیتے تو یہ جبری شادی ہوتی پھر بھی شادی ہوجاتی تاہم لڑکی کو اپنا نکاح باقی رکھنے یا فسخ کرلینے کا اختیار ہوتا۔
تیسرا مسئلہ گواہ سے متعلق پوچھا گیا ہے کہ اس کا کیا ہوگا؟ اس سوال میں واضح نہیں ہے کہ گواہ سے متعلق کون سی بات پوچھی جارہی ہے ؟ اسے لڑکی کی عدم رضامندی کا علم تھا پھر بھی اس نے چھپایا ؟  یا گواہ ہوکر بھی اسے لڑکی کی رضامندی یا عدم رضامندی کا علم نہ ہوسکے ایسے گواہ کا کیا حکم ہے؟ یا اس نکاح میں سرے سے گواہ ہی نہیں تھا ایسے نکاح کا کیا ہوگا؟
ان تین نقاط میں مجھے امید ہے کہ تیسرا نقطہ نہیں ہوگاالبتہ پہلی دو صورتوں میں بھی نکاح صحیح ہے، ان باتوں کے علاوہ گواہ سے متعلق کوئی اور بات ہو تو مجھے لکھ بھیجیں۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ یہ نکاح اپنی جگہ صحیح ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ
مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹر، شمالی طائف (مسرہ)
تاریخ: 27/12/2018

مکمل تحریر >>

قمری مہینوں کا ذکر حدیث رسول میں


قمری مہینوں کا ذکر حدیث رسول میں

تحریر: مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹر،شمالی طائف(مسرہ)

قمری مہینے اللہ کی طرف سے زمین وآسمان کی تخلیق سے ہی مقرر ہیں جن کی تعداد بارہ ہے۔ ان مہینوں کا تعلق سورج وچاند اور ان کی آمدورفت سے، لیل ونہار اور گردش  ایام  سے، عبادات ومعاملات سے اور حساب وکتاب سے لیکر متعدد علوم ومعارف سے متعلق ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی نے ابتدائے آفرینش سے ہی انہیں مقرر کر رکھا ہے ۔ قرآن میں اللہ تعالی نے ذکرفرمایا ہے کہ کائنات کی تخلیق سے ہی بارہ مہینے مقرر ہیں ، فرمان الہی ہے :
إِنَّ عِدَّةَ الشُّهُورِ عِندَ اللَّهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِي كِتَابِ اللَّهِ يَوْمَ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ مِنْهَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ ۚذَٰلِكَالدِّينُالْقَيِّمُۚفَلَاتَظْلِمُوافِيهِنَّأَنفُسَكُمْۚوَقَاتِلُواالْمُشْرِكِينَ كَافَّةً كَمَا يُقَاتِلُونَكُمْ كَافَّةً ۚوَاعْلَمُواأَنَّاللَّهَمَعَالْمُتَّقِينَ (التوبة:36)
ترجمہ : مہینوں کی گنتی اللہ کے نزدیک کتاب اللہ میں بارہ کی ہے ، اسی دن سے جب سے آسمان وزمین کو اس نے پیدا کیا ہے ، ان میں سے چار حرمت وادب کے ہیں ۔ یہی درست دین ہے ۔ تم ان مہینوں میں اپنی جانوں پر ظلم نہ کرواور تم تمام مشرکوں سے جہاد کرو جیسے کہ وہ تم سب سے لڑتے ہیں اور جان رکھو کہ اللہ تعالی متقیوں کے ساتھ ہے ۔
اس آیت سے ہمیں یہ معلوم ہوگیا کہ مہینوں کی تعداد اللہ کے نزدیک بارہ ہے، ان بارہ مہینوں میں چار مہینے حرمت کے ہیں ۔ آدم علیہ السلام لیکر اب تک جتنے واقعات وحادثات رونما ہوئے وہ سب انہی باروں مہینوں کے اندر محصور ہیں، یہاں ان کا دراسہ مقصود نہیں ہے بلکہ قمری مہینوں کا ذکر حدیث رسول میں آیا ہے ان کی ایک ایک دلیل ذکر کرنا مقصود ہے۔
قمری مہینوں کے اسماء ترتیب کے ساتھ اس طرح ہیں ۔
(1)محرم(2)صفر(3)ربیع الاول(4)ربیع الثانی(5)جمادی الاولی(6)جمادی الآخره(7)رجب (8)شعبان(9)رمضان(10)شوال(11) ذوالقعدہ(12)ذوالحجہ۔
حرمت والے مہینے یہ ہیں : ذوالقعدہ، ذوالحجہ ، محرم اور رجب۔ حرمت والے ان چار مہینوں کے نام بھی حدیث سے ثابت ہیں جن کا ذکر آگے آئے گا۔
(1)محرم حدیث میں : یہ حرمت والے مہینوں میں سے ایک ہے،احادیث میں اس ماہ کی بڑی عظمت بیان ہوئی ہے ، اسی میں عاشوراء کا روزہ ہے اورنبی ﷺ نے اس ماہ میں روزوں کی فضیلت بیان کرتے ہوئے فرمایا:أفضلُ الصيامِ ، بعد شهرِ رمضانَ ، صيامُ شهرِ اللهِ المُحرَّمِ(صحيح مسلم:1163)
ترجمہ: رمضان کے بعد سب سے افضل روزے ماہِ محرم کے روزے ہیں۔
(2)صفر حدیث میں : کفارومشرکین صفر کے مہینے سے نحوست لیا کرتے تھے جبکہ نحوست  جاہلانہ اورمشرکانہ تصور ہےاسلام میں نحوست کا کوئی تصور نہیں ہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:لا عدوى ولا طَيَرةَ ، ولا هامَةَ ولا صَفَرَ(صحيح البخاري:5707)
ترجمہ: مرض کا متعدی ہونا نہیں (یعنی اللہ کے حکم کے بغیرکوئی مرض کسی دوسرے کو نہیں لگتا )اور نہ بدفالی لینا درست ہے ، اور نہ ہی صفر کا مہینہ منحوس ہے۔
(3) ربیع الاول حدیث میں:یہی وہ مہینہ ہے جس میں رسول رحمت کی ولادت ہوئی اور اسی ماہ میں آپ کی وفات بھی ہوئی ، اس طرح اسلامی تاریخ وسیرت آپ کے ذکرمسعود سے معطر ومشکبار نظر آتی ہے۔اس ماہ میں مکہ سے مدینہ کی ہجرت بھی ہوئی ۔صحیح بخاری کی ایک لمبی سى حدیث ہے، اس کا ایک ٹکڑا یہ ہے:
فلم يَمْلِكِ اليهوديُّ أن قال بأعلى صوتِه : يا معاشرَ العربِ، هذا جَدُّكم الذي تنتظرون، فثار المسلمونَ إلى السلاحِ، فتَلَقَّوْا رسولَ اللهِ بظَهْرِ الحَرَّةِ، فعدَل بهم ذاتَ اليمينِ، حتى نزل بهم في بني عمرو بنِ عوفٍ، وذلك يومُ الاثنينِ من شهرِ ربيعٍ الأولِ(صحيح البخاري:3906)
ترجمہ:یہودی بے اختیار چلا اٹھا کہ اے عرب کے لوگو! تمہارے یہ بزرگ سردار آگئے جن کا تمہیں شدت سے انتظار تھا۔یہ سنتے ہی مسلمان ہتھیار لے کر آپ کے استقبال کو دوڑے چنانچہ وہ رسول اللہ ﷺ کو مقام حرہ کے پیچھے ملے، انہیں ساتھ لئے دائیں مڑے، پھر انہوں نے بنو عمرو بن عوف کے ہاں پڑاؤ کیا۔ یہ واقعہ ماہ ربیع الاول سوموار کے دن کا ہے۔
(4) ربیع الثانی حدیث میں :جب ربیع الاول کا ذکر حدیث سے معلوم ہوگیا تو یہ مہینہ خود بتلاتا ہےکہ ربیع الثانی بھی ہوگا کیونکہ اول کے ذکر سے ثانی کا ذکرآپ خود سامنے آتا ہے۔ احادیث میں خصوصیت کے ساتھ اس ماہ کا ذکر بہت زیادہ نہیں آیا ہے(تواریخ وسیر میں تمام مہینوں کا غیرمعمولی ذکر ہے) ، ایک جگہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا مدینہ سے سفر پہ نکلنے کا ذکر ہے جسے حافظ ابن حجر نے ذکر کیا ہے:
خرج عليٌّ في آخرِ شهرِ ربيعٍ الآخرِ سنةَ ستٍ وثلاثينَ(فتح الباري لابن حجر:13/59)
ترجمہ:سیدنا علی چھتیس ہجری میں ربیع الآخر کے آخر میں نکلے ۔
صحیح بخاری(6973) میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا شام کی طرف نکلنے کا ذکر ہے، وہاں مہینے کا ذکر نہیں ہے مگر اسلامی تاریخ سے ربیع الثانی کا مہینہ معلوم ہوتا ہے ۔
(5) جمادی الاولى حدیث میں :صحیحین میں جنگ موتہ کا ذکر ہے جس میں مسلمانوں کے کئی سپہ سالارشہید ہوگئے ،آخر میں خالد بن ولید نے کمان سنبھالی ، ان کا بیان ہے کہ جنگ موتہ میں میرے ہاتھ سے نو تلواریں ٹوٹیں، ایک یمنی تیغہ میرے ہاتھ میں باقی رہ گیا۔صحیحین میں مہینے کا ذکر نہیں ہے مگر مجمع الزوائد میں مہینے کی صراحت ہے۔ اس کا ایک ٹکڑا دیکھیں:
ثم اصطلح المسلمونَ بعدَ أُمراءِ رسولِ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم على خالدِ بنِ الوليدِ فهزم اللهُ العدوَّ وأظهر المسلمين وبعثهم رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم في جمادَى الأُولَى(مجمع الزوائد:6/163 | رجاله ثقات)
ترجمہ:پھر مسلمانوں نے رسول اللہ ﷺ کے سپہ سالاروں کے بعد خالد بن ولید پر اتفاق کیا، پس اللہ نے دشمن کو ناکام بنا دیا اور مسلمانوں کو غلبہ عطا فرمایا، رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں کو جمادی الاولی میں بھیجا تھا۔
(6) جمادی الآخرہ حدیث میں : ایک  حدیث میں مذکور ہے کہ سال کے سارے مہینے ہوتے ہیں ۔ قرآن میں بھی سال کا ذکر "سنہ"، "عام" اور "حول" کے لفظ سے آیا ہے ۔ حدیث کے الفاظ دیکھیں جس میں اشھر حرم(حرمت والے مہینے) کا  نام آیاہے۔
السنةُ اثنا عشرَ شهرًا منها أربعةُ حُرُمٌ : ثلاثةٌ مُتوالياتٌ : ذو القَعدةِ وذو الحَجَّةِ والمُحرَّمُ ، ورجبُ مُضرَ ، الذي بين جُمادَى وشعبانَ .(صحيح البخاري:4406)
ترجمہ: سال بارہ ماہ کا ہے۔ اس میں چار مہینے حرمت والے ہیں، تین تو مسلسل ہیں: ذوالقعدہ، ذوالحجہ اور محرم اور ایک رجب ہے جو جمادی الآخره اور شعبان کے درمیان ہے۔
یہاں جمادی سے مراد جمادی الآخره ہے کیونکہ اس کے اور شعبان کے درمیان ہی رجب  آتاہے۔
مجمع الزوائد میں ہے : قُتِلَ الزُّبيرُ بنُ العَوَّامِ يومَ الجَمَلِ في جُمادى لا أدري الأولى أو الآخرةِ سنةَ ستٍّ وثلاثين( مجمع الزوائد:9/155)
ترجمہ: زبیر بن عوام جمل والے دن جمادی کو قتل کئے گئے ، مجھے نہیں معلوم جمادی الاولی کو یا جمادی الآخرہ کو چھتیس ہجری میں ۔
(7) رجب حدیث میں : اس ماہ میں نبی ﷺ نے کوئی عمرہ نہیں کیاہے  پھربھی بدعتی اس ماہ میں کثرت سے عمرہ کرتے ہیں حالانکہ بطور خاص اس ماہ میں عمرہ کرنے کا حکم نہیں آیا ہے  اور نہ ہی اس ماہ میں عمرہ کرنے کی کوئی علاحدہ فضیلت ثابت ہے، عمرہ کبھی بھی کرسکتے ہیں اور رمضان میں عمرہ کرنا حج کے برابر ہے۔
عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ قَالَ سَأَلْتُ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ مَا اعْتَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَجَبٍ(صحيح البخاري:1777)
ترجمہ:حضرت عروہ بن زبیر سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے دریافت کیا تو انہوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ نے رجب میں کوئی عمرہ نہیں کیا۔
(8) شعبان حدیث میں : ترمذی شریف میں ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے :ما رأيتُ النَّبيَّ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ يصومُ شَهرينِ متتابعينِ إلَّا شعبانَ ورمضانَ(صحيح الترمذي:736)
ترجمہ: میں نے نبی ﷺ کو لگاتار دومہینوں کے روزے رکھتے نہیں دیکھا سوائے شعبان اور رمضان کے ۔
(9) رمضان حدیث میں : اپنی فضیلت کے باعث اس ماہ مبار ک کا قرآن میں بھی ذکر آیا ہے اور احادیث میں بہت ہی زیادہ  مذکور ہے۔ نبی ﷺ کافرمان ہے:مَن صامَ رمضانَ إيمانًا واحتسابًا ، غُفِرَ لَهُ ما تقدَّمَ من ذنبِهِ (صحيح البخاري:2014)
ترجمہ:جس نے ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے رمضان کے روزے رکھے اس کے گزشتہ گناہ بخش دئے جاتے ہیں۔
(10) شوال حدیث میں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مَن صامَ رمضانَ ثمَّ أتبعَه بستٍّ من شوَّالٍ فَكأنَّما صامَ الدَّهرَ(صحيح أبي داود:2433)
ترجمہ: جس نے رمضان کے روزے رکھے اور اس کے بعد چھ روزے شوال کے رکھے تو گویا اس نے پورے سال کے روزے رکھے ۔
(11) ذوالقعدہ حدیث میں : حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے روایت کرتے ہیں :
أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اعْتَمَرَ أَرْبَعَ عُمَرٍ كُلُّهُنَّ فِي ذِي الْقَعْدَةِ إِلَّا الَّتِي مَعَ حَجَّتِهِ(صحیح مسلم:3033)
ترجمہ:اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (کل) چارعمرے کئے اور اپنے حج والے عمرے کے سوا تمام عمرے ذوالقعدہ ہی میں کئے۔
(12) ذوالحجہ حدیث میں : یہ مہینہ متعدد عبادتوں کے ذکر سے بیحد معروف ہے ، ان عبادتوں میں ایک حج بھی ہے جس کی ادائیگی کے لئے پوری دنیا کے مسلمان مکہ میں جمع ہوتے ہیں ۔ ذوالحجہ سے متعلق ایک حدیث دیکھیں ۔حضرت ابو بکرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:شهرانِ لا ينْقُصَانِ ، شهرَا عيدٍ : رمضانُ وذو الحَجَّةِ .(صحيح البخاري:1912)
ترجمہ: عیدکے دونوں مہینے یعنی رمضان اور ذوالحجہ کم نہیں ہوتے۔
اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اگرچہ تعداد ایام کے اعتبار سے کم ہو سکتے ہیں لیکن کمال عبادت میں دونوں کا حکم ایک ہے۔ اگر کسی نے انتیس روزے رکھے تو اسے ثواب تیس روزوں ہی کا ملتا ہے۔ اس کے ثواب کے متعلق کسی کو شک نہیں ہونا چاہیے، اسی طرح وقوف عرفہ میں غلطی ہو جائے تو اس کا حج پورا ہے اس میں کوئی کمی نہیں ہے۔ (فتح الباری:4/161)

مکمل تحریر >>

Monday, December 24, 2018

بنت حوا کے مسائل اور ان کا شرعی حل(ساتویں قسط)


بنت حوا کے مسائل اور ان کا شرعی حل(ساتویں قسط)

جواب ازشیخ مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹر، شمالی طائف(مسرہ)


سوال(1):کیاخواتین کے لئے عمر کے کسی مرحلےمیں پہنچ کرپردہ کی پابندی ختم ہوجاتی ہے؟
جواب : پردہ کی پاپندی کسی بھی مرحلے میں ختم نہیں ہوتی ہے تاہم جب عورت عمر رسیدہ ہوجائے تو اس کے لئے حجاب میں تخفیف ہے یعنی اپنے چہرہ اور ہتھیلی کو مردوں پر ظاہر کرسکتی ہےمگر ستر کے وہی احکام ہوں گے یعنی چہرہ اور ہتھیلی کے سوا سر سے لیکر پیر تک بالوں سمیت ہاتھ وپیروغیرہ مردوں سے چھپائے گی ۔اللہ کا فرمان ہے :
وَالْقَوَاعِدُ مِنَ النِّسَاءِ اللَّاتِي لَا يَرْجُونَ نِكَاحًا فَلَيْسَ عَلَيْهِنَّ جُنَاحٌ أَن يَضَعْنَ ثِيَابَهُنَّ غَيْرَ مُتَبَرِّجَاتٍ بِزِينَةٍ ۖ وَأَن يَسْتَعْفِفْنَ خَيْرٌ لَّهُنَّ ۗ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ (النور:60)
ترجمہ:بڑی بوڑھی عورتیں جنہیں نکاح کی امید (اورخواہش ہی ) نہ رہی ہو وہ اگر اپنے کپڑے اتار رکھیں تو ان پر کوئی گناہ نہیں بشرطیکہ وہ اپنا بناؤ سنگار ظاہر کرنے والیاں نہ ہوں تاہم اگر ان سے بھی احتیاط رکھیں تو ان کے لئے بہت افضل ہے اور اللہ تعالٰی سنتا جانتا ہے ۔
ایسی بوڑھی عورت جسے حیض آنا بند ہوگیا ہو اور اس میں نکاح کی رغبت ختم ہوگئی ہو اسے اپنے حجاب وبرقع اتارنے یعنی شلواروقمیص کے اوپر بطور حجاب استعمال کئے جانے والی چادر کو اتار نے کی اجازت ہے ۔یہ اجازت ایک شرط کے ساتھ مشروط ہے وہ ہے زیب وزینت اور بناؤ سنگار کا ظاہر نہ کرنا ۔ اگر بوڑھی عورت بناؤسنگار ظاہر کرے مثلا زرق برق لباس،میک اپ، سرمہ، لیپ اسٹک ، کھنکھناتی خوبصورت چوڑیاں، خوبصورت انگوٹھی اور مائل کرنے والی گھڑیاں استعمال کریں تو پھرلباس کے ساتھ چہرے اور ہاتھوں کا بھی حجاب کرنا لازم ہوگا۔بوڑھی عورت بناؤ سنگار کا اظہار نہ کرے اور حجاب اتارنے سے فتنہ کا ڈر ہو تب بھی حجاب لازم ہےحتی کہ فتنے کا ڈر نہ ہو اور بوڑھی عورت عفت کی خاطر حجاب کرتی رہے تو ایسا کرنا اللہ تعالی نے بوڑھی عورت کے حق میں خیروفضل کا باعث قرار دیا ہے ۔ خلاصہ یہ ہوا کہ عورت کی عمر کے تمام مراحل میں حجاب کرنا افضل ہے تاہم بوڑھی عورت کے لئے جب فتنے کا ڈر نہ ہو اور زینت کا بھی اظہار نہ کریں تو اپنا چہرہ اور ہتھیلی کھولنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔
سوال(2): کیاسن رسیدہ (آئسہ)خواتین کےلئےبھی عدت گذارنا ضروری ہے؟
جواب : عمر رسیدہ عورتوں کے لئے بھی طلاق، خلع اوروفات کی عدت ہےتاہم عدت کے احکام مختلف ہیں ۔
بیوہ کو عدت کے طور پر چار مہینے اور دس دن گزارنے ہیں ۔ اللہ کا فرمان ہے :
وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا يَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِهِنَّ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا(البقرة: 234)
ترجمہ: اور تم میں سے جو لوگ فوت ہوجائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں وہ عورتیں اپنے آپ کو چار مہینے اور دس دن عدت میں رکھیں ۔
یہ عدت چار مہینے دس دن (ایک سو تیس دن تقریبا)ان تمام بیوہ عورت کی ہے جو بڑی عمر کی ہو یا چھوٹی عمر کی خواہ حیض والی ہو یا غیر حیض والی اور مدخولہ ہو یا غیرمدخولہ البتہ اگر حاملہ ہے تو پھر وفات یا طلاق دونوں صورت میں عدت وضع حمل ہوگی یعنی عورت حمل وضع کرتے ہی عدت پوری ہوجائے گی جیساکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے :وَأُولَاتُ الْأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَن يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ ۚ(الطلاق:4)
ترجمہ: اورحمل والیوں کی عدت ان کا وضع حمل ہے۔
اگر چار ماہ دس دن سے پہلے ہی وضع حمل ہوجائے تو بعض اہل علم نے چار ماہ دس دن کی عدت مکمل کرنے کو کہا مگر صحیح حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ حاملہ جیسے ہی بچہ جن دے تو نفاس سے پاک ہوکر شادی کرسکتی ہے خواہ یہ مدت کتنی بھی ہو۔
ابوہریرہ رضی الله عنہ نے کہا: میں اپنے بھتیجے یعنی ابوسلمہ کے ساتھ ہوں۔ پھر ان لوگوں نے ( ایک شخص کو) ام المؤمنین ام سلمہ رضی الله عنہا کے پاس (مسئلہ معلوم کرنے کے لیے) بھیجا، تو انہوں نے کہا:
قد وضعت سبيعةُ الأسلميَّةُ بعدَ وفاةِ زوجِها بيسيرٍ فاستفتت رسولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فأمرَها أن تتزوَّج.(صحيح الترمذي:1194)
ترجمہ:سبیعہ اسلمیہ نے اپنے شوہر کی وفات کے کچھ ہی دنوں بعد بچہ جنا۔ پھر اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ( شادی کے سلسلے میں) مسئلہ پوچھا تو آپ نے اسے ( دم نفاس ختم ہوتے ہی) شادی کرنے کی اجازت دے دی۔
طلاق کی عدت عمررسیدہ عورت کے لئے جس کو حیض آنا بند ہوگیا ہے تین ماہ ہے ، یہی حکم مستحاضہ کا بھی ہے ۔ اللہ کا فرمان ہے :
وَاللَّائِي يَئِسْنَ مِنَ الْمَحِيضِ مِن نِّسَائِكُمْ إِنِ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُهُنَّ ثَلَاثَةُ أَشْهُرٍ(الطلاق:4)
ترجمہ: تمہاری عورتوں میں سے جو عورتیں حیض سے نا امید ہوگئی ہوں ، اگر تمہیں شبہ ہو تو ان کی عدت تین مہینے ہے اور ان کی بھی جنہیں حیض آنا شروع نہ ہوا ہو اور حاملہ عورتوں کی عدت ان کےوضع حمل ہے اور جو شخص اللہ تعالٰی سے ڈرے گا اللہ اس کے ( ہر) کام میں آسانی کر دے گا ۔
اس آیت کو سامنے رکھتے ہوئے خلع والی بوڑھی عورت کی عدت ایک ماہ ہوگی کیونکہ حیض والیوں کی عدت خلع ایک حیض ہے ۔
سوال(3):کیا ایسی کوئی حدیث ہے کہ جب بچہ بولنے لگے تو کلمہ سکھاؤ؟
جواب: بعض روایات اس تعلق سے آئی ہیں کہ جب بچہ بولنے لگے تو لاالہ الا اللہ سکھا ؤ، مگر اس سلسلے میں کوئی صحیح حدیث نہیں ہے ۔
ایک روایت یہ ہے: إذا أفصحَ أولادُكم فعلِّمُوهُم لا إلهَ إلَّا اللهُ(عمل اليوم والليلة لابن السني)
ترجمہ: جب بچہ بولنے لگے تو اسے لاالہ الا اللہ کی تعلیم دو۔
اس حدیث کو شیخ البانی نے ضعیف کہا ہے۔(ضعيف الجامع:388)
دوسری روایت ہے:افتحوا على صبيانِكم أولَ كلمةٍ ب لا إلهَ إلَّا اللهُ(شعب الإيمان)
ترجمہ: اپنے بچوں کی پہلی تعلیم لاالہ الا اللہ سے شروع کرو۔
اس حدیث کو شیخ البانی نے باطل کہا ہے۔(السلسلة الضعيفة:6146)
تیسری روایت ہے:من ربى صغيرا حتى يقول لا إله إلا الله لم يحاسبه الله(المعجم الأوسط، مجمع الزوائد)
ترجمہ: جسے بچپن میں لاالہ الا اللہ کی تعلیم دی گئی یہاں تک کہ وہ یہ کلمہ بولنے لگے تو اللہ اس کا محاسبہ نہیں کرے گا۔
اس روایت کو شیخ البانی نے موضوع کہا ہے۔(ضعيف الجامع:5595)
چوتھی روایت اس طرح سے ہے: كانَ النَّبيُّ صلَّى اللَّهُ عليه وسلَّم إذا أفصَحَ الغلامُ مِن بني عبدِ المطَّلِبِ عَلَّمَهُ هذه الآيةَ { وَقُلِ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي لَمْ يَتَّخِذْ وَلَدًا . . . } إلى آخِرِها۔
ترجمہ: بنی عبدالمطلب کا بچہ جب بولنے لگتا تو نبی ﷺ اسے یہ آیت { وَقُلِ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي لَمْ يَتَّخِذْ وَلَدًا . . . } سکھلاتے۔
اس روایت کو زیلعی نے معضل قرار دیا ہے۔(تخريج الكشاف:2/296)
خلاصہ یہ ہوا کہ بچے کو سب سے پہلے کلمہ کی تعلیم دی جائے ایسی کوئی بات صحیح حدیث میں نہیں ہے لیکن چونکہ اسلام کی پہلی بنیاد کلمہ ہی ہے اس وجہ سے بچوں کو شروع سے کلمہ سکھایا جائے۔ ابن القیم رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ جب بچہ بولنے لگے تو اسے لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی تلقین کی جائے۔[تحفة المودود:231] انہوں نے یہ بات نبی ﷺ کی طرف منسوب نہیں کی ہے تاہم یہ اچھی بات ہے کہ اپنے بچوں کو آیت،حدیث، کلمہ، ذکر وغیرہ کی تعلیم دیں۔ مسند احمد میں ایک یہودی لڑکا کا ذکر ہے جو نبی ﷺ کی خدمت کیا کرتا تھا جب وہ بیمار پڑا تو نبی ﷺ اس کے پاس آئے اور کلمہ پڑھنے کو کہا تو وہ اپنے باپ کی طرف دیکھنے لگا۔ باپ نے کہا کہ ابوالقاسم کی اطاعت کروپھر بیٹے نے کہا: أشهَدُ أنْ لا إلهَ إلَّا اللهُ، وأنَّكَ رسولُ اللهِ۔ اس حدیث کو شعیب ارناؤط نے صحیح کہا ہے(تخريج المسند:12792)۔ اس طرح ہماری کوشش یہ ہو کہ ابتداء بھی لاالہ الا اللہ سے کریں ، زندگی اسی کے مطابق گزاریں اور اسی پر انتہا ہو ،اللہ سے اس کی توفیق طلب کریں اور خوب دعا ئیں کریں ۔
سوال(4):کیا ازواج مطہرات آل بیت میں داخل ہیں ؟
جواب: مسلم شریف میں ایک روایت ہے جس سے شیعہ ،عوام کو یہ دھوکہ دیتے ہیں کہ ازواج مطہرات آل بیت میں سے نہیں ہیں ۔ وہ روایت اس طرح سے آئی ہے ۔فَقُلْنَا: مَنْ أَهْلُ بَيْتِهِ؟ نِسَاؤُهُ؟ قَالَ: لَا(مسلم:2408)
اس ٹکڑے کا ترجمہ کیا جاتا ہے "ہم نے کہا آل بیت کون لوگ ہیں، نبی ﷺ کی بیویاں ؟ تو انہوں نے کہا کہ نہیں ۔
اس کا اصل ترجمہ اور مفہوم اس طرح ہے کہ ہم نے ان سے پوچھا:آپ کے اہل بیت کون ہیں؟(صرف) آپ کی ازواج؟ توانھوں نے کہا کہ (صرف آپ کی ازواج)نہیں۔ یعنی آپ ﷺ کی ازواج کے علاوہ اور دوسرے بھی آل بیت میں شامل ہیں چنانچہ صحیح مسلم میں ہی اس سے پہلے والی حدیث کے کے الفاظ ہیں۔"فَقَالَ لَهُ حُصَيْنٌ: وَمَنْ أَهْلُ بَيْتِهِ؟ يَا زَيْدُ أَلَيْسَ نِسَاؤُهُ مِنْ أَهْلِ بَيْتِهِ؟ قَالَ: نِسَاؤُهُ مِنْ أَهْلِ بَيْتِهِ " یعنی اور حصین نے کہا کہ اے زید! آپ ﷺ کے اہل بیت کون سے ہیں، کیا آپ ﷺ کی ازواج مطہرات اہل بیت نہیں ہیں؟ سیدنا زید ؓ نے کہا کہ ازواج مطہرات بھی اہل بیت میں داخل ہیں۔
اس کے علاوہ قرآن کی آیت اور دوسری احادیث سے بھی ازواج مطہرات کا آل بیت میں سے ہونا ثابت ہے۔
سوال(5):ہمارے علاقہ میں مسلمان عورتوں کا جوتی پہننا معیوب سمجھا جاتا ہے تو کیا یہ بات صحیح ہے ؟
جواب: ابن ابی ملیکہ سے روایت ہے کہ ام المؤمنین سیدہ عائشہ ؓ سے کہا گیا:
إنَّ امرأةً تلبسُ النعلَ ، فقالت : لعن رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليْهِ وسلَّمَ الرَّجُلةَ من النساءِ(صحيح أبي داود:4099)
ترجمہ: (جو) عورت (مردوں کے لیے مخصوص) جوتا پہنتی ہے ،( اس کے متعلق آپ کی کیا رائے ہے ؟) تو انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے مردوں کی طرح بننے والی عورتوں پر لعنت فرمائی ہے ۔
اس حدیث سے ایک بات یہ معلوم ہوئی کہ عورت جوتا پہن سکتی ہے ، دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ جو جوتا مردوں کے لئے خاص ہو اسے عورت نہیں پہن سکتی ہے، لہذا عورتوں کے لئے مخصوص  طورپربنے جوتے پہننے میں عورتوں کے لئے کوئی عیب نہیں ہے ۔ ہاں ایک بات کا یہ بھی خیال رہے کہ بعض جوتےبڑے بھڑکیلے ہوتے ہیں اسے پہن کر اور کپڑوں سے باہرکرکے گھر سے نکلنا فتنے کا باعث ہے ۔ اس سے پرہیز کیا جائے ، چھپاکر پہننے یا شوہر کے سامنے اور گھر میں استعمال کرنے میں کوئی حر ج نہیں ہے۔
سوال(6):دوسری  ذات وبرادری میں شادی کرنا کیسا ہے اور کفو سے کیا مراد ہے؟
جواب: اسلام نے شادی کا معیار دین ٹھہرایا ہےجیساکہ نبی ﷺ کافرمان ہے :
تُنكَحُ المرأةُ لأربَعٍ : لمالِها ولحَسَبِها وجَمالِها ولدينها، فاظفَرْ بذاتِ الدِّينِ تَرِبَتْ يَداكَ (صحيح البخاري:5090)
ترجمہ: عورت سے چار خصلتوں کے پیش نظر نکاح کیا جاتا ہے : مال، نسب، خوبصورتی اور دینداری۔ تمہارے دونوں ہاتھ خاک آلود ہوں! تم دیندار عورت سے شادی کرکے کامیابی حاصل کرو۔
اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے ذات وبرادری کی بنیاد پرہونے والی شادی کی تردید فرمائی ہے اور اپنی امت کو یہ تعلیم دی ہے کہ دین ملنے کے بعد شادی میں کوئی تردد نہیں ہونا چاہئے یعنی دیندار عورتوں سے ہی شادی کرنا چاہئے ۔ شادی میں ذات وبرادری اور حسب ونسب کا کوئی دخل نہیں ہے۔ آپ ﷺنے امت کو اس بات کی نہ صرف تعلیم دی بلکہ اس کا عملی نمونہ بھی پیش کیا۔ اپنی بیٹی رقیہ اور ام کلثوم رضی اللہ عنہما کا نکاح  یکے بعد دیگرےعثمان رضی اللہ عنہ سے کیا جو اموی خاندان سے تھے جبکہ آپ ﷺ ہاشمی خاندان سے۔
دین ہی کفو اور برابری کا نام ہے کیونکہ شادی میں اسلام نے دین کو ہی معیار بنایا ہے، اسی لئے امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث کو"بَابُ الأَكْفَاءِ فِي الدِّينِ " یعنی (باب: کفائت میں دینداری کا لحاظ ہونا) کے تحت ذکر کیا ہے۔
قبائل کا وجود آپس میں محض ایک دوسرے کے تعارف کے لئے ہے ورنہ سارے بنی آدم کی اولاد ہیں، اور سارے مومن آپس میں بھائی بھائی ہیں ، کسی اونچی ذات کو نیچی ذات پر کوئی فخر نہیں ہے ، اگر اللہ کے نزدیک کوئی حیثیت والا ہے تو تقوی کی بنیاد پر۔ آج شادی میں رنگ ونسل، ذات وبرادری اور دنیاوی غرض وغایت کی وجہ سے امت مسلمہ پر تباہی آئی ہوئی  ہے، اگر ہم نے شادی میں دین کومعیار بنالیا تو زمین سے سارے فتنے ختم ہوجائیں گے ۔
نبی ﷺ کا فرمان ہے :
إذا خطبَ إليكم مَن ترضَونَ دينَه وخلقَه ، فزوِّجوهُ إلَّا تفعلوا تَكن فتنةٌ في الأرضِ وفسادٌ عريضٌ(صحيح الترمذي:1084)
ترجمہ:اگر تمہارے ہاں کوئی ایسا آدمی نکاح کا پیغام بھیجے جس کے دین اور اخلاق سے تم مطمئن ہو تو اس کے ساتھ (اپنی ولیہ) کی شادی کر دو اور اگر تم نے ایسا نہ کیا تو زمین میں بہت بڑا فتنہ اور فساد پھیلے گا۔
سوال(7):ربیبہ کسے کہتے ہیں اور اس کے کیا احکام ہیں ؟
جواب:ربیبہ کہتے ہیں گود میں پلنے والی وہ بچی جو بیوی کے پہلے شوہر سے پیدا ہوئی ہو۔ یہ ربیبہ خاوند کے محرمات میں شامل ہے جب خاوند بیوی سے جماع کرلیا ہو۔ اللہ کا فرمان ہے: وَرَبَائِبُكُمُ اللَّاتِي فِي حُجُورِكُم مِّن نِّسَائِكُمُ اللَّاتِي دَخَلْتُم بِهِنَّ فَإِن لَّمْ تَكُونُوا دَخَلْتُم بِهِنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ (النساء:23)
ترجمہ: (حرام کی گئی تم پر) تمہاری وہ پرورش کردہ لڑکیاں جو تمہاری گود میں ہیں، تمہاری ان عورتوں سے جن سے تم دخول کرچکے ہو، ہاں اگر تم نے ان سے جماع نہ کیا ہو تو تم پر کوئی گناہ نہیں ۔
جماع کے بعد ربیبہ مرد(خاوند) پر حرام ہوجاتی ہے، اس لئے اس سے پردہ نہیں ہے ۔ مرد کی حقیقی اولاد میں سے نہیں ہونے کے سبب نفقہ مرد پر واجب نہیں ہے تاہم احسان وسلوک کا تقاضہ ہے کہ اچھی طرح اس کی پرورش کی جائے، امید ہے کہ بیٹیوں کی پرورش کا اجر ملے گا۔ خاوند کی ربیبہ سے اس کے اپنے بیٹے کا نکاح جائز ہے اس وجہ سے بلوغت کے بعد بیٹے اور ربیبہ کے درمیان پردہ کا حکم دیا جائے۔
سوال (8): اگر کوئی عورت پست قد ہو تو کیا اونچی ہیل والی چپل پہن سکتی ہے بطور خاص شوہر کے سامنے تاکہ اسے خوش کیا جاسکے؟
جواب: صحیح مسلم میں نبی اسرائیل کی عورت کا ایک واقعہ ہے جسے نبی ﷺ نے بیان فرمایا ہے :
كانت امرأةٌ ، من بني إسرائيلَ ، قصيرةً تمشي مع امرأتَين طويلتَين . فاتَّخذت رِجلَين من خشبٍ(صحيح مسلم:2252)
ترجمہ: بنی اسرا ئیل میں ایک پستہ قامت عورت دولمبے قد کی عورتوں کے ساتھ چلا کرتی تھی ۔اس نے لکڑی کی دو ٹانگیں (ایسے جوتے یا موزے جن کے تلووں والا حصہ بہت اونچا تھا) بنوائیں۔
مقصد خود کو لوگوں سے چھپانا تھا کہ اسے پہچان نہ سکیں اور کسی قسم کی تکلیف نہ پہنچا سکیں، اس حدیث کی بنیاد پر صحیح مقصد کے لئے ہیل والی اونچی جوتی یا چپل کا پہننا جائز ہے مگر آج کا زمانہ فتنے سے بھرا ہواہے اور ایسی ایمان والی بھی کہاں جو عفت کے لئے ہیل والی چپل پہن کر حجاب میں چلے سوائے اس کے جس پر اللہ کی رحمت ہو ۔ عموما  فاحشہ عورتوں کی نقالی، شہرت ، تکبر اور زینت کے اظہار کی خاطر ایسی چیزیں استعمال کی جاتی ہیں اور نبی ﷺ نے شہرت کا لباس پہننے پہ سخت وعید سنائی ہے: مَن لبسَ ثوبَ شُهْرةٍ ألبسَهُ اللَّهُ يومَ القيامةِ ثَوبَ مَذلَّةٍ(صحيح ابن ماجه:2921)
ترجمہ: جو شخص شہرت والا لباس پہنے گا ، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اسے ذلت کا لباس پہنائے گا۔
جہاں فتنے کا خوف نہ ہو مثلا عورتوں کے درمیان یا شوہر کے پاس یا اپنے گھر میں تو پھر وہاں ہیل والی جوتی یا چپل پہننے میں حرج نہیں ہے، یاد رہے اس میں اطباء نے جسمانی نقصان بتلایا ہے اس وجہ سے اس سےسدا بچنا ہی اولی ہے۔
سوال(9): مرتے وقت جس کی زبان سے کلمہ نکلے کیا اسے ہم جنتی کہہ سکتے ہیں ؟
جواب: نبی ﷺ نے فرمایا ہے کہ جس کی زبان سے آخری کلمہ لاالہ الا اللہ نکلے بشرطیکہ دل کی سچائی کے ساتھ کہا ہووہ جنت میں جائے گا اور بھی دوسری احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جس پہ خاتمہ ہوتا ہے اس کے مطابق بدلہ ملے گا۔ ان احادیث کے ہوتے ہوئے بھی ہم کسی کو خاص کرکےجنتی نہیں کہہ سکتے ہیں، جنتی ہونے کی امید جتائی جاسکتی ہے کیونکہ یہ حسن خاتمہ کی علامت ہے ۔ بہتر ہے کہ ہم کہیں فلاں کو خاتمہ بالخیر نصیب ہوا۔شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ اس حدیث" من كان آخر كلامه من الدنيا لا إله إلا الله دخل الجنة" (دنیا میں جس کی زبان سے آخری کلمہ لا الہ الا اللہ نکلے وہ جنت میں داخل ہوگا) کے تحت لکھتے ہیں کہ اگر ہمیں کسی آدمی کے متعلق معلوم ہو کہ دنیا میں اس کا آخری کلام لا الہ الا اللہ تھا تو ہم کہیں گے کہ جنتی میں سے ہونے کی امید کی جاسکتی ہے لیکن متعین طور پر یقین کے ساتھ اسے جنتی نہیں کہیں گے ۔ (فتاوى نور على الدرب>الشريط رقم:352)
سوال(10): ایک  شادی شدہ عورت نے پہلے شوہر سے طلاق لئے بغیر دوسری جگہ نکاح کرلیا ہے اس نکاح پر شرعا کیا حکم لگے گا؟
جواب : جب کوئی عورت ایک مرد کے نکاح کے میں ہو اور اس کا شوہر زندہ بھی ہوتو اس کے لئے کسی دوسرے مرد سے شادی کرنا حرام ہے ۔ لہذا مذکورہ صورت میں عورت کا نکاح ثانی باطل ہےمردوعورت کا اس طرح اکٹھا ہونا حرام کاری شمار ہوگی ۔ عورت فوری طور پر اس مرد سے الگ ہوجائے،اس میں طلاق یا خلع کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ طلاق یا خلع نکاح شرعی میں ہوتا ہے اور یہاں تو اصلا نکاح ہوا ہی نہیں ہے ۔ حالیہ مرد سے الگ ہوکر اللہ سے توبہ بھی کرےاور شوہر اول کے پاس رہنا چاہتی ہے تو ٹھیک ہے ورنہ اس سے طلاق لے لے یا خلع حاصل کرلے پھر عدت گزار کر کہیں دوسرےمرد سے ولی کی رضامندی کے ساتھ نکاح کرسکتی ہے ۔ یاد رہے بغیر سبب کے طلاق کا مطالبہ یا خلع کا حصول گناہ کا باعث ہے۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے :
أيُّمَا امرأةٍ سألت زوجَها طلاقًا في غيرِ ما بأسٍ فحرامٌ عليها رائحةُ الجنةِ(صحيح أبي داود:2226)
ترجمہ:جوعورت بھی بغیر کسی وجہ کے طلاق کا مطالبہ کرے تواس پر جنت کی خوشبو تک حرام ہے۔
ہاں اگر بیوی اپنے شوہر میں دینداری کی کمی پائے، حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی کرنے والا پائے اوربلاوجہ ظلم وزیادتی کرے تو پہلے اصلاح کی کوشش کرے اور اصلاح کی صورت نظر آئے اور اس کے ساتھ زندگی گزارنا دشوار ہوجائے تو طلاق کا مطالبہ کرنے میں کوئی گناہ نہیں ہے ۔
مکمل تحریر >>