Friday, November 30, 2018

بنت حوا کے مسائل اور ان کا شرعی حل (تیسری قسط)



بنت حوا کے مسائل اور ان کا شرعی حل (تیسری قسط)

جواب از شیخ مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹر،شمالی طائف(مسرہ)

سوال(1) تھکان کی وجہ سے شوہر کے بلاوے پر اس کی خواہش پوری نہ کرے تو کیا عورت گنہگار ہوگی ؟
جواب : میاں بیوی کی زندگی الفت ومحبت اور خلوص ووفا پر قائم ہے جہاں ایک دوسرے کی رعایت ، تعاون اور سمجھنے کی ضرورت ہے ۔ اللہ نے مردوں کو بھلائی کے ساتھ رہنے کا حکم دیا ہے ، فرمان باری ہے:وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ (النساء:19)
ترجمہ:اور ان کے ساتھ اچھے طریقے سے بودوباش رکھو۔
عورت کو اپنے شوہر کی اطاعت کا حکم دیا ہے ، اس کے حکم کی نافرمانی گناہ کے ساتھ باعث مواخذہ بھی ہے ۔ اللہ کا فرمان ہے:
واللاتي تخافون نشوزهن فعظوهن واهجروهن في المضاجع واضربوهن فإن أطعنكم فلا تبغوا عليهن سبيلا (النساء:34)
ترجمہ: اورجن عورتوں کی نافرمانی اوربددماغی کا تمہیں ڈر اورخدشہ ہوانہيں نصیحت کرواورانہیں الگ بستروں پر چھوڑ دو اورانہیں مار کی سزا دو ، پھر اگر وہ تمہاری بات تسلیم کرلیں تو ان پر کوئي راستہ تلاش نہ کرو ، بے شک اللہ تعالی بڑي بلندی اوربڑائي والا ہے۔
نشوزمیں یہ بھی داخل ہے کہ شوہر جماع کے لئے بلائے اور بیوی بغیرعذر کے انکار کردے۔شوہر کسی کام کے لئے بلائے یا جماع کے لئے بلائے عورت فورا سارا کام چھوڑ کر حکم کی تعمیل کے لئے دوڑ پڑے ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے :إذا الرَّجلُ دعا زوجتَهُ لحاجتِهِ فلتأتِهِ ، وإن كانت علَى التَّنُّورِ(صحيح الترمذي:1160)
ترجمہ: جب خاوند اپنی بیوی کواپنی حاجت پوری کرنے کے لیے بلائے تواسے آنا چاہیے ، اگرچہ وہ تنور پرہی کیوں نہ ہو ۔
نبی ﷺ کا فرمان ہے : إذا دعا الرجلُ امرأتَهُ إلى فراشِهِ فأَبَتْ ، فبات غضبانَ عليها ، لعنتها الملائكةُ حتى تُصبحَ(صحيح البخاري:3237)
ترجمہ:جب کوئي شخص اپنی بیوی کواپنے بستر پر بلائے اوربیوی آنے سے انکار کردے اورخاوند اس پر ناراضگی کی حالت میں ہی رات بسر کردے تو اس عورت پر صبح ہونے تک فرشتے لعنت کرتے رہتے ہیں۔
ان احادیث سے معلوم ہوا کہ رات میں جیسے ہی شوہر بستر پر بلائے یا جماع کی خواہش ظاہر کرےبیوی اپنے شوہر کی اطاعت کرے اور فرمانبرداری میں آناکانی سے پرہیز کرے۔ تھکا ہوا ہونا جماع میں رکاوٹ نہیں ہے ، ممکن ہے شوہر بیوی سے زیادہ تھکا ہوا وروہ اپنی تھکان دور کرنے کے لئے بیوی سے قربت چاہتا ہو ایسے میں عورت اپنے آپ کو شوہر کے حوالے کردے ۔ ہاں کوئی مرض ہو ، کوئی شرعی رکاوٹ(حیض ونفاس) ہو یا کوئی دوسرا عذر ہو تو جماع سے انکار کرنے پر عورت کے لئے کوئی گناہ نہیں ۔
عورت کو ایک بات کا بہت ہی خیال رکھنا چاہئے کہ مباشرت کے معاملے میں مردوں میں صبر کی کمی ہے لہذا جب بھی آپ کے شوہرمیں اس بات کی خواہش پیدا ہو آپ رضامندی کا اظہار کریں البتہ شوہر کثرت جماع پہ مجبور کرے، غیرفطری طریقے سے اس کے پاس آئے، یا ایسے وقت میں جماع کا ارادہ کرے جب عبادت سے غفلت کا امکان ہو تو پھراسے انکار کرنے کا حق ہے ۔
سوال(2) شوہر پر بیوی کے لئے کس مقدار میں خرچ کرنا ضروری ہے ، کیا اپنی حیثیت کے مطابق یا محض اس کی ضرورت پوری کرنا کافی ہے؟
جواب : اسلام نے شوہر کے ذمہ بیوی اور بال بچوں کا خرچ (روٹی، کپڑا، مکان اور معالجہ وغیرہ)واجب کیا ہے مگر اس کی مقدار متعین نہیں  کی ہے تاہم قرآن وحدیث کے نصوص سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ مرد پر عورت کی ضروریات کے بقدر اخراجات واجب ہیں جیساکہ سیدہ عائشہ ؓسےروایت ہے کہ سیدنا ہند بنت عتبہ ؓنےعرض کی،اللہ کے رسول!
إنَّ أبا سفيانَ رجلٌ شحِيحٌ ، وليسَ يُعْطيني ما يَكفيني وولدي إلا ما أخذتُ منهُ ، وهو لا يعلمُ ، فقالَ :خُذي ما يكفيكِ وولدَكِ بالمعروفِ.(صحيح البخاري:5364)
ترجمہ: بلاشبہ ابو سفیان ؓ بخیل آدمی ہیں اور مجھے اتنا مال نہیں دیتے جو مجھے اور میری اولاد کو کافی ہوالایہ کہ میں کچھ مال لاعلمی میں لے لوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: د ستور کے مطابق اتنا مال لے سکتی ہو جو تمہیں اور تمہاری اولاد کو کافی ہو۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عورت کی ضروریات پوری کرنا شوہر کی ذمہ داری ہے ، اگر شوہر اس ذمہ داری کی ادائیگی میں کوتاہی کرے تو بیوی بغیربتائے شوہر کے مال میں بقدر حاجت لے سکتی ہے ۔
مرد کے لئے نفقہ میں بخیلی کرنا یا روک رکھنا جائز نہیں ہے ، رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے:كفى بالمرء إثمًا أن يَحبِسَ ، عمن يملكُ ، قُوتَه(صحيح مسلم:996)
ترجمہ: انسان کے لیے اتنا گناہ ہی کا فی ہے کہ وہ جن (اہل وعیال)کی خوراک کا مالک ہے انھیں نہ دے ۔
مرد کی حیثیت زیادہ ہے مگر عورت کی ضروریات زندگی پوری کردیتا ہے تو وہ گنہگار نہیں ہے اوراسراف سے بچتے ہوئے اپنی حیثیت کے مطابق خرچ کرتا ہے تو اس میں بھی کوئی ممانعت نہیں ہے بشرطیکہ مال اور دیگر اہل حقوق کی بھی حق تلفی نہ کررہاہو۔
سوال(3) برف سے تیمم کرنا کفایت کرجائے گا؟
جواب: برف کا پانی پاک ہے اور پاک کرنے والا بھی ہے ، بخاری و مسلم میں دعا ہے کہ اے اللہ میرے دل کو اولے اور برف کے پانی سے دھو دے ۔
اللَّهمَّ اغسل قلبي بماءِ الثَّلجِ والبَرَدِ (صحيح البخاري:6377)
اے اللہ! میرے دل کو برف اور اولے کے پانی سے دھو دے۔
اللهمَّ طهِّرْني بالثَّلجِ والبَرَدِ والماءِ البارِدِ( صحيح مسلم:476)
ترجمہ: اے اللہ ! مجھے برف ، اولے اور ٹھنڈے پانی سے پاک کردے۔
اس سے پتہ چلتا ہے کہ برف کے بہتے پانی سے وضو اور غسل کرسکتے ہیں لیکن جمی ہوئی برف سے تیمم کرنے کے متعلق جواز وعدم جواز میں اختلاف ہے ۔ اللہ کا فرمان ہے:فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيدًا طَيِّبًا(النساء:43)
ترجمہ:اگر تمہیں پانی نہ ملے تو پاک مٹی سے تیمم کرو۔
اس آیت میں اللہ تعالی نے پاک مٹی سے تیمم کا حکم دیا ہے اور یہ مٹی زمین کا حصہ ہے اس وجہ سے مٹی یا اس کی دوسری اجناس ریت،غبار، کنکری، پتھر، مٹی کی ٹھیکری ، کچی اینٹ، مٹی کی دیوار، مٹی کا پلسٹروغیرہ سے تیمم کرسکتے ہیں مگر جو مٹی کی جنس نہیں ہے اس سے تیمم نہیں کرسکتے اور برف مٹی کی جنس سے نہیں ہے لہذا اس سے تیمم کفایت نہیں کرے گا۔
فتح الباری میں عمررضی اللہ عنہ کا قول ہے :" إنَّ الثَّلجَ لا يُتيمَّمُ به" کہ برف سے تیمم نہیں ہوگا مگر ابن رجب نے اس کی سند میں ضعف کی طرف اشارہ کیا ہے۔ (فتح الباري لابن رجب:2/233)
سوال(4) آج کل عورتوں کا اسٹیج پروگرام ویڈیو کی شکل میں آتا ہے یہ کام شرعا کہاں تک درست ہے ؟
جواب:عورت کی آواز کا پردہ نہیں ہے اس وجہ سے جس طرح عورت ضرورت کے تحت مردوں سے بات کرسکتی ہے اسی طرح دعوتی مقصد سے اس کی آواز کو رکارڈ بھی کیا جاسکتا ہے بشرطیکہ اس کی آواز میں لچک،نرمی، تصنع،خوش الحانی نہ ہو جس سے فتنے کا اندیشہ ہے ۔ اللہ کا فرمان ہے:
يَا نِسَاءَ النَّبِيِّ لَسْتُنَّ كَأَحَدٍ مِنَ النِّسَاءِ إِنِ اتَّقَيْتُنَّ فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَيَطْمَعَ الَّذِي فِي قَلْبِهِ مَرَضٌ وَقُلْنَ قَوْلًا مَعْرُوفًا(الأحزاب:32) .
ترجمہ:اے نبی کی بیویو! تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو اگر تم پرہیزگاری اختیار کرو تو نرم لہجے سے بات نہ کرو کہ جس کے دل میں روگ ہو وہ کوئی برا خیال کرے اور ہاں قاعدے کے مطابق کلام کرو ۔
آواز کے ساتھ دعوتی ویڈیوز بنانے میں بھی حرج نہیں ہے مگر یہاں بھی فتنے کے امور سے بچنا ہوگا ۔ اسٹیج پروگرام میں فتنہ سامانی ہے، یہاں عورت کا مکمل بدن (چہ جائیکہ حجاب میں ہو)نقل وحرکت کے ساتھ نظر آتا ہے۔ اسٹیج کی دیگر خواتین حتی کہ پروگرام میں موجود تمام خواتین کو کیمرے میں دکھایا جاتا ہے ۔ظاہر سی بات ہے کہ ویڈیو بننے پہ اجنبی مرد بھی یہ پروگرام دیکھیں گے اس لئے عورتوں کے اسٹیج پروگرام کی صرف آواز رکارڈ کی جائے  توفتنے سے حفاظت ہوگی ۔
سوال(5) شوہر کے مال سے خرچ کرنا یا صدقہ کرنے کی نوعیت کیا ہوگی ؟
جواب : عورت شوہر کے مال سے اس کی اجازت کے بغیر اپنی اور اپنے بچوں کی ضرورت کی تکمیل کے لئے بقدر ضرورت لے سکتی ہے اور اسی طرح صدقہ بھی کرسکتی ہے اگر شوہر نے اس کی اجازت دے رکھی ہو۔
اجازت دو طرح کی ہوسکتی ہیں ۔ ایک اجازت صراحت کے ساتھ کہ تمہیں میرے مال سے صدقہ کرنے کی اجازت ہے اور ایک اجازت  عرفا رضامندی والی ہو یعنی صدقہ کرنے پر شوہر کو کوئی اعتراض نہ ہو۔
اگر شوہرنے اپنی اجازت کے بغیر کچھ بھی صدقہ کرنے کی اجازت نہ دی ہو توضرورت کے علاوہ شوہر کے مال سے لینا جائز نہیں ہوگا خواہ صدقہ کی نیت سے ہو یا لوگوں(والدین وغیرہ) کا تعاون کرنے کی نیت سے ہو۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے :
ولا تُنفِقُ المرأةُ شيئًا مِن بيتِها إلَّا بإذنِ زوجِها، فقيل: يا رسولَ اللهِ، ولا الطَّعامَ؟ قال: ذاكَ أفضَلُ أموالِنا(صحيح أبي داود:3565)
ترجمہ: اور کوئی عورت اپنے گھر میں سے اپنے شوہر کی اجازت کے بغیر کوئی چیز خرچ نہ کرے ۔ کہا گیا : اے اللہ کے رسول ! کھانا بھی نہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا: یہ تو ہمارے افضل اموال میں سے ہوتا ہے ۔
بعض احادیث میں اجازت کی صراحت نہیں ہے مگر وہاں بھی اجازت کی قید مانی جائے گی جیسے نبی ﷺ کا یہ فرمان:
إذا أطعمتِ المرأةُ من بيتِ زوجِها، غير مفسدةٍ، لها أجرها، وله مثله، وللخازنِ مثلُ ذلك، له بما اكتسب، ولها بما أنفقتْ .(صحيح البخاري:1440)
ترجمہ: جب عورت اپنے شوہر کے گھر سے کھانا کھلائے جبکہ وہ گھر کی تباہی کا ارادہ نہ رکھتی ہو تو اسے اجر ملے گا،اس کے شوہر کو بھی اتنا ہی اجر ملے گا اور خازن کو بھی ثواب ملے گا،مرد کی کمائی کرنے کا اور عورت کو خرچ کرنے کی وجہ سے اجر دیاجائے گا۔
سوال(6) شوہر سے پوچھے بغیرعورت اپنے مال کو جہاں چاہے صرف کرسکتی ہے اور جسے چاہے دے سکتی ہے یعنی اپنے والدین ، بھائی بہن کو؟ اور شوہر پر بھی خرچ کرسکتی ہے؟
جواب : عورت اپنے ذاتی مال میں خود مختار ہے جہاں چاہے بھلائی کے ساتھ خرچ کرسکتی ہے ۔فقراء ومساکین ہوں ، والدین ہوں ، بھائی بہن ہوں، کوئی اور رشتہ دارہوں یا نیکی کا کوئی کام ہو تمام جگہوں پر بغیر شوہر کی اجازت کے خرچ کرسکتی ہے۔ عہد رسول میں بھی صحابیات بغیر پوچھے صدقہ وخیرات کرتی تھیں بلکہ نبی ﷺ خود ہی عورتوں کو خصوصی طورپرصدقہ کی ترغیب دیتے تھے ، ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم عیدالاضحی یا عید الفطر کے لئے عید گاہ کی طرف نکلے اور عورتوں کے پاس گزرے تو فرمانے لگے :
يا معشر النساء تصدقن، فإني رأيتكن أكثر أهل النار .(صحيح البخاري:1462)
ترجمہ:اے عورتوں کی جماعت! صدقہ و خیرات کیا کرو بیشک مجھے دکھایا گیا ہے کہ جہنم میں تمہاری اکثریت ہے۔
حسن معاشرت اور شوہر کو خوش رکھتے ہوئے ان سے اپنے مال سے خرچ کرنے کی اجازت لے لیتی ہے تو یہ میاں بیوی کے درمیان خوشگوارزندگی اور سازگار ماحول کے لئے بہت بہتر ہے خصوصا آج کے پرفتن دور میں ۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے:
قيل لرسولِ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ أيُّ النساءِ خيرٌ ؟ قال : التي تسرُّه إذا نظر ، وتطيعُه إذا أمر ، ولا تخالفُه في نفسِها ومالها بما يكره(صحيح النسائي:3231)
ترجمہ: رسول اللہﷺ سے پوچھا گیا کہ کون سی عورت بہتر ہے؟ آپ نے فرمایا: وہ عورت کہ جب خاوند اسے دیکھے تو وہ اسے خوش کردے اور جب اسے کوئی حکم دے تو وہ اس کی اطاعت کرے اور اپنے نفس اور مال میں اس کی مخالفت نہ کرے جسے وہ ناپسند کرتا ہو۔
اس حدیث میں بہترین عورت اسے کہا گیا ہے جو ذاتی مال کے تصرف میں بھی شوہر کی خوشی چاہے گوکہ شوہر سے اجازت کی ضرورت نہیں ہے پھربھی محض حسن معاشرت کا خیال کرتے ہوئے اجازت بہتر ہے جیساکہ نبی ﷺ کا یہ فرمان بھی اسی حسن معاشرت پہ ابھارتا ہے ۔
لا يجوزُ لامرأةٍ ، هبةٌ في مالِها ، إذا ملكَ زوجُها عصمتَها(صحيح النسائي:3765)
ترجمہ: جب خاوند بیوی کی عصمت کا مالک بن جائے تواس کے لیے اپنے مال میں کچھ بھی جائز نہيں۔
امام سندھی نے اس حدیث کی شرح میں لکھا ہے کہ یہ حدیث حسن معاشرت اور شوہر کوخوش کرنے کے معنی پر محمول ہے۔
جہاں تک شوہر پر اپنا مال صرف کرنے کی بات ہے تو یہ بھی خیر کا کام ہے اور شوہر محتاج ہو تو اس کو زکوۃ بھی دے سکتی ہے۔
سوال(7) میں اپنے بیٹے کا نام فاطر احمد رکھنا چاہتی ہوں کیا اس نام کے رکھنے کی ممانعت ہے ؟
جواب : قرآن میں فاطر کا لفظ چھ جگہوں پہ آیا ہے اور تمام جگہوں پر" فَاطِرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ" کے الفاظ کے ساتھ وارد ہے حتی کہ صحیح احادیث میں بھی کہیں پر اکیلے الفاطر کا لفظ نہیں آیا ہے، ہر جگہ اضافت کے ساتھ ہی آیا ہے ۔ ننانوے اسمائے حسنی سے متعلق بعض حدیث میں الفاطر کا لفظ آیا ہے وہ ضعیف ہیں ۔
جب فاطر اضافت کے ساتھ آیا ہے تو ہم اسے اللہ کی صفت کہیں گے اسمائے حسنی نہیں کہیں گے جیسے نور کا لفظ قرآن میں جہاں بھی اللہ کے لئے آیا ہے اضافت کے ساتھ آیا ہے جیسے نوراللہ،نورہ،نورالسماوات اورنورمن ربہ وغیرہ مستقل طور پراللہ کے لئے النورکا لفظ نہیں آیا ہے اس لئے نور بھی اللہ کی صفت کہی جائے گی اسمائے حسنی میں سے نہیں ۔
شیخ ابن باز اور شیخ ابن عثیمین رحمھما اللہ نے اسمائے حسنی کا ذکر کیا ہے ، قرآن کریم سے اکاسی نام ذکر کئے ہیں ان میں فاطر کا لفظ نہیں ہے ۔
خلاصہ یہ ہے کہ بچے کا نام فاطر احمد رکھنے میں حرج نہیں ہے، یاد رہے عبدالفاطر نہیں کہیں گے ۔ یہ نام اس صورت میں صحیح ہوتا جب یہ اللہ کے لئے اسمائے حسنی میں سے ہونا ثابت ہوجاتا۔
سوال(8) گھر میں نماز پڑھتے وقت بچہ بیڈ پر رو رہا ہو یا گرنے کا خطرہ ہوایسی صورت میں نماز توڑ دینی چاہئے یا کیا کرنا چاہئے ؟
جواب: اگر آپ نماز میں ہیں اور بچہ رو رہاہے یا بیڈ سے گرنے کا خطرہ ہے تو دو صورتوں میں سے جو مناسب ہو اختیار کرسکتی ہیں ۔ یا تو نماز توڑ کر بچہ چپ کرائیں اوراسے گرنے سے بچائیں یا پھر بچہ قریب ہی ہو تو اسے گود اٹھاکر نماز جاری رکھیں یعنی اپنی نماز توڑنے کی ضرورت نہیں ہے جب بچہ قریب ہی ہو۔ اس طرح ایک دو قدم چلنے ، حرکت کرنے اور نماز کی جگہ واپس آکر اپنی نماز جاری رکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔
عن أبي قتادةَ قال بينا نحنُ في المسجدِ جلوسٌ خرجَ علينا رسولُ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليْهِ وسلَّمَ يحملُ أمامةَ بنتَ أبي العاصِ بنِ الرَّبيعِ وأمُّها زينبُ بنتُ رسولِ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليْهِ وسلَّمَ وَهيَ صبيَّةٌ يحملُها على عاتقِهِ فصلَّى رسولُ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليْهِ وسلَّمَ وَهيَ على عاتقِهِ يضعُها إذا رَكعَ ويعيدُها إذا قامَ حتَّى قضى صلاتَهُ يفعلُ ذلِكَ بِها(صحيح أبي داود:918)
ترجمہ: سیدنا ابوقتادہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک بار ہم مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے کہ رسول اللہ ﷺ تشریف لائے ۔ آپ امامہ بنت ابی العاص بن ربیع کو اٹھائے ہوئے تھے ۔ اور اس کی والدہ رسول اللہ ﷺ کی صاحبزادی سیدہ زینب تھیں ، یہ چھوٹی بچی تھی اور رسول اللہ ﷺ نے اسے اپنے کندھے پر اٹھایا ہوا تھا ۔ آپ ﷺ نے نماز پڑھائی اور یہ آپ ﷺ کے کندھے پر تھی ، آپ ﷺ جب رکوع کرتے تو اسے نیچے بٹھا دیتے اور جب کھڑے ہوتے تو اسے اٹھا لیتے ۔ آپ ﷺ نے ( اسی طرح ) نماز مکمل کی اور اس دوران اسے اٹھاتے اور بٹھاتے رہے ۔
ام المومنین عائشہ ؓ کہتی ہیں:
جئتُ ورسولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم يُصَلِّي في البيتِ ، والبابُ عليه مغلقٌ ، فمشِىَ حتى فَتَحَ لي ، ثم رَجَعَ إلى مكانِه ، ووَصَفَتِ البابَ في القِبْلَةِ.(صحيح الترمذي:601)
ترجمہ:میں گھرآئی رسول اللہﷺ نمازپڑھ رہے تھے اوردروازہ بند تھا،تو آپ چل کرآئے اور میرے لیے دروازہ کھولا پھر اپنی جگہ لوٹ گئے اور انہوں نے بیان کیاکہ دروازہ قبلے کی طرف تھا۔
بچہ اگر دوری پر ہو یا زیادہ رو رہا ہو،اسے چپ کرانے میں بہلانے اور لوری دینے کی ضرورت ہو تو نماز توڑ دیں اور جب آپ نماز توڑ دیں گی تو بعد میں ازسرے نو نماز پڑھنی ہوگی ۔
سوال(9) رات میں سونے ، عبادت کرنے اور جاگنے کا کیا روٹین ہونا چاہئے ؟
جواب: رات کو اللہ تعالی نے آرام حاصل کرنے کے لئے اور دن کو روزی حاصل کرنے کے لئے بنایا ہے ، صحیحین میں ہےنبی ﷺ عشاء سے پہلے سونے اور عشاء کے بعد بات کرنے کو ناپسند کرتے تھے۔ ان باتوں سے پتہ چلتا ہے کہ رات کو عشاء کی نماز کے بعد فورا سوجانا چاہئے تاکہ قیام اللیل کے لئے بیدار ہونا ہو تو قیام اللیل کرسکیں اور فجر کی نماز کے لئے وقت پہ بیدار ہوسکیں ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے:
أَحَبُّ الصلاةِ إلى اللهِ صلاةُ داودَ : كان ينامُ نصفَ الليلِ ويقومُ ثُلُثَهُ ، وينامُ سُدُسَهُ(صحيح البخاري:3420)
ترجمہ: اللہ تعالیٰ کے ہاں پسندیدہ نماز حضرت داود علیہ السلام کی نماز ہے۔ وہ آدھی رات تک سوتے تھے اور پھر ایک تہائی رات کی عبادت کرتے اور آخری چھٹا حصہ پھر سو جاتے تھے۔
اس عمل میں نفس پر مشقت ہے مگریہ سب سے بہتر سونے اور عبادت کرنے کا روٹین ہے کہ بندہ آدھی رات تک سوئے پھر بیدار ہوکر تہجد پڑھے پھر سوجائے اور نمازفجر کے لئے بیدار ہو۔ بہرکیف! سونے کے لئے وقت متعین نہیں ہے تاہم نہ کم نیند لینا ہے جس سے صحت کو ضرر لاحق ہو اور نہ ہی زیادہ نیند لینا ہے جس سے واجبات میں کوتاہی ہو۔
سوال(10) بیٹایا بیٹی اگر ماں کو مال دیتے ہیں اور ماں نیکی کے راستے میں خرچ کرتی ہے تو کیا دونوں کو اجر ملے گا؟
جواب: والدین اگر محتاج ہوں تو اولاد کو اپنے والدین پر خرچ کرنا واجب ہے اور بغیر محتاجگی کے بھی والدین کو دے سکتے ہیں۔ جب بیٹا یا بیٹی اپنی والدہ کو مال دے اور والدہ نیکی کے کاموں میں صرف کرے یا اپنی ضرورت پوری کرے ہردونوں صورت میں اولاد کو اجر ملے گا۔ اہل وعیال پر خرچ کرنا افضل نفقہ ہے اور اسے صدقہ قرار دیا گیا ہے ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے : أَفْضَلُ دِينَارٍ يُنْفِقُهُ الرَّجُلُ دِينَارٌ يُنْفِقُهُ عَلَى عِيَالِهِ(صحيح مسلم:955)
ترجمہ: ان میں سے سب سے زيادہ اجرو ثواب والا وہ ہے جوآپ نے اپنے اہل وعیال پرخرچ کیا ۔
نبی ﷺ کا فرمان ہے:إذا أنفَق الرجلُ على أهلِه يحتَسِبُها فهو له صدقةٌ(صحيح البخاري:55)
ترجمہ: جب مرد اپنے اہل و عیال پر ثواب کی نیت سے خرچ کرتے ہے تو وہ اس کے حق میں صدقہ بن جاتا ہے۔

مکمل تحریر >>

Sunday, November 25, 2018

خواتین پر شیطانی حملے : اسباب وتدابیر


خواتین پر شیطانی حملے : اسباب وتدابیر

تحریر: مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹر، شمالی طائف (مسرہ)

ایک بہن نے دکھ بھرے لہجے میں ہمیں لکھا ہے کہ نماز پڑھنے اور تلاوت کرنے میں سارا دن شیطان اس پر حملہ کرتا ہے ایسی صورت میں ہمیں کیا کرنا چاہئے ؟ آپ یقین کریں میرے پاس  اسلامی بہنوں کے جتنے مسائل  آتے ہیں ان میں اکثر کا خیال ہوتا ہے ان پریا ان کے گھر پریا ان کے گھر کے کسی فرد پر جنات کا سایہ ہے۔ عورتوں کے ان تمام مسائل ، الجھنوں اور پریشانیوں کو سامنے رکھتے ہوئے  میں پہلے شیطان کے دام فریب کا شکار بنانے والے اسباب واضح کیا ہوں پھر شیطانی حملوں سے بچنے کی چنداحتیاطی تدابیر ذکر کیا ہوں ،مجھے امید ہے کہ اگر اسلامی بہن شیطانی اسباب سے پرہیز کرے اور احتیاطی تدابیر کو اپنالے تو اللہ کے فضل وکرم سے شیطانی اثرات سے پاک گھر اورنہایت پاکیزہ ماحول ملے گا۔  
بلاشبہ شیطان انسانوں کو گمراہ کرتا ہے اور گمراہی کی طرف لے جانے کے لئے مختلف ہتھکنڈے اپناتا ہے مگرمکمل طور پرشیطان کو یہ الزام دینا کہ ہم اس کی وجہ سے نماز نہیں پڑھتے یا تلاوت نہیں کرتے غلط ہے کیونکہ وہ ہمارا ہاتھ پکڑ کر برائی کی طرف کھینچ کرنہیں لے جاتا بلکہ وہ ہمیں شیطانی  وسوسے میں مبتلا کرتا ہے ، دل میں گندے خیالات ڈالتا ہے اور شر کے راستوں کی طرف چلنے میں روحانی فوائد ولذت اذہان میں پیوست کرتا ہے ، اس کے بعد انسان خود ہی برائی کا راستہ چن لیتا ہے۔ اللہ نے خیر اور شر دونوں واضح کر دیا ہے اور انسانوں کو خیر اور شرمیں تمیز کرنے کی صلاحیت دے کرانہیں اپنانے کا اختیار بھی دیا ہے یعنی انسان چاہے تو خیر کا راستہ اپنائے اور چاہے تو شر کا راستہ اپنائے ، اللہ کا فرمان ہے:إِنَّا هَدَيْنَاهُ السَّبِيلَ إِمَّا شَاكِرًا وَإِمَّا كَفُورًا(الدهر:3)
ترجمہ: ہم نے تو اسے راہ دکھائی تو اب وہ خواہ شکر گزار بنے خواہ ناشکرا۔
گویا کوئی نماز چھوڑتا ہے تو وہ اپنی مرضی سے چھوڑتا ہے ، اس میں اس کےارادہ اور اس کے عمل کا دخل ہے اسی لئے ترک نماز پہ اللہ نے جہنم کی وعید کا ذکر کیا ہے اور اگر کوئی نماز پڑھتا ہے تو اس میں بھی انسان کے ارادے اور عمل کا دخل ہے ۔ ارتکاب معاصی اور اجتناب خیر پہ  محض شیطان کو اگر موردالزام ٹھہرایا جائے تو پھر گنہگار کو اللہ کا سزا دینا انصاف کے خلاف ٹھہرے گا ، اسے یکسو ہوکر سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اس بات کو ایک مثال سے ایسے سمجھیں کہ کوئی شرابی آدمی کہے کہ مجھےشراب مجبور کرتی ہے کہ پیو ، ظاہر سی بات ہے کہ کوئی عقل ودانش والا اسے نہیں تسلیم کرے گا۔
اللہ نے انسان کو جو اختیار دیا ہے وہ خیروشرپرعمل کے لئے ، خیر کے راستے پر ہم کیسے چلیں اور کن باتوں سے خیر پر استقامت ہوگی اورکیسے شیطان کے شر سے محفوظ رہیں گے ؟ ہم سے اللہ اس کے رسول اللہ ﷺ نے کھول کھول کر بیان کردیا ۔ سراسر ہماری غلطیاں ہیں کہ ہم  اللہ اس کے رسول ﷺ کی تعلیمات سے دور ہوکر برائی کی طرف لے جانے والے اسباب اپناتے ہیں اس وجہ سے ہم پر شیطان کا حملہ آسان ہوجاتا ہے یا یوں کہیں کہ شیطان اپنے مکروفریب میں کامیاب ہوجاتا ہے اور ہم اس کے دام فریب کا شکار ہوجاتے ہیں جس کے نتیجہ میں کفر ومعصیت کرتے ہیں اور عبادت سے غافل ہوجاتے ہیں ورنہ اللہ نے قرآن میں ذکر کردیا ہے کہ اس کے مخلص بندوں پر شیطان کبھی حاوی نہیں ہوگا۔
قَالَ فَبِعِزَّتِكَ لَأُغْوِيَنَّهُمْ أَجْمَعِينَ,إِلَّا عِبَادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ (ص:82-83)
ترجمہ:(ابلیس) کہنے لگا پھر تو تیری عزت کی قسم! میں ان سب کو یقینا بہکا دوں گا بجز تیرے ان بندوں کے جو مخلص (چیدہ اور پسندیدہ) ہوں ۔
ہمیں معلوم ہے کہ شیطان بنی آدم کا کھلا دشمن ہے،یہ جانتے ہوئےبھی ہم ہمیشہ اسے بہکانے اور ورغلانے کا پورا پورا موقع دیتے ہیں ۔ عورت کی مثال لے لیں جب گھر سے نکلتی ہے تو وہ تمام اسلحہ جات سے مصلح ہوتی ہےجو شیطان کے بہکانے اور حملہ کرنےکے کام آتا ہے ۔عریاں لباس لگانا، خوشبو لگانا، دلفریب زینت اختیار کرنا ، زینت کی نمائش کرنا، جسم کے نشیب وفراز ظاہرکرنا،  راہگیروں اور اجنبی مردوں کے سامنے ناز وادا  دکھانا، بغیر محرم کے نکلنا، اجنبی سے خلوت کرنا، مردوں کے ساتھ اختلاط کرنا، دلنشیں انداز میں مردوں سے بات کرنا ، فلمی ہال جانا، بازاروں میں بلاضرورت گھومنا وغیرہ وغیرہ ۔ عورت جب گھروں میں ہو تو فلمیں دیکھنا، گانے سننا، عورتوں کے درمیان غیبت کرنا، جھگڑے لگانا،عیب جوئی کرنا، گھروں میں جاندارتصویر لٹکانا، نماز کے لئے کام کاج اور بچوں کے بہانے بنانا اور سوتےجاگتے کبھی اللہ کا نام تک نہ لینا حتی کہ کھانے پینے میں بھی اللہ کو بھول جانا، سوتے وقت گانے سنتے ہوئے یا فلم دیکھتے ہوئے سونا، اجنبی مردوں(بشمول دیور) سے ہنسی مذاق کرنا، سوشل میڈیا کے ذریعہ غیروں سے لذت اندوز چیٹ اور فضول کاموں میں بلکہ اکثر برے کاموں میں قیمتی اوقات ضائع کرنا وغیرہ ۔
معلوم یہ ہوا کہ عورتیں خود ہی باہروں سے شیطان بلاکر گھروں میں آنے کی دعوت دیتی ہیں اور اپنی مرضی سے اس کا شکار بنتی ہیں ۔ ہم مسلمان ہیں ، اسلامی تعلیمات اپنی زندگی اور گھروسماج میں نافذ کریں، شیطان کبھی اپنے مکر میں کامیاب نہیں ہوگا، وہ جتنے ہتھکنڈے ہمارے خلاف اپنائے سوائے نامرادی کے کچھ اس کے ہاتھ نہیں لگے گا۔اوپرعورتوں کے متعلق جن داخلی وخارجی برائیوں کا ذکر کیا گیاہے وہ تمام او ر ان کے علاوہ جن میں آپ ملوث ہیں وہ بھی سبھی چھوڑ دیں اور گھر میں رہتے ہوئے اور باہر نکلتے ہوئے اسلامی احکام کی پاسداری کریں شیطان آپ کے قریب نہیں آئے گا وہ آپ کو دیکھ کر اپنا راستہ بدل لے گا۔ جی ہاں ، راستہ بدل لے گا۔ اب آپ کو شیطان سے بچنے کی چنداحتیاطی تدابیر بتلاتا ہوں ۔
(1) عورتوں میں ضعیف الاعقتادی بہت پائی جاتی ہیں ، انہیں اپنے اندرسے ختم کریں ۔ ہرمصیبت کو جنات سے جوڑتی ہیں اور اس کا حل تلاش کرنے کے لئے بے دین عاملوں اور گجیڑی باباؤں کے پاس جاتی ہیں ۔ اس کمزوری کو دور کریں اور نحوست لینا چھوڑ دیں ۔کپڑا گرگیا، پیسہ چوری ہوگیا، سامان گم ہوگیا، بچہ بیمار ہوگیا، جانور مرگیا،شادی میں تاخیر ہورہی ہے،میاں بیوی میں جھگڑا ہورہاہے، ان سب چیزوں کو جنات سے جوڑا جاتا ہے ۔
یہ اعتقاد رکھیں کہ اللہ کی مرضی کے بغیر کچھ نہیں ہوتا۔ مصیبت اللہ کی طرف سے ہے یہ اعتقاد رکھتے ہوئے جسمانی بیماری ہو تو اس کا جائز علاج کرائیں یعنی ماہر طبیت سے دکھائیں اور گھروں کی پریشانی کودور کرنے کے لئے اللہ کی طرف رجوع کریں ،کثرت سے توبہ واستغفار کریں ، گھروں اور انسانی زندگی میں برکتوں والے اعمال کریں مگر ہرگز کسی کاہن، جعلی پیروعامل کے پاس اپنی مصیبت لے کر نہ جائیں ۔ اسلام میں خود سے دم کرنا اور صالح انسان سے دم کروانا جائز ہے لہذا کسی آفت کے نزول پہ اولا خود سے ادعیہ ماثورہ کے ذریعہ دم کریں ،ٹھیک نہ ہونے پر صالح اور متقی انسان کے پاس جائیں ،پیشہ ور مکارعاملوں سے توبالکلیہ اجتناب کریں اور خدا را ! ہربات کو جنات سے نہ جوڑیں ، یہ ڈھونگی بابا  لوگوں کو ڈرانے اور مال لوٹنے کے لئے ہرمشکل پہ کہتے ہیں آپ پر یا آپ کے گھر پر جنات کا سایہ ہے ۔ ایسے موقع سے اللہ کا فرمان یاد کرلیں کہ جو اس پربھروسہ کرلیتا اسے کسی چیز کا ڈر نہیں ، اللہ اس کے لئے کافی ہے:وَمَن يَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ فَهُوَ حَسْبُهُ ۚ(الطلاق:3)ترجمہ: اور جو شخص اللہ پر بھروسہ کرتا ہے اللہ اس کے لئے کافی ہے ۔
اس لئے ضعیف الاعتقادی ختم کریں اور اپناعقیدہ صحیح کرتے ہوئے اللہ پر مکمل اعتماد بحال کریں ۔
(2)اپنے اندراللہ کا تقوی پیدا کریں ۔ اس وقت برائی گھرگھر اور چاروں طرف ہے ، ان سے دامن بچانا ہے ۔ شوہر کی غیرحاضری پہ اس کے مالوں کی حفاظت کے ساتھ اپنی عزت وآبرو کو بچانا ہے ۔آپ بڑی آسانی سے اس وقت برائی کے شکار ہوسکتی ہیں اس لئے اتنا ہی محتاط رہنے کی ضرورت ہے ۔ آج انٹرنیٹ بھی ایک بڑی آزمائش ہے ، اس کا استعمال کرتے ہوئے اللہ کا خوف کھائیں بلکہ کم سے کم اس کا استعمال کریں ۔دل میں اللہ کا خوف ایسا ہو جو ہمیں عبادت کی طرف لائے اوربرائی سے بچائے ۔ اللہ تعالی ڈرنے والوں اور ڈرنے والیوں کے لئے  آزمائش کے وقت نجات کا راستہ نکال دیتا ہے ۔
(3)اسلامی عقیدہ کی تعلیم لیکر اسے اپنے اندر جاگزیں کرنے کے بعد اللہ کا خوف کھاتے ہوئے اور رسول اللہ کی سنت کی اتباع کرتے ہوئےنماز کی پابندی اپنے وقتوں پرکرنانہایت ہی ضروری ہے ۔ خود بھی نماز پڑھیں ، بچوں کو بھی نماز پڑھائیں اورگھر کے مرد لوگ بھی نماز کی پابندی کریں یعنی ہمارا گھرنمازوتعلیم کی روشنی سے منور ہو۔ نماز سے ہمارے بڑے بڑے مسائل حل ہوتے ہیں۔ اللہ کی مدد ملتی ہے، دلوں کو سکون ملتا ہے، گھروں میں برکت نازل ہوتی ہے ، برائیوں سے تحفط فراہم ہوتا ہے اور شیطانی مکروفریب سے بچاؤ ہوتا ہے ۔
(4) اذکار کی پابندی کی جائے ، نماز وں کے بعد اور صبح وشام کے اذکار پر ہمیشگی کریں، بچوں کو بھی اس کی تعلیم دیں اور غسل جنابت کی ضرورت ہو تو اس میں تاخیر نہ کریں ۔ ساتھ ہی جوان عورتوں کو ماہوار ی آتی ہے ، استخاضہ اور نفاس کا خون آتا ہے ، ان ایام میں دین سےکافی غفلت پیدا ہوجاتی ہے اور شیطان کو ورغلانے کا موقع مل جاتا ہے،وہ اس طرح کہ وہ خود کو نجس سمجھتے ہوئے زبان پر کئی روز تک اللہ کا نام تک نہیں لاتیں جبکہ ہر حال میں اللہ کا ذکر کرنا چاہئے اورکرسکتی ہیں حتی جنابت کے علاوہ حیض ونفاس میں دستانے سے پکڑ کر یابغیر چھوئےقرآن کی  تلاوت بھی  کرسکتی ہیں اور استحاضہ میں نماز ادا کرنا بھی ضروری ہے ۔صبح وشام اور نماز کے اذکار کے ساتھ سونے جاگنے، کھانے پینے، حمام میں داخل ہونے نکلنے ، کام کاج کرنے ، جماع کرنے ، اور نظر بد کی دعا کرنے کا اہتمام کریں ۔
 (5)گھر میں خصوصی طورپرقرآن کی تلاوت کریں بطور خاص سورہ بقرہ ۔سونے کے وقت دیگرمسنو ن اذکار کے ساتھ سورہ بقرہ کی آخری دو آیتیں ، آیت الکرسی ،سورہ سجدہ، سورہ ملک ،سورہ اخلاص،سورہ کافرون،معوذتین ، سورہ فاتحہ وغیرہ  اور جمعہ کو سورہ کہف پڑھیں اور گھر میں نما ز پڑھتے وقت بدل بدل سورتیں پڑھا کریں ،اس سے گھروں کی حفاظت ہوگی اور شیطانی شرانگیزی سے بچ سکیں گے ۔
(6) ترجمہ وتفسیر کےساتھ قرآن پڑھنے کے لئے ایک وقت مقرر کرلیں اور قرآن کے علاوہ حدیث کا ترجمہ بھی تھورا تھوڑا پڑھا کریں، سیرت و احکام کا بھی مطالعہ کریں۔ یہ کام ایک دم آج ہی اور پورا دن اور پوری رات نہیں کرنی ہے، اپنی فرصت اور مناسب اوقات کے حساب سے کریں۔ جوں جوں علم زیادہ ہوگا دین پر عمل کرنے کا جذبہ بڑھتا جائے گااور بے دینی کی وجہ سے شر میں واقع ہونے کے خطرات کم ہوں گے اور شیطان کے جہالت آمیز دجل سے آپ  بچ سکیں گی ۔
(7) گھرو ں میں جن چیزوں سے فرشتے نہیں آتے اور اللہ کی رحمتوں کا نزول بند ہوجاتا ہے انہیں گھر سے باہر نکالیں۔کتے، دیواروں پر آویزاں جاندار تصویر، موسیقی ، آلات لہوولعب اور کھانے پینے اور پہننے اوڑھنے کی حرام چیزیں سب ترک کردیں۔
(8) بلاوجہ اور اکیلے خصوصا رات میں باہر نہ نکلیں اور بری جگہوں مثلا ناچ گانے، سنیما گھر ، بازار ، میلے ٹھیلے ، ہوٹلوں اور رقص گاہوں سے دور رہیں ۔سورج ڈوبنے کے بعد بچوں کو بھی گھر سے باہر نہ نکلنے دیں ۔ گھر سے باہر نکلنے پر فتنہ پیدا کرنے والے تمام اسباب سے بچیں مثلا بھڑکیلا لباس، خوشبو، بناؤسنگار، زینت کا اظہار وغیر ہ بلکہ اسلامی حجاب اپناتے ہوئے سادگی میں نکلیں اور اگر عازم سفر ہوں تو محرم کو ساتھ لیں۔
(9) گھر میں اسلامی ماحول  بنانےکے ساتھ اپنے روابط نیک خواتین سے رکھیں ۔ فاحشہ ،بدگوئی کرنے والی، غیبت وچغلی کرنے والی، بدکردار ، عورتوں میں فتنہ وفساد پیدا کرنےوالی،ناچنے گانے والی،شراب وکباب میں مست، شوہروں کی نافرمان اورمکار عورتوں سے دور رہیں ۔ اگر ان کی اصلاح کرسکیں تو بہتر ہے ورنہ ان کی مجلسوں سے کوسوں دور رہیں ۔ ایسی عورتوں کی صحبت سے آپ پر برا  اثر پڑے گا اور ان کا شر آپ کے گھر میں داخل ہوگا۔
(10) شیطان ہر لمحہ گھات لگاکربیٹھا ہے جیسے ہی اسے موقع ملتا ہے اپنا وار کرنے میں نہیں چوکتااس لئے اس کے حملوں سے بچنے کے لئے اللہ کی پناہ طلب کریں ، بچوں کے لئے پناہ مانگیں اور گھر میں خیر وبرکت کے نزول کی دعائیں مانگیں ۔ دعامومن مرد وعورت کا ہتھیار ہے۔ دعا کے ذریعہ بڑی سے بڑی بلا ٹل جائے گی بشرطیکہ آپ کے اندر تقوی ہو ، اللہ کی حرام کردہ کاموں سے بچتی ہوں اور اس کے اوامرکی بجاآوری کرتی ہوں ۔
آخری بات یہ ہے کہ شیطان انسان کو پریشان بھی کرتا ہے ، تکلیف بھی دیتا ہے اور نوجوان لڑکیوں کو طرح طرح سے ستاتا بھی ہے ، گھروالوں کو پریشان کرنے کے لئے گھر میں سکونت اختیار کرلیتا ہے ، راتوں کو ڈراتا ہے اور گھر کے کسی فرد پر سوار بھی ہوتا ہے ۔یہاں آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ اس شیطان کو اپنے گھر کس نے بلایااور اپنے اوپر سوار ہونے کا موقع کس نے دیا؟ خود ہم نےموقع  دیا۔  اوپر ذکر کیا گیا ہےکہ خود کو شیطان سے کیسے محفوظ رکھیں اور گھرمیں شیطان کو داخل ہونے سے کیسے روکیں ؟ اگر ان باتوں کو عمل میں لائیں گی تو شیطان آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ شیطان ہمارا کھلا دشمن ہے پھر بھی وہ سب کو تکلیف نہیں دے سکتا ، سب کو سیدھے راستہ سے نہیں بھٹکا سکتا۔ اگر شیطان ہرکسی کو نقصان پہنچا سکتا اور نیکی کی راہ سے روک سکتا اور ہرکسی کو برائی کرنے پر مجبور کردیتا تو روئے زمین پر کوئی اللہ کا نام لیوا نہ بچتا ، سبھی سے برائیاں کرواتا ، سبھی کونقصان پہنچاتا۔اس نے توتمام انسان کو گمراہ کرنے کی قسم اٹھائی ہے اور دائیں بائیں اوپر نیچے تمام جہات سے اس کا مکرو فریب بھی ازل سے جاری ہے لیکن اللہ والے ہردور میں اس کی چال سے بچتے رہے ہیں اور قیامت تک  بچتےرہیں گے ۔
انسان کی ہرپریشانی کو جنات سے جوڑ نےوالے عاملوں کی حقیقت جاننے کے لئے ایک بات بتادوں کہ نبی ﷺ کے فرمان کے مطابق ہرآدمی کے ساتھ ایک شیطان ہے خواہ وہ مرد ہو یاعورت ۔یہ جناتی عاملین صرف سایہ کی کیوں بات کرتے ہیں مکمل شیطان ہرکسی کے ساتھ ہے لیکن کیا ہرکسی کو نقصان پہنچاتا ہے ؟ نہیں ۔ اس لئے یہ جان لیں کہ ہرمصیبت اللہ کی طرف سے ہے ، کبھی مصیبت آزمائش ہوتی ہے تو کبھی اپنے گناہوں اور ہاتھوں کا کرتوت ہوتی ہے ۔ ایسے میں صبر کے ساتھ اللہ کی طرف رجوع کرنے کی ضرورت ہے ۔ جسمانی  بیماری ہوتواسے دفع کرنے کے جائز اسباب اپنانےسے اسلام ہمیں نہیں روکتا۔ اچھے اچھے طبیب سے مراجعہ کریں اور بہترسے بہتر علاج کرائیں ، اللہ نے کوئی ایسی بیماری نازل نہیں کی جس کا علاج نہیں ہے ۔اوراگرآپ کو لگتا ہے کہ کوئی خاتون جسمانی مرض کا شکار نہیں بلکہ واقعی اس پر جنات سوار ہوکر اسے پریشان کررہاہے توگھر والوں کو چاہئے کہ ایسے متقی اور نیک آدمی کے پاس جائیں قرآن اور صحیح دعاؤں کے ذریعہ علاج کرتے ہوں ۔ممکن ہے آپ  کامریض جعلی پیر، نقلی بابا، بے دین عامل ، جادوگر اور کسی مزار پر جاکر ٹھیک ہوجائے مگر اس سے آپ کا ایمان وعمل ضائع ہوجائے گا۔ اسلام نے ہمیں جائز طریقے سے اور حلال دواؤں کے ذریعہ علاج کرنے کا حکم دیا ہے۔
مکمل تحریر >>

Thursday, November 22, 2018

بنت حوا کے مسائل اور ان کا شرعی حل (دوسری قسط)


بنت حوا کے مسائل اور ان کا شرعی حل  (دوسری قسط)

مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹرطائف

سوال(1):عورت توعموما گھر میں ہی فرض نماز ادا کرتی ہے اور وہ فرائض میں قرآن کی تلاوت اونچی قرات سے کرنا چاہتی ہو تو کیا فجرو مغرب اورعشاء کی نماز میں وہ اونچی قرات کر کے نماز کی ادائیگی کر سکتی ہے؟
جواب : نماز عورتوں پر بھی ویسے ہی فرض ہے جیسے مردوں پر البتہ جہاں نماز میں عورتوں کے لئے خصوصیت ہے وہ حالت ان کے لئے مستثنی ہوگی ۔ جہری نمازیں یعنی فجر ، مغرب اور عشاء مردوں کی طرح عورتوں کے حق بھی میں جہرا مسنون ہیں لہذا وہ گھر میں ان نمازوں کی ادائیگی جہرا کرسکتی ہیں البتہ اگر ان کی آواز کوئی اجنبی مرد سننے والا ہو تو فتنے سے بچنے کے لئے سرا  پڑھے ۔
سوال (2): اس جملے کا مجھے ترجمہ معلوم کرنا ہے : مَا أَعَانَ عَلَى نَظْمِ مُرُوءَاتِ الرِّجَالِ كَالنِّسَاءِ الصَّوَالِحِ۔
جواب: تاریخ دمشق لابن عساکر اور المجالسة وجواهر العلم للدينوري میں مذکور ہے کہ سَلْمُ بْنُ قُتَيْبَةَ نے ذکر کیا ہے کہ عرب کے بعض حکماء کا کہنا ہے : "مَا أَعَانَ عَلَى نَظْمِ مُرُوءَاتِ الرِّجَالِ كَالنِّسَاءِ الصَّوَالِحِ ".یعنی مردوں کی مروت کی تنظیم و حفاظت میں نیک عورتوں نے جتنی مدد کی اتنی کسی نے نہیں کی ۔
اس قول میں نیک عورتوں کی تعریف کی گئی ہے کہ ان کی وجہ سے مردوں کی اصلاح ہوتی ہے اور ان کے اخلاق ومروت کی حفاظت ہوتی ہے ۔
سوال (3):دوران طواف نماز کے وقت کچھ عورتیں اپنے مردوں کے ساتھ نماز کے لئے مردوں کی صف میں کھڑی ہو جاتی ہیں اس کے بارے میں کیا حکم ہے اوراسی طرح عید ین کی نمازوں میں بعض مقامات پر گلیوں میں رش کی وجہ سے اکثر عورتیں اور مرد آگے پیچھے ایک ساتھ نماز میں کھڑے ہو جاتے ہیں ، اس کا بھی کیا حکم ہے ؟
جواب : عورتوں کی صف مردوں سے الگ اور آخر میں ہونی چاہئے اس وجہ سے عورتوں کو حرم میں نماز پڑھتے وقت، یا عیدین ، نماز جمعہ اور فرائض مردوں کے ساتھ ادا کرتے وقت سب سے آخر میں مردوں سے الگ صف بناکر نما زادا کرنا چاہئے اور عموما عورتوں کے لئے مساجدومصلی میں جگہیں مخصوص کردی جاتی ہیں ان میں ہی نماز پڑھنا چاہئے لیکن اگر کبھی رش کی وجہ سے مردوں سے آگے نماز پڑھنا پڑجائے اس حال میں کہ نکلنے کا اختیار نہیں تو اس حالت میں پڑھی گئی نماز درست ہےلیکن ایک ہی صف میں مردوں کے ساتھ مل کر کھڑا ہونا جائز نہیں ہے ، ہاں کافی رش ہو اور مردوں کے دائیں بائیں ذرا ہٹ کے نماز پڑھ لی گئی تو بھی درست ہے ۔ اختلاط(رش کی وجہ سےمرد کے ساتھ کھڑا ہونا پڑجائے) کی وجہ سے عورت جماعت سے نماز چھوڑ دیتی ہے تو جائز ہے ۔
سوال (4): کسی نے پیانو(Piano) بجانے کے لئےخریدا  اور بعد میں اسے اپنے گناہ کا احساس ہوا تو كیا اسے بیچ کر اس کا پیسہ حلال ہوگا؟
جواب : اگر پیانو اس دوکان والے کو لوٹا سکتا ہے جس سے خریدا ہے تو بہتر ہے اور واپس لیا گیا پیسہ بھی حلال ہے اور دوکاندار واپس نہ لے تو کسی دوسرے شخص کے ہاتھوں بیچنے پر اس شخص کے گناہ میں شریک ہوجائے گا اس لئے کسی دوسرے شخص کے ہاتھوں بیچنے سے بہتر ہے کہ اسے توڑ کر ناقابل استعمال بنادے ۔
سوال (5):کیا ریاض الجنہ میں نماز پڑھنے کی کوئی خصوصیت ہے ؟
جواب : ریاض الجنہ یہ وہ مبارک جگہ ہے جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر یعنی حجرہ عائشہ رضی اللہ عنہاسے منبر شریف کے درمیان میں ہے، اس کا نام ریاض الجنۃ یعنی جنت کا باغیچہ ہے ، یہ نام اس لئے پڑا کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا ہے:
ما بين بيتي ومِنبَري رَوضَةٌ من رياضِ الجنةِ ، ومِنبَري على حَوضي(صحيح البخاري:1196,صحيح مسلم:1391)
ترجمہ: میرے منبر اور میرے گھر کے درمیان والی جگہ جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے اور میرا ممبر قیامت کے دن میرے حوض پر ہوگا۔
اس حدیث کی روشنی میں اس مقام کی بڑی فضیلت معلوم ہوتی ہے ، یہ دنیا کا مبارک مقام اور زمیں کا مبارک ٹکڑا ہے لہذا اگر کسی کو مسجد نبوی ﷺ آنے کا موقع ملے تو یہاں عبادت ، ذکر، اللہ سے دعا اور اپنے گناہوں سے توبہ و استغفار کرنا چاہئے ۔ اس جگہ پہ نبی ﷺ سے بھی خاص طور سے عبادت کرنا ثابت ہے ۔یزید بن ابی عبید بیان کرتے ہیں کہ میں سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ کے ساتھ (مسجد نبوی میں) حاضر ہوا کرتا تھا۔ سلمہ رضی اللہ عنہ ہمیشہ اس ستون کو سامنے کر کے نماز پڑھتے جہاں قرآن شریف رکھا رہتا تھا۔ میں نے ان سے کہا کہ اے ابومسلم! میں دیکھتا ہوں کہ آپ ہمیشہ اسی ستون کو سامنے کر کے نماز پڑھتے ہیں، انہوں نے کہا: إِنِّي رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَحَرَّى الصَّلَاةَ عِنْدَهَا (صحيح البخاري:502)
ترجمہ: میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کودیکھا کہ آپ بھی یہاں خاص کرنماز ادا کیا کرتے تھے ۔
کنزل العمال (34950) اور مسند الفردوس (5676) میں ضعیف سند سے ایک روایت ہے :من سره أن يصلي في روضة من رياض الجنة فليصل بين قبري ومنبري۔
ترجمہ: جسے ریاض الجنہ کی کیاری میں نماز ادا کرنا پسند آئے وہ میری قبر اور میرے ممبر کے درمیان نماز پڑھے۔
سوال (6):"لاحول ولاقوة الاباللہ " کا صحیح ترجمہ بتا دیں اوراس کے ساتھ "ما شاء اللہ لاقوة الاباللہ" بھی پڑھ سکتے یا صرف "لا قوة الا بالله" پڑھنا کیسا ہے؟ نیزتینوں میں زیادہ اجر کس کلمہ میں ہے ؟
جواب : "لاحول ولاقوة الاباللہ " کو حوقلہ کہا جاتا ہے ، یہ اذان میں حیعلتین کا جواب ہے اور نبی ﷺ کے فرمان میں اس کی بڑی فضیلت آئی ہے ۔ اس کا معنی ہے :[نیکی کرنے کی طاقت اور برائی سے بچنے کی ہمت اللہ کے بغیر ممکن نہیں] ۔
نبی ﷺ نے فرمایا:يا عبدَ اللهَ بنَ قيسٍ، قُلْ لا حولَ ولا قوةَ إلا باللهِ، فإنها كنزٌ من كُنوزِ الجنةِ (صحيح البخاري:7386)
ترجمہ:عبداللہ بن قیس! «لا حول ولا قوة إلا بالله» کہا کرو کہ یہ جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے۔
اس لئے اس عظیم ذکر کا کثرت سے ورد کرنا چاہئے اور"ما شاء اللہ لاقوة الاباللہ" بھی ایک ذکر ہے ، یہ سورہ کہف کی (39) آیت میں آیا ہے ۔ ان الفاظ کے ذریعہ اللہ کا شکر بجا لاسکتے ہیں اور اسی طرح کسی کو کسی کا مال، اولاد یا کسی کا حال اچھا لگے تو یہ کلمہ کہہ سکتے ہیں ، اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ نظر بد سے حفاظت ہوگی ۔ اور محض "لاقوۃ الاباللہ" کا ذکر نہیں ملتا اس لئے نظر بد سے بچنے کے لئے "ما شاء اللہ لاقوة الاباللہ" اور ذکر کے طورپر "لاحول ولاقوة الاباللہ " کہا جائے ۔
سوال(7)میں بسااوقات بچوں کو سلانے کے لئے سونے کے اذکار پڑھاتی ہوں مگر اس وقت سوتی نہیں ہوں کیا مجھے سونے کے وقت اذکاردوبارہ پڑھنے ہیں ؟
جواب : سونے کے اذکار سونے سے قبل پڑھنا ہے، اگر کوئی بچے کو سلانے کے لئے اسے اذکار پڑھائے تو بلاشبہ پڑھنے والی کو بھی فائدہ ہوگا تاہم جب خود بستر پر سونے کے لئے جائیں تو اس سے قبل دوبارہ اذکار پڑھ لیں کیونکہ یہ اذکار بستر پر جانے کے وقت سونے سے قبل کے ہیں جب انسان سونے کی نیت سے اس سے ماقبل پڑھے ۔ ہاں اگر بچوں کے سوتے وقت انہیں اذکار پڑھائے نیز خود بھی وہ اسی وقت سونے لگیں تو اپنی طرف سے بھی نیت کرلیں یہ ایک مرتبہ بھی کفایت کرجائے گا۔
سوال(8): میں چند مہینے پہلے میں عمرہ کرکے آئی ہو اوردوران طواف کعبہ ہی کو ہی دیکھتی رہی ، جب واپس گھر آئی ہو تو معلوم ہوا کہ طواف کے دوران کعبہ کی طرف دیکھنا سخت منع ہے کیا واقعی یہ بات سچ ہے ؟
جواب : کعبہ کی طرف دیکھنا منع نہیں ہے خواہ طواف میں ہو یا بغیر طواف کے ۔اصل میں لوگوں میں یہ اعتقاد مشہور ہے کہ کعبہ کی طرف پہلی نظر پڑنے پر دعا کرنےسے قبول ہوتی ہے لیکن اس بات کی کوئی حقیقت نہیں ہے ، ہاں ایک ضعیف حدیث میں چار مقامات پر آسمان کا دروازہ کھلنے اور دعا قبول ہونے کا ذکر ہے ، ان میں سے ایک خانہ کعبہ کی دیدار کے وقت ہے۔ یہ ضعیف حدیث ہے اس لئے دلیل نہیں پکڑی جائے گی ۔ (دیکھیں : سلسلہ ضعیفہ : 3410)
بہرکیف! آپ کا طواف صحیح ہے ، آئندہ یہ ذہن میں رہے کہ طواف میں کعبہ کی طرف دیکھنا نہ ضروری ہے اور نہ ہی ہے عبادت ، چلتے ہوئے نظر پڑجائے یا اس کی عظمت کا خیال کرکے اسے دیکھنے لگیں تو کوئی حرج نہیں ہے مگر یہ اعتقاد نہ رکھیں کہ اس پہ نظر کرکے دعا کرنے سے دعا قبول ہوگی ورنہ نہیں ۔
سوال(9):ایک شخص دن میں سوتا ہے تو کیا وہ رات کے اذکار پڑھے گا ؟
جواب: اس سلسلے میں علماء کے متعدد اقوال ہیں ، بعض نے کہا ہے کہ یہ رات کے ساتھ ہی خاص ہے اور بعض نے کہا کہ دن میں سونے کے وقت بھی پڑھ سکتے ہیں ۔ ایک تیسرا قول جو مناسب معلوم ہوتا ہے جسے شیخ ابن باز نے اختیار کیا ہے کہ جو اذکار رات میں سونے کے ساتھ خاص ہیں وہ رات میں پڑھے جائیں مثلا مَن قرَأ بالآيتَينِ مِن آخرِ سورةِ البقرةِ في ليلةٍ كفَتاه(صحيح البخاري:5008)
ترجمہ: جس نے سورہ بقرہ کی آخری دو آیتیں رات میں پڑھ لیں وہ اسے ہر آفت سے بچانے کے لئے کافی ہوجائیں گی ۔
یہ رات میں سونے کے ساتھ خاص ہے اور نبی ﷺکا یہ فرمان کہ جب تم میں سے کوئی اپنے پستر پر لیٹنے کا ارادہ کرے تو پہلے اسے اپنی چادر کے کنارے سے جھاڑ لے کیونکہ وہ نہیں جانتا کہ اس کے بعد کیا چیز داخل ہوگئی ہے۔ پھر یہ دعا پڑھے:
باسمِكَ ربِّي وَضعتُ جَنبي وبِكَ أرفعُهُ ، إن أمسَكْتَ نفسي فارحَمها ، وإن أرسلتَها فاحفَظها بما تحفَظُ بِهِ عبادَكَ الصَّالحينَ(صحيح البخاري:6320)
ترجمہ: اے میرے رب! تیرے نام سے میں نے اپنا پہلو رکھا ہے اور تیری قوت سے میں اسے اٹھاؤں گا۔ اگر تو نے میری جان کو روک لیا تو اس پر رحم کرنا اور اگر اسے چھوڑ دیا تو اس کی حفاظت کرنا جس طرح تو اپنے لوگوں کی حفاظت کرتا ہے۔
یہ عام ہے، دن اور رات دونوں وقت سونے سے قبل پڑھ سکتے ہیں ۔
سوال(10): مجھے کہیں سے ایک واقعہ ملا ہے اس کی حقیقت واضح کریں : ایک شخض اپنی بیوی کو صرف اس وجہ سے چھوڑنا چاہتا تھا کہ وہ اس سے محبت نہیں کرتا تھا۔ اس کے جواب میں یہ الفاظ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمائے تھے‘ کیا ضروری ہے کہ ہر گھر کی بنیاد محبت پہ ہی ہو؟ تو پھر وفاداری اور قدردانی کا کیا؟ (بحوالہ البیان والتابعین 2/101 فرائض الکلام صفحہ 113)
جواب : سید قطب نے فی ظلال القرآن (1/606) میں یہ قول ذکر کیا ہے :
وما أعظم قول عمر بن الخطاب - رضي الله عنه - لرجل أراد أن يطلق زوجه؛ لأنه لا يحبها- "ويحك! ألم تبن البيوت إلا على الحب؟! فأين الرعاية وأين التذمم؟
ترجمہ: اور عمربن خطاب رضی اللہ عنہ کے عظیم قول میں سے ہے کہ ایک آدمی اپنی بیوی کو اس وجہ سے طلاق دینا چاہ رہاتھا کہ وہ اس سے محبت نہیں کرتا تھا تو حضرت عمر نے اس سے کہا کہ کیا ضروری ہے کہ ہر گھر کی بنیاد محبت پہ ہی ہو؟ تو پھر وفاداری اور قدردانی کا کیا؟
اس معنی کے الفاظ حضرت عمررضی اللہ عنہ  کی طرف منسوب کنزالعمال میں ملتے ہیں :
فليس كل البيوت تبنى على الحب، ولكن معاشرة على الأحساب والإسلام(كنز العمال:16/554،رقم :45859)
ترجمہ: ضروری نہیں کہ ہر گھر کی بنیاد محبت پر قائم ہو بلکہ دینداری اور خاندانی شرافت بھی گھروں کو سنوارنے کا ذریعہ ہوا کرتی ہیں ۔
یہ ایک عمدہ بات ہے کہ جہاں میاں بیوی میں محبت میں کمی یا الفت کا فقدان ہو وہا ں صرف محبت کی کمی وجہ سے گھر توڑ دینا صحیح نہیں ہے بلکہ اخلاق ومروت ،غیرت وحمیت ،عزت وشرافت ،مذہبی روایات اورتہذیبی اقدار کی بنیادپر اپنا گھر قائم رکھ سکتے ہیں ۔
سوال(11):ایک عورت اگر شریعت کی پابند ہے جبکہ اس کے گھرکےمردحضرات بے دین ہیں مثلا بے نمازی، سود خور، شراب خور،جواڑی، عورتوں کی بےعزتی کرنےوالے اورانہیں مارنے پیٹنے والےتو کیا ایسے باپ، بھائی، چچا اس دیندارعورت کے ولی ہوسکتے ہیں جو زبردستی اس کی شادی کسی شرابی یا جواڑی سے کرنا چاہتے ہیں؟
جواب: اللہ نے عورت کی عفت وعصمت کی خاطر ہی ولی کا اہتمام کیا ہے لیکن ولی بے دین اور کفراکبرکا مرتکب ہو تو اس کی ولایت اس کے بعد والے ولی میں منتقل ہوجاتی ہے مثلا باپ بے دین ہے تو بھائی ولی بنے گا اور اگر بھائی بے دین ہے تو چچا میں سے جو دیندار ہو اسے ولایت کا حق ہوگا۔ اگرباپ نمازکا منکر نہیں ، کبھی ادا کرنے والا اور کبھی چھوڑ دینے والاہو تو مسلمان ہی مانا جائے گا اور نماز کے علاوہ دیگر گناہ شراب نوشی ، قماربازی اور سودخوری وغیرہ گناہ کبیرہ ہے مگر ان کاموں سے کوئی اسلام سے خارج نہیں ہوتا۔ ایسا آدمی فاسق مانا جائے گا ، اگر کوئی فاسق آدمی اپنی لڑکی کی شادی بے دین اور شرابی کبابی آدمی سے کرے تو لڑکی کو حق حاصل ہے کہ وہ اس شادی سے انکار کردے اور ولی کو بھی اختیار نہیں کہ وہ جبرا لڑکی کی شادی اس کی مرضی کے خلاف کسی بے دین سے کرائے ۔ بعض علماء نے ولی کے لئے عدالت کی بھی شرط لگائی اس صورت میں فاسق ولی نہیں بن سکتا مگر صحیح قول کی روشنی میں فاسق ولی بن سکتا ہے ، شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے ذکر کیاہے : النكاح بولاية الفاسق يصح عند جماهير الأئمة (مجموع الفتاوى:32/101) کہ جمہور ائمہ کے نزدیک فاسق کی ولایت نکاح میں صحیح ہے۔
سوال(12):کیا رمضان میں اعتکاف میں عورت طواف کر سکتی ہے کیونکہ ہم کتنا ہی دور سے طواف کریں نامحرم سے ضرور ٹکراتے ہیں اوررمضان میں رش بھی بہت ہوتا ہے؟
جواب: اعتکاف کی حالت میں بلاضرورت مسجد سے باہر جانا منع ہے اور مسجدحرام میں اعتکاف کرنے والی عورت کے لئے نفلی طواف کرنے میں کوئی چیز مانع نہیں ہے، یہ مسجد ہی کا حصہ ہے ۔ جس طرح مسجد حرام کے کسی حصہ میں معتکف عبادت کرسکتا ہے اسی طرح اس مسجد کے دوسرے حصہ مطاف میں آکر طواف کرسکتا ہے بلکہ بعض علماء نے اعتکاف کی حالت میں نفلی عبادت سے افضل طواف کرنا قرار دیا ہے۔ دوران طواف عورت مردوں سے ہٹ کر چلنے کی کوشش کرے ، لاشعوری طور پر یا رش کی وجہ سے مردوں سے ٹکرا جانے پر کوئی گناہ نہیں ہے اور اعتکاف یا طواف میں کوئی نقص نہیں آئے گا۔
سوال(13): عورتوں میں برص کا مرض کثرت سے پایا جاتا ہے ،یہ علاج سے بھی اکثر ٹھیک نہیں ہوتا ، اس مرض کی وجہ سے عورتوں کی شادی میں کافی دشواری پیدا ہورہی ہے آپ اس سلسلے میں قرآن وحدیث سے رہنمائی فرمائیں۔
جواب : برص سے نبی ﷺ نے پناہ مانگی ہے ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کہتے تھے: «اللهم إني أعوذُ بك من الجنونِ والجُذامِ ، والبرصِ وسيِّئِ الأسقامِ»(صحيح النسائي:5508)
ترجمہ:اے اللہ! پاگل پن، کوڑھ، برص اور برے امراض سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔
یہ ایک بیماری ہے اس وجہ سے اللہ کے رسول نے اس سے پناہ مانگی ہے ، اویس قرنی رحمہ اللہ کو بھی یہ بیماری تھی اللہ سے دعا کی اکثر ختم ہوگئی سوائے ایک درہم یا دینار کے برابر ۔ اسے شادی بیاہ میں عیب سمجھا جاتا ہے اور متعدی بھی تصور کیا جاتا ہے اس وجہ سے برص والے مرد یا برص والی عورت کی جلدی شادی نہیں ہوتی ہے ۔ لوگ اس بیماری کو لاعلاج بھی سمجھتے ہیں اور کہتےہیں کہ اس کا علاج صرف  عیسی علیہ السلام  ہی کرسکتے تھے ،ان کے بعد اب کسی کی یہ بیماری ٹھیک نہیں ہوگی جبکہ نبی ﷺ کا فرمان ہے : ما أنزَلَ اللَّهُ داءً إلَّا أنزلَ لَه شفاءً(صحيح البخاري:5678)
ترجمہ: اللہ نے کوئی ایسی بیماری نازل نہیں کی جس کا کوئی علاج(شفا) نہ ہو۔
اس لئے یہ بیماری جہاں لاعلاج نہیں ، وہیں اس مرض والے سے شادی کی ممانعت بھی کسی صحیح حدیث میں نہیں ہے ۔ کوئی اگر برص والے یا برص والی سے شادی کرنا چاہے تو شرعا منع نہیں ہے اور شادی کے بعد اللہ پر توکل اور اس سے دعا کرتے ہوئے صحت مند اولاد کی امید کی جاسکتی ہے ۔
اہل علم نے یہ بات بھی ذکر کی ہے کہ شادی کے موقع پر جس میں یہ مرض ہو اس کو ظاہر کردینا چاہئے اور اگر کسی میں یہ مرض شادی کے بعد ظاہر ہوا تو دوسرے کونکاح فسخ کرنے کا اختیار ہے اور چاہے تو اکٹھے بھی رہ سکتے ہیں ۔
قبیلہ بنوغفار کی ایک عورت سے نبی ﷺ نے شادی کی ،جب اس عورت نے اپنا کپڑا نکالا تو برص کی بیماری معلوم ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے اسے جدا کردیا ، یہ روایت ضعیف ہے اور اسی طرح سیدنا عمربن خطاب رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب یہ قول بھی ضعیف ہے: أيُّما امرأةٍ غُرَّ بها رجلٌ بها جنونٌ أو جذامٌ أو برصٌ فلها مهرُها بما أصاب منها وصداقُ الرجلِ على من غرَّه(إرواء الغليل:1913)
ترجمہ: ایسا کوئی مرد جو کسی ایسی عورت کے ذریعہ دھوکہ دی گئی جسے پاگل پن یا کوڑھ یا برص کی بیماری لاحق تھی تو اس کا مہر وہی ہے جو اس کے ذریعہ مرد کو لاحق ہوا اور مرد کا مہر اس پر ہے جس نے اسے دھوکہ دیا۔
مختصر یہ ہے کہ برص ایک بیماری اور انسانی عیب ہے جس سے تنفر ممکن ہے مگر ایسا نہیں ہے کہ اس مرض میں مبتلا مرد/عورت کی شادی نہیں ہوسکتی ، جو کسی کا سہارا بن کراللہ سے اجر کا طالب ہو وہ شادی کرسکتا ہے اور دھوکہ میں برص زدہ سے شادی ہوجانے پر نکاح فسخ کرنا ہی ضروری نہیں ہے چاہے تو اسے باقی رکھ سکتا ہے۔
سوال(14): ایک عورت جنبی تھی اور اسی حالت میں ماہواری شروع ہوگئی تو جنابت کے لئےغسل کب کرے ، حیض سے پاک ہوکر یا اس سے پہلے ہی؟
جواب: جنابت ایک ناپاکی ہے اور حیض ایک دوسری ناپاکی ہے ،اگر عورت فورا غسل جنابت کرلیتی ہے تو اس سےجنابت کی ناپاکی ختم ہوجاتی ہے مگر نماز نہیں پڑھے گی اور نہ ہی روزہ رکھے گی کیونکہ وہ حیض کی حالت میں ہے۔جب حیض سے پاک ہوتب طہارت کے واسطے دوسرا غسل کرےاور نماز پڑھنا شروع کرے ۔ غسل جنابت بالفور کرنے سے ایک فائدہ تو یہ ہوگا کہ جنابت کی ناپاکی ختم ہوجائے گی اور دوسرا فائدہ یہ ہوگا کہ قرآن کی تلاوت کرسکتی ہے کیونکہ جنبی کے لئے قرآن کی تلاوت منع ہے جبکہ حائضہ کے لئے ممانعت کی کوئی صحیح اور صریح دلیل نہیں ہے ۔
سوال(15): کیا خاتون کو تھوڑے لمبے ناخن رکھنے میں شریعت اسلامیہ کی طرف سے کوئی قباحت ہے ؟
جواب: ناخن کاٹنے کا تعلق صفائی سے ہے اور یہ دس فطری امور میں سے ایک ہے۔ ناخن کاٹنے میں مرد وعورت دونوں برابر ہیں یعنی دونوں کو ناخن کاٹنے کا حکم ہوا ہے۔ حضرت انس بن مالک سے روایت ہے، انہوں نے کہا:
وُقِّتَ لنا في قصِّ الشاربِ، وتقليمِ الأظفارِ، ونتفِ الإبطِ، وحلقِ العانةِ، أن لا نتركَ أكثرَ من أربعينَ ليلةً .(صحيح مسلم:258)
ترجمہ: ہمارے لیے مونچھیں کترنے ، ناخن تراشنے، بغل کے بال اکھیڑنے اور زیر ناف بال مونڈنے کے لیے وقت مقرر کر دیا گیا کہ ہم ان کو چالیس دن سےزیادہ نہ چھوڑیں۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مرد ہو یا عورت زیادہ سے زیادہ چالیس دن تک اپنے ناخن چھوڑ سکتا ہے ، اس سے زیادہ دن ہونے پر واجبی طورپر اپنا ناخن کاٹنا ہوگا ورنہ گنہگار ہوں گے ۔
کسی مسلمان عورت کے لئے لمبے ناخن رکھنا جائز نہیں ہے ، اس میں فطرت کی مخالفت ، فساق وفجار خواتین اور حیوانات کی مشابہت کے ساتھ اپنے اندر نجاست پالنا بھی ہے ۔ بھلا مومنہ عورت ، نماز و روزہ کا اہتمام کرنے والی اورطہارت وپاکیزگی کا پیکر اپنے ہاتھوں میں نجاست کیسے پالے گی ؟۔ لمبے ناخن کی تہ میں گندگی جمتی رہتی ہےاس لئے ہفتہ ہفتہ ہی اس کی صفائی بہتر ہے پھرلمبے ناخن رکھنے والیاں اپنے ہاتھوں کی نمائش بھی کرتی ہیں کیونکہ لمبے ناخن رکھے ہی جاتے ہیں نمائش کے لئے ،اس پر مستزاد اکثر اس پہ نیل پالش کی جاتی ہے جس سے وضو نہیں ہوتا ۔ گویا گناہ کے ساتھ یہ عمل عبادت میں بھی مخل ہے ۔
مکمل تحریر >>