Saturday, September 29, 2018

قرآن کا اصل قاری کون ؟ حافظ قرآن یا صاحب قرآن


قرآن کا اصل قاری کون ؟ حافظ قرآن یا صاحب قرآن

تحریر: مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹر، شمالی طائف (طائف)

سماج میں  لوگوں کے درمیان ایک غلط تصور رائج ہے جس کی اصلاح کے مقصد سے یہ مضمون لکھ رہا ہوں ، اللہ سے دعا کرتے ہوئے کہ ہمارے سماج کی اور لوگوں کی اصلاح فرمادے ۔
یوں تو دین کی طرف رجحان لوگوں کا کم ہے اس وجہ سے عملا دینداری، احکام شریعت کی پابندی، دین کا حصول اور دینی اداروں کی طرف لوگوں کا میلان کم نظر آتا ہے ۔ طلباء کی دینی مراکز میں قلت اور عصر ی تعلیم گاہ میں کثرت لوگوں کے اندر اپنے تئیں اور اپنی اولاد کے تئیں دین سے دوری کا سبب ہے۔ زمانہ چاہے جس قدر ترقی کرلے، سائنس وٹکنالوجی کا جس قدر عروج ہوجائے علوم اسلامیہ کی اہمیت میں ذرہ برابر فرق نہیں آئے ۔یہ بات مبنی برحقیقت ہےکہ  دنیا کے تمام علوم کا یہیں سے سرچشمہ پھوٹتا ہے۔قرآنی تعلیم دنیا وآخرت  دونوں جہان میں کامیابی کا ذریعہ ہے جبکہ عصری علوم دنیا تک ہی محدود ہیں ۔اے کاش ہم مسلمانوں کو اس کی سمجھ آجائے۔
بعض لوگ دیندار ہیں، اپنے بچوں کی اخروی کامیابی کے لئے اسلامی علوم سے آراستہ کرتے ہیں گوکہ عموما ان کے سامنے معیشت اوجھل ہوتی ہے مگر آخرت کی زندگی بہتر نظر آتی ہے ۔ یہ جو بعض لوگ ہیں جن کے اندر اسلامی غیر ت وحمیت ہے ، جو جوش اسلام اور محبت دین میں اپنے بچوں کو دینی تعلیم سے سرشار کرنا چاہتے ہیں ۔ ان میں کچھ ایسے لوگ ہیں جو فکر میں کوتا ہ ہیں ، اپنے بچوں کے لئے دور تک نہیں بس نزدیک تک ہی سوچکتے ہیں ۔ وہ کون لوگ ہیں ؟ جو اپنے بچوں کو دو تین سالوں میں حافظ قرآن بنادئے اور بس اسی پہ بھروسہ کرلیتے ہیں ۔ بچہ اس وقت سے لیکر جوانی تک ، اور جوانی سے لیکر بڑھاپے تک حافظ قرآ ن ہی رہتا ہے ۔
حفظ قرآن عمدہ تعلیم ہے اور حافظ قرآن ہونا بڑے اعزاز کی بات ہے مگر یہاں ہمارے لئے سوچنے کا مقام ہے ۔ ان تمام سرپرستوں کے لئے غوروفکرکامقام ہے جو احادیث کا صحیح مفہوم نہ جاننے کی وجہ سے اپنے بچوں کا حافظ قرآن ہونا اپنے لئے باعث جنت سمجھ کر بس اتنی ہی تعلیم پر بچے کو روک دیتے ہیں۔ وہ بچہ ساری عمر قرآن کے سہارے جیتا ہے مگر الحمدللہ کا نہ ترجمہ جان پاتا ہے ، نہ اس کا مفہوم سمجھ پاتا ہے ، پورے قرآن میں غوروفکر اور قرآنی آیات سے نصیحت پکڑنا ، ہدایت حاصل کرنا بہت دور کی بات ہے ۔یہ بڑے افسوس کا مقام ہے ۔
پہلے اس بات کی حقیقت جان لیتے ہیں جس پر لوگ تکیہ کرلیتے ہیں اورسمجھتے ہیں کہ بچے کا حافظ قرآن ہونے سےگھر کے دس لوگوں کوجنت کا پروانہ مل جاتا ہے ۔
لوگوں میں جو یہ بات مشہور ہے کہ ایک حافظ قرآن اپنے ساتھ دس آدمیوں کو یا دس رشتہ داروں یا دس جہنمیوں کو جنت میں لے جائے گا یہ بات نبی ﷺ سے ثابت نہیں ہے ۔ آئیے اس سے متعلق حدیث دیکھتے ہیں ۔
پہلی حدیث : لِحامِلِ القرآنِ إذا عمِلَ بِهِ ، فأَحَلَّ حلالَهُ ، وحرَّمَ حرامَهُ ، يشفَعُ فِي عشرَةٍ مِنْ أهلِ بيتِهِ يومَ القيامَةِ ، كلُّهم قدْ وجبَتْ لَهُ النارُ۔(شعب الایمان)
ترجمہ : وہ حافظ قرآن جواس کی حلال کردہ اشیاء کوحلال اور حرام کردہ اشیاء کو حرام کرتا ہے وہ اپنے گھرانے کے دس افراد جن پر جہنم واجب ہوچکی ہوگی سفارش کرے گا ۔
٭ اسے علامہ البانی ؒ نے ضعیف کہا ہے ۔(ضعیف الجامع :4662)
٭ امام بیھقی نے بھی اس کی سند کو ضعیف کہا ہے ۔(شعب الإيمان 2/1038)
دوسری حدیث : مَن قرأَ القرآنَ واستَظهرَهُ فأحلَّ حلالَهُ وحرَّمَ حَرامَهُ أدخلَهُ اللَّهُ بِهِ الجنَّةَ وشفَّعَهُ في عَشرةٍ من أهلِ بَيتِهِ كلُّهُم قَد وجبَت لَهُ النَّارُ(الترمذی:2905)
ترجمہ : جس نے قرآن پڑھا، اسے حفظ کیا،اس کی حلال کردہ اشیاء کوحلال اور حرام کردہ اشیاء کو حرام کرتا ہے وہ اپنے گھرانے کے دس افراد جن پر جہنم واجب ہوچکی ہوگی سفارش کرے گا ۔
٭خود امام ترمذی نے اس کی سند کو صحیح نہیں بتلایا ہے ۔
٭شیخ البانی ؒ نے اسے سخت ضعیف قراردیا ہے ۔(ضعیف الترمذی:2905)
٭شارح ترمذی شیخ مبارکپوری نے ذکر کیا ہے اس میں حفص بن سلیمان ہیں جنہیں حافظ نے متروک الحدیث کہا ہے ۔
مذکورہ بالادونوں حدیث سے پتہ چلا کہ حافظ قرآن کا دس ایسے آدمیوں کی سفارش کرنا جس کے لئے جہنم واجب ہوگئی تھی ثابت نہیں ہے ، اس لئے یہ بات بیان نہیں کرنی چاہئے اور نہ ہی کسی کو اپنے حافظ قرآن بچہ کی وجہ سے عمل ترک کرکے جنت کی امید لگانا چاہئے۔ انسان کو اپنے کئے کی سزاملے گی اور اپنے ہی نیک اعمال کی بنیاد پر اللہ کی توفیق سے جنت ملے گی ۔
ایک تصور تو ہمیں معلوم ہوگیا کہ حافظ قرآن کا دس لوگوں کی بخشش کرانا غلط ہے ، اب یہ جانتے ہیں کہ کسی کا صرف حافظ قرآن ہونا ہی کافی ہے ؟ یا قرآن کے کچھ حقوق وتقاضے ہیں ؟  بلاشبہ قرآن کا حفظ کرنا اور اس کا پڑھنااجر کا باعث ہے لیکن قرآن کے نزول کا مقصد بلاسمجھے قرآن پڑھنا نہیں ہے ۔ اللہ تعالی نے اس لئے قرآن نازل کیا کہ اسے سمجھ کر پڑھا جائے اور اس پر عمل کیا جائے ۔ یہاں پر ایک اور فکر بھی درست کرتے ہیں۔ لوگوں کے یہاں یہ بھی مشہور ہے کہ حافظ قرآن آخرت میں تلاوت کرتا جائے گا اور جنت کی سیڑیاں چڑھتا جائے گا۔ حدیث ملاحظہ فرمائیں : نبی ﷺ کا فرمان ہے:
يقالُ لصاحِبِ القرآنِ: اقرأ، وارتَقِ، ورتِّل كَما كُنتَ ترتِّلُ في الدُّنيا، فإنَّ منزلتَكَ عندَ آخرِ آيةٍ تقرأُ بِها(صحيح الترمذي:2914، صحيح أبي داود:1464)
ترجمہ: (قیامت کے دن) صاحب قرآن سے کہاجائے گا:(قرآن) پڑھتاجا اور (بلندی کی طرف) چڑھتا جا۔ اور ویسے ہی ٹھہر ٹھہر کر پڑھ جس طرح تو دنیا میں ٹھہر ٹھہرکر ترتیل کے ساتھ پڑھتا تھا۔پس تیری منزل وہ ہوگی جہاں تیری آخری آیت کی تلاوت ختم ہوگی ۔
آخرت میں تلاوت قرآن کی جو فضیلت ہے وہ فضلیت صاحب قرآن کو حاصل ہوگی اور ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ صاحب قرآن کون ہے ؟ چنانچہ قرآن کریم کے ہم پر پانچ حقوق ہیں ۔
پہلا حق: اس پر ایمان لانا ہے ، قرآن پر ایمان لانے میں اسے کلام الہی سمجھنا، عدل وانصاف پر مبنی سمجھنا، اس میں ذرہ برابر بھی شک نہ کرنا ، اس کے حلال وحرام کو حلال وحرام سمجھنااور اس کی تصدیق کرنا شامل ہے۔ قبرمیں جب مومن بندہ تین سوالات کا جواب دے دیگا تو منکر نکیر چوتھا سوال پوچھیں گے ۔وما يُدريكَ ؟ فيقولُ: قرأتُ كتابَ اللَّهِ فآمنتُ بِهِ وصدَّقتُ(صحيح أبي داود: 4753)
ترجمہ : تمہیں یہ بات کیسے معلوم ہوئی تو وہ کہے گا : میں نے اللہ کی کتاب پڑھی ، اس پہ ایمان لایااور اس کی تصدیق کی ۔
دوسرا حق: اس کی تلاوت کرنا اور اسے پڑھناہے۔صاحب قرآن والی حدیث میں "اقرا" سے قرآن کا یہ دوسرا حق بھی مراد ہے جو دنیا میں آدمی ادا کیا کرتا تھا، اس کا فائدہ آخرت میں ہوگا۔
تیسرا حق: قرآن پڑھ کر اس کے مطابق عمل کرنا تیسرا حق ہے ۔ قرآن پڑھ کر اس پر نہ کرنے والا ایسا ہی ہے جیساکہ اس نے قرآن پڑھا ہی نہیں ۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے : وَهَـذَا كِتَابٌ أَنزَلْنَاهُ مُبَارَكٌ فَاتَّبِعُوهُ وَاتَّقُواْ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ (الأنعام :155)
ترجمہ: اور (اے کفر کرنے والوں) یہ کتاب بھی ہمیں نے اتاری ہے برکت والی تو اس کی پیروی کرو اور (خدا سے) ڈرو تاکہ تم پر مہربانی کی جائے۔
جو قرآن پڑھے ، اسے سیکھے اور اس کے مطابق عمل کرے تو اس کے والدین کو قیامت میں نور کا تاج پہنایا جائے گا۔
نبی ﷺ کا فرمان ہے :من قرأ القرآنَ وتعلَّمه وعمِل به ؛ أُلبِسَ والداه يومَ القيامةِ تاجًا من نورٍ (صحيح الترغيب: 1434)
ترجمہ : جس نے قرآن پڑھا ،اسے سیکھااور اس پہ عمل کیا تو اس کے والدین کو قیامت کے دن نور کا تاج پہنایاجائے گا۔
چوتھا حق: اس میں غوروفکر کرنا ہے یعنی قرآن  کا تقاضہ ہے کہ اسے  سمجھ کراور غوروفکر کے ساتھ  پڑھا جائے ۔ جو بلاسمجھے قرآن کو پڑھے وہ قرآن کےپانچ حقوق میں سے چار حقوق کو نہیں ادا کرسکتے ہیں ۔ اور اللہ تعالی نے نزول قرآن کے مقصد میں غوروفکر کرنا بھی بتلایا ہے ۔ فرمان الہی ہے۔ كِتَابٌ أَنزَلْنَاهُ إِلَيْكَ مُبَارَكٌ لِّيَدَّبَّرُوا آيَاتِهِ وَلِيَتَذَكَّرَ أُوْلُوا الْأَلْبَابِ (ص:29)
ترجمہ: (یہ) کتاب(قرآن) جو ہم نے تم پر نازل کی ہے بابرکت ہے تاکہ لوگ اس کی آیتوں میں غور کریں اور اہل عقل نصیحت پکڑیں۔
پانچواں حق: قرآن کے حقوق میں پانچواں حق اس کی تبلیغ کرنا ہے ۔ یعنی ہم نے جو قرآن پڑھ کر سمجھا ہے اس کا تقاضہ ہے کہ پہلے ہم اس کے مطابق عمل کریں پھر اس کی تبلیغ دوسروں کو بھی کریں ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے : بلغوا عني ولو آيةً (صحيح البخاري:3461)
ترجمہ: میری طرف سے لوگوں کو پہنچاؤ خواہ ایک آیت کیوں نہ ہو ۔
قرآن  کے یہ پانچ حقوق جو ادا کرےگا کامل طور پر صاحب قرآن ہے ، جہاں بھی حدیث میں صاحب قرآن کی فضیلت ہے وہ ایسے ہی شخص کو حاصل ہوگی جو قرآن کے  جملہ حقوق ادا کرتا ہو ۔
عن ابی امامہ رضی اللہ عنہ قال: سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول: اقْرَؤوا القرآنَ . فإنه يأتي يومَ القيامةِ شفيعًا لأصحابه (صحيح مسلم:804)
ترجمہ : حضر ت ابوامامہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا :قرآن پڑھا کرو، اس لیے کہ قیامت کے دن یہ اپنے پڑھنے والے ساتھیوں کے لیے سفارشی بن کر آئے گا۔
یہ حدیث بھی حقوق ادا کرنے والوں کے لئے ہے ۔ جوان سارے حقوق کی ادائیگی ترک کردیتا ہے وہ تارک قرآن ہےیعنی جو قرآن پڑھنا، اس کی تلاوت سننا،اس پر ایمان لانا، اس کی تصدیق کرنا، اس کے اوامر کی بجاآوری اور منہیات سے اجتنات کرنا ، اس میں غوورخوض کرنا، دوسروں کو اس کی تبلیغ کرنا چھوڑ دے  وہ تارک قرآن ہے ایسے شخص کے بارے میں نبی ﷺ اللہ کے حضور مقدمہ درج کرائیں گے ۔ اگر حفظ قرآن ہی ہمارے لئے کافی ہوتا تو نبی ﷺ حافظ قرآن کو اس مقدمہ سے علاحدہ کردیتے۔ اللہ کا فرمان ہے : وَقَالَ الرَّسُولُ يَا رَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هَٰذَا الْقُرْآنَ مَهْجُورًا (الفرقان:30)
ترجمہ: اور رسول کہے گا کہ اے میرے رب بےشک میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا ۔
مشرکین قرآن پڑھے جانے کے وقت خوب شور کرتے تاکہ قرآن نہ سنا جاسکے،یہ بھی ہجران ہے، اس پر ایمان نہ لانا بھی ہجران ہے۔ اس پر غور و فکر نہ کرنا اور اس کے اوامر پر عمل نہ کرنا اور نواہی سے اجتناب نہ کرنا بھی ہجران ہے اسی طرح اس کتاب کو چھوڑ کر کسی اور کتاب کو ترجیح دینا بھی ہجران ہے یعنی قرآن کا ترک اور اس کا چھوڑ دینا ہے جس کے خلاف قیامت والے دن اللہ کے پیغمبر اللہ کی بارگاہ میں استغاثہ دائر فرمائیں گے ۔(تفسیر احسن البیان)
ابوداؤد کی صاحب قرآن والی روایت کے تحت علامہ  شمس الحق عظیم آبادی ؒ بعض علماء کی طرف منسوب کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ جس نے قرآن کے مطابق عمل کیا گویا اس نے ہمیشہ قرآن پڑھا گرچہ وہ اسے نہیں پڑھتا ہو ، اور جس نے قرآن پر عمل نہ کیا گویا کہ اس نے قرآن پڑھا ہی نہیں گرچہ وہ ہمیشہ اسے پڑھتا ہو۔ اور اللہ تعالی نے فرمایا: كتاب أنزلناه إليك مبارك ليدبروا آياته وليتذكر أولو الألباب(یہ کتاب یعنی قرآن مجید جو ہم نے تم پر نازل کی ہے بابرکت ہے تاکہ لوگ اس کی آیتوں میں غور کریں اور اہل عقل نصیحت پکڑیں) پس صرف تلاوت کرنے یا صرف حفظ کرنے سے بلند درجات والی جنت میں اونچے مراتب نہیں ملیں گے ۔ (عون المعبود شرح الحدیث رقم: 1464)
نہایت افسوس کا مقام ہے کہ بہت سارے حفاظ قرآن بھول گئے، بہت سارے حفاظ احکام قرآن سے کوسوں دور ہیں ، بہت سارے احکام قرآن کے مخالف عمل کرتے ہیں جبکہ وہ قرآن کے حافظ ہیں ۔ حفاظ کی اکثریت تو قرآن کے معانی ومفاہیم سے نابلد اور نری جاہل ہیں جبکہ انہیں جنت میں بلند درجات کی امید اور ان کے والدین وگھروالوں کو دس لوگوں کی بخشش کی امید ہے ۔
اوپر آپ نے جتنے نصوص کا مطالعہ کیا کہیں پر قرآن کی قرات بغیر عمل کے نہیں ہے کیونکہ قرآن نازل ہی ہوا ہے عمل کرنے کے لئے اور کہیں پر اس کی تلاوت کرنا بغیر سمجھے نہیں ہے کیونکہ قرآن سمجھ کر پڑھنے کے لئے نازل ہوا ہے تاکہ اس کے حقوق ادا کئے جائیں اور مکمل قرآنی تعلیمات کو عملی زندگی میں نافذ کیا جائے ۔اللہ کا فرمان ہے :الَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يَتْلُونَهُ حَقَّ تِلَاوَتِهِ أُولَٰئِكَ يُؤْمِنُونَ بِهِ ۗ(سورةالبقرة:121)
ترجمہ : وہ لوگ جنہیں ہم نے کتاب دی وہ اس کتاب کی اس طرح تلاوت کرتے جس طرح اس کی تلاوت کا حق ہے ، ایسے لوگ ہی اس پر صحیح معنوں میں ایمان لاتے ہیں۔
اس آیت میں تلاوت کی شرط "حق تلاوتہ " بتلائی گئی ہے اور ایسے ہی تلاوت کرنے والوں کو صحیح ایمان لانے والا قراردیاہے ۔ تلاوت کا حق یہ ہے کہ قرآن کو غوروخوض کے ساتھ سمجھ کر پڑھاجائے تاکہ اس پہ عمل کیاجائے ۔ لسان العرب میں تلاوت کا ایک معنی یہ بتلایاگیاہے "پڑھنا عمل کرنے کی نیت سے " ۔ عمل کرنے کی نیت سے قرآن پڑھنا اس وقت ممکن ہوگا جب اسے سمجھ کرغوروفکر کے ساتھ پڑھاجائے ۔
خلاصہ کلام یہ ہوا کہ حافظ قرآن اور صاحب قرآن میں فرق ہے ، اس کا اصل قاری صاحب قرآن ہے۔ ہم صرف قرآن کے حفظ پر اکتفا نہ کریں بلکہ صاحب قرآن کی فضیلت حاصل کرنے کے لئے قرآن کے پانچوں حقوق ادا کریں ۔ اپنے بچوں کو حافظ قرآن بنانا چاہتے ہیں تو محض حفظ قرآن تک ان کی تعلیم محدود نہ کریں بلکہ اتنی تعلیم دلائیں کہ وہ قرآن کو سمجھ کر ، غوروفکر کے ساتھ پڑھ سکیں ، اس کے مطابق عمل کرسکیں اور دوسروں کو بھی اس کی دعوت دے سکیں۔ ایسا کرنا آپ کے حق میں بہترین صدقہ جاریہ ہوگا۔ میں یہ نہیں کہتا کہ بلاسمجھے قرآن پڑھنے سے اجر نہیں ملتا، جو حافظ قرآن اس کا معنی نہیں جانتے اس کی کوئی فضیلت نہیں ہے ۔ بلاشبہ قرآن پڑھنا اوراس کا حفظ کرنا اجر کا باعث ہے مگر آخرت میں نجات اس بات پر موقوف ہے کہ ہم قرآن کو سمجھ کر پڑھیں اور اس کے مطابق عمل کریں اور دوسروں کو اس کی دعوت بھی دیں۔ اپنے سماج سے اس تصور کو ختم کریں کہ حافظ قرآن اپنے ساتھ دس لوگوں کو جنت میں لے جائے گا اور اسی طرح اس رسم کو بھی تبدیل کریں جو اپنے بچوں کی زندگی محض حفظ قرآن اور قرآن خوانی تک محدود کردیتے ہیں۔
اللہ تعالی ہمیں قرآن کو سیکھنے، اس کے مطابق عمل کرنے اور دوسروں کو اس کی دعوت دینے کی توفیق دے اور ہمارے بچوں کو حفظ قرآن کے ساتھ اس کے معانی ومفاہیم بھی جاننے کی توفیق دے تاکہ وہ بھی عمل کریں اور دوسروں کوبھی اس کی ترغیب دیں ۔ آمین
مکمل تحریر >>

Thursday, September 27, 2018

فیملی پلاننگ کرانے والے کی اذان وامامت کا حکم


فیملی پلاننگ کرانے والے کی اذان وامامت کا حکم

السلام علیکم و ورحمۃاللہ وبرکاتہ
مسئلہ ذیل کے بارے میں رہنمائی فرماکر شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں گے کہ گاؤں کی کسی مسجد میں ایک ایسا مصلی ہے جس نے ماضی بعید میں "فیملی پلاننگ " کر رکھا ہےاور فی الحال وہ اکثر اوقات اذان دینے اور بسا اوقات نماز پڑھانے میں سبقت کرتا رہتا ہے جبکہ مسجد کے دیگر مصلیان اس کی فیملی پلاننگ کے سبب اس طرح کی سبقت کو ناپسند کرتے ہیں اور اس کی اذان و امامت کو ناجائز جاننے کی وجہ سے اس كو سبقت کرنے سے منع کرنا چاہتے ہیں لیکن اس بارے میں وضاحت کے ساتھ عدم معلومات کی بناء پر ایسا کرنے یا کچھ کہنے سے کتراتے بھی ہیں۔
لہذامفتیان شرع متین سے مؤدبانہ التماس ہیکہ مسئلہ ہذا کی وضاحت فرماکر عنداللہ ماجور بنیں ! جزاکم اللہ خیرا۔
سائل : محمد سلیمان بن عبدالحق ، اتردیناج پور ، مغربی بنگال
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
الحمد للہ :
آج کے حالات ایسے ہیں کہ لوگ ہرچیز میں منصوبہ بندی کرتے ہیں ، یہ کوئی عیب کی بات نہیں ہے ۔ جہاں اس کی گنجائش ہو بے شک کی جانی چاہئے مگر جہاں پر خود اللہ اور اس کے رسول نے ہمیں مستحکم منصوبہ دیا ہو وہاں پر اپنی خودساختہ پلاننگ کرنا بے سود ہونے کے ساتھ اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت بھی ہے ۔
نبی کریم ﷺ نے خاندان بننے سے پہلے ہی ایک ٹھوس منصوبہ دیا ہے کہ جب تم شادی کرو تو زیادہ محبت کرنے والی اور زیادہ بچہ جننے والی عورت سے شادی کرو۔ ساتھ ساتھ بچہ نہ پیدا کرسکنے والی خاتون سے نکاح کرنا  بھی منع فرمایا ہے : سیدنا معقل بن یسار ؓ سے روایت ہے:
جاءَ رجلٌ إلى النَّبيِّ صلَّى اللَّهُ علَيهِ وسلَّمَ ، فقالَ : إنِّي أصَبتُ امرأةً ذاتَ حسبٍ وجمالٍ ، وإنَّها لا تلِدُ ، أفأتزوَّجُها ، قالَ : لا ثمَّ أتاهُ الثَّانيةَ فنَهاهُ ، ثمَّ أتاهُ الثَّالثةَ ، فقالَ : تزوَّجوا الوَدودَ الولودَ فإنِّي مُكاثرٌ بِكُمُ الأُممَ(صحيح أبي داود:2050)
ترجمہ: ایک شخص نبی کریم ﷺ کی خدمت میں آیا اور کہا مجھے ایک عورت ملی ہے جو عمدہ حسب اور حسن و جمال والی ہے مگر اس کے اولاد نہیں ہوتی ۔ تو کیا میں اس سے شادی کر لوں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :نہیں ،پھر وہ دوبارہ آیا ، تو آپ ﷺ نے منع فر دیا ۔ پھر وہ تیسری بار آیا تو آپ ﷺ نے فرمایا :ایسی عورتوں سے شادی کرو جو بہت محبت کرنے والی اور بہت بچے جننے والی ہوں ۔ بلاشبہ میں تمہاری کثرت سے دیگر امتوں پر فخر کرنے والا ہوں ۔
آج کے زمانہ والوں کے لئے اس حدیث میں عبرت ہے خواہ مرد ہو یا عورت ۔اسلام ہمیں خاندانی منصوبہ دے رہا ہے کہ زیادہ بچے پیدا کریں ، اس سے اسلام کو دنیا میں تقویت ملے گی اور آخرت میں محمد ﷺ کثرت تعداد پر فخر کریں گے ۔
ہم کثرت اولاد کو نحوست سمجھتے ہیں ، اپنی ترقی کی راہ میں رکاوٹ تصور کرتے ہیں اور فیملی پلاننگ کو روشن خیالی سمجھ کر کرتے ہیں جبکہ اولاد کی کثرت برکت کا سبب ، دنیا اور آخرت میں ترقی کا زینہ ہے ۔ اولاد کو نبی ﷺ نے بہترین کمائی قرار دیا ہے ۔ چنانچہ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓسے روایت ہےکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: إنَّ أطيَبَ ما أكل الرَّجلُ من كَسبِه وإنَّ ولدَه من كَسبِه(صحيح ابن ماجه:1751)
ترجمہ: انسان کا بہترین کھانا وہ ہے جو اسکی کمائی سے (حاصل) ہو۔ اور اس کی اولاد بھی اس کی کمائی ہے۔
لہذا اولاد کی کثرت جوکہ مستحسن  ومشروع ہے اپنا خاندانی منصوبہ بنائیں اورا نہیں اچھی ترتیب دے کر صالح بنائیں ،اس سے آخرت میں آپ کا درجہ کافی بلند ہوگا۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے :
إن اللهَ – عز وجل – لَيَرْفَعُ الدرجةَ للعبدِ الصالحِ في الجنةِ، فيقولُ : يا رَبِّ ! أَنَّى لي هذه ؟ ! فيقولُ : باستغفارِ وَلَدِكَ لك(قال الالبانی : اسنادہ حسن فی تخریج مشکاۃ المصابیح، رقم الحدیث : 2293)
ترجمہ: اللہ ایک شخص کا جنت میں درجہ بلند کرتاہے تو وہ اللہ سے اس کا سبب پوچھتا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تیری اولاد کی تیرے لیے دعائے مغفرت کرنے کی وجہ سے۔
سوال میں ایک شخص کے متعلق  فیملی پلاننگ کرنے کی وجہ سے اذان دینے اور اس کی امامت کرنے کا حکم پوچھا گیا ہے ۔ سطور بالا سے ہمیں معلوم ہوا کہ افزائش نسل اسلامی خاندان کا مطلوبہ معیار ہے ہمیں اس معیار پر کھرا  اترنا چاہئے ۔
کبھی کبھی انسان ماحول کے زیر اثر فیملی پلاننگ کرلیتا ہے اور کبھی ضرورت کا تقاضہ بھی ہوتا ہے ۔ فیملی پلاننگ دو طرح سے ہوتی ہے۔ ایک پلاننگ وقتی ہوتی ہے اوردوسری دائمی۔وقتی اس طور پر کہ مانع حمل ادویہ یا انجکشن کا استعمال کرکے کچھ مہینوں یا سالوں تک افزائش نسل کو روکا جا سکتا ہے مگر دائمی ضبط تولید کے بعد پھر بچے کی ولادت کا سلسلہ بند ہوجاتا ہے ۔
بلاضرورت یا شوقیہ ان دونوں قسم کی پلاننگ کرنا  ناجائز ہے لیکن اگر طبیب کے مشورہ کی روشنی میں ان میں سے کسی کی ضرورت پڑے مثلا ایک یا  چند بچے کی ولادت کے بعد عورت کمزور ہوجائے اور بروقت بچہ کی پیدائش اس کے جسم کے لئے نقصان دہ ہو تواس صورت میں غیرضرر رساں مانع حمل گولی یا انجکشن استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ اسی طرح ایک عورت کا کئی مرتبہ چائلڈ آپریشن ہوچکا ہو اور ڈاکٹر اب مزید آپریشن یا حمل خطرہ کا باعث قرار دیا ہو تو محض اس صورت میں دائمی فیملی پلاننگ کرانے میں کوئی حرج نہیں ہے، بسا اوقات بچہ دانی میں خرابی کے سبب اسے نکالنا پڑتا ہے اس صورت میں عورت معذور ہے۔
المیہ یہ ہے کہ اکثر لوگ نسبندی شوقیہ کراتے ہیں اور کم سے کم بچے کی پیدائش پر لوگوں میں فخر کرتے ہیں جبکہ نسبندی امت محمدیہ کا قتل ہے۔بعض تعلیم اوربعض معاش کا عذر پیش کرتے ہیں یہ عذر مقبول نہیں ہے، یہ سراسر ناجائزکام ہے ، اللہ کے یہاں اس ناجائز کام کے ارتکاب کا حساب دینا ہوگا۔
سوال میں جس بندے کی متعلق پوچھا گیا ہے ممکن ہو اس کے ساتھ کوئی عذر ہو جسے ہم نہیں جانتے ہیں یا جھوٹی خبر پھیلائی گئی ہو، بلاثبوت کسی کے بارے میں سوء ظن کا شکار نہیں ہونا چاہئے۔ جہاں تک اس کے اذان یا امامت کرانے کا مسئلہ ہے تو اس کے اذان دینے میں کوئی حرج نہیں ہے جبکہ کوئی متعین امام نہ ہو اور امامت کے لئے بہتر طریقہ کسی کو متعین کردینا ہی ہے لیکن کوئی امام متعین نہ ہو اس صورت میں امامت کا اہل کوئی بھی آدمی نماز پڑھا سکتا ہے۔ ایک حدیث میں ایسے شخص کی امامت درست نہیں ہے جسے بستی والے پسند نہ کریں ۔ پسند و ناپسند میں کبھی کبھی بستی والے بھی زیادتی کرتے ہیں سو اس معاملہ میں ہمیں اللہ سے ڈرنا چاہئے ۔ جس آدمی کے متعلق آپ  لوگ ناپسندیدگی کا اظہار کررہے ہیں ، ان کے ساتھ دو ایک صالح افراد بیٹھ کرمعاملہ کی حقیقت جان لیں، یہ بات اس لئے کہہ رہا ہوں کہ گاؤں گھر میں جب تک کسی بات کی حقیقت سامنے نہیں آجاتی لوگوں کے درمیان باتیں ہوتی ہی رہتی ہیں۔ اس لئے بات کو مکمل ختم کرنے کی غرض سے اس کے ساتھ چند افراد بیٹھیں اور اصل حقیقت دریافت کریں ۔ اگر وہ خطا پر ہیں تو توبہ کرنے کی تلقین کریں اور آپ لوگ خطا پر ہیں تو آپ سب لوگ توبہ کریں ۔ یہاں صرف اذان یا امامت کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ ایک شخص کو کئی سالوں (ماضی بعید)سے ناپسند کرنے کا مسئلہ ہے ۔ اذان وامامت پر کسی دوسرے کو مامور کردینے سے آپ کا ذکر کردہ مسئلہ ختم ہوجائے گا مگر اس شخص کے متعلق پسند وناپسند کا مسئلہ باقی ہی رہے گا۔ اگر وہ شخص خطا پر ہو اور توبہ کرلے تو پھر کسی کو اس کے بارے میں باتیں کرنے کی ضرورت نہیں ہے ، نہ اذان یا امامت کو ناپسند کرنا ہے۔ ہم میں سے کوئی شخص ایسا نہیں ہے جس نے گناہ نہیں کیا ہویا گناہ نہیں کرتا ہو۔ اس سے بڑے بڑےہم  گناہ کرتے ہیں مگر ہمار ے گناہ کو کبھی کوئی دیکھ لیتا اور کبھی کوئی نہیں دیکھ پاتا مگر اللہ رب العالمین ہمارے تمام ظاہری اور باطنی اعمال سے باخبر ہے ۔
اللہ تعالی ہم سب کو پہلے اپنی اصلاح کی توفیق دے اور پھر دوسروں کو نصیحت کرنے والا بنائے ۔ آمین
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ
مقبول احمد سلفی
مکمل تحریر >>

Tuesday, September 25, 2018

حلال چیزوں کا فروخت کرنا حلال ہے ۔


حلال چیزوں کا فروخت کرنا حلال ہے ۔

السلام علیکم رحمۃ اللہ وبرکاتہ
علمائےکرام سے ایک سوال ہے وہ یہ کہ زید کے پاس کرانے کی دوکان ہے وہ اس دکان میں کھانے پینے کی تمام اشیاءمثلا  چاول، دال، تیل ، ناریل ، گھی، شکر وغیرہ فروخت کرتا ہے۔
اب اگر کوئی گاہک چاول، دال، تیل وغیرہ خریدتا ہے او اس کا استعمال گیارہویں کی نیاز میں کرتا ہے۔ ناریل لیتا ہے کسی مزار پر پھوڑ تاہے، شکر لیتا ہے اس پر فاتحہ پڑھتا ہے۔
اسی طرح ایک ہندو بھی خریدتا ہے اور اپنے عقیدہ کے حساب سے مندروں میں خرچ کرتا ہے یعنی دوکان کی یہ تمام چیزیں غیر شرعی(گناہ) کاموں میں استعمال ہوتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ یہ سامان بیچنے والا زید کیا انکے ان گناہ کے کاموں میں مدد کرنے والا ٹہریگا ؟ کیا ان کا مدد گار بنے گا ؟ کیا قرآن کی اس آیت کے مصداق ہوگا جس میں گناہ کے کام پر تعاون کرنے سے منع کیا گیا ہے ؟ برائے مہربانی قرآن وحدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرماکر عنداللہ ماجور ہوں ۔
سائل : عبدالمجیب سلفی

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
الحمدللہ :
کھانے پینے کی چیزوں میں اسلام نے ہمیں یہ ضابطہ دیا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول نے جن چیزوں کے کھانے سے منع کیا ہے وہ نہیں کھائیں گے بقیہ دنیا کی ساری چیزیں ہمارے لئے حلال ہیں ۔ اللہ کا فرمان ہے :
حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنزِيرِ وَمَا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللَّهِ بِهِ وَالْمُنْخَنِقَةُ وَالْمَوْقُوذَةُ وَالْمُتَرَدِّيَةُ وَالنَّطِيحَةُ وَمَا أَكَلَ السَّبُعُ إِلَّا مَا ذَكَّيْتُمْ وَمَا ذُبِحَ عَلَى النُّصُبِ وَأَن تَسْتَقْسِمُوا بِالْأَزْلَامِ ۚ ذَٰلِكُمْ فِسْقٌ ۗ(المائدۃ : 3)
ترجمہ: تم پر حرام کیا گیا مردار اور خون اور خنزیر کا گوشت اور جس پر اللہ کے سوا دوسرے کا نام پکارا گیا ہو ، اور جو گلا گھٹنے سے مرا ہو ، اور جو کسی ضرب سے مر گیا ہو اور جو اونچی جگہ سے گر کر مرا ہو جو کسی کے سینگ مارنے سے مرا ہو ، اور جسے درندوں نے پھاڑ کھایا ہو ، لیکن اسے تم ذبح کر ڈالو تو حرام نہیں ، اور جو آستانوں پر ذبح کیا گیا ہو ، اور یہ بھی کہ قرعہ کے تیروں کے ذریعے فال گیری ہو ، یہ سب بدترین گناہ ہیں۔
اور نبی ﷺ کا فرمان ہے : إِنَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ حَرَّمَ بَيْعَ الْخَمْرِ ، وَالْمَيْتَةِ ، وَالْخِنْزِيرِ ، وَالْأَصْنَامِ(صحيح البخاري:2236)
ترجمہ:اللہ اور اس کے رسول نے شراب، مردار، سور اور بتوں کا بیچنا حرام قرار دے دیا ہے۔
مذکورہ بالا آیت وحدیث میں اللہ اور اس کے رسول نے چند چیزوں  کی حرمت بیان کی ہے ، ان کے علاوہ دیگر آیات واحادیث میں بھی متعدد چیزوں کی حرمت کا ذکر ملتا ہے ۔ جو چیزیں نام لیکر ہمارے اوپر حرام کردی گئیں نہ ان کا کھانا ہمارے لئے حلال ہے اور نہ ہی اس کا بیچنا حلال ہے۔
سوال میں جن چیزوں کا ذکر ہے چاول ، دال ، تیل، ناریل، گھی ، شکروغیرہ ، یہ سب ہمارے لئے حلال ہیں ، ان کا کھانا حلال ہے اور ان کا بیچنا جائز و حلال ہے ۔زید نے کرانے کی دوکان بدعتیوں اور ہندؤں کی مد د کرنے کے لئے نہیں کھولا ہے بلکہ انسانوں کی ضروریات زندگی کی تکمیل کے لئے کھولا ہےاور اس مقصد کے لئے مباح چیزوں کا بیچنا ہمارے لئے حلال ہے۔  لہذا زید کے لئے  ان چیزوں کو فروخت کرنے میں کوئی گناہ نہیں ہے اور نہ ہی وہ قرآن کی اس آیت کا مصداق ہے جس میں برائی کے کاموں پر تعاون کرنے سے روکا گیا ہے ۔ دراصل گنہگار وہ شخص ہے جو مذکورہ اشیاء کا استعمال گناہ کے کاموں میں کرتا ہے ، اس بات کے اضافہ کے ساتھ کہ یہ اشیاء اصلا ہمارے لئے حلال ہیں ۔ گویا حلال اشیاء کا استعمال گناہ کے کاموں میں کرنے سے اشیاء حرام نہیں ہوجائیں گی اپنی اصلیت میں حلال ہی ہوں گی ۔
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ
مقبول احمد سلفی  




مکمل تحریر >>

Sunday, September 23, 2018

آن لائن تجارت کا شرعی حکم


آن لائن تجارت کا شرعی حکم

مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹر، شمالی طائف (مسرہ)

یہ نٹورکنگ کا زمانہ ہے، اس وقت بہت ساری چیزوں کے لئے اس کا استعمال کیا جاتا ہے۔ تجارت بھی انٹرنیٹ پہ خوب خوب ہورہی ہے۔ اس کی مختلف اشکال وانواع ہیں۔ زیادہ سے زیادہ کمانے کے شوق نے تجارت کے میدان میں نت نئے طریقے متعارف کرائے جن میں بہت سارے ذرائع سودکی تجارت، حرام کی تجارت ، مجہول کی تجارت اورمکروفریب کی تجارت پر مشتمل ہیں ۔
انٹرنیٹ کی تجارتی دنیا میں متعدد طریقے سے آن لائن تجارت ہوتی ہے، یہ تجارت انفرادی حیثیت سے بھی ہوتی ہے اور اجتماعی شکل میں یعنی کمپنی کا کمپنی کے درمیان بھی ہوتی ہےبلکہ یہ کہاجائے کہ بروقت انفرادی اور اجتماعی تجارت کا وافر حصہ انٹرنیٹ سے جڑا ہے تو لغو نہ ہوگا۔ ایک مسلمان کے لئے عبادت کی طرح احکام ومعاملات کی بھی معرفت ضروری ہے اس لئے میں نے ضروری سمجھا کہ کتاب وسنت کی روشنی میں آن لائن تجارت کا حکم بیان کردوں تاکہ جو لوگ ان تجارت سے جڑے ہیں وہ شریعت کے احکام جان لیں ۔ اگر اس کی تجارت حلال ہے تو فبہا ورنہ اس سے اجتناب کرے۔
آن لائن تجارت کی وجہ سے بہت ساری سہولیات میسر آئی ہیں ، ایک خریدار شخص گھر بیٹھے کہیں سے بھی اور کوئی بھی سامان منگا سکتا ہے، مختلف آن لائن تجارتوں کے درمیان دنیا بھر میں موجود سستا سے سستا اور معیاری سے معیاری سامان تلاش کرسکتاہے۔اس میں وقت کی بچت کے ساتھ آمدورفت کی تکلیف سے بھی راحت ہے۔ خریدار کے ساتھ فروخت کنندہ کو بھی بڑی آسانی ہے اسے دوکان لگانے، کرایہ دینے اور آمدورفت کے چکر سے نجات مل جاتی ہے وہ انٹرنیٹ پہ ایک ویب سائٹ کے ذریعہ اپنے سامان کا تعارف کراتا ہے ساتھ ہی اس کی تصاویر بھی دیتا ہے اور آڈر پر سامان بھیج دیا جاتا ہے۔ اسی وجہ سے یہ تجارت آج شہرت کے آسمان پر کمندیں ڈال رہی ہے۔
اس تجارت کا شرعی حکم جاننے سے پہلے میں بیع وشراء کا اسلامی اصول بتادیتا ہوں تاکہ بہ آسانی مسئلہ کو سمجھا جاسکے او ر اس اصول کے خلاف جو بھی آن لائن تجارت ہو اس کا عدم جواز واضح ہوجائے۔خریدوفروخت میں تین چیزیں بنیادی حیثیت رکھتی ہیں ۔
(1) دوفریق کا پایا جانا جن کے درمیان خریدوفروخت ہوگی ۔ (2) اس سامان کا وجود جس کی خرید وفروخت مطلوب ہے ۔ (3) سامان کی قیمت ۔
خرید وفروخت کے سلسلے میں اسلام کے چند اہم اصول وقواعد مندرجہ ذیل ہیں۔
(1) بائع اور مشتر ی کے درمیان رضامندی سے خریدوفروحت طے پائے ، نبی ﷺ کا حکم ہے : إنَّما البيعُ عَن تراضٍ(صحيح ابن ماجه:1792)
ترجمہ: بیع صرف باہمی رضامندی سے ہوتی ہے۔
(2) بائع کا مبیع(سامان) پر ملکیت ہو ،یعنی ایسا سامان بیچنا ممنوع ہے جس پر ملکیت نہ ہو۔  حکیم بن حز ام ؓ کہتے ہیں:
أتيتُ رسولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فقلتُ: يأتيني الرَّجلُ يسألني منَ البيعِ ما ليسَ عندي أبتاعُ لَهُ منَ السُّوقِ ثمَّ أبيعُهُ قالَ: لاَ تبع ما ليسَ عندَكَ.(صحيح الترمذي:1232)
ترجمہ: میں رسول اللہ ﷺ کے پاس آکر عرض کیا : میرے پاس کچھ لوگ آتے ہیں اور اس چیز کوبیچنے کے لیے کہتے ہیں جو میرے پاس نہیں ہوتی، تو کیا میں اس چیز کو ان کے لیے بازار سے خرید کر لاؤں پھر فروخت کروں؟ آپ نے فرمایا: 'جو چیز تمہارے پاس نہیں ہے اس کی بیع نہ کرو۔
(3) حلال چیزوں کی ہی تجارت کرسکتے ہیں ،نبی ﷺ کا فرمان ہے : إنَّ اللَّهَ إذا حرَّمَ على قومٍ أَكْلَ شيءٍ ، حرَّمَ علَيهِم ثمنَهُ(صحيح أبي داود:3488)
ترجمہ: بلاشبہ اللہ تعالیٰ جب کسی قوم پر کسی چیز کا کھانا حرام کر دیتا ہے ، تو اس کی قیمت بھی حرام کر دیتا ہے ۔
(4) جس سامان کی تجارت مقصود ہے اس کی قیمت معلوم ہو اور اس کے صفات وہی بتلائے جائیں جو اس میں ہیں نیز اگر سامان میں کوئی عیب ہے تو اسے واضح کیا جائے ۔ان تمام باتوں سے مقصود مشتری کو دھوکہ سے بچانا ہےگویا ایسی کوئی بیع جس میں دھوکہ ہے جائز نہیں ہے۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ:نَهَى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ بَيْعِ الْحَصَاةِ، وَعَنْ بَيْعِ الْغَرَرِ(صحيح مسلم: 1513)
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے کنکر پھینک کر بیع کرنے اور دھوکے والی بیع سے منع فرمایا ہے۔
(5) تجارت سودی آمیزش سے پاک ہو کیونکہ اللہ تعالی نے سود کو حرام قرار دیا ہے ۔ فرمان الہی ہے: وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا(البقرة:275)
ترجمہ: اللہ تعالی نے تجارت کو حلال کیا اور سود کو حرام کیا ہے ۔
بیع کی چار اقسام بنتی ہیں ۔
پہلی قسم : ایک چیز کے بدلے دوسری چیز دی جائے مثلا زمین کے بدلے مکان ،اسے انگریزی میں بارٹر سیل کہتے اور عربی میں مقایضہ کہتے ہیں ۔ اس بیع کے جواز وعدم جواز میں تفصیل ہے۔
دوسری قسم : رقم/ قیمت کے بدلے کوئی چیز خریدنا ،یہ مطلق بیع ہے اور عموما یہی طریقہ مارکیٹ میں رائج ہے۔
تیسری قسم : نقد کا نقد سے تبادلہ اسے بیع الصرف یا ایکسچینج منی کہتے ہیں۔
چوتھی قسم : ایک طرف محنت دوسری طرف اجرت ،اسے اجارہ یعنی مزدوری کہتے ہیں۔
قیمت کی ادائیگی کے اعتبار سے  بھی بیع کے چار اقسام ہیں ۔
پہلی قسم : نقد خریدوفروخت یعنی نقدقیمت چکائیں اور نقد سامان حاصل کریں ۔
دوسری قسم : سامان فوری مل جائے مگر اس کی قیمت آئندہ کسی تاریخ پر طے ہو یہ ادھار بیع ہے ، اس ادھار کو قرض کہیں گے اور یہ جائز ہے۔
تیسری قسم : قیمت پہلے چکادی جائے مگر سامان کی حوالگی میں میعادطے ہوتواسے بیع سلم کہتے ہیں ، یہ بھی جائز ہے۔
چوتھی قسم : سامان کی حوالگی اور اس کی قیمت دونوں ادھار ہوں  یعنی دونوں میں میعاد ہو تو یہ ناجائز ہے اسے حدیث میں بیع الکالی بالکالی کہا گیا ہے۔
اب ہم دیکھتے ہیں کہ انٹرنیٹ پر آن لائن تجارت کس طرح کی جاتی ہے پھر اس طریقہ کو اسلام کے تجارتی اصول پر برتتے ہیں ۔
(1)آن لائن تجارت میں فاریکس ٹریڈنگ کافی مشہور ہے اس کا طریقہ یہ ہے کہ مثلاایک ہزار ڈالر جمع کرکے فاریکس کمپنی میں پہلے اپنا اکاؤنٹ کھلوانا پڑتا ہے ، اکاؤنٹ کھلتےہیں اس شخص کوایک  لاکھ ڈالر کی قوت خرید مل جاتی ہے ۔ انٹرنیٹ پہ مختلف اشیاء کا قیمتوں کے ساتھ اشتہار آرہا ہوتا ہے ، یہ شخص جو محض ایک ہزار ڈالر میں ایک لاکھ تک کی اشیاء خریدنے کی اہلیت رکھتا ہے وہ سستی قیمت دیکھ کر انٹرنیٹ پر ہی کوئی سامان خریدتا ہے اور جوں ہی اس کی قیمت بڑھتی اسے بیچ دیتا ہے اس طرح بڑھتی قیمت سے فائد ہ اٹھا تا ہے لیکن اشیاء کی قیمت گھٹنے سے نقصان بھی ہوتا ہے ۔ کمپنی ہر تجارت پہ اپنا کمیشن لیتی ہے خواہ نفع ہو یا نقصان اور اسی طرح مقررہ وقت پر سودا نہ ہو تو کمپنی مزید رقم وصول کرتی ہے۔ اس تجارت میں کمپنی بروکر کی حیثیت سے رول کرتی ہے اور اکاؤنٹ ہولڈر براہ راست خریدوفروخت نہیں کرسکتابلکہ خرید وفروخت کی طلب پیش کرتا ہے۔
اس تجارت میں شرعا کئی خرابیاں ہیں ۔ایک شخص ایک ہزار ڈالر کے بدلے جو ایک لاکھ کی قوت خرید حاصل کرتا ہے وہ سود کے زمرے میں آئے گا، اسی طرح اس سودی پیسے سے کوئی منقولی سامان انٹرنیٹ پر خرید کرتا ہے اور اس پہ قبضہ کرنے سے پہلے بیچ دیتا ہے جوکہ ناجائز ہے۔ اسی طرح کمپنی کا ہرتجارت پہ طے شدہ منافع لینا خواہ تجارت میں نفع ہو یا نقصان جائز نہیں ہے ۔ اس میں بیع الکالی بالکالی اور سٹہ بازی بھی پائی جاتی ہے ۔ سٹہ بازی اس طرح کہ یہاں پر ہوا میں تجارت ہوتی ہے زمینی طور پر اس کا کچھ وجود نہیں ہوتا، نہ حقیقی معنی میں کسی کو سامان خریدنا ہوتا ہے اور نہ ہی اس پر قبضہ کیا جاتا ہے بس منافع کا کھیل کھیلا جاتا ہے۔
(2)بعض آن لائن کمپنیاں انٹرنیٹ پر سامان فروخت کرتی ہیں اس کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ خریدار سےقیمت پہلے چکا لیتی ہیں اور سامان بعد میں حوالہ کیا جاتا ہے ۔اگر اس طریقہ تجارت میں معاملات واضح ہوں اور کسی قسم کا فریب نہ ہوتو جائز ہے مگر انٹرنیٹ کی دنیا میں کچھ بھی ہوسکتا ہے ۔ ممکن ہے کمپنی خریدار سے پیسے وصول کرلے اور سامان نہ بھیجے ، یہ بھی ممکن ہے کہ جو سامان خریدار نے جن صفات کے ساتھ طلب کیا تھا اس طرح نہ ملے ۔ ایسا بھی ممکن ہے کہ ہیکروں کی وجہ سے پیسہ کمپنی تک نہ پہنچ سکے یا سامان خریدار کو نہ وصول ہوسکے ۔ ہاں قابل اعتماد کمپنی جو اس میدان میں سالوں سے کام کررہی ہوتو پھر اس سے لین دین کریں ۔
(3)اس میں کوئی حرج نہیں ہے کہ سامان کی قیمت پہلے وصول کرلی جائے اور سامان بعد میں حوالہ کیا جائے یاپہلے محض بیعانہ وصول کرلیا جائے ۔ یا بغیر کسی رقم کے مطلوبہ سامان ڈیلیوری کردینا اور پسند وناپسند کے اختیار کے ساتھ کمپنی کے وکیل کے ساتھ خریدوفروخت کرنا جائز ہے بلکہ یہی صورت سب سے بہتر اورمامون ہے۔
خلاصہ یہ ہوا کہ آن لائن تجارت کرنے کے سلسلے میں یہ ضروری ہے کہ اشیاء کا وجود ہو اور جب خریدار کسی شی کا مطالبہ کرے اورقیمت ادا کرنے کی جو فوری یا حوالگی کا وقت جوبھی طے ہو فروخت کنندہ وہ سامان اس کے نام مطلوبہ صفات والا روانہ کردے اور حوالگی کوپختہ بنائے ۔سامان وصول ہونے پر مطلوبہ صفات نہ پائے جائیں تو خریدارکو واپس کرنے کا اختیارہو۔ اگر بیچنے والے کے پاس محض اشتہار ہے جب کوئی خریدار سامان طلب کرتا ہے تو وہ دوسرے مارکیٹ سے سامان خریدکر دیتا ہے یہ دھوکہ کے ساتھ دوسرے کی ملکیت والا سامان بیچنا ہے۔ اوپرحدیث موجود ہے جس میں حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ کورسول اللہ ﷺ نے ایسی بیع سے منع کیا ہے ۔
بہت سی آن لائن تجارت میں عموما دو باتیں زیادہ پائی جاتی ہیں جن سے بچنا پڑے گا۔
پہلی بات یہ ہے کہ ایک شخص انٹرنیٹ پر کوئی سامان خریدتا ہے اور اس پر قبضہ کرنے سے پہلے دوسرے کو بیچ دیتا ہے ۔ یہ تجارت ناجائز ہے ۔
دوسری بات یہ ہے کہ خریدوفروخت کی فرضی کمپنی ہوتی ہے ، اس کے پاس حقیقت میں کوئی سامان نہیں ہوتا بس کمپنی کا نام ہوتا ہے ، اشتہار سے خریداروں کا آڈر لیتا ہے اور دوسری آن لائن کمپنی سے سستا سامان خرید کر خریدار کو بھیجتا ہے ۔ یہ بھی ناجائز ہے ۔ ہاں کوئی یہ کہہ کر تجارت کرے کہ میرے پاس  فلاں سامان موجود نہیں ہے دوسری جگہ سے خرید کر آپ کو مہیا کراؤں گا اور اپنی اجرت بھی لوں گا۔
آن لائن تجارت کا سب سے بہترین طریقہ یہ ہے کہ تاجر اپنے سامان کا اس کے صحیح صفات کے ساتھ انٹرنیٹ پر تعارف کرائے تاکہ خریدار کو سامان کی مکمل کیفیت معلوم ہوجائے اور جب خریدار کوئی سامان طلب کرے تو وہ سامان اس تک اپنے وکیل کے ذریعہ پہنچائے ، جب خریدار کو دیکھنے کے بعد سامان پسند آجائے تو اس کی قیمت دے کر بیع مکمل کرلے یا ناپسند ہو تو واپس کردے ۔ سامان کی قیمت حوالگی سے قبل بھی لینا جائز ہے یا کچھ اڈوانس بھی لے سکتا ہے مگر ہیکروں کی وجہ سے خطرہ ہے او ر خریدار کو اس ناحیہ سے بھی خدشہ ہے کہ تاجر قیمت لیکر سامان نہیں بھیجے گا یا سامان اصلی نہیں ہوگاتو واپسی کا اختیار نہیں ہوتا۔ اس وجہ سے خریدار بھی مطمئن اور تاجر بھی لوگوں کے اعتماد کے ساتھ تجارت کر سکتا ہے۔

مکمل تحریر >>

Thursday, September 20, 2018

تبلیغی جماعت اور مساجد


تبلیغی جماعت اور مساجد

مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹر، شمالی طائف(مسرہ)

مساجد روئے زمین پر اللہ کے گھر ہیں جن میں خالص اس خالق ومالک کی عبادت کی جاتی ہے جس نے ہمیں محض اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے ۔ قرآن میں اللہ تعالی نے تین مقامات پر (سورہ بقرۃ : 114، سورہ توبہ :17اورسورہ توبہ :18)مساجد اللہ اور ایک جگہ (سورہ جن :18)المساجد للہ یعنی مساجد اللہ کے لئے ہیں ذکر کیا ہے ۔ روئے زمین پر یہ واحد اللہ کا گھر ہے جو آسمان والوں کو ستاروں کی طرح چمکتا نظر آتا ہے۔ طبرانی نے المعجم الکبیر میں ایک روایت نقل کی ہے ۔
عن ابنِ عبَّاسٍ قالَ المساجدُ بيوتُ اللَّهِ في الأرضِ تضيءُ لأهلِ السَّماءِ كما تضيءُ نجومُ السَّماءِ لأهلِ الأرضِ(رواه الطبراني)
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں مساجد روئے زمین پر اللہ کے گھر ہیں جو آسمان والوں (فرشتوں) کو اس طرح چمکتی نظر آتی ہیں جس طرح زمین والوں کو آسمان کے ستارے چمکتے نظر آتے ہیں ۔
٭ ہیثمی نے اس کے رجال کو ثقہ کہا ہے ۔ ( مجمع الزوائد : 10/2)
یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی کو پورے روئے زمین پر سب سے زیادہ پسندیدہ یہی اپنےگھر مساجد ہیں ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے :
أحبُّ البلادِ إلى اللهِ مساجدُها . وأبغضُ البلادِ إلى اللهِ أسواقُها(صحيح مسلم:671)
ترجمہ: اللہ تعالی کو شہروں میں سب سے زیادہ محبوب جگہیں مساجد ہیں اور شہروں میں سب سے زیادہ ناپسندیدہ جگہیں بازار ہیں ۔
مساجد اللہ کے گھر ہونے کی وجہ سے ان کا حترا م وتقدس بھی بہت ہے ۔ مساجد میں دنیاوی باتیں کرنا، شوروغل مچانا، گم شدہ چیز کا اعلان کرنا، خریدوفروخت کرنا، بلاضروت فضول آوازبلند کرنا، بلامقصد شعرگوئی کرنا، مسجد میں دوڑ کر آنا، اسے گزرگاہ بناناحتی کہ لہسن پیاز کی بو لیکر آنا بھی منع ہے ، کسی نمازی کو ادنی سے تکلیف پہنچانا بھی منع کیا گیا ہے ۔ نیز اللہ کا گھر تعمیر کرنا بڑے اجر کا کام ہے ، اس پہ نبی ﷺ نے اپنی امت کو ابھارا ہے اور مسجد کی تعمیر کرنے والوں کے لئے جنت میں ایک محل کی بشارت سنائی ہے ۔
مذکورہ بالا تمام باتوں کو اپنے ذہن میں رکھیں اور اب مزید دو باتوں کی جانکاری حاصل کریں کہ جو مساجد اللہ کے گھر ہیں اور روئے زمین پر اللہ کو سب سے زیادہ پیارے ہیں ان کو آباد کرنے والے ، ان کی تعمیر کرنے والے کون لوگ ہیں اور وہ کون لوگ ہیں جو اللہ کے محبوب گھر کو مسمار کرتے ہیں، ان کی کیا سزا ہے ؟ آئیے جانتے ہیں قرآن کی روشنی میں ،،،،،
(1) اللہ کے محبوب گھروں(مساجد ) کو آباد کرنے والے :اللہ کا فرمان ہے:
إِنَّمَا يَعْمُرُ مَسَاجِدَ اللَّهِ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَأَقَامَ الصَّلَاةَ وَآتَى الزَّكَاةَ وَلَمْ يَخْشَ إِلَّا اللَّهَ ۖ فَعَسَىٰ أُولَٰئِكَ أَن يَكُونُوا مِنَ الْمُهْتَدِينَ (التوبة:18)
ترجمہ: اللہ کی مسجدوں کی رونق و آبادی تو ان کے حصے میں ہے جو اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہوں نمازوں کے پابند ہوں زکٰوۃ دیتے ہوں ، اللہ کے سوا کسی سے نہ ڈرتے ہوں توقع ہے کہ یہی لوگ یقیناً ہدایت یافتہ ہیں ۔
اس آیت کا صاف صاف مطلب یہ ہوا کہ جو اللہ پراور یوم آخرت پر ایمان نہیں لاتے اور نماز وروزہ کی پابندی نہیں کرتے اور نہ ہی اللہ سے ڈرتے ہیں وہ نہ تو مساجد آباد کرنے والے ہیں اور نہ ہی ہدایت یافتہ ہیں ۔ اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ جو مساجد آباد نہیں ویران کرتے ہیں، یا انہیں توڑتے ہیں وہ لوگ بھی نہ ہدایت یافتہ ہیں ، نہ ایمان والے ہیں اور نہ عمل صالح والے۔
(2) اللہ کے محبوب گھروں(مساجد) کو مسمار کرنے والے : اللہ کا فرمان ہے :
وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّن مَّنَعَ مَسَاجِدَ اللَّهِ أَن يُذْكَرَ فِيهَا اسْمُهُ وَسَعَىٰ فِي خَرَابِهَا ۚ أُولَٰئِكَ مَا كَانَ لَهُمْ أَن يَدْخُلُوهَا إِلَّا خَائِفِينَ ۚ لَهُمْ فِي الدُّنْيَا خِزْيٌ وَلَهُمْ فِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌ (البقرة:114)
ترجمہ:اس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہے جو اللہ تعالٰی کی مسجدوں میں اللہ تعالٰی کے ذکر کئے جانے کو روکے ان کی بربادی کی کوشش کرے ایسے لوگوں کو خوف کھاتے ہوئے ہی اس میں جانا چاہیے ان کے لئے دنیا میں بھی رسوائی ہے اور آخرت میں بھی بڑا عذاب ہے۔
یہ آیت ہمیں بتلاتی ہے کہ جو اللہ کے گھرمیں لوگو ں کو نماز پڑھنے اور ذکر قرآن وحدیث کرنےسے روکتے ہیں وہ ظالم ہیں بلکہ بڑے ظالم ہیں جو مساجد برباد کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور انہیں منہدم کرتے ہیں، یہ اتنا بھیانک اور عظیم جرم ہے کہ اللہ نے ایسے بدبختوں کے لئے دنیا سے ہی سزا شروع کردی ہے ۔ آخرت میں دردناک عذاب توہے ہی۔
یہ مساجد اللہ کے گھر ہیں ، ہمیں ان کی تعمیرکرنے میں، انہیں آباد کرنے میں اور ان میں اللہ کا ذکر بلند کرنے میں زیادہ سے زیادہ کوشش کرنی چاہئے مگر روئے زمین  پرایک ایسی بھی جماعت ہے جو تبلیغی جماعت سے موسوم ہے۔ یہ جماعت نہ صرف مساجد میں اہل حدیث کو درس قرآن اور درس حدیث دینے سے روکتی ہےبلکہ ان میں نماز ادا کرنے سے بھی روکتی ہے ۔اس جماعت کی پوری تاریخ میں اہل حدیث مساجد، اہل حدیث ائمہ اور اہل حدیث عوام کو گزند پہنچانا لکھا ہے۔ اخبار اہل حدیث امرتسر یکم جولائی 1932 ء کا ایک پیج کسی بھائی نے سوشل میڈیا پر شیئر کیا ہے اس میں لکھا ہےکہ دشمنوں کے بھڑکاوے میں آکر احناف نے اہل حدیث امام ومقتدیوں پر حملہ کرکے انہیں بےتحاشا زدوکوب کیا۔ یہ بھی لکھا ہے کہ اہل حدیث نے بالکل مقابلہ نہ کیا۔ اہل حدیث کے نزدیک مسجد کا تقدس دیکھیں کہ انہوں نے مقدس جگہ پر ظالموں کو کچھ نہ کہا بلکہ مسجد کا احترام کیا اور دوسری طرف احناف نے نہ مسجد دیکھی، نہ نمازی کا خیال کیا اور نہ ہی اللہ کے گھر میں امامت کرنے والے امام صاحب کا پاس ولحاظ کیا۔
تبلیغی جماعت ، وہ جماعت ہے جس پر دنیا بھر کی مسجد کا بڑا احسان ہے ، اس جماعت کےپاس نہ کوئی آفس ہے، نہ کوئی مطبخ ہے ، نہ سونے کا انتظام ہے اور نہ ہی تبلیغی اڈے ہیں ۔ یہی مسجد ان کا گھر ہے، اسی میں کھانا پکاتے ہیں، اسی میں ڈکارلے لے کر کھاتےپیتے ہیں اور کھاکر یہیں پیر پسار پسار کر خراٹے لیتے ہیں۔ اٹھتے ہیں اسی کے حمام میں غسل اور استنجا کرتے ہیں۔ یہیں چلہ کشی ہوتی ہے، یہیں سے گشت ترتیت دئے جاتے ہیں، گاؤں کےپاک وناپاک سارے افراد کو زبردستی پکڑپکڑ کر یہیں جمع کیا جاتا ہے، دراصل یہ جہال کی جماعت ہوتی ہے، ان میں سے کوئی ان جاہلوں کو دین سکھاتا ہے۔ چند گشتوں اور دوچار چلوں سے یہ بڑے فقیہ و مفتی بن جاتے ہیں ، جو ان کی طرح چلہ کشی نہ کرے ،ان کے خلاف تبلیغیوں کو بھڑکاتے ہیں ، یہاں تک کہ جہاں جہاں ان کاگزرہوتا ہے وہاں کے اہل حدیث عوام پر اپنی نفرت ظاہر کرتے ہیں ، کہیں پر خوب ستاتے ہیں ، بریلویوں کے طرح کڑوی کسیلی باتیں سناتے ہیں اور بات بات پر وہابی کا طعنہ دیتے ہیں جبکہ اہل حدیث ان تمام مرحلوں میں صبر سے کام لیتے ہیں اور اپنے معاملات کو اللہ کے سپرد کردیتے ہیں۔
یہ لوگ اللہ کے گھر پر بھی قبضہ کرتے پھرتے ہیں ، اہل حدیث اتنے شریف ہوتے ہیں کہ اپنی مساجد میں تبلغیوں کو پناہ دیتے ہیں اور یہ چلہ کش اتنے ظالم ہوتے ہیں کہ مساجد پر قبضہ ہی شروع کردیتے ہیں ۔ ہندوستان میں کتنی جگہوں پر ان بہروپیوں نے اہل حدیث مساجد پر قبضہ کرنے کی ناپاک کوشش کی ۔
15/ ستمبر 2018 کا ہفتہ تاریخ میں نہ بھولنے والا دن ہے جب اندھیرے میں اللہ سے بے خوف ہوکر آندھر اپردیش کے ضلع چتور کے ایک گاؤں پلمنیر میں رات کے تین بجے تبلیغی جماعت کے غنڈے ، دہشت گرد مبلغین نے اہل حدیث کی مسجد گرادی ۔ اناللہ واناالیہ راجعون ۔
وہ مسجد جس نے انہیں پالا، پوسا ، جوان کیا، دنیا میں وجود باقی رکھنے کا سہارا دیا، اس کا سہارا لیکر نگر نگر اور ڈگرڈگر کی خاک چھانا، اسی کے سہارے جیتا رہا، اسی کے سہارے اپنے چھ نمبری کام کرتا رہا۔ اسی کے رحم وکرم پر عام لوگوں کو حنفی بناتا رہا اور اپنی تعداد بڑھاتا رہا۔ آج اتنے سارے احسان کابدلہ مسجد منہدم کرکے دیا۔
اس المناک حادثے پر غیرمسلم کا بابری مسجد منہدم کرنا کوئی تعجب خیز امر معلوم نہیں ہورہا ہے ، ایک کافر کو اللہ کے گھر کی عظمت کا کیا احساس مگر خود کو تبلیغ کے اصل ٹھکیدار کہنے والے اور مسجدوں کو بڑی تعدادمیں آبادکرنے پر گھمنڈ کرنے والے جب ابرہہ کے شرمناک فعل جیسا گھناؤنا فعل انجام دینے لگیں تو پھر تعجب نہیں ان کے ایمان میں شبہ لگ رہاہے ۔ اور پھر یقین سے کہا جاسکتا ہےکہ سورہ بقرہ کی آیت 114 میں ظالم سے مراد اسی قسم کے تبلیغی غنڈے ہیں جو بظاہر نماز کی دعوت دیتے ہیں ،مسجدوں کو آباد کرتے نظر آتے ہیں مگر حقیقت میں ان کے دل میں ایمان نہیں ہے ، یہ اللہ سے اور آخرت میں اس کی پکڑ سے بھی بے خوف ہیں ۔ ایسے لوگ دنیا میں بھی رسواکن ذلت کے مستحق ہیں اور آخرت میں بھی دردناک عذاب سے دوچار کئے جائیں گے ۔
اس موقع سے ہندوستان کے دو اہم احناف کےتدریسی ادارے دارالعلوم دیوبند اور دارالعلوم ندوۃ العلماء کے ذمہ داروں سے مخاطب ہوں ۔ تعلیمی ادارہ آپ کے پاس ہے ، قرآن وحدیث کی جس انداز میں بھی تعلیم دیتے ہیں مجھے اس پہ کوئی سوال نہیں ہے مگر انہدام مسجد کا واقعہ آپ کی نظر میں کیسا ہے اور جن ظالموں نے ایسا کیا ہے ان پر کیا حکم عائد ہوتا ہے ؟ میں نے قرآن کے حوالے سے اپنا نظریہ بیان کردیا ہے مجھے آپ کے دارالعلوم کا علوم سے بھرا ہوا فتوی چاہئے ۔
ان دو اداروں کے علاوہ حنفی تحریکات میں صرف مسلم پرسنل لا بورڈ کے حنفی ذمہ دار سے میرا سوال ہے کہ اس بورڈ کے اہم ایشوز میں بابری مسجد کیس بھی ہے ۔ آپ نے اس مسجد کی تعمیر نو کے لئے قابل قدر جتن کیاہے ، آج آپ کی  تبلیغی جماعت کے دعاۃ ومبلغین نے اللہ کے گھر کو مسمار کیا ہے ، آپ کو اس کا بخوبی علم ہوگامگر ابھی  تک آپ کی خاموشی نہ صرف بورڈ پہ سوالیہ نشان ہے بلکہ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔آپ سے مسجد بنوانے کی اپیل نہیں کروں گا ، یہ اللہ کا گھر ہے ، اللہ جس سے چاہتا ہے اپنا گھر بنوالیتا ہے۔ آپ خاموش کیوں ہیں ؟ اس انہدام پہ آپ کی زبان مبارک سے آپ کا نظریہ جاننا چاہتے ہیں اور بس ۔
اہل حدیث عوام آندھرا پردیش کے لوگوں  سے میری گزارش ہے کہ جس طرح ہم پہلے صبر کے پیکر تھے آج بھی اس طرہ امتیاز کا اظہار کریں، اس حادثہ کی وجہ سے کہیں پر اشتعال انگیزی نہ کریں،ویسے بھی ملکی حالات ہمیں کسی قسم کے مظاہرے اور انتشار کی اجازت نہیں دیتے۔ البتہ یہ وقت تبلیغی جماعت کی شرانگیزی عیاں کرنے کا ہے۔ انہدام مسجد سے بڑھ کر میری نظر میں اور کوئی شرانگیزی نہیں ہوسکتی ۔ ہم اپنے زبان وقلم  سےپرامن طریقے پر تبلیغی جماعت کی شرانگیزی بیان کریں اور اپنی عوام کو بالخصوص ان کے شر سے محفوظ رہنے کی تاکید کریں ۔  اللہ ہمارا حامی وناصر ہو  ۔
مکمل تحریر >>