Tuesday, May 29, 2018

ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے، فاتحہ نہ پڑھنے، رفع یدین نہ کرنے، اجتماعی دعا کرنےاور بیس رکعت تراویح پڑھنے کا حکم

ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے، فاتحہ نہ پڑھنے، رفع یدین نہ کرنے، اجتماعی دعا کرنےاور بیس رکعت تراویح پڑھنے کا حکم

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
میرے کچھ سوالات ہیں برائے کرم تشفی بخش جواب سے نوازیں۔
1/ کوئی شخص ناف کے نیچے ہاتھ باندھتا ہوکیا اس کی نماز نہیں ہوتی ؟
2/کوئی نماز میں سورہ فاتحہ خلف الامام نہ پڑھتا ہو ؟
3/رفع یدین نہ کرتا ہو؟
4/نماز کے بعد اجتماعی دعا کرتا ہو تو کیا وہ بدعت کا مرتکب ہوتا ہے ؟
5/تراویح آٹھ کے بجائے 20 رکعات پڑھتا ہوتو کیا وہ مخالف سنت ہوگا؟
ائمہ مجتہدین نے پوری زندگی قرآن اور حدیث پر غور و فکر کے جو مسائل مستنبط کئے ہیں ان پر اگر کوئی عام آدمی عمل کرے تو یہ تقلید صحیح نہیں ہے جبکہ قرآن و حدیث کو سامنے رکھ کر جو مسائل علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ اور امام ابن القیم رحمہ اللہ اور علامہ البانی رحمہ اللہ وغیرہ نے پیش کیا ہے ان کے مسائل کو فالو کرنے کو ہی اہل حدیث کہا جائے گا؟ اور یہ لوگ غیر مقلد کہلائے جاینگے؟
مولانا مقبول احمد سلفی حفظہ اللہ (مقیم طائف) کی تحریروں سے بندہ مستفید ہوتے رہتا ہے مجھے امید ہے کہ میری الجھن کو دور کرینگے۔ مہربانی ہوگی ۔
سائل : محمد رباح

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
الحمد للہ رب العالمین !
سب سے پہلے آپ کی راحت وسکون کے لئے اللہ سبحانہ وتعالی سے خصوصی دعا کرتا ہوں اور پابندی کے ساتھ سنت نبی ﷺ کے مطابق عبادت کرنے کی سعادت مانگتا ہوں ۔
اوپر جتنے بھی  سوالات کئے گئے ہیں ان تمام مسائل پر برصغیر میں اس قدر لکھا گیا ہے کہ مزید لکھنے کی گنجائش نہیں رہی ۔ یہاں آپ کو مذکورہ مسائل پہ الجھن درپیش ہے اسے آپ رفع کرنا چاہتے ہیں تاکہ عبادت کے تئیں مطمئن ہوجائیں ۔ ناچیز آپ کو مختصر الفاظ میں یہاں جواب دینے کی کوشش کرتا ہے اس امید میں کہ آپ کا الجھن دور ہوجائے ساتھ رب تعالی سے آپ کی راحت کے لئے مزید دعاگو ہوں ۔
ایک مسلمان کے اوپر ضروری ہے کہ نبی ﷺ کی نماز کا طریقہ معلوم کرےتاکہ صحیح سے نماز پڑھ سکے جیسے بدوی صحابی  نے نماز ادا کرلی تھی پھر بھی  نبی ﷺ نے دو یا تین مرتبہ کہا کہ پھر سے نماز پڑھو، پھر سے نماز پڑھو، تم نے نماز نہیں پڑھی ہے تو انہوں نے کہا کہ اسے اللہ کے رسول مجھے دکھادیجئے اور تعلیم دے دیجیے کہ کیسے نماز پڑھی جاتی ہے تو آپ نے اس طرح وضو کرنے کا حکم دیا جس طرح اللہ تعالی نے حکم دیا ہے پھر نماز کی تعلیم دی اس میں یہ بھی  فرمایا:
فإن كان معك قرآنٌ فاقرأْ به وإلَّا فاحمدِ اللَّهَ وكَبِّرْه وهلِّلْه(صحيح أبي داود:861)
ترجمہ: اوراگرتمہیں کچھ قرآن یادہو تو اسے پڑھو ورنہ الحمد لله، الله أكبر اور لا إله إلا الله کہو۔
بطور خاص یہ ٹکڑا ذکر کرنے کا میرا مقصد یہ ہے کہ جسے نماز کی دعائیں اور قرآن یاد نہ ہو وہ اپنی نماز میں الحمد للہ ، اللہ اکبر اور لاالہ الااللہ پڑھا کرے اور جتنی جلد ممکن ہو دعائیں اور قرآن کی کچھ سورتیں یاد کرلے ۔
اس واقعہ  میں اس طرح بھی الفاظ وارد ہیں :
لا تتمُّ صلاةُ أحدِكم حتَّى يفعلَ ذلِكَ(صحيح أبي داود:858)
ترجمہ: کسی شخص کی نماز کامل نہیں ہو سکتی ، حتیٰ کہ ایسے ہی کرے ۔
اس سے ہمیں معلوم ہوگیا کہ مسلمان کو عبادت کرنے سے پہلے وضو کرنے کا طریقہ اور نماز پڑھنے کا طریقہ معلوم کرنا چاہئے تاکہ وہ نبی ﷺ کے طریقہ پر عبادت انجام دے اور اسی کا آپ نے حکم دیا ہے ۔فرمان نبوی ہے :
صَلُّوا كما رأيتُموني أُصَلِّي(صحيح البخاري:6008)
ترجمہ: تم لوگ اسی طرح نماز پڑھو جس طرح مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو۔
اور کوئی بھی عمل اس وقت تک قبول نہ ہوگا جب تک اس میں اخلاص نہ پایا جاتا ہو اور وہ سنت کے مطابق نہ ہو۔ اگر کوئی ایسا آدمی ہے جو مذکورہ اعمال انجام دیتا ہے وہ سنت کی مخالفت کرتا ہے ، اس کی عبادت میں سنت کی مطابقت نہیں ہے اور اوپر بخاری کی حدیث گزر گئی کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی طرح عبادت کرنے کا حکم دیا ہے ۔
ہاں اگر کوئی مسلمان ایسا ان پڑھ ہے جس نے سستی میں نماز کی تعلیم نہیں لی تھی اسے نہیں معلوم کہ نبی ﷺ کی سنت سینے پر ہاتھ باندھنا ہے، اسے نہیں معلوم کہ امام کے پیچھے فاتحہ پڑھی جاتی ہے ، اسے رفع یدین کا مسنون ہونا بھی معلوم نہیں ہے ، یہ بھی معلوم نہیں نماز کے بعد اجتماعی دعا کرنا رسول اللہ ﷺ کا عمل نہیں ہے اور نبی ﷺ کے قیام اللیل کی رکعات سے بھی ناواقف ہے یعنی مذکورہ سارے اعمال لاعلمی میں انجام دیا ہو تو ایسے کام کو اللہ معاف کردیتا ہے ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے :
إنَّ اللَّهَ وضَعَ عن أمَّتي الخطَأَ والنِّسيانَ وما استُكرِهوا عليهِ(صحيح ابن ماجه:1677)
ترجمہ: اللہ تعالی نے میری امت سے (انجانے میں ہونے والی) غلطی ، بھول چوک اور زورزبردستی کے نتیجہ میں ہونے والے خلاف شرع کاموں کو معاف کردیاہے۔
لاعلمی میں سنت کی مخالفت میں جو کام کرلیا کرلیا ، اب اللہ کی طرف رجوع کرے، عبادت کا مسنون طریقہ معلوم کرے اور سنت کے مطابق عمل کرے ۔ اس میں بھلائی ، عمل کی قبولیت اور دارین میں کامیابی کا سبب ہے ۔
ایک مرحلہ ایسا بھی ہے کہ آدمی کو نبی ﷺ کی سنت معلوم بھی ہوتی ہے مگر عمدا اس پر عمل نہیں کرتا اس کے کئی وجوہات ہوسکتے ہیں ۔ ممکن ہے مسلکی تعصب ہو، یا سماجی خوف ہو ۔ ان دو صورتوں میں بھی وہ سنت کا مخالف ہے ۔ دین کے لئے نہ تومسلکی تعصب کی گنجائش ہے اور عمل کی خاطر سے لوگوں سے ڈرنے کی ضرورت ہے ۔ اگر جان کا خطرہ ہوتو اس مجبوری میں کوئی حرج نہیں ہے۔
جہاں تک تقلید ، مقلد اور غیرمقلد کا معاملہ ہے تو یہ دین میں سے نہیں ہے ، دین میں اتباع ہے اور وہ اللہ کی اور اس کے رسول کی بس ۔ ائمہ اربعہ نے دین میں جو اجتہاد کیا وہ قابل قدر ہے اس پر اللہ کی جانب سے انہیں اجر ملے گا ، ہم ان  سے محبت کرتے ہیں اوران کے اجتہاد سے فائدہ بھی اٹھاتے ہیں مگر ان ائمہ کی کسی بات کو بغیر دلیل کے ماننا تقلید ہے جبکہ ہمیں اتباع کرنا ہے یعنی دلیل کی پیروی کرنی ہے ۔ ائمہ اربعہ کی وہ بات جو دلیل سے ثابت ہے یا علامہ ابن تیمیہ ، علامہ ابن القیم ، علامہ البانی رحمہم اللہ کی وہ بات جس کی قرآن وحدیث سے دلیل ہو ہم تسلیم کریں گے دراصل یہی اتباع رسول ہے اور ان کی وہ بات جو سنت کے مخالف ہو یا بے دلیل ہو چھوڑ دیں گے ، یہ بھی اتباع رسول کا ہی تقاضہ ہے جو ائمہ اربعہ اور دیگر کبار اہل علم کے اقوال سے بھی معلوم ہوتا ہے۔
واللہ اعلم 
کتبہ 
مقبول احمد سلفی 

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔