Sunday, October 15, 2017

واٹس ایپ گروپ اسلامیات کے چند اہم سوالات اور کتاب وسنت پر مبنی جوابات

واٹس ایپ گروپ اسلامیات کے چند اہم سوالات اور کتاب وسنت پر مبنی جوابات

جواب : از شیخ مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹر، شمالی طائف (مسرہ)

آج سے تین سال پہلے واٹس ایپ پہ "اسلامیات" نام سے میں نے ایک گروپ تشکیل دیا گیا تھا کیا خبر تھی یہ اپنی مثال آپ ہوجائے گااور اس گروپ کے برگ وبار پوری دنیا میں پھیل جائیں گے؟ ۔ میری جتنی تحریر، مسائل، تجزیہ  اور مضامین سوشل میڈیا پہ گردش میں ہیں اوربرصغیرہندوپاک کے اخباروں، جرائدومجلات کی آئے روز زینت بنتے رہتے ہیں وہ واٹس ایپ گروپ اسلامیات کی مرہون منت ہے ۔ اس گروپ کے اکثر ممبران تین سالوں سے جڑے ہوئے ہیں کوئی اس سے کبھی نہیں نکلتا ،یہی وجہ ہے کہ اس کے دور رس نتائج سامنے آئے ۔ اس گروپ کے تمام ممبران کا صمیم قلب سے مشکور وممنون ہوں اورسوشل میڈیا پہ کسی بھی حیثیت سے مجھ سے جڑے تمام بھائیوں کا  اللہ کے شکریہ کے بعددل کی  گہرائیوں سے شکریہ ادا کرتا ہوں ۔ یوں تو ہمیشہ اس گروپ کے تمام سوالات وجوابات ،دینی احکام ومسائل اور مضامین ومقالات سوشل میڈیا پہ نشر کئے جاتے ہیں آج چند دنوں کے چند اہم سوالات میرے پاس جمع ہوگئے تھے تو ان کا جواب قارئین تک افادہ کے لئے پہنچایا جارہاہے اس دعاکے ساتھ کہ اللہ تعالی ہمیں کتاب وسنت کی تعلیمات  عام کرنےکی توفیق دے ، یقین جانئے کتاب وسنت کی صحیح تعلیم سے ہی لوگ تقلید شخصی، بزرگ پرستی  اور بندوں کی عبادت سے نکل کر اللہ کی عبادت کی طرف آئیں گے ۔
سوال (1): غیر مسلم کی دعا میں آمین کہنا کیسا ہے ؟
جواب : یہاں ایک سوال کا مزید جواب جان لینا ضروری ہے کہ کیا اللہ کافر کی دعا قبول کرتا ہے ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالی اپنے تمام بندوں کی دعا قبول کرتا ہے خواہ مسلم ہو یا کافر ہے جیساکہ اس آیت میں ذکر ہے ۔ اللہ کا فرمان ہے : وَإِذَا مَسَّكُمُ الضُّرُّ فِي الْبَحْرِ ضَلَّ مَنْ تَدْعُونَ إِلَّا إِيَّاهُ فَلَمَّا نَجَّاكُمْ إِلَى الْبَرِّ أَعْرَضْتُمْ وَكَانَ الْإِنْسَانُ كَفُورًا (الاسراء:67)
ترجمہ:اور سمندروں میں مصیبت پہنچتے ہی جنہیں تم پکارتے تھے سب گم ہو جاتے ہیں صرف وہی اللہ باقی رہ جاتا ہے پھر جب وہ تمہیں خشکی کی طرف بچا لاتا ہے تو تم منہ پھیر لیتے ہو اور انسان بڑا ہی ناشکرا ہے ۔
اس آیت سے معلوم ہوا کہ جب مشرکین کو سمندر میں پریشانی لاحق ہوتی تو بتوں کو بھول جاتے اور اللہ سے دعا کرتے تو اللہ ان کی دعا قبول لیتا اور جب سمندر سے بچ نکل کر خشکی میں جاتے تو پھر سے اللہ کو بھول جاتے ۔ جب اللہ تعالی کافر کی دعا قبول کرتا ہے تو اس کی دعا پر آمین کہنے میں کوئی حرج نہیں ہے مگر یاد رہے کہ کفر اور شرک والی دعا میں آمین نہیں کہنا ہے بلکہ جو مناسب اور جائز دعائیں ہیں انہیں پرآمین کہہ سکتے ہیں ۔  
سوال(2): لاعلمی میں بڑے جانور میں عقیقہ کردیا کیا گیااب دوبارہ عقیقہ کرنا پڑے گا؟
جواب : نہیں ، کیونکہ بعض اہل علم نے بڑے جانور میں بھی عقیقہ کرنے کو جائز کہا ہے البتہ بہتر وافضل یہی ہے  کہ عقیقہ کے جانور میں مسنون طریقہ اختیار کیا جائے وہ یہ ہے کہ لڑکا کی طرف سے دو اور لڑکی کی طرف سے ایک چھوٹا جانور ذبح کیا جائے ۔
سوال (3): صلاۃ التبسیح کا طریقہ بتلائیں ۔
جواب : یہاں سوال یہ ہونا چاہئے کہ صلاۃ التسبیح کا حکم کیا ہے ؟ اگر حکما یہ نماز درست ثابت ہوتی ہے تب اس نماز کا طریقہ جاننے کی ضرورت ہے ۔ لہذا میں یہاں طریقہ نہیں اس کی نماز کی شرعی حیثیت بتلا رہاہوں۔
نماز تسبیح کے متعلق علماء کا اختلاف ہے ، بعض نے جائز کہا ہے اور بعض نے ناجائز کہا ہے ۔ اس اختلاف کی وجہ تسبیح سے متعلق وارد روایات میں صحت وضعف کا اختلاف ہے ۔ جو تسبیح والی روایت کو صحیح قرار دیتے ہیں وہ جائز کہتے اور جو ضعیف قرار دیتے وہ ناجائز کہتے ہیں ۔ شیخ محمد صالح العثیمین رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
وقد اختلف الناس في صلاة التسبيح في صحة حديثها والعمل به:فمنهم من صحَّحه، ومنهم من حسَّنه، ومنهم من ضعَّفه ومنهم من جعله في الموضوعات، وقد ذكر "ابن الجوزي" أحاديث صلاة التسبيح وطرقها وضعَّفها كلها، وبين ضعفها وذكره في كتابه الموضوعات.(مجموع فتاوى ورسائل الشيخ محمد صالح العثيمين - المجلد الرابع عشر - باب صلاة التطوع)
ترجمہ: اور لوگوں نے نماز تسبیح والی حدیث کی صحت اور اس پر عمل کرنے کے متعلق اختلاف کیا ہے ۔ ان میں سے بعض نے اسے صحیح کہاہے ، بعض نے حسن قرار دیا ہے، بعض نے ضعیف کہا ہے اور بعض نے اس حدیث کو موضوعات میں شمار کیا ہے ۔ ابن الجوزی نے تسبیح والی نماز کی احادیث اور ان کے طرق کو جمع کیا ہے اور تمام کی تمام کو ضعیف قرار دیا ہے اور انہیں اپنی کتاب "الموضوعات" میں ذکر کیا ہے ۔راحج یہی معلوم ہوتا ہے کہ نماز تسبیح والی احادیث ضعیف ہونے کی وجہ سے اس پر عمل نہیں کرنا چاہئے ۔
سوال (4): میں نے اپنی بیٹی کا عقیقہ غیردانتا جانور میں کیا اور اب میری بیٹی نو سال کی ہوگئی ہے کیا اس کی طرف سے دوبارہ عقیقہ کرنا ہوگا؟
 جواب : عقیقہ کے جانور کے لئے دانتا ہونے کی شرط نہیں ہے اگر تندست ،صحیح سالم جانور غیر دانتا بھی ہو تو اس کو عقیقہ کے طور پر ذبح کرسکتے ہیں لہذا آپ کو دوبارہ عقیقہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔
سوال(5): نومولود کے کان میں اذان دینے کی شرعی حیثیت کیا ہے ؟
جواب :  نومولود کے کان میں پیدائش کے وقت اذان دینا مشروع ہے ۔ ترمذی میں ہے۔
عن عبيد الله بن أبي رافع عن أبيه قال رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم أذن في أذن الحسن بن علي حين ولدته فاطمة بالصلاة(سنن الترمذي: 1514)
ترجمہ:ابو رافع رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ جب حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نےحضرت  حسن جنم دیا  تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے کان میں نماز کی طرح اذان دی ۔
اس حدیث کو ترمذی نے حسن صحیح کہا ہے اور پھر آگے لکھتے ہیں "العمل علیہ" یعنی اس حدیث پر مسلمانوں کا عمل ہے ۔ ایک طرح سے امام ترمذی اپنے اس قول کے ذریعہ یہ بتلانا چاہتے ہیں کہ اس پہ اہل علم کا اجماع ہے یا تمام مسلمانوں کا اس پر عمل واتفاق ہے ۔ اس قول کے تناظر میں شیخ زیبر علی زئی رحمہ اللہ نے بھی  لکھاہے کہ اذان پر مسلمانوں کا اجماع معلوم ہوتا ہے۔شارح الترمذی  علامہ مبارک پوری رحمہ اللہ نے کہا  کہ امام ترمذی کاقول" العمل علیہ" کا مطلب ہے کہ پیدائش کے بعد نومولود کے کان میں اذان دینے کے سلسلے میں ابورافع کی حدیث پر مسلمانوں کا عمل ہے ۔مزید آگے لکھتے ہیں کہ اگر آپ کہیں گے کہ کیسے اس پر مسلمانوں کا عمل ہے جبکہ یہ ضعیف ہے اس کی سند میں عاصم بن عبیداللہ ہے جیساکہ آپ نے جانا تو میں کہوں گا کہ ہاں وہ ضعیف ہے لیکن اسے حسین بن علی رضی اللہ عنہماکی حدیث سے تقویت ملتی ہے جسے ابویعلی موصلی اور ابن السنی نے روایت کیا ہے ۔ خلاصہ یہ کہ مبارک پوری صاحب کا بھی رجحان نولود کے کان میں اذان دینے کی طرف ہے ۔ معلوم ہوا کہ بچے کی پیدائش پر اس کے دائیں کان میں اذان دینا چاہئے لیکن اگر کوئی نہیں دیتا ہے تو کوئی حرج بھی نہیں ہے یہی بات شیخ ابن باز رحمہ اللہ نے بھی کہی ہے کہ نولود کے کان میں اذان دینا تمام اہل علم کے نزدیک مشروع ہے اگر کوئی  اس پر عمل کرتا ہے جیساکہ اس سے متعلق احادیث وارد ہیں اور  ایک دوسرے کو تقویت پہچاتی ہیں تو اچھی بات ہے اور اگر کوئی چھوڑ دیتا ہے تو کوئی حرج نہیں ہے۔ 
سوال (6): دیوالی کے موقع پر غیر مسلم کی طرف سے دی جانے والی مٹھائی کھا سکتے ہیں کہ نہیں ؟
جواب : یہ بات اپنی جگہ مبنی بر حقیقت ہے کہ کفاراپنے تہوار پہ اکثر غیراللہ کی عبادت بجالاتے ہیں ، ہم مسلمانوں کو ان کے کسی ایسے تہوار پر تعاون نہیں پیش کرنا چاہئے جس میں غیراللہ کی عبادت کی جاتی ہے ۔ ساتھ ہی یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بطور پڑوسی ،میل جول اور انسانی رواداری کے اگر کوئی  غیرمسلم ایساہدیہ پیش کرے جوغیراللہ پہ نہ چڑھایاگیا ہواور نہ ہی وہ ہدیہ شرعا حرام ہو تو اس کے قبول کرنے میں میری نظر سے کوئی قباحت نہیں ہے ۔ یہ احسان وسلوک کے درجہ میں ہوگا اور اس کا حکم عام ہدیہ کی طرح ہوگا جس کی قبولیت کا ثبوت ملتا ہے البتہ جومٹھائیاں مسلمانوں کی تضحیک ورسوائی ، ان کو نیچا دکھانے ، یا کسی طرح اپنی برتری ثابت کرنے کے لئے تقسیم کرے تو اسے قبول نہیں کیاجائے ، اس میں سراسراسلام اور مسلمانوں کی توہین ہے۔ اس پہ مفصل مضمون پڑھنے کے لئے میرے بلاگ" مقبول احمد ڈاٹ بلاگ اسپاٹ ڈاٹ کام" پر تشریف لائیں۔  
سوال(7): کیا ملتزم یعنی کعبہ کا دروازہ پکڑ کر دعا کرنا ثابت ہے ؟
جواب :  ملتزم کعبہ کے دروازہ کو نہیں کہتے ہیں بلکہ ملتزم کہتے ہیں کعبہ کے دروازہ اور حجر اسود کی درمیانی جگہ کو ۔ اس جگہ پہ نبی ﷺ سے دعا کرنا کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہے البتہ بعض صحابہ کرام سے ثابت ہے ۔ اگر کوئی ملتزم میں دعا کرنا چاہے تو کرسکتا مگر یاد رہے اس جگہ کی کوئی مخصوص دعا نہیں ہے ۔ 
سوال (8): غار حراء میں نماز پڑھنے کا ثبوت ہے ؟
جواب :  غار حراء کی طرف جانا کوئی سنت نہیں ہے اور نہ ہی اس پر چڑھنا کوئی ثواب کا کام ہے ۔ یہ صحیح ہے کہ نبی ﷺ نبوت سے پہلے یہاں آتے اور عبادت کیا کرتے تھے مگر یہ نبوت سے پہلے کی بات ہے ۔اب اگر کوئی وہاں عبادت یا اجر وثواب کی نیت سے آتاہے تو یہ دین میں نئی ایجاد ہے جسے بدعت وگمراہی کہی جائے گی ۔ ہاں کوئی یونہی دیکھنے کی غرض سے آئے تو کوئی حرج نہیں ہے ۔ 
سوال(9): کیا رکوع ملنے سے رکعت ہوجاتی ہے ؟
جواب :  یہ مسئلہ اہل علم کے درمیان  جواز وعدم  جوازسے متعلق کافی اختلافی ہے ، دونوں طرف دلائل ہیں ۔یہ جگہ تفصیل کی نہیں ہے مختصرا یہ کہوں گا کہ مدرک رکوع یعنی رکوع میں شامل ہونے والا اپنی رکعت لوٹا لے یہ قوی مسلک ہے ، امیرالمومنین فی الحدیث امام بخاری جیسے جلیل القدر محدث کا یہی موقف ہے۔
سوال (10) : پانچ چیزیں کھانے سے حافظہ تیز ہوتا ہے.مٹھاس کھانے سے،جانور کی گردن کے قریب کا گوشت کھانے سے،مسورکی دال کھانے سے،ٹھنڈی روٹی کھانے سے،آیت الکرسی پڑھنے سے۔ کیا یہ حدیث صحیح ہے؟
جواب : اس قسم کی کوئی صحیح روایت مجھے نہیں ملی دیلمی نے مسند الفردوس میں یہ روایت نقل کی ہے ۔
خمس يذهبن بالنسيان ويزدن في الحفظ ويذهبن البلغم السواك والصيام وقراءة القرآن والعسل واللبان .( الفردوس:2 / 197)
ترجمہ: پانچ چیزیں نسیان کو ختم کرتی ہیں ، حافظہ میں تیزی لاتی ہیں اور بلغم کو دور کرتی ہیں ، وہ ہیں مسواک کرنا، روزہ رکھنا، قرآن کی تلاوت کرنا شہد اور لبان استعمال کرنا۔
اس روایت کی کوئی حقیقت نہیں ہے ، حضرت علی سے مروی ایک یہ روایت ہے ۔
ثلاثةٌ يَزْدِنَ في الحفظ ويُذهِبْن البلغم ، اللُبانُ، والسواكُ ، وقراءةُ القرآن.
ترجمہ: تین چیزیں حافظہ مضبوط اور بلغم دور کرتی ہیں ۔ لبان ، مسواک اور تلاوت قرآن۔
یہ سب روایات کثیر تعداد میں شیعہ کی کتابوں میں درج ہیں ممکن ہے سوال میں مذکور بات بھی شیعہ کتاب سے ہی ہو یا بے اصل روایتوں میں سےلیکن نبی ﷺ کے ثابت  فرامین میں سے نہیں ہے۔
سوال(11): ایک عیسائی نے اسلام قبول کیا ہے اب ان کےلئے کیسی دعا کرنی چاہئے؟
جواب : الحمد لله ، اللہ کی طرف سے اس نئے بھائی کے لئے بڑا فضل ہے کہ اسے ہدایت نصیب ہوئی ۔ اس پہ اللہ کا شکر بجا لانا چاہئے۔
اسے ہدایت مل گئی , ایک انسان کے لئے سب بڑی کامیابی یہی ہے ،اب اس کے لئے استقامت کی کثرت سے دعا کرنی چاہے تاکہ وہ دین اسلام پر ثابت قدم رہے نیز اسے اسلام کی بنیادی تعلیم سے بھی آگاہ کرنے کی ضرورت ہے ۔ اولا طہارت، غسل ، وضو اور نماز وغیرہ پھر ارکان اسلام ، ارکان ایمان وغیرہ
اللہ تعالی اسے دین اسلام پر ثابت قدم رکھے۔ آمین یارب العالمین
سوال (12): میں نے اللہ کے لئے نذر مانی تھی کہ میری بھابھی کو اگر بیٹا ہوگا تو دس روزہ رکھوں گا مگر بیٹی پیدا ہوئی تو کیا روزہ رکھنا ہے ؟
جواب : آپ کو کوئی روزہ نہیں رکھنا ہے کیونکہ نذر پوری نہیں ہوئی ، جب نذر پوری ہوتی تب آپ کو دس روزہ رکھنا ضروری ہوتا۔ 
سوال(13): میرے دوست لندن سے آرہے ہیں اس کے استقبال کے لئے میں طائف  سے مکہ مکرمہ آیا ہوا ہوں ۔ دوست نے راستہ میں کہیں سے احرام نہیں باندھا وہ اب جدہ آگئے ہیں  وہ کیا کرے اور میرا ارادہ پہلے عمرہ کا نہیں تھا مگر اب عمرہ کرنا چاہتا ہوں تو کہاں سے احرام باندھو؟
جواب : آپ اپنے دوست سے کہیں کہ وہ اہل طائف کی میقات قرن المنازل پہ چلے جائیں وہ سب سے قریب میقات ہے وہاں سے احرام باندھ کر آئیں پھر عمرہ کریں اور آپ مسجد عائشہ چلے جائیں وہاں سے احرام باندھ کر عمرہ کرلیں ۔
سوال(14): کیا عورت کی کمائی حرام ہے؟
جواب : اسلام میں عورت کی معاشی کفالت اس کے سر پرست کے ذمہ ہے ، نکاح سے پہلے باپ پر اور نکاح کے بعد شوہر پر، اس لئے عورت کو محنت ومزدوری کے لئے گھر سے باہر نکلنے کی ضرورت نہیں ہے لیکن عورت کسی وجہ سے کوئی جائز ذریعہ معاش اپنانا چاہے تو اسلام میں اس کی اجازت ہے تاہم کسب معاش کے لئے عورت کو اسلامی آداب بجالانا ہوگا۔ حجاب کی پاسداری، اختلاط سے اجتناب، محرم کے ساتھ سفر اور عفت وعصمت کی نگہداشت وغیرہ
جو آدمی عورت کی جائز کمائی کو حرام کہتا ہے اسے اسلام کی خبر نہیں ہے ، عہد رسول میں صحابیات صنعت وحرفت، خریدوفروخت، کاشت کاری اور کسب معاش کیا کرتی تھیں ۔ اس سلسلہ میں ایک حدیث پیش کرنا ہی کافی ہے ۔
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی بیوی صنعت وحرفت کا کام کیا کرتی تھیں اور اس کے فائدے سے گھر کا خرچ چلاتی تھی جس کی وجہ سے صدقہ کرنے کا پیسہ نہیں بچ پاتا تھا تو رسول اللہ ﷺ سےعرض کرتی ہیں :
يا رسولَ اللهِ إني امرأةٌ ذاتُ صَنْعَةٍ أبيعُ منها وليسَ لي ولا لولدي ولا لزوجي نفقةٌ غيرُها وقد شَغَلُوني عن الصدقةِ فما أستطيعُ أن أتصدقَ بشيٍء فهل لي من أجرٍ فيما أنفقتُ قال فقال لها رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ أنفقي عليهم فإنَّ لكِ في ذلكَ أجرٌ ما أنفقتِ عليهم(مجمع الزوائد:3/390وابن حبان:4247)
ترجمہ:اسے اللہ کے رسول ! میں ایک کاری گر عورت ہوں ، صنعت کا سامان بیچا کرتی ہوں ۔ میرے لئے، میرے بچوں کے لئے اور میرے شوہر کے لئے صنعت کے فائدہ کے علاوہ کوئی خرچہ نہیں ہے ۔ان لوگوں نے مجھے صدقہ سے مشغول کردیا ،میں کچھ صدقہ کرنے کی طاقت نہیں رکھتی ہوں تو کیا میں جو خرچ کرتی ہوں اس میں میرے لئے اجر ہے ؟ تو اللہ کے رسول ﷺ نے ان سے فرمایا:ان لوگوں پر خرچ کرو بےشک اس میں تمہارے لئے اجر ہے جو ان لوگوں پر خرچ کرتی ہو۔
اس کی سند کو شیخ البانی نے ارواء الغلیل شیخین کی شرط پر کہا ہے ۔ اس حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ ایک جلیل القدر صحابی کی بیوی صنعت کا پیشہ اختیار کئے ہوئے تھی،اس کے علاوہ گھر میں کوئی ذریعہ معاش نہیں ہے،صحابیہ کی کمائی سے بچوں اور شوہر کا خرچ چل رہا تھا بلکہ رسول اللہ ﷺ نےبذات خود ان پر خرچ کرنے کا حکم دیا ۔ اس حدیث سے ان لوگوں کی بھی تردید ہوجاتی ہے جو بیوی کی کمائی شوہر کے لئے جائز نہیں قرار دیتے ہیں ۔   
سوال(15): جسے پہلے معلوم نہیں تھا  اور نکاح شغار کرلیا اس کی شادی کے کئی سال گزرگئے بال بچے بھی ہیں اس کی شادی کا کیا حکم ہے ؟
جواب :  جس نے لاعلمی میں نکاح شغار کرلیااور بعد میں اس کے عدم جواز کا علم ہوا اسے چاہئے کہ اپنے نکاح کی تجدید کرلے ، اس نکاح میں ولی، مہر اور دو عادل گواہ کی بھی ضرورت ہے اس طرح میاں بیوی بری الذمہ ہوجائیں گے  اس شرط کے ساتھ کہ زوجین میں سے دونوں ایک دوسرے سے رضامند بھی ہوں۔ نیز اللہ تعالی سے گزشتہ غلطی پر توبہ بھی کرلے ۔ 
سوال(16): ایک عورت کی شادی تقریبا آٹھ سال پہلے ہوئی تھی اب اس کی نند سے اس کے بھائی کی شادی ہونی ہے کیا یہ شادی اسلام میں جائز ہے ؟
جواب : اس شادی میں کوئی حرج نہیں ہے ،  اسے نکاح شغار نہیں کہیں گے کیونکہ ایک شادی آٹھ سال پہلے بغیر کسی شرط ومعاہدہ کے ہوچکی ہے ۔ 
سوال(17): کسی غیرمسلم کے جنازے میں شریک ہونا کیسا ہے ؟
جواب : کسی کافر کی میت پہ اس کی تعزیت (استغفار جائز نہیں) کرنا جائز ہے لیکن اس کے جنازہ میں شرکت کرنا جائز نہیں ہے ۔آپ ﷺ ابوطالب کی موت پہ ان کے جنازہ میں شریک نہیں ہوئے اور نہ ہی ان کی تدفین میں جبکہ ابوطالب نے قدم قدم پہ آپ کی مدد کی تھی ۔
ممانعت کی وجہ یہ ہے کہ اسلام نے کفار سے موالات کو منع فرمایاہے اور کافر کی میت میں شرکت موالات میں سے ہے ، اس میں کافر کا احترام اور اس سے محبت کا اظہار ہے ۔ جنازہ کے پیچھے چلنا، یہ تو ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان پہ حق ہے، اسے کافروں کو کیسے دیا جاسکتاہے؟ ۔اور کافرمیت کی تعزیت کی بات اسلام کے احسان و سلوک کے تئیں ہے ۔
سوال (18):ایک عورت کو 24 تاریخ سے ماہواری شروع ہوئی ،پھر وہ یکم تاریخ کو نہاکر پاک ہوگئ۔ کئی روز کے بعد پھر سے 12 تاریخ کو خون آنے لگا کیا وہ نماز پڑھے گی ؟
جواب : عام طور سے عورت اپنے حیض کی مدت جانتی ہے یعنی اسے عادتا مہینہ میں تین دن ،چار دن یا ہفتہ دس دن ہمیشہ حیض آیا کرتا ہے ۔ہرمہینہ ان دنوں میں آنے والے خون کو عورت حیض سمجھے اور خون بند ہونے پر نہاکر پاک ہوجائے اور نماز پڑھنے لگے ۔ عادت سے ہٹ کر کچھ دنوں بعد پھر خون آنے لگے تو اسے بیماری کا خون سمجھے اورہرنماز کے لئے وضو کرکے نماز پڑھتی رہے ۔ زوجہ رسول ام سلمہ رضی اللہ عنہا کو استحاضہ کا خون کثرت سے آتا تھاانہوں نےاس خون کے متعلق نبی ﷺ سے سوال کیا تو آپ نے ان سے فرمایا: امْكُثي قدرَ ما كانت تَحْبِسُكِ حيضتكِ . ثم اغتسلي وصلي(صحيح مسلم:334)
ترجمہ: اپنی مدت حیض کے برابر تو نماز روزہ سے رکی رہ، پھر غسل کر اور نماز پڑھ۔۔
لہذا 12 تاریخ سے جو خون عادت کے خلاف آنے لگا ہے اسے حیض نہیں استخاضہ سمجھے اور نماز پڑھتی رہے لیکن یادرہے استحاضہ میں ہرنماز کے لئےوضو کرنا ہوگا۔  
سوال (19):کشف کسے کہتے ہیں اور اسلام میں کشف والہام کی کیا حقیقت ہے ؟
جواب :  دل میں خیال وتصور پیدا ہونے کو کشف کہتے ہیں ۔ اکثر اوقات شیطان کی طرف سے طرح طرح کی باتیں انسان کے دلوں میں پیدا ہوتی ہیں کیونکہ شیطان انسان کے پیچھے لگاہواہے بلکہ اس کے خون میں گردش کرتا ہے ۔ کبھی کبھی صالح بندے پر اللہ کی طرف سے کرامت کی طرح کشف والہام ہوجایاکرتا ہے اسے کشف رحمانی کہیں گے جیساکہ موسی علیہ السلام کی ماں کے دل میں اللہ نے تابوت بنانے کا الہام کیا اور اسی طرح ابوبکر صدیق نے اپنی بیوی کے متعلق حضرت عائشہ سے کہا کہ انہیں بیٹی ہوگی۔
یہاں یہ بات جان لیں کہ پیروطریقت ،صوفی اور قبرپرستوں نے کشف کے نام پہ بڑا بازار گرم کیا ہے ، آئے روز ایک سے ایک کشف ،ایک سے ایک کرامت ۔ یہ دراصل لوگوں کوانوکھی باتوں سے اپنی جانب متوجہ کرنا چاہتے ہیں اور ان میں اپنا بڑا مرتبہ بناکر تصوف وطریقت کو فروغ دینا چاہتے ہیں ، دو لفظوں میں سمجھ لیں کہ اس قسم کے اکثر کشف شیطانی ہوتے ہیں وہ لوگوں کو کشف شیطانی سے تصوف وطریقت کی طرف بلاتے ہیں ۔ اس سے ہمیں ہوشیار رہنا ہے۔ 
سوال(20): انگریزی تاریخ بارہ بجے رات کو بدلتی ہے اور کیا عربی تاریخ سورج ڈوبنے سے ہی بدل جاتی ہے ؟ نیز اگر میری بیٹی  بدھ کوگیارہ بج کر چالیس منٹ پر رات میں پیدا ہوئی تو اس دن کو بدھ شمار کرکے ساتویں دن منگل کو عقیقہ کریں یا اسے جمعرات سمجھ کر بدھ کو عقیقہ کرنا ہوگا؟
جواب :  نولود کے ساتویں دن کی تحدید میں اہل علم کا اختلاف ہے ، شریعت کی قمری تاریخ اور اس کے اصول سے مجھے جو معلوم ہوتا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ سورج ڈوبنے سے دن بدل جاتا ہے جس طرح سوال میں مذکور بدھ کی رات ،اسے عربی زبان میں قمری تاریخ کی روشنی میں جمرات کی رات کہا جاتا ہے گویا بچے کی پیدائش  کا دن جمعرات مانا جائےگااور جمعرات سے شمار کرکے ساتویں دن بدھ کو عقیقہ کیا جائے گا۔  میں نے یہاں اختلافی بات ذکر نہیں کی ہے مثلا کسی نے ولادت کا دن شمار نہیں کیا ہے ، کسی نے زوال کا قاعدہ بیان کیا ہے ، کسی نے فجر سے پہلے اور بعد کا قاعدہ بیان کیا ہے اور کسی نے رات کی ولادت کو شمار نہیں کیا ہے مگر میں نے یہاں ہجری تاریخ کا جو اسلامی اصول ہے وہ بیان کیا ہے ۔ 
سوال (21): کیا اسلام میں کافی حلال ہے اطباء اس کے بہت فوائد بیان کرتے ہیں ؟
جواب : کھانے پینے کی چیزوں میں اصل حلت ہے یعنی ساری چیزیں حلال ہیں سوائے ان چیزوں کے جن کے بارے میں اسلام نے کھانے سے منع کردیا ۔ اور اسی طرح کھانے پینے کی چیزوں میں اسلام کا ایک قاعدہ یہ ہے کہ اس میں جسمانی نقصان نہ ہو۔ کافی پینا حلال ہے واقعی اطباء اس کے بڑے فوائد بیان کرتے ہیں لیکن اگر اس کا استعمال زیادہ کیا جائے تو نقصان دہ بھی ہے اس لئے صحت کی حفاظت کے لئے کبھی کبھار استعمال کیا جائے تو بہتر ہے ۔ ویسے چائے میں بھی فوائد اور نقصانات دونوں ہیں مگر اس کا استعمال اپنی جگہ  درست ہے ۔ صحت کی حفاظت کے لئے چائے کا بھی استعمال کم ہو تو بہتر ہے۔ 
سوال (22): عورتوں کے درمیان ایک عالمہ ہفتہ واری درس کیا کرتی ہیں کچھ لوگ اسے بدعت کہتے ہیں آپ سے اس کی حقیقت جاننی ہے۔
جواب : دینی پروگرام ہفتہ واری ہو، ماہانہ ہو یا سالانہ درست ہے بدعت کہنے والے کے پاس حقد وکینہ کے سواکچھ نہیں ہے ۔جس طرح دینی پروگرام منعقد کرنا مردوں کے لئے جائز ہے اسی طرح عورتوں کے لئے بھی لئے جائز ہے تاہم خواتین کے دروس وبیانات کے لئے اسلامی احکام کو بروئے کار لاناضروری ہے ویسے بھی یہ دور پرفتن ہے ، شیطان اور اہل شروفساد  گھات لگائے بیٹھے ہیں جیسے موقع ملتا ہے لوگوں کو بڑے بڑے گناہ میں ملوث کردیتا ہے ۔ جہاں عورتوں کا پروگرام ہو وہاں پردے کا معقول انتظام ہو، مردوں کا کوئی گزرنہ ہو، عورتوں کی آواز اندر تک ہی محدود رہے ، پروگرام کے ذمہ دار وانتظام سب عورتوں کے ہاتھ میں ہو اور فتنہ وفساد کے ذرائع سے بچاؤ ہو۔ 
سوال (23): میں اکثر مدینہ کی زیارت کے لئے جایا کرتا ہوں تو میرے رشتہ دار جو سعودی میں ہیں یا اپنے ملک میں وہ مجھ روضہ رسول پہ سلام کہنے کو کہتے ہیں اسلام میں اس کی کیا حیثیت ہے؟
جواب : ایسا کام غیر مسنون اور غیر مشروع ہے ۔ اس کا ثبوت قرآن و حدیث میں کہیں نہیں ملتا ۔ سلام تو ایسی چیز ہے کہ کوئی کہیں سے بھی نبی ﷺ کو سلام کرسکتا ہے اور ہم کم ازکم پانچ بار نماز میں نبی ﷺ پر درود وسلام بھیجتے ہی ہیں پھر دوسروں کے ہاتھوں بھیجنے کی کیا ضرورت؟
شاید ایسے لوگوں کو نبی پاک ﷺ کے اس فرمان پہ یقین نہیں ہے :
لا تجعلوا بيوتكم قبوراً ، ولا تجعلوا قبري عيداً ، وصلُّوا عليَّ فإن صلاتكم تبلغني حيث كنتم (صحيح أبي داود:2042)
ترجمہ :تم اپنے گھروں كو قبريں مت بناؤ اور ميرى قبر كو ميلہ گاہ نہ بناؤ، اور مجھ پر درود بھيجا كرو كيونكہ تم جہاں بھى ہو تمہارا درود مجھ تك پہنچ جاتا ہے۔
قبر پہ جاکے سلام پیش کرنے کے متعلق ایک موضوع روایت پیش کی جاتی ہےکہ "جو انسان میری قبر کے پاس کھڑا ہو کرمجھ پر درود وسلام پڑھتا ہے اسےمیں خود سنتا ہوں اور جو میری قبر سے دور رہ کر درود پڑھتا ہے وہ مجھے پہنچایا جاتا ہے۔"
٭محدثین کے فیصلہ کے مطابق یہ حدیث خود ساختہ اور موضوع ہے۔ (سلسلہ الاحادیث الموضوعۃ :نمبر۲۰۳)
اس لئے یہ موضوع روایت ہمارے لئے حجت ودلیل نہیں بنے گی ۔


0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔