Sunday, April 30, 2017

شادی میں گاؤں والوں کا لڑکی کے گھروالوں کو پیسہ دینا

شادی میں گاؤں والوں کا لڑکی کے گھروالوں کو پیسہ دینا

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
پاکستان میں شادی بیاہ کے موقع پر ایک رواج ہے کہ جو مہمان  کسی کے یہاں شادی میں شریک ہوتے ہیں وہ دعوت کھانے کے بعد  پیسے دیتے ہیں اور جس کے گھر میں شادی ہوتی ہے ان کے افراد میں سے کوئی ساتھ ساتھ لکھتا جاتا ہے کہ فلاں نے اتنے پیسے دئے فلاں نے اتنے دئے بطور یادگار۔جب دوسرے کے یہاں شادی ہوتی ہے  تو یہی پیسے اتنی مقدار میں یا اس سے زیادہ لوٹائے جاتے ہیں اس کا شرعا کیا حکم ہے ؟
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

الحمد للہ :
یہ اصل میں سماجی  رسم کے طور پر ہے، اس کے پیچھے لڑکی والوں کے ساتھ ہمدردی ہے ۔ چونکہ بیٹی کی شادی بہت خرچیلی ہے اس وجہ سےاکثر گاؤں دیہات میں بہت پہلے سے یہ رسم چلی آرہی ہے کہ اپنی اپنی حیثیت کے مطابق لڑکی کے گھر دعوت کھانے کے بعد لوگ مالی تعاون کرتے ہیں ۔ یہ تعاون محض گاؤں والوں کی طرف سے ہی نہیں ہوتا بلکہ لڑکی کے جتنے رشتے دار شادی میں شامل ہوتے ہیں وہ بھی اناج ،سامان ، کپڑے اور پیسوں سے مدد کرتے ہیں ۔ اس رسم کے اندر اس معنی میں کوئی قباحت نہیں ہے کہ شادی کے موقع سے لڑکی کے گھر والوں کی مدد کی جائے لیکن اس رسم کے ساتھ مزید کچھ پہلو بھی ہیں جو سماج کے لئے باعث فساد ہیں ۔
پیسے دینے والوں کا رکارڈ یاد رکھنا اوراپنی اپنی  شادی میں اس سے زیادہ ملنے کی امید رکھنا اور جو کم دے یا نہ دے اس سے دشمنی مول لینا بلکہ بسا اوقات آپسی مقاطعہ تک کی نوبت آجاتی ہے یہ سماج کا فساد اور زہر ہے ۔اس لئے اس حیثیت کی رسم کا خاتمہ کرنا ضرور ی ہے تاکہ ہمدردی کے نام پر دشمنی وفساد کو بڑھاوا نہ ملے ۔ ہاں اگر کسی کوایسے موقع سے  مدد کرنی ہو تو اس طرح مدد کرے کہ کسی دوسرے کو اس کے تعاون کی خبر نہ لگے کیونکہ عام طور سے شادی کے بعد لوگوں میں اس پیسے کا چرچا ہوتا ہے ، لوگوں کی غیبت کی جاتی ہے اور جس نے زیادہ دیا اس کے نام کا شہرہ ہوتا ہے ۔ اسلام میں کسی کی غیبت کرنا بڑا جرم ہے اور بڑاتعاون کرکے شہرت حاصل کرنایہ بھی ریاکاری والا بڑا جرم ہے ۔ پیسہ نہ دنیے والے  کو مجرم ہی سمجھا جاتا ہے حالانکہ ممکن ہے اس کے پاس پیسے نہ ہوں ، کم دینے والے کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہوسکتا ہے ۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ جس کے یہاں شادی ہورہی ہے اگر وہ زکوۃ کا مستحق ہے تو گاؤں والوں میں سے وہ لوگ جوصاحب نصاب ہیں وہ زکوۃ کی رقم سے مدد کریں اور لڑکی کے گھر والے مالدار ہیں  تو انہیں پیسے دینے کی ضرورت ہی نہیں البتہ اسلامی شکل میں ہدیہ تحفہ لے کر جائے تو کوئی حرج کی بات نہیں لیکن کچھ لوگ زکوۃ کے مستحق تو نہیں ہوتے تاہم  ایسے موقع سے کچھ  مالی امداد کی ضرورت ہوتی ہے  اس لئے ایسے لوگوں کی  بطور احسان امداد  کی جائے تو چپکے سے اور اپنی شادی میں اس مال کے لوٹائے جانے کی امید بھی  نہ کی جائے ۔
واللہ اعلم
کتبہ

مقبول احمد سلفی 
مکمل تحریر >>

Friday, April 28, 2017

ماہ شعبان حقیقت کے آئینے میں

ماہ شعبان حقیقت کے آئینے میں

مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹر- طائف

ماہ شعبان بطور خاص اس کی پندرہویں تاریخ سے متعلق امت  مسلمہ میں بہت سی گمراہیاں پائی جاتی ہیں اس مختصر سے مضمون میں اس ماہ کی اصل حقیقت سے روشناس  کرانا چاہتا ہوں تاکہ جو لوگ صحیح دین کو سمجھنا چاہتے ہیں ان پر اس کی حقیقت واضح ہوسکے ،ساتھ ساتھ جو لوگ جانے انجانے بدعات وخرافات کے شکار ہیں ان پر حجت پیش کرکے شعبان کی اصل حقیقت پر انہیں بھی مطلع کیا جاسکے ۔ 
مندرجہ ذیل سطور میں شعبان کے حقائق  کو دس نکات میں واشگاف کرنے  کی کوشش کروں گا ،ان نکات کے ذریعہ اختصار کے ساتھ تقریبا سارے پہلو اجاگر ہوجائیں گے اور ایک عام قاری کو بھی اس ماہ کی اصل حقیقت کا اندازہ لگانا آسان ہوجائے گا۔
پہلا نکتہ :ماہ  شعبان کی فضیلت
شعبان روزہ کی وجہ سے  فضیلت وامتیاز والا مہینہ ہے ، اس ماہ میں کثرت سے روزہ رکھنے پر متعددصحیح  احادیث مروی ہیں جن میں بخاری ومسلم کی روایات بھی ہیں ۔بخاری شریف میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت ہے :
أن عائشةَ رضي الله عنها حدَّثَتْه قالتْ : لم يكنِ النبيُّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم يصومُ شهرًا أكثرَ من شَعبانَ، فإنه كان يصومُ شعبانَ كلَّه(صحيح البخاري:1970)
ترجمہ: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی ﷺ شعبان سے زیادہ کسی مہینے میں روزہ نہیں رکھا کرتے تھے ، آپ ﷺ شعبان کے مہینے کا تقریبا پورا روزہ رکھا کرتے تھے ۔
اور مسلم شریف میں امِ سلمہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے:
سألتُ عائشةَ رضي اللهُ عنها عن صيامِ رسولِ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ فقالت : كان يصومُ حتى نقول : قد صام . ويفطر حتى نقول : قد أفطر . ولم أرَه صائمًا من شهرٍ قطُّ أكثرَ من صيامِه من شعبانَ . كان يصومُ شعبانَ كلَّه . كان يصومُ شعبانَ إلا قليلًا .(صحيح مسلم:1156)
ترجمہ: میں نے عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے نبیﷺ کے روزوں کے بارے میں دریافت کیا تووہ کہنے لگیں: آپﷺ روزے رکھنے لگتے تو ہم کہتیں کہ آپ تو روزے ہی رکھتے ہیں، اورجب آپ ﷺ روزہ چھوڑتے تو ہم کہتے کہ اب نہيں رکھیں گے، میں نے نبی ﷺ کو شعبان کے مہینہ سے زيادہ کسی اورمہینہ میں زيادہ روزے رکھتے ہوئے نہيں دیکھا، آپ سارا شعبان ہی روزہ رکھتے تھے ، آپ ﷺ شعبان میں اکثر ایام روزہ رکھا کرتے تھے۔
ترمذی شریف میں ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے :
ما رأيتُ النَّبيَّ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ يصومُ شَهرينِ متتابعينِ إلَّا شعبانَ ورمضانَ(صحيح الترمذي:736)
ترجمہ: میں نے نبی ﷺ کو لگاتار دومہینوں کے روزے رکھتے نہیں دیکھا سوائے شعبان اور رمضان کے ۔
یہی روایت نسائی میں ان الفاظ کے ساتھ ہے :
ما رأيتُ رسولَ اللهِ صلَّى اللهُ علَيهِ وسلَّمَ يصومُ شهرينِ متتابعينِ ، إلَّا أنَّه كان يصِلُ شعبانَ برمضانَ(صحيح النسائي:2174)
ترجمہ:میں نے نبیﷺ کو کبھی بھی دو ماہ مسلسل روزے رکھتےہوئے نہيں دیکھا لیکن آپ شعبان کو رمضان کے ساتھ ملایا کرتے تھے۔
ان ساری احادیث  سے صرف روزہ رکھنے کا ثبوت ملتا ہے یعنی شعبان کا اکثر روزہ رکھنا اور جن روایتوں میں پورا شعبا ن روزہ رکھنے کا ذکر ہے ان سے بھی مراد شعبان کا اکثر روزہ رکھناہے ۔
اس ماہ میں بکثرت روزہ رکھنے کی  حکمت  پراسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے :
يا رسولَ اللَّهِ ! لم ارك تَصومُ شَهْرًا منَ الشُّهورِ ما تصومُ من شعبانَ ؟ ! قالَ : ذلِكَ شَهْرٌ يَغفُلُ النَّاسُ عنهُ بينَ رجبٍ ورمضانَ ، وَهوَ شَهْرٌ تُرفَعُ فيهِ الأعمالُ إلى ربِّ العالمينَ ، فأحبُّ أن يُرفَعَ عمَلي وأَنا صائمٌ(صحيح النسائي:2356)
میں نے اللہ تعالیٰ کے رسول ﷺ سے پوچھا کہ آپ جتنے روزے شعبان میں رکھتے ہیں کسی اورمہینہ میں اتنے روزے نہیں رکھتے؟ آپﷺ نے جواب میں فرمایا:یہ ایسا مہینہ ہے جس میں لوگ غفلت کاشکار ہوجاتے ہیں جو رجب اوررمضان کے مابین ہے، یہ ایسا مہینہ ہے جس میں اعمال رب العالمین کی طرف اٹھائے جاتے ہیں، میں یہ پسند کرتا ہوں کہ میرے اعمال روزے کی حالت میں اٹھائے جائیں۔
خلاصہ کلام یہ ہوا کہ نبی ﷺ کی اقتدا ء میں ہمیں ماہ شعبان  میں صرف روزے کا اہتمام کرنا چاہئے وہ بھی بکثرت اور کسی ایسے عمل کو  انجام نہیں دینا چاہئے جن کا ثبوت نہیں ہے۔
دوسرا نکتہ : نصف شعبان کے بعد روزہ رکھنا
اوپر والی احادیث سے معلوم ہوا کہ شعبان کا اکثر روزہ رکھنا مسنون ہے مگر کچھ ایسی روایات بھی ہیں جن میں نصف شعبان کے بعد روزہ رکھنے کی ممانعت آئی ہے ۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا :
إذا بقيَ نِصفٌ من شعبانَ فلا تصوموا(صحيح الترمذي:738)
ترجمہ:جب نصف شعبان باقی رہ جائے (یعنی نصف شعبان گزر جائے) تو روزہ نہ رکھو۔
اس معنی کی کئی روایات ہیں جو الفاظ کے فرق کے ساتھ ابوداؤد، نسائی ، بیہقی، احمد ،  ابن ابی شیبہ اور ابن حبان  وغیرہ نے روایت کیا ہے ۔ اس حدیث کی صحت وضعف کے متعلق علماء کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے ۔ صحیح قرار دینے والوں میں امام ترمذی ، امام ابن حبان،امام طحاوی ، ابوعوانہ،امام ابن عبدالبر،امام ابن حزم،علامہ احمد شاکر، علامہ البانی ، علامہ ابن باز اور علامہ شعیب ارناؤط وغیرہ ہیں جبکہ دوسری طرف ضعیف قرار دینے والوں میں عبدالرحمن بن مہدی، امام احمد، ابوزرعہ رازی ، امام اثرم ، ابن الجوزی ، بیہقی ، ابن معین اورشیخ ابن عثیمین وغیرہم ہیں۔
 ابن رجب نے کہا کہ اس حدیث کی صحت وعمل کے متعلق اختلاف ہے ۔ جنہوں نے تصحیح کی وہ ترمذی، ابن حبان،حاکم،طحاوی اور ابن عبدالبرہیں اور جنہوں نے اس حدیث پر کلام کیا ہے وہ ان لوگوں سے زیادہ بڑے اور علم والے ہیں ۔ ان لوگوں نے حدیث کو منکر کہا ہے ، وہ ہیں عبدالرحمن بن مہدی،امام احمد،ابوزرعہ رازی،اثرم ۔ (لطائف المعارف ص: 135)
اس وجہ سے یہ روایت منکر اور ناقابل حجت ہے، اگر ممانعت  والی روایت کو صحیح مان لیا جائےجیساکہ بہت سے محدثین اس کی صحت کے بھی قائل ہیں  تو اس بنا پر یہ کہا جائے گا کہ اس ممانعت سے چند لوگ مستثنی ہیں جو مندرجہ ذیل ہیں۔
(1) جسے روزے رکھنے کی عادت ہو ، مثلا کوئي شخص پیر اورجمعرات کا روزہ رکھنے کا عادی ہو تووہ نصف شعبان کے بعد بھی روزے رکھے گا۔
(2) 
جس نے نصف شعبان سے قبل روزے رکھنے شروع کردئے اورنصف شعبان سے پہلے کو بعدوالے سے ملادیا۔
(3)
اس سے رمضان کی قضاء اور نذر میں روزے رکھنے والا بھی مستثنی ہوگا ۔
(4) نبی ﷺ کی اتباع میں شعبان کا اکثر روزہ رکھنا چاہے رکھ سکتا ہے اس حال میں کہ رمضان کے روزے کے لئے کمزور نہ ہوجائے ۔
تیسرا نکتہ: نصف شعبان کا روزہ
ایسی کوئی صحیح حدیث نہیں ہے جس سے پندرہویں شعبان کو روزہ رکھنے کی دلیل بنتی ہو، صحیح احادیث سے شعبان کا اکثر روزہ رکھنے کی دلیل ملتی ہے جیساکہ اوپر متعدد احادیث گزری ہیں ۔ جو لوگ روزہ رکھنے کے لئے شعبان کی پندرہویں تاریخ متعین کرتے ہیں وہ دین میں بدعت کا ارتکاب کرتے ہیں اور بدعت موجب جہنم ہے ۔ اگر کوئی کہے کہ پندرہویں شعبان کو روزہ رکھنے سے متعلق حدیث ملتی ہے تو میں کہوں گا کہ ایسی روایت گھڑی ہوئی اور بناوٹی ہے۔ جو گھڑی ہوئی روایت کو نبی ﷺ کی طرف منسوب کرے اس کا ٹھکانہ جہنم ہے ۔
چوتھا نکتہ : نصف شعبان کی رات قیام
جھوٹی اور من گھرنت روایتوں کو بنیاد بناکر نصف شعبان کی رات  مختلف قسم کی مخصوص عبادتیں انجام دی جاتی ہیں ۔ ابن ماجہ کی روایت ہے :
إذا كانت ليلةُ النِّصفِ من شعبانَ فقوموا ليلَها ، وصوموا نَهارَها(ضعيف ابن ماجه:261)
ترجمہ: جب نصف شعبان کی رات آئے تو ا س قیام کرو اور دن کا روزہ رکھو۔
یہ روایت گھڑی ہوئی ہے کیونکہ اس میں ایک راوی ابوبکربن محمد روایتیں گھڑنے والا تھا۔
اس رات صلاۃ الفیہ یعنی ایک ہزار رکعت والی مخصوص طریقے کی نماز پڑھی جاتی ہے ، کچھ لوگ سو رکعات اور کچھ لوگ چودہ اور کچھ بارہ رکعات بھی پڑھتے ہیں ۔ اس قسم کی کوئی مخصوص عبادت نبی ﷺ اور آپ کے اصحاب رضوان اللہ علیہم اجمعین سے منقول نہیں ہے ۔اسی طرح اس رات اجتماعی ذکر، اجتماعی دعا، اجتماعی قرآن خوانی اور اجتماعی عمل کا کوئی ثبوت نہیں ہے ۔
پانچواں نکتہ : شب برات کا تصور
پندرہویں شعبان کی رات کو مختلف ناموں سے موسوم کیا جاتا ہے ۔مثلا لیلۃ المبارکہ(برکتوں والی رات)، لیلۃ الصک(تقسیم امور کی رات )، لیلۃ الرحمۃ (نزول رحمت کی رات) ۔ ایک نام شب برات (جہنم سے نجات کی رات)بھی ہے جو زبان زد خاص وعام ہے ۔ حقیقت میں ان ناموں کی شرعا کوئی حیثیت نہیں ہے ۔
لیلۃ المبارکہ نصف شعبان کی رات کو نہیں کیا جاتا ہے بلکہ شب قدر کو کہاجاتا ہے ،اللہ کا فرمان ہے :
إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةٍ مُّبَارَكَةٍ إِنَّا كُنَّا مُنذِرِينَ{الدخان:3}
ترجمہ: یقیناً ہم نے اس (قرآن) کو بابرکت رات میں نازل کیا ہے کیونکہ ہم ڈرانے والے ہیں۔
اللہ تعالی نے قرآن کو لیلۃ المبارکہ یعنی لیلۃ القدر میں نازل کیا جیساکہ دوسری جگہ اللہ کا ارشاد ہے :
إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ[القدر:1]
ترجمہ: ہم نے اس(قرآن) کو قدر والی رات میں نازل کیا ہے۔
تقسیم امور بھی شب قدر میں ہی ہوتی ہے نہ کہ نصف شعبان کی رات اوراسےلیلۃ الرحمۃ کہنے کی بھی کوئی دلیل نہیں ۔ جہاں تک شب برات کی بات ہے ، تو وہ بھی ثابت نہیں ہے ، اس کے لئے جو دلیل دی جاتی ہے ضعیف ہے ۔ آگے اس حدیث کی وضاحت آئے گی ۔
چھٹواں نکتہ: نصف شعبان کی رات قبرستان کی زیارت
ترمذی میں عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے :
فقَدتُ رسولَ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ ليلةً فخرجتُ فإذا هوَ في البقيعِ۔
ترجمہ : ایک رات میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے پہلو سے غائب پایا ،تلاش کیا تو آپ کوبقیع [ قبرستان] میں پایا۔
یہ روایت نصف شعبان سے متعلق ہے ، اس حدیث کوبنیاد بناکر پندرہویں شعبان کی رات  قبرستان کی صفائی ہوتی ہے ، قبروں کی پوتائی کی جاتی ہے ، وہاں بجلی وقمقمے لگائے جاتے ہیں اور عورت ومرد ایک ساتھ اس رات قبرستان کی زیارت کرتے ہیں جبکہ مذکورہ حدیث ضعیف ہے ۔ اس پر عمل نہیں کیا جائے گا۔ قبروں کی زیارت کبھی بھی مسنون ہے اس کے لئے تاریخ متعین کرنا بدعت ہے اور عورت ومرد کےاختلاط کے  ساتھ زیارت کرنا ، قبر پر میلہ ٹھیلہ  لگاناکبھی بھی جائز نہیں ہے ۔
ساتواں نکتہ : آتش بازی
شعبان میں جس قدر بدعات وخرافات کی انجام دہی پر پیسے خرچ کئے جاتے ہیں اگر اس طرح رمضان المبارک میں صدقہ وخیرات کردیا جاتا تو بہت سے غریبوں کو راحت نصیب ہوتی اورذخیرہ آخرت بھی ہوجاتامگر جسے فضول خرچی یعنی شیطانی کام پسند ہو وہ رمضان کا صدقہ وخیرات کہاں، شعبان میں  آتش بازی کو ہی پسند کرے گا۔ ماہ شعبان شروع ہوتے ہی پٹاخے چھوڑنے شروع ہوجاتے ہیں ذرا تصور کریں اس وقت سے لیکر شعبان بھر میں کس قدر فضول خرچی ہوتی ہوگی؟۔نصف شعبان کی رات کی پٹاخے بازی کی حد ہی نہیں ، اس سے ہونے والے مالی  نقصانات کے علاوہ جسمانی نقصانات اپنی جگہ ۔
آٹھواں نکتہ : مخصوص پکوان اور روحوں کی آمد
نصف شعبان کی بدعات میں قسم قسم کے کھانے ، حلوے پوری  اور نوع بنوع ڈنر تیار کرنا ہے ، اسے فقراء ومساکین میں تقسیم کرتے ہیں اور یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ روحیں آتی ہیں،بایں سبب ان کے لئے فاتحہ خوانی کی جاتی ہے ۔ یہ بھی عقیدہ رکھتے ہیں کہ اگر آج حلوہ پوری نہ بنائی جائے تو روحیں دیواریں چاٹتی ہیں ۔ کھانا پکانے کے لئے تاریخ متعین کرنا اور متعین تاریخ میں فقراء میں تقسیم کرنا ، اس کھانے پرفاتحہ پڑھنا ، فاتحہ شدہ کھانامردوں کو ایصال ثواب کرنا سب کے سب بدعی امو ر ہیں ۔ اور یہ جان لیں کہ مرنے کے بعد روح دنیا میں لوٹ کر نہیں آتی ،قرآن میں متعدد آیات  وارد ہیں جیساکہ اللہ کا فرمان ہے :
کَلاَّ إِنَّها کَلِمَةٌ هُوَ قائِلُها وَ مِنْ وَرائِهِمْ بَرْزَخٌ إِلي‏ يَوْمِ يُبْعَثُونَ(المومنون: 100)
ترجمہ: ہرگز نہیں ، یہ بس ایک بات ہے جو وہ بک رہاہے اب ان سب (مرنے والوں) کے پیچھے ایک برزخ حائل ہے دوسری زندگی کے دن تک۔
نواں نکتہ : کیانصف شعبان کو اللہ آسمان دنیا پر نزول کرتا ہے ؟
ایک روایت بڑے زور شور سے پیش کی جاتی ہے :
ان الله ليطلع في ليلة النصف من شعبان فيغفر لجميع خلقه إلا لمشرك أو مشاحن(سنن ابن ماجه :1390 ) .
ترجمہ: اللہ تعالی نصف شعبان کی رات (اپنے بندوں پر) نظر فرماتا ہے پھر مشرک اور (مسلمان بھائی سے ) دشمنی رکھنے والے کے سوا ساری مخلوق کی مغفرت کردیتا ہے ۔
اس حدیث کو البانی صاحب نے حسن قرار دیا ہے جبکہ اس میں مشہور ضعیف راوی ابن لہیعہ ہے اور دوسرے جمیع طرق میں بھی ضعف ہے ۔ عائشہ رضی اللہ عنہا کے طریق سے یہ روایت آئی ہے ۔
إنَّ اللَّهَ تعالى ينزِلُ ليلةَ النِّصفِ من شعبانَ إلى السَّماءِ الدُّنيا ، فيغفرُ لأكْثرَ من عددِ شَعرِ غنَمِ كلبٍ(ضعيف ابن ماجه:262)
ترجمہ: للہ تعالیٰ نصف شعبان کی رات کو آسمان دنیا پر اترتا ہےاور کلب قبیلہ کی بکریوں کے بالوں کی تعداد سے زیادہ لوگوں کو معاف فرماتا ہے۔
اسے شیخ البانی نے ضعیف کہا ہے ، امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی سند میں انقطاع کا ذکر کیا ہے جس کی وجہ سے یہ ضعیف ہے ۔
بہرکیف! نصف شعبان کی رات آسمان دنیا پر اللہ کے نزول کی کوئی خاص دلیل نہیں ہے البتہ اس حدیث کے عموم میں داخل ہے جس میں ذکر ہے کہ اللہ تعالی ہررات تہائی حصے میں آسمان دنیا پر نزول کرتا ہے ۔
دسواں نکتہ : پندرہویں شعبان سے متعلق احادیث کا حکم
آخری نکتے میں یہ بات واضح کردوں کہ نصف شعبان کے دن یا اس کی رات سے متعلق کوئی بھی صحیح حدیث نہیں ہے ۔قبیلہ کلب کی بکری کے بالوں کے برابر مغفرت والی حدیث، مشرک وبغض والے علاوہ سب کی مغفرت والی حدیث، سال بھر کے موت وحیات کا فیصلہ کرنے والی حدیث،اس دن کے روزہ سے ساٹھ سال اگلے پچھلے گناہوں کی مغفرت کی حدیث ، بارہ –چودہ- سو اور ہزار رکعات نفل پڑھنے والی حدیث  یانصف شعبان پہ  قیام وصیام اور اجروثواب سے متعلق کوئی بھی حدیث قابل حجت نہیں ہے ۔
 اس وجہ سے پندرہ شعبان کے دن میں کوئی مخصوص عمل انجام دینا یا پندرہ شعبان کی رات میں کوئی مخصوص عبادت کرنا جائز نہیں ہے ۔ شعبان کے مہینے میں نبی ﷺسے صرف اور صرف بکثرت روزہ رکھنے کا ثبوت ملتا ہے لہذا مسلمانوں کو اسی عمل پر اکتفا کرنا چاہئے اور بدعات وخرافات کو انجام دے کر پہلے سے جمع کی ہوئی نیکی کوبھی  ضائع نہیں کرنا چاہئے ۔


مکمل تحریر >>

Thursday, April 27, 2017

ایڈیٹرمیدان صحافت کے نام


ایڈیٹرمیدان صحافت کے نام

اخبار حقیقت کا آئینہ ہوتا ہے ، یہ وہی کچھ پیش کرتا ہے جسے سچ کی آنکھوں نے دیکھا ہوتا ہے مگر مادی دور میں بہت سے اخباروں نے  حقیقت کے اس آئینے کو توڑ دیا ہے ۔ مادیت نے نہ صرف اخبار کو بلکہ مکمل صحافت کو متاثر کردیا ہے تاہم اس روشن خیال دور میں حقیقتا جس کا نام تاریک خیال دور ہونا چاہئے تھا کچھ ایسے بھی اخبار ہیں جو مستند خبروں ، وقیع معلومات، مفید کالم ، مبنی بر حقیقت سچائی اور عمدہ مضامین کو جگہ دیتے ہیں ۔ ایسے صفات کے حامل گنے چنے چند اخباروں میں ایک نام سہ روزہ  "میدان صحافت " کا بھی ہے جو مسلسل ایک سال سے مالگاؤں سےشائع ہوتا آرہاہے ۔اس اخبار سے نہ صرف خبررسانی ہورہی ہے بلکہ اکثر شمارے میں کتاب وسنت پر مبنی اسلامی مضامین  کی اشاعت کے ذریعہ دین اسلام کی خدمت بھی ہورہی ہے اور اردو ادب کی آبیاری اپنی جگہ۔ آج اس اخبار کے ایک سال مکمل ہونے پر بطور خاص اس کے ایڈیٹرمحترم شہزاد اختر صاحب اور بالعموم موصوف کی مکمل ٹیم کو مبارک باد پیش کرنا چاہتا ہوں ۔ یہاں پہ میں اپنے رفیق محترم مدرسہ محمدیہ کے ناظم شیخ ابومعاذ اشفاق احمد محمدی کا بھی شکر گزار ہوں جنہوں پہلی فرصت میں اس اخبار کی طرف توجہ مبذول کرائی اور اس میں مضامین کی نشرواشاعت کے لئے میرا تعاون کیا۔
میدان صحافت کا تسلسل اس کے استحکام کی دلیل ہے ،ایڈیٹر صاحب سے گزارش ہے کہ یونہی حقیقت کاآئینہ دکھاتے رہیں ، اور سچائی کی نشرواشاعت میں لومۃ لائم کی پرواہ کئے بغیر لوگوں کی بھلائی کی فکر کریں ۔ جہاں اکثراخبار بدنام ہوں وہاں سچائی کی عکاسی جوئے شیر لانے کے مترادف ہے مگر ہمیں میدان صحافت سے سچائی ہی کی امید ہے ۔ کاش کے سبھی اخبار والے سوچتے کہ ہم حقیقت کا آئینہ ہیں ،انہیں حقیقت کا آئینہ ہی رہنے دیں ۔
مقبول احمد سلفی
داعی ومبلغ

اسلامک دعوۃ سنٹر-طائف –سعودی عرب 
مکمل تحریر >>

Wednesday, April 26, 2017

بیوہ خاتوں کی معاشی مشکلات کا حل

بیوہ  خاتوں کی معاشی مشکلات کا حل
مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹر- طائف
www.maquboolahmad.blogspot.com


جب کسی عورت کے شوہر کا انتقال ہوجاتا ہے تو اس کے بچے یتیم اور وہ بیوہ کہلاتی ہے ۔ سماج میں بیوہ عام طور سے بے سہار ا بن کر رہ جاتی ہے ، نہ ہی اس کے رشتے دار سہارا دیتے ہیں اور نہ اس کے سماج وسوسائٹی والے ۔ یہ وہ مرحلہ ہوتا ہے جب عورت نفسیات کا شکار ہوجاتی ہیں بطور خاص اسوقت جب ایک طرف  معاشی تنگی کا سامنا ہو اور دوسری طرف بچوں او ر اپنے گزربسر کا مسئلہ ہو۔ ایک ایسی ہی خاتون نے مجھ سے  ذکر کیاکہ کچھ دن پہلے میرے شوہر کا انتقال ہوگیا ، میرے پاس چھوٹے بچے ہیں ، کوئی سہارا دینے والا نہیں اور نہ ہی کوئی ذریعہ معاش میرے پاس ہے براہ کرم مجھے قرآن وحدیث سے کوئی وظیفہ بتائیں تاکہ مجھے اللہ کی طرف سے رزق ملتا رہے اور کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے کی نوبت نہ آئے ۔ مجھے اللہ کی ذات پر پورا بھروسہ ہے وہ میرے لئے ضرور کوئی رزق کا دروازہ کھولے گا۔ ان شاء اللہ
یہ ایک عورت کامسئلہ نہیں اور نہ ہی ایک شہر وملک کا مسئلہ ہے بلکہ بین الاقوامی سطح پر ایسے بے شمار واقعات وحالات پائے جاتے ہیں ۔ ہمارے سامنے ایک سوالیہ نشان ابھرتا ہے کہ ایسے حالات میں معاشی تنگی کا شکار بیوہ خاتون کیا کرے ؟ جسے سہار امل گیا یا جسے اچھی رہنمائی مل گئی اس کے لئے تو بہتری ہے مگر جس کو نہ کوئی سہارا دینے والا ملا نہ ہی کسی نے کوئی اچھا سوچھاؤ دیا ایسی عورتیں گھٹ گھٹ کر جیتی ہیں ، مانگنے میں عار محسوس کرتی ہیں نتیجتا بہت ساری خواتین خودکشی کا راستہ  اختیار کرتی ہیں یا  فحش کاموں میں ملوث ہوجاتی ہیں ۔
بیوہ کی معاشی مشکلات کے حل کا دو طریقہ ہے ، ایک اجتماعیت سے تعلق رکھتا ہے تو دوسرا انفرادیت سے ۔
مشکلات کا اجتماعی حل : اسلامی ریاست  اور بیت المال کی ذمہ داری ہے کہ وہ بے سہارا خواتین اسلام  اور بیوہ عورتوں کی معاشی کفالت کرے ، ان کے بچوں کی تعلیم وتربیت اور معاشی نگہداشت کرے ۔ اسلامی ریاست موجود  نہیں ہو تو  سماجی تنظیموں کا یہ کام ہےاور سماجی تنظیموں کے ساتھ انفرادی طور پر جو لوگ صاحب نصاب ہیں یا جن کے پاس ضرورت سے زائد مال ہے وہ لوگ اپنے بچے ہوئے پیسوں سے ان محتاجوں کی معاشی مشکلات دور کرے ۔آج خیراتی اداروں اور اصحاب ثروت کی کمی نہیں ہے مگر مجبوروں کی معاشی مشکلات جوں کے توں ہیں ۔ اگر یہ لوگ فعال ہوجائیں اور دیانتداری سے مستحقین پر مال صرف کریں تو سماج سے ہرقسم کی غربت ولاچاری کا خاتمہ ہوجائے گا۔
مشکلات کا انفرادی حل : انفرادی حل کا تعلق خود بیوہ خاتون سے ہے جسے صدقہ لاحق ہے ، مصائب سے دوچار ہے وہ چاہے تو انفرادی طور پر اپنے مسائل کو حل کرسکتی ہے اور معاشی مشکلات ختم کرسکتی ہے ۔  
سب سے پہلے تو یہ بتادوں کہ ایک عورت کے لئے اس کے شوہر کا انتقال بڑا صبر آزما مرحلہ ہوتا ہے ایسے موقع پربیوہ خاتون  کو صبر جمیل کی تلقین کرتا ہوں ،مصائب ومشکلات میں صبر کرنا مومن کی امتیازی صفت اور پریشانی سے نکلنے کا ایک اہم ذریعہ ہے ۔ اللہ تعالی صبر کے ذریعہ بندوں کی غیبی مدد کرتا ہے  ،حزن وملال دور فرماتا ہے اور بے پناہ اجر سے نوازتا ہے ۔ فرمان الہی ہے :
إِنَّمَا یُوَفَّی الصَّابِرُوْنَ أَجْرَہُمْ بِغَیْرِ حِسَابٍ(الزمر: ۱۰)
ترجمہ: یقینا صبر کرنے والوں کو ان کا اجر بغیر حساب کے پورا دیا جائے گا۔
مومن بندہ کو اس بات پر بھی یقین کرنا ہے کہ سب کی روزیاں آسمان میں ہیں ، اللہ تعالی جس طرح چاہتا ہے اپنے بندوں کو آسمان سے روزی بھیجتا ہے ۔ اللہ کا فرمان ہے :
وَفِي السَّمَاءِ رِزْقُكُمْ وَمَا تُوعَدُونَ(الذاریات: 22)
ترجمہ: اور تمہاری روزی اور جو تم سے وعدہ کیا جاتا ہے سب آسمان میں ہے ۔
دوسری بات یہ ہے کہ شوہر کے انتقال کے بعد اس کے چھوڑے ہوئے ترکے میں سے بیوی کو آٹھواں حصہ ملے گا اگر اسے اولاد ہے اور اولاد نہیں تو پھر چوتھا حصہ ملے گا۔اسی طرح شوہر نے اپنی حیات میں جو تحفے تحائف اور مال وزر دئے وہ بیوی کا ہے ، مہر کی رقم بھی بیوی کی ذاتی ہے ۔
تیسری بات یہ ہے کہ اس چیزوں کے علاوہ  ایسے اعمال وافعال ہیں جن کے ذریعہ بیوہ ذاتی طور پر عمل میں لاکر اپنے حالات بہتر سے بہتر کر سکتی ہے ۔ زندگی کی خوشیاں بٹورسکتی ہے  اور جن مالی مشکالات کا سامناہے اللہ کی توفیق واعانت سے  اس کا سدباب کرسکتی ہے ۔
نیچے میں کچھ اعمال بیان کررہاہوں جو فقر وفاقہ کے خاتمہ اسباب ہیں ،انہیں عملی جامہ پہناکر  اللہ نے چاہا تو اس کی طرف سے مالداری نصیب ہوگی ۔
(1) اسلامی تجارت میں شرکت کریں : عورت کے پاس اگر کچھ رقم ہو تو اسے اسلامی تجارت میں لگاسکتی ہے جس کے منافع سے اس کے حالات اچھے ہوسکتے ہیں ۔ کچھ لوگ کام کے ماہر ہوتے ہیں مگر رقم نہیں ہوتی تاکہ  اپنی مہارت کاصحیح  استعمال کرسکے۔ ایسے لوگوں کے لئے بیع سلم مفید تجارت ہے ۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ جس کام میں مہارت ہے اس کا منصوبہ تیار کریں اور اس منصوبے کے مصروفات پہلے ہی لے لیں یعنی اس چیز کا پلان دکھاکر ہی بیچ دیں اور جو مدت آپ نے خریدار سے طے کی اس کے اندر اس کے ہی پیسے سے منصوبے کی تکمیل کردیں ، اس طرح بغیر پیسے کے کام بھی ہوجائے گا اور منافع بھی حاصل ہوجائےگا۔
(2) جائز پیشہ اختیار کریں:اسلام نے عورتوں کو نوکری کرنے سے منع نہیں کیا ہے ، ایک عورت شرعی حدود میں رہ کر اس کے لئے جو وظیفہ جائز ہے انجام دے سکتی ہے اور اس کے ذریعہ وہ اپنے اور اپنے بچوں کی پرورش کرسکتی ہے ۔ مثلا سلائی ، کڑھائی ، صفائی ، امور خانہ داری ، کمپنیوں اور تعلیمی اداروں میں مزدوری وغیر ہ ۔ نوکری کے لئے شرعی حدود یعنی حجاب کی پابندی، اختلاط سے اجتناب، عفت وعصمت کی حفاظت ، محرم کے ساتھ سفر اور خلوت سے دوری ضروری ہے۔
(3) کسی دیندار مرد سے نکاح کرلیں: نکاح نہ صرف نظر وشرمگاہ کی حفاظت کا ذریعہ ہے بلکہ اس سے مالداری بھی آتی ہے ۔ بیوہ خاتون کو شادی کرلینا چاہئے تاکہ اس کی عفت وعصمت کی حفاظت ہو ، جسمانی سکون وراحت نصیب ہو اور اسلام نے شوہر کے ذمہ جو کفالت کی ذمہ داری ڈالی ہے  اس سے فائدہ حاصل ہو۔ نکاح رزق کے حصول کا ذریعہ ہے ۔ اللہ تعالی فرماتا ہے :
وَأَنْكِحُوا الْأَيَامَى مِنْكُمْ وَالصَّالِحِينَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَإِمَائِكُمْ إِنْ يَكُونُوا فُقَرَاءَ يُغْنِهِمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ(النور:32)
ترجمہ: تم میں سے جو مرد عورت بے نکاح کے ہوں ان کا نکاح کردو اور اپنے نیک بخت غلام اورلونڈیوں کا بھی اگر وہ مفلس بھی ہوں گےتو اللہ تعالٰی انہیں اپنے فضل سے غنی بنا دے گا اللہ تعالٰی کشادگی والا اورعلم والا ہے ۔
اسی طرح نبی ﷺکا فرمان ہے :
ثلاثةٌ حقٌّ على اللَّهِ عونُهُم: المُجاهدُ في سبيلِ اللَّهِ، والمُكاتِبُ الَّذي يريدُ الأداءَ، والنَّاكحُ الَّذي يريدُ العفافَ( صحيح الترمذي:1655)
ترجمہ:تین آدمیوں کی مدد اللہ کے نزدیک ثابت ہے ایک اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والا، دوسرا وہ مکاتب غلام جو زر کتابت ادا کرنا چاہتا ہو اور تیسرا وہ شادی کرنے والا جو پاکدامنی حاصل کرنا چاہتا ہو۔
یہاں میں ان مردوں کو بھی مخاطب کرنا چاہتا ہوں جن کی بیوی کی وفات ہوگئی وہ کسی بیوہ خاتون سے شادی کرکے اپنی اور اس کی زندگی بہتر بنالیں ۔ بیوہ سے کوئی ضروری نہیں ہے کہ شادی شدہ مرد ہی شادی کرے ، غیرشادی شدہ مرد بھی کرسکتا ہے ۔ نبی ﷺ کا پہلا نکاح حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے ہوا تھا آپ غیر شادی شدہ اور خدیجہ رضی اللہ عنہا بیوہ تھیں۔ ان کے علاوہ کئی بیوہ خاتون سے آپ ﷺ نے نکاح کیا۔
(4) توبہ واستغفار کو لازم پکڑیں : جو کثرت سے توبہ واستغفار کرتے ہیں اللہ تعالی ان کی مدد فرماتا ہے ، تنگ دستی دور کرتا اور خوشحالی نصیب کرتا ہے ۔ اللہ کا فرمان ہے :
فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ إِنَّهُ كَانَ غَفَّارًا . يُرْسِلِ السَّمَاءَ عَلَيْكُمْ مِدْرَارًا . وَيُمْدِدْكُمْ بِأَمْوَالٍ وَبَنِينَ وَيَجْعَلْ لَكُمْ جَنَّاتٍ وَيَجْعَلْ لَكُمْ أَنْهَارًا(نوح : 10-12)
ترجمہ:پس میں (نوح) نے کہا، اپنے رب سے گناہوں کی معافی طلب کرو،بے شک وہ بڑا بخشنے والا ہے ، وہ آسمان سے تم پر موسلادھار بارش برسائے گااور تمہارے مالوں اور اولاد میں اضافہ کرے گا،اور تمہارے لئے باغات پیدا کرے گا،اور نہریں نکالے گا۔
گناہوں سے معافی طلب کرنے کا مطلب ہے کہ آدمی سے جو گناہ ہوگیا ہے اس پہ شرمسار ہو اور اسے آئندہ کے لئے ترک کردے اور اس گناہ کے ترک پہ پختہ ارادہ بھی کرے ۔
(5) اللہ کا تقوی اختیار کریں : اللہ تعالی سے ڈرنا اور صرف اسی سے خوف کھاناعظیم عبادت ہے ۔ اس عبادت کی انجام دہی رب کو بیحد پسند ہے ۔ جو لوگ فقرکے شکار ہیں انہیں اللہ کا تقوی اختیار کرنا چاہئے تاکہ وہ اللہ کے نردیک محبوب بن جائے اور اللہ خوش ہوکر دین ودنیا کی مالداری عطا کردے ۔ اللہ تعالی نے وعدہ کیا ہے جو اس سے تقوی اخیتار کرے گا اس کو غم والم اور حزن وملال سے نکالے گا اور رزق کے ایسے دہانے کھولے گا جس کا اس نے شعور بھی نہیں کیا تھا۔ فرمان باری تعالی ہے :
وَمَن يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَل لَّهُ مَخْرَجًا، وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ ۚ وَمَن يَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ فَهُوَ حَسْبُهُ(الطلاق:2-3(
ترجمہ: اور جوشخص اللہ سے ڈرتا ہے اللہ اس کے لئے چھٹکارے کی شکل نکال دیتا ہے اور اسے ایسی جگہ سے روزی دیتا ہے جس کا اسے گمان بھی نہ ہو اور جوشخص اللہ پر توکل کرے گا اللہ اسے کافی ہوگا۔
اس کی مثال تین غاروالوں کا واقعہ ہے، ان میں سے ایک اپنی چچازاد بہن پر فریفتہ تھا ، اس نے ایک سو دینار کے بدلے اس سے بدسلوکی کرنے کی کوشش کی ، جب قریب تھا کہ وہ خلوت نشینی کرے تو لڑکی نے سے اللہ سے ڈرنے کا واسطہ دیا ، وہ آدمی ڈرگیا۔ تو اللہ نے غار کے منہ سے پتھر ہٹا کر مصیبت سے نجات دیا۔ (بخاری ومسلم(
(6) اللہ ہی پر کامل بھروسہ  رکھیں:  جب آدمی غمزدہ ہوتا ہے تو اس کی سوچ وفکر اور اعما ل پر بہت فرق پڑتا ہے ۔ غم دور ہونے کے بجائے بڑھتا چلا جائے تو اس عالم میں اللہ پر اعتماد کرنا ایمان والوں کی پہچان ہے ۔ ہمیں یہ اعتقاد رکھنا ہے کہ پریشانی دینے والا اور دور کرنے صرف اللہ کی ذات ہے ۔ فرمان الہی ہے :
وَإِن يَمْسَسْكَ اللَّهُ بِضُرٍّ‌ فَلَا كَاشِفَ لَهُ إِلَّا هُوَ ۖ وَإِن يَمْسَسْكَ بِخَيْرٍ‌ فَهُوَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ‌(سورة الأنعام:17)
ترجمہ: اگر اللہ تمہیں کسی قسم کا نقصان پہنچائے تو اس کے سوا کوئی نہیں جو تمہیں اس نقصان سے بچا سکے  اور اگر وہ تمہیں کسی بھلائی سے بہرہ مند کرے تو وہ ہر چیز پر قادر ہے۔
جب آئی ہوئی مصیبت اللہ کی طرف سے ہے اسے کوئی ٹالنے والا نہیں تو کیوں نہ اللہ ہی پر کامل بھروسہ کریں تاکہ وہ غم سے نجات دیدے اور خوشحالی سے بھی مالا مال کردے ۔ نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے :
لو أنَّكم كنتُم توَكلونَ علَى اللهِ حقَّ توَكلِه لرزقتُم كما يرزقُ الطَّيرُ تغدو خماصًا وتروحُ بطانًا(صحيح الترمذي:2344)
ترجمہ:اگر تم لوگ اللہ پر توکل ( بھروسہ ) کرو جیسا کہ اس پر توکل ( بھروسہ ) کرنے کا حق ہے تو تمہیں اسی طرح رزق ملے گا جیسا کہ پرندوں کو ملتا ہے کہ صبح کو وہ بھوکے نکلتے ہیں اور شام کو آسودہ واپس آتے ہیں۔
(7) اللہ کی بندگی بجالائیں: اللہ وحدہ لاشریک نے بندوں کو اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے ، انسان کو رب کی بندگی کرتے ہوئے زندگی گزارنی چاہئے خواہ زندگی کی صعوبت سے دور ہو یا عیش وعشرت والی زندگی میسر ہو۔ ہردوحال میں اللہ کی بندگی کے لئے وقت نکالنا چاہئے اور کامل یکسوئی سے اس پروردگار کی عبادت کرنی چاہئے ۔ اس کے سبب اللہ تعالی مالداروں کی مالداری میں برکت اور زیادتی پیدا کرے گا اور محتاجوں کی محتاجی دور کرکے غنی بنادے گا۔ حدیث قدسی میں وارد ہے :
إنَّ اللَّهَ تعالى يقولُ يا ابنَ آدمَ : تفرَّغْ لعبادتي أملأْ صدرَكَ غنًى وأسدَّ فقرَكَ وإن لا تفعَل ملأتُ يديْكَ شغلاً ، ولم أسدَّ فقرَكَ(صحيح الترمذي:2466)
ترجمہ: یقینا اللہ تعالی نے فرمایا:اے ابن آدم ! میری عبادت کے لئے خود کو فارغ کرویعنی توجہ اور دلجمعی سے میری عبادت کرو، میں تیرے سینے کو تونگری سے بھر دوں گا، اور تیری محتاجی کو ختم کردوں گا۔اور اگر تونے ایسا نہ کیاتو میں تیرے ہاتھ کاموں میں الجھا دوں گا اور تیری مفلسی ختم نہ کروں گا۔
گویا عبادت کے لئے فارغ کرنا محتاجگی دور ہونے کا سبب ہے ، اسی طرح عبادت کے ذریعہ اللہ تعالی سے محتاجگی دور ہونے کا سوال بھی کرے جیساکہ اس نے اپنے بندوں کو حکم دیاہے :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ ۚ إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّابِرِينَ (البقرة:153)
ترجمہ: اے ایمان والو! نماز اور صبر کے ذریعہ اللہ تعالی سے مدد طلب کرو ، بےشک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے ۔
(8) صلہ رحمی کریں: اکثر ایسا ہوتا ہے کہ معمولی معمولی باتوں پر رشتہ داریاں منقطع کرلی جاتی ہیں جس سے الفت ومحبت، مال ودولت اور اس کی برکت چلی جاتی ہے ۔ اگر کسی کے خاندان میں عورت کو طلاق ہوجائے یا بیوہ ہوجائے تواس کے مالدار رشتے دار منہ پھیر لیتے ہیں تاکہ اسے  کچھ دینا نہ پڑے ۔ ایسے لوگوں کو اللہ سے ڈرنا چاہئے اور اپنے مال سے محتاج رشتہ داروں کی مدد کرنی چاہئے ، ہمارے مال کا اصل مستحق ہمارے ہی مسکین رشتے دار ہیں ۔ اس سے خرچ کرنے والے کو دنیا وآخرت میں کئی گنا بدلہ ملے گا۔ ساتھ ہی بیوہ خاتون کو میں نصیحت کرتا ہوں کہ ظالم رشتہ داروں کے ظلم پر صبر کریں ، آپ اپنی طرف سے رشتے ناطے جوڑیں رکھیں اور اللہ تعالی سے حالات کی بہتری کے لئے دعا کرتے رہیں ۔ آپ اگر ظلم پر صبر کرتے ہوئے صلہ رحمی کرتے ہیں تو اللہ تعالی آپ کے تھوڑے مال میں زیادتی کردے گا جس سے آپ کی ضروریات پوری ہوجائیں گی اور آپ کو دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلانے کی نوبت نہیں آئے گی ۔
نبی ﷺ کا فرمان ہے :
من سَرَّهُ أن يُبسطَ له في رزقِه ، أو يُنسأَ له في أَثَرِهِ ، فليَصِلْ رحِمَه(صحيح البخاري:2067)
ترجمہ: جو شخص اپنے رزق میں وسعت يا عمر میں اضافہ پسند کرے وہ صلہ رحمی کرے ۔
(9) دعاکا خاص اہتمام کریں  :دعا مومن کا سب سے بڑا ہتھیار ہے اس کے ذریعہ اللہ تعالی سے کبھی بھی اور کچھ بھی مانگ سکتا ہے ۔ فقر ہے مالداری مانگ سکتا ہے ، پریشانی ہے آسانی مانگ سکتا ہے ، بے اولاد ہے اولاد مانگ سکتا ہے ، بیماری ہے شفا مانگ سکتا ہے ، بے روزگاری ہے روزگار مانگ سکتا ہے ، ناسمجھی ہے فہم وفراست مانگ سکتا ہے وغیرہ ۔ متعدد احادیث میں اس کا ذکر ہے کہ جب بندہ اللہ سے  مانگتا ہے تو اللہ تعالی خوش ہوتا ہے کیونکہ بندہ اللہ سے سوال کرتا ہے اوربندے کو خالی ہاتھ لوٹانے میں شرم محسوس کرتا ہے ۔ یوں تو بندہ کبھی بھی اللہ سے مانگ سکتا پھر بھی بندوں سے اللہ کی محبت وچاہت دیکھیں کہ وہ روزانہ آسمان دنیا پر نزول کرتا ہے اور لوگوں کو کہتا ہے ، ہے کوئی مانگنے والا میں اسے دوں گا۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
يَنْزِلُ ربُّنا تباركَ وتعالى كلَّ ليلةٍ إلى السماءِ الدنيا ، حينَ يَبْقَى ثُلُثُ الليلِ الآخرِ ، يقولُ : من يَدعوني فأَستجيبُ لهُ ، من يَسْأَلُنِي فأُعْطِيهِ ، من يَستغفرني فأَغْفِرُ لهُ .(صحيح البخاري:1145)
ترجمہ: ہمارا پروردگار بلند برکت والا ہے ہر رات کو اس وقت آسمان دنیا پر آتا ہے جب رات کا آخری تہائی حصہ رہ جاتا ہے۔ وہ کہتا ہے کوئی مجھ سے دعا کرنے والا ہے کہ میں اس کی دعا قبول کروں، کوئی مجھ سے مانگنے والا ہے کہ میں اسے دوں کوئی مجھ سے بخشش طلب کرنے والا ہے کہ میں اس کو بخش دوں۔
اس لئے بندہ کو رات کے آخری حصے میں رب سے جو ضرورت ہو اس کا سوال کرنا چاہئے اللہ تعالی دعا قبول کرنے والا ہے ۔
(10) ذکر واذکار کرتے رہیں:نبی ﷺ نے ہمیں ایسی دعاؤں اور اذکارکی تعلیم دی ہے  جن سے محتاجگی دور ہوتی اور خوشحالی میسر ہوتی ہے ۔ ان میں سے  چند اذکار ودعا کو یہاں ذکر کرتا ہوں جن کا اہتمام ہمیں کرنا چاہئے بطور خاص بیوہ خاتون جن کا معاش تنگ وناکافی ہو۔ اللہ تعالی مجبور بندوں کی دعا قبول کرتا ہے اور ذکر واذکار کو پسند فرماتا ہے اور اس کے بدلے دینا میں آرام وسکون ، روزی میں کشادگی وبرکت اور آخرت میں کامیابی عطا کرتا ہے ۔
٭جب فاطمہ رضی اللہ عنہا نے نبی ﷺ سے نوکر طلب کیا تو آپ نے انہیں یہ دعا سکھائی :
اللَّهمَّ ربَّ السَّمواتِ السَّبعِ، وربَّ العرشِ العظيمِ، ربَّنا وربَّ كلِّ شيءٍ منزِلَ التَّوراةِ والإنجيلِ والقرآنِ، فالقَ الحبِّ والنَّوى، أعوذُ بِكَ من شرِّ كلِّ شيءٍ أنتَ آخذٌ بناصيتِهِ، أنتَ الأوَّلُ فليسَ قبلَكَ شيءٌ، وأنتَ الآخِرُ فليسَ بعدَكَ شيءٌ، وأنتَ الظَّاهرُ فليسَ فوقَكَ شيءٌ، وأنتَ الباطنُ فليسَ دونَكَ شيءٌ، اقضِ عنِّي الدَّين، وأغنِني منَ الفقرِ(صحيح الترمذي:3481)
ترجمہ: اے اللہ! تو ساتوں آسمانوں کا رب، عرش عظیم کا رب، اے ہمارے رب! اور ہر چیز کے رب، توراۃ، انجیل اور قرآن کے نازل کرنے والے، زمین پھاڑ کر دانے اگانے اور اکھوے نکالنے والے، میں تیری پناہ چاہتا ہوں ہر چیز کے شر سے، جس کی پیشانی تیرے ہاتھ میں ہے، تو پہلا ہے ( شروع سے ہے ) تجھ سے پہلے کوئی چیز نہیں ہے، تو سب سے آخر ہے تیرے بعد کوئی چیز نہیں، تو سب سے ظاہر ( یعنی اوپر ہے ) ، تیرے اوپر کوئی چیز نہیں ہے، تو پوشیدہ ہے سب کی نظروں سے، لیکن تم سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے، اے اللہ! تو میرے اوپر سے قرض اتار دے اور مجھے محتاجی سے نکال کر مالدار کر دے۔
٭فجر کی نماز کے بعد یہ دعا پڑھیں :
اللَّهمَّ إنِّي أسألُكَ عِلمًا نافعًا ورزقًا طيِّبًا وعملًا متقبَّلًا(صحيح ابن ماجه:762)
ترجمہ: اے اللہ میں تجھ سے نفع بخش علم، پاکیزه رزق اور قبولیت والے عمل کا سوال کرتا ہوں۔
٭جب کوئی نیا مسلم ہوتا تو آپ ﷺ انہیں نماز کی تعلیم دیتے اور یہ دعا پڑھنے کاحکم فرماتے :
اللهم ! اغفِرْ لي وارحمني واهْدِني وعافِني وارزُقْني(صحيح مسلم:2697)
ترجمہ: اے اللہ مجھے معاف فرما، مجھ ہر رحم فرما، مجھے عافیت دے اور مجھے رزق عطا فرما۔
٭اسے بھی کثرت سے پڑھیں:وَارْزُقْنَا وَأَنتَ خَيْرُ الرَّازِقِينَ(المائدہ:114)
ترجمہ:اور ہمیں رزق دے اور تو بہترین رازق ہے۔
٭ یہ بھی ایک بہترین قرآنی دعا ہے جو دوران طواف رکن یمانی اور حجراسود کے درمیان باربار پڑھی جاتی ہے ، اس میں دنیا وآخرت کی ساری بھلائی کی دعا شامل ہے ۔
رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ (201)
ترجمہ: اے ہمارے رب! ہمیں دنیا میں بھی بھلائی دے اور آخرت میں بھی بھلائی دے اور آگ کے عذاب سے ہمیں بچا۔
ان کے علاوہ بہت ساری دعائیں ہیں اور وہ دعائیں بھی پڑھی جاسکتی ہیں جو پریشانی ، غم  اور تکلیف ومصیبت دور کرنے والی ہوں ۔
(11) اعمال صالحہ کے ذریعہ اللہ کی قربت حاصل کریں: ہمیں نیک عملوں کے ذریعہ اللہ کی قربت حاصل کرنا چاہئے اور اسے راضی کرنا چاہئے ۔ کبھی کبھی اللہ تعالی چھوٹی نیکی سے خوش ہوکر رحمت وبرکت سے نواز دیتا ہے اور کبھی  کبھی چھوٹی برائی سے ناراض ہو کر مالدار کو فقیر ومسکین بنادیتا ہے اس لئے یہ بات ذہن میں رہے ۔ پنچ وقتہ نمازوں کے علاوہ نفلی عبادات مثلا ایام بیض کے روزے ، سوموار اور جمعرات کے روزے ، قیام اللیل ، اشراق کی نماز ، وضو کی نماز ، مسواک کی سنت ، اٹھتے بیٹھتے  سوتے جاگتے اذکار واستغفار کا اہتمام  ، قرآن کی تلاوت ، دین کی نشر واشاعت وغیرہ سے اللہ کی رضامندی حاصل ہوتی ہے۔اس بات پر ہمارا ایمان ہے کہ اللہ تعالی جس سے راضی ہو کبھی وہ پریشانی میں ہمیشہ مبتلا نہیں رہے گا ، اللہ اسے قسم قسم کی نعمتوں سے نوازتا رہے گاجیسے مریم علیہ السلام کے گھر میں ہی روزی بھیج دیا کرتاتھا۔


مکمل تحریر >>

Tuesday, April 25, 2017

سوتیلے بہن بھائی کا نکاح

سوتیلے بہن بھائی کا نکاح

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
محترم بھائی کیا حال ہے۔ سوال کا مدلل جواب مطلوب ہے۔ ایک مرد کی بیوی وفات پاگئی اور اس کی اولاد موجود تھی اس نے ایک بیوہ سے شادی کی جس کی بھی اولاد تھی۔ کیا ان کی پہلے سے موجود اولاد آپس میں شادی کر سکتے ہیں ؟ جزاک اللہ خیرا۔
سائل : طارق محمود ، قصور ،پاکستان
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ  
الحمدللہ :
اللہ تعالی نے بھائی بہن کا نکاح حرام قرار دیا ہے خواہ سوتیلے ہوں یا سگے ہوں ۔ اللہ کا فرمان ہے :
حُرِّمَتْ عَلَيْكُمْ أُمَّهَاتُكُمْ وَبَنَاتُكُمْ وَأَخَوَاتُكُمْ وَعَمَّاتُكُمْ وَخَالَاتُكُمْ وَبَنَاتُ الْأَخِ وَبَنَاتُ الْأُخْتِ (النساء : 23)
ترجمہ : حرام کی گئیں ہیں تم پر تمہاری مائیں اور تمہاری لڑکیاں اور تمہاری بہنیں تمہاری پھوپھیاں اور تمہاری خالائیں اور بھائی کی لڑکیاں اور بہن کی لڑکیاں۔
اس آیت میں جن سات رشتوں کی حرمت بیان کی گئی ہے ان میں بہنوں کا بھی ذکر ہے ، عام ہونے کی وجہ سے بہن سگی ہو یا سوتیلی دونوں قسم کی حرام ہیں ،ان سے نکاح کرنا جائز نہیں لیکن جیساکہ سوال میں مذکور ہے وہ بہن جسے سوتیلی ماں نے لایا اور یہ بہن اپنے باپ کے صلب سے نہیں ہے بلکہ دوسرے شوہر سے ہے تو اس بہن سے شادی جائز ہے ۔
نکاح کی حرمت کے تین اسباب ہیں ۔
1- قرابتداری
2- دووھ شریک
3- سسرالی تعلق
ان تینوں میں کسی سے سوال میں مذکور بیوہ کی اولاد کا   کوئی تعلق نہ ہونے کی وجہ سے بیوہ کی اولاد سےپہلی بیوی کی اولاد کی شادی ہوسکتی ہے ۔
واللہ اعلم
کتبہ
مقبو ل احمد سلفی


مکمل تحریر >>