Sunday, April 30, 2017

شادی میں گاؤں والوں کا لڑکی کے گھروالوں کو پیسہ دینا

شادی میں گاؤں والوں کا لڑکی کے گھروالوں کو پیسہ دینا

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
پاکستان میں شادی بیاہ کے موقع پر ایک رواج ہے کہ جو مہمان  کسی کے یہاں شادی میں شریک ہوتے ہیں وہ دعوت کھانے کے بعد  پیسے دیتے ہیں اور جس کے گھر میں شادی ہوتی ہے ان کے افراد میں سے کوئی ساتھ ساتھ لکھتا جاتا ہے کہ فلاں نے اتنے پیسے دئے فلاں نے اتنے دئے بطور یادگار۔جب دوسرے کے یہاں شادی ہوتی ہے  تو یہی پیسے اتنی مقدار میں یا اس سے زیادہ لوٹائے جاتے ہیں اس کا شرعا کیا حکم ہے ؟
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

الحمد للہ :
یہ اصل میں سماجی  رسم کے طور پر ہے، اس کے پیچھے لڑکی والوں کے ساتھ ہمدردی ہے ۔ چونکہ بیٹی کی شادی بہت خرچیلی ہے اس وجہ سےاکثر گاؤں دیہات میں بہت پہلے سے یہ رسم چلی آرہی ہے کہ اپنی اپنی حیثیت کے مطابق لڑکی کے گھر دعوت کھانے کے بعد لوگ مالی تعاون کرتے ہیں ۔ یہ تعاون محض گاؤں والوں کی طرف سے ہی نہیں ہوتا بلکہ لڑکی کے جتنے رشتے دار شادی میں شامل ہوتے ہیں وہ بھی اناج ،سامان ، کپڑے اور پیسوں سے مدد کرتے ہیں ۔ اس رسم کے اندر اس معنی میں کوئی قباحت نہیں ہے کہ شادی کے موقع سے لڑکی کے گھر والوں کی مدد کی جائے لیکن اس رسم کے ساتھ مزید کچھ پہلو بھی ہیں جو سماج کے لئے باعث فساد ہیں ۔
پیسے دینے والوں کا رکارڈ یاد رکھنا اوراپنی اپنی  شادی میں اس سے زیادہ ملنے کی امید رکھنا اور جو کم دے یا نہ دے اس سے دشمنی مول لینا بلکہ بسا اوقات آپسی مقاطعہ تک کی نوبت آجاتی ہے یہ سماج کا فساد اور زہر ہے ۔اس لئے اس حیثیت کی رسم کا خاتمہ کرنا ضرور ی ہے تاکہ ہمدردی کے نام پر دشمنی وفساد کو بڑھاوا نہ ملے ۔ ہاں اگر کسی کوایسے موقع سے  مدد کرنی ہو تو اس طرح مدد کرے کہ کسی دوسرے کو اس کے تعاون کی خبر نہ لگے کیونکہ عام طور سے شادی کے بعد لوگوں میں اس پیسے کا چرچا ہوتا ہے ، لوگوں کی غیبت کی جاتی ہے اور جس نے زیادہ دیا اس کے نام کا شہرہ ہوتا ہے ۔ اسلام میں کسی کی غیبت کرنا بڑا جرم ہے اور بڑاتعاون کرکے شہرت حاصل کرنایہ بھی ریاکاری والا بڑا جرم ہے ۔ پیسہ نہ دنیے والے  کو مجرم ہی سمجھا جاتا ہے حالانکہ ممکن ہے اس کے پاس پیسے نہ ہوں ، کم دینے والے کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہوسکتا ہے ۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ جس کے یہاں شادی ہورہی ہے اگر وہ زکوۃ کا مستحق ہے تو گاؤں والوں میں سے وہ لوگ جوصاحب نصاب ہیں وہ زکوۃ کی رقم سے مدد کریں اور لڑکی کے گھر والے مالدار ہیں  تو انہیں پیسے دینے کی ضرورت ہی نہیں البتہ اسلامی شکل میں ہدیہ تحفہ لے کر جائے تو کوئی حرج کی بات نہیں لیکن کچھ لوگ زکوۃ کے مستحق تو نہیں ہوتے تاہم  ایسے موقع سے کچھ  مالی امداد کی ضرورت ہوتی ہے  اس لئے ایسے لوگوں کی  بطور احسان امداد  کی جائے تو چپکے سے اور اپنی شادی میں اس مال کے لوٹائے جانے کی امید بھی  نہ کی جائے ۔
واللہ اعلم
کتبہ

مقبول احمد سلفی 

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔