Saturday, March 25, 2017

ثیبہ کے لئے ولی کی اجازت

ثیبہ کے لئے ولی کی اجازت


السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
سوال:ايك مطلقہ لڑکی ہے وہ ایسے لڑکے سے شادی کرنا چاہتی ہے جو پہلے سے شادی شدہ ہے لڑکی جب اپنے باپ سے اجازت مانگتی ہے تو اسکے باپ  کہتے ہیں تیری مرضی جہاں چاہے شادی کرلے لیکن میرے گھر نہ آنا ۔باپ کا یہ جملہ تیری مرضی۔۔۔۔۔۔۔ الخ کیا اس کو اجازت تسلیم کر سکتے ہیں؟
اور والثيب احق بنفسها( ثيبہ عورت تو اپنے نفس کی مالک ہوتی باپ اجازت دے یا نہ دے) اس حدیث کے مطابق کیا وہ شادی کر سکتی ہے۔؟
سائل : قمرالزماں خان،یوپی ۔انڈیا

وعليكم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ
الحمد للہ:
باپ کا یہ کہنا کہ "تیری مرضی جہاں چاہے شادی کرلے لیکن میرے گھر نہ آنا"یہ اجازت پہ نہیں بلکہ  باپ کی سخت ناراضگی پہ دلالت کرتا ہے لہذا لڑکی اپنے بات کی وجہ ناراضگی ختم کرے اور اس شادی کے لئے ان کی اجازت حاصل کرے ورنہ شادی نہیں کرےکیونکہ شادی زندگی بھر کا معاملہ ہے ،ہوسکتا ہے جس نظریہ سے معاملہ کو باپ دیکھ رہاہے شاید لڑکی اس سے انجان ہواس لئے بیٹھ کر معاملہ کو حل کرے ۔ اور یہ یاد رہے کہ  لڑکی باکرہ ہو یا ثیبہ دونوں کو ولی کی اجازت لینی ہوگی۔
شیخ البانی ؒ نے صحیح ابن ماجہ (1537) کے تحت ذکر کیاہے : "لا نِكاحَ إلَّا بوليٍّ" نبی ﷺ کا فرمان ہے کہ بغیر ولی کے نکاح نہیں ہے ۔ اسی طرح صحیح ابوداؤد للالبانی (رقم : 2083)میں ہے :أيُّما امرأةٍ نَكَحَت بغيرِ إذنِ مَواليها ، فنِكاحُها باطلٌ ، ثلاثَ مرَّاتٍ۔ یعنی جس عورت نے اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کیا اس کا نکاح باطل ہے۔یہ بات آپ ﷺ نے تین بار کہی ۔
جہاں تک سوال میں جس حدیث کی طرف اشارہ کیا گیا ہے پہلے وہ حدیث دیکھیں ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے :
الثَّيِّبُ أحقُّ بنفسِها من وليِّها والبِكرُ تستأمرُ وإذنُها سُكوتُه(صحيح مسلم:1421)
ترجمہ:  ثیبہ اپنے نفس کا اپنے ولی سے زیادہ حقدار ہے اور کنواری لڑکی سے اس کے بارے میں اجازت لی جائے گی اور اس کی خاموشی ہی اس کی اجازت ہے ۔
اس حدیث میں اس بات کی صراحت نہیں ہے کہ ثیبہ ولی کی اجازت کے بغیر شادی کرسکتی ہے بلکہ اس بات کا ذکر ہے کہ جہاں ولی کا حق ہے وہیں ثیبہ کا بھی حق ہے اور اپنے نفس کے لئے ثیبہ ولی سے زیادہ حق رکھتی ہے یعنی ایسا نہیں ہے کہ ولی جبرا کہیں بھی اپنی مرضی سے شادی کردے ثیبہ کی اجازت ضروری ہے۔ بخاری شریف کی ایک روایت سے ثیبہ کے لئے  بھی ولی ہونے کا پتہ چلتا ہے ۔نبی ﷺ کا فرمان ہے :
لا تُنكَحُ الأيِّمُ حتى تُستأمَرَ، ولا تُنكَحُ البكرُ حتى تُستأذَن. قالوا: يا رسولَ الله، وكيف إذنُها؟ قال: أن تسكُتَ(صحيح البخاري:5136)
ترجمہ: بیوہ عورت کا نکاح اس وقت تک نہ کیا جائے جب تک اس کی اجازت نہ لی جائے اور کنواری عورت کا نکاح اس وقت تک نہ کیا جائے جب تک اس کی اجازت نہ مل جائے۔ صحابہ نے کہا کہ یا رسول اللہ! کنواری عورت اذن کیونکر دے گی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کی صورت یہ ہے کہ وہ خاموش رہ جائے۔ یہ خاموشی اس کا اذن سمجھی جائے گی۔
اس روایت سے جہاں اس بات کا علم ہوتا ہے ولی بغیر ثیبہ کی اجازت کے شادی نہیں کرسکتا ہے وہیں اس بات کا بھی علم ہوتا ہے کہ ثیبہ کی شادی کے لئے ولی بھی ہونا چاہئے ۔
خلاصہ یہ ہواکہ ثیبہ کے لئے بھی ولی چاہئے وہ بغیر ولی کے کسی سے اپنا نکاح نہیں کرسکتی ہے اور ہاں چونکہ وہ اپنے نفس کے لئے ولی سے زیادہ حق رکھتی ہے اس وجہ سے اگر ولی نےکہیں اس کا نکاح طے کیا اور ثیبہ نے انکار کردیا تو ولی اس پر جبر نہیں کرسکتا لیکن اگر لڑکی نے کہیں شادی کا ارادہ کیا اور ولی نے منع کردیا تو اس پر قاضی اصرار کرسکتا ہے اگر اصرار سے مان جائے تو پھر ثیبہ کی شادی کردی جائے گی جیساکہ امام نووی رحمہ اللہ نے شرح مسلم میں اس کا ذکر کیا ہے ۔ ابوداؤد کی مندرجہ ذیل حدیث بھی اسی معنی میں لی جائے گی ۔
ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں:
أنَّ رسولَ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليْهِ وسلَّمَ قالَ ليسَ للوليِّ معَ الثَّيِّبِ أمرٌ واليتيمةُ تستأمرُ وصمتُها إقرارُها(صحيح أبي داود:2100)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ولی کا ثیبہ عورت پر کچھ اختیار نہیں، اور یتیم لڑکی سے پوچھا جائے گا اس کی خاموشی ہی اس کا اقرار ہے ۔

واللہ اعلم
کتبہ

مقبول احمد سلفی

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔