Sunday, February 26, 2017

حدیث : اللہ کى ناپسند حلال چیز طلاق

حدیث : اللہ کى ناپسند حلال چیز طلا ق

مقبول احمد سلفی

اس حدیث کے متعلق یہی مشہور ہے کہ یہ مرسل روايت ہے مگر ابودوؤد نے پہلی روایت مرسل اور دوسری روایت موصولا ذکر کیا ہے ۔ دونوں روایت مع سند دیکھیں :
(1) حدثنا أحمد بن يونس حدثنا معرف عن محارب قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ما أحل الله شيئا أبغض إليه من الطلاق۔ (ابوداؤد: 2177)
ترجمہ : محارب سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایاکہ اللہ تعالی کو حلال چیزوں میں سب سے زیادہ ناپسند طلاق ہے۔
(2) حدثنا كثير بن عبيد حدثنا محمد بن خالد عن معرف بن واصل عن محارب بن دثار عن ابن عمر عن النبي صلى الله عليه وسلم قال أبغض الحلال إلى الله تعالى الطلاق ۔ (ابوداؤد: 2178)
ترجمہ : عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں آپ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ کے نزدیک حلال چیزوں میں سب سے زیادہ ناپسندیدہ چیز طلاق ہے۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ جہاں یہ روایت مرسلا وارد ہے وہیں متصلا بھی مذکور ہے۔
روایت کا حکم : اس روایت کے حکم کے سلسلے میں کافی اختلاف ہے۔ اکثر نے ضعف کا حکم لگایا ہے مگر بعض اہل علم کا کہنا ہے کہ یہ حدیث اگرچہ درجہ صحت سے گرجاتی ہے مگر درجہ حسن سے نہیں کیونکہ اس کا شاہد ہے ۔
ابن الجوزی نے العلل میں راوی عبيد الله بن الوليد الوصافي کو معلول قرار دیا ہے ، وہ ابوداؤد کی پہلی حدیث ہے اور دوسری حدیث 2178 والی میں یہ راوی موجود نہیں ہے ۔ اس صورت میں مرسل روایت اس کی مؤید بن جائے گی ۔
شیخ ابن بازؒ نے عبداللہ بن عمر والی روایت " أبغضُ الحلالِ إلى اللهِ الطلاقُ" کے متعلق لکھا ہے کہ یہ مرسل روایت کی گئی ہے مگر راحج یہ ہے کہ متصل ہے اور اس کی سند جید و قوی ہے ۔ دیکھیں : (حاشية بلوغ المرام لابن باز: 612)
حدیث کا معنی : بعض اہل علم نے اس حدیث پہ معنی کی وجہ سے کلام کیا ہے کہ ایک وقت میں کوئی چیز حلال بھی ہو اور ناپسندیدہ بھی یہ کیسے ہوسکتا ہے ؟
حقیقت میں اس کا معنی بالکل درست ہے اور اس میں کوئی نکارت نہیں ہے۔
یعنی اللہ تعالی کی بندوں پہ مہربانی ہے کہ طلاق کو ناپسند کیا ہے بغیر کسی سبب کے دینے سے مگر طلاق دینا شرعی عذر کی بنا پہ جائز ٹھہرایا ہے ۔
خطابی نے کہا کہ کراہت نفس طلاق سے نہیں ہے بلکہ ان اسباب سے ہے جو طلاق میں واقع ہونے کی طرف لے جاتے ہیں ۔ وہ ہیں سوء معاشرت اور غیرہمہ ہنگی جو طلاق کا سبب بنتی ہیں ۔
اس حدیث کا معنی بھی درست ہے اس کی وضاحت ایک دوسری حدیث سے ہوتی ہے ۔
خيرُ البقاعِ المساجدُ ، و شرُّ البقاعِ الأسواقُ (صحيح الجامع للالباني : 3271)
ترجمہ : سب سے بہترین جگہ مسجد ہے اور بدترین جگہ بازار ہے۔
بازار جانا منع نہیں ہے پھر بھی اللہ تعالی کے نزدیک بدترین جگہ ہے ۔
میں نصیحت کرتا ہوں کہ میاں بو ی کو شادی کے بعد اچھی زندگی بسرکرنا چاہئے اور ان تمام اسباب سے بچنا چاہئے جو طلاق کی طرف لے جاتے ہیں ۔


0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔