Monday, February 27, 2017

قبر میں ماں اور بچہ زندہ ہونےسے متعلق منکر روایت

قبر میں ماں اور بچہ زندہ ہونےسے متعلق  منکر روایت

مقبول احمد سلفی

حضرت سیدنا زید بن اسلم رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں: میرے والد نے بتایا کہ ایک مرتبہ حضرت عمر بن خطا ب رضی اللہ تعالیٰ عنہ لوگو ں کے درمیان جلوہ فرماتھےکہ اچانک ہمارے قریب سے ایک شخص گزرا جس نے اپنے بچے کو کندھوں پر بٹھا رکھا تھا۔ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب ان باپ بیٹے کو دیکھا تو فرمایا : ''جتنی مشابہت ان دونوں میں پائی جارہی ہے میں نے آج تک ایسی مشابہت اور کسی میں نہیں دیکھی۔''یہ سن کر اس شخص نے عرض کی : ''اے امیر المؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ! میرے اس بچے کا واقعہ بہت عجیب وغریب ہے، اس کی ماں کے فوت ہونے کے بعد اس کی ولادت ہوئی ہے۔'' یہ سن کر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:'' پوراواقعہ بیان کرو۔'' وہ شخص عرض کرنے لگا:''اے امیر المؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ !میں جہاد کے لئے جانے لگا تو اس کی والدہ حاملہ تھی،میں نے جاتےوقت دعا کی :''اے اللہ عزوجل! میری زوجہ کے پیٹ میں جو حمل ہے میں اُسے تیرے حوالے کرتاہوں، تُوہی اس کی حفاظت فرمانا۔ ''یہ دعا کر کے میں جہاد کے لئے روانہ ہوگیا جب میں واپس آیا تو مجھے بتایا گیا کہ میری زوجہ کا انتقال ہوگیا ہے ،مجھے بہت افسوس ہوا ۔ایک رات میں نے اپنے چچازاد بھائی سے کہا :''مجھے میری بیوی کی قبر پر لے چلو۔'' چنا نچہ ہم جنت البقیع میں پہنچے اور اس نے میری بیوی کی قبر کی نشاندہی کی۔جب ہم وہاں پہنچے تودیکھا کہ قبر سے روشنی کی کرنیں باہر آرہی ہیں۔میں نے اپنے چچازاد بھائی سے کہا :'' یہ رو شنی کیسی ہے؟'' اس نے جواب دیا: ''اس قبر سے ہر رات اسی طر ح روشنی ظاہر ہوتی ہے ،نہ جانے اس میں کیا راز ہے؟'' جب میں نے یہ سنا تو ارادہ کیا کہ میں ضرور اس قبر کو کھود کر دیکھو ں گا ۔'' چنانچہ میں نے پھاؤڑا منگوایا ابھی قبر کھود نے کا ارادہ ہی کیا تھا کہ قبر خود بخود کھل گئی۔ جب میں نے اس میں جھانکا تو اللہ عزوجل کی قدرت کا کرشمہ نظر آیا کہ یہ میرا بچہ اپنی ماں کی گو د میں بیٹھا کھیل رہا تھا جب میں قبر میں اُتر ا تو کسی ندادینے والے نے ندادی :'' تُو نے جو امانت اللہ عزوجل کے پا س رکھی تھی وہ تجھے واپس کی جاتی ہے ، جا! اپنے بچے کو لے جا، اگر تُواس کی ماں کو بھی اللہ عزوجل کے سپرد کر جاتا تو اسے بھی صحیح وسلامت پاتا ۔''پس میں نے اپنے بچے کو اٹھا یا اور قبر سے باہر نکالا جیسے ہی میں قبر سے باہر نکلا قبر پہلے کی طر ح دوبارہ بند ہوگئی۔)
 (عُیُوْنُ الْحِکَایَات )حصہ اوّل ( مؤلف امام ابوالفرج عبدالرحمن بن علی الجوزی علیہ رحمۃ اللہ القوی المتوفیٰ ۵۹۷ ھ)
تبصرہ بر واقعہ :
یہ واقعہ لوگوں میں کافی پھیلایا گیا ہے ، اسے وہ لوگ پھیلارہے ہیں جوکتاب وسنت کی اصل تعلیم سے بے بہرہ ہیں ، بطور خاص دین میں غلو کرنے والے صوفی لوگ جن کا  مذہب  صوفیت اور کشف وکرامات  پرہی مبنی ہے ۔ اس واقعہ کو امام طبرانی نے اپنی کتاب الدعاء میں ذکر کیا ہے ۔ یہاں سند ومتن کے ساتھ پیش ہے ۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَبَّاسِ الْمُؤَدِّبُ ، ثنا عُبَيْدُ بْنُ إِسْحَاقَ الْعَطَّارُ ، ثنا عَاصِمُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ زَيْدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ ، حَدَّثَنِي زَيْدُ بْنُ أَسْلَمَ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ : بَيْنَمَا عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَعْرِضُ النَّاسَ إِذَا هُوَ بِرَجُلٍ مَعَهُ ابْنُهُ ، فَقَالَ لَهُ عُمَرُ : " مَا رَأَيْتُ غُرَابًا بِغُرَابٍ أَشْبَهَ بِهَذَا مِنْكَ ، قَالَ : أَمَا وَاللَّهِ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ ، مَا وَلَدَتْهُ أُمُّهُ إِلا مَيِّتَةً ، فَاسْتَوَى لَهُ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، فَقَالَ : وَيْحَكَ حَدِّثْنِي ، قَالَ : خَرَجْتُ فِي غَزَاةٍ ، وَأُمُّهُ حَامِلٌ بِهِ ، فَقَالَتْ : تَخْرُجُ وَتَدَعُنِي عَلَى هَذِهِ الْحَالَةِ حَامِلا مُثْقَلا ، فَقُلْتُ : أَسْتَوْدِعُ اللَّهَ مَا فِي بَطْنِكِ ، قَالَ : فَغِبْتُ ، ثُمَّ قَدِمْتُ ، فَإِذَا بابي مُغْلَقٌ ، فَقُلْتُ : فُلانَةُ ، فَقَالُوا : مَاتَتْ ، فَذَهَبْتُ إِلَى قَبْرِهَا فَبَكَيْتُ عِنْدَهُ ، فَلَمَّا كَانَ مِنَ اللَّيْلِ قَعَدْتُ مَعَ بَنِي عَمِّي أَتَحَدَّثُ ، وَلَيْسَ يَسْتُرُنَا مِنَ الْبَقِيعِ شَيْءٌ ، فَارْتَفَعَتْ لِي نَارٌ بَيْنَ الْقُبُورِ ، فَقُلْتُ لِبَنِي عَمِّي : مَا هَذِهِ النَّارُ ؟ فَتَفَرَّقُوا عَنِّي ، فَأَتَيْتُ أَقْرَبَهُمْ مِنِّي ، فَسَأَلْتُهُ ، فَقَالَ : نَرَى عَلَى قَبْرِ فُلانَةَ كُلَّ لَيْلَةٍ نَارًا ، فَقُلْتُ : إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ ، أَمَا وَاللَّهِ إِنْ كَانَتْ لَصَوَّامَةً قَوَّامَةً عَفِيفَةً مُسْلِمَةً ، انْطَلِقْ بِنَا ، فَأَخَذْتُ الْفَأْسَ ، فَإِذَا الْقَبْرُ مُنْفَرِجٌ ، وَهِيَ جَالِسَةٌ ، وَهَذَا يَدِبُّ حَوْلَهَا ، وَنَادَى مُنَادٍ : أَلا أَيُّهَا الْمُسْتَوْدِعُ رَبَّهُ وَدِيعَتَهُ خُذْ وَدِيعَتَكَ ، أَمَا وَاللَّهِ لَوِ اسْتَوْدَعْتَ أُمَّهُ لَوَجَدْتَهَا ، فَأَخَذْتُهُ وَعَادَ الْقَبْرُ كَمَا كَانَ فَهُوَ وَاللَّهِ هَذَا يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ " .( الدعاء للطبراني, حديث رقم : 756(
دکتور محمد سعید بن محمد حسن البخاری نے کتاب الدعاء کے احادیث کی تخریج کی ہے ، اس میں انہوں نے بتلایا ہے کہ اس کی سند ضعیف ہے کیونکہ اس میں عبید بن اسحاق العطار ضعیف ہے ۔ (کتاب الدعاء : تحقیق و تدقیق دکتور محمد سعید بن محمد حسن البخاری ص : 1183)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اسے غریب موقوف کہا ہے اور کہا ہے کہ اس کے رواۃ سارے ثقہ ہیں سوائے عبید بن اسحاق کے ۔(الفتوحات الربانیہ 5/114)

تو اس روایت کے ایک راوی عبید بن اسحاق العطار کے ضعیف ہونے کی وجہ سے یہ روایت ناقابل استدلال ہے ۔ اس راوی کو ابن حجر رحمہ اللہ ، دار قطنی رحمہ اللہ ، امام بخاری رحمہ اللہ اور یحی بن معین رحمہ اللہ نے ضعیف کہا ہے۔ بعض محدثین نے کذاب ، بعض نے منکر روایت کرنے والا اور بعض نے باطل روایت کرنے والا کہا ہے ۔ 

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔