Monday, February 13, 2017

کیا زندگی کا مقصدمحض پیٹ پالناہے؟

کیا زندگی کا مقصدمحض پیٹ پالناہے؟

مقبول احمدسلفی
داعی اسلامک دعوۃ سنٹر-طائف

کافروں سے سوال کیا جائے کہ زندگی کا مقصد کیا ہے تو عموما جواب نہیں ملے گا کیونکہ اس کے متعلق ان کے پاس کوئی سوچ نہیں ہوگی لیکن ان میں سے کثرت سے یہ جواب بھی دیں گے کہ زندگی کا مقصد موج ومستی اور عیش کرنا ہے ۔ اسی لئے کافروں کی تگ ودو کھانے پینے اور دنیاوی زندگی بہتر سے بہتر بنانے کی فکرتک محدود ہوتی ہے ۔ ان کے لئے جنت یہی دنیا ہے اس دنیاوی جنت میں مگن آخرت کی فکر سے نابلد ہیں ۔
آج بیشترمسلمان بھی کافروں کی دیکھا دیکھی اسی بات کواپنا مقصد زندگی بنالیا ہے یعنی کھانا پینا ، پیٹ کی خاطر زندگی گزارنا ،بلافرق حلت وحرمت  اس کے لئے کچھ بھی کر گزرناجبکہ دنیا کی غذاء سے کبھی آسودگی نہیں ملی ۔ اگر ملی بھی تو وقتی طور پر ۔پھر باربار کی بھوک وپیاس نے نادان مسلمانوں کو رب سے ملاقات ، آخرت کی تیاری اور دنیا کو دار الامتحان سمجھنے سے غافل کردیا ۔ کھانا زندگی کا مقصد نہیں بلکہ انسانی جسم  کی ضرورت اور صحت کی بقا کے لئے ہے ۔مقصد زندگی توصرف ایک اللہ کی عبادت ہے یعنی اللہ کے احکام کے مطابق زندگی گزارنا انسانی تخلیق کا عین مقصد ہے ۔ اگر کوئی صحت کی ضرورت پوری کرنے کے لئے جائز طریقے سے روزی کماتا ہے  اور اپنے اہل وعیال کی پرورش کرتا ہے تو یہ بھی عبادت میں داخل ہے اور تقرب الہی کا سبب ہے لیکن ناجائز طریقے سے کیا ہوا کوئی بھی کام عبادت کے منافی  اور رب کی ناراضگی کا سبب ہے۔اس بات کو ذہن نشین کرلیں۔
اتنی تمہید میں نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے سنہرے قول کا ذکر کرنے کے لئے باندھی ہے تاکہ بات ذہن میں پیوست ہوجائے  اور اس سے سبق حاصل کریں ۔
ابن مبارک رحمہ اللہ نےاپنی کتاب الزہد والرقائق میں ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قول نقل ہے ، اسے میں بسندومتن پیش کرتا ہوں ۔
أَخْبَرَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي أَيُّوبَ ، حَدَّثَنِي بَكْرُ بْنُ عَمْرٍو , عَنْ صَفْوَانَ بْنِ سُلَيْمٍ أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ , قَالَ : " لَيَأْتِيَنَّ عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ يَكُونُ هَمُّ أَحَدِهِمْ فِي بَطْنِهِ ، وَدِينُهُ هَوَاهُ۔ ( حوالہ : الزهد والرقائق لابن المبارك , بَابٌ : فِي طَلَبِ الْحَلالِ, رقم الحديث: 601)
ترجمہ:  حضرت عبد اللہ بن عباس سے مروی ہے کہ لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا جس میں آدمی کا اہم مقصد پیٹ پالنا ہوگا اور اپنی خواہش پر چلنا اس کا دین ہوگا۔
اثر کا درجہ : یہ اثر سندا صحیح ہے ، اس پر کوئی کلام نہیں ہے ، اس کا پہلا راوی سعید ثقہ  ہے ، دوسرا راوی بکر صدوق ہے اور تیسرا راوی صفوان ثقہ ہے تو یہ سند متصل بھی ہے اور اس کے راوی قابل اعتماد بھی ہیں ۔
تنبیہ :
بعض لوگ اس قول کو صفوان کی طرف منسوب کرتے ہیں، حقیقت میں ابن عباس رضی اللہ عنہما کا ہے ۔
بعض لوگ اسے نبی ﷺ کی طرف منسوب کرتے ہیں جوکہ بالکل غلط ہے ۔ یہ اثر ہے یعنی صحابی کا قول۔

شرح اثر: اس اثر کا پہلا ٹکڑا "لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا جس میں آدمی کا اہم مقصد پیٹ پالنا ہوگا" آج کے اکثر مسلمان اس کے مصداق ہیں خواہ پڑھا لکھا طبقہ ہو  يا  ناخواندہ طبقہ ۔ ناخواندہ  طبقہ تواس لئے کہ اس کے پاس شعور زندگی ہی نہیں مگر پڑھے لکھے لوگ اللہ سے بے خوف ، انجام سے بے خبر اور آخرت کی فکر سے غفلت کے سبب اس مرض مہلک میں مبتلاہے ۔
اور دوسرا ٹکڑا"اور اپنی خواہش پر چلنا اس کا دین ہوگا" اہل بدعت و ضلالت سے متعلق ہے جنہوں نے خواہشات کوہی اصل دین سمجھ لیا ہے ، طرح طرح کے رسم ورواج ، جھوٹے قصے کہانیوں اور خودساختہ باتوں کو دین سمجھ کر انجام دے رہے ، اور بھرپور اس کوشش میں ہیں کہ ان کے اس خودساختہ گمراہ راستے پر پوری دنیا کے لوگ آجائیں ۔ اس کے پیچھے  پوری گمراہ منصوبہ بندی  اور شیطانی نٹورکنگ کام کررہی ہے ۔
آج وہ زمانہ آگیا جس میں مذکورہ دونوں باتیں پائی جاتی ہیں ، یہاں مسلمانوں کا دیندار طبقہ جو اصل دین پر قائم ودائم ہے اور دنیا طلبی ، دجل وفریب ، بدعت وضلالت سے پاک ، حب دین ، فکرآخرت اور  رضائے الہی  سے سرشار ہے ،اس کے سر لوگوں کی اصلاح کی ذمہ داری ہے ۔
اولا : وہ سماج ومعاشرہ سے حب دنیا کا مرض ختم کرنے کی جہد مسلسل کرے ، یہ ناممکن ہے کہ سماج سے مکمل طور پر دنیا طلبی کا خاتمہ کرسکے مگر یہ ضرور ممکن ہے مسلمانوں کے اندر آخرت کی فکر بیدار کرسکے ، یہ فکر انسانوں کی اصلاح کے لئے بہت  حد تک کافی ہے اور ہماری ذمہ داری کوشش کرنی ہے ، توفیق وسعادت اللہ کی طرف سے ہے ۔
ثانیا: دین کے نام پر بدعت وضلالت کی نشرواشاعت حق کی تبلیغ کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ہے ۔ باشعور اور صحیح العقیدہ مسلمان کی ذمہ داری ہے کہ میڈیا  پر اپنی گرفت مضبوط کریں اور اس کے ذریعہ بدعت کے بڑھتے سیلاب کے سامنے بند باندھیں اور اسلام کے چولے میں چھپے بدعتی لوگوں کی نقاب کشائی کریں ۔

اللہ تعالی ہمارے اندر سے برے صفات کو دور کردے اور اچھے صفات کا حامل بنادے ۔ آمین

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔