Saturday, October 29, 2016

کیا غیراللہ کا ڈر شرک ہے ؟

کیا غیراللہ کا ڈر شرک ہے ؟

سوال :اللہ کے علاوہ دل میں کسی اور کا ڈر پیدا ہونے سے کیا شرک ہوجاتا ہے ؟
جواب :اللہ کا ڈراور اس کا خوف عبادت ہے ، بندہ جس قدر اللہ تعالی سے ڈرنے والا ہوگا اللہ کا اتنا مقرب اور محبوب ہوگا ۔ اللہ تعالی نے انسان کو محض اس سے ڈرنے کا حکم دیا ہے ۔ فرمان الہی ہے :
وَإِيَّايَ فَارْهَبُونِ [البقرة: 40].
ترجمہ: اور مجھ ہی سے ڈرو۔
اللہ کا فرمان ہے :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا (الاحزاب:70)
ترجمہ:اےایمان والو! اللہ سے ڈرتے رہو اور بات صاف سیدھی کیا کرو۔
ایک دوسری جگہ ارشادربانی ہے :
فَلَا تَخْشَوُا النَّاسَ وَاخْشَوْنِ وَلَا تَشْتَرُوا بِآيَاتِي ثَمَنًا قَلِيلًا[المائدة: 44]
ترجمہ: اب تمہیں چاہیے کہ لوگوں سے نہ ڈرو اور صرف میرا ڈر رکھو، میری آیتوں کو تھوڑے سے مول نہ بیچو۔
یہ ڈر اور خوف اللہ سے اپنی بساط بھر ہونا چاہئے جیساکہ اللہ کا فرمان ہے :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ [آل عمران: 102]
ترجمہ:اےایمان والو! اللہ سے اتنا ڈرو جتنا اس سے ڈرنا چاہیے دیکھو مرتے دم تک مسلمان ہی رہنا[آل عمران: 102]
گویا ڈرنے کا مستحق محض اللہ تعالی ہے اس کے مقابلے میں کسی سے ڈرنا عبادت میں شرک کہلائے گا اس کی دو صورت بن سکتی ہیں ۔
پہلی صورت : بندوں سے ڈرکر دین پر عمل کرنا چھوڑدے ۔
دوسری صورت: غیراللہ سے اس طرح ڈرنا یا ڈرنے کا عقیدہ رکھناکہ وہ اللہ کے بغیر خود سے نقصان پہنچاسکتا ہے مثلا بت، ولی ، جن ، میت اور خیالی بھٹکتی ارواح وغیرہ
اس با ت ذکر اللہ تعالی نے قرآن میں انداز میں کیا ہے :
إِنَّمَا ذَلِكُمُ الشَّيْطَانُ يُخَوِّفُ أَوْلِيَاءَهُ فَلَا تَخَافُوهُمْ وَخَافُونِ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ[آل عمران: 175]
ترجمہ: یہ خبر دینے والا شیطان ہی ہے جو اپنے دوستوں سے ڈراتا ہے تم ان کافروں سے نہ ڈرو اور میرا خوف رکھو اگر تم مومن ہو۔
اس لئے کسی صورت میں اللہ کے علاوہ دل میں دوسروں کا ڈر نہیں پیدا کیا جائے گا ، نفع و نقصان کا مالک صرف اللہ تعالی ہے ،اللہ کے حکم کے بغیر کوئی ہمارا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتا، فرمان الہی ہے :
وَإِن يَمْسَسْكَ اللَّهُ بِضُرٍّ‌ فَلَا كَاشِفَ لَهُ إِلَّا هُوَ ۖ وَإِن يَمْسَسْكَ بِخَيْرٍ‌ فَهُوَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ‌(سورة الأنعام:17)
ترجمہ: اگر اللہ تمہیں کسی قسم کا نقصان پہنچائے تو اس کے سوا کوئی نہیں جو تمہیں اس نقصان سے بچا سکے  اور اگر وہ تمہیں کسی بھلائی سے بہرہ مند کرے تو وہ ہر چیز پر قادر ہے۔
خوف بے چینی کا نام ہے جو بندہ کے دل میں فرائض و واجبات میں کوتاہی اور معصیات کے ارتکاب پر پیدا ہوتی ہے ، اسی طرح بندہ طاعت کرکے عدم قبولیت کے خدشے سے بھی ڈرتارہتاہے ۔
ہاں طبعی خوف اس خوف سے مستثنی ہے ، وہ فطری چیز ہے ، سانپ کو دیکھ کر، درندوں کو دیکھ کر انسان ڈرجاتا ہے ۔ یہ ڈر اللہ کے مقابلے میں نہیں ہوتا ہے یہ محض فطرتا ایسا ہوتا ہے جیساکہ موسی علیہ السلام سانپ سے ڈرگئے ۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے :
وَأَلْقِ عَصَاكَ ۚ فَلَمَّا رَآهَا تَهْتَزُّ كَأَنَّهَا جَانٌّ وَلَّىٰ مُدْبِرًا وَلَمْ يُعَقِّبْ ۚ يَا مُوسَىٰ لَا تَخَفْ إِنِّي لَا يَخَافُ لَدَيَّ الْمُرْسَلُونَ (النمل :10)
ترجمہ: تو اپنی لاٹھی ڈال دے ،موسی نے جب اسے ہلتا جلتا دیکھا اس طرح کہ گویا وہ ایک سانپ ہے تو منہ موڑے ہوئے پیٹھ پھیرکر بھاگے اور پلٹ کر بھی نہ دیکھا ،اے موسی! خوف نہ کھا،میرے حضور میں پیغمبرڈرا نہیں کرتے ۔
اللہ سے ڈرنے کا بدلہ جنت ہے ،اللہ کا فرمان ہے :
وَأَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ وَنَهَى النَّفْسَ عَنِ الْهَوَى،فَإِنَّ الْجَنَّةَ هِيَ الْمَأْوَى [النازعات: 40، 41]
ترجمہ: ہاں جو شخص اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے سے ڈرتا رہا ہوگا اور اپنے نفس کو خواہش سے روکا ہوگا۔ تو اس کا ٹھکانا جنت ہی ہے۔
اللہ تعالی ہمیں خوف و خشیت کی صفت سے متصف کردے ۔ آمین
واللہ اعلم
کتبہ

مقبول احمد سلفی 

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔