Monday, February 29, 2016

ولی کی اجازت کے بغیرشادی

ولی کی اجازت کے بغیرشادی



السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
میرا سوال یہ ہے کہ میں پردیس میں تھا،دوسری شادی کرنے کی خواہش ہونے کے سبب آپس میں ناراضگی تھی ۔ ایک دن میں نے اپنی بیوی کو فون پہ طلاق دے دیا اور ایک ہی مرتبہ طلاق طلاق طلاق بول دیا۔ اور یہ بھی کہا تم اپنے گھر چلی جاؤلیکن وہ اپنے میکے نہ گئی ، میرے ہی یہاں گذربسر کرتی رہی کیونکہ اس نے میرے گھروالوں کو اپنا بنارکھاتھا۔ سولہ ماہ بعد جب میں گھر گیاتو وہاں کے علماء نے کہا کہ وضوکرکے دورکعت نماز پڑھ لو معاملہ ختم ہوجائے گا نکاح کرنے کی ضرورت نہیں ۔بعد میں ایک دوسرے عالم سے سوال کیا توانہوں نے کہا کہ طلاق واقع ہوگئی ہے اب حلالہ کرنا پڑے گا۔
میں نے حلالہ نہیں کیا اور واپس پردیس چلا آیا، یہاں سے پھر دوسال بعدگھرگیا تب تک عورت میرے یہاں ہی تھی ۔ کسی عالم نے کہا کہ نیانکاح کرلو تو میں نےنیانکاح کرلیا۔ طلاق کے متعلق لڑکی کے گھروالوں کو کچھ معلومات ہی تھی اور لوگوں کے کہنے سے لڑکی کے والد کو اطلاع کئے اور شرکت کئے بغیرنکاح ہوگیا۔میری اس شادی کا کیا حکم ہے ؟
سائل: فیروزخان
شرکہ یوسف الجرید، طائف، سعودی عرب
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
الجواب بعون اللہ الوھاب
الحمد للہ :
جیساکہ سوال میں مذکور ہے کہ پہلے فون پہ طلاق طلاق طلاق کہی گئی ۔ ان الفاظ سے بیوی کوصرف ایک طلاق واقع ہوئی۔
چنانچہ صحیح مسلم میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ عہدنبیﷺ اور عہد ابو بکر اور عمر فاروق کی خلافت کے ابتدائی دو سالوں تک (ایک مجلس کی) تین طلاقیں ایک ہی طلاق شمار ہوتی تھیں۔ پھر سیدنا عمر نے فرمایا کہ جس معاملے (طلاق) میں لوگوں کو سوچ وبچار سے کام لینا چاہئے تھا اس میں وہ جلد بازی سے کام لینے لگے ہیں، لہٰذا ہم کیوں نہ اسے نافذ کر دیں، چنانچہ آپ نے اس کو ان پر لاگو کر دیا۔
لہذا ایک وقت میں جتنی بھی طلاق دی جائے ایک ہی مانی جائے گی ۔
طلاق دینے کے بعد تین حیض عورت کی عدت ہوتی ہے ، تین حیض کے گذرتے ہی عورت مرد سے جدا ہوجائے گی ، بایں سبب تین حیض کے بعد عورت آپ سے جدا ہوگئی۔ طلاق کے بعد عورت کو گھر سے چلا جانا چاہئے تھا۔
عورت دوسال سے زائد عرصے آپ کے گھر رہی اور آپ نے کسی کے کہنے پہ دوبارہ نکاح کیامگر طلاق ونکاح کے متعلق لڑکی کے والد کو خبر نہیں دی گئی جبکہ ہونا تو یہ چاہئے تھاکہ طلاق ہوجانے کے بعدبھی اگر لڑکی سسہرال سے جانے کو تیار نہیں تھی تو اس کی خبر لڑکی کے گھروالوں کو دی جاتی تاکہ کوئی حل نکل جاتا۔ اس پہ مستزاد کہ ولی کی اجازت کے بغیرشادی کی گئی اور اسلام میں کوئی شادی (لڑکی باکرہ ہو یا ثیبہ ) بغیر ولی کی اجازت کے باطل ہے ۔
شیخ البانی ؒ نے صحیح ابن ماجہ (1537) کے تحت ذکر کیاہے : "لا نِكاحَ إلَّا بوليٍّ" نبی ﷺ کا فرمان ہے کہ بغیر ولی کے نکاح نہیں ہے ۔ اسی طرح صحیح ابوداؤد للالبانی (رقم : 2083)میں ہے :
أيُّما امرأةٍ نَكَحَت بغيرِ إذنِ مَواليها ، فنِكاحُها باطلٌ ، ثلاثَ مرَّاتٍ۔ یعنی جس عورت نے اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کیا اس کا نکاح باطل ہے.
لہذا آپ کی یہ شادی نہیں ہوئی آپ کو چاہئے کہ ولی کی اجازت کے ساتھ دوبارہ نکاح پڑھائیں ۔


واللہ اعلم بالصواب

کتبہ
مقبول احمد سلفی

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔