قرآن کی آیت سے میت کی زندگی پہ غلط استدلال
================
مقبول احمد سلفی
مقبول احمد سلفی
سورہ آل عمران کی ایک آیت سے غلط استدلال کیا جاتا ہے اور کہا جاتا
ہے کہ سارے ولی
اپنی قبروں میں زندہ ہیں ۔ یہ
قرآن کی آیت کا غلط معنی ہے ۔اس کا صحیح معنی و مطلب ذیل میں پیش کیا جاتا ہے ۔
آیت دیکھیں ۔
ولا تحسبن الذين قتلوا في سبيل الله أمواتا بل أحياء عند ربهم
يرزقون ( آل عمران:169)
ترجمہ :جو لوگ اللہ کے راستے میں شہید ہوجائیں، انہیں مردہ نہ کہو
وہ زندہ ہیں لیکن تم (اے انسانو) شعور نہیں رکھتے۔
یہ آیت عام لوگوں سے متعلق نہیں بلکہ صرف اور صرف شہیدوں سے متعلق
ہے جو اللہ کی راہ میں شہید ہوگئے ۔
اورقرآن کی اس آیت میں شہید کو جو زندہ کہا گیا ہے وہ دنیاوی
اعتبار سے نہیں بلکہ اخروی اعتبارسے ، یعنی شہیدوں کی زندگی دنیاوی نہیں ,اخروی
زندگی ہے ۔ دنیاوی اعتبار سے شہید بھی وفات پا چکے ہیں ۔ قرآن و حدیث میں سیکڑوں
دلیلیں ہیں جو یہ بتلاتی ہیں کہ دنیا کی ہرشی فانی ہے اور ہرنفس کو موت آئے گی ،
کوئی بھی موت سے نہیں بچے گا خواہ نبی ہوں ، شہید ہو ں یا ولی ہوں۔
قرآن کی مذکورہ بالاآیت میں زندگی سے مراد آخرت والی زندگی ہے ،
دنیاوی اعتبار سے شہید وفات پاچکے ہیں ۔ اس کی چند دلیل دیکھیں :
(1) لمَّا قُتِلَ عبدُ اللَّهِ ابن عَمرِو بنِ حرامٍ يومَ أُحُدٍ
قالَ رسولُ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ علَيهِ وسلَّمَ: يا جابرُ، ألا أخبرُكَ ما قالَ
اللَّهُ عزَّ وجلَّ لأبيكَ؟ قلتُ: بلَى، قالَ: ما كلَّمَ اللَّهُ أحدًا إلَّا من
وراءِ حجابٍ، وَكَلَّمَ أباكَ كِفاحًا فقالَ: يا عَبدي تمنَّ عليَّ أُعْطِكَ قالَ:
يا ربِّ، تُحييني فأُقتَلُ فيكَ ثانيةً قالَ: إنَّهُ سبقَ منِّي أنَّهم إليها لا
يرجِعونَ قالَ: يا ربِّ، فأبلِغْ مَن ورائي، فأنزلَ اللَّهُ عزَّ وجلَّ هذِهِ
الآيةَ وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتًا
الآيةَ كلَّها(ابن ماجہ:2800)
ترجمہ: جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ جب جنگ احد میں
(ان کے والد) عبداللہ بن عمر و بن حرام رضی اللہ عنہ قتل کردیے گئے تورسول اللہ ﷺ
نے فرمایا: ''جا بر! اللہ تعالی نے تمہارے والد سے جو فرمایا ہے کیا میں تمہیں وہ
نہ بتا ئوں ؟'' میں نے کہا:کیوں نہیں! ضرور بتائیے، آپ ﷺنے فرمایا:'' اللہ تعالی
نے جب بھی کسی سے بات کی تو پردہ کے پیچھے سے لیکن تمہارے والد سے آمنے سامنے بات
کی، اورکہا:اے میرے بندے !مجھ سے اپنی
خو اہش کا اظہا ر کرو، میں تجھے عطا کر وں گا'' انہوں نے کہا :اے
میرے رب ! تو مجھے دو بارہ زندہ کر دے کہ میں دو بارہ تیرے راستے میں مارا جاؤں، اللہ تعالی نے
فرمایا: اس با ت کا پہلے ہی فیصلہ ہو چکا ہے کہ دنیا میں دوبارہ لو ٹا یا نہیں جا
ئے گا، انہوں نے کہا : اے میرے رب! میرے پسما ندگان کو( میر احال ) پہنچادے، تو یہ
آیت نا زل ہوئی: {وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ
أَمْوَاتًا } (سورۃ آل عمران: ۱۶۹) جولو گ اللہ کی راہ میں ما رے گئے انہیں تم مردہ
مت سمجھو۔
٭ اس حدیث البانی ؒ نے حسن قرار دیا ہے ۔(صحیح ابن ماجہ : 2276)
وضاحت : یہ حدیث صریح دلیل ہے کہ شہید بھی وفات پاچکے ہیں ، شہیداللہ
سے دوبارہ زندگی مانگتے ہیں مگر وفات پانے کے بعد
دوبارہ کوئی دنیا میں نہیں آسکتا۔
(2) عَنْ أَبِي هُرَ يْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ "
مَا يَجِدُ الشَّهِيدُ مِنَ الْقَتْلِ إِلا كَمَا يَجِدُ أَحَدُكُمْ مِنَ
الْقَرْصَةِ "۔
(ابن ماجہ :2802)
ترجمہ : ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے
فرمایا:شہید کو قتل سے اتنی ہی تکلیف ہوتی ہے جتنی کہ تمہیں چیونٹی کاٹنے سے ہوتی
ہے۔
* اسے شیخ البانی ؒ نے حسن صحیح کہا ہے ۔ (صحیح ابن ماجہ : 2278)
وضاحت : اس حدیث میں بتلایا گیا ہے کہ شہید کو قتل کے ذریعہ جب
وفات ہوتی ہے تو انہیں چیونٹی کاٹنے کے برابر تکلیف ہوتی ہے ۔
(3)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا:
مَن قُتِلَ في سبيلِ اللَّهِ فَهوَ شَهيدٌ ، ومن ماتَ في سبيلِ
اللَّهِ فَهوَ شَهيدٌ ، ومَن ماتَ في الطَّاعونِ فَهوَ شَهيدٌ ، ومَن ماتَ في
البَطنِ فَهوَ شَهيدٌ (مسلم :1915)
جو اللہ کی راہ میں قتل کِیا گیا وہ شہید ہے،اورجو اللہ کی راہ میں
نکلا (اور کسی معرکہِ جِہاد میں شامل ہوئے بغیر مر گیا ، یا جو اللہ کے دِین کی
کِسی بھی خِدمت کے لیے نکلا اور اُس دوران )مر گیا وہ بھی شہید ہے ، اور اور جو
طاعون (کی بیماری )سے مر گیا وہ بھی شہید ہے، اورجو پیٹ (کی بیماری )سے مر گیا وہ
بھی شہید ہے۔
وضاحت : اس حدیث میں اللہ کی راہ میں قتل ہونے والے کو کہا گیا جو
اللہ کی راہ میں مر جاتے ہیں وہ شہید ہیں ۔
مذکورہ بالا نصوص سے پتہ چلا کہ قرآن کی آیت میں مذکور " اللہ
کی راہ میں قتل ہونے والے کو مردہ مت کہو" آخرت کی زندگی ہے ، اور شہداء بھی
قتل ہونے سے وفات پاجاتے ہیں ۔ اس لئے صوفیوں اور بریلویوں کا اس آیت سے ولیوں کےاپنی
قبروں میں زندہ ہونے پہ استدلال کرنا غلط ہے۔ باختصار چند
اسباب ذکر کرتا ہوں ۔
٭ قرآن کی آیت شہید کے لئے خاص ہے ، اس لئے "اولیاء اپنی قبروں میں زندہ ہیں"
کہنا خلاف شرع ہے ۔
٭شہید بھی قتل ہونے سے وفات پاجاتے ہیں ، ورنہ ان کی تدفین نہ کی
جاتی ؟ جب شہید بھی وفات پاتے ہیں تو اولیاء بدرجہ اولی ۔
٭ آیت میں ذکر ہے شہیدوں
کو روزی ,اللہ کے پاس دی جاتی ہے ، اس لئے دنیاوی زندگی مراد لینا غلط ہے ۔
٭ سورہ آل عمران کی مذکورہ بالاآیت کی مزید وضاحت سورہ بقرہ کی ِآیت
نمبر 154 سے ہوتی ہے۔
وَلَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ يُّقْتَلُ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ
اَمْوَاتٌ ۭ بَلْ اَحْيَاءٌ
وَّلٰكِنْ لَّا تَشْعُرُوْنَ ۔(البقرہ:154)
ترجمہ: اور جو اللہ کی راہ میں مارے جائیں انہیں مرا
ہوا نہ کہا کرو بلکہ وہ تو زندہ ہیں لیکن تم نہیں سمجھتے۔
یہ آیت صاف بتلاتی ہے کہ شہید کی زندگی برزخی
ہے جس کے بارے میں ہمیں کچھ علم نہیں ۔
٭ اگر انبیاء ، شہداء اور اولیاء وغیرہ زندہ ہوتے، ہماری بات سنتے،
ہماری مدد کرتے تو دین و دنیا کا کوئی بھی کام مشکل نہیں ہوتا، اور خاص طور سے دین
میں کوئی اختلاف نہیں پایا جاتا۔ لوگ ہربات نبی سے یا اولیاء سے پوچھ لیتے اور وہ
لوگ اپنی قبروں سے صحیح جواب دے دیتے مگر ایسا نہیں ہوتا۔
٭انبیاء
بھی وفات پاتے ہیں جیساکہ قرآن وحدیث میں
بہت سارے دلائل موجود ہیں ۔ جب انبیاء کو موت آتی ہے تو پھر دیگر لوگوں کو بدرجہ
اولی موت آئے گی ۔
اس لئے یہ کہنا کہ " اولیاء اپنی قبروں
میں زندہ ہیں" غلط ہے البتہ یہ کہہ
سکتے ہیں کہ اولیاء کو قبروں میں برزخی زندگی ملی ہے مگر اس زندگی کے بارے میں
ہمیں کچھ معلوم نہیں جیساکہ قرآن بتلاتا ہے ۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔
اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔