دھوپ اور سایہ کے بیچ بیٹھنا یا سونا
=================
مقبول
احمد سلفی
انسان
کو سورج کی اشد ضرورت ہے اس لئے اللہ تعالی نے کائنات کی ایک مخلوق سورج بنایا ۔ انسانی
زندگی میں اس کے بہت سارے فوائد ہیں ، ان میں سے ایک اہم فائدہ دھوپ حاصل کرنا ہے
۔ یہ دھوپ انسان کے ساتھ تقریبا تمام مخلوقات کی ضرورت ہے ۔
انسان
کے تمام تر اعمال کا دارومدار دھوپ پہ ہے۔ اس دھوپ سے ہمیں دیگر فوائد کے علاوہ جسمانی
فوائد بھی ملتے ہیں۔ سارے فوائد کے ہوتے ہوئے سائنسی طب نے دھوپ میں سونا مضر قرار
دیا ہےحالانکہ اسلامی طب میں دھوپ میں سونے کی ممانعت یا نقصان کا ذکر نہیں ہے ۔
البتہ
دھوپ اور سایہ کے درمیان بیٹھنا یا سونا اسلام میں منع ہے ۔ دلیل
:
عن
بن بريدة عن أبيه: أن النبي صلى الله عليه وسلم نهى أن يقعد بين الظل والشمس. (ابن
ماجه)
ترجمہ
: بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے دھوپ اور سایہ کے درمیان بیٹھنے
سے منع کیا ہے ۔
٭ شیخ البانی نے اس حدیث کو
صحیح قراردیا ہے ۔
دھوپ
میں نکلنا ، اس میں بیٹھنا اور خصوصا سردی کے موسم میں دھوپ میں لیٹ جانا یہ امر طبعی
ہے ، لیکن حدیث کی روشنی میں دھوپ اور سایہ کے درمیان بتٹھنا یا لیٹنا منع ہے ۔
ممانعت کا درجہ : مذکورہ حدیث میں ممانعت
سے کونسی ممانعت مراد ہے ؟
اس
میں اہل علم کے درمیان کچھ اختلاف ہے ۔ راحج بات یہ ہے کہ یہ ممانعت ادب و ارشاد کے
زمرے میں ہے اسے کراہت پہ محمول کی جائےگی ،حرمت پہ نہیں کیونکہ حرمت پہ دلالت کرنے
کے لئے نص چاہئے۔ گویادھوپ اور سایہ کے درمیان لیٹنا یا بیٹھنا مکروہ ہے حرام نہیں
ہے ۔
یہ
بات اس لئے بھی قوی معلوم ہوتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ سےدھوپ اور سایہ کے بیچ بیٹھنا ثابت
ہے ۔
عن
أبي هريرة رضي الله عنه قال: رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم قاعدا في فناء الكعبة
بعضه في الظل وبعضه في الشمس(بیہقی ح : 5922)
ترجمہ:بیہقی
نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ میں نے رسول اکرم ﷺ کو دیکھا آپ ﷺ کعبہ
کے صحن میں بیٹھے ہوئے تھے، اور کچھ بدن آپ ﷺ کا سایہ میں تھا کچھ دھوپ۔
دھوپ اور سایہ کی دو صورتیں:
(1)کوئی آدمی دھوپ میں سویا یا بیٹھا پھر اس کے ساتھ سایہ بھی بدن
کے کچھ حصے پہ آگیا۔
(2) ایک آدمی اس وقت بیٹھا یا سویا بدن کے کچھ حصے پہ دھوپ تھی اور کچھ حصے پہ سایہ تھا۔
یہ
دونوں صورتیں منع ہیں۔
ممانعت کی وجوہات:
٭ ایک وجہ بتائی جاتی ہے کہ
یہ شیطان کی مجلس ہے، اس کا ذکر حدیث میں آیا ہے ۔
عن
عُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرٍ قَالَ:حَدُّ الظِّلِّ وَالشَّمْسِ مَقَاعِدُ الشَّيْطَانِ۔(مصنف
ابن أبي شيبة5/ 267 بسند صحیح)
ترجمہ:
عبید بن عمیر نے کہا کہ سایہ اور دھوپ کی حد شیطان کی مجلس (بیٹھنے کی جگہ )ہے۔
إذا
كان أحدكم في الفيء فقلص عنه فليقم فإنه مجلس الشيطان. (رواه أبو داود وصححه الألباني)
ترجمہ:
”جب تم میں سے کوئی دھوپ میں ہو اور سایہ سمٹ جائے کہ بعض حصہ دھوپ میں اور بعض سایہ
میں ہو تو کھڑا ہوجائے یعنی وہ جگہ چھوڑدے کیونکہ وہ شیطان کی جگہ ہے۔(اس حدیث کو شیخ
البانی نے صحیح قرار دیا ہے)
٭ بعض لوگوں نے کہا ٹھنڈی اورگرمی
کا ایک ساتھ پایا جانا جسم کے لئے ضرررساں ہے۔
٭ سورج کی گرمی سے تکلیف ہوسکتی
ہے ۔
٭اس میں جسم کے ساتھ اعتدال
کا پہلو نہیں نکلتا ، یہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی ایک پیر میں جوتا پہنے۔
٭ شریعت کی ممانعت میں علت ڈھونڈنے
کی ضرورت نہیں ہے ، کسی چیز کی ممانعت ہوجائے تو آمنا اور صدقنا۔
واللہ
اعلم
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔
اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔