Monday, May 11, 2015

سودی بنکوں کے ذریعہ نقدی بھیجنے کا حکم

سودی بنکوں کے ذریعہ نقدی بھیجنے کا حکم

جب سودی بنکوں ہی کی وساطت سے رقوم بھیجنے کی مجبوری ہو تو اس میں ان شاء اللہ کچھ حرج نہیں ۔ کیونکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرماتے ہیں :
{وَ قَدْ فَصَّلَ لَکُمْ مَّا حَرَّمَ عَلَیْکُمْ اِلَّا مَا اضْطُرِرْتُمْ اِلَیْہِ} (الانعام: ۱۱۹)
’’اور جو کچھ اللہ نے تم پر حرام کیا ہے، اسے کھول کر بیان کر دیا ہے۔ الا یہ کہ تم کسی بات پر مجبور ہو جاؤ۔‘‘
اور اس میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ دور میں بنکوں کے ذریعہ رقوم بھیجنا عوام کی مجبوری ہے۔ اسی طرح حفاظت کی خاطر بھی رقم بنک میں جمع کرانا ایک مجبوری ہے جبکہ اس میں فائدہ (سود) کی شرط نہ رکھی جائے۔ اور اگر بنک والے بغیر شرط یا معاہدہ کے صاحب مال کو سود ادا کریں تو اس کے لینے میں کوئی حرج نہیں تا کہ وہ بھلائی کے کاموں میں خرچ کیا جا سکے۔ جیسے فقراء اور قرض میں ڈوبے ہوئے لوگوں کی امداد وغیرہ وغیرہ۔ صاحب مال ایسی رقم کو نہ اپنی ملکیت بنائے اور نہ اس سے کوئی فائدہ اٹھائے۔ بلکہ وہ ایسے مال کے حکم میں ہے جس کے چھوڑنے سے مسلمانوں کو نقصان پہنچتا ہے باوجودیکہ یہ ناجائز ذریعہ آمدنی ہے۔ لہٰذا اسے ایسے کاموں میں خرچ کرنا جن سے مسلمانوں کو فائدہ پہنچے، کافروں کے ہاں چھوڑنے سے بہتر ہے، جو اس رقم سے ایسے کاموں پر اعانت کرتے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہے۔ ہاں اگر اسلامی بنکوں یا کسی مباح ذریعہ سے رقم ارسال کرنا ممکن ہو تو پھر سودی بنکوں کے ذریعہ رقوم بھیجنا جائز نہ رہے گا۔ اسی طرح اگر اسلامی بنک یا اسلامی منڈی میسر آجائے تو مجبوری زائل ہونے کی بنا پر سودی بنکوں میں رقوم جمع کرانا جائز نہ رہے گا… اور توفیق دینے والا تو اللہ تعالیٰ ہی ہے۔
  
جلداول -صفحہ 150


0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔