Wednesday, April 1, 2015

نماز میں مقتدی کا آہستہ دعا اور ذکر کرنا

نماز میں مقتدی کا آہستہ دعا اور ذکر کرنا

بعض حضرات سادہ لوح عوام کو مرعوب کرنے کے لئے کہتے ہیں کہ تمہارے پاس نماز میں مقتدی کے آہستہ اذکار پڑھنے کے کوئی ثبوت نہیں ہیں ۔ یہاں پر تم کو فقہ کی ضرورت ہے ، گویا کہ تم بھی تقلید کرتے ہو۔
یہ بات غلط ہے کہ مقتدی کے آہستہ اذکار پڑھنے کے دلائل نہیں ۔ دلائل ملاحظہ فرمائیں ۔
:::قرآنی دلائل :::
(1) ادْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَخُفْيَةً إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ [الأعراف: 55]
ترجمہ : تم اپنے رب سے دعاء کیا کرو گڑگڑا کر کے اور چپکے چپکے بھی، واقعی اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو نا پسند کرتا ہے جو حد سے نکل جائیں۔
(2) ایک دوسری جگہ ارشاد ہے:{ وَاذْكُرْ رَبَّكَ فِي نَفْسِكَ تَضَرُّعًا وَخِيفَةً وَدُونَ الْجَهْرِ مِنَ الْقَوْلِ بِالْغُدُوِّ وَالْآصَالِ وَلَا تَكُنْ مِنَ الْغَافِلِينَ } [الأعراف: 205]
ترجمہ : اپنے رب کو اپنے دل میں یاد کرو عاجزی اور خوف کے ساتھ اور زور کی آواز کی نسبت کم آواز کیساتھ۔
ان دونوں آیات کریمہ میں اللہ تعالى نے ذکر کا اصول بتایا ہے کہ اللہ کا ذکراور دعا کرنا دل میں , اونچی آواز نکال بغیر کیا جائے ۔
لہذا تمام تر اذکار دل میں ہی کیے جائیں اور اونچی آواز نکالے بغیر کیے جائیں , ہاں جو اذکار جن مواقع پر بآواز بلند کرنا ثابت ہیں وہ ان موقعوں پر اونچی آواز سے کیے جائیں گے ۔ کیونکہ وہ شرعی دلیل کے ذریعہ اس قاعدہ کلیہ سے مستثنى ہو گئے ہیں ۔
چنانچہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
قَالَ تَعَالَى: {ادْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَخُفْيَةً إنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ} وَقَالَ تَعَالَى عَنْ زَكَرِيَّا: {إذْ نَادَى رَبَّهُ نِدَاءً خَفِيًّا} . بَلْ السُّنَّةُ فِي الذِّكْرِ كُلِّهِ ذَلِكَ كَمَا قَالَ تَعَالَى: {وَاذْكُرْ رَبَّكَ فِي نَفْسِكَ تَضَرُّعًا وَخِيفَةً وَدُونَ الْجَهْرِ مِنَ الْقَوْلِ بِالْغُدُوِّ وَالْآصَالِ} . وَفِي الصَّحِيحَيْنِ أَنَّ أَصْحَابَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانُوا مَعَهُ فِي سَفَرٍ فَجَعَلُوا يَرْفَعُونَ أَصْوَاتَهُمْ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ {أَيُّهَا النَّاسُ أَرْبِعُوا عَلَى أَنْفُسِكُمْ؛ فَإِنَّكُمْ لَا تَدْعُونَ أَصَمَّ وَلَا غَائِبًا وَإِنَّمَا تَدْعُونَ سَمِيعًا قَرِيبًا إنَّ الَّذِي تَدْعُونَهُ أَقْرَبُ إلَى أَحَدِكُمْ مِنْ عُنُقِ رَاحِلَتِهِ} [مجموع الفتاوى 22/ 469]
ہرقسم کی دعا میں سنت یہ ہے کہ اسے آہستہ پڑھا جا ئے الا یہ کہ کسی سبب کسی دعاء میں جہر مشروع ہو،اللہ تعا لیٰ کا فرمان ہے تم اپنے رب سے دعاء کیا کرو گڑگڑا کر کے اور چپکے چپکے بھی، واقعی اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو نا پسند کرتا ہے جو حد سے نکل جائیں)اور زکریا علیہ السلام کی دعا ء کے بارے میں اللہ تعا لیٰ فرماتا ہے جب انھوں نے اپنے رب سے چپکے چپکے دعاء کی ) نیز تمام اذکار میں بھی یہی چیز سنت ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے اپنے رب کو اپنے دل میں یاد کرو عاجزی اور خوف کے ساتھ اور زور کی آواز کی نسبت کم آواز کے سا تھ) اور بخاری اور مسلم کی حدیث ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ ایک سفر میں آپ کے ساتھ تھے توصحابہ نے دعا ء میںاپنی آواز بلند کرنی شروع کردی ،اس پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' اے لوگو! اپنے آپ پر رحم کرو کیونکہ تم کسی بہرے اور غائب کو نہیں پکار رہے ہو بلکہ اسے پکار رہے ہو جوسننے والا اور قریب ہے، بے شک جسے تم پکار رہے ہو وہ تم سے تمہارے ا و نٹ کی گردن سے زیادہ قریب ہے'' (مجموعة الفتاویٰ: ٢٢ ٤٦٨
ـ٤٦٩)۔
::احادیث سے دلائل :::
(3)عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ، قَالَ:: " كُنَّا نَتَكَلَّمُ فِي الصَّلَاةِ يُكَلِّمُ الرَّجُلُ صَاحِبَهُ وَهُوَ إِلَى جَنْبِهِ فِي الصَّلَاةِ حَتَّى نَزَلَتْ {وَقُومُوا لِلَّهِ قَانِتِينَ} [البقرة: 238] فَأُمِرْنَا بِالسُّكُوتِ، وَنُهِينَا عَنِ الْكَلَامِ "
ترجمہ : زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم (پہلے ) نماز میں کلام کیا کرتے تھے، ایک شخص نماز میں اپنے بغل والے شخص سے بات کرلیا کرتا تھا یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی {وقوموا لله قانتين} [البقرة: 238]اس کے بعد ہمیں نماز میں خاموش رہنے کا حکم دے دیا گیا اور بات چیت سے روک دیا گیا '' (مسلم : کتاب المساجد: باب تحریم الکلام فی الصلوة...رقم٥٣٩)۔
٭اس حدیث میں ہے ''فأمرنا بالسكوت ''یعنی ہمیں نماز میں خاموش رہنے کا حکم دیا گیا، اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ نماز کی اصلی حالت سکوت اور خاموشی کی ہے ، لہٰذا نماز کا کوئی بھی رکن ہو کوئی بھی جزء ہو ہر جگہ خاموشی ہی اپنائیں گے اس اصول کے خلاف کہیں پر جہر کرنے کے لئے واضح دلیل ہونی چاہئے۔
*مولانامحمد داؤدارشد صاحب اس حدیث سے اذکارنماز کو بالسر پڑھنے پر استدلال کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
'' یہ حدیث اس بات کی واضح اور حجت قاطع ہے کہ نماز کی اصل حالت سکوت ہے اور نماز میں جہر صرف اور صرف وہاں ہی کیا جائے گا جہاں نص سے جہر ثابت ہو '' ( تحفۂ حنفیہ بجواب تحفۂ اہلحدیث: ص ٩٦ )۔
(4)عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: بَيْنَمَا نَحْنُ نُصَلِّي مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذْ قَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ: اللهُ أَكْبَرُ كَبِيرًا، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ كَثِيرًا، وَسُبْحَانَ اللهِ بُكْرَةً وَأَصِيلًا، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مِنَ الْقَائِلُ كَلِمَةَ كَذَا وَكَذَا؟»(وفی روایة للنسائی:مَنْ صَاحِبُ الْكَلِمَةِ؟) قَالَ رَجُلٌ مَنِ الْقَوْمِ: أَنَا، يَا رَسُولَ اللهِ قَالَ: «عَجِبْتُ لَهَا، فُتِحَتْ لَهَا أَبْوَابُ السَّمَاءِ»(وفی روایة للنسائی:لَقَدْ ابْتَدَرَهَا اثْنَا عَشَرَ مَلَكًا )'' قَالَ ابْنُ عُمَرَ: «فَمَا تَرَكْتُهُنَّ مُنْذُ سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ ذَلِكَ»
صحابی رسول عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ہم اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھ رہے تھے (جب آپ نے نماز شروع فرما کر اللہ اکبر کہا) تو (آپصلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے) لوگوں میں سے ایک شخص نے کہا: '' اللہ أکبر کبیرا، والحمدللہ کثیرا،وسبحان اللہ بکرة و أصیلا''، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (نماز سے فراغت کے بعد) فرمایا:''یہ کلمات کس نے کہے ؟'' (اور نسائی کی روایت میں ہے کہ دوران نماز جو کلمات سنائی دئے ہیں ان کا کہنے والاکون ہے؟) تو لوگوں میں سے اس شخص نے کہا: اللہ کے رسول میں نے ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''مجھے تعجب ہوا کہ اس کے لئے آسمان کے دروازے کھول دئے گئے(اور نسائی کی روایت میں ہے بارہ فرشتے جلدی کررہے تھے کہ کون ان کلمات کو پہلے لے جائے )عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب سے میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا تب سے ان کلمات کو پڑھنا کبھی نہیں چھوڑا''
(مسلم:کتاب المساجد:باب ما یقول بین تکبیرة الاحرام والقرأة،رقم (٦٠١) نسائی مع تحقیق الألبانی:کتاب الافتتاح: باب القول الذی یفتتح بہ الصلوٰة، رقم الحدیث(٨٨٥)وصححہ الألبانی)۔
*اس حدیث میں جو دعا ء مذکور ہے وہ بالاتفاق دعاء ثناء ہےاوراس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس واقعہ میں بھی اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے صرف ایک ہی صحابی کی آواز بلند ہوئی تھی اور ''دعاء ثناء'' کے علاوہ کسی اور دعاء مثلاً دعاء قومہ وغیرہ میں کسی ایک بھی صحابی کی آواز بلند نہیں ہوئی تھی، لہٰذا یہ حدیث اس بات کا ثبوت ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے تمام صحابہ نماز کی ساری دعائیں اور نماز کے سارے اذکار آہستہ ہی پڑھتے تھے۔

لہذا معلوم یہ ہوا کہ تکبیر کو امام آواز سے کہے اورمقتدی سری طورپر کہے اس لئے کہ اذکار میں اصل آہستہ پڑھنا ہے۔ مقتدیوں کو بتلانے کی ضرورت کی وجہ سے امام کے لئے بآواز بلند ہے لیکن مقتدی کو اسکی ضرورت نہیں۔ بنا بریں مقتدی حضرات تکبیرات آواز سے نہ کہیں بلکہ تسبیحات اور دیگر اذکار آہستہ کہیں۔
واللہ اعلم بالصواب –
أعلى النموذج


0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔