Saturday, March 28, 2015

سلفی منہج کی جانب انتساب کرنا

سلفی منہج کی جانب انتساب کرنا

ترجمہ
طارق علی بروہی

=======
قرآن کریم  سے

اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿وَالسّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُهٰجِرِيْنَ وَالْاَنْصَارِ وَالَّذِيْنَ اتَّبَعُوْھُمْ بِاِحْسَانٍ ۙ رَّضِيَ اللّٰهُ عَنْھُمْ وَرَضُوْا عَنْهُ وَاَعَدَّ لَھُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ تَحْتَهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْهَآ اَبَدًا  ۭذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ﴾ 
(التوبۃ: 100)
(مہاجرین وانصار میں سے سابقین اولین  اور جنہوں نے بطور احسن ان کی پیروی کی، اللہ ان سے راضی اور وہ اس سے، اور ان کے لیے ایسے باغات تیار کیے ہیں کہ جن کے نیچے نہریں رواں ہیں، اس میں وہ ہمیشہ ہمیش رہیں گے، یہی سب سے بڑی کامیابی ہے)
شیخ محمد ناصر الدین البانی " (المتوفی سن 1420ھ) فرماتے ہیں: (یہ آیت کریمہ وہ اساس ہے کہ جس سے ہر مسلمان اس دعوت حق کو کشید کرسکتا ہے جسے قدیم وجدید علماء کرام نے سلفی دعوت کا نام دیا ہے اور بعض نے اسے انصار السنۃ المحمدیۃ کا اسی طرح سے بعض نے دعوت اہلحدیث کے نام سے موسوم کیا ہے۔ اور یہ سب نام ایک ہی معنی کی جانب اشارہ کرتے ہیں کہ جس کی طرف تمام دینی جماعتوں نے کوئی توجہ نہیں دی اور اگر دی بھی تو کماحقہ اس سے تمسک اختیار نہیں کیا۔ اسی وجہ سے کسی مسلمان کے لیے ناممکن ہے کہ وہ فرقۂ ناجیہ (نجات پانے والے فرقے) میں شمار ہو سوائے اس کے کہ وہ قرآن وسنت اور منہج سلف صالحین پر چلے۔یہ جو تیسری اساس یعنی منہج سلف ہے وہ تمام مسلمانوں کے ذہنوں میں ہمیشہ رہنی چاہیے اگر وہ واقعی اس دن نجات پانے کے بارے میں سچے ہیں کہ جس دن نہ مال کام آئے کا نہ بیٹے۔ اسی لیے دینی مفہاہیم اور افکار وآراء کے اعتبار سے اس چیز کی طرف رجوع نہ کرنا جس پر کہ سلف صالحین تھے یہی بنیادی سبب ہے کہ مسلمان اتنے مذاہب اور فرقوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ جو کوئی قرآن وسنت کی جانب رجوع کرنے میں صادق ہے تو اسے اس چیز کی پیروی کرنی ہوگی جس پر اصحاب نبی، تابعین اور ان کے متبعین تھے)([1]
فرمان الہی ہے:
﴿وَمَنْ يُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْۢ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدٰى وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيْلِ الْمُؤْمِنِيْنَ نُوَلِّهٖ مَا تَوَلّٰى وَنُصْلِهٖ جَهَنَّمَ ۭ وَسَاۗءَتْ مَصِيْرًا﴾
(النساء: 115)
(اور جو رسول کی مخالفت کرے بعد اس کے کہ ہدایت اس پر واضح ہوچکی اور مومنوں کی راہ چھوڑ کر کسی اور راہ پر چلے تو ہم اسے وہیں پھیر دیتے ہیں جہاں وہ خود پھرتا ہے اور پھر اسے جہنم میں پہنچائیں گے، اور وہ کیا ہی برا ٹھکانہ ہے)
شیخ البانی " فرماتے ہیں: (جو کوئی بھی فرقۂ ناجیہ([2]) میں سے ہونا چاہتا ہے تو اس پر لازم ہے کہ وہ اس چیز کی جانب نسبت کرے جس پر یہ صحابہ کرام، تابعین اور ان کے متبعین تھے۔ یہ وہ سلف صالحین ہیں کہ جن کی ہم پیروی کرتے ہیں۔
          سلف صالحین کی اتباع کا مسئلہ دین میں کوئی نیا کام یا بدعت نہیں بلکہ یہ تو ایک واجب ولازم چیز ہے جو کہ اللہ تعالی نے اپنے کلام میں بالکل واضح طور پر ارشاد فرمائی ہے:
﴿وَمَنْ يُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْۢ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدٰى وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيْلِ الْمُؤْمِنِيْنَ نُوَلِّهٖ مَا تَوَلّٰى وَنُصْلِهٖ جَهَنَّمَ ۭ وَسَاۗءَتْ مَصِيْرًا﴾
(النساء: 115)
(اور جو رسول کی مخالفت کرے بعد اس کے کہ ہدایت اس پر واضح ہوچکی اور مومنوں کی راہ چھوڑ کر کسی اور راہ پر چلے تو ہم اسے وہیں پھیر دیتے ہیں جہاں وہ خود پھرتا ہے اور پھر اسے جہنم میں پہنچائیں گے، اور وہ کیا ہی برا ٹھکانہ ہے)
          بلاشبہ اللہ تعالی نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) کے راستے کی مخالف کرنے پر شدید وعید سنائی ہے مگر اسے اس بات کے ساتھ جوڑ دیا ہے کہ: "اور مومنوں کی راہ چھوڑ کر کوئی اور راہ چلے" اور اس میں کوئی شک وشبہ نہیں کہ یہاں مومنوں سے مراد وہ مومن لوگ کہ جن کی مخالفت پر سختی کے ساتھ آیت میں ڈرایا گیا ہے وہی مومنین ہیں جن کا اس سے پہلے والی آیت میں ذکر ہوا مہاجرین وانصار صحابہ کرام (رضی اللہ عنہم) اور بھلائی کے ساتھ ان کے نقش قدم پر چلنے والے۔
          بلاشبہ اللہ تعالی ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے۔ لہذا یہ ثابت ہوا کہ منہج السلف ہی وہ اساس ہے کہ جو ایک ایسے مسلمان کہ جو اپنی زبان سے قرآن وسنت کی جانب منسوب تو ہوتا ہے لیکن پھر اپنے عمل سے قرآن وسنت کی پیروی کی مخالفت کرتا ہے یعنی کہ اس عصمت کی طرف نہیں لوٹتا کہ جو اسے قرآن وسنت کی مخالفت سے بچاسکے اور یہ صحابہ کرام (رضی اللہ عنہم) کے منہج کی پیروی کے سوا اور کچھ نہیں)([3]

سلف کون ہیں؟
شیخ البانی " فرماتے ہیں: (سلف صالحین ان تین نسلوں پر مشتمل ہے کہ جن کے خیر پر ہونے کی شہادت خود نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) نے اپنی ایک متفق علیہ حدیث میں دی ہے۔ بلکہ یہ حدیث تو متواتر کے درجے کو پہنچ جاتی ہے کیونکہ اس کے کئی ایک طرق صحابہ کی ایک بڑی جماعت سے صحیحین وغیرہ میں موجود ہیں، فرمایا: ’’خَيْرُ النَّاسِ قَرْنِي، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ‘‘([4]) (بہترین لوگ میرے زمانے کے ہیں پھر جو ان کے بعد آئيں پھر جو ان کے بعد آئيں)۔پس سلف صالحین سے مراد یہ تین خیرون القرون کے لوگ  ہیں کہ جن کے خیر پر ہونے کی شہادت نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وسلم) نے دی ہے)۔
امام قاضی احمد القلشانی " (المتوفی سن 863ھ) فرماتے ہیں: "والسلف الصالح وهو الصدر الأول الراسخون في العلم المهتدون بهدي النبي (صلی اللہ علیہ وسلم) الحافظون لسنته , اختارهم الله لصحبة نبيه وانتخبهم لإقامة دينه....." (سلف صالحین سے مراد وہ پہلی نسل ہے کہ جو راسخون فی العلم تھے، ہدایت نبوی کے ساتھ ہدایت یافتہ تھے۔ جو سنت کے محافظ تھے۔ انہیں اللہ تعالی نے اپنے دین کو قائم کرنے کے لیے چن لیا تھا اور ان سے راضی ہوا تھا کہ وہ اس امت میں  دین کے امام بنیں۔ انہوں نے امت کی نصیحت چاہنے میں کوئی  کسر نہ اٹھا رکھی اور انہوں نے رب کی رضا کے لیے اپنے آپ کو قربان کردیا۔ اللہ تعالی نے ان کی مدح اپنی کتاب میں فرمائی:
﴿مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِ ۭ وَالَّذِيْنَ مَعَهٗٓ اَشِدَّاۗءُ عَلَي الْكُفَّارِ رُحَمَاۗءُ بَيْنَهُمْ﴾
(الفتح: 29)
(محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں اور جو ان کے ساتھ ہیں وہ کافروں پر سخت اور آپس میں بہت نرم ہیں)
اور فرمان الہی ہے:
﴿لِلْفُقَرَاۗءِ الْمُهٰجِرِيْنَ الَّذِيْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِيَارِهِمْ وَاَمْوَالِهِمْ يَبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللّٰهِ وَرِضْوَانًا وَّيَنْصُرُوْنَ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ  ۭ اُولٰۗىِٕكَ هُمُ الصّٰدِقُوْنَ، وَالَّذِيْنَ تَبَوَّؤُ الدَّارَ وَالْاِيْمَانَ مِنْ قَبْلِهِمْ يُحِبُّوْنَ مَنْ هَاجَرَ اِلَيْهِمْ وَلَا يَجِدُوْنَ فِيْ صُدُوْرِهِمْ حَاجَةً مِّمَّآ اُوْتُوْا وَيُؤْثِرُوْنَ عَلٰٓي اَنْفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ     ڵ وَمَنْ يُّوْقَ شُحَّ نَفْسِهٖ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ﴾
(الحشر: 8-9)
((فئ کا مال) ان مہاجر مسکینوں کے لئے ہے جو اپنے گھروں اور اپنے مالوں سے نکال دیئے گئے ہیں وہ اللہ کے فضل اور اس کی رضامندی کے طلب گار ہیں اور اللہ تعالٰی کی اور اس کے رسول کی مدد کرتے ہیں یہی راست باز لوگ ہیں، اور (ان کے لئے) جنہوں نے اس گھر میں (یعنی مدینہ) اور ایمان میں ان سے پہلے جگہ بنالی(یعنی انصار)  اور اپنی طرف ہجرت کرکے آنے والوں سے محبت کرتے ہیں اور مہاجرین کو جو کچھ دے دیا جائے اس سے وہ اپنے دلوں میں کوئی تنگی نہیں رکھتے  بلکہ خود اپنے اوپر انہیں ترجیح دیتے ہیں گو خود کتنی ہی سخت حاجت ہو  (بات یہ ہے) کہ جو بھی اپنے نفس کے بخل سے بچایا گیا وہی کامیاب اور با مراد ہے)
اللہ تعالی نے آیت میں مہاجرین اور انصار کا ذکر فرما کر ان کی پیروی کرنے والوں کی تعریف فرمائی، اور یہ کہ وہ ان سے راضی ہوا کہ جن بعد میں آنے والوں  نے ان کی پیروی کی۔
اللہ تعالی نے ایسے لوگوں کو وعید سنائی جو سبیل المومنین کے علاوہ دوسری راہ پر چلیں:
﴿وَمَنْ يُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْۢ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدٰى وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيْلِ الْمُؤْمِنِيْنَ نُوَلِّهٖ مَا تَوَلّٰى وَنُصْلِهٖ جَهَنَّمَ ۭ وَسَاۗءَتْ مَصِيْرًا﴾
(النساء: 115)
(اور جو رسول کی مخالفت کرے بعد اس کے کہ ہدایت اس پر واضح ہوچکی اور مومنوں کی راہ چھوڑ کر کسی اور راہ پر چلے تو ہم اسے وہیں پھیر دیتے ہیں جہاں وہ خود پھرتا ہے اور پھر اسے جہنم میں پہنچائیں گے، اور وہ کیا ہی برا ٹھکانہ ہے)
اسی لیے جو کچھ ان سے مروی ہے ہم پر اس میں ان کی پیروی کرنا ضروری ہے، جو عمل انہوں نے کیا اس پر ان کے نقش قدم کی پیروی کریں، اور ان کے لیے دعائے مغفرت کریں۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿وَالَّذِيْنَ جَاۗءُوْ مِنْۢ بَعْدِهِمْ يَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِاِخْوَانِنَا الَّذِيْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِيْمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِيْ قُلُوْبِنَا غِلًّا لِّلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا رَبَّنَآ اِنَّكَ رَءُوْفٌ رَّحِيْمٌ﴾
(الحشر: 10)
(اور (ان کے لئے) جو ان کے بعد آئیں اور کہیں گے کہ اے ہمارےرب ہمیں بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی جو ہم سے پہلے ایمان لاچکے اور ایمانداروں کی طرف ہمارے دل میں کوئی کینہ نہ رکھ،  اے ہمارے رب بیشک تو شفقت و مہربانی کرنے والا ہے)([5])
امام محمد بن احمد السفارینی (المتوفی سن 1188ھ) فرماتے ہیں: "المراد بمذهب السلف: ماكان عليه الصحابة الكرام-رضوان الله عليهم- وأعيان التابعين لهم بإحسان وأتباعهم وأئمة الدين ممن شُهد له بالإمامة وعُرف عظم شأنه فى الدين وتلقى الناس كلامهم خلفاً عن سلف دون من رُمي ببدعة أو شُهر بلقب غير مرضي مثل: الخوارج , والروافض , والقدرية , والمرجئة , والجبرية , والجهمية , والمعتزلة , والكرَّامية ونحو هؤلاء" (مذہب سلف سے مراد ہے کہ جس پر صحابہ کرام (رضی اللہ عنہم)  اور نمایاں تابعین کرام  اور بطور احسن ان کی پیروی کرنے والے اور ایسے آئمہ دین کے جن کی امامت کی شہادت دی جاتی ہے اور دین میں ان کی عظمت شان معروف ہے اور لوگ نسل در نسل ان کے کلام کو شرف قبولیت دیتے چلے آئے ہیں۔ نہ ان میں سے کسی کو بدعت یا مشہور بدعتی فرقے کی جانب نسبت سے متہم کیا جاتا ہے جیسے خوارج، روافض، قدریہ، مرجئہ، جبریہ، جہمیہ، معتزلہ اور کرامیہ وغیرہ)([6]
ایک اور جگہ پر فرماتے ہیں: (مذہب سلف کو ظاہر کرنا اور اس کی حقیقت کو واضح کرنا، اور یہ کہ مذہب سلف دیگر مذاہب سے زیادہ محفوظ تر، علم وحکمت میں بڑھ کر ہے۔  اور یہی سلف وہ مہاجرین وانصار صحابہ کرام (رضی اللہ عنہم) تھے کہ جنہوں نے سب سے پہلے اسلام قبول کرنے میں سبقت فرمائی ، اسی طرح سے دیگر اصحاب نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) اور وہ جنہوں نے بطور احسن ان کی پیروی کی اور آئمہ ہدایت۔یہ وہ لوگ ہیں کہ جن کے ہدایت پر ہونے اور ان کے دینی فہم کی دوسروں پر فضلیت ، ان کی اور ان کے منہج کی پیروی کرنے کے بارے میں مسلمان متفق ہیں۔بلاشبہ اللہ تعالی نے اپنے نبی وخلیل محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کو ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا، تاکہ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) لوگوں کے رب کے حکم سےانہیں  اندھیروں میں سے نور، اس عزیز وحمید اللہ تعالی کی راہ کی  طرف نکال لائیں۔  اللہ تعالی نے خود اس بات کی گواہی دی کہ اس نے اپنے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وسلم) کو اس کے اذن سے داعی الی اللہ، روشن چراغ اور اپنے احکامات کے ساتھ ارسال فرمایا، فرمان الہی ہے:
﴿قُلْ هٰذِهٖ سَبِيْلِيْٓ اَدْعُوْٓا اِلَى اللّٰهِ ۷ عَلٰي بَصِيْرَةٍ اَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِي﴾
(یوسف: 108)
(کہو یہ دین میری سیدھی راہ ہے میں اللہ تعالی کی طرف مکمل بصیرت کے ساتھ دعوت دیتا ہوں، میں اور میرے متبعین بھی)([7])
﴿يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ اِنَّآ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّمُبَشِّرًا وَّنَذِيْرًا،  وَّدَاعِيًا اِلَى اللّٰهِ بِاِذْنِهٖ وَسِرَاجًا مُّنِيْرًا﴾
(الاحزاب: 45-46)
(اے نبی! یقیناً ہم نے ہی آپ کو (رسول بنا کر ) گواہیاں دینے والا  اور خوشخبری سنانے والا اور خبردار کرنے والا بناکر بھیجا ہے، اور اللہ کے حکم سے اس کی طرف بلانے والا اور روشن چراغ بناکر بھیجا ہے)

قدیم وجدید علماء کرام نے "سلف" کی اصطلاح استعمال فرمائی ہے
لغوی معنی:
امام مجدالدین ابن الاثیر " (المتوفی سن 606ھ) فرماتے ہیں: "وقيل سلف الإنسان من تقدم بالموت من آبائه وذوي قرابته , ولهذا سمي الصدر الأول من الصحابة والتابعين السلف الصالح" (کسی شخص کے سلف وہ ہوتے ہیں جو اس کے آباء واجداد میں سے اس سے پہلے فوت ہوچکے ہوتے ہیں۔ اسی لیےصحابہ و تابعین کی پہلی نسل سلف صالحین کہلاتی ہے)([8]
امام محمد بن اسماعیل البخاری " (المتوفی سن 256ھ) فرماتے ہیں: "باب الرُّكُوبِ عَلَى الدَّابَّةِ الصَّعْبَةِ وَالْفُحُولَةِ مِنَ الخَيْلِ.وَقَالَ رَاشِدُ بْنُ سَعْدٍ:كَانَ السَّلَفُ يَسْتَحِبُّونَ الْفُحُولَةَ لأَنَّهَا أَجْرَى وَأَجْسَر" (شریر جانور اور گھوڑے پر سواری کرنے کا بیان اور راشد بن سعد کہتے ہیں، کہ  سلف نر جانور پر سوار ہونا پسند کرتے تھے، کیونکہ وہ زیادہ بہادر اور دلیر ہوتا ہے)([9]
امام مسلم بن حجاج النیشاپوری " (المتوفی سن 261ھ) فرماتے ہیں: ابن المبارک پورے مجمع کے سامنے کہا کرتے تھے: "دَعُوا حَدِيثَ عَمْرِو بْنِ ثَابِتٍ فَإِنَّهُ كَانَ يَسُبُّ السَّلَفَ " ( عمرو بن ثابت کو چھوڑ دو کیونکہ وہ سلف یعنی صحابہ کرام کو برابھلا کہتا ہے)۔
امام بخاری " صحیح بخاری كتاب الأطعمة میں ایک باب اس عنوان سے قائم فرماتے ہیں کہ:"باب: مَا كَانَ السَّلَفُ يَدَّخِرُونَ في بُيُوتِهِمْ وَأَسْفَارِهِمْ مِنَ الطَّعَامِ وَاللَّحْمِ وَغَيْرِهِ" (باب گوشت اور کھانے میں سے سلف اپنے گھروں اور سفر میں کیا ذخیرہ کرکے رکھا کرتے تھے کے بارے میں)۔
امام عبدالرحمن بن عمرو الاوزاعی " (المتوفی سن 156ھ) فرماتے ہیں: "اصبر نفسك على السنة وقف حيث وقف القوم , وقُل بما قالوا وكُفَّ عما كفوا واسلك سبيل سلفك الصالح فإنه يسعك ما وسعهم" (سنت پر ثابت قدم رہو، وہیں رک جاؤ جہاں صحابہ کرام (رضی اللہ عنہم) رکے تھے، اور وہی کہو جو انہوں نے کہا تھا، اور ان چیزوں سے دور رہو جن سے وہ دور رہے تھے، اور اپنے سلف صالحین کے طریقے کی پیروی کرو، کیونکہ جو چیز انہیں کفایت کرتی تھی وہی تمہیں بھی کفایت کرے گی)([10]

منہج سلف کی جانب منسوب ہونا
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ " (المتوفی سن 728ھ) فرماتے ہیں: "لا عيب على من أظهر مذهب السلف وانتسب إليه , واعتزى إليه , بل يجب قبول ذلك منه بالاتفاق , فإن مذهب السلف لا يكون إلا حقاً" (اس شخص پر کوئی ملامت نہیں کہ جو مذہب سلف کو ظاہر کرتا ہے اور اس کی جانب منسوب ہوتا ہے۔ بلکہ واجب ہے کہ اس بات کو اس سے قبول کیا جائے اس پر اجماع ہے۔ کیونکہ سلف کا مذہب حق کے سوا کچھ نہ تھا)([11]
امام شمس الدین محمد بن عثمان الذہبی " (المتوفی سن 748 ھ) فرماتے ہیں: (سلفی وہ ہوتا ہے جو کہ مذہب سلف پر چلتا ہو)([12]
شیخ صالح بن فوزان الفوزان " فرماتے ہیں: (بلاشبہ سلفی جماعت ہی وہ حق پر قائم جماعت ہے کہ جس سے وابستہ ہونا، اس کے ساتھ کام کرنااور اس کی جانب منسوب ہونا واجب ہے۔ اور جو کوئی ان کے علاوہ جماعتیں ہیں انہیں حقیقی  دعوتی وتبلیغی جماعتیں سمجھنا درست نہیں)([13]
شیخ محمد بن صالح العثیمین " (المتوفی سن 1421ھ) فرماتے ہیں: (سلفیت کا معنی ہے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) اور آپ کے صحابہ کرام (رضی اللہ عنہم) کے منہج کی پیروی، کیونکہ آپ  (صلی اللہ علیہ وسلم) بھی ہمارے سلف میں سے ہیں، اور صحابہ کرام بھی ہم سے پہلے گزرے ہوئے ہمارے سلف ہیں، لہذا ان کی پیروی واتباع کرنا سلفیت ہے)([14]
شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز " (المتوفی سن 1420ھ) فرماتے ہیں: (بلاشبہ سلف وہ ہیں جو خیرالقرون کے لوگ ہیں۔ پس جو کوئی بھی ان کے نقش قدم پر چلتا رہا تو وہ سلفی ہے۔ جو کوئی اس منہج میں سلف کا مخالف ہو تو وہ خلف ہے)([15]

اہل بدعت سے امتیاز کے لیے سلفی کہلانے کا وجوب
شیخ البانی " فرماتے ہیں: (یقیناً تمام فرقوں میں سےقطع نظر اس کے کہ وہ کتنا کتاب وسنت سے قریب یا بعید ہیں ممکن نہیں کہ ان میں سے کوئی کہے کہ میں منہج السلف پر چلتا ہوں۔ سوائے ان کے جنہیں اللہ تعالی نے یہ فضلیت عطاء فرمائی کہ وہ اپنی دعوت، منہج اور سلوک میں واقعی منہج سلف پر چلتے ہیں۔۔۔)([16]
شیخ عبید بن عبداللہ الجابری " فرماتے ہیں: (پس آپ کوئی بھی خلفی (جو شخص سلف کے راستے پر نہ ہو) ایسا نہیں پائیں گے خصوصاً جو ان نئی موجودہ دور کی تبلیغی، دعوتی دینی جماعتوں سے نسبت رکھتے ہیں اور اہلسنت والجماعت سے دشمنی رکھتےہیں کہ وہ سلفیت اوراس جانب نسبت سے نفرت کرتا ہوگا۔وہ اس لئے کیونکہ سلفیت محض ایک نسبت کا نام نہیں بلکہ سلفیت اکیلے اللہ تعالی کے لئے اخلاص اوراکیلے نبی کریم(صلی اللہ علیہ وسلم)  کے لئے اتباع پر زور دیتی ہے)([17]
شیخ البانی " سے سوال ہوا کہ آخر آپ سلفی لوگ اپنے اس لقب (ٹائیٹل) کو کیوں نہیں چھوڑ دیتے؟
آپ نے جواب ارشاد فرمایا: (اگر آپ اپنے حزب (پارٹی، تنظیم، جماعت) یا کسی بھی حزب کی جانب نسبت کرنا چھوڑ دیں اسی طرح سے کسی بھی مذہب ومکتبۂ فکر کی جانب نسبت کرنا چھوڑ دیں تب جاکر ہم یہ کہہ سکیں گے کہ ہم مسلمان ہیں۔ لیکن جہاں تک ان ناموں کا تعلق ہے تو یہ موجودہ افکار اور مذہبی تعصب کے وجہ سے امت میں تفرقہ در تفرقہ کا سبب بنتے ہیں۔
         لہذا اس میں کوئی حرج نہیں اگر ہم کہیں کہ ہم ان تمام نسبتوں کو ایک ہی نسبت میں ضم کردیتے ہیں ۔ اور  ان (حزبی) لوگوں کے لیے بالکل بھی ممکن نہیں کہ وہ اس بات کا انکار یا اس سے اختلاف کرسکیں کہ سلفی دعوت ہی حق کی دعوت ہے یا نہیں۔ اس کے لیے بطور دلیل ہم اللہ تعالی کا یہ فرمان پیش کرتے ہیں کہ:
﴿وَمَنْ يُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْۢ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدٰى وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيْلِ الْمُؤْمِنِيْنَ نُوَلِّهٖ مَا تَوَلّٰى وَنُصْلِهٖ جَهَنَّمَ ۭ وَسَاۗءَتْ مَصِيْرًا﴾
(النساء: 115)
(اور جو رسول کی مخالفت کرے بعد اس کے کہ ہدایت اس پر واضح ہوچکی اور مومنوں کی راہ چھوڑ کر کسی اور راہ پر چلے تو ہم اسے وہیں پھیر دیتے ہیں جہاں وہ خود پھرتا ہے اور پھر اسے جہنم میں پہنچائیں گے، اور وہ کیا ہی برا ٹھکانہ ہے)([18]

کیا سلفی نسبت کو استعمال کرنا اپنے آپ کی پارسائی بیان کرنا نہیں؟
شیخ البانی " فرماتے ہیں: (وہ شخص سلفیت کے معنی سے ہی آگاہ نہیں کہ جو یہ سمجھتا ہے کہ سلفی کہلانا اپنی تعریف آپ کرنا ہے۔ سلفیت کا معنی ہے صحیح اسلام، پس جو کوئی یہ کہتا ہے کہ: میں مسلمان ہوں یا میرا دین اسلام ہے یہ بالکل ویسا ہی ہے جیسے کوئی کہے کہ میں سلفی ہوں۔۔۔)([19]
ایک دوسرے مقام پر فرماتے ہیں: (سلفی دعوت حزبیت کے خلاف اس کی ہر شکل میں  اعلان جنگ کرتی ہے۔ اس کا سبب بالکل واضح ہے کہ سلفی دعوت کی نسبت عصمت کی جانب ہے یعنی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) (اور آپ کے صحابہ جو گمراہی پر کبھی بھی جمع نہیں ہوسکتے) لہذا جو ان سلف کی راہ سے گمراہ ہو تو ہم اسے سلفی نہیں کہتے)([20]
شیخ ابن عثیمین " فرماتے ہیں: (کیا ہمارے اس دور میں  سلفیت کا ہونا ممکن ہے؟ جی ایسا ممکن ہے، ہم اسے عقیدے کی سلفیت کہیں گے اگرچہ زمانے کے اعتبار سے یہ سلفیت نہ ہو ، کیونکہ سلف تو ان کو کہتے ہیں جوزمانے کے اعتبار سے ہم سے پہلے  گزر چکے ہیں، چناچہ یہ موجودہ سلفی لوگ وہ ہیں جو  فی الواقع  عقیدے اور عمل کے اعتبار سےسلفیت پر گامزن ہیں۔ اور یہ ان کی نسبت سے جو بعد میں آئیں سلف کہلائیں گے)([21]

ہم سلفیت کی جانب نسبت کیوں کریں؟ کیا یہ بھی کسی حزب یا جماعت کی جانب نسبت ہے؟
شیخ البانی " سے سوال ہوا کہ: ہم سلفیت کی جانب نسبت کیوں کریں؟ کیا یہ بھی کسی حزبیت ، فرقے، مذہب یا اسلام میں کسی نئے گروپ کی جانب دعوت ہے؟
جواب: بلاشبہ لفظ "السلف" عربی زبان میں معروف ہے اور شریعت میں بھی، اور جو چیز ہمیں فی الحال مقصود ہے وہ اسے شرعی لحاظ سے جاننا ہے۔  یہ بات نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) سے صحیح طور پر ثابت ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے اپنی صاحبزادی سیدہ فاطمہ (رضی اللہ عنہا)  کو اپنے مرض الموت میں فرمایا: ’’فَاتَّقِي اللَّهَ وَاصْبِرِي، فَإِنَّهُ نِعْمَ السَّلَفُ أَنَا لَكِ‘‘([22]) (اللہ تعالی کا تقوی اختیار کرو، اور صبر سے کام لو، میں تمہارا کتنا اچھا سلف ہوں)۔
علماء کرام لفظ "السلف" کا اس قدر کثرت سےاستعمال کرتے رہے ہیں کہ ان سب کا ذکر کرنا ممکن نہیں۔ یہی کافی ہے کہ ہم اس کی ایک مثال بیان کردیں یہ وہ جملہ ہے کہ جو ہم بدعت کے رد میں استعمال کرتے ہیں: "وكل خير في اتِّباع من سلف وكل شر في ابتداع من خلف" (ہر خیر سلف کی اتباع میں ہے اور ہر شر خلف کی ایجاد کردہ بدعات میں ہے)۔
          بہرحال  بعض ایسے لوگ بھی ہیں جو علم کے دعویدار ہیں مگر وہ اس نسبت کا رد کرتے ہیں اس دعوی کے ساتھ کہ اس کی کوئی بنیاد نہیں۔ لہذا وہ کہتے ہیں کہ: کسی مسلمان کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ کہے میں سلفی ہوں۔ یہ تو گویا ایسے ہی ہوگیا کہ یہ لوگ کہیں کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ کہے میں عقیدے، عبادت اور سلوک (معاملات) میں سلف صالحین کی پیروی کرتا ہوں!۔
          بلاشبہ اس نسبت کا اس قسم کا رد اگر وہ اس سے واقعی یہ مراد لیتے ہیں تو اس سے لازم آتا ہے کہ ہم اس صحیح اسلام سے دستبردار ہوجائیں جس پر کہ سلف صالحین قائم تھے۔ جن میں سرفہرست ہمارے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) ہیں کیونکہ یہ بات اس متواتر حدیث میں وارد ہے کہ جو بخاری، مسلم اور دیگر کتب حدیث میں موجود ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا: ’’خَيْرُ النَّاسِ قَرْنِي، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ‘‘([23]) (بہترین لوگ میرے زمانے کے ہیں پھر جو ان کے بعد آئيں پھر جو ان کے بعد آئيں)۔
          لہذا کسی مسلمان کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ سلف صالحین کی جانب نسبت سے دستبردار ہو، جبکہ اس کے برخلاف جتنی دوسری نسبتیں بنائی ہوئیں ہیں ان میں سے کسی بھی دستبردار ہونے پر کسی بھی اہل علم کے لیے ممکن نہیں کہ وہ ایسے شخص پر کفر یا فسق کا فتوی لگا سکیں۔
          اور جو کوئی اس سلفی نسبت کا انکار کررہا ہے کیا آپ دیکھتے نہیں کہ وہ بھی تو اتنے مذاہب میں سے کسی ایک مذہب کی جانب نسبت کررہا ہوتا ہے؟! خواہ وہ مذہب عقیدے سے متعلق ہو یا فقہ سے؟
          پس ان لوگوں میں سے جو اہل سنت والجماعت میں شامل سمجھے جاتے ہیں آپ دیکھیں گے کہ  یا تووہ  اشعری ہوگا یا ماتریدی یا پھر اہل حدیث اسی طرح سے وہ حنفی ہوگا یا شافعی یا مالکی یا حنبلی۔ جو اشعری مذہب یا مذاہب اربعہ کی جانب نسبت کرتا ہے تو وہ ایسی شخصیات کی جانب نسبت کرتا ہے جو کہ بلاشبہ معصوم عن الخطاء نہیں اگرچہ شاید ان میں سے کوئی عالم صحیح راہ پر بھی ہو۔ بہرحال میری خواہش ہے کہ کاش وہ لوگ ان نسبتوں کا بھی انکار کرتے جو غیرمعصوم شخصیات کی جانب منسوب ہیں۔
          جہاں تک سلف صالحین کی جانب انتساب کا تعلق ہے تو وہ ایسوں کی طرف انتساب ہے جو مجموعی اعتبار سے غلطی سے پاک ہے۔ کیونکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرقۂ ناجیہ کی نشانیوں میں سے ایک یہ بھی بتلائی کہ: ’’مَا أَنَا عَلَيْهِ وَأَصْحَابِي‘‘([24]) (وہ اس چیز سے تمسک اختیار کریں گے کہ جس پر میں اور میرے صحابہ ہیں)۔ پس جو کوئی بھی اس سے تمسک اختیار کرتا ہے یقیناً وہ اپنے رب کی جانب سے ہدایت پر ہے۔
          بلاشبہ بالکل واضح ،ظاہروباہر اور ممتازدلیل اس انتساب کی یہ ہے کہ ہم کہیں: میں ایک مسلمان ہوں جو کہ کتاب وسنت پر منہج سلف صالحین کے مطابق چلتا ہوں۔ اور اس جملے کو مختصر الفاظ میں یوں کہہ سکے ہیں کہ: میں ایک سلفی ہوں)([25]

دوسری جماعتو ں کی جانب انتساب کا حکم

نقشبندی فرقے کی جانب انتساب کا حکم
یہ صوفی طریقہ اپنی نسبت محمد بہاء الدین اویسی  نقشبند کی طرف کرتا ہے۔ اس فرقے کی نسبت ان کے نام کی وجہ سے ہے اسی لیے یہ نقشبندی کے نام سے پہنچانے جاتے ہیں۔اور یہ بخاری کے ایک گاؤں میں سن 717ھ میں پیدا ہوئے تھے اور ان کی وفات سن 791ھ میں ہوئی۔
          انہیں نقشبند کا لقب اس لیے ملا کیونکہ باکّثرت ذکر الہی سے  لفظ "اللہ" ان کے دل پر نقش ہوگیا تھا۔اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے اپنا دست مبارک ان کے سینے پر رکھا تھا جس کی وجہ سے وہ نقش ہوگیا تھا، اسی لیے انہیں نقشتند کہا جاتا ہے۔
          ہندوستان میں احمد الفاروقی السرہندی المتوفی سن 1034ھ نے اس طریقے کا احیاء وپرچار کیا([26]

دیوبندی فرقے کی جانب نسبت
دارالعلوم دیوبند کی تعریف ان کی اپنی زبانی: (دارالعلوم دین کے اعتبار سے مسلمان ہیں۔ فرقے کے اعتبار سے اہل سنت والجماعت ہیں۔ مذہب کے اعتبار سے حنفی ہیں۔ صوفی مشرب ہیں۔ فلسفہ وکلام میں ماتریدی واشعری ہیں۔ منہج میں چشتی ہیں۔ بلکہ ان تمام سلاسل (چشتی، قادری، نقشبندی، سہروردی) کا جامع ہیں۔ قکر میں ولی الہی (شاہ ولی کی جانب نسبت) ہیں۔ اصول میں قاسمی(قاسم ناناتوی کی جانب نسبت)  ہیں۔ فروع میں رشیدی (رشید احمد گنگوہی کی جانب نسبت) ہیں۔ اور نسبت کے اعتبار سے دیوبندی ہیں)([27]
شیخ سید طالب الرحمن شاہ " فرماتے ہیں: (دیوبندی احناف کا ہی ایک گروہ ہےجو برصغیر پاک وہند اور یگر مقامات پر پایا جاتا ہے۔ یہ لوگ مدرسۂ دیوبند کے مسلک پر چلتے ہیں اور ان کی دیوبندی نسبت بھی اسی مدرسے کی طرف ہے۔ اور یہ نسبت  اپنے دوسرے بھائی بریلویوں سے امتیاز کے لیے ہے جو کہ انہی کی طرح حنفیوں کا ایک گروہ ہے جن کے بانی امام اہل بدعت احمد رضا خان بریلوی ہیں جو کہ  ہندوستان کے صوبے اتراپردیش (یوپی) کےایک شہر بریلی میں پیدا ہوئے۔ سن 1272ھ میں پیدا ہوئے اور سن 1340ھ میں فوت ہوئے۔
          دیوبند بھی اتراپردیش (یوپی) میں ایک شہر ہے۔ اسے شہرت اسلامی مدرسے دارالعلوم کی وجہ سے حاصل ہوئی جوکہ سن 1283ھ میں قائم ہوا اور بلاشبہ یہ یہی مدرسہ اس شہر کے لیے ایک قابل فخر وامتیاز بات ہے۔
          اس مدرسے کے قیام کا اولین مقصد حنفی مذہب ومکتبۂ فکر کی تائید وپرچار ہے اور سنت نبوی کی شان گھٹا کر اسے فقۂ حنفی  کا پیروکار بنانا ہے۔ اور اس نکتے کے بارے میں ہم کسی قسم کا غلو نہیں کررہے بلکہ خود ان کے کئی اکابرین علماء اس کا اقرار کرتے ہیں)([28]
محمد یوسف بنوری (دیوبندیوں کے مشہور اکابرین میں سے ہیں) دیوبند کے مسلک ومذہب کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: (اور دیوبندیوں کا طریقہ (منہج) جس پر کہ اس کے اکابرین علماء گامزن تھے وہ فقیہ امت امام ابو حنیفہ " کی امامت اورحدیث نبوی (صلی اللہ علیہ وسلم) کے بعد شریعت مطہرہ میں  ان کے فقہ واجتہاد کا جو اعلی مرتبہ ہے کو منوانا ہے۔
          اور یہ بھی کہ علوم صوفیہ وعلوم تزکیہ قلوب جو کہ ان کے اصحاب سے منتقل ہوتا ہے سے شغف لازم ہے۔ لازم ہے کہ ان کا علوم شریعت کے ساتھ صحیح طور پر امتزاج کیا جائے۔
          ایک طرف تو ہم امام ابن تیمیہ " کی جلالت شان کے معترف ہیں اور ہمہ وقت ہم شیخ الاکبر محی الدین ابن عربی ([29])کے بھی کمالات کے معترف ہیں۔ پس ہمارے لیے امام ابو حنیفہ " کی تقلید، اتباع احادیث نبویہ (صلی اللہ علیہ وسلم) اور علوم صوفیہ تینوں جمع ہوگئے ہیں۔ اور اس سہ شاخی امتزاج سے ایک عمدہ مذہب ترتیب پاتا ہے جسے دیوبندیت کہا جاتا ہے)([30]

تبلیغی جماعت کی جانب انتساب کرنا
تبلیغی جماعت کا بانی:
شیخ عبداللہ بن مبارک القحطانی فرماتے ہیں: (محمد الیاس کاندھلوی تبلیغی جماعت کے بانی مانے جاتے ہیں اور انہوں نے ہی ان کے بنیادی اصول وضع کیے ہیں۔ اور محمد الیاس صاحب نے اسے بدیع الزمان النورسی (1293ھ-1379ھ) سے ترکی میں حاصل کیا۔ پس اس فکر کی بنیاد ترکی سے آئی پھر اسے ہندوستان میں پروان چڑھایا گیا)([31]

تصوف کی جانب انتساب
شیخ صالح الفوزان "  سے پوچھا گیا: (صوفی مذہب کی جانب انتساب کا کیا حکم ہے؟ کیا ہم صوفیوں کی تکفیر کرتے ہیں؟
جواب: کسی بھی بدعتی مذہب کی جانب انتساب جائز نہیں خواہ وہ صوفیہ ہوں یا ان کے علاوہ کوئی اور، ناہی کسی مسلمان کے لیے جائز ہے کہ وہ کسی بدعتی کی پیروی کرے چاہے صوفی ہوں یا کوئی اور۔ بلکہ اسے چاہیے کہ مذہب اہل سنت کی اتباع کرے اور یہ اس کے لیے ممکن نہیں جب تک وہ اہل سنت کے مذہب کا علم حاصل نہ کرے اور بدعتی مذاہب کے بارے میں جانکاری نہ رکھتا ہو۔ یہ سب کچھ علم کے بغیر ناممکن ہے۔ کیونکہ جاہل کے لیے تو یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ ان بدعتی مذاہب سے بچے کیونکہ وہ تو جانتا ہی نہیں، شاید کہ وہ اسے اچھا خیال کرتا ہو اور اسے خیر تصور کرتا ہو۔ پس یہ جہالت ایک بڑی آفت ہے۔
          اور تمام صوفی گمراہی میں ایک ہی حد تک پہنچے ہوئے نہیں بلکہ ان میں سے کچھ شرک تک پہنچے ہوئے ہیں تو کوئی فقط بدعتی ہیں۔  ان میں سے مشرک وہ ہیں جو اللہ کو چھوڑ کر فوت شدگان کو پکارتے اور قبروں سے فریاد کرتے ہیں۔ اپنے مشائخ کو پکارتے ہیں اور یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ یہ نفع ونقصان پہنچا سکتے ہیں اور یہ کائنات میں تصرف فرماتے ہیں۔
          چناچہ یہ صوفیہ مختلف اصناف کے ہوتے ہیں ناکہ صرف ایک صنف کے۔ بعض ان میں سے صرف بدعتی ہوتے ہیں اور بعض تو مشرک تک ہوتے ہیں۔ اور اسی طرح سے بعض ملحد (بے دین) ہوتے ہیں اور وہ وہ ہوتے ہیں جو وحدۃ الوجود کا عقیدہ رکھتے ہیں اور منصور الحلاج وابن عربی وابن سبعین والتلمسانی کے مذہب پر ہوتےہیں۔ یہ لوگ اس زمین پر سب سے بڑے کافر ہیں جو وحدۃ الوجود کے قائلین ہیں۔  اور ان میں سے بعض مشرکین ہوتے ہیں کہ جو فوت شدگان ، اپنے مشائخ اور پیروں کو پکارتے  ہیں اور قبروں مزاروں سے استغاثہ کرتے ہیں۔ اور یہ سب شرک ہے)([32]

صوفی سلسلوں کی جانب انتساب کے بارے میں علماء اہل سنت والجماعت کا مؤقف
سعودی عرب فتوی کمیٹی کے علماء کرام سے یہ سوال پوچھا گیا:
سوال: ایک صوفی طریقہ ہے جو کہ شیخ عبدالقادر جیلانی " اور ابوالحسن الشاذلی کی جانب منسوب ہے، کیا اس میں کوئی حرج ہے کہ اگر کوئی ان میں شمولیت اختیار کرتا ہے اور ان کی جانب منسوب ہوتا ہے، کیا یہ سنت ہے یا بدعت؟
جواب: امام ابو داود " نے اپنی سنن میں اور ان کے علاوہ دیگر نے سیدنا عرباض بن ساریہ (رضی اللہ عنہم) سے روایت بیان فرمائی ہے کہ: ’’وَعَظَنَا رَسُولُ اللَّهِ (صلی اللہ علیہ وسلم) يَوْمًا بَعْدَ صَلَاةِ الْغَدَاةِ مَوْعِظَةً بَلِيغَةً ذَرَفَتْ مِنْهَا الْعُيُونُ وَوَجِلَتْ مِنْهَا الْقُلُوبُ، فَقَالَ رَجُلٌ: إِنَّ هَذِهِ مَوْعِظَةُ مُوَدِّعٍ، فَمَاذَا تَعْهَدُ إِلَيْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: " أُوصِيكُمْ بِتَقْوَى اللَّهِ، وَالسَّمْعِ، وَالطَّاعَةِ، وَإِنْ عَبْدٌ حَبَشِيٌّ فَإِنَّهُ مَنْ يَعِشْ مِنْكُمْ يَرَى اخْتِلَافًا كَثِيرًا، فَعَلَيْكُمْ بِسُنَّتِي، وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ الْمَهْدِيِّينَ، عَضُّوا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ، وَإِيَّاكُمْ وَالْأُمُورَ الْمُحْدَثَاتِ، فَإِنَّ كُلَّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ ‘‘([33]) (رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے ہمیں دوپہر کی نماز کے بعد ایک بلیغ قسم کا وعظ فرمایا جس سے آنکھیں اشکبار ہوگئیں اور دل دہل گئے، پس ایک شخص نے کہا لگتا ہے کہ گویا یہ کسی الوداع کہنے والے کا وعظ ہے تو اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) آپ ہم سے کیا عہد لیتے ہیں؟ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا: میں تمہیں اللہ تعالی کا تقوی اختیار کرنے کی وصیت کرتا ہوں اور(حکومت کی بات) سننے اور اطاعت کرنے کی اگرچہ (تمہارا حاکم) کوئی حبشی غلام ہی کیوں نہ ہو، کیونکہ میرے بعد تم میں سے جو زندہ رہے گا وہ بہت اختلافات دیکھے گا۔ جو کوئی ایسے حالات پالے تو اسے چاہیے کہ وہ میری سنت اور میرے ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی سنت کو لازم پکڑے اور اسے اپنے جبڑوں کے ساتھ مضبوطی سے تھام لے، اور دین میں نئے نئے کاموں سے بچو، کیونکہ ہر بدعت (دین میں نیا کام) گمراہی ہے)۔
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے نشاندہی فرمائی کہ اس امت میں بہت سے اختلافات جنم لیں گے، جو مختلف راہوں اور مناہج میں تقسیم ہوجائیں گے۔ اور ان لوگوں میں بہت سی بدعات وخرافات در آئیں گی۔ان حالات میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) نے مسلمانوں کو اللہ کی کتاب اور اپنی سنت سے جبڑوں کے ساتھ مضبوطی سے۔ چمٹے رہنے کا حکم فرمایا اور انہیں تفرقہ واختلاف اور بدعات وخرافات کی پیروی سے خبردار فرمایا۔ کیونکہ یہ سب گمراہی ہے۔ اور جو کوئی ان پر چلتا ہے وہ اللہ تعالی کی راہ سے جدا ہوجاتا ہے ۔پس اللہ تعالی نے انہیں نصیحت فرمائی :
﴿وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰهِ جَمِيْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْا﴾
(آل عمران: 103)
(اور تم سب مل کر اللہ تعالی کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ نہ کرو)
اور فرمان الہی ہے:
﴿وَاَنَّ ھٰذَا صِرَاطِيْ مُسْتَقِـيْمًا فَاتَّبِعُوْهُ  ۚ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِيْلِهٖ  ۭذٰلِكُمْ وَصّٰىكُمْ بِهٖ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ﴾
(الانعام: 153)
(اور یہ کہ دین  میرا راستہ ہے جو مستقیم ہے سو اس راہ پر چلو،   دوسری راہوں پر مت چلو کہ وہ راہیں تم کو اللہ کی راہ سے جدا کردیں گی۔ اس کا تم کو اللہ تعالٰی نے تاکیدی حکم دیا ہے تاکہ تم پرہیزگاری اختیار کرو)
پس ہم آپ کو نصیحت الہی اور نصیحت نبوی (صلی اللہ علیہ وسلم) کے ساتھ نصیحت کرتے ہیں کہ منہج اہل سنت والجماعت سے تمسک اختیار کریں۔ اور ہم آپ کو ان صوفی طریقوں سے خبردار کرتے ہیں جنہوں نے یہ تصوف کی بدعت ایجادکی، اور اس کے علاوہ دیگر من گھڑت اوراد واذکار ایجاد کیے۔ ساتھ ہی ایسی دعائیں جن میں شرک کی آمیزش ہوتی ہے یا جو شرک کی طرف لے جاتی ہیں۔ جیسا کہ غیراللہ سے استعاذہ(پناہ طلب) کرنا، اللہ اللہ (یا اللہ ھو) کا مفرد ذکر، اور اللہ کو "آہ، آہ" کہہ کر یاد کرنا  جوکہ اللہ تعالی کے اسماء حسنی میں سے نہیں۔ اور اپنے مشائخ کے وسیلے سے دعائیں کرکےان  کا تقرب حاصل کرنا ، ساتھ ہی  ان کایہ  اعتقاد ہےکہ ان کے مشائخ وپیروں کو دلوں کے حالات تک پتہ ہوتے ہیں اورجو کچھ مستقبل میں ہونے والا ہے وہ بھی۔  ان کا اجتماعی گروپ کی صورت میں بیک آواز ذکر الہی کرنا اور اس میں سروں کو ہلانا اور رقص کرنا اور اناشید، نظمیں وترانے پڑھنے(جن میں موسیقی بھی ہوتی ہے)۔ اور اس کے علاوہ بھی ایسی بہت سے خرافات ان میں پائی جاتی ہے جن کا وجود کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) میں نہیں ملتا)([34]

الحمدللہ رب العالمین وصلی اللہ علی نبینا محمد وعلی آلہ وصحبہ وسلم تسلیما کثیرا۔

================
[1] کیسٹ "الدعوۃ السلفیۃ"۔
[2] اس حدیث کی جانب اشارہ ہے: سیدنا معاویہ بن ابی سفیان (رضی اللہ عنہم) سے روایت ہےکہ فرماتے ہیں، نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) ہمارے درمیان کھڑے یہ فرمارہے تھے: ‘‘أَلَا إِنَّ مَنْ قَبْلَكُمْ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ افْتَرَقُوا عَلَى ثِنْتَيْنِ وَسَبْعِينَ مِلَّةً، وَإِنَّ هَذِهِ الْمِلَّةَ سَتَفْتَرِقُ عَلَى ثَلَاثٍ وَسَبْعِينَ: ثِنْتَانِ وَسَبْعُونَ فِي النَّارِ، وَوَاحِدَةٌ فِي الْجَنَّةِ وَهِيَ الْجَمَاعَةُ’’ (حدیث صحیح لغیرہ ہے، اور بعض نے اس کی تواتر ہونے کے احتمال کی جانب ارشاہ فرمایا ہے۔ أخرجه أحمد في المسند (4/102)، و أبو داود في كتاب السنة، باب شرح السنة، حديث رقم (4597)، والآجري في الشريعة (الطبعة المحققة) (1/132، تحت رقم 31).وصحح إسناده محقق جامع الأصول (10/32)، والألباني في سلسلة الأحاديث الصحيحة حديث رقم (204)، وذكر جملة من الأحاديث تشهد له. وانظر نظم المتناثر ص32-34.) (خبردار ! تم سے پہلے جو اہل کتاب تھے وہ بّہتر (72) فرقوں میں بٹ گئے تھے اوریہ امت بھی عنقریب تہتر (73) فرقوں میں بٹ جائے گی، جن میں سے بّہتر (72) جہنم میں جائیں گےاور صرف ایک جنت میں جائے گا اور وہ جماعت ہوگا)
            اسی طرح امام ترمذی " نے عبداللہ بن عمر (رضی اللہ عنہم) سے روایت بیان کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا: ‘‘لَيَأْتِيَنَّ عَلَى أُمَّتِي مَا أَتَى عَلَى بَنِي إِسْرَائِيلَ، حَذْوَ النَّعْلِ بِالنَّعْلِ حَتَّى إِنْ كَانَ مِنْهُمْ مَنْ أَتَى أُمَّهُ عَلَانِيَةً لَكَانَ فِي أُمَّتِي مَنْ يَصْنَعُ ذَلِكَ، وَإِنَّ بَنِي إِسْرَائِيلَ تَفَرَّقَتْ عَلَى ثِنْتَيْنِ وَسَبْعِينَ مِلَّةً، وَتَفْتَرِقُ أُمَّتِي عَلَى ثَلَاثٍ وَسَبْعِينَ مِلَّةً كُلُّهُمْ فِي النَّارِ إِلَّا مِلَّةً وَاحِدَةً، قَالُوا: وَمَنْ هِيَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: مَا أَنَا عَلَيْهِ وَأَصْحَابِي’’(صحیح ترمذی 2641) (میری امت پر بھی وہی حالات آئیں گے جو بنی اسرائیل پر آئے تھے جیسا کہ ایک جوتا دوسرے جوتے کے برابر ہوتا ہے،یہاں تک کہ اگر ان میں سے کسی نے  اپنی ماں کے ساتھ علانیہ بدکاری کی ہوگی تو میری امت میں سے بھی کوئی ایسا ہوگا جو ایسی حرکت کرجائے گا۔ اور بنی اسرائیل بّہتر (72) فرقوں میں متفرق ہوگئے تھے اور میری یہ امت تہتر (73) فرقوں میں تقسیم ہوجائے گی جو سب کے سب جہنم میں جائیں گے سوائے ایک کے۔ صحابہ (رضی اللہ عنہم) نے عرض کی وہ (نجات پانے والی) جماعت کونسی ہوگی؟ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا: جس چیز پر میں ہوں اور میرے صحابہ)۔
[3] کیسٹ "الدعوۃ السلفیۃ"۔
[4] صحیح بخاری 2652، صحیح مسلم 2536۔
[5] تحریر المقالۃ فی شرح الرسالۃ ص 207-208 ط۔ مؤسسۃ المعارف، بیروت۔
[6] کتاب لوامع الانوار البھیۃ وسواطع الاسرار الاثریۃ لشرح الدرۃ المضیۃ فی عقد الفرقۃ المرضیۃ للشیخ محمد بن احمد السفارینی ج 1 ص 20۔
[7] ایضاً۔
[8] النھایۃ فی غریب الحدیث والاثر۔
[9] صحیح البخاری مع الفتح 6/66۔
[10] الآجری فی الشریعۃ ص 58۔
[11] مجموع الفتاوی 4/149۔
[12] سیر الاعلام 21/6۔
[13] الاجابات المھمۃ فی المشاکل المدلھمۃ ص 155 سوال 125۔
[14] لقاء الباب المفتوح سوال: 1322۔
[15] الفتاوی الحمویۃ تحقیق دکتور احمد التویجری۔
[16] سلسلۃ الھدی والنور کیسٹ رقم 848۔
[17] اُصُول وَقَوَاعِدْ فِیْ الْمِنْہَجِ السَّلَفِیِّ۔
[18] سلسلۃ الھدی والنور کیسٹ رقم 848۔
[19] سلسلۃ الھدی والنور کیسٹ رقم 725۔
[20] الاجوبۃ المفیدۃ۔
[21] شرح عقیدۃ السفارینی ص 19-20۔
[22] صحیح مسلم 2452۔
[23] صحیح بخاری 2652، صحیح مسلم 2536۔
[24] (صحیح ترمذی 2641)
[25] النبذ الوفية في وجب الإنتساب للسلفية للشیخ سلیم الھلالی۔
[26] البھجۃ السنیۃ فی ادب الطریقۃ العلیا النقشبندیۃ ص 35، تنویر القلوب فی معاملات علام الغیوب ص ص 539۔  ماخوذ من حقائق الخطیرۃ عن الطریقۃ النقشبندیۃ ص 7۔
[27] تاریخ دارالعلوم دیوبند 1/428۔
[28] الدیوبندیۃ تعریفھا وعقائدھا للشیخ طالب الرحمن ص 21۔
[29] حالانکہ یہ ایک زندیق وملحد صوفی تھا جو ہرشیء کو ہی اللہ تصور کرتا تھا۔ (مجموع فتاوی ابن تیمیہ 11/232، درء تعارض العقل والنقل 4/5، میزان الاعتدال للذھبی 3/659)۔
[30] الدیوبندیۃ تعریفھا وعقائدھا للشیخ طالب الرحمن ص 25-26۔
[31] الموجز البلیغ فی تحذیر من فرقۃ التبلیغ ص 13۔
[32] 1، رجب، 1432ھ کو پوچھا گیا سوال، ویب سائٹ سحاب السلفیہ سے ماخوذ۔
[33] صحیح ترمذی 2676
[34] فتاوی لجنۃ دائمۃ للبحوث العلمیۃ والافتاء ج 2 ص 291-293۔


0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔