Monday, March 30, 2015

کیا حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا عقیدہ ہے کہ نبی ﷺ زندہ ہیں ؟

کیا حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا عقیدہ ہے کہ نبی ﷺ زندہ ہیں ؟

وأخرج الخطيب في رواة مالك عن عائشة قالت لما مرض أبي أوصى أن يؤتى به إلى قبر النبي صلى الله عليه وسلم ويستأذن له ويقال هذا أبو بكر يدفن عندك يا رسول الله افإن أذن لكن فادفنوني وإن لم يؤذن لكم فاذهبوا بي إلى البقيع فآتي به إلى الباب فقيل هذا أبو بكر قد اشتهى أن يدفن عند رسول الله صلى الله عليه وسلم وقد أوصانا فإن آذن لنا دخلنا وإن لم يؤذن لنا انصرفنا فنودينا أن أدخلوا وكرامة وسمعنا كلاما ولم نر أحدا .
قال الخطيب غريب جدا
ترجمه :عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ جب میرے والد مرض الموت میں مبتلا ہوئے تو انہوں نے یہ وصیت کی کہ مجھے رسول اللہ ﷺ کی قبر اقدس کے پاس لے جانا اور کہنا کہ یہ ابوبر آپ کے پاس دفن ہونے کی اجازت چاہتےہیں۔اگر اجازت مل جائے تو داخل کرنا اور اگر اجازت نہ ملے تو بقیع کی طرف لے جاکر دفن کرنا،چنانچہ(بعد الموت) ابوبکر کو لے جایا گیا اور کہا گیا یہ ابوبکر رسول اللہ ﷺ کے پاس دفن ہونے کی اجازت چاہتے ہیں،انہوں نے یہ وصیت کی تھی کہ اجازت طلب کرنا مل جائے تو داخل کرنا اور اگر نہ ملے تو لوٹا لینا،پھر ہمیں آواز دی گئی کہ اسے داخل کرو اور عزت پاؤ ہم نے آواز کو سنا لیکن دیکھا کسی کوئی نہیں۔
خطابی کہتے ہیں : اس کی سند غریب جدا ہے.

ابن عساکر نے دوسرا واقعہ بھی ذکر کیا ہے ذرا اس پر بھی نظر دوڑا لیں۔
وأخرج ابن عساكر عن علي بن أبي طالب قال لما حضرت أبا بكر الوفاة أقعدني عند رأسه وقال لي يا علي إذا أنا مت فغسلني بالكف الذي غسلت به رسول الله صلى الله عليه وسلم وحنطوني واذهبوا بي إلى البيت الذي فيه رسول الله صلى الله عليه وسلم فاستأذنوا فإن رأيتم الباب قد فتح فادخلوا بي وإلا فردوني إلى مقابر المسلمين حتى يحكم الله بين عباده قال فغسل وكفن وكنت أول من بادر إلى الباب فقلت يا رسول الله هذا أبو بكر يستأذن فرأيت الباب قد فتح فسمعت قائلا يقول ادخلوا الحبيب إلى حبيبه فإن الحبيب إلى الحبيب مشتاق
وقال ابن عساكر هذا حديث منكر وفي إسناده أبو الطاهر موسى بن محمد بن عطاء المقدسي كذاب عن عبد الجليل المري وهو مجهول
ترجمه : ابن عساکر علی رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں کہ علی نے فرمایا: جب ابو بکر رضی اللہ عنہ قریب الوفات تھے تو انہوں نے مجھے اپنے سر کے پاس بٹھایا اور کہا اے علی جب میں مر جاؤں تو تم مجھے اس ہاتھ سے غسل دینا جس سے تم نے رسول اللہ ﷺ کو غسل دیا تھا،اور مجھے کافور لگانااور مجھے اس گھر کی طرف لے جانا جس میں رسول اللہ (دفن ﷺہیں) (روضہ رسولﷺ) پھر اجازت طلب کرنا اگر تم دیکھو کہ دروازہ کھل گیا ہے تو مجھے داخل کرنا اور اگر دیکھو کہ نہیں کھلا تو عام مسلمانوں کے قبرستان کی طرف لے جانا۔یہاں تک کہ اللہ جب اللہ نے لوگوں کے درمیان فیصلہ کر دیا(یعنی فوت ہوگئے) تو علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے ان کو غسل دیا اور کفن دیا اور میں پہلا شخص تھا جس نے دروازے کی طرف جلدی کی(رضہ رسول کی طرف) میں نے کہا کہ یہ ابوبکر اجازت طلب کرتے ہیں پھر میں نے دیکھا کہ دروازہ کھل گیا ہے اور میں نے سنا کہ کسی کہنے والےنے کہا دوست کو دوست کے پاس داخل کرو بیشک دوست دوست کا مشاق ہے۔(ملاقات کی چاہت رکھنے والا)
ابن عساکر بیان کرتے ہیں کہ یہ حدیث منکر ہے اس کی سند میں ابو طاہر موسی بن محمد بن عطاء المقدسی کذاب ہے اور عن عبدالجلیل المری مجہول راوی ہے۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔