Tuesday, March 31, 2015

یامحمد کہنے کی حقیقت

یامحمد کہنے کی حقیقت

امام طبرانی پھر امام منذری فرماتے ہیں “ والحدیث صحیح “ امام بخاری “ کتاب الادب المفرد “ میں اور امام ابن السنی و امام بن بشکوال روایت کرتے ہیں: ان ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنھما خدرت رجہ فقیل لہ اذکر احب الناس الیک فصاح یا محمد اہ فانتشرت ( الادب المفرد ص250)

یہ روایت کتاب الأذکار للنووی میں یوں ذکر ہے : (بابُ ما يقولُه إذا خَدِرَتْ رِجْلُه)
916 -روينا في كتاب ابن السني عن الهيثم بن حنش قال: " كنَّا عندَ عبد الله بن عمر رضي الله عنهما فخدِرَتْ رجلُه، فقال له رجل: اذكر أحبَّ الناس إليك، فقال: يا محمّدُ (صلى الله عليه وسلم) ، فكأنما نُشِطَ من عِقَال "

917 - وروينا فيه عن مُجاهد قال: " خَدِرَتْ رِجلُ رجلٍ عند ابن عباس، فقال ابنُ عباس رضي الله عنهما: اذكر أحبَّ الناس إليك، فقال: محمّدٌ (صلى الله عليه وسلم) فذهبَ خَدَرُه

یعنی امام نووی نے یہ روایت بغیر سند ذکر کی ہے اور ابن السنی کا حوالہ دیا ہے ۔ سادہ سے لفظوں میں یوں سمجھیں کہ اس روایت کا اصل حوالہ امام نووی کی کتاب الأذکار نہیں بلکہ ابن السنی کی کتاب عمل الیوم واللیلۃ ہے ۔

اب ملاحظہ فرمائیں عمل اليوم والليلة سلوك النبي مع ربه عز وجل ومعاشرته مع العباد میں
أحمد بن محمد بن إسحاق بن إبراهيم بن أسباط بن عبد الله بن إبراهيم بن بُدَيْح، الدِّيْنَوَريُّ، المعروف بـ «ابن السُّنِّي» (المتوفى: 364هـ) نے اس روایت کو کس سند کے ساتھ ذکر کیا ہے : فرماتے ہیں :

حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ عِيسَى أَبُو أَحْمَدَ، ثنا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ رَوْحٍ، ثنا سَلَّامُ بْنُ سُلَيْمَانَ، ثنا غِيَاثُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُثْمَانَ بْنِ خَيْثَمٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ: خَدِرَتْ رِجْلُ رَجُلٍ عِنْدَ ابْنِ عَبَّاسٍ، فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: " اذْكُرْ أَحَبَّ النَّاسِ إِلَيْكَ. فَقَالَ: مُحَمَّدٌ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. فَذَهَبَ خَدَرَهُ " ۱/۱۴۱(۱۶۹)

اور دوسری روایت یوں نقل کرتے ہیں :
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خَالِدِ بْنِ مُحَمَّدٍ الْبَرْذَعِيُّ، ثنا حَاجِبُ بْنُ سُلَيْمَانَ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ مُصْعَبٍ، ثنا إِسْرَائِيلُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنِ الْهَيْثَمِ بْنِ حَنَشٍ، قَالَ: كُنَّا عِنْدَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، فَخَدِرَتْ رِجْلُهُ، فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ: " اذْكُرْ أَحَبَّ النَّاسِ إِلَيْكَ. فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. قَالَ: فَقَامَ فَكَأَنَّمَا نَشِطَ مِنْ عِقَالٍ ۱/۱۴۱(۱۷۰)

اسی طرح کی ایک اور روایت بھی ابن السنی نے ان دونوں روایات سے قبل ذکر کی ہے :
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْأَنْمَاطِيُّ، وَعَمْرُو بْنُ الْجُنَيْدِ بْنِ عِيسَى، قَالَا: ثنا مُحَمَّدُ بْنُ خِدَاشٍ، ثنا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ، ثنا أَبُو إِسْحَاقَ السَّبِيعِيُّ، عَنْ أَبِي شُعْبَةَ، قَالَ: كُنْتُ أَمْشِي مَعَ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، فَخَدِرَتْ رِجْلُهُ، فَجَلَسَ، فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ: اذْكُرْ أَحَبَّ النَّاسِ إِلَيْكَ. فَقَالَ: «يَا مُحَمَّدَاهُ فَقَامَ فَمَشَى» ۱/۱۴۱ (۱۶۸)

ان مرویات میں سے پہلی اور تیسری روایت میں ابو اسحاق السبیعی الہمدانی مدلس ہے اور وہ " عن " کا لفظ بول کر روایت کر رہے ہیں اور مدلس کا عنعنہ مردود ہوتا ہے لہذا یہ دونوں روایات ابو اسحاق کے عنعنہ کی وجہ سے ضعیف ہیں ۔ اور دوسری روایت میں غیاث بن ابراہیم کذاب روای ہے ۔ لہذا یہ روایت موضوع یعنی من گھڑت اور جھوٹی ہے ۔ اس وضاحت سے معلوم ہوا کہ ان روایات سے استدلال کرنا قطعا حرام ہے ! ثانیا : یہ روایات موقوف یا مقطوع ہیں اور موقوفات ومقطوعات دین میں حجت نہیں ہیں ۔ لہذا ان سے استدلال کرنا نا جائز ہے ۔


منقول محدث فورم

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔