جن کا انسانی بدن میں
داخل ہونا
جن و شیاطین انسان کو طرح
طرح سے ستاتے اور انہیں تکلیف دیتے ہیں ۔مثلا لوگوں کو خوف وہراس کا شکار بنانا،
نفسیاتی اور اعصابی امراض(پاگل پن، غم، قلق، بے چینی ، مرگی ووسوسےوغیرہ) میں
مبتلا کرنا، نگاہ اچک لینا، وہم میں مبتلا کرنا، دوآدمیوں کے درمیان تفریق پیدا کردینا،
بعض جنسی اور بعض نسوانی امراض کا مریض بنانا، جانی اور مالی نقصان پہنچاناوغیرہ
وغیرہ ۔ ان کے علاوہ بے شمار امراض ہیں جن کے ذریعہ شیطان اولاد آدم کو تکلیف دیتا
ہے جیساکہ قرآن میں ارشاد ہے :
ثُمَّ لآتِيَنَّهُم مِّن بَيْنِ
أَيْدِيهِمْ وَمِنْ خَلْفِهِمْ وَعَنْ أَيْمَانِهِمْ وَعَن شَمَآئِلِهِمْ وَلاَ
تَجِدُ أَكْثَرَهُمْ شَاكِرِينَ(سوره الاعراف آیه 17:)
ترجمہ : پھر ان کے پاس ان کے آگے ان
کے پیچھے ان کے دائیں اور ان کے بائیں سے آؤں گا اور تو اکثر کو ان میں سے شکر
گزار نہیں پائے گا۔
مذکورہ بالا جنی تکالیف کو ہم دو حصوں
میں تقسیم کر سکتے ہیں اور کہہ سکتے ہیں کہ جنات انسانوں کو دو طرح سے تکلیف دیتے
ہیں ۔
(1) اس کے جسم سے باہر
رہتے ہوئے ۔
(2) اس کے جسم میں داخل ہوکر۔
پہلی قسم کی ہزاروں مثالیں ہیں ، اس سے صرف نظر
کرتے ہوئے دوسری قسم پر نظر ڈالتے ہیں جو ہمارا موضوع ہے ۔
جنات کا انسانی بدن میں داخل ہونا:
یہ بات دلائل کی روشنی میں اظہر من الشمس ہے کہ
جن انسان کے بدن میں داخل ہوتا ہے ۔ اسے عربی میں "الصرع "یعنی آسیب
لگنا، سحرلگناکہتے ہیں اور اس آسیب زدہ شخص کو "المصروع"(پچھاڑاہوا)
کہتے ہیں۔
مصروع کی وضاحت: جب انسانی عقل میں خلل واقع
ہواور اسے یہ شعور باقی نہ رہے کہ وہ کیاکہہ رہاہے یا ابھی کیا کہا ہے اور آئندہ
کیا کہے گا۔یعنی اس کے اقوال کے مابین کوئی ربط نہ ہویا اس کا حافظہ باقی نہ
رہاہو، یا عقل میں خلل کے باعث اس کی حرکات و تصرفات میں خبطی پن پایا جائے ، یااس
میں سیدھے قدم رکھنے کی قدرت موجود نہ رہے یا اس کے جسم کا توازن ختم ہوگیا ہو۔ (عالم
الجن فی ضوء الکتاب والسنہ)
اردو میں اسے ہم آسیب زدہ یا سحرزدہ سے تعبیر
کرتے ہیں۔
انسان کو جن لگنے کی قرآنی دلیل :
الَّذِينَ يَأْكُلُونَ الرِّبَا لَا يَقُومُونَ إِلَّا كَمَا
يَقُومُ الَّذِي يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطَانُ مِنَ الْمَسِّ (سورۃ البقرۃ : 275)
ترجمہ : جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ نہ کھڑے ہوں
گے مگر اس طرح جس طرح وہ کھڑا ہوتا ہے جسے شیطان چھوکر خبطی بنادے ۔
اس آیت میں صریح دلیل ہے کہ شیطان انسان کے بدن
میں داخل ہوکر اسے خبط الحواس بنا دیتا ہے ۔آئیے چند مشاہر علماء و مفسرین کی طرف رجوع کرتے ہیں جن سے یہ
بات پایہ ثبوت کو پہنچ جاتی ہے کہ جن انسان کے بدن میں واقعتا داخل ہوجاتا ہے ۔
(1) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : سود خور کو روز
قیامت اس مجنوں کی طرح اٹھایا جائے گا جس کا گلا گھونٹا جا رہاہو۔(ابن ابی حاتم)
عوف بن مالک ، سعید بن
جبیر،سدی، ربیع بن انس ، قتادہ اور مقاتل
بن حیان سے اسی طرح مروی ہے ۔ (تفصیل کے لئے دیکھیں تفسیر قرطبی)
(2) امام قرطبی فرماتے
ہیں : اس آیت میں ان لوگوں کے خلاف دلیل ہے جو جنات کے لگنے کا انکار کرتے ہیں اور
کہتے ہیں کہ اس فعل کا تعلق طبیعت سے ہے ، نیز شیطان انسان کے اندر نہ تو داخل
ہوسکتا ہے ، نہ لگ سکتاہے ۔ (تفسیر قرطبی 3/255)
(3) حافظ ابن کثیرؒ
فرماتے ہیں: آیت کریمہ (الذین یاکلون الربا،،،،،) کا مطلب یہ ہے کہ سود خور اس طرح
کھڑے ہوں گے جس طرح وہ مریض کھڑا ہوتا ہے جسے شیطان لگاہو اور اسے خبطی بنا دیاہو،
یعنی وہ عجیب وغریب حالت میں کھڑا ہوتا ہے ۔
(تفسیرابن کثیر1/326)
(4) امام طبری ؒ اس آیت
کی تفسیر میں فرماتے ہیں : اس آیت کے معنی یہ ہیں کہ سود کھانے والے اس طرح حواس
باختہ ہوکر اٹھیں گے جس طرح دنیا میں وہ شخص تھا جسے شیطان نے آسیب میں مبتلا کرکے
مجنوں بنا دیاہو۔
(5) امام آلوسی فرماتے
ہیں : جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ اس طرح
کھڑے ہوں گے جس طرح دنیا میں جن زدہ شخص کھڑا ہوتا ہے ۔
لفظ "تخبط"
تفعل کے وزن پر فعل (یعنی خبط) کے معنی میں ہے ۔ اور اس کی اصل مختلف انداز کی
مسلسل ضرب ہے ۔ اور ارشاد الہی (من المس) کا مطلب جنون اور پاگل پن ہے ۔ کہاجاتا
ہے "مس الرجل فھو ممسوس" یعنی وہ پاگل ہوگیا ، اور مس کا اصل معنی ہاتھ
سے چھونا ہے ۔ (تفسیر قرطبی)
(6) امام شوکانی ؒ نے فتح
القدیر میں لکھا ہے : یہ آیت ان لوگوں کے خلاف دلیل ہے جنہوں نے جن چڑھنے کا انکار
کیا اور گمان کیا کہ اس فعل کا تعلق طبیعت سے ہے ۔
(7) ابوالحسن اشعری نے
اپنی کتاب "مقالات اہل السنہ والجماعہ" میں ذکر کیا ہے : وہ کہتے ہیں کہ
جن مصروع (آسیب زدہ) کے بدن میں داخل ہوتا
ہے جیساکہ اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا:
الَّذِينَ يَأْكُلُونَ الرِّبَا لَا يَقُومُونَ إِلَّا كَمَا
يَقُومُ الَّذِي يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطَانُ مِنَ الْمَسِّ (سورۃ البقرۃ : 275)
ترجمہ : سود خور لوگ نہ کھڑے ہوں گے مگر اس طرح
جس طرح وہ کھڑا ہوتا ہے جسے شیطان چھوکر خبطی بنادے ۔ (مجموع الفتاوی 19/12)
(8) امام ابن حزمؒ فرماتے ہیں : اللہ کا
قول" کالذی یتخبطہ الشیطان من المس" میں مصروع میں شیطان کی تاثیر کا
ذکر ہے اور یہ چھونے سے ہوتا ہے ۔
(9) شیخ الاسلام امام ابن
تیمیہ ؒ لکھتے ہیں : جن کا انسان کے بدن میں داخل ہونا بھی اہل سنت و جماعت کے
اتفاق سے ثابت ہے ، اللہ تعالی کا فرمان ہے :
الَّذِينَ يَأْكُلُونَ الرِّبَا لَا يَقُومُونَ إِلَّا كَمَا
يَقُومُ الَّذِي يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطَانُ مِنَ الْمَسِّ (سورۃ البقرۃ : 275)
ترجمہ : سود خور لوگ نہ کھڑے ہوں گے مگر اس طرح
جس طرح وہ کھڑا ہوتا ہے جسے شیطان چھوکر خبطی بنادے ۔
اور نبی ﷺ کی حدیث سے
صحیح ثابت ہے ۔ "شیطان اولاد آدم کے رگ و پے میں خون کی جگہ دوڑتا ہے ۔
(مجموع الفتاوی 24/276)
اسی لئے شیخ الاسلامؒ
فرماتے ہیں ہیں : ائمہ مسلمین میں کوئی ایسا نہیں جو مرگی والے انسان میں داخل
ہونے کا انکار کرتا ہو ۔ اور جس نے اس کا انکار کیا اور یہ دعوی کیا کہ شریعت بھی
اس کو جھٹلاتی ہے ، اس نے شرع پر جھوٹ بولا، اور شرعی دلائل میں کوئی ایسی دلیل
نہیں جو اس کی نفی کرتی ہو۔ (مجموع الفتاوی 24/277)
جن لگنے کے دلائل احادیث
سے :
(1) ان الشیطان یجری من
ابن آدم مجرم الدم (صحیح بخاری ح 2175)
ترجمہ: شیطان ابن آدم میں
اس طرح گردش کرتا ہے جس طرح خون ۔
٭اس حدیث سے پتہ چلتا ہے
کہ شیطان انسان کے خون میں گردش کرتا ہے اور خون بدن کے اندر رہتا ہے اسی لئے ابن
حجر ہیثمی ؒ اس حدیث کے متعلق لکھتے ہیں کہ اس حدیث میں ان لوگوں کا رد ہے جو
شیطان کے انسانی بدن میں دخول کا انکار
کرتے ہیں ۔
٭امام نوویؒ شرح مسلم میں
لکھتے ہیں کہ قاضی وغیرہ نے کہا یہ اپنے حقیقی معنی پر محمول ہے ۔ اللہ تعالی نے
شیطان کو قوت و طاقت دی ہے جس سے انسان کے اندر خون کے راستے سے داخل ہوسکتا ہے ۔
(2) عن عثمان بن ابي العاص ، قال: لما استعملني
رسول الله صلى الله عليه وسلم على الطائف ، جعل يعرض لي شيء في صلاتي حتى ما ادري
ما اصلي ، فلما رايت ذلك رحلت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم ،
فقال:"ابن ابي العاص"، قلت: نعم يا رسول الله ،
قال:"ما جاء بك"، قلت: يا رسول الله ، عرض لي شيء في صلواتي حتى
ما ادري ما اصلي ، قال:"ذاك الشيطان ادنه"، فدنوت منه ، فجلست على
صدور قدمي ، قال: فضرب صدري بيده ، وتفل في فمي ، وقال:"اخرج عدو
الله"، ففعل ذلك ثلاث مرات ثم قال:"الحق بعملك"، قال: فقال
عثمان: فلعمري ما احسبه خالطني بعد.(صحيح ابن ماجة ح 2858)
ترجمہ : عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے طائف کا عامل مقرر کیا، تو مجھے نماز میں کچھ ادھر ادھر کا خیال آنے لگا یہاں تک کہ مجھے یہ یاد نہیں رہتا کہ میں کیا پڑھتا ہوں، جب میں نے یہ حالت دیکھی تو میں سفر کر کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچا، تو آپ نے فرمایا: ”کیا ابن ابی العاص ہو“؟، میں نے کہا: جی ہاں، اللہ کے رسول! آپ نے سوال کیا: ”تم یہاں کیوں آئے ہو“؟ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! مجھے نماز میں طرح طرح کے خیالات آتے ہیں یہاں تک کہ مجھے یہ بھی خبر نہیں رہتی کہ میں کیا پڑھ رہا ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ شیطان ہے، تم میرے قریب آؤ، میں آپ کے قریب ہوا، اور اپنے پاؤں کی انگلیوں پر دو زانو بیٹھ گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مبارک ہاتھ سے میرا سینہ تھپتھپایا اور اپنے منہ کا لعاب میرے منہ میں ڈالا، اور (شیطان کو مخاطب کر کے) فرمایا: «اخرج عدو الله» ”اللہ کے دشمن! نکل جا“ یہ عمل آپ نے تین بار کیا، اس کے بعد مجھ سے فرمایا: ”اپنے کام پر جاؤ“ عثمان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: قسم سے! مجھے نہیں معلوم کہ پھر کبھی شیطان میرے قریب پھٹکا ہو۔
٭اس حدیث میں دلیل ہے کہ صحابی رسول کے بدن میں شیطان داخل ہوگیا تھا ، اسی وجہ سے نبی ﷺ نے اس شیطان کو اندر سے نکلنے کا حکم دیا ۔ اگر شیطان اندر نہیں ہوتا تو نکلنے کا حکم دینا لغو اور عبث ٹھہرتا۔ اور ہمارے نبی ﷺ نے کبھی کوئی لغو بات نہیں کی ۔
ترجمہ : عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے طائف کا عامل مقرر کیا، تو مجھے نماز میں کچھ ادھر ادھر کا خیال آنے لگا یہاں تک کہ مجھے یہ یاد نہیں رہتا کہ میں کیا پڑھتا ہوں، جب میں نے یہ حالت دیکھی تو میں سفر کر کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچا، تو آپ نے فرمایا: ”کیا ابن ابی العاص ہو“؟، میں نے کہا: جی ہاں، اللہ کے رسول! آپ نے سوال کیا: ”تم یہاں کیوں آئے ہو“؟ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! مجھے نماز میں طرح طرح کے خیالات آتے ہیں یہاں تک کہ مجھے یہ بھی خبر نہیں رہتی کہ میں کیا پڑھ رہا ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ شیطان ہے، تم میرے قریب آؤ، میں آپ کے قریب ہوا، اور اپنے پاؤں کی انگلیوں پر دو زانو بیٹھ گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مبارک ہاتھ سے میرا سینہ تھپتھپایا اور اپنے منہ کا لعاب میرے منہ میں ڈالا، اور (شیطان کو مخاطب کر کے) فرمایا: «اخرج عدو الله» ”اللہ کے دشمن! نکل جا“ یہ عمل آپ نے تین بار کیا، اس کے بعد مجھ سے فرمایا: ”اپنے کام پر جاؤ“ عثمان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: قسم سے! مجھے نہیں معلوم کہ پھر کبھی شیطان میرے قریب پھٹکا ہو۔
٭اس حدیث میں دلیل ہے کہ صحابی رسول کے بدن میں شیطان داخل ہوگیا تھا ، اسی وجہ سے نبی ﷺ نے اس شیطان کو اندر سے نکلنے کا حکم دیا ۔ اگر شیطان اندر نہیں ہوتا تو نکلنے کا حکم دینا لغو اور عبث ٹھہرتا۔ اور ہمارے نبی ﷺ نے کبھی کوئی لغو بات نہیں کی ۔
٭علامہ البانی ؒ فرماتے
ہیں کہ یہ حدیث صریح دلیل ہے کہ کبھی شیطان انسان کی شکل اختیار کرتا ہے اور اس
میں داخل ہوجاتا ہے ، گرچہ مومن اور صالح آدمی ہی کیوں نہ ہو۔ (دیکھیں : سلسلہ
الاحادیث الصحیحہ 2918)
(3) عن يعلى بن مرة رضى الله عنه عن النبي صلى الله
عليه وسلم قال : أنه أتته إمرأة بإبن لها قد أصابه لمم- اى طرف من الجنون , فقال
النبي صلى الله عليه وسلم: "أخرج عدو الله أنا رسول الله ". قال
فبرأفاهدت له كبشين و شيئا من إقط و سمن فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:
يايعلي خذ الإقط والسمن و خذ أحد الكبشين ورد عليها الآخر(سلسلة الأحاديث الصحيحة
1/874)
ترجمہ: یعلی بن مرہ سے
روایت ہے کہ کہ نبی ﷺ کے پاس ایک عورت اپنے بچے کے ساتھ آئی جسے جنون ہوگیا تھا ۔
نبی ﷺ نے فرمایا: "اے اللہ کے دشمن نکل جاؤ ، میں اللہ کا رسول ہوں "۔
وہ کہتے ہیں کہ بچہ ٹھیک ہوگیا تو اس عورت نے آپ کو دومینڈھا ، کچھ دودھ اور گھی
ہدیہ کیا ۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اے یعلی دودھ، گھی اور ایک مینڈھا لے لو اور ایک
مینڈھا اسےواپس کردو۔
٭یہ حدیث بہت سارے طرق سے
مروی ہے ۔
٭اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے
کہ نبی ﷺ نے شیطان کو مخاطب کیا جو بچہ میں داخل ہوکر اس کی عقل میں فتور پیدا
کردیا تھا جب شیطان کو نبی ﷺ نے رسول ہونے کا واسطہ دے کربچے کے اندرسے نکلنے کا
حکم دیا تو بچہ درست ہوگیا۔
(4) عن عم خارجة بن الصلت التميمي - رضي الله عنه -
: ( أنه أتي رسول الله صلى الله عليه وسلم فأسلم ، ثم أقبل راجعا من عنده ، فمر
على قوم عندهم رجل مجنون موثق بالحديد ، فقال أهله : إنا حدثنا أن صاحبكم هذا ، قد
جاء بخير ، فهل عندك شيء تداويه ؟ فرقيته بفاتحة الكتاب ، فبرأ ، فأعطوني مائة شاة
، فأتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم فأخبرته ، فقال : ( هل إلا هذا ) وقال مسدد
في موضع آخر : ( هل قلت غير هذا ) ؟ قلت : لا ! قال : ( خذها ، فلعمري لمن أكل برقية
باطل ، لقد أكلت برقية حق )(السلسلة الصحيحة – 2027 )
ترجمہ : خارجہ بن صلت
تمیمی رضی اللہ عنہ کے چچا سے مروی ہے : وہ نبی ﷺ کے پاس آئے اور اسلام قبول کیا ۔
پھر آپ ﷺ کے پاس سے واپس لوٹ گئے ۔ ان کا گذر ایک قوم کے پاس سے ہوا جن کے پاس ایک
آدمی جنوں کی وجہ سے لوہے سے بندھا تھا۔ ان لوگوں نے کہا کہ بتلایا گیا ہے کہ
تمہارے ساتھی (نبی ﷺ) نے بھلائی لایاہے ۔
تو کیا آپ کے پاس کچھ ہے جس کے ذریعہ آپ اس کا علاج کرسکیں ؟ تو میں نے اس پرسورہ
فاتحہ کے ذریعہ دم کردیا ۔ پس ٹھیک
ہوگیاتو انہوں نے مجھے ایک سو بکریاں دی ۔ میں نبی ﷺ کے پاس آیا اور آپ کو خبر دی
۔ پس آپ نے کہا: کیا یہی تھا۔ مسدد نے کہا دوسری جگہ ہے : کیا اس کے علاوہ بھی
پڑھا تھا؟ تو میں نے کہا : نہیں ، آپ نے فرمایا: اسے لے لو۔ میری عمر کی قسم ! جس
نے باطل دم کے ذریعہ کھایا(اس کا بوجھ اور گناہ اس پر ہے)، تو نے تو صحیح دم کے
ذریعہ کھایا(تم پر کوئی گناہ نہیں)۔
٭یہاں ایک آدمی کا ذکر ہے
جسے جنون ہوگیا تھا جو آسیب (جن سوارہونے) کی وجہ سے تھا ۔ جب اس پر فاتحہ کے
ذریعہ دم کیا گیا تو درست ہوگیا۔
(5) اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ
مِنَ الْهَدْمِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنَ التَّرَدِّي، وَأَعُوذُ بِكَ مِنَ الْغَرَقِ،
وَالْحَرَقِ، وَالْهَرَمِ، وَأَعُوذُ بِكَ أَنْ يَتَخَبَّطَنِيَ الشَّيْطَانُ
عِنْدَ الْمَوْتِ، وَأَعُوذُ بِكَ أَنْ أَمُوتَ فِي سَبِيلِكَ مُدْبِرًا،
وَأَعُوذُ بِكَ أَنْ أَمُوتَ لَدِيغًا۔(صحيح سنن أبي داود، 5/ 275و صححه الألباني
في صحيح النسائي، 3/1123،)
ترجمہ : اے اللہ میں گرنے، ڈوبنے،
جلنے ، بڑھاپےسے تیری پناہ مانگتاہوں۔ اور تیری پناہ مانگتاہوں کہ مجھے شیطان موت
کےوقت خبطی نہ بنادے ، اور تیری پناہ طلب کرتاہوں کہ راہ جہاد سے پیٹھ پھیرتے ہوئے
مارا جاؤں ، اور میں تیری پناہ چاہتاہوں اس بات سے کہ ڈنسنے سے مارا جاؤں ۔
٭ ابن اثیر کہتے ہیں کہ " وَأَعُوذُ بِكَ أَنْ
يَتَخَبَّطَنِيَ الشَّيْطَانُ" یعنی شیطان مجھے پچھاڑدے اور میرے ساتھ کھیلے ۔ (النہایۃ
فی غریب الحدیث 2/8)
٭ مناوی نے اپنی کتاب فیض (ج2ص148) میں عبارت کی شرح میں کہا ہے (اور میں تجھ
سے پناہ مانگتا ہوں کہ شیطان مجھے موت کے وقت خبطی کردے) کہ وہ مجھ سے چمٹ جائے
اور میرے ساتھ کھیلنا شروع کردے اور میرے دین یا عقل میں فساد بپا کردے۔ (موت کے
وقت) یعنی نزع کے وقت جس وقت پاؤں ڈگمگا جاتے اور عقلیں کام کرنا چھوڑ دیتی اور حواس
جواب دے جاتے ہیں۔ اور بعض اوقات شیطان انسان پر دنیا کو چھوڑتے وقت غلبہ پالیتا
ہے تو اسے گمراہ کردیتا یا پھر اسے توبہ سے روک دیتا ہے۔۔۔) الخ
(6) عَنْ أَنَسٍ أَنَّ النَّبِيَّ
صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقُولُ: "اللَّهُمَّ إِنِّي
أَعُوذُ بِكَ مِنْ الْجُنُونِ، وَالْجُذَامِ، وَالْبَرَصِ، وَسَيِّئِ الأَسْقَامِ "(صحیح ابو داؤد)
ترجمہ : انس رضی الله عنہ سے روایت
ہے کہ نبی اکرم صلی للہ علیہ وسلم کہتے تھے: '' اے اللہ! جنون (پاگل پن)، جذام،
برص اور برے امراض سے تیری پناہ مانگتا ہوں ''۔
٭ امام قرطبی ؒ کہتے ہیں :
کہ مس ہی جنون ہے ۔ ( الجامع لاحکام القرآن 3/230)
(7) عن أبي سعيد - رضي الله عنه - قال : قال رسول
الله صلى الله عليه وسلم :( إذا تثاءب أحدكم فليضع يده على فيه ، فإن الشيطان يدخل
مع التثاؤب ) ( صحيح أبو داوود 1375 و صحيح الجامع 426)
ترجمہ : ابوسعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے
کہا نبی ﷺ نے فرمایا: جب تم میں سے کسی کو جماہی آئے تو اپنا ہاتھ اپنے منہ پر رکھ
لیا کرو کیونکہ شیطان جماہی کے ساتھ اندر داخل ہوجاتاہے ۔
٭حافظ ابن حجر ؒ نےفتح
الباری میں اس کے تحت لکھا ہے کہ یہاں دخول حقیقی معنی پر محمول ہےاور یہ بھی کہا
ہے کہ دخول سے تمکن مراد ہو ۔ (فتح الباری 10/628)
(8) عن عطاء بن رباح قال : قال لي ابن عباس - رضي
الله عنه – : ( ألا أريك امرأة من أهل الجنة ؟ قلت : بلى ، قال هذه المرأة السوداء
أتت النبي صلى الله عليه وسلم فقالت : إني أصرع وإني أتكشف فادع الله لي ، قال :
إن شئت صبرت ولك الجنة ، وإن شئت دعوت الله أن يعافيك ؟ فقالت : أصبر ، فقالت :
إني أتكشف فادع الله لي أن لا أتكشف ، فدعا لها) (صحيح البخاري ح 5652)
ترجمہ : عطاء بن رباح سے
روایت ہے کہ انہوں نے کہا، مجھ سے ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا: کیا میں تم کو
جنت کی ایک عورت نہ دکھاؤں ؟ میں نے کہا: کیوں نہیں ۔ تو انہوں نے کہا، یہ کالی
عورت نبی ﷺ کے پاس آئی اور کہی : میں پچھاڑدی جاتی ہوں اور میں ننگی ہوجاتی ہوں پس
آپ میرے لئے اللہ سے دعا کر دیجئے ، آپ ﷺ نے فرمایا: اگر تم صبر کروگی تو تمہارے
لئے جنت ہے ، اور اگر تم چاہوں میں اللہ سے دعا کردوں تاکہ ٹھیک ہوجاؤ؟ تو اس عورت
نے کہا: میں صبر کروں گی ، کہی : میں ننگی ہوجاتی ہوں میرے لئے اللہ سے دعا کیجئے
تاکہ ننگی نہ ہوسکوں ، تو نبی ﷺ نے اس کے
لئے دعا کی ۔
٭اس حدیث میں صراع کا لفظ
ہے جو آسیب کے لئے استعمال ہوتاہے ۔
٭بعض روایات میں ذکر ہے
عورت کہتی ہے میں خبیث سے ڈرتی ہوں اور خبیث کی صراحت شیطان ملتی ہے ۔ (فتح الباری 10/115)
٭ ابن عبدالبرؒ نے
الاستیعاب میں اور ابن الاثیر ؒ نے اسدالغابہ میں ام زفر کی سوانح میں لکھا ہے کہ
یہ وہی عورت ہے جسے جن نے چھوا تھا۔
٭ابن القیم ؒ نے لکھا ہے
یہ کالی عورت خبیث روح کی جانب سے پچھاڑی گئی تھی ۔
٭ اس حدیث میں عورت کے
اندر جن کے دخول کا واضح ثبوت موجود ہے ۔
جن لگنے کی عقلی دلیل :
(1) شیخ محمد حامد کہتے
ہیں : جب جنات لطیف اجسام ہیں تو انسان کے جسم میں ان کا جاری و ساری ہونا عقلا
وشرعا محال نہیں ، کیونکہ باریک چیز موٹی چیز کے اندر سرایت کر جاتی ہے مثلا ہواہمارے
جسم میں داخل ہوجاتی ہے ، آگ انگارے میں گھس جاتی ہے اور بجلی تار کے اندر چلی
جاتی ہے ۔(بحوالہ جادواور آسیب کا کامیاب علاج ص50)
(2) ایک جگہ غازی عزیرصاحب
لکھتے ہیں : چونکہ یہ مخلوق جسم لطیف کی مالک ہیں لہذا ہم مادی طور پر نہ انہیں
دیکھ پاتے ہیں اور نہ ہی محسوس کر پاتے ہیں ۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جنات اور
شیاطین انسانوں کے بدن میں داخل ہوکر بالکل جذب ہوجاتے ہیں ۔ اس بات کو یوں سمجھا
جاسکتا ہے کہ جس طرح جلتے ہوئے کوئلہ میں آگ، یاگیلی ریت، یا کپڑے میں ، یابجلی کے
تاروں، یا مقناطیس میں برقی، اور مقناطیسی لہریں ، یادودھ میں پانی ، یاپانی میں
نمک اور شکر، یا ہوا میں خوشبو اور بدبو وغیرہ مکمل طور پر جذب ہوجاتی ہے اسی طرح
جن اور شیاطین بھی انسان کے جسم میں داخل ہوکر جذب ہوجاتے ہیں ۔ (جادو کی حقیقت
کتاب وسنت کی روشنی میں ازغازی عزیرص 165)
تجرباتی اور مشاہداتی
دنیا:
اس شق کی اگر وضاحت کی
جائے تو ایک بڑی ضخیم کتاب تیار ہوجائے گی ۔ دنیا کے چپے چپے میں جن کا انسانوں
میں داخل ہوکر کھلواڑ کرنے اور تکلیف دینےکا واقعہ پایا جاتا ہے ۔ برصغیر میں تواس
کی انتہا ہے ، یہاں شاید کوئی ایسا گاؤں یا شہر ہوگا جہاں آئے روز یہ واقعہ نہ
رونما ہوتا ہو؟
اس کی وجہ سے گھر کے گھر
تباہ ہوئے ، کتنے افراد کی زندگیاں خاکستر ہوگئیں اور کتنے مصروع کو اللہ تعالی نے
شفا بھی دی ۔ میں نے اپنے ہی گھر میں اس کا تجربہ کیا ، چار مہینے تک میرے گھر کے
ایک فرد پر جن کا اثر رہا ، میراپورا گھرانہ پڑھالکھاہونے کےباوجودگھر کے سارے لوگ
ہراساں و پریشان تھے اور زندگی دوبھرہو گئی تھی ۔ متواتر شرعی دم کرتے رہنے کی وجہ
سے اللہ تعالی نے مریض کو شفا دی اور پھر گھر میں رونق بحال ہوئی ۔
اللہ تعالی ہر کسی کو اس
بلا سے محفوظ رکھے ۔ آمین
آسیب کا علاج کرنا بھی
اپنے سماج میں ایک پیشہ کی حیثیت اختیار کر لیا ہے ، اس پر عاملین بے تحاشہ لوگوں
کا مال لوٹتے ہیں ۔ کچھ اللہ کے نیک اور مخلص بندے بھی ہیں جو بغیر اجرت طے کئے
کتاب و سنت کی روشنی میں جن اتارنے کا علاج کرتے ہیں ۔ اسلاف کرام سے بھی اس قسم
کے بے شمار صحیح واقعات کتابوں میں مرقوم ہیں ۔ ان کے یہاں اس چیز کا بھی ذکر ملتا
ہے کہ آسیب کا علاج کرتے وقت جن و شیاطین کووعظ ونصیحت کرتے، اسلام کی دعوت دیتے ، ظلم سے منع کرتےاور بھلائی
کے ساتھ مریض کے بدن سے چلے جانے کا حکم دیتے ۔
ابن القیم ؒ نے زادالمعاد
میں اپنے شیخ ابن تیمیہ ؒ کے متعلق لکھا ہے کہ وہ جن سے مخاطب ہوتے ، اس کو نصیحت
کرتے اور ظلم کرنےسے منع کرتے ۔ ( "زاد المعاد" 4/68، 69)
بعض جن وعظ ونصیحت سے
متاثر ہوکر اسلام بھی قبول کرلیتاہے۔ شیخ ابن بازؒ کے ہاتھ پر ایک جن کے اسلام
قبول کرنے کا واقعہ ملتاہے جو ایک لڑکی کے بدن میں داخل ہوگیاتھا، اس واقعہ کو شیخ
محمد بن صالح المنجد نے ذکر کیا ہے ۔
المہم ! میں وثوق کے ساتھ
کہہ سکتا ہوں عام عاملین کی باتوں کی پرواہ کئے بغیر بعض جید اور زہدوورع والے
علماء و مشائخ جنہوں نے انسانی بدن میں جن کے دخول ، اس کا نکلنایانکالنا، بعض کا
مسلمان ہوجانالکھا ہے وہ حق بجانب ہیں اور ان کی باتیں کتاب و سنت کی روشنی میں
صحیح ہیں۔
جن لگنے سے متعلق
چندعلماء کے بیانات و فتاوے
(1) عبد اللہ بن امام
احمد بن حنبل ؒ بیان کرتے ہیں کہ " میں نے اپنے والد سے کہا ، بہت سے لوگ
ایسا کہتے ہیں کہ کوئی جن کسی مصروع (جس پر جن سوار ہو) کے بدن میں داخل نہیں
ہوسکتا توآپ نے فرمایا: اے بیٹے ! وہ لوگ جھوٹ بولتے ہیں ، اصلا یہ شیطان ہی ہے جو
ان کی زبان سے (یہ جھوٹ ) بولتا ہے ۔
(مجموع الفتاوی 24/277، رسالۃ الجن /8)
(2) شیخ الاسلام ابن
تیمیہ ؒ نے فرمایا: انسان کے جسم میں جنات کا داخل ہونا باتفاق اہل سنت ثابت ہے
اور یہ بات غور وفکر کرنے والے کے مشاہدے میں ہے ۔ جن مریض کے جسم میں داخل ہوتا
ہے اور ایسی بات بولتا ہے جسے مریض نہیں جانتا بلکہ اسے اس کے بولنے کا پتہ نہیں
ہوتا۔ (مختصر الفتاوی 584)
(3) حسن بصریؒ کا قول ہے
: کہ اللہ تعالی جس پر چاہے انہیں مسلط کردیتاہے اور جس پر نہ چاہے اس پر مسلط
نہیں کرتا اور وہ اللہ کے حکم کے بغیر کسی پر طاقت نہیں رکھتے ۔
(4)ابن القیم ؒ کہتے ہیں
: جاہل ، گھٹیا اور نچلے درجے کے اطباء اور زندیقیت پر یقین رکھنے والے ، روحوں کے
جنوں کا انکار کرتے ہیں اور اس بات کو تسلیم نہیں کرتے کہ روحیں مجنوں کے جسم پر
اثر انداز ہوسکتی ہیں اور ان کا یہ انکار جہالت کی وجہ سے ہے کیونکہ فن طب میں بھی
اسکی ممانعت کی کوئی دلیل نہیں ہے اور پھر حس اور وجود اس کے شاہد عدل ہیں ۔
(زادالمعاد4/67)
(5) ابوالحسن اشعری ؒ
کہتے ہیں کہ اہل السنہ والجماعہ کا کہنا ہے کہ جن مصروع (آسیب زدہ ) کے بدن میں
داخل ہوتا ہے ۔
(6) علامہ محمود آلوسی ؒ
لکھتے ہیں: بعض
اجسام میں ایک بدبو داخل ہوتی ہے ۔ اور اس کے مناسب ایک خبیث روح اس پر قابو
پالیتی ہے اور انسان پر مکمل جنون طاری ہو جاتا ہے۔ بسااوقات یہ بخارات انسان کے
حواس پر غالب ہوکر حواس معطل کردیتے ہیں اور وہ خبیث روح انسان روح کے جسم پر تصرف
کرتی ہے او اس کے اعضاءسے کلام کرتی ہے ۔ چیزوں کو پکڑتی ہے اور دوڑتی ہے حالانکہ
اس شخص کو بالکل پتہ نہیں چلتا اور یہ بات عام مشاہدات سے ہے جس کا انکار کوئی ضدی
شخص ہی کر سکتا ہے ۔ (روح المعانی ، ج ۳، ص 28)
(7) شیخ البانی ؒ لکھتے ہیں جس کا خلاصہ
یہ ہے کہ ہم جن کا انسان پر تسلط قائم کرنے کا انکار نہیں کرتے کیونکہ سنت سے ثابت
ہے کہ نبی ﷺ نے بعض ایسے لوگوں کا علاج کیا جن کو جن نے چھوا تھا۔ (شریط:518)
(8) دائمی کمیٹی کے فتوی سے (انسانی جسم میں کسی جن کے داخل ہونے کے مسئلہ کے بارے
میں بیان نمبر : 21518 )"جن کے انسان میں داخل ہونے کے جواز پر شرعی دلائل اور
علماء اہل سنت کے اجماع کا ہم نے جو ذکر کیا ہے اس سے قارئین پر اس کے انکار کرنے
والوں کے اقوال کا غلط و باطل ہونا واضح ہوجاتا ہے "۔( علمی تحقیقات اور فتاوی جات کی دائمی
کمیٹی)
(9) شیخ محمد بن صالح المنجدنے محمد حمود النجدی کے
حوالے سے لکھا ہے : جن
کا انسان کے بدن میں داخل ہونا یقینی طور پر کتاب وسنت اور بااتفاق اہل وسنت
والجماعت اور حسی اور مشاہداتی طور پر ثابت ہے اور اس معاملہ میں سوائے معتزلہ کے
جنہوں نے اپنے عقلی دلائل کو کتاب وسنت پر مقدم کیا ہے کسی اور نے اختلاف نہیں کیا۔ (الاسلام سوال و جواب
فتوی نمبر 1819)
(10) شیخ ابوبکر الجزائری
مدرس حرم نبوی نے ایک واقعہ ذکر کیا ہے ۔ مختصرا عرض ہے کہ ان کی بڑی بہن سعدیہ
ایک دن چھت سے زمین پر گر پڑی ، جس جگہ گری تھی وہاں کوئی جن تھا ۔ اس سبب وہ جن
اس پر سوار ہوکر طرح طرح سے اسے ستانے لگا۔ متعدد بار ان کی زبان سے صراحت کے ساتھ
اس جن نے یہ بات کہلوائی کہ میں ایسا اس لئے کرتا ہوں کہ فلاں دن ، فلاں جگہ اس نے
مجھے تکلیف پہنچائی ۔ اذیت کا سلسلہ تقریبا دس سال تک چلتا رہا یہاں تک کہ اسی
نتیجے میں ایک دن موت واقع ہوگئی ۔(جادو کی حقیقت کتاب وسنت کی روشنی میں ازغازی
عزیر) اناللہ واناالیہ راجعون
(11) شیخ ابن عثیمین ؒ کا
قول ہے : اور ایسے ہی بعض اوقات جن انسان کے بدن میں داخل ہوجاتاہےیا تو عشق کی بنا
پریا پھر تکلیف دینے کے لئے یا کسی اور سبب کی بنا پر۔
اور اسی طرف اللہ تعالی
کا یہ فرمان اشارہ کر رہاہے ۔
الَّذِينَ يَأْكُلُونَ الرِّبَا لَا يَقُومُونَ إِلَّا كَمَا
يَقُومُ الَّذِي يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطَانُ مِنَ الْمَسِّ (سورۃ البقرۃ : 275)
ترجمہ : اور وہ لوگ جوکہ سودخور ہیں کھڑے نہیں ہونگے
مگر اسی طرح جس طرح وہ کھڑا ہوتا ہے جسے شیطان چھوکر خبطی بنادے۔
(مجموع فتاوی از ابن
عثیمین 1/288)
(11) احمد رضا ؒ بریلوی فتاوی افریقہ میں لکھتے ہیں کہ حاضرات( شریر جنات مختلف روپ میں آکر
مسلمانوں کو ستاتے ہیں ۔ بلکہ بسااوقات تو انسانی جسم میں ظاہر ہو کر کسی بزرگ کے
نام سے منسوب کرتے ہیں اور پھر لوگوں کے سوالات کے الٹے سیدھے جوابات دیتے ہیں ،
بیماریوں کا علاج بتاتے ہیں وغیرہ ۔ اسی کو فی زمانہ حاضری کا نام دیا جاتا ہے )
کر کے موکلاں جن سے پوچھتے ہیں فلاں مقدمہ میں کیا ہوگا؟ فلاں کام کا انجام کیا
ہوگا؟ یہ حرام ہے ۔ (تو اب جن غیب سے نرے جاہل ہیں ان سے آئندہ کی بات پوچھنی
عقلاً حماقت اور شرعاً حرام اور ان (جنات) کی غیب دانی کا اعتقاد ہوتو کفر ۔
(فتاویٰ افریقہ ، ص 177)
مذکورہ کلام کی روشنی میں
جن کا انسان کے بدن میں داخل ہونا واضح ہوجاتاہے ، ان سارے ناقابل تردید دلائل
وحقائق کے بعد انکار کی جرات کرنا نری جہالت اور حماقت ہے ، دراصل کتاب وسنت سے
ثابت شدہ ایک واضح دینی امر کا کھلا انکار کرنا ہے ۔ اور جو حق واضح ہوجانے کے
باوجود عنادوتکبر میں پڑا رہے تو ایسے لوگوں کے لئے میری زبان حال وقال سے یہ دعا
نکلتی ہے ۔
اللهم اهد قومي فإنهم لا يعلمون
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔
اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔