کیا علاج توکل کے منافی ہے ؟
=================
دواعلاج کرانا جائزہی نہیں بلکہ مستحب
اور پسندیدہ ہے۔ امام
مسلم ؒ نے صحیح مسلم میں ابو زبیر کی حدیث جو جابر بن عبداللہ ؓ کی سند سے مروی
ہے‘ روایت کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ ہر بیماری کا علاج موجود ہے جب دوا کا
استعمال بیماری کے مطابق کیا جاتا ہے تو حکم الٰہی کے طفیل شفاءہوجاتی ہے۔
اور صحیحین میں عطاءنے حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت بیان کی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اللہ نے دنیا میں جب کوئی بیماری پیدا فرمائی تو اس کی شفاءاور دوا بھی ساتھ ہی ساتھ نازل فرمائی۔
اور صحیحین میں عطاءنے حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت بیان کی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اللہ نے دنیا میں جب کوئی بیماری پیدا فرمائی تو اس کی شفاءاور دوا بھی ساتھ ہی ساتھ نازل فرمائی۔
شبہ
کا ازالہ
------------
بعض لوگوں نے علاج کو توکل کے منافی قرار دیا ہے جو کہ ایک
غلط فہمی ہے ۔ ان کا استدلال بخاری و مسلم کی ایک حدیث سے ہے ۔
آپ
ﷺنے
فرمایا:
ہم الذین لایتطیرون و لایکتوون ولا یسترقون وعلیٰ ربہم
یتوکلون۔
”یہ وہ لوگ ہیں جو پرندوں کے ذریعے نہ شگون لیتے ہیں ، نہ
داغ لگواتے ہیں اور نہ جھاڑپھونک کرتے ہیں اور اپنے رب پر بھروسا کرتے ہیں“۔
اس روایت سے یہ استدلال کیاگیاہے کہ تدبیر کے مقابلے میں توکل
کامقام اونچا ہے۔
حقیقت میں اس حديث میں علاج کےممنوع اور ناپسندیدہ طریقوں کو اختیارکرنے
سے منع کیاگیا ہے کیونکہ بہت ساری احادیث میں علاج کرنے اور علاج کى صحیح صورت کو
ذکر کیا گیا ہے ۔
امام
ابن قیم رحمه الله فرماتے ہیں:صحیح احادیث میں علاج کا حکم ہے، یہ توکل
کے منافی نہیں ہے۔ جس طرح بھوک پیاس، گرمی اور سردی کو جو چیزیں دور کرتی ہیں ان
کے ذریعے ان کودور کرنا خلاف توکل نہیں ہے، اسی طرح علاج بھی توکل کے خلاف نہیں
ہے۔ بل کہ صحیح بات یہ ہے کہ توحید کی حقیقت ہی اس وقت مکمل ہوتی ہے جب کہ آدمی ان
اسباب کو استعمال کرے، جن کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے مسببات کو مقدر کر رکھا ہے۔ اور
شرعاً ان کے استعمال کاحکم دیاہے۔ ان کو چھوڑنے والا اپنی جگہ یہ سمجھتاہے کہ اسے
توکل کا اعلیٰ مقام حاصل ہے۔ حالاں کہ اس سے توکل کوبھی نقصان پہنچتا ہے اور یہ
اللہ کے قانون اور حکمت کے بھی خلاف ہے۔ توکل کی حقیقت یہ ہے کہ آدمی کو دین و
دنیا کے کسی بھی فائدے کو حاصل کرنے اور دونوں جگہ کے کسی بھی نقصان سے بچنے
میںاللہ پراعتماد ہو۔ اس اعتماد کے ساتھ اسباب کا اختیارکرنابھی ضروری ہے۔ ورنہ
آدمی حکمت وشریعت دونوں کو چھوڑنے والا ہوگا۔ اسے نہ تو اپنے عجزو کوتاہی کو توکل
سمجھنا چاہیے، اور نہ توکل کو عجز اور کوتاہی بنا دینا چاہیے۔“
(الطب النبوی ص:105 اور اس سے آگے۔)
حافظ ابن حجر رحمه الله فرماتے ہیں: ”جس شخص کو اللہ
تعالیٰ پر وثوق اور اعتماد ہو اور جسے یہ یقین ہو کہ اللہ کا فیصلہ بہرحال
نافذہوکر رہے گا۔ اس کا رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے احکام اور آپ کی سنت کے
اتباع میں اسباب و وسائل کو اختیارکرنا توکل کو نقصان نہیں پہنچائے گا۔ رسول اللہ
انے جنگ میں ایک نہیں دو زرہیں پہنیں، سرمبارک کی حفاظت کے لیے خود استعمال
فرمایا،احدمیں گھاٹی کے دہانے پر تیراندازوں کو بٹھایا، مدینے کے اطراف خندق
کھدوائی، حبشہ اور مدینہ کی طرف ہجرت کی ،صحابہ کو اجازت دی۔ خود بھی ہجرت فرمائی،
کھانے پینے کے سازو سامان رکھے، گھروالوں کے لیے غلّہ جمع کیا اور اس کا انتظار
نہیں کیاکہ آسمان سے کوئی چیز نازل ہو حالاں کہ آپ اس کے زیادہ مستحق ہوسکتے تھے۔
اسی طرح ایک شخص نے آپ سے سوال کیاکہ میں اپنے اونٹ کو باندھوں یا کھلاچھوڑدوں؟ آپ
نے فرمایا: اسے باندھو اور پھر توکل کرو۔ گویاآپ نے یہ اشارہ کیاکہ احتیاط سے توکل
ختم نہیں ہوتا۔“ (فتح الباری ۱۰۰/۱۶۵۔)
خلاصہ کلام یہ کہ جائز طریقے سے علاج کرنا توکل کے خلاف اور اس کے منافی نہیں ہے ۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔
اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔