Wednesday, November 19, 2014

شوہر کا بیوی پر شک کرنا یا تہمت لگانا

شوہر کا بیوی پر شک کرنا یا تہمت لگانا
.........................................
خاوند كا اپنى بيوى پر تہمت لگانا كبيرہ گناہ شمار ہوتا ہے اور يہ حد كا موجب بنتا اور خاوند كى گواہى كو رد كرنے كا باعث بنتا ہے، اس فحاشى كے ثبوت كے ليے شرعى دليل ہونا ضرورى ہے يا پھر وہ آپس ميں لعان كريں يعنى قسميں اٹھائيں.

ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

جب خاوند اپنى پاكباز بيوى پر تہمت لگائے تو خاوند پر حد واجب ہو گى اور اس كو فاسق كا حكم ديا جائيگا اور اس كى گواہى قبول نہيں ہو گى، الا يہ كہ وہ اس تہمت كى كوئى دليل پيش كرے يا پھر لعان كرے، اور اگر وہ چار گواہ پيش نہيں كرتا يا پھر لعان كرنے يعنى قسميں اٹھانے سے بھى احتراز كرتا ہے تو اس پر يہ سب لازم اور لاگو ہو گا، امام مالك اور امام شافعى رحمہما اللہ كا يہى قول ہے...

اس كى دليل اللہ سبحانہ و تعالى كا يہ فرمان ہے:

﴿ اور جو لوگ پاكدامن عورتوں پر زنا كى تہمت لگائيں پھر چار گواہ پيش نہ كر سكيں تو انہيں اسى كوڑے لگاؤ اور كبھى ان كى گواہى بھى قبول نہ كرو، يہ فاسق لوگ ہيں ﴾النور ( 4 ).

اور يہ حكم خاوند يا دوسرے كے ليے عام ہے، خاوند كو اس ليے خاص كيا گيا ہے كہ اس كا لعان كرنا يعنى قسميں اٹھانا گواہى كے قائم مقام ہے كہ لعان كرنے سے اس پر حد جارى نہيں ہو گى اور وہ فاسق قرار نہيں ديا جائيگا اور اس كى گواہى رد نہيں ہو گى.

اور اس ليے بھى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" دليل پيش كرو وگرنہ آپ كو حد لگے گى "

اور جب انہوں نے لعان كيا تو آپ نے فرمايا:

" دنيا كا عذاب آخرت كے عذاب سے آسان ہے "

اور اس ليے بھى كہ اگر تہمت لگانے والا اپنے آپ كو جھٹلاتا ہے تو اس پر حد لازم آتى ہے، چنانچہ جب وہ مشروع دليل پيش نہ كرے تو اجنى كى طرح اس پر حد لازم ہو گى "

ديكھيں: المغنى ( 9 / 30 ).

اس بنا پر خاوند كو اپنے آپ اور اپنى بيوى كے متعلق اللہ تعالى كا تقوى اور ڈر اختيار كرنا چاہيے، اسے چاہيے كہ وہ غلط اور برى كلام سے باز آ جائے، اور اپنى بيوى پر كلام اور طعن كرنا اس كى اپنى عزت و شرف ميں طعن شمار ہوتى ہے، اسے چاہيےكہ وہ اپنے نفس كو جھٹلائے اور اپنى بيوى كو اس افترا پردازى سے برى كرے.

اگر وہ ايسا نہيں كرتا تو پھر اس كے اس فعل پر اللہ كى جانب سے جو كچھ لاگو كيا گيا ہے وہ اس كا مستحق ٹھرے گا اسے حد بھى لگے گى اور اس كى گواہى بھى كبھى قبول نہيں كى جائيگى اور وہ فاسق ٹھرے گا، اور بيوى كو اس سے طلاق كا مطالبہ كرنے كا حق حاصل ہوگا، اور خاوند كو بيوى كے مكمل حقوق ادا كرنا ہونگے.

واللہ اعلم بالصواب




0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔