Wednesday, November 12, 2014

گنبد خضری کی تاریخ اور اس کی شرعی حیثیت

گنبد خضری کی تاریخ اور اس کی شرعی حیثیت

تقریباً سات سو سال تک قبر نبوی (ص) پر کوئی عمارت نہیں تھی ، پھر ٦٧٨ ہجری میں منصور بن قلاوون صالحی (بادشاہ مصر) نے کمال احمد بن برہان عبد القوی کے مشورے سے لکڑی کا ایک جنگلہ بنوایا اور اسے حجرے کی چھت پر لگا دیا- اور اس کا نام "قبہ رزاق" پڑ گیا- اس وقت کے علماء ہر چند کہ اس صاحب اقتدار کو نہ روک سکے ، مگر انہوں نے اس کام کو بہت برا سمجھا ، اور جب یہ مشورہ دینے والا کمال احمد معزول کیا گیا تو لوگوں نے اس کی معزولی کو الله کی طرف سے اس کے اس فعل کی پاداش شمار کیا - پھر الملک الناصر حسن بن محمد قلاوون نے اور اس کے بعد ٧٦٥ ہجری میں الملک الاشرف شعبان بن حسین بن محمد نے اس میں تعمیری اضافے کئے ، یہاں تک کہ موجودہ تعمیر وجود میں آئی
(وفاء الوفاء باخبار دارالمصطفی 1/ 157،158)
گنبد خضری کی تاریخ پر نظر ڈالنے کے بعد اب احادیث پر ایک نظر ڈالتے ہیں ۔
(1) "قبر پکی نہ بناؤ ، اس پرکوئی عمارت نہ بناؤ اور نہ اسکی مجاورت کرو۔" ((صحیح مسلم: جلد۲،کتاب الجنائز
(2) "جو تصویر تم کو نظر آئے ، اس کو مٹادو اور جو قبر اونچی ملے ، اسے (زمین کے) برابر کردو ۔"((صحیح مسلم: جلد۲، کتاب الجنائز
(3) "اﷲ کی لعنت ہو یہود و نصاریٰ پر ، جنہوں نے اپنے نبیوں کی قبروں کو سجدہ گاہ بنالیا ۔"((صحیح بخاری: جلد۱ ،کتاب الصلوٰۃ
(4) "یہ وہ لوگ ہیں کہ جب ان میں کوئی نیک آدمی مرتا تو وہ اس کی قبر پر سجدہ گاہ بنالیتے اور وہاں یہ تصویریں بنادیتے ۔ اﷲ کے نزدیک یہ لوگ تمام مخلوق میں سب سے زیادہ برے ہیں۔ "((صحیح بخاری: جلد۱، کتاب الجنائز،
(5) "لوگو! کان کھول کر سن لو کہ تم سے پہلے جو لوگ گزرے ہیں ، انہوں نے اپنے انبیاء اورنیک لوگوں کی قبروں کو سجدہ گاہ (عبادت گاہ )بنالیا تھا ۔ سنو ! تم قبروں کو سجدہ گاہ نہ بنانا ۔ میں تم کو اس فعل سے منع کرتا ہوں-"(صحیح مسلم: جلد۲، کتاب المساجد، (
(6) "اے اﷲ ! میری قبر کو ایسا بت نہ بنانا جو پوجا جائے-"(مؤطاامام مالک: کتاب الصلوٰۃ، (
(7) "اس قوم پر اﷲ کا غضب بھڑکتا ہے جو اپنے نبیوں کی قبروں کو سجدہ گاہ بنالیتی ہے-"((مؤطاامام مالک: کتاب الصلوٰۃ
(9) عائشہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں کہ نبی ﷺ نے اپنی اس بیماری میں جس میں آپ ﷺ کی وفات ہوئی فرمایا کہ

اﷲ یہودیوں اور عیسائیوں پر لعنت فرمائے جنہوں نے اپنے نبیوں کی قبروں کو سجدہ گاہ بنالیا

اور اس کے بعد آپ فرماتی ہیں کہ:

"
اگر اس بات کا خیال نہ ہوتا تو آپ کی قبر ضرور کھلی جگہ بنائی جاتی (اور حجرے میں نہ ہوتی)، میں ڈرتی ہوں کہیں آپ کی قبر کو سجدہ گاہ نہ بنالیا جائے-"
((صحیح بخاری: جلد
۱، کتاب الجنائز
اس سلسلہ میں فقہائے کرام کا بھی مسلک ذکر دیتا ہوں ، مسلک احناف کے سب سے معتبر فقیہ علامہ شامی لکھتے ہیں : واماالبناء علیہ فلم ارمن اختار جوازہ۔
ترجمہ : میری نظر میں کوئی ایسا آدمی نہیں ہے جس نے قبر پر عمارت بنانے کو جائز کہا ہو۔
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا فتوی ہے : وعن ابی حنیفۃ یکرہ ان یبنی علیہ بناء من بیت او قبۃ ونحو ذلک لما روی جابر نھی رسول اللہﷺ عن تجصیص القبور وان یکتب علیھا وان یبنی علیھا (شامی جلد1، صفحہ 839)
ترجمہ : امام ابوحنیفہ نے قبر پر کوئی عمارت مثلا گھر، قبہ وغیرہ بنانے سے منع کیا ہے ۔کیونکہ جابر رضی اللہ عنہ کی روایت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی ممانعت آئی ہے کہ قبر کو پختہ بنایا جائے اس پر کتبی لگایاجائے یا اس پر عمارت تعمیر کی جائے ۔

اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب گنبدخضری سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سراسر متصادم ہے تو اسے کیوں اب تک باقی رکھا گیا ؟
واقعی یہ سوال کافی اہم ہے ۔ اس کا جواب یہ ہے کہ امت میں خلفشار اور فتنے کی وجہ سے اسے چھوڑ دیا گیا۔  
 شیخ عبد العزيز بن عبد الله بن باز رحمہ اللہ اپنے فتویٰ میں کہتے ہیں جو کتاب فتاوى اللجنة الدائمة – المجموعة الأولى میں چھپاہے اور اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء نے چھاپا ہے
"
لأن بناء أولئك الناس القبة على قبره صلى الله عليه وسلم حرام يأثم فاعله"
ترجمہ : ان لوگوں کا قبر نبی صلى الله عليه وسلم پر گنبد بنانا حرام کام تھا اس کا گناہ اس کے بنانے والوں کے سرہے۔
شیخ محمد صالح المنجد (الإسلام، سؤال وجواب) میں فتوی رقم 110061 میں کہتے ہیں کہ
"
وقد أنكر أهل العلم المحققين – قديماً وحديثاً – بناء تلك القبة، وتلوينها، وكل ذلك لما يعلمونه من سد الشريعة لأبواب كثيرة خشية الوقوع في الشرك".
قدیم محققین اہل علم نے شرک کے دروازون کو روکنے کے لیے اس گنبد کے بنانے کا رد کیا ہے۔
بيان الحكم في القبة الخضراء على قبره عليه الصلاة والسلام : نبی صلی الله علیہ وسلم کی قبر پر گنبد الخضراء کا حکم میں شیخ عبد العزيز بن عبد الله بن باز رحمہ اللہ اپنے فتویٰ جو کتاب فتاوى نور على الدرب ج ٢ ص ٣٣٢ میں چھپا ہے میں کہتے ہیں کہ
"
لا شك أنه غلط منه، وجهل منه، ولم يكن هذا في عهد النبي – صلى الله عليه وسلم – ولا في عهد أصحابه ولا في عهد القرون المفضلة، وإنما حدث في القرون المتأخرة التي كثر فيها الجهل، وقل فيها العلم وكثرت فيها البدع، فلا ينبغي أن يغتر بذلك"
اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ غلطی ہے اور جھل ہے، اور یہ نبی صلی الله علیہ وسلم کے دور میں نہ تھا، نہ ہی صحابہ کے دور میں تھا ، نہ ہی قرون اولی میں تھا، اور بے شک اس کو بعد میں آنے والے زمانے میں بنایا گیا جس میں جھل کی کثرت تھی اور علم کی کمی تھی اور بدعت کی کثرت تھی پس یہ جائز نہیں کہ اس سے دھوکہ کھایا جائے
ج٢ ص ٣٣٩ مزید کہتے ہیں
"
وأما هذه القبة فهي موضوعة متأخرة من جهل بعض الأمراء، فإذا أزيلت فلا بأس بذلك، بل هذا حق لكن قد لا يتحمل هذا بعض الجهلة، وقد يظنون بمن أزالها بأنه يس على حق، وأنه مبغض للنبي عليه الصلاة والسلام
اور یہ جو گنبد ہے تو یہ بعد میں انے والوں بعض امراء کے جھل کی وجہ سے بنا، اگر اس کو گرایا جائے تو کوئی برائی نہیں، بلکہ یہی حق ہے لیکن کچھ جاہل لوگ ایسا نہیں لیتے، اور گمان کرتے ہیں کہ اس کے ہٹانے کو حق نہیں سمجھتے اور اس کو النبي عليه الصلاة والسلام سے نفرت کا اظھار سمجھتے ہیں
مزید کہتے ہیں
"
وإنما تركت من أجل خوف القالة والفتنة"
اور بےشک اس کو (جھلاء کی) بکواس اور فتنہ کے خوف سے چھوڑ دیا گیاہے۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔