Friday, October 24, 2014

وسیلہ سے متعلق بعض ضعیف احادیث

(1) عمر بن خطاب رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی الله علیھ وسلم نے فرمایا جب آدم علیہ السلام سے خطا ہوئی تو انھوں نے الله سے عرض کیا اے مالک میں تجھ سے محمد صلی الله علیھ وسلم کے وسیلے سے دعا کرتا ہوں میری مغفرت فرما الله نے فرمایا تو نے محمد صلی الله علیھ وسلم کو کیسے پہچان لیا میں نے ابھی ان کو پیدا بھی نہیں کیا ہے آدم علیھ السلام نے عرض کی اے مالک جب تو نے مجھ بنایا اور جب میرے اندر روح ڈالی تو میں نے اپنا سر اٹھایا تو عرش کے ہر ستون پر لکھا دیکھا تو میں نے سمجھ لیا کہ کہ تیرے نام کے ساتھ اسی کا نام ہو سکتا ہے جو تجھے سب سے زیادھ محبوب ہے اے آدم علیھ السلام تو نے سچ کہا مجھے سب سے زیادہ وہی محبوب ہے اب جبکہ تم نے ان کے وسیلے سے دعا کر لی ہے تو میں نے تجھے معاف کیا اگر محمد صلی الله علیھ وسلم نہ ہوتے تو میں تجھے بھی تخلیق نہ کرتا.
(مستدرک حاکم رقم ٤٢٢٨ دلائل النبوی للبیہقی ٥/٤٨٩ ، طبرانی الکبیر رقم ٩٩٢ اوسط ٦٥٠٢ )
تحقیق : اس روایت کی تمام اسناد میں عبدالرحمن بن زید بن اسلم ہے اور جس کے بارے میں محدثین فرماتے ہیں .
امام حاکم فرماتے ہیں عبدالرحمن بن زید بن اسلم نے جو بھی اپنے والد سے بیان کیا ہے وہ سب من گھڑت ہے (المدخل الی مرفہ الصحیح و السقم جلد ١ ص ١٧٠)
امام بخاری فرماتے ہیں : وہ بہت زیادہ ضعیف ہے ، ابن جوزی فرماتے ہیں : محدثین کا اجماع ہے کہ عبدالرحمن بن زید بن اسلم ضعیف ہے (تہذیب التہذیب جلد ٥ ص ٩٠ ترجمہ ٣٩٧٤ )
بعض حضرات عوام کو گمراہ کرنے کے لئے امام حاکم کے حوالے سے یہ بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے اس حدیث کو اپنی کتاب مستدرک میں صحیح کہا ہے مگر یہ ان کا اس دور کا قول ہے جب ان کے حفظ میں تغیر ہو گیا تھا اور انہوں نے بہت سی احادیث کو صحیح کہا تھا جبکہ وہ ضعیف تھی اور ان میں سے ایک یہ حدیث بھی ہے چنانچہ حافظ ابن حجر فرماتے ہیں " امام حاکم نے آخری عمر میں مستدرک تصنیف کی تھی اور اس وجہ سے وہ غفلت کا شکار ہو گئے تھے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ انھوں نے اپنی "الضعفا " میں جن راویوں سے روایت لینا ترک کر دیا اور ان سے احتجاج اخذ نہیں کیا پھر ان میں سے بعض سے اپنی مستدرک میں روایات لی ہے اور اس کو صحیح بھی کہا ہے اور ان میں سے ایک عبدالرحمن بن زید بن اسلم ہے جس کے بارے میں انھوں نے اپنی "الضعفا" میں لکھا ہے کہ عبدالرحمن بن زید بن اسلم نے جو بھی اپنے والد سے بیان کیا ہے وہ سب من گھڑت ہے. (لسان المیزان جلد ٦ ترجمہ ٧٦٦٦ )
حافظ ابن حجر کی وضاحت سے یہ بات واضح ہو گئی کہ امام حاکم نے جو مستدرک میں اس حدیث کو صحیح کہا یہ وہ ان کا تغیر کے زمانے کا قول ہے جبکہ ان کے اصل اور راجع قول وہی ہے جو ہم نے اوپر نقل کیا ہے تو امام حاکم کے نزدیک بھی یہ حدیث من گھڑت ہے .
(2) ابن عباس رضی الله عنھما فرماتے ہیں " الله نے عیسیٰ علیھ السلام کو وحی کی کہ ایمان لاؤ محمد صلی الله علیھ وسلم پر اور اپنی امت کو حکم دو جو ان کا زمانہ پاے وہ ان پر ایمان لائیں اور محمد صلی الله علیھ وسلم نہ ہوتے تو میں آدم علیھ السلام کو نہ پیدا کرتا نہ جنت جہنم بناتا اور جب میں نے پانی پر عرش قائم کیا تو اس میں لرزش ہوئی تو میں نے اس پر لا الہ الا الله محمد رسول الله لکھا تو وہ ٹھہر گیا .
(مستدرک حاکم رقم ٤٢٢٧ )
تحقیق : اس روایت میں سید بن ابی عروبہ موجود ہے اور اس کو آخری عمر میں اختلاط ہو گیا تھا اس بارے میں محدثین فرماتے ہیں .
حافظ ابن حجر فرماتے ہیں : وہ کثرت سے تدلیس کرتا تھا اور اور اس کا حافظہ بگڑ گیا تھا (تقریب التہذیب جلد ١ ترجمہ ٣٤٣٩ )چنانچہ اس کے اختلاط کے بارے میں محدثین فرماتے ہیں " امام نسائی فرماتے ہیں جس نے اس سے اختلاط کے بعد سنا اس کی کوئی حثیت نہیں ہے اور اسی طرح ابن معین نے فرمایا ہے ( تہذیب التہذیب جلد ٣ترجمہ ٣٤٣٩ )
عمرو بن اوس : یہ راوی مجہول ہے اور دوسرا اس نے سعید بن ابی عروبہ اس کے زمانے اختلاط میں روایت کی ہے (تحریر تقریب التہذیب جلد ١ ص ٣٨ )
اور اس عمرو بن اوس کے بارے میں امام ذہبی فرماتے ہیں " یہ مجہول الحال راوی ہے یہ ایک منکر خبر لایا ہے جس کو امام حاکم نے اپنی مستدرک میں نقل کیا ہے وہ روایت من گھڑت ہے جو جندال بن والق کی سند سے نقل ہوئی ہے .(میزان الاعتدال جلد ٣ ترجمہ ٦٣٣٠ )
ان دلائل سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ یہ روایت من گھڑت ہے اور اس کی وجوہات یہ ہیں (١) اس میں سعید بن ابی عروبہ نے تدلیس کی ہے.(٢) عمرو بن اوس مجہول ہے اور اس نے سعید بن ابی عروبہ سے اختلاط کے زمانے میں روایت کی ہے اور اس دور میں اس کی روایت قبول نہیں ہے (٣) اس روایت کو امام ذہبی نے من گھڑت کہا ہے .
یہ تمام وجوہات اس روایت پر عدم حجت قائم کرتی ہیں .
(3) ابن عباس رضی الله عنھما فرماتے ہیں خبیر کے یہودی غطفان قبیلے سے جنگ کرتے تو ان کو شکست ہو جاتی پھر یہودی یہ دعا کرتے " اے الله ہم تجھ سے نبی صلی الله علیھ السلام وسیلہ سے سوال کرتے ہیں جن کو تو نے آخری زمانے میں بھیجھنے کا وعدہ کیا ہے کہ ان کے مقابلے میں ہماری مدد فرما راوی کہتے ہیں جب بھی وہ غطفان کے سامنے یہ دعا پڑھ کر آتے تو وہ ان کو شکست دیتے .
(مستدرک حاکم رقم ٣٠٤٢ )
تحقیق : اس روایت میں عبدالملک بن ہارون بن عنترہ موجود ہے جس نے اپنے والد سے روایت کیا ہے راوی بلاتفاق محدثین کے نزدیک ضعیف ہے اس کے بارے میں امام ذہبی فرماتے ہیں عبدالمالک متروک ہے اور انھوں نے محدثین کے اقوال نقل کیے ہیں " امام احمد : عبدالمالک ضعیف ہے ، امام ابن معین : کذاب ہے ،امام حاتم : متروک ہے ،امام ابن حبان : وہ حدیث گھڑتا تھا .(میزان الاعتدال ترجمہ ٥٦٨٥ )
اس کے علاوہ حافظ ابن حجر فرماتے ہیں " اس پر حدیث گھڑنے کا الزام ہے . صالح بن محمد : اس کی روایت جھوٹی ہوتی ہیں ، امام حاکم : اس کی روایات اس کے والد سے من گھڑت ہیں ،امام ابو نعیم : اس کے والد سے اس کی روایات منکر ہیں (لسان المیزان ترجمہ ٥٣٥٩ )
یہ راوی من گھڑت روایات بیان کرتا تھا اور یہ روایت بھی من گھڑت ہے اس لئے اس سے وسیلے باطلہ کے باب میں کچھ ثابت نہیں ہوتا .
(4) ابوھریرہ رضی الله عنھ سے (ایک طویل روایت ہے ) جنگ یمامہ کے موقعہ پر خالد بن ولید رضی الله عنھ نے بلند آواز سے فرمایا میں ولید کا بیٹا ہوں پھر انھوں نے مسلمانوں کا جنگی نعرہ بلند کیا ان دنوں مسلمانوں کا جنگی نعرہ یا محمداہ صلی الله علیھ وسلم (اے محمد صلی الله علیھ وسلم مددکریں ) تھا .
تحقیق : اس روایت میں سیف بن عمر التمیمی محدثین کے نزدیک بلاتفاق ضعیف ہے ابن معین : ضعیف الحدیث ہے اس سے کوئی خیر (صحیح روایت ) نہیں ہے اور امام حاتم نے متروک الحدیث اور امام نسائی اور دارقطنی نے ضعیف کہا ہے اور ابن حبان نے اس کو ثقه راویوں سے من گھڑت روایات بیان کرنے والا کہا ہے (تہذیب التہذیب جلد ٣ ترجمہ ٢٨٠٠ )
یہ روایات اس راوی کے سبب ضعیف ہے اور نا قابل حجت ہے .
(5) عبدالرحمن بن سعد بیان کرتے ہیں ہم عبدالله بن عمر رضی الله عنھ کے ساتھ تھے تو ان کا پیر سن ہو گیا تو میں نے عرض کیا اے ابو عبدالرحمن اپ کے پیر کو کیا ہوا انھوں نے کہا میرے پٹھے کھچ گئے ہیں تو میں نے عرض کیا تمام ہستیوں میں جو اپ کو سب سے زیادہ محبوب ہو اس کو یاد کریں انھوں نے یا محمد صلی الله علیھ وسلم کا نعرہ لگایا اسی وقت ان کا پیر ٹھیک ہو گیا .
تحقیق : اس روایت کو امام بخاری نے الادب المفرد میں اور ابن السنی نے عمل الیوم و اللیل میں مختلف اسناد سے نقل کیا ہے ابن عمر رضی الله عنھ سے مروی روایت میں اسحاق السیعبی موجود ہے اور وہ مدلس ہے اور اس میں اس نے "عن " سے روایت کی ہے اور مدلس کی عن والی روایت ضعیف ہوتی ہے امام نووی فرماتے ہیں " جب مدلس "عن " سے روایت کرے تو وہ قابل قبول نہیں ہے ہاں اگر وہ دوسری صحیح سند سے نہ ثابت ہو (مقدمہ مسلم جلد ١ ص ١١٠ باب نہی عن الحدیث بکل ما سمع ) اور ابن حجر اس کے بارے میں یہ فرماتے ہیں کہ یہ مدلس راوی ہے " تدلیس کرنے میں مشہور ہے اور تابی ثقہ ہے (تہذیب التہذیب جلد ٦ ترجمہ ٥٢٣٢ ، طبقات المدلسین ترجمہ ٢٥ )
اور اس کی دیگر اسناد میں غیاث بن ابراہیم اور ابو بکر الھزلی ہیں (١) غیاث بن ابراہیم کے بارے میں ابن معین فرماتے ہیں خبیث کذاب تھا (معرفہ الرجال ترجمہ ٤٤ ) (٢) ابو بکر الھزلی کے بارے میں محدثین فرماتے ہیں : ابن معین وہ ثقہ نہیں ہے ابو زرعہ فرماتے ہیں ضعیف ہے امام نسائی فرماتے ہے کہ اس سے حدیث نہیں لی گئی ہے (تہذیب الکمال جلد ٣٣ ترجمہ ٧٢٦٨ )
یہ تمام روایات اس قابل نہیں ہیں کہ وسیلہ کے باب میں ان سے حجت لی جائے .
(6) نبی صلی الله علیھ وسلم نے فرمایا اگر تم الله سے کچھ مانگو تو میرے وسیلے سے مانگو .
تحقیق : اس روایت کی کوئی اصل نہیں ہے یعنی یہ کتب حدیث کی کسی متعبر کتاب میں نقل نہیں ہوئی ہے اس کو صرف امام ابن تیمیہ نے اپنی کتاب القاعدہ الجلیله میں نقل کر کے فرمایا ہے کہ اس کے کوئی اصل نہیں ہے (مجموعہ الفتاوی ابن تیمیہ ١/ ٣١٩ سلسلہ الضعیفہ رقم ٢٢ )
اس روایت سے بھی وسیلہ باطلہ کی کوئی دلیل نہیں ملتی ہے .
اللہ تعالی ہمیں ضعیف اور موضوع روایات پر عمل کرنے سے بچائے ۔ آمین
Top of Form

Bottom of Form


0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔