Saturday, April 26, 2014

وسلیہ کی حقیقت


اولیاء اور بزرگان سے وسیلہ کرنے کا حکم
یہ ایک حقیقت ہے کہ مسلمانوں کی اکثریت اپنے رب سے دور اور اپنے دین سے نابلد ونا آشنا ہے۔ اور اس کے انجام کے طور پر ان میں بے شمار شرک وبدعات اور خرافات پیدا ہوگئے ہیں، انہیں اعتقادی بگاڑ اور خرابیوں میں سے ایک بڑی اور خطرناک خرابی یہ ہے کہ مسلمان اپنے کچھ اولیاءاور بزرگوں کی شان میں غلو کرتے اور حد سے زیادہ تعظیم کرتے ہیں، اللہ کو چھوڑکر انہیں پکارتے ہیں، اور یہ اعتقار بھی رکھتے ہیں کہ یہ لوگ نفع ونقصان کے مالک ہیں۔ چنانچہ ان کی تعظیم کے ساتھ ان کی قبروں کا طواف کرتے ہیں، اور یہ گمان رکھتے ہیں کہ ان بزرگوں کے وسیلے سے اللہ تعالی کے پاس اپنی حاجتیں پوری کرانے اور پریشانیاں دور کرنے کے لئے دعائیں کرتے ہیں۔یہ نادان لوگ اگر قرآن کی طرف رجوع کرتے اور دعا ووسیلہ کے بارے میں جو کچھ وارد ہے اس پر غور کرتے تو حقیقت کھل کر واضح ہوجاتی کہ حقیقی وسیلہ کیا ہے؟
جائز وسیلہ کی حقیقت:
حقیقی وسیلہ یہ ہے کہ آدمی پہلے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت وفرمانبرداری بجا لائے، حرام کردہ چیزوں اور کام سے باز آئے، نیک اعمال کرکے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی قربت کا طلبگار ہو، اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ اور اچھے صفاتی نام کے ذریعہ دعا کرے۔ یہ وہ موزوں راستہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی رحمت ومہربانی اور اس کی رضا وخوشنودی سے ہمکنار کرسکتا ہے۔
اس کے برعکس اگر کوئی آدمی اللہ کا تقرب حاصل کرنا چاہتا ہے ، مردوں کی قبروں کے پاس گریہ وزاری کرکے، ان قبروں کا طواف کرکے، مزاروں کے چوکھٹ پر ایڑیاں رگڑرگڑ کر، ان قبروں میں مدفون مردوں کے لئے نذرونیاز پیش کرکے تاکہ حاجتیں پوری ہوں اور پریشانیاں دور ہوں تو بے شک یہ جائز وسیلہ نہیں ہوسکتا بلکہ یہ عمل عین شرک اور کفر ہے ۔ (اللہ کی پناہ)
اگر کوئی شخص کسی زندہ بزرگ شخص کی شان میں غلو کرے، اور عبادت کی قسموں میں سے کوئی ایک عبادت بھی اس کے لئے انجام دے، جیسے یہ کہے کہ” اپنے پیر کے نام سے جانور ذبح کرے گا“ یا سجدہ تعظیمی کے ذریعہ ان کی عبادت کرے، یا اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر کسی دوسرے کو پکارے ، مثال کے طور پر یہ کہنا کہ ” اے میرے( فلاں) پیر میری مغفرت کردے، یا میری مراد پوری کردے، یا اس قبیل کے دوسرے اقوال واعمال بجالائے جو اللہ تعالیٰ کے لئے خاص ہیں، کسی دوسرے کا ان میں کوئی بھی حصہ نہیں، تو ایسی تمام صورتوں میں وہ شرک اکبر کا ارتکاب کرتا ہے۔ بے شک اللہ تعالیٰ نے تمام نبیوں اور رسولوں کو کتاب دے کر صرف اس لئے بھیجا ہے کہ ہم اللہ وحدہ لاشریک لہ کی خالص عبادت وبندگی کریں، کسی دوسرے کو اس کی عبادت میں شریک نہ ٹھہرائیں۔
وہ لوگ جو زمانہ ٔجاہلیت میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ دوسرے معبودوں کی پوجا کرتے تھے، جیسے لات اور عزی وغیرہ ، اس سے ان کا مقصد یہ نہ تھا کہ یہ معبود  ان کو پیدا کرنے کی طاقت رکھتے ہیں یا بارش برساسکتے ہیں، بلکہ وہ لوگ تو ان کی عبادت اس لئے کرتے تھے اور اس کا اظہار بھی کرتے تھے۔
 اس لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبروں کو مبعوث فرمایا تاکہ لوگوں کو وہ اس بات سے روکیں کہ وہ اللہ کے علاوہ کسی دوسرے کی عبادت نہ کریں اور نہ پکاریں، خواہ ان کا پکارنا عبادت کے طور پر ہو یا استغاثہ کے طور پر۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ”قُلِ ادعُواالَّذِینَ زَعَمتُم مِّن دُونِہِ فَلاَ یَملِکُونَ کَشفَ الضُّرِّ عَنکُم وَلاَ تَحوِیلا “[اسراء:56]
ترجمہ: کہو (کہ اے مشرکو) جن لوگوں کی نسبت تمہیں (معبود ہونے کا) گمان ہے اُن کو بلا دیکھو وہ تم سے تکلیف کے دور کرنے یا اُس کو بدل دینے کا کچھ اختیار بھی نہیں رکھتے ۔
اور ایک جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
{قُلِ ادْعُوا الَّذِينَ زَعَمْتُم مِّن دُونِ اللَّهِ لَا يَمْلِكُونَ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ فِي السَّمَاوَاتِ وَلَا فِي الْأَرْضِ وَمَا لَهُمْ فِيهِمَا مِن شِرْكٍ وَمَا لَهُ مِنْهُم مِّن
ظَهِيرٍ، وَلَا تَنفَعُ الشَّفَاعَةُ عِندَهُ إِلَّا لِمَنْ أَذِنَ لَهُ} [سبأ: 22-23]،
ترجمہ: کہہ دو کہ جن کو تم اللہ کے سوا (معبود) خیال کرتے ہو ان کو بلاؤ ، وہ آسمانوں اور زمین میں ذرہ بھی چیز کے بھی مالک نہیں ہیں اور نہ ان میں ان کی شرکت ہے اور نہ ان میں سے کوئی اللہ کا مددگار ہے۔ ۲۲۔ اور اللہ کے ہاں (کسی کے لئے) سفارش فائدہ نہ دے گی مگر اس کے لئے جس کے بارے میں وہ اجازت بخشے یہاں تک کہ جب ان کے دلوں سے اضطراب دُور کر دیا جائے گا تو کہیں گے کہ تمہارے پروردگار نے کیا فرمایا ہے؟ (فرشتے) کہیں گے کہ حق (فرمایا ہے) اور وہ عالی رتبہ او رگرامی قدر ہے۔ ۳۲۔ پوچھو کہ تم کو آسمانوں اور زمین سے کون رزق دیتا ہے؟ کہو کہ اللہ اور ہم یا تم (یا تو) سیدھے رستے پر ہیں یا صریح گمراہی میں ہیں۔ ۴۲۔ کہہ دو کہ نہ ہمارے گناہوں کی تم سے پرسش ہو گی اور نہ تمہارے ا عمال کی ہم سے پُرسش ہو گی۔
اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں یہ واضح کیا ہے کہ اللہ کے سوا  دوسرے جن کو بھی پکارا جائے، انہیں ذرہ برابر کوئی اختیار نہیں ہے اور نہ ہی ان کا کوئی مخلوق ہمسر ہے جس سے وہ مدد کا طلبگار ہو۔
نبی کریم ﷺ نے قبروں کو سجدہ گاہ بنانے سے منع کیا ہے، آپ نے اپنے وفات کے وقت فرمایا تھا ۔ ترجمہ: یہود ونصاری پر اللہ کی لعنت ہو کہ انہوں نے اپنے نبیوں کی قبروں کو سجدہ گاہ بنادیا۔ 
آپ ﷺ نے ان کے برے عقیدے سے ہوشیار اور خبردار کیا ہے اور مقصد یہ ہے کہ امت شرک میں مبتلا نہ ہو کیونکہ بت پرستی میں پڑنے کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ قبروں کی عبادت کے طور پر تعظیم کی جاتی تھی۔
ہاں! یہ جو حضرت عمر بن خطاب ؓ کا عمل ہے کہ انہوں نے حضرت عباس ؓ کا وسیلہ پکڑا تھا، جس سے کچھ لوگ اپنے عمل کے لئے استدلال کرتے ہیں، ایسا غلط ہے کیونکہ انہوں نے حضرت عباس ؓ کی دعا کا وسیلہ حاصل کیا تھا، نہ کہ ذات اور شخصیت سے، اور ان دونوں میں فرق ہے، اور اس کی شرط یہ ہے کہ جس سے توسل حاصل کیا جائے وہ زندہ ہو، کیونکہ کسی بھی زندہ بزرگ اور نیک آدمی کا وسیلہ پکڑنا جائز ومشروع توسل میں آتا ہے، اور یہ اس طرح ہے جیسے کہ کوئی شخص کسی زندہ نیک آدمی سے دعا کرنے کی درخواست کرتا ہے اور پھر وہ اللہ سے بھی دعا کرتا ہے کہ اس بزرگ کی دعا اس کے حق میں قبول کرے۔
رہی یہ بات کسی مردہ آدمی کی جس کے پاس آدمی جائے اور اس کی برکت اور تبرک سے اللہ تعالیٰ سے مانگے تو صحیح نہیں ہے، کیونکہ مرنے کے بعد اس کے اختیار میں کچھ بھی نہیں ، وہ خود اپنی مدد آپ نہیں کرسکتا تو بھلا دوسرے کی مدد کیا کرسکتا ہے؟ اور کوئی بھی باشعور انسان جس کے پاس ذرہ برابر بھی عقل سلیم ہو وہ یہ باور نہیں کرسکتا کہ ایک مردہ شخص کے اعضاءوجوراح سرد پڑگئے وہ کیسے اپنی مدد آپ کرسکتا ہے چہ جائے کہ کسی دوسرے کی مدد کرنا۔ اور نبی کریم ﷺ نے بھی اس حقیقت کو بہت صاف صاف بیان فرمادیا ہے۔
ترجمہ: جب آدمی مرجاتا ہے تو اس کے عمل کا سلسلہ ختم ہوجاتا ہے، ہاں صرف تین کام ہیں جو باقی رہ جاتے ہیں ، صدقہ جاریہ، فائدہ مند علم، نیک اولاد جو اس کے لئے دعا کرے ۔(صحیح /البانی)
معلوم ہوا کہ میت اس بات کا محتاج ہے کہ کوئی اس کے حق میں دعا کرے اور استغفار کرے اور یہ معلوم ہوا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ مردہ قبر میں زندہ ہو، اس طرح کہ دوسرے سے اس کا رابطہ ہوتا ہو اوروہ مدد کرنے کی قدرت رکھتا ہو، یہ کیسے باورکیاجاسکتا ہے، جس کے پاس خود نہ ہو وہ دوسرے کو کیا دے سکتا ہے، خواہ جتنی لمبی دعا اس کے پاس کی جائے وہ سن نہیں سکتا ۔
 اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ''يُولِجُ اللَّيْلَ فِي النَّهَارِ وَيُولِجُ النَّهَارَ فِي اللَّيْلِ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ كُلٌّ يَجْرِي لِأَجَلٍ مُّسَمًّى ۚ ذَٰلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمْ لَهُ الْمُلْكُ ۚ وَالَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِهِ مَا يَمْلِكُونَ مِن قِطْمِيرٍ۔
ترجمہ: وہی رات کو دن میں داخل کرتا ہے اور (وہی) دن کو رات میں داخل کرتا ہے اور اسی نے سورج اور چاند کو کام میں لگا دیا ہے ہر ایک ایک وقت مقرر تک چل رہا ہے یہی اللہ تمہارا پروردگار ہے ا سی کی بادشاہی ہے اور جن لوگوں کو تم اس کے سوا پکارتے ہو وہ کھجور کی گٹھلی کے چھلکے کے برابر بھی تو (کسی چیز کے) مالک نہیں۔ ۳۱۔ اگر تم ان کوپکارو تو وہ تمہاری نہ سنیں اور اگر سن بھی لیں تو تمہاری بات کو قبول نہ کر سکیں اور قیامت کے دن تمہارے شرک سے ا نکار کر دیں گے اور (اللہ) باخبر کی طرح تم کو کوئی خبر نہیں دے گا۔ [فاطر:13۔14]
 اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں غیراللہ سے اختیار کی نفی کی ہے۔اور کسی کی پکار سننے کی بھی، یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ جو خود کا مالک نہ ہو وہ دے نہیں سکتا، اور جو سنتا نہ ہو وہ قبول بھی نہیں کرسکتا اور نہ ہی اسے کچھ پتہ ہوتا ہے، آیت بالا سے یہ بھی معلوم ہوا کہ غیراللہ میں سے جس کو بھی پکارا جائے خواہ جو بھی ہو وہ پکارنے والے کی کوئی مدد نہیں کرسکتا اور اللہ کو چھوڑ کر جس کی بھی عبادت کی جائے اس کی عبادت باطل ہے۔
 ارشاد باری تعالیٰ ہے:
''وَلَا تَدْعُ مِن دُونِ اللَّهِ مَا لَا يَنفَعُكَ وَلَا يَضُرُّكَ ۖ فَإِن فَعَلْتَ فَإِنَّكَ إِذًا مِّنَ الظَّالِمِينَ۔وَإِن يَمْسَسْكَ اللَّهُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَهُ إِلَّا هُوَ ۖ وَإِن يُرِدْكَ بِخَيْرٍ فَلَا رَادَّ لِفَضْلِهِ ۚ يُصِيبُ بِهِ مَن يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ ۚ وَهُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ''
 ترجمہ: اور اللہ کو چھوڑ کر ایسی چیز کو نہ پکارنا جو نہ تمہارا کچھ بھلا کر سکے اور نہ کچھ بگاڑ سکے اگر ایسا کرو گے تو ظالموں میں ہو جاؤگے ۔۶۰۱۔ اور اگر اللہ تم کو کوئی تکلیف پہنچائے تو اُس کے سوا اس کا کوئی دُور کرنے والا نہیں اور اگر تم سے بھلائی کرنی چاہے تو اُس کے فضل کو کوئی روکنے والا نہیں وہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے فائدہ پہنچاتا ہے وہ بخشنے والا مہربان ہے ۔[یونس:106۔107]
اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نفع ونقصان کا مالک نہیں ہے، تو پھرایسے معبود کو پکارنے یا اس کی عبادت کرنے کا کیا فائدہ؟ نیز اس آیت سے بدعتیوں کے نظریے کی تردید بھی ہوتی ہے جو کہتے ہیں کہ ہم فلاں قبر کے پاس گئے یا فلاں بزرگ کو پکارا اور ہماری مراد پوری ہوگئی۔جس کا بھی ایسا عقیدہ ہو گویا وہ اللہ تعالیٰ پر بہتان لگاتا ہے۔ اگر بالفرض یہ تسلیم بھی کرلیا جائے کہ وہ اپنے دعوی میں سچے ہیں اور ان کی مرادیں پوری ہوتی ہیں تو اس کے جواب درج ذیل ہیں:
پہلی قسم: اس کا تعلق اگر ان چیزوں سے ہو جو عام طور سے انسان کے بس میں ہو ، تو یہ شیطان کی طرف سے پوری ہوتی ہے ،چونکہ شیطان قبروں کے پاس جاتا ہے اور قبر یا بت جو بھی غیراللہ کے علاوہ پوجے جاتے ہوں وہاں شیطان ڈیرہ ڈال کر رہتے ہیں تاکہ لوگوں کی عقلوں سے کھلواڑ کریں اور بزرگوں کا وسیلہ حاصل کرنے والے لوگ جب صنم اور بت پرستی کے گھیرے میں آتے ہیں تو اس طرح شیطان انہیں گمراہی کے راستے پر ڈالتا ہے جیسے پرانے زمانے میں بت پرستوں کو شیطان گمراہی کے راستے پر ڈالتے تھے، اس طرح شیطان اس شخصیت کی شکل میں آتا ہے جس سے لوگ استغاثہ کرتے ہیں اور کشف کے طور پر کچھ چیزوں کے ذریعہ ان سے ہم کلام ہوتے ہیں جیسے کہ شیاطین کاہنوں سے ہم کلام ہوتے ہیں اور کبھی کبھی کچھ باتیں سچی بھی ہوجاتی ہیں مگر زیادہ باتیں جھوٹ ہوتی ہیں۔ اور بسااوقات ایسا بھی ہوتا ہے ان کی کچھ ضرورتیں پوری ہوجاتی ہیں اور کچھ پسندیدہ اور مکروہ چیزیں جو انسانی قدرت میں ہوں ان سے دور کروائی جاتی ہیں۔ اب یہ سادہ ذہن کے لوگ یہ خیال کرنے لگتے ہیں کہ فلاں شیخ یا فلاں بزرگ نے اپنی قبر سے نکل کر ایسا کیا ہے ۔ جبکہ دراصل یہ تو شیطانی عمل ہے شیطان اس بزرگ کی شکل اختیار کرکے آتا ہے تاکہ شرک کرنے والے اس شخص کو گمراہ کردے جو استغاثہ کا عمل کرتا ہے۔ ایسا اس طرح ہوتا ہے جب شیاطین بتوں کے اندر داخل ہوجاتے ہیں اور ان کی پوجا کرنے والوں سے باتیں کرتے اور ان کی حاجتیں پوری کردیتے ہیں۔ 
دوسری قسم:
دوسری وجہ یہ ہے کہ اس کا تعلق ان امور سے ہو جن پر اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی دوسرا کوئی اختیار نہیں رکھتا ، مثلا زندگی، صحت وتندرستی، مالداری، دولت، اور غریبی ومحتاجی وغیرہ جو اللہ تعالیٰ کے خصوصیتوں میں سے ہیں ، تو یہ سب اللہ کے مقرر کردہ فیصلہ کے اعتبار سے پورے ہوتے ہیں نہ کہ ان بزرگوں کے تبرک اور دعا سے جیسا کہ یہ لوگ گمان کرتے ہیں۔
عقل مند انسان کا کام یہ ہے کہ اس طرح کے بدعات وخرافات اور توہمات کی ہرگز تصدیق نہ کرے اور اپنا قلبی تعلق صرف اللہ سے رکھے، اور اس کے حضور اپنی فریاد پیش کرے یہانتک کہ اللہ تعالیٰ اسے پورا کردے، اس سلسلے میں مخلوق سے کوئی امید نہ رکھے، کیونکہ وہ تو کمزور اور محتاج ہیں وہ ان کے احوال سے ناواقف اور بے بس ہیں۔
اور یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک مخلوق اپنے جیسی دوسری مخلوق سے اپنی حاجت پوری کرانے کی امید رکھے، جبکہ یہ بھی ممکن ہے کہ وہ مخلوق مردہ ہو، سننے، دیکھنے کی طاقت نہ ہو اور نہ ہی اس کے اختیارمیں کچھ ہو، مگر شیطان کا تو کام ہی ہے کہ لوگوں کے عمل کو ان کی نظروں میں خوب سے خوب تر بنا کر پیش کرے۔
جھوٹی کرامات:
لوگوں نے اپنی نادانی اور جہالت سے حقیقت کو عجیب وغریب انداز سے گڈمڈ کررکھا ہے، اس بناءپر وہ معجزے اور کرامات کی اصلیت سے بھی ناواقف ہیں یا دونوں کو گڈمڈ کررکھا ہے، اس وجہ سے وہ ان کی حقیقت تک نہیں پہنچ سکتے ہیں، جس کے ذریعے وہ اس حقیقی معجزے اور کرامات میں فرق کرسکیں جو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیوں اور رسولوں کی حمایت کے لئے اور اپنے پیغام کو انسانوں تک پہنچانے کے لئے اتارا تھا۔یا جن کرامتوں سے اپنے چند برگزیدہ بندوں کو نوازتا ہے ، ان کے ان خرافات اور باطل عقائد وافکار کے درمیان وہ کچھ فرق نہیں کرسکے۔ ان باطل کرامات اور عقائد کے پیچھے ان جعلساز لوگوں کا ہاتھ ہے جنھوں نے اسے معجزے اور کرامات کا نام دے رکھا ہے مقصد یہ ہے کہ لوگوں کی عقل کا مذاق اڑائیں اور ان کے مال باطل طریقے سے استعمال کرسکیں۔
بعض جاہل لوگ تو یہاں تک عقیدہ رکھتے ہیں کہ معجزات اور کرامات کا تعلق ان امورسے ہے جن کا حاصل کرنا انسانی دائرہ کار میں اور اس کا اختیار آدمی کو حاصل ہے ، اپنی مرضی سے اسے انجام دیا جاسکتا ہے۔ اسی جہالت اور نادانی کی وجہ سے وہ سمجھتے ہیں کہ اولیاءاور نیکوکار حضرات کو معجزات اور کرامات کے بارے میں پوری قدرت حاصل ہے، جب چاہیں انجام دے سکتے ہیں، اس کی وجہ صرف ان کی اپنے رب سے لاعلمی، نادانی اور اپنے دین کی حقیقت سے ناواقفیت ہے۔
ایسے لوگوں سے ہم کہتے ہیں کہ یہ جھوٹے لوگ جو معجزے اور کرامات کی تصویر پیش کرتے ہیں سراسر جھوٹ پر مبنی ہے، بلکہ اس طرح کے تمام واقعات جو پیش آتے ہیں ان کا تعلق شیطانی کھیل سے ہے یا اس کے پیچھے کوئی مکار وعیار عقل کام کرتی ہے جو ایسے واقعات رونما کرنے کا نام معجزات اور کرامات رکھ رہی ہیں تاکہ ولی بزرگوں کے تعلق سے لوگوں کے دلوں میں رعب اور عظمت پیدا کردیں اور پھر بطور تبرک لوگ ان کی تعظیم کرنے لگیں۔
اور کوئی عقلمند انسان جو اپنی فطرت سلیمہ پر برقرار ہو یہ بات مان ہی نہیں سکتا کہ ایک مردہ شخص مرنے کے بعد کبھی کوئی کام یا تصرف انجام دے سکتا ہے جبکہ اسکی روح اس سے پرواز کرچکی ہو، جسمانی حرکت بند ہوچکی ہو،حشرات الارض نے اس کے گوشت پوست کو کھا لیا ہو، اورہڈیاں سڑگل چکی ہوں، اس طرح کے جھوٹے دعووں کو ایک سیدھا سادہ بیوقوف اور جاہل آدمی کو چھوڑ کر دوسرا کون تسلیم کرسکتا ہے، کیونکہ یہ جھوٹے دعوے اور وہم وگمان جو دنیا کو یہ لوگ باور کرانے کی کوششیں کرتے ہیں ناممکن ہے کہ کوئی زندہ شخص انجام دے سکے چہ جائے کہ ایک مردہ آدمی۔ تو کیا ہمیں ان خرافات کو ماننے کے لئے اپنی عقل سلیم کو مفلوج ومعطل کرلینا چاہیے جو اللہ کی طرف سے ایک بڑی نعمت اور عطیہ ہے؟
بے شک ایک روشن دماغ اور فطرت سلیمہ اس طرح کے خرافات کو ماننے سے سختی کے ساتھ انکار کرتی ہیں، کیونکہ اسے تسلیم کرنے سے اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ تشریعی اور تکوینی اصول کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔
ارشادباری تعالیٰ ہے: {مَا كَانَ لِبَشَرٍ أَن يُؤْتِيَهُ اللّهُ الْكِتَابَ وَالْحُكْمَ وَالنُّبُوَّةَ ثُمَّ يَقُولَ لِلنَّاسِ كُونُواْ عِبَاداً لِّي مِن دُونِ اللّهِ وَلَـكِن
كُونُواْ رَبَّانِيِّينَ بِمَا كُنتُمْ تُعَلِّمُونَ الْكِتَابَ وَبِمَا كُنتُمْ تَدْرُسُونَ، وَلاَ يَأْمُرَكُمْ أَن تَتَّخِذُواْ الْمَلاَئِكَةَ وَالنِّبِيِّيْنَ أَرْبَاباً أَيَأْمُرُكُم بِالْكُفْرِ بَعْدَ
إِذْ أَنتُم مُّسْلِمُونَ} [آل عمران: 79-80].  
ترجمہ: کسی آدمی کو شایاں نہیں کہ اللہ تو اُسے کتاب اور حکومت اور نبوت عطا فرمائے اور و ہ لوگوں سے کہے کہ اللہ کو چھوڑ کر میرے بندے ہو جاؤبلکہ (اُس کو یہ کہنا سزاوارہے کہ اے اہل کتاب) تم (علمائے) ربانی ہو جا کیونکہ تم کتاب (اللہ) پڑھتے پڑھاتے رہتے ہو ۔۔ او ر اس کو یہ بھی نہیں کہنا چاہیے کہ تم فرشتوں اور پیغمبروں کو رب بنا لو۔ بھلا جب تم مسلمان ہو چکے تو کیا اُسے زیبا ہے کہ تمہیں کافر ہونے کو کہے ۔
پرانے اور نئے زمانے کے اہل شرک:
قبروں اور درگاہوں کے چکر کاٹنے والے بہت سے لوگ یہ گمان رکھتے ہیں کہ زمانہ جاہلیت میں مشرک لوگ بتوں کی پوجا اور پرستش کرتے تھے، مگر ہم لوگوں کے پاس تو کوئی مورتی اوربت نہیں جس کی عبادت کرتے ہوں بلکہ ہمارے پاس تو اولیاءاور نیکوکار لوگوں کی قبریں ہیں جن کی ہم کوئی عبادت نہیں کرتے بلکہ ہم وہاں اللہ تعالیٰ کے حضور دعائیں مانگتے ہیں۔اللہ تعالیٰ ان مشائخ کی خاطرداری اور تکریم میں اور ان کے واسطے سے ہماری مرادیں پوری کردیتے ہیں۔ اس بات سے معلوم ہوا کہ عبادت دوسری چیز ہے اور دعاءدوسری چیز۔
جواب: ان کے جواب میں ہم کہیں گے کہ مردہ سے مدد اور برکت طلب کرنا درحقیقت دعا ءہی ہے جیسا کہ زمانہ جاہلیت میں لوگ اپنے بتوں کو پکارا کرتے تھے اور پرانے زمانہ کے مشرکوں کی بت پرستی اور نئے زمانہ کے لوگوں کی قبر پرستی اور مزار پرستی کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔ اس لئے کہ بت ، قبر اور طاغوت سب کے سب نام مختلف ہیں مگر معنی اور مطلب میں ایک ہی ہے۔ اور ہر اس چیز کو معبودبولا جاتا ہے جس کی پوجا اللہ کے علاوہ کی جائے، خواہ وہ کوئی مردہ انسان ہو یا زندہ انسان یا کوئی جمادات ہو یا جانور وغیرہ۔ اور پرانے زمانے کے مشرکوں سے جب ان کی بت پرستی کے بارے میں پوچھا جاتا تو کہتے ہیں:
''مَا نَعْبُدُهُمْ إِلَّا لِيُقَرِّبُونَا إِلَى اللَّهِ زُلْفَىٰ''
ترجمہ: ہم تو ان کی عبادت صرف اس لئے کرتے ہیں کہ یہ لوگ اللہ کی قربت کا ذریعہ بنیں گے(سورۂ زمرآیت نمبر۳)
یعنی ہماری مرادیں پوری کرانے کے لئے یہ لوگ ہمارے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان واسطے کا کام کریں گے۔
اسی سے یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ زمانے جاہلیت کی عبادت وپکار اور آج کے نئے مسلم قبرپرستوں کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔ کیونکہ دونوں حالات اور مقصد ایک ہی ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ دوسرے کو شریک ٹھہرانا اور ماسواللہ کو پکارنا۔   بشکریہ

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔