Thursday, April 24, 2014

مسئلہ تکفیر کی حقیق

مسئلہ تکفیر کی حقیقت

آج کل دیکھا جاتاہے کہ لوگ ایک دوسرے پرکفرکا فتوی لگانے میں ذرہ برابربھی نہیں ہچکچاتے اور دھڑلے سے کسی کوکافر کہہ دیتے ہیں ۔ اسے تکفیرکہاجاتاہے ۔اور یہ مسئلہ فتنہ کی صورت اختیارکرگیاہے ۔اس سلسلہ میں میں آپ کی صحیح رہنمائی کرناچاہتاہوں تاکہ اس فتنے کا سدباب ہوسکے ۔
علمائے سلف نے تکفیرکی دوقسمیں کی ہیں ۔
(1)تکفیرمعین
(2) تکفیرغیرمعین
سلفی علماء تکفیر غیر معین کے قائل ہیں بلکہ مسلمانوں میں سے کسی کا بھی اس میں کوئی اختلاف مروی نہیں ہے۔ تکفیر غیر معین ہر کوئی کر سکتا ہے۔
اسی طرح سلفی علماء تکفیر معین کے بھی قائل ہیں لیکن چونکہ تکفیر معین میں’ تحقیق المناط’ ہوتی ہے جو اجتہاد کی ایک قسم ہے لہذا یہ کام درجہ اجتہاد پر فائز مستند علماء کی ایک جماعت ہی کر سکتی ہے’ ہر ایرے غیرے کو اس کی اجازت نہیں ہے۔
علماء کا یہ بھی کہنا ہے کہ جو حضرات مستند اہل علم میں سے نہ ہوں اور پھر بھی تکفیر کرتے ہوں تو عامة الناس کے لیے ایسے تکفیری حضرات کے ساتھ بیٹھنا بھی حرام ہے۔
معین کی تکفیر تین قسم کی ہو سکتی ہیں :
...............................................

فردکی تکفیر

نوع کی تکفیر
جنس کی تکفیر

عام طور پر یہ غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ معین کی تکفیر سے مراد صرف فرد واحد کی تکفیر ہے حالانکہ معین کی تکفیر میں معین نوع یا جنس یا جماعت یا گروہ کی تکفیر بھی شامل ہے۔
اصول فقہ میں ایک اصطلاح ‘خاص’ کی ہے جس کی اپنے معنی و مفہوم پر دلالت قطعی ہوتی ہے اور خاص کی تین قسمیں ہیں :
خاص فردی’ خاص نوعی اور خاص جنسی۔
پس معین کی تکفیر میں شخص’ جماعت’ ادارہ یا گروہ وغیرہ بھی شامل ہے .
تکفیرمعین کی مثالیں :
 ٭ یا تو آپ فرد واحد کی تکفیر کریں مثلاً یوں کہیں کہ علامہ طالب جوہری یا پروفیسر ڈاکٹر طاہر القادری کافر ہیں۔
٭ یا معین جماعت اور گروہ کی تکفیر کریں مثلاً یوں کہیں کہ بریلوی کافر ہیں ۔

تکفیرغیرمعین کی مثالیں :
٭ جوبھی مردوں سے استغاثہ کرتا ہے ‘ وہ مشرک ہے۔


٭ جو بھی اللہ کی نازل کردہ شریعت کے مطابق فیصلہ نہیں کرتا‘ وہ کافر ہے۔
اس سلسلہ میں شیخ عبد اللہ بن عبد العزیز جبرین رحمہ اللہ کا بیان کافی مفید ہے :

ولھذا ینبغی للمسلم أن لا یتعجل فی الحکم علی الشخص المعین أو الجماعة المعینة بالکفر حتی یتأکد من وجود جمیع شروط الحکم علیہ بالکفر وانتفاء جمیع موانع التکفیر فی حقہ وھذا یجعل مسألة التکفیر المعین من مسائل الاجتھاد التی لا یحکم فیھا بالکفر علی شخص أو جماعة أو غیرھم من المعینین لا أھل العلم الراسخون فیہ لأنہ یحتاج ا لی اجتھاد من وجھین : الأول معرفة ھذا القول أوا لفعل الذی صدر من ھذا المکلف مما یدخل فی أنواع الکفر الأکبر أو لا؟ والثانی : معرفة الحکم الصحیح الذی یحکم بہ علی ھذا المکلف وھل وجدت جمیع أسباب الحکم علیہ بالکفر وانتفت جمیع الموانع من تکفیرہ أم لا…کما أنہ یحرم علی العامة وصغار طلاب العلم أن یحکموا بالکفر علی مسلم أو علی جماعة معینة من المسلمین أو علی أناس معینین من المسلمین ینتسبون الی مذھب معین دون الرجوع فی ذلک الی العلماء کما أنہ یجب علی مسلم أن یجتنب مجالسة الذین یتکلمون فی مسائل التکفیر وھم ممن یحرم علیھم ذلک لقلة علمھم.(تسھیل العقیدة الاسلامیة : ص ٢٩٣۔٢٩٧)

اس لیے مسلمان کے لیے یہ لازم ہے کہ وہ کسی معین شخص یا معین جماعت کی تکفیر میں جلدی نہ کرے یہاں تک کہ اس معین شخص یا جماعت میں کفر کا حکم لگانے کے لیے جمیع شروط موجود ہوں اور تکفیر کے وجود میں تمام موانع ختم ہو جائیں ۔ اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ تکفیر معین کا مسئلہ ایک اجتہادی مسئلہ ہے اور کسی معین شخص یا جماعت یا معین ادارے وغیرہ پر کفر کا حکم وہی لگا سکتے ہیں جو راسخون فی العلم ہیں کیونکہ اس قسم کی معین تکفیر میں دو اعتبارات سے اجتہاد کی ضرورت ہوتی ہے:اس بات کو معلوم کرنا کہ معین مکلف سے جو قول یا فعل صادر ہوا ہے وہ کفر اکبر میں داخل ہے یا نہیں ؟اور دوسرا اس پہلو سے کہ اس صحیح حکم کی معرفت حاصل کرنا جس کا اس مکلف پر اطلاق کرنا ہے اور اس بات کو معلوم کرنا کہ اس مکلف پر کفر کا حکم جاری کرنے کے جمیع اسباب پائے جاتے ہیں اور اس کی تکفیر میں جمیع موانع ختم ہو گئے ہیں یا نہیں؟…اسی طرح عامة الناس اور چھوٹے درجے کے کسی مذہب کی طرف منسوب دینی طلباء کے لیے یہ حرام ہے کہ وہ کسی مسلمان یا مسلمانوں کی معین جماعت یا مسلمانوں میں سے متعین لوگوں کی تکفیر کریں یہاں تک کہ وہ اس بارے اپنے علماء کی طرف رجوع نہ کرلیں۔ اسی طرح ایک مسلمان پر یہ بھی واجب ہے کہ وہ ان لوگوں کی مجلس میں نہ بیٹھے جو تکفیری مسائل پر گفتگو کرتے ہیں اور یہ وہ لوگ ہیں کہ جن پر تکفیر کے مسئلے میں گفتگو ان کے قلیل علم کی وجہ سے حرام ہے۔‘‘


لہذا عام مسلمانوں کو اس مسئلہ میں حساس اور محتاط رہنا چاہئے ۔ 

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔