Sunday, December 7, 2014

دنیا ہی میں کسی کو جنتی یا جہنمی کہنا

دنیا ہی میں کسی کو جنتی یا جہنمی کہنا


یہ عام اصول ہے کہ : جو شخص بھی اللہ اور اسکے رسول کی اطاعت کریگا جنت میں داخل ہوگا، اور جو اللہ اور اسکے رسول کی نا فرمانی کریگا، جہنم میں داخل ہوگا، چنانچہ بخاری: (7280) میں ہے کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا: (جنت میں داخلے سے انکار کرنے والوں کے علاوہ میری ساری امت جنت میں داخل ہوگی) صحابہ کرام نے کہا: جنت میں جانے سے کون انکاری ہے؟! آپ نے فرمایا: (جس نے میری اطاعت کی وہ جنت میں داخل ہوگا، اور جس نے میری نا فرمانی کی یقیناً اس نے جنت میں جانے سے انکار کیا)
لیکن مخلوقات میں سے کسی معین شخص کا انجام اللہ تعالی ہی جانتا ہے، اس لئے کسی کے بارے میں رحمت یا زحمت کا قطعی فیصلہ شرعی نصوص کے بغیر نہیں کیا جا سکتا۔ لہذا ہم قطعی طور پر کہہ سکتے ہیں کہ عشرہ مبشرہ صحابہ کرام جنتی ہیں، اور ایسے ہی قطعی طور پر کہہ سکتے ہیں کہ فرعون ، ہامان، اور ابو جہل جہنمی ہیں۔
اسی طرح ہم یہ بھی یقینی طور پر کہہ سکتے ہیں کہ جو شخص عقیدہ توحید پر فوت ہوگا، وہ جنت میں داخل ہوگا، چاہے جنت میں جانے سے پہلے اسے گناہوں کی سزا بھی ملے، [لیکن آخر کار وہ جنت ہی میں جائے گا] اور جو شخص شرک پر فوت ہوا تو وہ جہنم میں جائے گا، لیکن اس کیلئے ہم کسی کا نام لیکر کچھ نہیں کہہ سکتے۔
کچھ علامات ایسی ہیں جو انسان کے نیک صالح، اور اچھے خاتمے کی طرف اشارہ کرتی ہیں، اور کچھ علامات ایسی ہیں جو کہ انسان کے گناہگار اور برے انجام کی طرف اشارہ کرتی ہیں، لیکن ہیں پھر بھی یہ صرف اشارے ہیں، چنانچہ ان کی بنیاد پر قطعی فیصلہ کرنا ہمارے لئے بالکل ناممکن ہے، اس لئے تعیین کیساتھ کسی پر حکم لگانے کا معاملہ اللہ رب العالمین ہی کے ہاتھ میں ہے۔
ابن حبان: (6891)، ابن ابی شیبہ: (7/100)، اور حاکم: (4515) نے صحیح سند کے ساتھ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے نقل کیا ہے وہ کہتے ہیں کہ:
"
جب عمر رضی اللہ عنہ کو خنجر لگے تو میں آپ کے پاس گیا، کہا: 
امیر المؤمنین! جنت کی خوشخبری ہو! [کیونکہ]لوگ جس وقت کفر کر رہے تھے، آپ مسلمان ہوگئے، لوگ جس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو رسوا کرنے کی کوشش کر رہے تھے، آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیساتھ مل کر جہاد کیا، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوئے تو آپ سے راضی تھے، آپکی خلافت کے بارے میں [زیادہ تو کیا کسی] دو افراد نے بھی اختلاف نہیں کیا، اور اب آپ کو شہادت ملنے والی ہے" تو عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: 
"
دوبارہ کہو [جو تم نے کہا ہے] "تو میں نے دوبارہ کہہ دیا
تو عمر رضی اللہ عنہ کہنے لگے: "اللہ کی قسم ! جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے، اگر مجھے زمین کا سارا سونا چاندی بھی مل جائے تو سارے کا سارا میں اپنی موت کے بعد والے خدشات کی ہولناکی کے بدلے میں دے دوں"
یہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہہ رہے ہیں اور ساتھ میں اللہ کی قسم بھی اٹھا رہے ہیں، حالانکہ وہ اس امت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ابو بکر رضی اللہ عنہ کے بعد سب سے افضل ترین ہیں، تو انکے علاوہ لوگوں کا کیا حال ہونا چاہئے؟!

اللہ تعالی ایسے لوگوں کو سمجھ دے جو ایک دوسرے پر بغیر دلیل کے کفر کا فتوی لگاتے ہیں۔
ترمیم کے ساتھ موقع الاسلام سوال و جواب



0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔