شادی ہال میں نکاح کے فورا بعد بارات وولیمہ کی دعوت کا
حکم
سائلہ : فاکھہ عماد
جواب: سوال میں بارات اور ولیمہ دوقسم کی اکٹھی دعوت کاذکر ہے، تو معلوم ہونا چاہئے کہ لڑکا والوں کی طرف سے مروجہ بارات کی شکل معاشرے کا اپنا رواج ہے، اسلام نے نکاح کی جوتعلیم دی ہے اس میں بارات کا کہیں ذکر نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ بہترین زمانوں کی شادیوں میں بارات کا کوئی رواج وتصور نہیں پایا جاتا ہے اس لئے ہمیں اپنی شادیوں سے بارات کی مروجہ شکل کو ختم کرنا چاہئے ۔ مدینہ میں مسلمانوں کی کتنی آبادی تھی؟ عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ شادی کرتے ہیں اور رسول اللہ ﷺ کو شادی کی خبر نہیں لگتی، جب شادی کے بعد عبدالرحمن رضی اللہ عنہ کے جسم پر زردی کے نشان دیکھتے ہیں اور اس نشان کے بارے میں پوچھتے ہیں تب آپ کو معلوم ہوتا ہے کہ عبدالرحمن رضی اللہ عنہ کی شادی ہوئی ہے۔آپ حکم دیتے ہیں کہ ولیمہ کرواگرچہ ایک بکری ہی کیوں نہ ہو(مسلم:1428)اس حدیث سے ایک طرف یہ معلوم ہوتا ہے کہ اسلامی نکاح میں بارات کا کوئی تصور نہیں ہے، اگر بارات کا تصور ہوتا تو وہیں پر رسول اللہ ﷺموجود تھے آپ ضرور بارات میں شریک ہوتےمگر ایسا نہیں ملتا ہے۔ دوسری طرف یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ شادی ہوجانے کے بعد دعوت لڑکا کی طرف سے ہونی چاہئے جسے ولیمہ کہتے ہیں۔
دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ ولیمہ کب کیا جائے گا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ نبی ﷺنے جب جنگ خیبر سے واپسی پر راستے میں حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا سے شادی کی تو رات بسر کرکے اگلے دن صحابہ کے تعاون سے ولیمہ کیا تھا۔آپ نے حکم دیا"من كان عنده شيء فليجئ به"(جس کے پاس بھی کچھ کھانے کی چیز ہو وہ یہاں لائے)۔آپ نے ایک چمڑے کا دستر خوان بچھایا۔ بعض صحابہ کھجور لائے، بعض گھی، بعض ستو لائے۔ پھر لوگوں نے ان کا حلوہ بنا لیا۔ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ولیمہ تھا۔(صحیح البخاری:371)
ان احادیث کی بنیاد پر علماء نے کہا ہے کہ افضل تو یہی ہے کہ ولیمہ نکاح اور رخصتی کے بعد ہو تاہم نکاح کے بعد کسی بھی وقت ولیمہ کرنا جائز ہے چاہے فورا اسی جگہ نکاح ہال میں یا کچھ دیر بعد حتی کہ چند دن بعد بھی ولیمہ کیا جاسکتا ہے اس میں معاملے میں وسعت ہے ۔ امام بخاری رحمہ اللہ کتاب النکاح کے تحت ایک باب ذکر کرتے ہیں"بَابُ حَقِّ إِجَابَةِ الْوَلِيمَةِ وَالدَّعْوَةِ"(باب:ولیمہ کی دعوت اور ہر ایک دعوت کو قبول کرنا حق ہے)۔ اس بات کے تحت ذکر کرتے ہیں کہ جس نے سات دن تک دعوت ولیمہ کو جاری رکھا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے صرف ایک یا دو دن تک کچھ معین نہیں فرمایا یعنی امام بخاری ؒکی رائے یہ ہے کہ ولیمہ کرنے کا دن متعین نہیں ہے لہذا کوئی سات دن تک بھی کرسکتا ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے دن متعین نہیں فرمایا ہے ۔
پوری گفتگو کا ماحصل اور سوال کا مختصر جواب یہ ہے کہ نکاح کے نام پر بارات کی رسم غلط ہے، اسے ختم ہونا چاہئے اور ولیمہ نکاح ورخصتی کے بعد ہو تو بہتر ہے لیکن اگر کوئی سہولت کے اعتبار سے شادی ہال میں ہی کرلیتا ہے تو اس کی گنجائش ہے ، ولیمہ کے لئے بھاری بھرکم دعوت کی بھی ضرورت نہیں ہے ، معمولی چیز پیش کرکے بھی ولیمہ کیا جاسکتا ہے بلکہ جس کو ولیمہ کرنے کی طاقت نہ ہو اس کوتعاون دےکربھی ولیمہ کیا جاسکتا ہے جیسے نبی ﷺنے صفیہ رضی اللہ عنہا سے شادی کے وقت صحابہ کے تعاون سے ولیمہ کیا تھا۔ تعاون کے لئے لڑکا والا لڑکی والے کو مجبور نہیں کرسکتا ہے بلکہ سماج کا کوئی بھی باحیثیت فردتعاون کرسکتا ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
مقبول احمد سلفی
جدہ دعوہ سنٹر – حی السلامہ
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔
اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔