Monday, May 11, 2020

نماز عیدین کی تکبیرات کی تعداد


نماز عیدین کی تکبیرات کی تعداد

تحریر: مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹر ، طائف

نوٹ : لاک ڈاؤن کے دوران عیدالفطر سے متعلق میری تحریرمیں نماز عید کی پہلی رکعت کی تکبیرات میں تکبیرتحریمہ کے بعد چھ تکبیرات کا ذکر ہے جبکہ ہندوستان میں سات تکبیرات پر اہل حدیث عمل کرتے ہیں اس وجہ سے کافی لوگوں نے مجھ سے سوال کیا اسی کی وضاحت کے لئے یہ مضمون زیب قرطاس کیا گیاہے۔

نماز عیدین کی تکبیرات کی تعداد کے سلسلے میں مختلف اقوال ملتےہیں کیونکہ اس بابت مرفوع وموقوف روایات اور اقوال سلف میں کافی اختلاف پایا جاتا ہے، تقریبا دس سے انیس اقوال تک ذکر کئے جاتے ہیں تاہم ایک قول دلائل سےزیادہ قوی اور مرفوع احادیث سے ثابت نظرآتاہے ، اس قول کو امام بخاری رحمہ اللہ نے اختیار کیا ہےاوربہت سے اہل علم بھی اس جانب گئے ہیں جن میں شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ ؒ اور آپ کے شاگرد علامہ ابن القیم ؒ بھی ہیں چنانچہ عمروبن عوف المزنی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
أنَّ النبيَّ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ كبَّر في العيدينِ : في الأولى سبعًا قبلَ القراءةِ ، وفي الآخرةِ خمسًا قبلَ القراءةِ(صحيح الترمذي:536)
ترجمہ: نبی ﷺعیدین کی پہلی رکعت میں قرات سے پہلے سات اور دوسری رکعت میں قرات سے پہلے پانچ تکبیرات کہا کرتے تھے ۔
امام ترمذی نے اس حدیث کے تحت ذکر کیا ہے کہ اس باب میں رسول اللہ ﷺسے ثابت سب سے صحیح یہی بات ہے ، اسی پرمتعدد صحابہ کرام نے عمل کیا۔ یہی اہل مدینہ کا بھی قول ہے اور یہی مالک بن انس، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں۔ نیز اس حدیث کے متعلق امام ترمذی امام بخاری رحمہ اللہ سے بھی پوچھتے ہیں تو اس روایت کے متعلق امام بخاری فرماتے ہیں : "ليس في الباب شيء أصح من هذا وبه أقول" یعنی اس باب میں اس سے صحیح کوئی بات نہیں ہے اور میں یہی اختیار کرتا ہوں ۔ (العلل الکبیرللترمذی:93)
اسی طرح کئی کتب احادیث میں پہلی رکعت میں سات اور دوسری رکعت میں پانچ تکبیرات کا ذکر ہے مثلا ابوداؤد میں ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں:أنَّ رسولَ اللَّهِ صلَّى اللهُ عليْهِ وسلَّمَ كانَ يُكبِّرُ في الفطرِ والأضحى ، في الأولى سبعَ تَكبيراتٍ وفي الثَّانيةِ خمسًا(صحيح أبي داود:1149)
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عید الفطر اور عید الاضحی کی پہلی رکعت میں سات تکبیریں اور دوسری رکعت میں پانچ تکبیریں کہتے تھے ۔
ابن ماجہ میں ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے ہی روایت ہے:كبَّرَ في الفطرِ والأضحى سبعًا وخمسًا سوى تَكبيرتيِ الرُّكوعِ(صحيح ابن ماجه:1065)
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عید الاضحی اور عید الفطر میں رکوع کی تکبیروں کے علاوہ سات اور پانچ تکبیریں کہیں۔
مسند امام احمد میں حضرت عبد اللہ عمرو ؓ سے روایت ہے:
أنَّ النَّبيَّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ كبَّرَ في عيدٍ ثِنتَي عشْرةَ تكبيرةً؛ سَبعًا في الأولى، وخَمسًا في الآخِرةِ، ولم يُصلِّ قبلَها، ولا بعدَها(المسند:6688)
ترجمہ:رسول اللہ ﷺ نے نماز عید میں بارہ تکبریں کہیں ’پہلی رکعت میں سات اور آخری رکعت میں پانچ اور نماز سے پہلے اور بعد آپﷺ نے کوئی نماز نہیں پڑھی۔
مسند کی تخریج میں احمد شاکر نے صحیح اور صاحب تحفہ نے حسن کہا ہے (تحفة الأحوذي:2/425 )
یہ سب روایات مرفوع ہیں ،ان میں نبی ﷺ کا عمل بیان ہواہے اور آپ کا عمل نماز عیدین کی دورکعتوں میں بارہ تکبیرات کہنا ہے یعنی سات پہلی رکعت میں اور پانچ دوسری رکعت میں ۔بعض صحابہ سے بھی صحیح سند کے ساتھ یہی عمل منقول ہے چنانچہ نافع مولی ابن عمر بیان کرتے ہیں :
شهدتُ الأضحَى والفطرَ مع أبي هريرةَ فكبَّرَ في الركعةِ الأُولَى سبعَ تكبيراتٍ قبلَ القراءةِ وفي الآخرةِ خمسَ تكبيراتٍ قبلَ القراءةِ(الموطألمالك:1/180)
ترجمہ: میں ابوھریرہ کے ساتھ عیدالفطر اور عیدالاضحی میں شریک ہواپس انہوں نے پہلی رکعت میں قرات سے سات تکبیرات اور دوسری رکعت میں قرات سے پہلے پانچ تکبیرات کہیں ۔
یہاں ایک اہم مسئلہ لائق اعتنا ہے کہ برضعیرہندوپاک میں اہل حدیث کے یہاں پہلی رکعت میں تکبیرتحریمہ کے علاوہ سات تکبیرات کہی جاتی ہیں اس لئے اس بات کو دلائل سے سمجھنے کی ضرورت ہے تاکہ لوگوں میں تذبذب نہ ہو ۔
جہاں تک ائمہ اربعہ کی بات ہے توامام مالک اور امام احمد تکبیراولی ملاکر سات مانتے ہیں جبکہ امام شافعی تکبیر اولی چھوڑ کر سات مانتے ہیں اور امام ابوحنیفہ کے یہاں تو دونوں رکعتوں کی تکبیرات ملاکر کل چھ تکبیریں ہیں ۔
اس مسئلے میں صحیح بات یہ ہے کہ پہلی رکعت میں تکبیر تحریمہ کے بعد محض چھ تکبیرات کہی جائیں گی کیونکہ تکبیرتحریمہ کو حدیث کے الفاظ "سبع تکبیرات" یعنی سات تکبیرات سے الگ کرنے کی کوئی خاص دلیل نہیں ہے ۔ آپ ﷺ نے عام لفظ سات تکبیرات کا ذکر کیا ہے لہذا تکبیرتحریمہ ملاکر سات مانی جائے گی۔ اگر کوئی تکبیرتحریمہ کوحدیث کے الفاظ سبع تکبیرات سے الگ شمار کرتا ہے تو اس کو دلیل دینی پڑے گی اور اس بات کی کوئی دلیل نہیں ہے ۔
سبع تکبیرات کے علاوہ حدیث کےدوسرے قرائن سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ پہلی رکعت کی سات تکبیرات میں تکبیر تحریمہ بھی داخل ہے مثلا"قبل القراءۃ" یعنی قرات سے پہلے ، یہ الفاظ واضح کرتے ہیں کہ قرآن کی قرات سے پہلے پہلی رکعت میں کل سات تکبیرات کہنی ہیں اور سات میں تکبیر تحریمہ بھی شامل ہے ۔ اس سےبھی ٹھوس قرینہ " سوى تَكبيرتيِ الرُّكوعِ" کے الفاظ ہیں ، آپ ﷺ نے قیام سے رکوع میں انتقال کرنے والی تکبیرکو مستثنی قرار دیتے ہوئے محض سات تکبیرات کا ذکر کیا ، اگر تکبیر تحریمہ بھی مستثنی ہوتی تو آپ ﷺ رکوع کی تکبیر کی طرح اسے بھی مستثنی قرار دیتے مگر آپ نے ایسا نہیں کیا اور اس طرح دورکعتوں کی مکمل تکبیرات کو ملاکر سات مع پانچ، بارہ تکبیرات بنتی ہیں جس کا ذکر مسند احمد کی روایت میں ہے ۔
بعض روایات میں "سوی تکبیرۃ الافتتاح " یا سوی تکبیرۃ الصلاۃ " کاذکر بھی ہےیعنی تکبیریمہ تحریمہ کے علاوہ سات تکبیرات کہنے ہیں  تو یہ الفاظ محفوظ اور ثابت نہیں ہیں ، اس بارے میں یہاں پر ابویحی زکریا بن غلام قادر پاکستانی کی کتاب " تنقيح الكلام في الأحاديث الضعيفة في مسائل الأحكام" کا ذکر کرنا مفید ہوگا جس میں انہوں نے ضعیف احادیث سے مسائل واحکام اخد کئے جانے پر متنبہ کیا ہے۔ ان میں ایک مسئلہ نمازعیدین کی سات تکبیرات میں تکبیرتحریمہ کو خارج کرنے کا ہے ، اس مسئلے کا استدلال دارقطنی اور حاکم کی اس روایت سے کیا جاتا ہے ۔
عن عائشة رضي الله عنها قالت كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يكبر في العيدين اثنتى عشرة تكبيرة سوى تكبيرة الإفتتاح و يقرا بقاف و اقتربت الساعة.
ترجمہ: سیدہ عائشہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ عیدین میں تکبیر تحریمہ کے علاوہ بارہ تکبیرات کہتے تھے اور ق و اقتربت الساعہ کی قرات کرتے تھے۔
سیدہ عائشہ کی یہ روایت ضعیف ہے کیونکہ اس کی سند میں ابن لہیعہ ہے اور اس کا اسحاق بن عیسی سے سماع کا علم ہے نہیں کہ اختلاط سے قبل ہے یا بعد ہے تاہم سیدہ عائشہ کی وہ روایت(ابن ماجہ،دارقطنی،بیہقی) جس میں ابن وھب نے ابن لہیعہ سے روایت کیا ہے وہ صحیح اورمحفوظ ہے ۔ روایت یہ ہے :
عن عائشة أن النبي صلى الله عليه وسلم كبَّرَ في الفطرِ والأضحى سبعًا وخمسًا سوى تَكبيرتيِ الرُّكوعِ.
ترجمہ: سیدہ عائشہ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عید الاضحی اور عید الفطر میں رکوع کی تکبیروں کے علاوہ سات اور پانچ تکبیریں کہیں۔
یہاں پر سات تکبیروں میں تکبیرتحریمہ بھی داخل ہے اور رکوع کی تکبیر اس میں داخل نہیں ہے اور یہی صحیح بات ہے کیونکہ ابن وھب اپنے شیخ ابن لہیعہ سے علم حاصل کرنے میں قدیم ہیں ، بیہقی نے اس روایت کے بعد کہا کہ محمد بن یحی نے کہا کہ یہی روایت محفوظ ہے کیونکہ ابن وھب ابن لہیعہ سے سماع میں قدیم ہے ۔
دارقطنی، بیہقی اور معانی الآثارمیں عبداللہ بن عبدالرحمن الطائفی کی روایت ہے جس میں سوی تکبیرۃ الصلاۃ کے الفاظ ہیں اور یہ عبداللہ ضعیف ہے ۔ ابن الترکمانی نے الجوہرالنقی میں اسے متکلم فیہ کہا ہے اور حافظ نے التقریب میں کہا"صدوق یخطی ویھم۔ (ابویحی کی بات کا خلاصہ ختم ہوا)
مذکورہ باتوں کاخلاصہ یہ ہے کہ سوی تکبیرۃ الافتتاح یا سوی تکبیرۃ الصلاۃ کے الفاظ ثابت نہیں ہیں جو ثابت اور محفوظ ہیں وہ"سوى تكبيرةِ الركوعِ"(رکوع کی تکبیر کے علاوہ) کے الفاظ ہیں اوراسی سبب ابن عباس رضی اللہ عنہما سے صحیح سند کے ساتھ یہ بات ثابت ہے کہ سات تکبیرات میں تکبیرتحریمہ بھی ملایا جائے گا ۔
[ عن ]عبدِ اللهِ بنِ عباسٍ أنهُ كان يُكبِّرُ في العيدِ في الأُولى سبعَ تكبيراتٍ بتكبيرةِ الافتتاحِ وفي الآخرةِ ستًّا بتكبيرِ الركعةِ كلُّهنَّ قبلَ القراءةِ.
ترجمہ: ابن عباس سے روایت ہے کہ وہ عید کی پہلی رکعت میں تکبیرتحریمہ کو ملاکر سات تکبیرات کہتے اور دوسری رکعت میں تکبیر قیام کو ملاکر چھ تکبیرات کہتے ، یہ تکبیرات قرات سے پہلے ہوتیں۔
شیخ البانی نے اس اثر کو شیخین کی شرط پر صحیح کہا ہے ۔(ارواء الغلیل:3/111)
اس بات کی تائید میں شیخ ابن باز ؒ اور شیخ ابن عثیمین کا موقف نقل کرنا لوگوں کے اطمینان کا باعث سمجھتا ہوں ۔
شیخ ابن باز رحمہ اللہ سےسوال کیا گیاکہ نماز استسقاء اور نماز عیدین میں دعائے ثنا کب پڑھی جائے تو شیخ نے جواب دیا کہ تکبیر تحریمہ کے بعد دعائے استفتاح پڑھی جائے پھر پہلی رکعت میں چھ تکبیرات کہی جائیں ۔۔۔الخ(حوالہ بن باز ڈاٹ آرگ ڈاٹ ایس اے)
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے سوال کیا گیا کہ عیدین میں تکبیرات کی تعداد کتنی ہیں تو شیخ نے جواب دیا کہ عیدین کی تکبیرات کی تعداد میں سلف وخلف کے درمیان اختلاف ہے پس جس نے پہلی رکعت میں تکبیر تحریمہ کو ملاکر سات تکبیرات اور دوسری رکعت میں قیام کے بعد پانچ تکبیرات کہی تو بہت اچھا ہے اورجو اس کے خلاف کہی وہ بھی اچھا ہے کیونکہ سلف سے وارد ہے ۔(مجموع فتاوی ورسائل ازشیخ ابن عثیمین)
آخر میں عرض ہے کہ محض عدد تکبیرات کی وجہ سے اختلاف کو ہوا نہ دیا جائے کیونکہ میرامقصدآپ کے سامنے اختلاف کو بیان کرنا نہیں بلکہ دلائل کی روشنی میں ٹھوس بات بیان کرنی تھی جسے میں نے بیان کردی ۔اگر آپ پرانی روایت پر ہی قائم رہنا چاہتے ہیں تو کوئی حرج نہیں ہے جیساکہ شیخ ابن عثیمینؒ نے عدد تکبیرات میں وسعت کا ذکر کیا ہے ، کچھ اسی قسم کی بات امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے بھی وارد ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے اصحاب سے تکبیرات کے سلسلے میں اختلاف وارد ہے لہذا سب پر عمل کرنا جائز ہے۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔