Monday, January 6, 2020

چند شبہات ونظریات ہندوستان کے موجودہ حالات کے تناظر میں


چند شبہات ونظریات ہندوستان کے موجودہ حالات کے تناظر میں
مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹرشمالی طائف(مسرہ)
چند دنوں سے ہندوستانی عوام  جس طرح بے چینی کا شکار ہے اس کی نظیر شاید انگریزی دور میں ہی مل پائے گی ، اُس سے پہلے مسلم حکمرانوں نے شاید اسلام کے لئے کچھ کیا ہویا نہ کیا ہومگر یہاں کے تمام طبقات کے لئے عدل وانصاف سے لیکر حقوق ومراعات کی مکمل پاسداری ضرورکی ہے،یہی وجہ ہے کہ تقریبا آٹھ سوسال مسلمانوں کی حکومت رہتے ہوئے بھی ہماری تعداد چودہ  پندرہ پرسینٹ ہےجبکہ بی جے پی اقتدار سنبھالنے کے بعد سے ہی آر ایس ایس کے ساتھ مل کراپنی تعداد کی بڑھوتری اور مسلمانوں کی تعداد کم کرنے کے منصوبے پر عمل کررہی ہے ۔ہم مسلمانوں کے لئے یہ ایشو فکرمندی کا اتنا باعث نہیں ہے جنتاکہ ہمیں متحد ہونا اور شرک وبدعت سے تائب ہوکر خالص دین حنیف پر جمع ہوناہے۔
اس مضمون کے ذریعہ  مسلمانوں کے  چند نظریات اور شبہات کی حقیقت ٹٹولنا چاہتا ہوں اس وجہ سےہندوستان کے مختلف صورت حال یا موجودہ صورت حال پر ہندؤں کے نظریات سے صرف نظر کرتا ہوں ۔
سب سے پہلے اسلامی نقطہ نظر سے جمہوری ملک میں احتجاج کی شرعی حیثیت پہ مسلمانوں کے درمیاں جوازوعدم جواز پہ اپنی بات رکھنا چاہتا ہوں کہ بلاشبہ مظاہرے حرام ہیں ،اس بات کی وضاحت کے ساتھ کہ جو علماء قرآن وحدیث سے اس کے جواز کی دلیل پیش کرتے ہیں ان کا استدلال غلط ہے۔اب میں خالص سیاسی پس منظر میں بات کررہا ہوں اور سیاست میں مفیدمصلحت ملحوظ رکھ سکتے ہیں ۔ ہم سبھی جانتے ہیں کہ جمہوریت میں اکثریت کی رائے سے ظالمانہ قانون بھی پاس کیا جاسکتا ہے اس کی روک تھام کے لئے جمہوری دستور میں ہی پرامن مظاہرے کو قانونی جواز حاصل ہے ۔ ملک میں جب سی اے بی لانے کی بات ہوئی تو شروع میں اکثرلوگوں کی رائے تھی کہ یہ ایوان حکومت سے پاس نہیں ہوپائے گی  کیونکہ یہ تمام ہندوستانیوں کے لئے نقصان دہ ہے مگر پھر بھی دونوں ایوانوں سے پاس ہوکرایکٹ کی شکل اختیار کرلی ۔ ہند میں ظلم کےخلاف آواز بلند کرنے کا ایک ذریعہ کورٹ میں مقدمہ درج کرنا بھی ہے مگر موجودہ کورٹ ، وکیل ،پولیس، رپورٹر سب بھاجپا کی مٹھی میں ہیں ۔ ہم نے بابری مسجد کا فیصلہ بھی دیکھا جو سپریم کورٹ سے آیا، اس کے لئے ہم نے مظاہرے نہیں کئے تھے کورٹ پر انحصار کئے تھے ، فیصلہ پر نظرثانی کے لئے دوبارہ کورٹ میں عرضی  پیش کی گئی جسے یک لخت خارج کردی گئی ۔ ایسی صورت حال میں ظالمانہ قانون کیب کی روک تھام کے لئے پرامن مظاہروں کے علاوہ کوئی راستہ نظر نہیں آتا ہے۔ میں کہنا چاہتا ہوں کہ یہ مظاہرے موجودہ صورت حال میں جائز ہی نہیں ہم سب کی اولین ضرورت ہیں ، بروقت انہیں اپنے تمام کام کاج پر ترجیح دینا چاہئے ۔ کیا آپ کو معلوم نہیں ہے کہ انگریزوں کی غلامی سے آزادی دلانے میں علماء سرفہرت رہے ہیں اور انہوں نے ملک بھر میں مظاہرے کئے ، ان میں سے کسی نے بھی اختلاف نہیں کیاسوائے انگریزی غلام ومنافق کے۔اس میں مزید ایک بات کا اضافہ کرتا چلوں کہ جو لوگ اس بل کی حمایت میں ہیں ان کےساتھ ہمارا رویہ کیسا ہونا چاہئے ، اس بابت میرا یہ کہنا ہے کہ ہمیں ان سے تعرض کرنے کی ضرورت نہیں ہے ، ملک کی اکثریت مخالفت میں کھڑی ہے ہم اکثریت کے ساتھ مل کر عدلیہ اور حکومت پر دباؤ بناسکتے ہیں ۔ رہی بات عورتوں کا مظاہروں میں حصہ لینا جبکہ انہیں اپنے گھروں میں استقرار کا حکم دیا گیا ہے تو میں سمجھتا ہوں یہاں عورت ومرد سب کی جان ومال کو خطرہ ہے ،اگر عورت  کا اس میں حصہ لینا مفید ہے تو وہ بھی حصہ لے سکتی ہے جیساکہ اسے بھی اپنے جان ومال کے لئے دفاع کا حق ہے تاہم شرعی حدود ملحوظ رکھنا چاہئے مثلا پردہ  اوراختلاط کے متعلق ۔
اب میں بات کرنا چاہتاہوں این آرسی کی ، کئی علماء نے بیان دیا ہے کہ آین آرسی قرآن سے ثابت ہے ، میں ان علماء سے بصداحترام گزارش کرنا چاہتا ہوں کہ آپ اپنے اس موقف پر نظرثانی کی زحمت فرمائیں ۔ ایک طرف آپ ہی کہتے ہیں بلکہ پورا ملک کہہ رہا ہے کہ این آر سی مسلمانوں کے خلاف نہیں بلکہ پورے ہندوستانیوں کے خلاف ہے پھر تضاد بیانی کیوں ؟  کہیں آپ کی یہ بات کٹرہندو پشپیندرکو نہ معلوم ہوجائے تو جس طرح پہلے کہتا رہا ہے کہ مودی کو اللہ نے بھیجا ہے اب یہ بھی کہے گا کہ تم جب قبول کرتے ہو این آرسی قرآن سے ثابت ہے پھر اس کی مخالفت کیوں کرتے ہو،چپ چاپ  ملک سے نکل جاؤ۔ دقت نظری سےمسئلہ کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ قرآن میں کیا کہاگیا ہے، کس پس منظر میں کہا گیا ہے  اور کون مخاطب ہیں؟
سورہ ابراہیم  میں اللہ نے ذکر کیا ہے کہ کافروں نے اپنے رسولوں سے کہا کہ ہم تمہیں ملک بدر کردیں گےیا پھر ہمارا دین قبول کرلو اور دوسرے مقامات پر بعض اقوام کا بھی ذکر ہے جنہوں نے اپنی قوم کے نبی اور ان پر ایمان لانے والوں کو ملک بدرکرنے کی دھمکی دی مثلا قوم شعیب، قوم لوط اور مشرکین مکہ ۔ میرا سوال ہے کہ کیا این آر سی کا یہی پس منظر اور مطلب ہے جو مطلب مذکورہ آیت میں ہے ؟ کیا ہندوستان کے کافروں نے یہ حکم نامہ جاری کیا ہے کہ تم مسلمان ہندوستان سے نکل جاؤ یا ہندو مذہب قبول کرلو؟ بالکل ایسی بات نہیں ہے ۔
پہلے یہ تو دیکھیں کہ ہندوستان میں کس قسم کے مسلمانوں کی اکثریت ہے، دہلی میں صوفی کانفرنس کرنے والے مودی کے ساتھ مل کر کانفرنس کرتے ہیں کیا یہ لوگ آیت کے مصداق ہوسکتے ہیں ؟ دوسری بات یہ ہے کہ لفظ این آرسی ملک کے تمام باشندوں کو شامل ہے ، اس سے صرف مسلمان مراد نہیں ہے ، اس وجہ سے این آرسی کی دلیل قرآن سے نکالنا نہ صرف اجتہادی خطا ہے بلکہ دشمن کے لئے پروپیگنڈا کا راستہ  بھی ہموار کرنا ہے ۔  
اس سے متعلق آخری بات کہنا چاہتا ہوں کہ بھارت سےمسلمانوں کو نکال دیا جائے یا ان سب کو قتل کردیا جائے ،اس بات سے حقیقی مسلمان کبھی نہیں خوف کھائےگاکیونکہ ان دونوں صورتوں میں اللہ کی طرف سے ہمارے لئے انعام ہے۔حقیقی مومن کو اس کی زمین سے نکالا جائے تو اللہ انہیں ان کی سرزمین میں واپس بلاتا ہےجیساکہ نبی ﷺ اور اصحاب رسول کے ساتھ ہوا اور اگر قتل کردیا جائے تو وہ اسلام کے لئے قتل ہونے پرشہید کہلائے گالیکن یاد رہے شرک کرنے والا مقتول شہید نہیں ہوگا، اس لئے شروع میں کہا ہوں کہ ہندوتوا کا مسلم مخالف ایجنڈا اتنافکرمندی کا باعث نہیں ہے جتنا کہ ہم مسلمانوں کا عقیدہ توحید پر ایک جگہ جمع ہوناہے۔
ایک مسئلہ میراساتھ یہ پیش آیا کہ ایک صاحب نے میرے گروپ اسلامیات میں لکھا کہ یہ خالص اسلامی گروپ ہے پھربھی ہندوستانی مسائل پہ کوئی بات چیت نہیں ہے ،علماء خاموش ہیں،کیا مسلمان مرجائیں گے تو آرایس ایس کے غنڈوں کو مسائل بتائے جائیں گے ؟
گرچہ جملوں کا انتخاب صحیح نہیں ہے تاہم وہ موجودہ صورت حال پہ علماء کی خاموشی سےشدید نالاں نظر آتے ہیں ، میں نے انہیں جواب دیا کہ یہاں مسئلے مسائل کی ضرورت نہیں بلکہ ظالمانہ قانون (سی اے بی، این آرسی، این پی آر) کے خلاف آواز بلند کرنے کی ضرورت ہے اور یہ بات بھی صحیح ہے کہ ملک کے مسلم طبقات کے دینی رہنما، علماء اور طلباء پر جمود طاری ہے ، کچھ ہے تو بس لفاظی ، لچھے دار تقریر یا سیمینار جبکہ ابھی وطن کو ہمارے جسم وجاں کی ضرورت ہےجیسے انگیریزوں سے آزادی کے لئےہمارے آباء واجداد نے قربان دی۔
ہندوستانی صورت حال کےتناظرمیں سوشل میڈیا پہ سرحد پارسے کچھ ہوائیں غلط سمت چلتی نظر آرہی ہیں ، یہ ہوائی اڑانے والے کچھ خود کوموحد کہنے والے بھی ہیں ۔ بہت سارےسرحدی غنچے اس بات پہ کھل رہے ہیں کہ قائداعظم رحمہ اللہ کا دوقومی نظریہ سچ ہوتا دکھائی دے رہا ہے ۔ میں دوسروں پہ کم، موحدکہنے والوں پہ زیادہ حیران وششدر ہوں کہ کس طرح ایک غالی شیعہ کو اس کے نام سے نہیں بلکہ قائداعظم سے پکارا جاتا ہے  اور رحمہ اللہ کے ذریعہ دعا دی جاتی ہے ۔ دوسری طرف ہند کے عالم دین ، مفسرقرآن مولاناابوالکلام آزاد ؒ کا نظریہ عدم تقسیم کا ہے ۔ایک موحد کس کو ترجیح دے گا؟
سرحدی بھائی ہمیں قسم قسم کے طعنے دے رہے ہیں ان کا ذکر فضول ہے ،اصل مسئلے کی وضاحت کافی ہے،ایک مسئلہ ہندوستان سے مسلمانوں کی محبت  پر سوال اٹھانا اور دوسرامسئلہ ہندؤں کا ملک کہہ کر ہمیں یہاں سے ہجرت کرجانے کا مشورہ دہنا ہے ۔ ملک سے محبت پر سوال اٹھانا جہالت اور ناواقفیت کی دلیل ہے، وطن سے محبت اور اس کے اظہار میں قطعی کوئی حرج نہیں ہے اور ہجرت کرنے کا مشورہ دینے والوں کو پہلے اپنے احوال درست کرنا چاہئے ، ہمارے لئے ابھی ہجرت کا وقت نہیں آیا ہے جب اسلامی احکام پر عمل کرنے سےہمیں  روک دیا جائے گا پھر یہ مسئلہ آئے گاقطع نظر اس سے کہ سرحدپار کے وزیراعظم نے مسلمان مہاجر کو قبول کرنے سے انکار کردیا ہے ۔ یا للعجب
سب کو معلوم ہے کہ ہند کے حالات پاک سے مختلف ہیں پھر بھی پاک میں بت پرست آرام سے ہیں ، ان سے کوئی بیر سے نہیں ، قادیانیوں کو ایک بڑے شہر ربوہ میں پناہ دی گئی ہے جہاں ان کو اپنی دعوت کی نشرواشاعت کے لئے اخبارات و چینلر سے لیکر ہرقسم کا پلیٹ فارم مہیا ہے ، سالانہ اجلاس اس قدر اہم ہوتا ہے کہ پوری دنیا سے قادیانی اس میں شریک ہوتے ہیں اور پھر عیسائی وشیعہ حکومت کے بڑے بڑے عہدوں پر فائز ہیں جو نہ صرف پاک کے لئےخطرناک ہیں بلکہ دین اسلام کو بھی نقصان پہنچا رہے ہیں ، یوٹیوب پر سیکڑوں ویڈیوز مل جائیں گی جن میں شیعہ اللہ، رسول، امہات المومنین، صحابہ اور اسلام کا مذاق اڑاتے نظر آتے ہیں ، آخر ان کو مسلم  ملک میں اس قدرچھوٹ کیسے ؟
سرحدپار سے  ایک اور صاحب ملے جو میرے مضمون میں وارد ایک مصرعہ پہ اعتراض کرنے لگے ، مشہور شعر کا ایک مصرعہ ہے۔
ہندی ہیں وطن ہیں ہندوستان ہمارا ،،،، اس پہ انہوں نےمجھے وسعت نظری پیدا کرنے کی نصیحت کی اور کچھ اعتراضات کئے مگر لاجواب ٹھہرے ، اس مصرعہ پہ انہوں نے کہا "مسلم ہیں وطن ہے سارا جہاں ہمارا"۔ میں ان سے بصداحترام عرض کیا کہ اگر آپ سے کوئی پوچھے کس ملک کے باشندہ ہیں تو کیا جواب ہوگا ؟ صاحب کی طرف سےابھی تک کوئی جواب نہیں آیا۔  
خیر،میں نے اختصار سے لکھنے کو سوچا تھا مگرمضمون کچھ طویل ہوگیا، اس مضمون سے اختلاف کیا جاسکتا ہے مگر سلیقہ اختلاف ملحوظ خاطر رہنا چاہئے۔ 

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔