Sunday, November 17, 2019

بنت حوا کے مسائل اور ان کا شرعی حل (قسط:۲۰)


بنت حوا کے مسائل اور ان کا شرعی حل (قسط:۲۰)

جوابات ازشیخ مقبول احمد سلفی
داعی اسلامک دعوۃ سنٹرشمالی طائف-مسرہ

سوال (۱):ایک عورت نے انجانے میں دس دن کا حمل ساقط کیا ہے اب اسے اس عمل پہ افسوس ہورہا ہے اور ڈر رہی ہے کہ قیامت میں بچہ مجھ سے سوال کرے گا کہ میں نے کیوں اس کا قتل کی تھی ، اس عمل کے لئے کیا کفارہ دینا ہوگا؟
جواب : حمل کا اسقاط انجانے میں نہیں ہوتا، یہ ایک سوچا سمجھا اسکیم ہے ، ایساکرنے والوں کو اللہ بہت سے ڈرنا چاہئے،کیا پتہ یہی ایک غلطی اس کی تباہی کا سبب بن جائے ۔ جس عورت نے ایسا کیا ہے اس نے گناہ کبیرہ کا ارتکاب کیا ہے ، اس پہ قتل کا گناہ تونہیں ہوگا کیونکہ روح چار ماہ بعد پھونکی جاتی ہے اس لئے اس عورت پہ دیت یا کفارہ نہیں ہے پھر بھی بڑا جرم ہونے کی وجہ سے اسے اللہ سے سچے دل سے توبہ کرنا چاہئے ، اللہ بہت معاف کرنے والا ہے اور آئندہ اس جرم سے بالکلیہ بچنا چاہئے ۔
سوال (۲):کیا ہم نفلی روزوں کی بھی قضا کریں گے اگر کسی وجہ سے توڑنا پڑجائے ؟
جواب : اگر ہم کوئی نفلی روزہ رکھیں تو اسے پورا کریں اور اس نیت سے کبھی کوئی روزہ نہیں رکھیں کہ دل کیا تو توڑ دیں گے ، اس سے عبادت آپ کی نظر میں ہلکی ہوجائے گی اور شیطان اس راستے سے آپ کو بہکانے کی کوشش کرے گا۔ ہاں اگر آپ نے نفلی روزہ رکھا اور اچانک کوئی عذر پیش آگیا اور کوئی عذر نہ بھی  ہو اچانک روزہ توڑنے کا خیال پیداہوگیا تو روزہ توڑ سکتے ہیں ، کوئی حرج نہیں ہے اور نفلی روزہ توڑ دیں تو اس کی قضا کرنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ یہ فرض روزہ نہیں ہے تاہم قضا کرلیں تو اچھی بات ہے ۔
سوال (۳):نکاح کے لئے گواہ بنانا ضروری ہے اور اگر ضروری ہے تولڑکے کی طرف سے لڑکی کے والد یا لڑکے کا باپ یا مامو گواہ بن سکتا ہے ؟
جواب : نکاح صحیح ہونے کے لئے ولی اور دوعادل گواہ ضروری ہے ورنہ نکاح نہیں ہوگا، نبی ﷺ کافرمان ہے :
لا نكاحَ إلا بوَلِيٍّ،وشاهِدَيْنِ(صحيح الجامع:7558)
ترجمہ: ولی اور دوگواہ کے بغیرنکاح  نہیں ہے ۔
اپنے سماج میں نکاح نامہ میں لکھا جاتا ہےکہ گواہی کے طورپر لڑکا کی طرف سے فلاں اور لڑکی کی طرف سے فلاں گواہ ہوگا ۔اِس کی طرف سے یا اُس کی طرف سے کہنے اورلکھنےکی ضرورت نہیں ہے ،گواہی کا مقصد اعلان نکاح اوراس کی توثیق ہے ،جو عقد نکاح منعقد کرائے اس کے ذمہ ہے کہ نکاح سے قبل لڑکی کےولی ، اس کے ہونے والے شوہراورنکاح میں گواہی کے طورپردوعادل مسلمان کو حاضر کروائے اور نکاح پڑھادے ۔لڑکی کے ولی گواہ نہیں بن سکتے البتہ لڑکے کا باپ اور دیگر کوئی بھی دوعادل مسلمان گواہ بن سکتے ہیں۔
سوال (۴):جیساکہ عموما رات میں روٹیاں بنانی ہوتی ہیں اور پھر عشاء کی نماز پڑھنی ہوتی ہے ، اس لئے اس سے متعلق میرا سوال ہے کہ اگر ناخن یا ہاتھ پر آٹا لگا رہ جائے اور ہم وضو کرکے نماز پڑھ لیں اور بعد میں وہ آٹا نظر آئے تو کیا میری نماز نہیں ہوئی ؟
جواب :ہاں آپ کی نماز ہوجائے گی کیونکہ آٹا لگنے سے وضو میں کوئی خلل نہیں ہوتا ۔ وضو میں خلل ایسی چیز سے ہوتا ہے جس کی وجہ سے پانی جلد پر نہ پہنچ سکے جبکہ ہاتھ پر آٹا لگا ہو تو وضو کرتے وقت پانی اندر سرایت کرسکتا ہے۔ ایسا ممکن ہے کہ آٹا ہاتھ میں یا اعضائے وضو میں لگ کر بالکل سوکھ گیا ہو اور آپ اچھی طرح وضو نہ کریں ، جھٹ پٹ وضو کریں تو اس صورت میں پانی  جلد میں سرایت کرنے سے رہ سکتا ہے لہذا احتیاط کی ضرورت ہے۔
سوال (۵):ولادت سے قبل آنے والا خون کس حکم میں ہے اور اس میں نماز کا کیا حکم ہے ؟
جواب : اگر ولادت سے دوتین روز قبل دردزہ اور ولادت کے آثارکے ساتھ خون آئے تو یہ نفاس کے حکم میں ہے اس وجہ سے عورت نماز وروزہ ترک کردے گی لیکن ولادت سے زیادہ دن پہلے ہو یا ولادت کی کوئی علامت نہ ہو تو یہ خون فاسد ہوگا ایسی حالت میں عورت کو نمازی جاری رکھنا ہے۔ بسااوقات حاملہ کو حیض کا بھی خون آسکتا ہے لیکن  یہ نادرہی ہوتا ہےجیساکہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ اوردیگر اہل علم نے ذکر کیا ہے۔
سوال (۶):مسجد میں اجتماعی طور پر رقیہ کرنا کیسا ہے جبکہ عورت ومرد سبھی ہوں اور بیٹھنے کا علاحدہ انتظام  بھی ہو؟
جواب :گوکہ بعض علماء نے اجتماعی رقیہ کو جائز قرار دیا ہے مگر درست بات یہ ہے کہ اجتماعی طورپر رقیہ کرنا دین میں نئی ایجاد ہے ، اس کی کوئی اصل موجود نہیں ہے ۔ یہ طریقہ دراصل کم وقت میں زیادہ مال کمانے کی غرض سے ایجاد کیا گیا ہے جیساکہ شیخ صالح فوزان نے ذکر کیا کہ اجتماعی طورپر رقیہ کرنے کی دین میں کوئی اصل نہیں ہے ،یہ بدعت ہے۔ یہ لوگ مال کے حرص میں ایسا کرتے ہیں تاکہ زیادہ لوگوں پر پھونک ماریں اور زیادہ مال کمائیں ۔
یہاں یہ بات بھی واضح رہے کہ رقیہ سنٹرکھولنا جائز نہیں ہے ، یہ دین میں ایسی گمراہی ہےجس سے سماج میں متعدد قسم کے شروفساد ظاہر ہوتے ہیں اور اجتماعی رقیہ بھی رقیہ سنٹر اور اس کی معیشت سے جڑا ہوا ہے ۔ پیسے کی ہوس میں اجتماعی رقیہ کی نئی نئی شکلیں پیدا ہورہی ہیں ،کوئی مساجد کو ڈھال بنا رہا ہے تو مائیکروفون استعمال کررہاہے ، کوئی ہوامیں تو کوئی موبائل فون میں پھونک مار رہاہے حتی کہ بعض لوگ انٹرنیٹ پہ آن لائن اجتماعی رقیہ کرتے نظر آتے ہیں ، یہ سب گمراہی اور بدعت کے راستے ہیں۔رقیہ کی جائز شکل انفرادی ہے وہ بھی بغیر سنٹر کھولےیعنی انفرادی طورپر ہر کسی کے لئے علاحدہ رقیہ کیا جائے گاحتی کہ اس پر اجرت بھی لی جاسکتی ہے تاہم اس کام کے لئے سنٹرنہیں کھول سکتے ہیں ۔
سوال (۷):اپنے محرم رشتہ داروں کو بوسہ دینے کا کیا حکم ہے ؟
جواب :مرد کا اپنی محرمات کو بوسہ لینا جائز ہے بشرطیکہ فتنے کا خوف نہ ہواور بوسہ بھی پیشانی یا سر کا ہی لیا جاسکتا ہے،رخساروں اور ہونٹوں کا نہیں تاہم باپ اپنی بیٹی یابیٹااپنی ماں کے رخسار کا بوسہ لے سکتا ہے ، حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ نے اپنی بیٹی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے رخسار کا بوسہ لیا تھا۔ جب فتنے کا خوف ہو مثلا جوانی یا خوبصورتی وغیرہ سےتو بوسہ لینا جائز نہیں بطور خاص رضاعی اور سسرالی محرمات میں ۔
سوال (۸):کیا بہو سسر کی اس قسم کی خدمت کرسکتی ہے مثلا بدن دبانا، تیل مالش ، کپڑے کی تبدیلی وغیرہ ؟
جواب : سسر کی خدمت کی ذمہ داری اس کی اولاد یعنی بیٹا اور بیٹی پر ہے تاہم احسان کے جذبہ کے تحت بہو بھی اپنے سسر کی خدمت کرسکتی ہے ۔ سسر بہو کے لئے محرم ہے اس وجہ سے اس کے پاس آجاسکتی ہے ۔ فتنہ کا خوف نہ ہو تو سسر کی ضروری خدمت مثلا مالش کرنا،بدن دباناا اور کپڑا تبدیل کرنا صحیح ہے اور فتنہ کا خوف ہے تو نہیں صحیح ہے۔
سوال (9):میں نے یہ ارادہ کی تھی کہ اگر لڑکا ہوا تو اس کا نام عبد اللہ رکھوں گی اورپہلے اولاد لڑکا ہوئی بھی لیکن بچہ اللہ کو پیارا ہوگیا یعنی اس کاانتقال ہوگیا۔ اب اللہ پاک نے پھر اولاد کی نعمت سے نوازا ہے، میں چاہتی ہوں کہ اس کا نام عبداللہ رکھو لیکن کچھ لوگ منع کررہےہیں، اس حال میں کیا جائے ؟
جواب: اصل میں لوگوں کے منع کرنے کی وجہ یہ غلط فہمی ہے کہ جس نام کا بچہ مرجائے وہی نام دوسرے بچے کا رکھنے سے اس بچے پر بھی اثر پڑتاہے، یہ سراسر جہالت اور ضعیف الاعتقادی ہے۔زندگی اور موت کا مالک اللہ رب العالمین ہے ، وہ جسے چاہتا ہے زندگی دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے موت دیتا ہے ، نام سے زندگی اور موت کا کوئی تعلق نہیں ہے ۔
آپ بلاتردد اپنے بچے کا نام عبداللہ رکھ سکتی ہیں بلکہ یہ نام رکھیں اور سماج والوں کو تعلیم دیں کہ زندگی اورموت کا مالک اکیلا اللہ ہے ، اس کے حکم کے بغیر کسی کو موت نہیں آسکتی ہے۔
سوال (۱۰):اسکین کو خوبصورت کرنے کے لئے وائٹنگ انجکشن لگائے جاتے ہیں اس کا کیا حکم ہے ؟
جواب : آج زمانہ اس قدر ترقی کرچکا ہے کہ بدصورت جسم  وچہرہ کو خوبصورت بنا دیا جاتا ہے ، لوگوں کا خصوصاعورتوں کااس جانب کافی رجحان ہوگیا ہے ، اس بارے میں  شریعت کا موقف یہ ہے کہ اگر خوبصورتی چندلمحے یا چند ایام کے لئے اختیار کی جاتی ہے مثلا مہندی یا زینت والے کریم وپاؤڈر تو اس کے استعمال میں کوئی حرج نہیں ہےکیونکہ یہ زائل ہونے والی  اور عارضی زینت کی چیز ہے لیکن اگر آپریشن یا انجکشن کے ذریعہ مستقل طور پر جسم یا جسم کے کسی عضوچہرہ یا ہاتھ وپیر کی رنگت تبدیل کردی جائےتو یہ جائز نہیں ہے خواہ چند ماہ یا چند سال کے لئے ہی کیوں نہ ہوکیونکہ یہ فطرت کی تبدیلی میں شامل ہے جس سے اللہ اور اس کے رسول نے منع فرمایا ہے ، اللہ کا فرمان ہے:
وَلَأُضِلَّنَّهُمْ وَلَأُمَنِّيَنَّهُمْ وَلَآمُرَنَّهُمْ فَلَيُبَتِّكُنَّ آذَانَ الْأَنْعَامِ وَلَآمُرَنَّهُمْ فَلَيُغَيِّرُنَّ خَلْقَ اللَّهِ ۚ وَمَن يَتَّخِذِ الشَّيْطَانَ وَلِيًّا مِّن دُونِ اللَّهِ فَقَدْ خَسِرَ خُسْرَانًا مُّبِينًا (النساء:119)
ترجمہ:اورانہیں راہ سے بہکاتا رہوں گا اور باطل امیدیں دلاتا رہوں گا اور انہیں سکھاؤں گا کہ جانوروں کے کان چیر دیں اور ان سے کہوں گا کہ اللہ تعالٰی کی بنائی ہوئی صورت کو بگاڑ دیں ، سنو! جو شخص اللہ کو چھوڑ کر شیطان کو اپنا رفیق بنائے گا وہ صریح نقصان میں ڈوبے گا ۔
سیدنا ابو حجیفہ ؓ سے روایت ہے:
لَعَنَ النبيُّ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ الوَاشِمَةَ والمُسْتَوْشِمَةَ، وآكِلَ الرِّبَا ومُوكِلَهُ، ونَهَى عن ثَمَنِ الكَلْبِ، وكَسْبِ البَغِيِّ، ولَعَنَ المُصَوِّرِينَ(صحيح البخاري:5347)
ترجمہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے گودنے والی اور گدوانے والی، سود کھانے والے اور کھلانے والے پر لعنت بھیجی اور آپ نے کتے کی قیمت اور زانیہ کی کمائی کھانے سے منع فرمایا اور تصویر بنانے والوں پر لعنت کی۔
اس حدیث میں  لفظ"الوَاشِمَةَ والمُسْتَوْشِمَةَ" وارد ہے جو وشم سے بنا ہے اور الوشم کہتے ہیں جسم گدوانے کو یعنی جسم میں سوئی چبھوکر اس کی رنگت بدل لینا ۔ یہ گودنا مستقل طورپرانجکشن سے ہو یا آپریشن سے ہو یا کسی الکٹرانک آلے سے ہو تمام اقسام ناجائز ہیں، ایسی حرکت کرنے والی اور کروانےوالی  عورتوں پر لعنت بھیجی گئی ہے لہذا مسلمان عورتوں کو اس ملعون کام سے بچنا چاہئے۔
سوال (۱۱):کیا میں بچوں کو پانی یا شہد پلانے کے لئے چاندی کا برتن استعمال کرسکتی ہوں ؟
جواب : بچے ہوں یامرد ہو یا عورت ہو کسی کے لئے سونے اور چاندی کے برتن کا استعمال جائز نہیں ہے، نبی ﷺ کا فرمان ہے:
لا تَشْرَبُوا في آنِيَةِ الذَّهَبِ والفِضَّةِ، ولَا تَلْبَسُوا الحَرِيرَ والدِّيبَاجَ، فإنَّهَا لهمْ في الدُّنْيَا ولَكُمْ في الآخِرَةِ(صحيح البخاري:5633)
ترجمہ:سونے اور چاندی کے پیالہ میں نہ پیا کرو اور نہ ریشم و دیبا پہنا کرو کیونکہ یہ چیزیں ان کے لیے دینا میں ہیں اور تمہارے لیے آخرت میں ہیں۔
اسی طرح آپ ﷺ کا فرمان ہے:
الَّذِي يَشْرَبُ في إناءِ الفِضَّةِ إنَّما يُجَرْجِرُ في بَطْنِهِ نارَ جَهَنَّمَ(صحيح البخاري:5634)
ترجمہ: جو شخص چاندی کے برتن میں کوئی چیز پیتا ہے تو وہ شخص اپنے پیٹ میں دوزخ کی آگ بھڑکا رہا ہے۔
اس قدر شدید وعید آجانے کے بعد کیا کوئی مسلمان سونے اور چاندی کے برتن میں کھانا کھا سکتا ہے؟ ہرگز نہیں بلکہ ان تمام برتنوں سے بھی بچے گا جن میں سونا یا چاندی کی ملاوٹ ہو۔
سوال (۱۲): کیا دسترخوان پر کھانا کھانا سنت ہے ؟
جواب : نبی ﷺ زمین پر بیٹھ کر اور دسترخوان پر کھانا رکھ کر کھاتے تھے ، انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
ما عَلِمْتُ النبيَّ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ أكَلَ علَى سُكْرُجَةٍ قَطُّ، ولَا خُبِزَ له مُرَقَّقٌ قَطُّ، ولَا أكَلَ علَى خِوَانٍ قَطُّ قيلَ لِقَتَادَةَ: فَعَلَامَ كَانُوا يَأْكُلُونَ؟ قالَ: علَى السُّفَرِ(صحيح البخاري:5386)
ترجمہ: میں نہیں جانتا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی تشتری رکھ کر (ایک وقت مختلف قسم کا) کھانا کھایا ہو اور نہ کبھی آپ نے پتلی روٹیاں کھائیں اور نہ کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میز پر کھایا۔ قتادہ سے پوچھا گیا کہ پھر کس چیز پر آپ کھاتے تھے؟ کہا کہ آپ دستر خوان پر کھانا کھایا کرتے تھے۔
ہمارے لئے بہتر وافضل یہی ہے کہ نبی ﷺ کی اقتدا میں زمین پر بیٹھ کرکھانا چاہیں تاہم کوئی کھانے کے لئے میز کا استعمال کرے تو اس میں بھی حرج نہیں ہے، نبی ﷺ نے تواضع کے طور پر میز پر کھانا ترک کیا تھا۔
سوال (۱۳):میری آنکھیں نیلی ہیں اور مجھے دوسری خواتین کہتی ہیں نیلی آنکھوں والی بے وفا ہوتی ہیں کیایہ صحیح ہے ؟
جواب : اس بات کی کوئی حقیقت نہیں ہے، یہ عورتوں کی جہالت وغلط فہمی  پر مبنی ہے، اللہ نے جس کو چاہا جیسے بنایا ہے ، بناوٹ کا بے وفائی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ بے وفائی برے کردار سے تعلق رکھتی ہے بناوٹ سے نہیں یعنی عورت بری ہوگی تو وہ بے وفا ہوسکتی ہے لیکن اچھی عورت بے وفا نہیں ہوسکتی چاہے بھلے  اس کی آنکھیں نیلی  ہوں.
سوال(۱۴): کیا عورت احرام کی حالت میں بچے کا ڈائپر بدل سکتی ہے اور وائپس جس میں خوشبو ہوتی ہے اس سے صفائی کر سکتی ہے ؟
جواب : ہاں ، عورت احرام کی حالت میں بچے کا ڈائپربدل سکتی ہے لیکن صفائی کے لئے خوشبوداروائپس کا استعمال نہیں کرسکتی کیونکہ محرم کے لئے خوشبوکا استعمال ممنوع ہے، وائپس میں خوشبو نہ ہو تو کوئی حرج نہیں ہے۔
سوال (۱۵): میں ایک خاتون ہوں کبھی کبھی نماز کے دوران پیٹ سے آواز آتی ہے کیا اس سے وضو ٹوٹ جاتا ہے ؟
جواب : نہیں ، پیٹ سے آواز آنے پر وضو نہیں ٹوٹتا ،نہ ہی اگلی شرمگاہ سے ہوا نکلنے پر وضو ٹوٹتا ہے بلکہ وضو عورت کی پچھلی شرمگاہ(پاخانہ کی جگہ) سے ہوا نکلنے پر ٹوٹتا ہے کیونکہ یہ نجاست کی جگہ ہے ۔ نجاست کی جگہ سےہوا نکلنے پر وضو ٹوٹنے کی حکمت یہ ہے کہ ہوا بھی نجاست کا ایک حصہ ہے ۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔