Sunday, November 24, 2019

مسجد کے لاؤداسپیکر سے میت کا اعلان کرنا


مسجد کے لاؤداسپیکر سے میت کا اعلان کرنا

تحریر:مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹرشمالی طائف مسرہ

مسجد کے لاؤڈاسپیکر سے میت کی خبردینے سے متعلق عوام میں تردد پایا جاتا ہے ، اس تردد کو دور کرنے کی غرض سے میں نے ایک حقیر سی کوشش کی ہے ،اللہ مجھے اس معاملے میں درست بات کی طرف رہنمائی فرمائے ۔ اللھم آمین
احادیث سے ایک طرف یہ معلوم ہوتا ہے کہ میت کی نعی(خبردینا ) ممنوع ہے تو دوسری طرف رسول اللہ ﷺ سے میت کی نعی(خبردینا) ثابت ہے ، چنانچہ اس قسم کی دونوں احادیث پر نظر ڈالتے ہیں ۔
حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ  بیان کرتے ہیں انہوں نے کہا :
إذا مِتُّ فلا تؤذِنوا بي أحدًا إنِّي أخافُ أن يَكونَ نعيًا إنِّي سمعتُ رسولَ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليْهِ وسلَّمَ ينْهى عنِ النَّعيِ(صحيح الترمذي:986)
ترجمہ: جب میں مرجاؤں تو میرے مرنے کا اعلان مت کرنا ، مجھے ڈر ہے کہ یہ بات "نعی" ہوگی کیونکہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو" نعی "سے منع فرماتے سنا ہے۔
یہ ایک طرف کی حدیث ہے اور دوسری طرف کی حدیث ،عربی متن کے ساتھ بنظرغائرملاحظہ فرمائیں،حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
نَعَى لنا رَسولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ النَّجاشِيَّ صاحِبَ الحَبَشَةِ، يَومَ الذي ماتَ فِيهِ(صحيح البخاري:1327)
ترجمہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حبشہ کے نجاشی کی وفات کی خبر دی ‘ اسی دن جس دن ان کا انتقال ہوا تھا۔
اسی طرح انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
أنَّ النبيَّ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ، نَعَى زَيْدًا، وجَعْفَرًا، وابْنَ رَوَاحَةَ لِلنَّاسِ، قَبْلَ أنْ يَأْتِيَهُمْ خَبَرُهُمْ(صحيح البخاري:3757)
ترجمہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی اطلاع کے پہنچنے سے پہلے زید، جعفر اور ابن رواحہ رضی اللہ عنہم کی شہادت کی خبر صحابہ کو سنا دی تھی۔
بلکہ صحیح البخاري(458) اور صحیح مسلم (956) میں مذکور ہے کہ مسجد نبوی میں جھاڑودینے والی  عورت کی وفات پرآپ ﷺکو اس کی وفات کی خبر نہ دی گئی ،بعد میں آپ کو معلوم ہوا تو آپ نے فرمایا: "أفلا كُنْتُمْ آذَنْتُمُونِي به" یعنی تم لوگوں نے مجھے کیوں نہ (اس کی وفات کی)خبر دی ؟
آپ نے دونوں قسموں کی احادیث دیکھ لیں ، اب ان کی حقیقت پرغورفرمائیں۔یہاں ان دونوں میں ایک لفظ نعی وارد ہے جس کامعنی موت کی خبردینا ہوتا ہے ۔ ایک جگہ یہ منع کے قبیل سے ہے اور دوسری جگہ جواز کے قبیل سے ۔ یہیں سے یہ نقطہ سمجھ میں آرہا ہے کہ نعی کی متعدداقسام ہیں ،ان میں سے بعض نعی منع ہے اور بعض نعی جائز ہے ۔
ممنوع نعی وہ ہے جو جاہلیت کا طریقہ تھاکہ زمانہ جاہلیت میں جب کوئی مرجاتاتو ایک آدمی کسی جانور پر سوار ہوکرگلی کوچوں میں گھوم گھوم کر اور چیخ چیخ کر اس کی موت کا اعلان اور تشہیر کرتا، نوحہ خوانی کرتا،میت کی خوبیاں اور اس کے فضائل ومناقب ذکرکرتا۔ جائز نعی فوتگی کا اعلان کرنا ہے تاکہ لوگ جنازہ میں شریک ہوسکیں ۔
لہذا جس اعلان میں میت کی تشہیرکرنا، میت کی بلند آواز سے چیخ چیخ کر گلی کوچوں میں گھوم کر خبر دینا، نوحہ خوانی کرنا،میت کی خوبیاں اور مفاخر ومناقب بیان کرناشامل ہو دراصل وہ اعلان ممنوع ہے البتہ جس اعلان سے مقصد محض میت کے جنازہ کی خبردینا ہو خواہ لاؤڈ اسپیکر سے ہی کیوں نہ ہو اس اعلان میں حرج نہیں ہے ۔
رہا مسئلہ مسجد کے لاؤڈاسپیکر سے اعلان کرنے کا تو اس میں بھی کوئی مانع چیز نظر نہیں آتی ہے جب مقصد میت کے جنازہ اور اس کی تجہیزوتکفین کی خبر دینا ہو۔مسجد میں ممنوع چیزوں کے تعلق سے اسلام نے ہمیں رہنمائی کردی ہے کہ وہاں تجارتی اور دنیاوی باتیں کرنا، شوروغل مچانا، خریدوفروخت کرنا، گم شدہ چیزوں کا اعلان کرنا ،بلند آواز سے فضول باتیں کرنا ، بلامقصد شعرگوئی کرنا، مسجد میں دوڑ کرآنا، مصلی کو تکلیف دینا، لہسن پیاز کھاکر آنا،جنبی اور حائضہ کا ٹھہرنااورمسجد کو گزرگاہ وغیرہ بنانا منع ہے، گویا مسجد میں میت کے اعلان کی ممانعت وارد نہیں ہے اس وجہ سے مسجدمیں میت کا اعلان کرنا یا مسجد کے لاؤڈاسپیکر سے میت اعلان کرنا جائز ہے۔ یہاں مزید ایک بات کی وضاحت ہوجائے کہ مسجدمیں بلاضرورت آواز بلندکرنا بھی منع ہے اور میت کی خبر کے لئے لاؤڈاسپیکر کا استعمال ضرورت کے تحت ہے اس وجہ سے اس کام میں حرج نہیں ہے۔ شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ نے اچھے آدمی کی موت کی خبر مسجدمیں دینا جائز کہا ہے اور عام آدمی کے اعلان سے روکا ہے اور شیخ صالح فوزان نے بھی مسجد میں میت کا اعلان کرنے کو جائز کہا ہے۔
اسلام نے میت کےلئے یا موت کی خبرسننے پر دعاکرنے، میت کے وارثین کی تعزیت کرنے، میت کو جلدی دفن کرنے،جنازہ کےپیچھے چلنےاور دفن بعد ثبات قدمی کی دعاکرنے کا حکم  اور اس کی ترغیب دی ہے ، یہ ساری باتیں اس پر منحصر ہیں کہ جب کسی کی وفات ہوجائے تو اس کی خبر لوگوں کو دی جائے ورنہ بستی والوں کو خبرکیسے ہوگی اور کیسے اس کے حق میں استغفار اور تدفین کا عمل انجام پائے گا؟ احادیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جنازہ میں موحدین کی کثرت میت کے حق میں مفید ہے یہ کثرت اسی وقت ہوگی جب لوگوں کو وفات کی خبر دی جائے گی ۔ ساتھ ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ آج کل ہرجگہ آبادی گھنی ہوتی ہے ، ہرکوئی  اپنے اپنے کام میں مصروف ہے ، ایک دوسرے تک بات پہنچانے کا ذریعہ  جدید آلات ہی ہیں تو پھرایسے حالات میں موت کی خبر دینے کے لئے مائیکروفون ، موبائل اور لاؤڈاسپیکر کا استعمال کرنے میں حرج نہیں ہے۔
ایک اشکال کا جواب :بعض اہل علم نے لاؤڈاسپیکر سے میت کااعلان کرنے سے منع کیا ہے اس کی وجہ یہ بتلائی جاتی ہے کہ جاہلیت کی نعی میں ایک صفت بلند آواز سے موت کی خبردینا تھا ۔ اس کا جواب یہ ہے کہ جاہلیت کی نعی میں صرف ایک یہی صفت نہیں پائی جاتی تھی، نعی کی شرح کرنے والوں نے متعدد صفات کی طرف اشارہ کیا ہے جس کو میں نے اوپر بیان کیا ہے ،اگر میت کی خبر دینے میں صرف ایک صفت یعنی  بلندآواز کا استعمال محض اس وجہ سےکیا جائے تاکہ سارے بستی والوں کو موت کی خبر ہوجائے ، میت کو دعادیں اور لوگ جناز ہ میں شریک ہوں تو اس میں بالکل کوئی قباحت نہیں ہے ۔مزید برآں جاہلیت کی بلند آواز اور یہاں لاؤڈاسپیکر کی بلند آوازمیں حد درجہ فرق ہے ، ایک بلند آواز کا مقصد میت کی تشہیر ومناقب بیان کرنا جبکہ دوسری بلند آواز کا مقصد تمام بستی والوں تک محض موت کی خبر دینا ہےتاکہ وہ جنازہ میں شریک ہوسکیں۔اوپر ایک حدیث گزری ہے جس میں مذکور ہے کہ نبی ﷺ نے زید، جعفر اور ابن رواحہ کی موت کی خبر لوگوں کو لاش آنے سے پہلے ہی دیدی تھی تاکہ لوگ کو ان کی موت کی خبر ہوجائے اور ان کے حق میں دعائے خیر کریں ، وہاں  جنازہ کی خبردینا مقصد نہیں تھا بلکہ خالص موت کی خبر دینا تھا ، جب مسلمانوں کو خالص موت کی خبر دینا جائز ہے تو جنازہ اور تدفین کی خبردینا بدرجہ اولی جائز ہے ۔
میت کے اعلان کا ایک دوسرا آبشن :آج کل عموما لوگ سوشل میڈیا سے جڑے ہوئے ہیں ، اس لئے اس عوامی میڈیا سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اگر مسجد کے کمیٹی والے موبائل پراس کام کے واسطےایک مخصوص واٹس ایپ گروپ بنالیں جس میں وفات اور اس سے متعلق خبریں نشر کرسکیں تو آواز بلند کرنے سے نعی کا جو شبہ پیدا ہوتا وہ ختم ہوجائے گااور ایک بڑا فائدہ یہ بھی ہوگا کہ  اس گروپ میں قرب وجوار کے ذمہ داران کو شامل کرکے ان لوگوں کو بھی نہایت خاموشی سے باخبر کیا جاسکتا ہے، سعودی عرب میں مساجد کے ٹرسٹیان ایسے ہی کرتے ہیں ۔

مکمل تحریر >>

Saturday, November 23, 2019

کیا ولی لڑکی کو نکاح کی عام اجازت دے سکتا ہے ؟


کیا ولی لڑکی کو نکاح کی عام اجازت دے سکتا ہے ؟

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
برائے مہربانی وضاحت سے رہنمائی کیجئے گا، جزاک اللہ خیراً
حضرت اگر  ولی زبانی لڑکی سے کہتا ہے کہ آپ اپنی مرضی سےجہاں چاہیں شادی کریں یا پھر ہمیں بتائیں تاکہ ہم  آپ کا نکاح کرائیں ۔واضح رہےکہ اس اجازت کے متعلق صرف لڑکی کو اور گھر کے چند افراد کومعلوم ہے ۔ اس کے بعد لڑکی اس اجازت کی وجہ سے دوگواہ کے سامنے اپنے سےدوسال چھوٹے عمر کے لڑکے سے نکاح کرلیتی ہے ، نکاح کے وقت لڑکی کی کہی ہوئی بات پر اعتبار کرکے نکاح خواہ نے اس کا نکاح پڑھا دیا ۔اس نکاح سے متعلق چند باتیں مندرجہ ذیل ہیں جن کا جواب مطلوب ہے ۔
1۔ نکاح ہونے کی گھر میں کسی کو خبر نہیں اور نہ  ہی گھر کا کوئی فرد اس نکاح میں شریک تھا۔
2- ولی کو نکاح ہونے کا کوئی علم نہیں اور ولی نکاح میں غیرموجود تھا۔
3- ولی نے صرف زبانی اجازت دی ، وہ بھی لڑکی کو۔
4۔ نکاح کے وقت نکاح خواں نے ولی کے بارے میں  کچھ بھی نہیں پوچھا۔
5- لڑکی کے لئے ولی کی اجازت والی بات پر نکاح پڑھا دیا گیا۔
6- اگر لڑکی نے لڑکے سے جھوٹ بول کر نکاح کیا ہو اور ولی سے اجازت نہیں ملی ہوتوگناہ کس پر ہوگا؟
7- اگر واقعی لڑکی کو ولی نے اجازت دی تھی تو کیا نکاح صحیح ہے ؟
سائل :اسد ہاشم ، سوال بذریعہ ایمیل حاصل ہوا۔
E-mail:asadhashim_19@hotmail.com
الجواب بعون اللہ الوھاب
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
امیدکہ بخیرہوں گے ۔
آپ نے ایک نکاح کے متعلق پوچھا ہے اور یہ کہاہے کہ ایک لڑکی نے کہا کہ اس کواس کے ولی نے اپنی مرضی سے جہاں چاہے نکاح کی اجازت دیدی ہے اور اس لڑکی نے ایک شادی بھی کی اس شادی میں ولی حاضر نہیں تھا، نہ ہی گھر کا کوئی فرد شامل تھا اور نہ ہی نکاح خواہ نےولی کو تلاش کیا بلکہ لڑکی کی بات  کا اعتبار کرکے نکاح پڑھا دیا۔ اس سے متعلق آپ کے چند اشکالات ہیں ، ان سب کا جواب نیچے دیا جارہا ہے ۔
1۔ گھر میں کسی کو خبر ہو یا نہ ہواور نکاح میں گھر کا کوئی فرد شامل ہویا نہ ہولیکن  ولی کو خبر ہونا اور اس کی  طرف سےصریح اجازت کا ہوناضروری ہے ، یاد رہے ولی کی اجازت ورضامندی کے بغیر نکاح باطل ہے، نبی کا فرمان ہے :لانکاح الابولی کہ بغیر ولی کے نکاح باطل ہے۔
2۔جب ولی کو نکاح کا کوئی علم نہیں اور نہ ہی وہ اس نکاح میں موجود تھا اس لئے یہ نکاح باطل ہے ، ولی کو نکاح کی خبر ہونا اوراس نکاح پر راضی ہونالازم ہے نیزنکاح میں موجود ہونا بھی لازم ہے ، اگر وہ کسی وجہ سے مجلس نکاح میں موجود نہ ہوسکے  تو وہ اپنی جانب سے کسی کو وکیل بنا سکتے ہیں تاہم ولی کونکاح کی خبر اور اس کی رضامندی ضروری ہے، اس بات کو دوسرے الفاظ میں اس طرح کہہ سکتے ہیں  کہ لڑکی کا نکاح کروانے والا ولی ہی ہوتا ہے۔
3۔ ولی نے زبانی لڑکی کو شادی کی عام اجازت دی ہےکہ وہ جہاں چاہے شادی کرلے  اوراس کے بعد لڑکی  ولی کو اطلاع کئے بغیرشادی بھی کرلے۔اس بارے میں عرض یہ ہے کہ کوئی ولی لڑکی کو اس طرح عام اجازت نہیں دے سکتا ہے کہ وہ جہاں چاہے شادی کرلے ، اس قسم کی عام اجازت کی بنیاد پر ولی کی اطلاع کے بغیر نکاح کرلینے سےنکاح ہی نہیں ہوگا ۔ ولی عام اجازت نہیں دے سکتا ، ہاں لڑکی کسی لڑکے کو پسند کرکے کہے کہ میں فلاں لڑکے سے نکاح کرنا چاہتی ہوں اور ولی اجازت دے تو یہ جائز ہے اور اس نکاح میں ولی کی حاضری بھی ضروری ہے ۔
4۔ ایسا نکاح پڑھانے والا یاتو دین سے پوری طرح ناواقف  ہے یا پھر دنیاوی منفعت کے لئے نکاح پڑھا دیاہے۔نکاح خواں کے لئے ضروری ہے کہ مجلس نکاح میں ولی ، دلہا اوردوگواہ طلب کرے ۔
5۔جس نے بھی محض لڑکی کی اجازت والی بات سن کرنکاح پڑھادیا یا جس نے نکاح کرلیاان  سب کو گناہ ملے گا، اسلام نے ہمیں نکاح کا پاکیزہ قانون دیا ہے ،اس قانون کے تحت لڑکا کوچاہئے کہ نکاح کا پیغام لڑکی کو نہیں بلکہ لڑکی کے ولی کودے ، پھر وہ ولی اپنی رضامندی سے لڑکی کا نکاح لڑکے کے دین واخلاق کی بنیاد پرکرائے ۔
6۔ اگر لڑکی نے لڑکےسے جھوٹ بول کرنکاح کرایا تو اس کا گناہ لڑکی کے ساتھ لڑکا، نکاح خواں اور دونوں گواہوں پربھی ہوگا بلکہ جو بھی اس گناہ کے کام میں شریک ہوگا سب پر ہوگا۔لڑکی کا گناہ یہ ہے کہ اس نے اپنے ولی کو دھوکہ دیا اور ولی کی بغیر نکاح کیا، لڑکا کا گناہ یہ ہے کہ اس نے نکاح کی بات لڑکی سے کی اور بغیرولی کے نکاح کرلیاجبکہ نکاح کی بات اس کے ولی سے کرنا تھااور اس کی رضامندی سے نکاح کرنا تھا، نکاح خواں کا گناہ یہ ہے کہ اس نے ولی کومجلس میں نہ حاضر کیا اور نہ ہی اس کی رضامندی معلوم کی ، اسی طرح گواہ یا دوسرے لوگوں کا گناہ یہ ہے کہ انہوں نے ایسی شادی چھپ کر کرائی جس کی اطلاع گھروالوں کو نہیں اور نہ ہی ولی کوخبرتھی۔
7۔ لڑکی کو اس کے ولی نے یہ اجازت دی ہو کہ تم جہاں چاہوں اپنی مرضی سے شادی کرلو ، ایسی اجازت کا کوئی اعتبار نہیں ہے اور اس بنیاد پر کی گئی  شادی نہیں ہوگی ۔ولی کی اجازت کا مطلب یہ ہے کہ کسی خاص لڑکے کے متعلق ولی کہے کہ ہاں فلاں لڑکے سے تم شادی کرسکتی ہو ،اس قسم کی اجازت جائز ہے اور پھر نکاح میں ولی کو بحیثیت ولی حاضر بھی ہونا پڑے گا، جس میں دوگواہ بھی ہو پھر نکاح صحیح ہوگا۔
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ
مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹرطائف
مکمل تحریر >>

Sunday, November 17, 2019

بنت حوا کے مسائل اور ان کا شرعی حل (قسط:۲۰)


بنت حوا کے مسائل اور ان کا شرعی حل (قسط:۲۰)

جوابات ازشیخ مقبول احمد سلفی
داعی اسلامک دعوۃ سنٹرشمالی طائف-مسرہ

سوال (۱):ایک عورت نے انجانے میں دس دن کا حمل ساقط کیا ہے اب اسے اس عمل پہ افسوس ہورہا ہے اور ڈر رہی ہے کہ قیامت میں بچہ مجھ سے سوال کرے گا کہ میں نے کیوں اس کا قتل کی تھی ، اس عمل کے لئے کیا کفارہ دینا ہوگا؟
جواب : حمل کا اسقاط انجانے میں نہیں ہوتا، یہ ایک سوچا سمجھا اسکیم ہے ، ایساکرنے والوں کو اللہ بہت سے ڈرنا چاہئے،کیا پتہ یہی ایک غلطی اس کی تباہی کا سبب بن جائے ۔ جس عورت نے ایسا کیا ہے اس نے گناہ کبیرہ کا ارتکاب کیا ہے ، اس پہ قتل کا گناہ تونہیں ہوگا کیونکہ روح چار ماہ بعد پھونکی جاتی ہے اس لئے اس عورت پہ دیت یا کفارہ نہیں ہے پھر بھی بڑا جرم ہونے کی وجہ سے اسے اللہ سے سچے دل سے توبہ کرنا چاہئے ، اللہ بہت معاف کرنے والا ہے اور آئندہ اس جرم سے بالکلیہ بچنا چاہئے ۔
سوال (۲):کیا ہم نفلی روزوں کی بھی قضا کریں گے اگر کسی وجہ سے توڑنا پڑجائے ؟
جواب : اگر ہم کوئی نفلی روزہ رکھیں تو اسے پورا کریں اور اس نیت سے کبھی کوئی روزہ نہیں رکھیں کہ دل کیا تو توڑ دیں گے ، اس سے عبادت آپ کی نظر میں ہلکی ہوجائے گی اور شیطان اس راستے سے آپ کو بہکانے کی کوشش کرے گا۔ ہاں اگر آپ نے نفلی روزہ رکھا اور اچانک کوئی عذر پیش آگیا اور کوئی عذر نہ بھی  ہو اچانک روزہ توڑنے کا خیال پیداہوگیا تو روزہ توڑ سکتے ہیں ، کوئی حرج نہیں ہے اور نفلی روزہ توڑ دیں تو اس کی قضا کرنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ یہ فرض روزہ نہیں ہے تاہم قضا کرلیں تو اچھی بات ہے ۔
سوال (۳):نکاح کے لئے گواہ بنانا ضروری ہے اور اگر ضروری ہے تولڑکے کی طرف سے لڑکی کے والد یا لڑکے کا باپ یا مامو گواہ بن سکتا ہے ؟
جواب : نکاح صحیح ہونے کے لئے ولی اور دوعادل گواہ ضروری ہے ورنہ نکاح نہیں ہوگا، نبی ﷺ کافرمان ہے :
لا نكاحَ إلا بوَلِيٍّ،وشاهِدَيْنِ(صحيح الجامع:7558)
ترجمہ: ولی اور دوگواہ کے بغیرنکاح  نہیں ہے ۔
اپنے سماج میں نکاح نامہ میں لکھا جاتا ہےکہ گواہی کے طورپر لڑکا کی طرف سے فلاں اور لڑکی کی طرف سے فلاں گواہ ہوگا ۔اِس کی طرف سے یا اُس کی طرف سے کہنے اورلکھنےکی ضرورت نہیں ہے ،گواہی کا مقصد اعلان نکاح اوراس کی توثیق ہے ،جو عقد نکاح منعقد کرائے اس کے ذمہ ہے کہ نکاح سے قبل لڑکی کےولی ، اس کے ہونے والے شوہراورنکاح میں گواہی کے طورپردوعادل مسلمان کو حاضر کروائے اور نکاح پڑھادے ۔لڑکی کے ولی گواہ نہیں بن سکتے البتہ لڑکے کا باپ اور دیگر کوئی بھی دوعادل مسلمان گواہ بن سکتے ہیں۔
سوال (۴):جیساکہ عموما رات میں روٹیاں بنانی ہوتی ہیں اور پھر عشاء کی نماز پڑھنی ہوتی ہے ، اس لئے اس سے متعلق میرا سوال ہے کہ اگر ناخن یا ہاتھ پر آٹا لگا رہ جائے اور ہم وضو کرکے نماز پڑھ لیں اور بعد میں وہ آٹا نظر آئے تو کیا میری نماز نہیں ہوئی ؟
جواب :ہاں آپ کی نماز ہوجائے گی کیونکہ آٹا لگنے سے وضو میں کوئی خلل نہیں ہوتا ۔ وضو میں خلل ایسی چیز سے ہوتا ہے جس کی وجہ سے پانی جلد پر نہ پہنچ سکے جبکہ ہاتھ پر آٹا لگا ہو تو وضو کرتے وقت پانی اندر سرایت کرسکتا ہے۔ ایسا ممکن ہے کہ آٹا ہاتھ میں یا اعضائے وضو میں لگ کر بالکل سوکھ گیا ہو اور آپ اچھی طرح وضو نہ کریں ، جھٹ پٹ وضو کریں تو اس صورت میں پانی  جلد میں سرایت کرنے سے رہ سکتا ہے لہذا احتیاط کی ضرورت ہے۔
سوال (۵):ولادت سے قبل آنے والا خون کس حکم میں ہے اور اس میں نماز کا کیا حکم ہے ؟
جواب : اگر ولادت سے دوتین روز قبل دردزہ اور ولادت کے آثارکے ساتھ خون آئے تو یہ نفاس کے حکم میں ہے اس وجہ سے عورت نماز وروزہ ترک کردے گی لیکن ولادت سے زیادہ دن پہلے ہو یا ولادت کی کوئی علامت نہ ہو تو یہ خون فاسد ہوگا ایسی حالت میں عورت کو نمازی جاری رکھنا ہے۔ بسااوقات حاملہ کو حیض کا بھی خون آسکتا ہے لیکن  یہ نادرہی ہوتا ہےجیساکہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ اوردیگر اہل علم نے ذکر کیا ہے۔
سوال (۶):مسجد میں اجتماعی طور پر رقیہ کرنا کیسا ہے جبکہ عورت ومرد سبھی ہوں اور بیٹھنے کا علاحدہ انتظام  بھی ہو؟
جواب :گوکہ بعض علماء نے اجتماعی رقیہ کو جائز قرار دیا ہے مگر درست بات یہ ہے کہ اجتماعی طورپر رقیہ کرنا دین میں نئی ایجاد ہے ، اس کی کوئی اصل موجود نہیں ہے ۔ یہ طریقہ دراصل کم وقت میں زیادہ مال کمانے کی غرض سے ایجاد کیا گیا ہے جیساکہ شیخ صالح فوزان نے ذکر کیا کہ اجتماعی طورپر رقیہ کرنے کی دین میں کوئی اصل نہیں ہے ،یہ بدعت ہے۔ یہ لوگ مال کے حرص میں ایسا کرتے ہیں تاکہ زیادہ لوگوں پر پھونک ماریں اور زیادہ مال کمائیں ۔
یہاں یہ بات بھی واضح رہے کہ رقیہ سنٹرکھولنا جائز نہیں ہے ، یہ دین میں ایسی گمراہی ہےجس سے سماج میں متعدد قسم کے شروفساد ظاہر ہوتے ہیں اور اجتماعی رقیہ بھی رقیہ سنٹر اور اس کی معیشت سے جڑا ہوا ہے ۔ پیسے کی ہوس میں اجتماعی رقیہ کی نئی نئی شکلیں پیدا ہورہی ہیں ،کوئی مساجد کو ڈھال بنا رہا ہے تو مائیکروفون استعمال کررہاہے ، کوئی ہوامیں تو کوئی موبائل فون میں پھونک مار رہاہے حتی کہ بعض لوگ انٹرنیٹ پہ آن لائن اجتماعی رقیہ کرتے نظر آتے ہیں ، یہ سب گمراہی اور بدعت کے راستے ہیں۔رقیہ کی جائز شکل انفرادی ہے وہ بھی بغیر سنٹر کھولےیعنی انفرادی طورپر ہر کسی کے لئے علاحدہ رقیہ کیا جائے گاحتی کہ اس پر اجرت بھی لی جاسکتی ہے تاہم اس کام کے لئے سنٹرنہیں کھول سکتے ہیں ۔
سوال (۷):اپنے محرم رشتہ داروں کو بوسہ دینے کا کیا حکم ہے ؟
جواب :مرد کا اپنی محرمات کو بوسہ لینا جائز ہے بشرطیکہ فتنے کا خوف نہ ہواور بوسہ بھی پیشانی یا سر کا ہی لیا جاسکتا ہے،رخساروں اور ہونٹوں کا نہیں تاہم باپ اپنی بیٹی یابیٹااپنی ماں کے رخسار کا بوسہ لے سکتا ہے ، حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ نے اپنی بیٹی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے رخسار کا بوسہ لیا تھا۔ جب فتنے کا خوف ہو مثلا جوانی یا خوبصورتی وغیرہ سےتو بوسہ لینا جائز نہیں بطور خاص رضاعی اور سسرالی محرمات میں ۔
سوال (۸):کیا بہو سسر کی اس قسم کی خدمت کرسکتی ہے مثلا بدن دبانا، تیل مالش ، کپڑے کی تبدیلی وغیرہ ؟
جواب : سسر کی خدمت کی ذمہ داری اس کی اولاد یعنی بیٹا اور بیٹی پر ہے تاہم احسان کے جذبہ کے تحت بہو بھی اپنے سسر کی خدمت کرسکتی ہے ۔ سسر بہو کے لئے محرم ہے اس وجہ سے اس کے پاس آجاسکتی ہے ۔ فتنہ کا خوف نہ ہو تو سسر کی ضروری خدمت مثلا مالش کرنا،بدن دباناا اور کپڑا تبدیل کرنا صحیح ہے اور فتنہ کا خوف ہے تو نہیں صحیح ہے۔
سوال (9):میں نے یہ ارادہ کی تھی کہ اگر لڑکا ہوا تو اس کا نام عبد اللہ رکھوں گی اورپہلے اولاد لڑکا ہوئی بھی لیکن بچہ اللہ کو پیارا ہوگیا یعنی اس کاانتقال ہوگیا۔ اب اللہ پاک نے پھر اولاد کی نعمت سے نوازا ہے، میں چاہتی ہوں کہ اس کا نام عبداللہ رکھو لیکن کچھ لوگ منع کررہےہیں، اس حال میں کیا جائے ؟
جواب: اصل میں لوگوں کے منع کرنے کی وجہ یہ غلط فہمی ہے کہ جس نام کا بچہ مرجائے وہی نام دوسرے بچے کا رکھنے سے اس بچے پر بھی اثر پڑتاہے، یہ سراسر جہالت اور ضعیف الاعتقادی ہے۔زندگی اور موت کا مالک اللہ رب العالمین ہے ، وہ جسے چاہتا ہے زندگی دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے موت دیتا ہے ، نام سے زندگی اور موت کا کوئی تعلق نہیں ہے ۔
آپ بلاتردد اپنے بچے کا نام عبداللہ رکھ سکتی ہیں بلکہ یہ نام رکھیں اور سماج والوں کو تعلیم دیں کہ زندگی اورموت کا مالک اکیلا اللہ ہے ، اس کے حکم کے بغیر کسی کو موت نہیں آسکتی ہے۔
سوال (۱۰):اسکین کو خوبصورت کرنے کے لئے وائٹنگ انجکشن لگائے جاتے ہیں اس کا کیا حکم ہے ؟
جواب : آج زمانہ اس قدر ترقی کرچکا ہے کہ بدصورت جسم  وچہرہ کو خوبصورت بنا دیا جاتا ہے ، لوگوں کا خصوصاعورتوں کااس جانب کافی رجحان ہوگیا ہے ، اس بارے میں  شریعت کا موقف یہ ہے کہ اگر خوبصورتی چندلمحے یا چند ایام کے لئے اختیار کی جاتی ہے مثلا مہندی یا زینت والے کریم وپاؤڈر تو اس کے استعمال میں کوئی حرج نہیں ہےکیونکہ یہ زائل ہونے والی  اور عارضی زینت کی چیز ہے لیکن اگر آپریشن یا انجکشن کے ذریعہ مستقل طور پر جسم یا جسم کے کسی عضوچہرہ یا ہاتھ وپیر کی رنگت تبدیل کردی جائےتو یہ جائز نہیں ہے خواہ چند ماہ یا چند سال کے لئے ہی کیوں نہ ہوکیونکہ یہ فطرت کی تبدیلی میں شامل ہے جس سے اللہ اور اس کے رسول نے منع فرمایا ہے ، اللہ کا فرمان ہے:
وَلَأُضِلَّنَّهُمْ وَلَأُمَنِّيَنَّهُمْ وَلَآمُرَنَّهُمْ فَلَيُبَتِّكُنَّ آذَانَ الْأَنْعَامِ وَلَآمُرَنَّهُمْ فَلَيُغَيِّرُنَّ خَلْقَ اللَّهِ ۚ وَمَن يَتَّخِذِ الشَّيْطَانَ وَلِيًّا مِّن دُونِ اللَّهِ فَقَدْ خَسِرَ خُسْرَانًا مُّبِينًا (النساء:119)
ترجمہ:اورانہیں راہ سے بہکاتا رہوں گا اور باطل امیدیں دلاتا رہوں گا اور انہیں سکھاؤں گا کہ جانوروں کے کان چیر دیں اور ان سے کہوں گا کہ اللہ تعالٰی کی بنائی ہوئی صورت کو بگاڑ دیں ، سنو! جو شخص اللہ کو چھوڑ کر شیطان کو اپنا رفیق بنائے گا وہ صریح نقصان میں ڈوبے گا ۔
سیدنا ابو حجیفہ ؓ سے روایت ہے:
لَعَنَ النبيُّ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ الوَاشِمَةَ والمُسْتَوْشِمَةَ، وآكِلَ الرِّبَا ومُوكِلَهُ، ونَهَى عن ثَمَنِ الكَلْبِ، وكَسْبِ البَغِيِّ، ولَعَنَ المُصَوِّرِينَ(صحيح البخاري:5347)
ترجمہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے گودنے والی اور گدوانے والی، سود کھانے والے اور کھلانے والے پر لعنت بھیجی اور آپ نے کتے کی قیمت اور زانیہ کی کمائی کھانے سے منع فرمایا اور تصویر بنانے والوں پر لعنت کی۔
اس حدیث میں  لفظ"الوَاشِمَةَ والمُسْتَوْشِمَةَ" وارد ہے جو وشم سے بنا ہے اور الوشم کہتے ہیں جسم گدوانے کو یعنی جسم میں سوئی چبھوکر اس کی رنگت بدل لینا ۔ یہ گودنا مستقل طورپرانجکشن سے ہو یا آپریشن سے ہو یا کسی الکٹرانک آلے سے ہو تمام اقسام ناجائز ہیں، ایسی حرکت کرنے والی اور کروانےوالی  عورتوں پر لعنت بھیجی گئی ہے لہذا مسلمان عورتوں کو اس ملعون کام سے بچنا چاہئے۔
سوال (۱۱):کیا میں بچوں کو پانی یا شہد پلانے کے لئے چاندی کا برتن استعمال کرسکتی ہوں ؟
جواب : بچے ہوں یامرد ہو یا عورت ہو کسی کے لئے سونے اور چاندی کے برتن کا استعمال جائز نہیں ہے، نبی ﷺ کا فرمان ہے:
لا تَشْرَبُوا في آنِيَةِ الذَّهَبِ والفِضَّةِ، ولَا تَلْبَسُوا الحَرِيرَ والدِّيبَاجَ، فإنَّهَا لهمْ في الدُّنْيَا ولَكُمْ في الآخِرَةِ(صحيح البخاري:5633)
ترجمہ:سونے اور چاندی کے پیالہ میں نہ پیا کرو اور نہ ریشم و دیبا پہنا کرو کیونکہ یہ چیزیں ان کے لیے دینا میں ہیں اور تمہارے لیے آخرت میں ہیں۔
اسی طرح آپ ﷺ کا فرمان ہے:
الَّذِي يَشْرَبُ في إناءِ الفِضَّةِ إنَّما يُجَرْجِرُ في بَطْنِهِ نارَ جَهَنَّمَ(صحيح البخاري:5634)
ترجمہ: جو شخص چاندی کے برتن میں کوئی چیز پیتا ہے تو وہ شخص اپنے پیٹ میں دوزخ کی آگ بھڑکا رہا ہے۔
اس قدر شدید وعید آجانے کے بعد کیا کوئی مسلمان سونے اور چاندی کے برتن میں کھانا کھا سکتا ہے؟ ہرگز نہیں بلکہ ان تمام برتنوں سے بھی بچے گا جن میں سونا یا چاندی کی ملاوٹ ہو۔
سوال (۱۲): کیا دسترخوان پر کھانا کھانا سنت ہے ؟
جواب : نبی ﷺ زمین پر بیٹھ کر اور دسترخوان پر کھانا رکھ کر کھاتے تھے ، انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
ما عَلِمْتُ النبيَّ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ أكَلَ علَى سُكْرُجَةٍ قَطُّ، ولَا خُبِزَ له مُرَقَّقٌ قَطُّ، ولَا أكَلَ علَى خِوَانٍ قَطُّ قيلَ لِقَتَادَةَ: فَعَلَامَ كَانُوا يَأْكُلُونَ؟ قالَ: علَى السُّفَرِ(صحيح البخاري:5386)
ترجمہ: میں نہیں جانتا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی تشتری رکھ کر (ایک وقت مختلف قسم کا) کھانا کھایا ہو اور نہ کبھی آپ نے پتلی روٹیاں کھائیں اور نہ کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میز پر کھایا۔ قتادہ سے پوچھا گیا کہ پھر کس چیز پر آپ کھاتے تھے؟ کہا کہ آپ دستر خوان پر کھانا کھایا کرتے تھے۔
ہمارے لئے بہتر وافضل یہی ہے کہ نبی ﷺ کی اقتدا میں زمین پر بیٹھ کرکھانا چاہیں تاہم کوئی کھانے کے لئے میز کا استعمال کرے تو اس میں بھی حرج نہیں ہے، نبی ﷺ نے تواضع کے طور پر میز پر کھانا ترک کیا تھا۔
سوال (۱۳):میری آنکھیں نیلی ہیں اور مجھے دوسری خواتین کہتی ہیں نیلی آنکھوں والی بے وفا ہوتی ہیں کیایہ صحیح ہے ؟
جواب : اس بات کی کوئی حقیقت نہیں ہے، یہ عورتوں کی جہالت وغلط فہمی  پر مبنی ہے، اللہ نے جس کو چاہا جیسے بنایا ہے ، بناوٹ کا بے وفائی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ بے وفائی برے کردار سے تعلق رکھتی ہے بناوٹ سے نہیں یعنی عورت بری ہوگی تو وہ بے وفا ہوسکتی ہے لیکن اچھی عورت بے وفا نہیں ہوسکتی چاہے بھلے  اس کی آنکھیں نیلی  ہوں.
سوال(۱۴): کیا عورت احرام کی حالت میں بچے کا ڈائپر بدل سکتی ہے اور وائپس جس میں خوشبو ہوتی ہے اس سے صفائی کر سکتی ہے ؟
جواب : ہاں ، عورت احرام کی حالت میں بچے کا ڈائپربدل سکتی ہے لیکن صفائی کے لئے خوشبوداروائپس کا استعمال نہیں کرسکتی کیونکہ محرم کے لئے خوشبوکا استعمال ممنوع ہے، وائپس میں خوشبو نہ ہو تو کوئی حرج نہیں ہے۔
سوال (۱۵): میں ایک خاتون ہوں کبھی کبھی نماز کے دوران پیٹ سے آواز آتی ہے کیا اس سے وضو ٹوٹ جاتا ہے ؟
جواب : نہیں ، پیٹ سے آواز آنے پر وضو نہیں ٹوٹتا ،نہ ہی اگلی شرمگاہ سے ہوا نکلنے پر وضو ٹوٹتا ہے بلکہ وضو عورت کی پچھلی شرمگاہ(پاخانہ کی جگہ) سے ہوا نکلنے پر ٹوٹتا ہے کیونکہ یہ نجاست کی جگہ ہے ۔ نجاست کی جگہ سےہوا نکلنے پر وضو ٹوٹنے کی حکمت یہ ہے کہ ہوا بھی نجاست کا ایک حصہ ہے ۔
مکمل تحریر >>

Wednesday, November 13, 2019

بیماری اور صدقہ وخیرات


بیماری اور صدقہ وخیرات

مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹر،طائف-سعودی عرب

بیماری اس خالق کی طرف سے ہے جس نے پوری کائنات بنائی ، زندگی اور موت پیدا فرمائی ، ہم انسان کو ایک بہترین ڈھانچے میں تمام مخلوقات سے ممتاز عقل وسمجھ دے کر بنایا۔اسی کے ہاتھ میں ہماری سانسیں ، جسم وجاں اور ہرقسم کی حرکات وسکنات ہیں ۔ وہ جب چاہتا ہے کسی کو بیمار بنادیتا ہے اور جب چاہتا ہے کسی بیمار کو شفا دیدیتا ہے اس لئے مومن کا ایمان یہ ہونا چاہئے کہ صرف وہی اکیلا بیماری دینے والا اور شفایاب کرنے والا ہےاسکے سوا سنسار میں کوئی زندگی وموت اور بیمار ی وشفا پر ذرہ برابر بھی قدرت نہیں رکھتا ہے ۔بیماری آزمائش کے طورپر اور کبھی گناہوں کے باعث آتی ہے ۔ ہم کس قدر خوش نصیب ہیں کہ خوشی وغم دونوں میں ہمارے لئے خیرکے پہلو ہیں بشرطیکہ خوشی میں شکر اور غمی میں صبرکریں۔ نبی ﷺفرماتے ہیں :
عَجَبًا لأَمْرِ المُؤْمِنِ، إنَّ أمْرَهُ كُلَّهُ خَيْرٌ، وليسَ ذاكَ لأَحَدٍ إلَّا لِلْمُؤْمِنِ، إنْ أصابَتْهُ سَرَّاءُ شَكَرَ، فَكانَ خَيْرًا له، وإنْ أصابَتْهُ ضَرَّاءُ، صَبَرَ فَكانَ خَيْرًا له(صحيح مسلم:2999)
ترجمہ: مومن کا معاملہ عجیب ہے،اس کے لئے ہرمعاملہ میں بھلائی ہے اور یہ بات مومن کے سوا کسی اور کومیسر نہیں۔اسے خوشی اور خوشحالی ملے توشکر کرتا ہے اور یہ اس کے لیے اچھا ہوتا ہے اوراگر اسے کوئی نقصان پہنچے تو(اللہ کی رضا کے لیے) صبر کر تا ہے، یہ بھی اس کے لیے بھلائی ہوتی ہے ۔
اللہ کی جانب سے نیکوکاروں کے لئے ایک بڑی خوشی یہ بھی ہے کہ بیماری کی وجہ سے اُس نیکی کے نہ کرسکنے پر بھی اجر لکھا جاتا ہے جو تندرستی میں کیا کرتا تھا، نبی ﷺ کا فرمان ہے : إذا مرضَ العبدُ ، أو سافرَكُتِبَ له مثلُ ما كان يعملُ مُقيمًا صحيحًا (صحيح البخاري:2996)
ترجمہ: جب بندہ بیمار ہوتا ہے یا سفر کرتا ہے تو اس کے لیے ان تمام عبادات کا ثواب لکھا جاتا ہے جنہیں اقامت یا صحت کے وقت یہ کیا کرتا تھا ۔
ہم میں جب کوئی بیمار ہوجائے تو مایوسی کا شکار نہ ہو، اپنے خالق ومالک پرپورا پورا بھروسہ رکھے ، بیماری کے لئے ڈاکٹر سے علاج کرائے ، اللہ سےشفایابی کی دعا بھی کرےاوراپنے گناہوں سے توبہ کرے ۔
کبھی کبھی لوگ بیمار ی کا علاج کراکر تھک جاتے ہیں، بے شمار روپئے پیسے خرچ کرلیتے ہیں پھر بھی مرض میں افاقہ نہیں ہوتاایسے میں کچھ لوگ بیحد مایوسی کا شکار ہوجاتے ہیں ،کچھ تو اللہ سے دورہی جاتے ہیں اور غیراللہ سے مدد مانگنا شروع کردیتے ہیں ۔یاد رکھئے غیراللہ سے مدد مانگنا یا بیماری اور مصیبت کے وقت غیراللہ کوپکارنا شرک اکبر ہے ، اس گناہ کی وجہ سے آدمی اسلام سے نکل جاتا ہے اور اس حا ل میں مرنے والا ہمیشہ کے لئے جہنم رسید کیا جائے گا۔
بیماری کے وقت ایک مومن کا شیوہ ہوکہ اللہ پر کامل بھروسہ رکھے، اسی سے شفا کی امید لگائے اور توبہ واستغفار کے ساتھ اپنے رب سے شفایابی کے لئے دعا مانگے ۔ بیماری طویل ہوجائے پھربھی نہ گھبرائے ،صبر وضبط سے کام لےاور یقین کرے کہ  ہمارا رب ہمارے بارے میں ہم سے بہتر جانتا اور حکمت ومصلحت سے بھرا فیصلہ کرتا ہے۔
اس مضمون میں بتانا چاہتا ہوں کہ جس طرح اللہ دعاؤں سے اور مسنون اذکار وشرعی دم کرنے سے روحانی طور پر شفا نصیب ہوتی ہے اسی طرح صدقہ وخیرا ت بھی بیماری دور کرنے کا ایک روحانی علاج ہے ۔ یوں تو اس بارے میں علماء سے مختلف قسم کے روحانی تجربات منقول ہیں مگر ہمیں رسول پاک کے فرمودات میں بہت سارے دلائل مل جاتےہیں جن کی بنیاد پر یہ بات کہہ سکتے ہیں کہ بیماری میں صدقہ کرنے سےاللہ شفا نصیب فرماتا ہے ۔اس بات کو مثال سے اس طرح سمجھیں کہ ایک شخص بلڈکینسر کے مرض میں مبتلا ہے، اس نے اپنا علاج کافی کرایا مگر مرض دور نہیں ہورہا ہے ایسے میں مریض کو اولا صبر جمیل سے کام لینا چاہئے کیونکہ مصیبت پر کرنا بھلائی ہے،اللہ کی طرف سچے دل سے انابت کرنا چاہئے اور سما ج میں موجود فقراءومساکین اور یتیم ونادار پر اپنا مال اس نیت سے صدقہ کرنا چاہئے کہ اللہ اس نیکی کے بدلے بیماری سے شفادے ۔ اس کی دلیل ایک مشہور حدیث ہے جسے شیخ البانی رحمہ اللہ نے صحیح الجامع میں حسن قرار دیا ہے ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے:
دَاوُوا مَرضاكُمْ بِالصَّدقةِ(صحيح الجامع:3358)
ترجمہ:صدقہ کے ذریعہ اپنے مریضوں کا علاج کرو۔
دل کی سختی ایک بیماری ہے اس کے روحانی علاج کے لئے رسول اللہ نے مسکین کوکھاناکھلانے اور یتیم کے سر پر ہاتھ پھیرنے کو کہا ہے۔ آپ کا فرمان ہے:إنْ أردتَ أنْ يَلينَ قلبُكَ ، فأطعِمْ المسكينَ ، وامسحْ رأسَ اليتيمِ(صحيح الجامع:1410)
ترجمہ: اگر تم اپنے دل کو نرم کرنا چاہتے ہو مسکین کو کھانا کھلاؤ اور یتیم کے سر پر ہاتھ پھیرو۔
اگر اللہ کی ناراضگی یا گناہ کی وجہ سے بیماری آئی ہے تو صدقہ کرنے سے اللہ کا غصہ ٹھنڈا ہوتا ہے اور صدقہ گناہوں کو بھی مٹا دیتا ہے، اس طرح یہ بیماری بھی دور ہوسکتی ہے۔نبی ﷺ کا فرمان ہے:
إن صَدَقَةَ السِّرِّ تُطْفِئُ غَضَبَ الرَّبِّ تباركَ و تعالى(صحيح الترغيب:888)
ترجمہ: بے شک پوشیدہ طورپر صدقہ کرنے سے اللہ کا غصہ ٹھنڈا ہوجاتا ہے۔
اور ایک دوسری حدیث میں ہے ، نبی ﷺفرماتے ہیں:
والصَّدقةُ تطفئُ الخطيئةَ كما يطفئُ النَّارَ الماءُ(صحيح ابن ماجه:3224)
ترجمہ: اور صدقہ گناہوں کو اسی طرح ختم کردیتا ہے جس طرح پانی آگ بجھا دیتا ہے۔
صدقہ ظالم سے بھی نجات دلاتا ہے چنانچہ نبی ﷺ کے فرمان کا ایک ٹکڑا ہے ۔
وآمرُكم بالصَّدقةِ؛ فإنَّ مثَلَ ذلك كمثَلِ رجلٍ أسَره العدوُّ، فأوثَقوا يدَه إلى عنُقِه، وقدَّموه لِيَضرِبوا عُنقَه، فقال: أنا أَفْديه منكم بالقليلِ والكثيرِ، ففدَى نفسَه منهم(صحيح الترمذي:2863)
ترجمہ: اور تمہیں صدقہ دینے کا حکم دیا ہے، اس کی مثال اس شخص کی ہے جسے دشمن نے قیدی بنا لیا ہے اور اس کے ہاتھ اس کے گردن سے ملا کر باندھ دیئے ہیں اور اسے لے کر چلے تاکہ اس کی گردن اڑا دیں تو اس قیدی نے کہا کہ میرے پاس تھوڑا زیادہ جو کچھ مال ہے میں تمہیں فدیہ دے کر اپنے کو چھڑا لینا چاہتا ہوں پھر انہیں فدیہ دے کر اپنے کو آزاد کرا لیا۔
یہ بھی یاد رہے کہ افضل صدقہ بیماری سے پہلے دینا ہے کیونکہ موت کا کوئی ٹھکانہ نہیں اور موت کے بعد آدمی کا مال اس کے وارثین کا ہوجاتا ہے جیساکہ ایک صحابی نے رسول سے پوچھا کہ سب سے افضل اور بڑا صدقہ کون سا ہے تو آپ نے فرمایا:
أَنْ تَصَدَّقَ وَأَنْتَ صَحِيحٌ شَحِيحٌ، تَخْشَى الفَقْرَ، وَتَأْمُلُ البَقَاءَ، وَلَا تُمْهِلَ حتَّى إذَا بَلَغَتِ الحُلْقُومَ، قُلْتَ: لِفُلَانٍ كَذَا، وَلِفُلَانٍ كَذَا، وَقَدْ كانَ لِفُلَانٍ(صحيح مسلم:1032)
ترجمہ:تو صدقہ دے اور تو تندرست ہو اور حریص ہو اور خوف کرتا ہو محتاجی کا اور امید رکھتا ہو امیری کی، وہ افضل ہے اور یہاں تک صدقہ دینے میں دیر نہ کرے کہ جب جان حلق میں آ جائے تو کہنے لگے: یہ فلانے کا ہے، یہ مال فلانے کو دو اور وہ تو خود اب فلانے کا ہو چکا یعنی تیرے مرتے ہی وارث لوگ لے لیں گے۔
اس سلسلے میں ایک سچا واقعہ بیان کرنا افادہ سے خالی نہ ہوگا،ذہبی رحمہ اللہ نے ابن شقیق سے روایت کیا ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے ابن المبارک سے ایک آدمی کے بارے میں سنا جو ان سے اپنے عارضہ کے بارے میں پوچھتے ہیں جو سات سالوں سے گھٹنے میں لاحق تھا اور مختلف قسم کا علاج کراچکا تھا اورمختلف قسم کے اطباء سے پوچھا مگر ان لوگوں کی کوئی دوا کام نہ آئی تو اس سے ابن المبارک نے کہا کہ جاؤ اور ایک ایسی جگہ کنواں کھودو جہاں لوگ پانی کے لئے محتاج ہوں ، مجھے امید ہے کہ وہاں سے چشمہ نکلے گا تو تیرے قدم سے بہنے والا خون رک جائے گا،اس آدمی نے ایسا ہی کیا اور اللہ کے حکم سے وہ ٹھیک ہوگیا۔(سير أعلام النبلاء 8/ 408)
صدقہ کرتے وقت چند باتیں یاد رکھنی چاہئے ۔
پہلی بات : اچھے مال کا صدقہ کریں جسے آپ خود اپنے لئے پسند کرتے ہوں ، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
لَن تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّىٰ تُنفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ ۚ وَمَا تُنفِقُوا مِن شَيْءٍ فَإِنَّ اللَّهَ بِهِ عَلِيمٌ(آل عمران:92)
ترجمہ: جب تک تم اپنی پسندیدہ چیز سے اللہ تعالی کی راہ میں خرچ نہ کروگے ہرگز بھلائی نہ پاؤگے اور تم جو خرچ کرواسے اللہ تعالی بخوبی جانتا ہے۔
دوسری بات: صدقہ اعلان کرکے نہیں بلکہ لوگوں سے چھپاکر کریں حتی  کہ اپنے گھروالے اور دوست واحباب کو بھی خبر نہ ہو۔ ایسے لوگ جو چھپاکر صدقہ کرتے ہیں قیامت میں اللہ کے عرش کے سایہ تلے جگہ پائیں گے ۔ نبی ﷺ فرمان ہے:
ورَجُلٌ تَصَدَّقَ بصَدَقَةٍ فأخْفاها حتَّى لا تَعْلَمَ يَمِينُهُ ما تُنْفِقُ شِمالُهُ(صحيح مسلم:1031)
ترجمہ: اور ایک ایسا آدمی جو اس طرح چھپاکرصدقہ دے کہ داہنے کو بھی خبرنہ ہو کہ بائیں ہاتھ نے کیاخرچ کیا؟
تیسری بات: آپ نیک آدمی کو صدقہ دیں ، نبی ﷺ کا فرمان ہے:
لا تصاحبْ إلا مؤمنًا ، ولا يأكلْ طعامَك إلا تقيٌّ.(صحيح أبي داود:4832)
ترجمہ:مومن کے سوا کسی کو ساتھی نہ بناؤ اور تمہارا کھانا سوائے پرہیزگار کے کوئی اور نہ کھائے۔
ایک دوسری جگہ فرمان رسول ہے:
نِعْمَ المالُ الصَّالحُ للمَرءِ الصَّالحِ(صحيح الأدب المفرد:229)
ترجمہ: اچھا مال اچھے آدمی کے لئے کیا ہی بہتر ہے۔
چوتھی بات: کسی کو صدقہ دینے کے بعد اس پر احسان نہ جتلائیں ، اللہ کا فرمان ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُبْطِلُوا صَدَقَاتِكُم بِالْمَنِّ وَالْأَذَىٰ كَالَّذِي يُنفِقُ مَالَهُ رِئَاءَ النَّاسِ وَلَا يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۖ(البقرة:264)
ترجمہ:اے ایمان والو! اپنے صدقات کو احسان جتلاکر اور ایذا پہنچاکر برباد نہ کرو ،جس طرح وہ شخص جو اپنا مال لوگوں کے دکھاوے کے لئے خرچ کرےاور نہ اللہ پر ایمان رکھے اور نہ قیامت پر۔
بعض باطل اعتقادات پر تنبیہ  :
(1)کچھ لوگ خیال کرتے ہیں کہ بیماری جنات یا گھر پر کسی موذی سایہ کی وجہ سے ہے لہذا جانور ذبح کرتے ہیں اور اس کا خون بہاتے ہیں اس اعتقاد کے ساتھ اس کی وجہ سے جنات یا موذی چیز کاشر دور ہوجائے گا اور تکلیف رفع ہوجائے گی ۔ یہ اعتقاد باطل ہے ۔
(2)اسی طرح کچھ لوگ حفظ ماتقدم کے طور پر جنات اور موذی چیز کے شر سے بچنے کے لئے گھر میں جانورپالتے ہیں یا جانور اس غرض سے ذبح کرتے ہیں ،یہ اعتقاد بھی باطل ومردود ہے ۔
(3) ایسے بھی کچھ لوگ پائے جاتے ہیں جو نئے گھر میں داخل ہوتے وقت گھر اور گھر والوں کی سلامتی کے طورپر جانور ذبح کرتے ہیں یا جنات کے شر سے نئے گھر کی حفاظت کے لئے جانور ذبح کرتے ہیں ،یہ سب بے دینی اور شرک کے قبیل سے ہیں ، ہاں اگر کوئی گھر کی نعمت ملنے پر خوشی سے لوگوں کو دعوت دیتا ہے یا جانورذبح کرتا ہے تو اس میں حرج نہیں ہے۔
اللہ ہمیں ایسی آزمائش میں نہ مبتلا کرے جس میں کامیاب نہ ہوسکیں اور ہمیں ایسی کوئی بیماری نہ دے جوہمارے لئے فتنے کا سبب بن جائے ۔
مکمل تحریر >>