Thursday, September 26, 2019

بیٹھ کر نماز پڑھنے کے احکام

بیٹھ کر نماز پڑھنے کے احکام

مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹر طائف

اللہ تعالی نے دین آسان بنایا ہے ، یہی وجہ ہے کہ اپنے بندوں کو دین پر عمل کرنے کے لئے ان کی طاقت وقدرت سے زیادہ مکلف نہیں بنایا ہے ، اللہ تعالی کافرمان ہے :  لا يكلف الله نفساً إلا وسعها(البقرة: 286)ترجمہ:اللہ تعالی کسی جان کو اس کی طاقت سے زیادہ مکلف نہیں کرتا ۔
اور اللہ کا فرمان ہے:فاتقوا الله ما استطعتم(التغابن: 16)ترجمہ: جس قدر طاقت ہے اس قدر اللہ سے ڈرو۔
اور اللہ کا فرمان ہے :يريد الله بكم اليسر ولا يريد بكم العسر(البقرة: 185)ترجمہ: اللہ کا ارادہ تمارے ساتھ آسانی کا ہے سختی کا نہیں۔
انسانوں کے لئے جسمانی حالات ہمیشہ یکساں نہیں رہتے ، موسم کی تبدیلی، حالات کے بدلاؤ اور تقدیر میں لکھی بیماری وپریشانی کے سبب اٹھنے بیٹھنے میں فرق پڑتا رہتا ہے ۔ نماز چونکہ جسمانی عبادت ہے لہذا اٹھنے بیٹھنے میں پریشانی کے سبب اس کی ادائیگی میں بھی انسانی طاقت کا اعتبار ہوگا اور جس کیفیت میں نماز کی ادائیگی کا متحمل ہوگا اس کیفیت میں نماز ادا کرے گا۔ عمران بن حصین رضی اللہ عنہما سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ مجھے بواسیر کا مرض تھا اس لئے میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز کے بارے میں دریافت کیا توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:صَلِّ قَائِمًا، فإنْ لَمْ تَسْتَطِعْ فَقَاعِدًا، فإنْ لَمْ تَسْتَطِعْ فَعَلَى جَنْبٍ.( صحيح البخاري:1117)
ترجمہ: کھڑے ہو کر نماز پڑھا کرو اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو تو بیٹھ کر اور اگر اس کی بھی نہ ہو تو پہلو کے بل لیٹ کر پڑھ لو۔
یہ حدیث ہمیں بتلاتی ہے کہ جسے نماز میں کھڑے ہونے کی استطاعت نہیں وہ بیٹھ کر نماز ادا کرے گا اور جو بیٹھ کر نماز نہیں پڑھ سکتا وہ لیٹے لیٹے پہلو پر نماز ادا کرسکتا ہے۔
میں یہاں اس مضمون میں بیٹھ کر نماز پڑھنے کا طریقہ اور اس سے متعلق چند احکام بیان کرنے والا ہوں ، اس لئے اسی مناسبت سے  مختصربات ہوگی اور پہلے دو اہم مسئلے پھر چند احکام ہوں گے ۔
پہلا اہم مسئلہ : زمین پر بیٹھ پر نماز پڑھنے کی صورت
اس مسئلے میں سب سے پہلا یہ سوال ہوگا کہ وہ کون سی حالت ہے جب نمازی زمین پر بیٹھ کر نماز ادا کرے گا ؟ تو اس کا جواب اوپرگزری حدیث میں موجود ہے کہ جب  کوئی اپنے پیروں پر کھڑے ہونےسے عاجز ومعذور ہو تو وہ زمین پر بیٹھ کر نماز ادا کرے گا ۔ اب اس بابت دوسرا سوال یہ ہے کہ زمین پر بیٹھنے ، رکوع کرنے اور سجدہ کرنے کی کیفیت کیا ہوگی ؟
زمین پر بیٹھ کر نماز پڑھنے کا طریقہ یہ ہے کہ نمازی حالت قیام میں سرین کے بل چار زانوں ہوکر بیٹھے یعنی اپنی دونوں پنڈلیوں کو رانوں کے ساتھ اکٹھی کرے ۔ یہی کیفیت رکوع اور رکوع کے بعد قیام میں ہوگی کیونکہ یہ قیام کے محل میں ہے پھر زمین پر سجدہ کرے اور دو سجدہ میں بیٹھتے وقت افتراش پر عمل کرےجس طرح قعدہ اولی میں بیٹھتے ہیں بلکہ قعدہ بھی اسی طرح کرے۔
دوسرا اہم مسئلہ :کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھنے کی صورت
کرسی پر نماز پڑھنے کی مختلف صورتیں ہیں ، یہ صورتیں مریض کی استطاعت پر منحصر ہیں ۔نماز میں قیام ، رکوع اور سجدہ یہ تینوں ارکان ہیں ۔ کرسی پر نماز پڑھنے کی ایک صورت تو یہ ہے کہ اگر مریض کھڑے ہونے سے معذور ہے مگر رکوع وسجدہ کرسکتا ہے تو قیام کے وقت کرسی پر بیٹھے ، رکوع اور سجدہ کو اپنی اصل صورت میں بجا لائے ۔ دوسری صورت یہ ہے کہ مریض قیام کی استطاعت رکھتا ہے مگر رکوع وسجود کی ادائیگی اصل صورت میں ادا نہیں کرسکتا ہے تو کھڑے ہو کر قیام کرے ، رکوع اور سجود کی جگہ کرسی کا استعمال کرے ۔ رکوع میں سر کو تھوڑا جھکائے اور سجدہ میں سر کو رکوع سے زیادہ جھکائے ۔ اس میں مزید تفاصیل ہیں جو مفصل کتابوں میں دیکھی جاسکتی ہیں ۔
صف میں کرسی رکھنے کی کیفیت :
جب نمازی شروع سے کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھے اس وقت کرسی صف کی جگہ میں ایسے رکھے کہ اس کی پشت نمازیوں کے قدموں کے برابر ہو گویا کرسی کا پچھلا حصہ نمازیوں کی ایڑی کے برابر ہولیکن اگر نمازی قیام اصلی صورت میں کرے اور رکوع وسجود کرسی پر کرے تو کرسی پیچھے کرنی ہوگی تاکہ سارے نمازیوں کی طرح قدم سے قدم ملاکر کھڑا ہوسکے ۔ یہ صورت کرسی کی وجہ سے ذرا مشکل ہے اس لئے نماز پڑھنے کے لئے ایسی جگہ کھڑے ہونے کا انتخاب کرے جہاں پیچھے نمازی کو تکلیف نہ ہو۔
زمین پر بیٹھ کر نماز پڑھنا افضل ہے یا کرسی پر؟
ایک سوال یہ کیا جاتا ہے کہ بیمار کے لئے کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھنا افضل ہے یا زمین پر بیٹھ کر؟ میرے علم کی حد تک اس مسئلے میں افضلیت کا سوال پیدا نہیں ہوتا بلکہ جواز وعدم جواز کا مسئلہ ہے ۔ اگر کوئی قیام کی طاقت نہ رکھے مگر اصلی شکل میں رکوع اور سجدہ کرنے کی طاقت رکھتا ہے تواس کے لئے رکوع وسجود کے لئے کرسی کا استعمال جائز نہیں ہے اور اسی طرح رکوع وسجود میں معذور ہے مگر قیام کرسکتا ہے تو قیام کےلئے کرسی کا استعمال جائز نہیں ہے ۔ ہمیں معلوم ہے کہ کرسی پر نماز اپنی اصلی صورت میں نہیں ہے بلکہ عدم قدرت کی وجہ سے شریعت کی جانب سے سہولت وبدیل ہے بطور خاص سجدہ جس میں سات اعضاء زمین پر ہونا چاہئے، یہ کیفیت نہیں پائی جاتی ۔ اگر کوئی کرسی پر بیٹھ کر نماز ادا کرے اورزمین پر سجدہ کی استطاعت کے باوجود اشارے سے سجدہ کرےتو یہ عمل جائز نہیں ہے ۔
امام بیٹھ کر نماز پڑھائے تو مقتدی کیسے نماز پڑھے ؟
بہتر ہے کہ مریض امامت نہ کرائے تاکہ اس مریض کو اور اس کے پیچھے دیگر نمازی کو تکلیف نہ ہوتاہم اس کی امامت میں نماز جائز ہے۔ جب کوئی امام کسی عذر کی وجہ سے بیٹھ کر نماز پڑھائے تو اس کے پیچھے نمازی بھی بیٹھ کر نماز پڑھے کیونکہ مقتدی کوامام کی متابعت کا حکم دیا گیا ہے۔نبی ﷺکا فرمان ہے : وإذا صلى قاعدًا فصلوا قعودًا أجمعون(صحيح مسلم:411)ترجمہ: اور جب امام نماز بیٹھ کر پڑھائے تو تم بھی بیٹھ کر پڑھو۔
بعض علماءمقتدی کےلئے کھڑے ہوکر نماز پڑھنے کے قائل ہیں مگر قوی موقف بیٹھ کر پڑھنا ہی جیساکہ فرمان رسول سے ظاہر ہوتا ہے البتہ مقتدی نے کھڑے ہوکر بھی نماز ادا کرلی تو اس کی نماز صحیح ہے۔
قدرت رکھتے ہوئے نفل بیٹھ کر پڑھنا اور اس کا اجر
جس کو قدرت ہے وہ فرض نماز بیٹھ کر اد ا نہیں کرسکتا ہے ، اور اگر ایسا کرے گا تو اس کی وہ نماز نہیں ہوگی لیکن قدرت رکھنے کے باوجود نفل نماز بیٹھ کر ادا کی جا سکتی ہے اوراس صورت میں کھڑے ہونے کے مقابلے میں آدھا اجر ملے گا ۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
خرج فرأى أُناسًا يصلُّونَ قعودًا فقال صلاةُ القاعدِ علَى النِّصفِ من صلاةِ القائمِ(صحيح ابن ماجه:1022)
ترجمہ:رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم گھر سے نکلے تو دیکھا کہ کچھ لوگ بیٹھ کر نماز ادا کررہے ہیں تو فرمایا بیٹھ کر نماز ادا کرنے والے کو قیام کرنے والے کی نسبت آدھا اجر ملے گا۔
اس لئے بندوں کو چاہئے کہ نوافل کھڑے ہوکر ادا کریں تاکہ پورا پورا اجر ملے ۔
بیمار اگر فرض نماز بیٹھ کر پڑھے تو کیا آدھا اجر ملے گا؟
بیمار اگر بیٹھ کر نماز پڑھے تو اسے مکمل اجر ملے گا کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : إذا مرضَ العبدُ ، أو سافرَكُتِبَ له مثلُ ما كان يعملُ مُقيمًا صحيحًا (صحيح البخاري:2996)
ترجمہ: جب بندہ بیمار ہوتا ہے یا سفر کرتا ہے تو اس کے لیے ان تمام عبادات کا ثواب لکھا جاتا ہے جنہیں اقامت یا صحت کے وقت یہ کیا کرتا تھا ۔
سجدہ سے متعلق دو سوالوں کے جواب
پہلاسوال: آج کل مساجد میں مریضوں کے لئے نماز کی ادائیگی کی خاطر کرسیاں رکھی ہوتی ہیں اوراس کے آگے تختی لگی ہوتی ہے، نمازی جب سجدہ کرتا ہے تو وہ اس تختی پرسجدہ کر لیتا ہے,اس عمل کی شرعی حثیت کیا ہے؟
جواب: شیخ صالح فوزان نے ایسی کرسی پر سجدہ کرنا ناجائز کہا ہے جس میں سجدہ کے لئے آگے تختی لگی ہو۔ ان کا استدلال ہے کہ نبی ﷺنے ایک مریض کو تکیہ پر سجدہ کرتے ہوئے دیکھا تو اسے پھینک دیا ۔ اس لئے کرسی پر نماز پڑھنے والے مریض کو چاہئے کہ اگر زمین پر سجدہ کرنے کی قدرت رکھتا ہو تو زمین پر سجدہ کرے ورنہ کرسی پر ہی رکوع کے مقابلے میں ذرا زیادہ جھک کر سجدہ کرے ۔
دوسراسوال :ایسا گدا جو نرم ملائم اور اونچا ہو اس پر نماز پڑھنا جائز ہے کہ نہیں ؟
جواب : گرمی وسردی یا دھول مٹی سے بچنے کے لئے قالین ، چٹائی اور ہلکے گدے پر نماز پڑھنا جائز ہے ۔ نبی ﷺ سے چٹائی پر نماز پڑھنااور صحابہ کرام کا اپنے دامن پر سجدہ کرنا صحیح بخاری میں مذکور ہے۔ام المومنین میمونہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:كان النبيُّ صلى الله عليه وسلم يُصَلِّي على الخُمْرَةِ (صحيح البخاري:381)
ترجمہ: رسول اللہﷺ کھجور کی چٹائی پر نماز پڑھتے تھے۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:كنا نُصلي مع النبيِّ صلى الله عليه وسلم ، فيضعُ أحدُنا طَرَفَ الثوبِ ، من شدةِ الحرِّ ، في مكان السجودِ.(صحيح البخاري:385)
ترجمہ: ہم رسول اللہﷺ کے ساتھ نماز پڑھتے تو ہم میں سے ہر آدمی گرمی سے بچنے کے لیے اپنے کپڑے کے دامن پر سجدہ کرتا۔
زیادہ اونچے اور اسفنج کے موٹے گدا سے پرہیز کرے یعنی خفیف قسم کا گدا استعمال کرے جس پر سجدہ کرنے سے پیشانی کو زمین پر استقرار ہو۔
ایک اہم انتباہ
آج کل مساجد میں بڑی تعدادمیں کرسیاں رکھی ہوتی ہیں ، لوگوں کو کرسی کے مسائل کا علم کم ہوتا ہے اور محض معمولی پریشانی میں بھی دیکھا دیکھی مکمل نماز کرسی پر ہی ادا کرتے ہیں اس لئے ائمہ مساجد لوگوں کو کرسی پرنماز پڑھنے کی کیفیت ومسائل سے آگاہ کرے اور اس سلسلے میں دوسری صف اور دائیں وبائیں نمازیوں کو تکلیف نہ ہو اس کے لئے مناسب کرسی اور مناسب جگہ متعین کرے ۔


مکمل تحریر >>

Tuesday, September 24, 2019

جماع کا طریقہ اور اس کے چند آداب ومسائل

مکمل تحریر >>

جماع کا طریقہ اور اس کے چند آداب ومسائل ہندی زبان

مکمل تحریر >>

واٹس ایپ گروپ اصول ونظریات

مکمل تحریر >>

نومولود کو دعا دینے کا مسنون طریقہ

مکمل تحریر >>

نماز میں سلام پھیرنے کے آداب واحکام

مکمل تحریر >>

نماز اوابین کے فضائل واحکام

مکمل تحریر >>

نٹورک مارکیٹنگ کا شرعی حکم

مکمل تحریر >>

منبر افادیت ومقاصد اور موجودہ صورت حال

مکمل تحریر >>

مسلمانوں کے موجودہ حالات اسباب وعلاج

مکمل تحریر >>

مسلم خواتین کے سر کے بال کے احکام

مکمل تحریر >>

محرم الحرام اور عاشوراء کا روزہ

مکمل تحریر >>

لیلۃ القدر اور اس کے مسائل

مکمل تحریر >>

کیا عورتوں کو جہاد کے اجر سے محروم کیا گیا ہے؟

مکمل تحریر >>

کیا اللہ تعالی عرفہ کے دن آسمان دنیا پر نازل ہوتا ہے؟

مکمل تحریر >>

قربانی کے چار دن

مکمل تحریر >>

قرآن سمجھنا آسان ہے

مکمل تحریر >>

فضائل مدینہ اور مسجد نبوی کی زیارت کے آداب واحکام

مکمل تحریر >>

مجموعہ فتاوی

مکمل تحریر >>

عیدالفطر اور اس کے مسائل

مکمل تحریر >>

عمرہ کرکے بال نہ کٹانا اور احرام کھول دینا

مکمل تحریر >>

عقد نکاح کا مسنون طریقہ

مکمل تحریر >>

عالم کاری اور اسلام

مکمل تحریر >>

طالبان علوم نبوت کے نام

مکمل تحریر >>

صدقۃ الفطر اور اس کے مسائل

مکمل تحریر >>

سجدہ تلاوت اور اس کے احکام ومسائل

مکمل تحریر >>

روزے کے مستحب اعمال

مکمل تحریر >>

رمضان المبارک کے فضائل ومسائل

مکمل تحریر >>

رمضان کے بعد ہماری عملی زندگی

مکمل تحریر >>

رمضان کا استقبال کیسے کریں؟

مکمل تحریر >>

راز چھپانے کے فوائد اورظاہر کرنے کے نقصانات

مکمل تحریر >>

دیوالی کی مٹھائی کا حکم

مکمل تحریر >>

قربانی کے احکام ومسائل

مکمل تحریر >>

دعوی بغیر دلیل کے باطل ہے

مکمل تحریر >>

خواتین پر شیطانی حملے اسباب وتدابیر

مکمل تحریر >>

خواتین اور شوہروں کی ناشکری

مکمل تحریر >>

ایک صالحہ خاتون کو نصیحت

مکمل تحریر >>

رویت ہلال پہ حدیث کریب کا ایک مطالعہ

مکمل تحریر >>

حج کا مختصر اور آسان طریقہ

مکمل تحریر >>

حج سے متعلق پچاس سوالواں کے جواب

مکمل تحریر >>

حج افراد کا مسون طریقہ

مکمل تحریر >>

جنازہ کے اہم مسائل واحکام اردوزبان

مکمل تحریر >>

پے ٹی ایم کیش بیک شرعی نقطہ نظر سے

مکمل تحریر >>

Monday, September 23, 2019

جنازہ کے احکام ہندی زبان

مکمل تحریر >>

جنازہ کے احکام رومن

مکمل تحریر >>

جنازہ سے متعلق متعدد سوالوں کے جواب

مکمل تحریر >>

جمعہ کے دن عورت کیسے فائدہ اٹھا سکتی ہے؟

مکمل تحریر >>

جشن عید میلاد النبی کی حقیقت

مکمل تحریر >>

ترک دعوت موجب ہلاکت ہے

مکمل تحریر >>

تراویح سے متعلق چند سوالات کے جواب

مکمل تحریر >>

پچاس سال پہلے کا قرض کس طرح چکائیں؟

مکمل تحریر >>

موجودہ زمانے کی پارٹیاں اور ان کی دینی ودنیاوی مشکلات

مکمل تحریر >>

بیوہ خاتون کی معاشی مشکلات کا حل

مکمل تحریر >>

بندوں کو سب سے زیادہ امید دلانے والی آیت

مکمل تحریر >>

بنت حوا کے مسائل اور ان کا شرعی حل

مکمل تحریر >>

بلاشبہ جھینگا مچھلی حلال ہے

مکمل تحریر >>

سوشل میڈیا کے دور میں بچوں کی تربیت کیسے کریں؟

مکمل تحریر >>

ایسے اعمال جن کا ثواب حج وعمرہ کے برابر ہے

مکمل تحریر >>

اہل بیت اور ان کا مقام ومرتبہ

مکمل تحریر >>

امسال شب قدر کیسے تلاش کریں؟

مکمل تحریر >>

روئے زمین پر اللہ کی دوضمانتیں

مکمل تحریر >>

اللہ کا خوف اور اس کے ثمرات وذرائع حصول

مکمل تحریر >>

کیا اعتکاف کی نیت کے مخصوص الفاظ ہیں؟

مکمل تحریر >>

اسم اعظم کیا ہے؟

مکمل تحریر >>

اسلام کا معاشی نظام اور جدید اقتصادی نظریات

مکمل تحریر >>

فضل الاسلام نیپالی ترجمہ

مکمل تحریر >>

منشیات کے دنیاوی اور اخروی نقصانات

مکمل تحریر >>

نبی کے فضائل سے متعلق چند باتوں کی تحقیق

مکمل تحریر >>

عرفہ کا روزہ ایک تحقیقی جائزہ

مکمل تحریر >>

روشن خیال بمعنی لا الہ الا اللہ

مکمل تحریر >>

Saturday, September 21, 2019

آپ کے مسائل اور ان کا شرعی حل (قسط-17)


آپ کے مسائل اور ان کا شرعی حل (قسط-17)

جواب ازشیخ مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹر،شمالی طائف(مسرہ) سعودی عرب

سوال(1):بواسیر میں بہنے والا خون ناقض وضو ہے ، اس سے طہارت کیسے کریں اور نماز کیسے پڑھیں؟
جواب: جسم کے کسی حصے سے خون بہنے سے وضو نہیں ٹوٹتا،شریعت نے خون بہنے کو کہیں ناقض وضو نہیں کہاہے،ہاں بواسیر میں مقعد کے داخل سے خون نکلے تو ناقض وضو ہوگا کیونکہ سبیلین سےبہنے والی چیز نکلنے پر وضو ٹوٹ جاتا ہے ۔ جہاں تک طہارت حاصل کرنے کا مسئلہ ہے تو جس جگہ خون لگا رہے اسے دھولیا جائےاور مسلسل خون آئے توہرنماز کے لئے وضو کرلے۔نماز پڑھنے میں حسب طاقت وسہولت کیفیت اخیتار کی جائے جیساکہ نبی ﷺ نے صحابی رسول کو حکم دیا تھا۔ عمران بن حصین رضی اللہ عنہما سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ مجھے بواسیر کا مرض تھا اس لئے میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز کے بارے میں دریافت کیا توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:صَلِّ قَائِمًا، فإنْ لَمْ تَسْتَطِعْ فَقَاعِدًا، فإنْ لَمْ تَسْتَطِعْ فَعَلَى جَنْبٍ.( صحيح البخاري:1117)
ترجمہ: کھڑے ہو کر نماز پڑھا کرو اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو تو بیٹھ کر اور اگر اس کی بھی نہ ہو تو پہلو کے بل لیٹ کر پڑھ لو۔
سوال(2): جس طرح رمضان میں سحری کے لئے اذان ہوتی ہے کیا دوسرے روزوں کے لئے مثلا عاشوراء ، عرفہ اور ایام بیض وغیرہ لئے سحری کی اذان دے سکتے ہیں ؟
جواب : اہل علم نے ذکر کیا ہے کہ سحری کی اذان رمضان کے ساتھ خاص نہیں ہے اس لئے ضرورت وحاجت کے وقت اذان دی جاسکتی ہے لہذا اگر کسی جگہ نفلی روزوں کے لئے سحری کی اذان دینا چاہے تو دی جاسکتی ہے ۔
سوال(3): ایک بہن اپنی کسی رشتہ دار کے آپریشن پہ روزہ رکھنا چاہتی ہے کیا ان کا یہ عمل درست ہوگا؟
جواب : یہ عمل صحیح نہیں ہے کہ کسی کا آپریشن ہورہاہو تو اس کے واسطے روزہ رکھا جائے ، ہاں ایک کام کیا جاسکتا ہے کہ وہ بہن منت مان سکتی ہے کہ اگر آپریشن کامیاب رہا تو میں اتنے روزہ رکھوں گی ۔ اس طرح کرنا درست ہوگا۔
سوال(4): آج کل مساجد میں نکاح کرنا عام ہوگیا ہے ، اس موقع پر عورتین بن سنور کر مسجدمیں آتی ہیں اور بغیر حجاب وعبایا کے پورے مسجد میں فنکشن ہال کی طرح گھومتی ہیں اس عمل کا اسلام میں کیا حکم ہے ؟
جواب : پہلی بات تو یہ ہے کہ جو لوگ مسجدمیں نکاح کرنے کو باعث فضیلت اور مسنون سمجھتے ہیں وہ غلط ہے ، ہاں یہ الگ بات ہے کہ مسجد میں نکاح جائز ہے۔ آج کل عقد نکاح میں قسم قسم کے خرافات پائے جاتے ہیں ، عورتوں کی بھی جم غفیر ہوتی ہے ایسے میں مسجدمیں نکاح کرنا مسجد کی توہین ہوسکتی ہے ۔ کتنی حائضہ عورت اور کتنے جنبی مرد وعورت مسجد میں داخل ہوجائیں گے ، شورشرابہ، لغو باتیں ، ہنسی مذاق اپنی جگہ پھر عورتوں کا برہنہ پن ظاہر کرنا اپنی جگہ ۔ چند افراد مل کرمسجد میں عقد نکاح کریں تو کوئی مضائقہ نہیں لیکن عورت ومرد کی جم غفیر کے ساتھ وہاں نکاح کاعمل انجام دینا فساد واہانت کا باعث ہوسکتا ہے۔
سوال(5): کیا حجامہ کروانے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے ؟
جواب : بدن سے آپ خود خون نکلنے یا ضرورت کے تحت نکالنے سے وضو نہیں ٹوٹتاکیونکہ شریعت نے خون نکلنا ناقض وضو نہیں قرار دیا ہے بلکہ متعدد آثار سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ بدن سے خون نکلنے پر بھی وضو نہیں دہراتے اوراسی حالت میں نماز ادا کرتے تھے جیسے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی مثال جب وہ زخمی ہوئے تھے۔بعض اہل علم نے قلیل اور کثیر مقدار میں خون کی بحث کی ہے مگر راحج یہی ہے کہ حجامہ سے بھی وضو نہیں ٹوٹتا ہے تاہم وضو کرلینا بہتر ہوگا ۔  
سوال(6): نبوت کے بعد نبی ﷺ کا ذریعہ معاش کیا تھا ، حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ کئی کئی دن تک گھر میں چولہا نہیں جلتا تھا؟
جواب : نبوت کے بعد آپ ﷺ نے نہ تو بکریاں چرائیں اور نہ ہی کوئی تجارتی مشغلہ اپنا یا بلکہ دعوت وتبلیغ اور نبوت ورسالت کے لئے پورے طور پر متفرغ ہوگئےاور اللہ تعالی نے آپ کو خدیجہ رضی اللہ عنہا کے مال سے اور مال غنیمت ومال فےسے مالدار بنادیاجیساکہ اللہ کا فرمان ہے : وَوَجَدَكَ عَائِلًا فَأَغْنَى(الضحى:8)یعنی اے نبی ہم تجھے نادار پائے توآپ کو مالدار بنا دیا۔
سوال(7): کیا مقلدو ں کے چینل کو سبسکرائب کر سکتے ہیں؟
جواب : تقلید کرنے والوں کا بیان تقلید کی طرف بلانے پر ہی مشتمل ہوگا، وہ جب بھی کوئی بات کرےگا اپنا مسئلہ امام کی طرف منسوب اقوال سے بیان کرے گاجبکہ ایک مسلمان کو قرآن وحدیث کا علم حاصل کرنا ہے تاکہ وہ اللہ اور اس کے رسول کے احکام پر ٹھیک ٹھیک عمل کر سکے ۔ یہ مقصد مقلدوں کے چینل سے پورا نہیں ہوگا بلکہ کم پڑھے لکھے اور دین سے انجان لوگ مقلدوں کی بات سے بہک سکتے ہیں اس لئے عام آدمی تو ان کے چینل کو سبسکرائب کرے ہی نا، البتہ دین کا مستحکم علم رکھنے  والےاس وجہ سے ان کا چینل سبسکرائب کریں کہ ان کی غلطیوں اور خطاؤں پر عوام کو متنبہ کرسکیں تو ٹھیک ہے ۔ قرآن وحدیث پر مشتمل بہت سارے سلفی چینلز ہیں عوام کو ان سے ہی فائدہ اٹھانا چاہئے ۔
سوال(8): نقلی زیورات پہن سکتے ہیں یا نہیں؟
جواب : بلاشبہ عورت مصنوعی زیوارت کا استعمال کرسکتی ہے خواہ کسی بھی دھات مثلا لویا، تانبا، پلاسٹک،اسٹیل، کانچ وغیرہ کے بنے ہوں حتی  کہ ان چیزوں کی انگوٹھی بھی پہن سکتی ہے اور اس میں نماز بھی ادا کرسکتی ہے ۔ لوگوں میں جو یہ خیال ہے کہ عورتیں لوہے کا استعمال نہیں کرسکتی یا سونا چاندی کے علاوہ دوسرے دھات کی انگوٹھی نہیں پہن سکتی یا لوہے کی انگوٹھی وغیرہ پہن کر نماز نہیں ہوتی ، یہ سب خیالات باطل ہیں، ان کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔
سوال(9): کتنے کلو میٹر پر اورکتنے دن تک نماز قصر کرکے پڑھ سکتے ہیں؟
جواب : اس میں شدید اختلاف ہے کہ کتنے کلومیٹر تک سفر کرنے پر قصر کریں گے ، اس کی وجہ یہ ہے کہ اس سلسلے میں مختلف قسم کے نصوص ملتے ہیں گویا یہ ایک طرح سے اجہتاد ی نوعیت کا مسئلہ بن گیاہے۔ اس مسئلہ میں مجھے جس بات پر اطمینان حاصل ہے وہ یہ کہ تقریبا اسی کلومیٹر کا سفرکرنے پر قصر کیا جائے گاکیونکہ اونٹ یا پیدل ایک رات اور ایک دن کا سفر اسی مقدار کا ہے۔لہذا جو اسی کلومیٹر یا اس سے زائد کا سفر کرے وہ قصر کرے اورچار دن تک جہاں قیام کا ارادہ کرے قصر کرے گا اور چار دن سے زیادہ قیام کا ارادہ ہو تو پھر مسافر نہیں رہ جاتا مقیم کے حکم میں ہے اس صورت میں مکمل نماز پڑھنی ہے ۔
سوال(10)ایکشن اور حرکت کے ساتھ قرآن کی تلاوت کرنا کیسا ہے ؟
جواب : قرآن کی تلاوت عبادت ہے ، جس طرح اس کا پڑھنا عبادت ہے اسی طرح اس کا غور سےسننا بھی عبادت ہے ۔ اور قرآن کی تلاوت کا مقصد محض برکت کا حصول نہیں بلکہ اصل مقصد غوروفکر کےساتھ  پڑھنا اور ہدایت حاصل کرنا ہے ۔ تلاوت محفل میں ہو تب قاری کے ساتھ سامع پر بھی دھیان سے سننا اور اس میں غورکرنا ضروری ہے ۔ ایکشن کے ساتھ تلاوت کرنے پر قاری کی اصل  توجہ ایکشن کی حسن ادائیگی پرہوگی اور سامع بھی انہیں حرکات  وایکشن میں تحسن تلاش کرے گا۔ پھر سوال یہ ہے کہ تلاوت جیسی عبادت کے لئے ایکشن کی کیوں ضرورت پڑرہی ہے اور اس ایکشن کا سرا کہاں سے جڑا ہے؟۔ جواب تلاش کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ اس کا سرا غیروں کی نقالی اور رقص سے جڑا ہوا ہے ۔ گوکہ اس کی انجام دہی چھوٹے بچےاور بچیوں کے ذریعہ ہوتی ہے مگر یہ فساد کا پیش خیمہ ہے اس وجہ سے اس کا سدباب ہونا چاہئے ۔
سوال(11): ایک شخص کسی کو گاڑی خریدکر دیتا ہے یا کسی کو دوکان کرکے دیتا ہے اس شرط کے ساتھ کہ روزانہ یا ماہانہ اتنے روپئے دینا ہےتو کیا اس طرح متعین صورت میں رقم لینا جائز ہے ؟
جواب: اس میں کوئی حرج نہیں کہ کوئی سامان خرید کر کسی کوتجارت کی غرض سے دے اور اس سے منافع لے مگر منافع لینے کا طریقہ یہ ہونا چاہئے کہ جو آمدنی ہو اس میں سے پانچ یا دس فیصد پیسہ لگانے والے کا ہو یعنی مناسب پرسینٹ پر آپس میں منافع طے ہو، ساتھ ساتھ نقصان میں بھی دونوں شریک ہوں گے۔رقم لگانے والا اگر منافع اس طرح طے کرے کہ ماہانہ بیس یا تیس ہزار مجھے ملنا چاہئے تو غلط ہے۔ یہ تو تجارت کرنے والی چیزہے اورکرائے والی چیز کا مسئلہ الگ ہے ، اگر کوئی اپنی گاڑی یا مکان کرایہ پر دے تو اس سے ماہانہ یا یومیہ کرایہ طے کرسکتا ہے۔
سوال(12):کیا میاں بیوی کے درمیاں محبت پیدا کرنے کے لئے کوئی وظیفہ یا دعا ہے ، اگر ہے تو براہ کرم مجھے بتلادیں ؟
جواب : میاں بیوی کے درمیان محبت پیدا کرنے کے ہزاروں قسم کے ڈھونگ سماج میں رائج ہیں اور باطل طریقوں سے عیارومکار عاملین عوام کا خصوصا خواتین کا پیسہ لوٹتے ہیں ۔ ڈھونگی مولوی قرآن کے نام پردھوکہ دیتا ہے،کوئی تعویذ دیتا ہے تو کوئی کھانے پینے کی چیز میں دم کرکےدیتاہے ۔ کوئی وظیفہ خاص بتلاتا ہے۔ سورہ فاتحہ ایسے پڑھو، سورہ اخلاص اس دھنگ سے پڑھو، الم نشرح کا وظیفہ اتنی بار ایسے پڑھو، رات میں روزانہ سورہ نساء کی تلاوت کرو۔ حیرت ہے دارالعلوم دیوبند کے مفتی بھی اس میدان میں پیچھے نہیں ، وہ فتو ی دیتے ہیں بسم اللہ 786 مرتبہ پڑھو، کبھی کہتے ہیں یا لطیف کا گیارہ سو گیارہ مرتبہ وظیفہ پڑھو۔
یہ سب دھوکے باز میں اور امت کو گمراہ کررہے ہیں اور باطل طریقے سے مال کھارہے ہیں۔ قرآن وحدیث میں ایسا کوئی خاص عمل یا خاص وظیفہ نہیں ہے جس کے انجام دینے سے میاں بیوی میں اچانک  محبت پیدا ہوجائے گی ۔ میاں بیوی میں محبت پیدا ہونے کے لئے اس سلسلے میں جو اسلامی تعلیمات ہیں ان کو برئے کار لانا پڑے گا۔ اسلام نے شوہر کو کچھ حقوق دئے ہیں بیوی وہ حقوق شوہر کے لئے اداکرے اور جو حقوق بیوی کے لئے ہیں وہ شوہر ادا کرے ہمیشہ آپس میں پیارومحبت قائم رہے گی اور جھگڑے لڑائی کی نوبت نہیں پیدا ہوگی ۔
سوال(13):کیا مسجد میں ہنسنا اندھیرا لاتا ہے ؟
جواب : جواب: ایسی کوئی بات نہیں ہے ،ایک حدیث بیان کی جاتی ہے جس کو دیلمی نے مسند الفردوس (3891) میں ذکر کیا ہے ۔ حدیث اس طرح ہے ۔ الضَّحِكُ في المسجدِ ظُلْمَةٌ في القبرِ۔
ترجمہ: مسجد میں ہنسنا قبر میں اندھیرے کا باعث ہے ۔
اس کو شیخ البانی نے موضوع قرار دیا ہے ۔ (السلسلة الضعيفة:3818)
مسجد میں اچھی باتیں کرنا اور ہنسنا منع نہیں ہے ، عہد رسول میں صحابہ کرام بھی نبی ﷺ کی موجودگی میں مسجد میں ہنسا کرتے تھے آپ نے منع نہیں فرمایا۔سماک بن حرب نے کہا کہ میں نے سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے کہا:
أَكُنْتَ تُجَالِسُ رَسولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عليه وسلَّمَ؟ قالَ: نَعَمْ كَثِيرًا، كانَ لا يَقُومُ مِن مُصَلَّاهُ الذي يُصَلِّي فيه الصُّبْحَ، أَوِ الغَدَاةَ، حتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ، فَإِذَا طَلَعَتِ الشَّمْسُ قَامَ، وَكَانُوا يَتَحَدَّثُونَ فَيَأْخُذُونَ في أَمْرِ الجَاهِلِيَّةِ، فَيَضْحَكُونَ وَيَتَبَسَّمُ.(صحيح مسلم:670)
ترجمہ: کیا تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھتے تھے؟ انہوں نے کہا کہ بہت، پھر کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارک تھی کہ اپنی نماز کی جگہ بیٹھے رہتے صبح کے بعد جب تک کہ آفتاب نہ نکلتا۔ پھر جب سورج نکلتا اٹھ کھڑے ہوتے اور لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھ کر ذکر کیا کرتے تھے کفر کے زمانہ کا اور ہنستے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسکراتے رہتے تھے۔
سوال(14): ہر چیز میں طاق کا استعمال کرنا سنت ہے ؟
جواب : علی رضی الله عنہ بیان کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: إنَّ اللهَ وِترٌ يحبُّ الوِترَ(صحيح الترمذي:453) کہ اللہ وتر (طاق) ہے اور وتر کو پسند کرتا ہے۔
اس حدیث کی روشنی میں اہل علم بیان کرتے ہیں کہ تمام اقوال و افعال میں طاق عدد کا خیال کرنا مسنون ہے، اس لئے کوئی طاق عدد کا خیال کرتا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے اچھی بات ہے مگر اس کو واجب خیال کرنا غلط ہے اور ہرحال میں طاق ہی برتنا اپنے نفس پر مشقت لازم کرنا ہے۔
سوال(15): کیا میراث نہ دینے والا جہنم میں جائے گا؟
جواب: مجھے صحیح حدیث میں ایسی کوئی بات نہیں ملی، ضعیف احادیث میں اس قسم کی متعدد باتیں موجود ہیں مثلا "جو اپنے وارث کی میراث سے راہ افرار اختیار کرے تو اللہ تعالیٰ روز قیامت جنت سے اس کی میراث منقطع فرما دیں گے"۔اسی طرح یہ بات کہ ساٹھ سال عبادت کرنے والےمرد یا عورت کوجب موت آتی ہے تو وہ وصیت میں نقصان پہنچانےوالے ہوتے ہیں اس وجہ سے ان دونوں کے لئے جہنم واجب ہوجاتی ہے ۔ اسی طرح ایک آدمی ستر سال خیروالا عمل کرتا ہے اور جب وصیت کرتا ہے تو ظلم کرتا ہے اور اس کا خاتمہ بالشر ہوتا اور وہ جہنم میں داخل ہوتا ہے ۔ ان ساری روایات کو شیخ البانی  نےضعیف ابن ماجہ اور ضعیف الترغیب وغیرہ میں ضعیف کہا ہے ۔
ہاں یہ بات ضرور ہے کہ حقوق العباد بہت اہم ہے اور اس بابت لوگوں کا معاملہ قیامت میں بڑا سخت ہوگا، مسلم شریف میں ہے کہ ظالم کے سر مظلوم کا گناہ کردیا جائے گا۔ جب حقوق العباد ختم کرتے کرتے ظالم کی نیکیاں ختم ہوجائیں گی تب وہ جہنم رسید ہوگا۔
مکمل تحریر >>

Wednesday, September 18, 2019

ترک دعوت موجب ہلاکت ہے


ترک دعوت موجب ہلاکت ہے

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
تحریر: مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹر، شمالی طائف(مسرہ) سعودی عرب

اسلام اللہ کا پیارا دین ہے ، یہ پیارا دین خوبصورت باتوں ، حسین تعلیمات ، پاکیزہ عقائد اور عمدہ فکروخیال پرمشتمل ہے ، دراصل اسی دین میں تمام دنیا والوں کے لئے امن وراحت اور سکون واطمینان ہے ۔ جس کو بھی زندگی کا اور جینے کا سلیقہ چاہئے وہ اسلام کے سایہ تلے آجائے پھر اللہ کی رحمت اسے ڈھانپ لے گی اور وہ خوشگوار زندگی گزار سکے گا۔
ایک سوال ذہن میں ابھر کر سامنے آتا ہے کہ جب اسلام کے دامن میں امن ہے تو پھر مسلمان آج کیوں پریشان حال ہیں؟جس کے لئے عروج وارتقا مقدر تھی وہ مظلوم قوم بن کر کیوں رہ گئی ہے ؟ہرطرف مسلمانوں کا قتل عام کیوں ہو رہا ہے ؟ آج اللہ ہم سے کیوں ناراض ہے اور وہ کیوں ہمیں آزمائش میں مبتلا کردیا ہے ؟
اس کا جواب یہ ہے کہ ہم صرف دعوی میں مسلمان رہ گئے ہیں ، عملا تعلیما ت محمدی سے کوسوں دور ہیں ۔ اللہ نے ہمیں سب سے پیارا دین دیا، ہم نے اس دین کی نہ حفاظت کی، نہ اسے صحیح سے سمجھا اور نہ دین پر صحیح سے عمل کرنے کی کوشش کی یعنی ہم نے اپنے دین کی مدد نہیں کی جس کی وجہ سے اللہ کی مدد ہم سے دور ہوگئی ۔ اللہ نے ہمیں امت محمدیہ میں سے بنایا ہے اور امت کے ہرفرد کی ذمہ کی داری ہے کہ وہ دین اسلام کا علم حاصل کرے ، اس پر عمل کرے اور دوسروں کو اس کی تبلیغ بھی کرے ، اگر تبلیغ کے راستے میں مشکلات پیش آئیں تو صبر کا دامن تھامے ۔ سورہ عصر کا خلاصہ یہی باتیں ہیں اور انہیں باتوں کو عملی جامہ پہنانے کے بعد ہم دنیا وآخرت میں نجات پانے والے ہیں ورنہ نہیں ۔ اللہ تعالی نے مسلمانوں کو دعوت کا حکم دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: وَلْتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ(آل عمران:104)
ترجمہ: تم میں سے ایک جماعت ایسی ہونی چائیے جو بھلائی کی طرف بُلائے اور نیک کاموں کا حکم کرے اور بُرے کاموں سے روکے ، اور یہی لوگ فلاح اور نجات پانے والے ہیں ۔
اور دوسری جگہ اللہ کا ارشاد گرامی ہے:ادْعُ إِلَى سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ(النحل:125)
ترجمہ: اپنے رب کی راہ کی طرف لوگوں کو حکمت اور بہترین نصیحت کے ساتھ بلائیے اور ان سے بہترین طریقے سے گفتگو کیجئے ۔
دعوت وتبلیغ حسب استطاعت اور بقدر علم ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے، رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے :
بَلِّغُوا عَنِّي ولو آيَةً، وَحَدِّثُوا عن بَنِي إِسْرَائِيلَ وَلَا حَرَجَ، وَمَن كَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا، فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ.(صحيح البخاري:3461)
ترجمہ: میرا پیغام لوگوں کو پہنچاؤ! اگرچہ ایک ہی آیت ہو اور بنی اسرائیل کے واقعات تم بیان کر سکتے ہو، ان میں کوئی حرج نہیں اور جس نے مجھ پر قصداً جھوٹ باندھا تو اسے اپنے جہنم کے ٹھکانے کے لیے تیار رہنا چاہئے۔
اللہ تعالی نے آخری نبی بھیج کر انبیاء کی آمد کا سلسلہ منقطع فرمادیا، اب قیامت تک محض آخری نبی محمد ﷺ کا پیغام ہی دنیا والوں کے لئے راہ نجات ہے۔ اس پیغام کو دنیا کے ہر فرد تک اور دنیا کے کونے کونے سے پہنچانا ہرمسلمان کا فریضہ ہے۔یہاں یہ بھی حقیقت ہے کہ لوگوں تک صحیح دعوت نہ پہنچنے کی وجہ سے اسلام اجنبی ہوتا جارہا ہے ۔ مسلمانوں کے لئے ناگفتہ بہ حالات پیدا ہوتے جارہے ہیں ۔ مجھے یہ بات کہنے میں ذرا برابر بھی تردد نہیں کہ اس امت کے اکثر افراد نے اصل دعوت کا فریضہ چھوڑ رکھا ہے جس کی وجہ سے تباہی ہماری مقدر بن گئی ہے ۔ ایسے موقع سے اللہ کی تباہی نیک وبد سب کو شامل ہوتی ہے۔ اس سلسلے میں قرآن وحدیث کے چند دلائل دیکھتے ہیں جن میں ترک دعوت پہ تباہی وبربادی کا ذکر ہے ۔ اللہ کا فرمان ہے :
لُعِنَ الَّذينَ كَفَرُوا مِنْ بَني إِسْرائيلَ عَلى لسان دَاودَ وعيسى بن مَرْيَمَ ذلكَ بِما عَصَوْا وكَانُوا يَعْتَدونَ.كَانُوا لا يَتَناهَوْنَ عَنْ مُنْكَر فَعَلُوهُ لَبِئْسَ مَا كَانُوا يَفْعَلونَ(المائدة: 78- 79)
ترجمہ: بنی اسرائیل کے کافروں پر داؤد علیہ السلام اورعیسیٰ بن مریم علیہ السلام کی زبانی لعنت کی گئی اس وجہ سے کہ وہ نافرمانیاں کرتے تھے اور حد سے آگے بڑھ جاتے تھے ۔ آپس میں ایک دوسرے کو برے کاموں سے جو وہ کرتے تھے روکتے نہ تھے جو کچھ بھی یہ کرتے تھے یقیناً وہ بہت برا تھا ۔
جو منکر سے لوگوں کو نہیں روکتے وہ لعنت کے مستحق ہوتے ہیں اور منکر والے تو عذاب سے دوچار ہوتے ہی ہیں اور بچتے وہی ہیں جو نیکی کرتے ہیں، برائی سے رکتےہیں اور لوگوں کو بھی نیکی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں ۔اللہ کا فرمان ہے:
فَلَمَّا نَسُوا مَا ذُكِّرُوا به أَنجَيْنَا الَّذينَ يَنْهَوْنَ عَن السُّوء وَأَخَذْنَا الَّذينَ ظَلَمُوا بعَذَاب بَئيس بمَا كَانُوا يَفْسُقُونَ(الأعراف:165)
ترجمہ:سو جب وہ اس کو بھول گئے جو ان کو سمجھایا جاتا تھا تو ہم نے ان لوگوں کو تو بچالیا جو اس بری عادت سے منع کیا کرتے تھے اور ان لوگوں کو جو کہ زیادتی کرتے تھے ایک سخت عذاب میں پکڑ لیا اس وجہ سے کہ وہ بے حکمی کیا کرتے تھے ۔
ایک جگہ اللہ نے صراحت سے ذکر کیا ہے کہ پہلےزمانوں میں فساد اور منکر سے روکنے والے کم تھے اورہم نے سب کو ہلاک کردیا اور ان میں سے چند اچھے لوگوں کو بچا لیا جو لوگوں کو فساد فی الارض اور شر سے منع کیاکرتے تھے چنانچہ فرمان الہی ہے :
فَلَوْلَا كَانَ مِنَ الْقُرُونِ مِن قَبْلِكُمْ أُولُو بَقِيَّةٍ يَنْهَوْنَ عَنِ الْفَسَادِ فِي الْأَرْضِ إِلَّا قَلِيلًا مِّمَّنْ أَنجَيْنَا مِنْهُمْ ۗ وَاتَّبَعَ الَّذِينَ ظَلَمُوا مَا أُتْرِفُوا فِيهِ وَكَانُوا مُجْرِمِينَ(هود:116)
ترجمہ: پس کیوں نہ تم سے پہلے زمانے کے لوگوں میں سے ایسے اہل خیر لوگ ہوئے جو زمین میں فساد پھیلانے سے روکتے، سوائے ان چند کے جنہیں ہم نے ان میں سے نجات دی تھی ظالم لوگ تو اس چیز کے پیچھے پڑ گئے جس میں انہیں آسودگی دی گئی تھی اور وہ گنہگار تھے۔
اب چند احادیث ذکر کرتا ہوں جن میں ترک دعوت پہ ہلاکت خیزی کا ذکر ہے ۔ سیدنا جریر بن عبداللہ بجلی ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو فرماتے سنا:
ما من رجلٍ يكونُ في قومٍ يعملُ فيهم بالمعاصي يقدِرون على أن يُغيِّروا عليه فلا يُغيِّروا إلَّا أصابهم اللهُ بعذابٍ من قبلِ أن يموتوا(صحيح أبي داود:4339)
ترجمہ: جو کوئی ایسی قوم میں ہو کہ ان میں اللہ کی نافرمانیاں کی جا رہی ہوں اور وہ لوگ ان کی اصلاح اور ان کے بدلنے پر قادر ہوں ، اس کے باوجود وہ ان کی اصلاح نہ کریں اور انہیں نہ بدلیں تو اللہ تعالیٰ ان سب کو ان کے مرنے سے پہلے عذاب دے گا ۔
ابوبکر صدیق رضی الله عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا:
يا أيُّها النَّاسُ إنَّكُم تَقرؤونَ هذِهِ الآيةَ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا عَلَيْكُمْ أَنْفُسَكُمْ لَا يَضُرُّكُمْ مَنْ ضَلَّ إِذَا اهْتَدَيْتُمْ ، وإنِّي سَمِعْتُ رسولَ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ علَيهِ وسلَّمَ يَقولُ: إنَّ النَّاسَ إذا رأوا ظالمًا، فلم يأخُذوا على يَديهِ أوشَكَ أن يعُمَّهُمُ اللَّهُ بعِقابٍ منهُ(صحيح الترمذي:3057)
ترجمہ:: اے لوگو! تم یہ آیت پڑھتے ہو {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا عَلَيْكُمْ أَنْفُسَكُمْ لا يَضُرُّكُمْ مَنْ ضَلَّ إِذَا اهْتَدَيْتُمْ} اور میں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کو یہ کہتے ہوئے سنا بھی ہے کہ جب لوگ ظالم کو (ظلم کرتے ہوئے) دیکھیں پھر بھی اس کے ہاتھ پکڑ نہ لیں (اسے ظلم کرنے سے روک نہ دیں) تو قریب ہے کہ ان پر اللہ کی طرف سے عمومی عذاب آ جائے (اور وہ ان سب کو اپنی گرفت میں لے لے) ۔
حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:
والَّذي نَفسي بيدِهِ لتأمُرُنَّ بالمعروفِ ولتَنهوُنَّ عنِ المنكرِ أو ليوشِكَنَّ اللَّهُ أن يبعثَ عليكُم عقابًا منهُ ثمَّ تَدعونَهُ فلا يَستجيبُ لَكُم(صحيح الترمذي:2169)
ترجمہ:اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! تم بھلائی کا حکم دو اوربرائی سے روکو، ورنہ قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ تم پر اپنا عذاب بھیج دے پھر تم اللہ سے دعا کرواورتمہاری دعاء قبول نہ کی جائے۔
حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:
مَثَلُ القائِمِ علَى حُدُودِ اللَّهِ والواقِعِ فيها، كَمَثَلِ قَوْمٍ اسْتَهَمُوا علَى سَفِينَةٍ، فأصابَ بَعْضُهُمْ أعْلاها وبَعْضُهُمْ أسْفَلَها، فَكانَ الَّذِينَ في أسْفَلِها إذا اسْتَقَوْا مِنَ الماءِ مَرُّوا علَى مَن فَوْقَهُمْ، فقالوا: لو أنَّا خَرَقْنا في نَصِيبِنا خَرْقًا ولَمْ نُؤْذِ مَن فَوْقَنا، فإنْ يَتْرُكُوهُمْ وما أرادُوا هَلَكُوا جَمِيعًا، وإنْ أخَذُوا علَى أيْدِيهِمْ نَجَوْا، ونَجَوْا جَمِيعًا.(صحيح البخاري:2493)
ترجمہ: اللہ کی حدود پر قائم رہنے والےاور اس میں گھس جانے والے(یعنی خلاف کرنے والے)کی مثالایسے لوگوں کی سی ہے جنھوں نے ایک کشتی کے ذریعہ قرعہ تقسیم کرلیا۔ بعض لوگوں کے حصے میں اوپر والا طبقہ آیا جبکہ کچھ لوگوں نے نچلا حصہ لے لیا۔ اب نچلے حصے والوں کو جب پانی کی ضرورت ہوتی تو وہ اوپر والوں کے پاس سے گزرتے۔ انھوں نے خیال کیا کہ اگر ہم اپنے نچلے حصے ہی میں سوراخ کرلیں تواچھا ہوگا۔ اس طریقے سے ہم اوپر والوں کے لیے اذیت کاباعث نہیں ہوں گے۔ اب اگر اوپر والے نیچے والون کو ان کے ارادے کے مطابق چھوڑ دیں تو سب ہلاک ہوجائیں گے اوراگر وہ ان کا ہاتھ پکڑ لیں تو وہ بھی بچ جائیں گے اور دوسرے بھی محفوظ رہیں گے۔
ان آیات واحادیث سے جو بات صاف صاف سمجھ میں آرہی ہے وہ یہ ہے کہ اکثرمسلمانوں نے دعوتی فریضہ چھوڑ رکھا ہے جس کے نتیجے آج وہ قسم قسم کے دنیاوی عذاب میں مبتلا ہیں ، دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ دعوت دینے والوں کی بھی کچھ کمی نہیں ہے ، بڑے پیمانے پر اور بڑے بڑے اجلاس منعقد ہورہے ہیں ، بسا اوقات ایک ایک پروگرام کی فہرست میں سو سو مقررین ومقالہ نگار کے اسمائے گرامی ہوتے ہیں ، ان افراد کی کوششوں میں صرف ایک ایک فائدہ تلاش کیا جائے تو سماج کے لئے اس پروگرام سے سو فائدے بنتے ہیں مگر حقیقت میں سماج کو ان جیسے پروگراموں سے آج کوئی فائدہ ہوتا نظر نہیں آرہا ہے ۔ دنیا کی ان ساری دعوتوں کو دیکھتے ہوئے ہمیں لگتا ہے کہ دعوت کا کام نہیں ہورہاہے یا اگر کچھ دعوتی کام ہورہا ہے تو اس میں بہت ساری خامیاں پیدا ہوگئی ہیں۔ آئیے ڈھونڈتے ہیں کمیاں کہاں ہیں ؟
٭ ایک بڑی خامیاں تو یہ ہے کہ مسلمانو ں کی ایک بڑی تعداد جامعات ومدارس سے فارغ ہوتی ہے اور کثیر تعداد میں دین کا علم رکھنے والے علم حاصل کرنے کے بعد دوسرا میدان اختیار کرلیتے ہیں اور سرے سے تبلیغ ہی نہیں کرتے ۔
٭ دوسری خامی یہ ہے کہ جب اہل علم نے دین کی تبلیغ میں کوتاہی کی، لوگوں تک دین پہنچانے میں سستی سے کام لیا تو ان کی جگہ جاہلوں نے لے لی، یہی وجہ ہے کہ آج کم علم والے مفتی و عالم بنے امت کو گمراہی کی طرف لے جارہے ہیں ۔
٭ جو لوگ فرقہ پرستی کی دعوت دے رہے ہیں وہ لوگوں سے حق چھپاتے ہیں او ر باطل کی دعوت دیتے ہیں ، میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ دین کے نصوص کو توڑمروڑ کر اپنے مسلک پر منطبق کرتے ہیں اور لوگوں سے حق چھپاکر اپنے خود ساختہ اقوال کی طرف بلاتے ہیں۔
٭ ایک خامی تو یہ ہے کہ امت کے پڑھے لکھے افراد دعوت میں اصل چیز کی دعوت سے کنارہ کشی اختیار کررہے ہیں ،انبیاء کی اصل دعوت "توحید " کی نشر واشاعت اور "شرک" کی بیخ کنی تھی جس سے آج کے اکثر علماء کترارہے ہیں الا ماشاء اللہ۔
٭ آج علم تجارت بن گیا، وقت اور عالم کے قدر کے حساب سے تقریر کا پیسہ متعین کیا جاتا ہے ،ایسے میں دعوت کہاں ہوگی ، وہ توتجارت بن گئی اور جب دعوت تجارت بن جائے تو امت کو کیا خود کو بھی فائدہ نہیں پہنچ سکتا۔
٭ دعوت کا دائر ہ بالکل محدود ہوکر رہ گیا ہے، دین تو مسلمانوں کے پاس ہے ہی ، علماء کے لئے تبلیغ کا اصل میدان غیروں پر اسلام پیش کرنا ہے مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس میدان میں عصری تعلیم یافتہ کچھ ڈاکٹروانجینئر تو کام کررہے ہیں مگر انبیاء کے اصل وارثین نظر نہیں آتے ۔
٭ دعوت کا دائرہ اس معنی میں بھی تنگ ہوگیا ہے کہ مسلمان مختلف ٹولیوں میں بٹے ہوئے ہیں، ہر فرقہ والا صرف اپنے دائرے میں دعوت دے کر مگن ہے اور سمجھ رہا ہے کہ ہم دعوت کا بڑا کام کررہے ہیں جبکہ نہ ہی غیرمسلموں تک پہنچ رہےہیں اور نہ ہی اپنے سوا دوسرے مسلمانوں کے پاس جاپاتے ہیں ۔
٭ جو چند دعاۃ پائے جاتے ہیں ،ان میں اکثر اپنے نفس کی دعوت سے بالکل غافل ہیں ، سمجھتے ہیں کہ قرآن وحدیث کو دوسروں پر پیش کردینا ہی دعوت ہے، ہمارے لئے ان باتوں کا عمل میں لانا کوئی ضروری نہیں ہے۔ یہ بات خود سے کہتے نہیں ہیں مگر عملا ایسا ہی ظاہر ہوتا ہے ۔ ایسے دعاۃ کی تقریر میں اثر کہاں سے پیدا ہوگا؟۔
٭ دعوت میں ایک پہلو امر کا ہے اور دوسرا پہلو نہی کا یعنی جس طرح ہم پر بھلی باتوں کا حکم دینا واجب ہے اسی طرح بری باتوں سے روکنا بھی واجب ہے ۔ آج اچھی اچھی باتوں کی بڑی تبلیغ ہوتی ہے مگر منکرات پہ کوئی کسی کو ٹوکنے والا نہیں ہے۔
٭ بعض دعاۃ نافرمانوں کو تبلیغ نہیں کرتے، یہ سوچتے ہیں کہ تبلیغ سے ان کو کیا فائدہ ہوگا ، یہ بڑی بھول ہےجس کا ارتکاب پہلے بنی اسرائیل بھی کرچکی ہے۔ برائی کرنے والوں کو جب صالحین نصیحت کرتے تو کچھ لوگ کہتے کہ ان پر عذاب تو آنا ہی انہیں نصیحت کرکے کیا فائدہ ؟
ان باتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ دعوت ہم مسلمانوں کا اہم فریضہ ہے، اس کی ادائیگی میں امانتداری کا ثبوت دیں ، دین کی اتنی ہی دعوت دیں جتنی معلومات یقین وبرہان کے ساتھ ہےنیز دعوت کے میدان میں صادر ہونے والی مذکورہ بالا خامیاں اپنے درمیان سے دور کریں تبھی ہماری دعوت کامیاب اور ہمارا یہ عمل نجات کا باعث بن سکتا ہے ۔ اللہ تعالی ہم سب کو اخلاص وللہیت کے ساتھ دعوت دینے کی توفیق دے ۔ آمین


مکمل تحریر >>

آپ کے مسائل اور ان کا شرعی حل (قسط-16)


آپ کے مسائل اور ان کا شرعی حل (قسط-16)
____________________
جوابات ازشیخ مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹر طائف

سوال (1): ایک بہن کے بنک کے اکاؤنٹ میں 2018 سے اب تک 4, 5 لاکھ روپے ہیں جو کبھی زیادہ ہو جاتے ہیں اور کبھی کم، کیا ان پیسوں پر زکوة ہے اور زکوة کا حساب کیسے لگائیں گی؟
جواب : ہاں ، ان پیسوں پر زکوۃ ہے بلکہ بہن نے زکوۃ کی ادائیگی میں تاخیر کی ہے اس کے لئے اللہ سے توبہ کرے اور زکوۃ کے لئے اندازہ لگائے کہ کتنے پیسوں پر ایک سال، دوسال، تین سال، چال سال اور پانچ سال گزرا ہے۔یہ کام مشکل ہے مگر بنک والوں سے تفصیل لیکر آسانی ہوسکتی ہے ۔ جن پیسوں پر جتنا سال گزارا ہوگاان پیسوں میں اتنے سال کی زکوۃ دینی ہوگی ۔ مثلا ایک لاکھ پر پانچ سال گزرے ہیں تو اس کی زکوۃ پانچ سال کی اور اگر ایک لاکھ پہ ایک سال گزرا ہے تو ایک لاکھ پہ ایک سال کی زکوۃ ہوگی ، اس طرح سے ۔

سوال (2): 6 تولہ سونا اور 10 لاکھ روپے ہیں ان میں زکوۃ کیسے نکالی جائے گی؟
جواب : 6 تولہ سونا میں اصلا زکوۃ نہیں ہے لیکن چونکہ نقد رقم بھی ہے اور نقد سونا کے ساتھ مل کر ایک ہی چیز کے قائم مقام ہوجائے گی ۔ اس طرح 10 لاکھ اور 6 تولہ سونا کی قیمت جوڑ کر اس میں سے ڈھائی فیصد زکوۃ دینی ہوگی بشرطیکہ ایک سال گزر گیا ہو۔ اس کومثال سے یوں سمجھیں کہ مثلا 6 تولہ سونا کی قیمت اس وقت بازار میں دو لاکھ ہے تو دس میں دو اور جوڑکر بارہ لاکھ کی زکوۃ دینی ہوگی اور بارہ لاکھ میں ڈھائی فیصد تیس ہزار روپئے بنتے ہیں ۔

سوال (3): آپ صلی ‌الله ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ’’جب ’’فرق‘‘ (سورطل) نشہ آور ہو تو اس کا چلو بھر پینا بھی حرام ہے ۔‘‘ (حسن، رواہ احمد و الترمذی و ابوداؤد ۔ ) مندرجہ بالا حدیث میں کس چیز کے بارے میں کہا گیا ہے کہ جب نشہ آور ہو تو نہیں پینا چاہئے؟
جواب : سوال میں مذکور حدیث صحیح ہے اور ابوداؤد(3687)، ترمذی(1866) اور مسند احمد(24992) میں موجود ہے۔ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:كلُّ مسكرٍ حرامٌ ، ما أسكرَ الفرَقُ منهُ فَمِلْءُ الكفِّ منهُ حرامٌ(صحيح الترمذي:1866)
ترجمہ: ہر نشہ آور چیز حرام ہے اور جو چیز فرق بھر نشہ لاتی ہے اس کا ایک چلو بھی حرام ہے۔
اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ ہرنشہ والی چیز حرام ہے یعنی اگر کوئی نشہ آورچیز زیادہ پینے سے نشہ لائے تو اس کا کم پینا بھی حرام ہے ۔ اسی معنی کی ایک دوسری حدیث پڑھنے سے بات مزید واضح ہوجائے گی ۔جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ما أسكرَ كثيرُهُ ، فقليلُهُ حرامٌ( صحيح أبي داود:3681)
ترجمہ:جس چیز کی زیادہ مقدار نشہ آور ہو اس کی تھوڑی مقدار بھی حرام ہے۔
نوٹ : پہلی حدیث میں مذکور "فرق" سے مراد پیمانہ ہے جو (16) رطل کے برابرہوتا ہے اور فرق میں راء کو سکون دینے سے 120 رطل ہوتا ہے۔

سوال (4): کیا شیعہ کو زکوۃ دے سکتے ہیں؟
جواب : زکوۃ صرف مسلمانوں کا حق ہے ، اس لئے شیعہ کو زکوۃ نہیں دے سکتے ہیں ۔

سوال (5): امام تراویح پڑھا رہا ہو كيا دیر سے آنے والا شخص اس امام کے پیچھے عشاء کی نماز کی نیت سے نماز پڑھ سکتا ہے اور جب امام سلام پھیرے تو یہ شخص اپنی نماز مکمل کرلے؟
جواب : ہاں ، جب کوئی تاخیر سے آئے اس حال میں کہ امام تراویح کی نماز پڑھا رہاہے تو وہ امام کے ساتھ عشاء کی نماز کی نیت سے شامل ہوجائے گا اور جب امام سلام پھیردے تو بقیہ رکعات پوری کرلے ۔

سوال (6): افطار کے وقت روزہ دار کی دعا قبول ہوتے ہے، جس نے روزہ نہیں رکھا اگر وہ افطار کے وقت دعا مانگے تو کیا اس کی دعا بھی قبول ہوگی؟
جواب : اس سلسلے میں جو احادیث وارد ہیں ان میں غور کرنے سے جواب واضح ہوجاتا ہے ۔ ابوامامہؓ سے روایت ہے کہ کہ نبی ﷺ فرماتے ہیں :
"للہ عند کل فطرعتقاء " (رواہ احمد وقال الالبانی ؒ : حسن صحیح )
ترجمہ : اللہ تعالی ہرافطار کے وقت (روزہ داروں کوجہنم سے ) آزادی دیتاہے ۔
ترمذی اور ابن ماجہ کی ایک روایت جسے علامہ البانی ؒ نے حسن قرار دیاہے اس میں مذکور ہے کہ ہررات اللہ تعالی اپنے بندوں کو جہنم سے آزادی دیتا ہے ۔
روایت اس طرح ہے : إنَّ للَّهِ عندَ كلِّ فِطرٍ عتقاءَ وذلِك في كلِّ ليلةٍ ( صحيح ابن ماجه:1340)
ترجمہ: اللہ تعالی ہرافطار کے وقت (روزہ داروں کوجہنم سے ) آزادی دیتاہے، یہ آزادی ہررات ملتی ہے۔
ان احادیث میں جس بات کی فضیلت ہے وہ یہ ہے کہ افطار کے وقت یعنی جب روزہ دار افطار کرے اس وقت اللہ اپنے روزہ داربندوں کوجہنم سے آزاد کرتا ہے یعنی یہ فضلیت روزہ دار سے متعلق ہے۔

سوال (7): اسلام میں اکیلے سفر کرنے کی اجازت کہاں تک ہے؟میں بیرون ملک اپنے شوہر کے ساتھ رہتی ہوں، اور میرے ماں باپ پاکستان ہیں۔ اگر میں پاکستان آنا چاہوں تو کیا شوہر کے بغیر آ سکتی ہوں؟ اگر شوہر مجھے وہاں ائیر پورٹ پر چھوڑ کر یہاں سے پاکستان میرا کوئی محرم مجھے لینے آ جائے تو کیا یہ صحیح ہو گا؟
جواب : اسلام میں عورت کو اکیلے یعنی بغیر محرم کے سفر کرنے کی اجازت نہیں ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ کا فرمان عام ہے :
لا تسافر المرأة إلا مع ذي محرم(صحيح البخاري:1862)
ترجمہ: کوئی عورت بغیر محرم کے سفر نہ کرے ۔
یہ فرمان ہرسفر کو شامل ہے خواہ ٹرین وجہاز کا سفر ہو یا سوار وپیدل ۔ جہاں تک شیخ ابن جبرین کا فتوی ہےکہ عذر کے تحت عورت بغیر محرم کے جہاز سے سفر کرسکتی ہے ،وہ اس طرح کہ کوئی محرم ایک ایرپورٹ پر سوار کردے اور دوسرے ایرپورٹ پر دوسرا محرم رسیو کرلے ۔یہ فتوی محل نظر اور سنت کے مخالف ہے۔ جہاز میں بھی مسائل پیدا ہوتے ہیں ، کبھی کبھی جہاز کو دوسری جگہ لینڈنگ کرنا پڑتا ہے اس صورت میں عورت کے لئے کس قدر پریشانی اور غیرشرعی باتوں کا سامنا ہوسکتا ہے۔عورت کے لئے سفر میں محرم کی قید بہت ساری حکمتوں کو لئے ہوئے ہے۔

سوال (8): گھر میں کام کرنے والے ملازموں کو زکوة دی جا سکتی ہے؟
جواب : ملازم کو اس کے کام کے بدلے تنخواہ دینی ہوگی اور وہ زکوۃ کا مستحق ہے تو الگ سے زکوۃبھی دے سکتے ہیں مگر تنخواہ کی جگہ زکوۃ نہیں دے سکتے ہیں ۔

سوال (9): کیا کسی چیز کو چکھنے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے؟ جیسے ہنڈیا میں نمک وغیرہ چکھنا؟
جواب : چکھنے کا مطلب ہے کہ ذائقہ دار چیز زبان پر رکھ کر چکھ کر پھینک دینا ، اس کام کی روزہ کی حالت میں اجازت ہے اگر اس کی ضرورت پڑے ، بلاضرورت اس سے بچنا ہے۔

سوال (10): کیا سجدے کے علاوہ رکوع میں بھی دعا کر سکتے ہیں؟
جواب : رکوع میں دعا نہیں کرنی ہے ، صرف تسبیحات پڑھنی ہے ۔

سوال (11): کیا خریداری کرتے وقت دکاندار سے چیز کی قیمت کم کرنے کا کہہ سکتے ہیں؟
جواب : بالکل کہہ سکتے ہیں، اس میں کوئی حرج کی بات نہیں ہے ۔

سوال (12): حج پر جانے کی نیت سے بنک میں پیسے جمع کر رہے ہیں اور ہر سال اس پر زکوة بھی دیتے رہے ہیں، اس سال وہ پیسے حج پر جانے کے لیے استعمال کر لیے جائیں گے کیا ان پیسوں کی اب اس رمضان میں زکوة دیں؟
جواب : اگر حج پر جاتے وقت پیسوں پر سال گزرگیا ہے تو زکوۃ دینی ہوگی ورنہ زکوۃ نہیں ہے۔

سوال (13): دال کی کئی اقسام کو مکس کر کے ڈھائی کلو کا ایک پیک بنا کر اور چنا کی اقسام کو مکس کرکے فطرانہ دیا جا سکتا ہے؟
جواب : نہیں ، فطرانہ میں ایک شخص کی طرف سے ایک جنس سے اناج دینا ہے ۔

سوال (14): مسجد میں داخل ہونے کے بعد پھر کسی کام سے باہر نکل گئے تو واپس آکر پھر تحیة المسجد ادا کرنے ہوں گے؟
جواب : مسجد میں داخل ہوکر کھڑے کھڑے ہی واپس ہوگئے تو تحیۃ المسجد نہیں پڑھنی ہے ، یہ نماز بیٹھنے سے پہلے پڑھی جاتی ہے ۔

سوال (15): مسجد میں داخل ہوں اور فرض نماز کھڑی ہو جائے تو کیا فرض نماز ادا کرنے کے بعد تحیة المسجد ادا کر سکتے ہیں؟
جواب : تحیۃ المسجد کوئی مستقل نماز نہیں ہے ، جب فر ض نماز کی جماعت کھڑی ہوگئی تو فرض نماز ہی اس کے قائم مقام ہوگئی ۔


مکمل تحریر >>