بنت حوا کے چند مسائل اور
ان کا شرعی حل
سائلہ : بنت حوا کے
شرعی مسائل کا حل
جواب : شیخ مقبول احمد
سلفی حفظہ اللہ
سوال(1):نبی کا نام آنے پر
درود پڑھنے کی کیا دلیل ہے ؟
جواب: نبی ﷺ کا فرمان
ہے : البخيلُ الذي من ذُكِرْتُ عندَه فلم يُصَلِّ عليَّ(صحيح الترمذي:3546)
ترجمہ: بخیل وہ ہے جس
کے سامنے میرا ذکر کیا جائے اور پھر بھی وہ مجھ پر درود نہ بھیجے ۔
اس حدیث میں اس بات کی
دلیل ہے کہ جب نبی کا نام آئے تو ہمیں آپ پر درود پڑھنا چاہئے۔ اس کا یہ مطلب نہیں
ہے کہ بغیر ذکر کے آپ پر درود نہیں پڑھ سکتے ۔ آپ پر درود پڑھنا تو بڑے اجر کا کام
ہے اس لئے ایک مسلمان سے جس قدر ہوسکے آپ پر درود وسلام پڑھتا رہے۔
سوال(2): رمضان میں آٹھ
رکعت سے زیادہ پڑھتے ہیں کیا یہ صحابہ یا ان کے بعد والوں سے ثابت ہے ؟
جواب: رمضان ہو یا غیر
رمضان نبی ﷺ اکثروبیشتر آٹھ رکعت ہی پڑھا کرتے اور ساتھ ہی تین رکعت وتر بھی پڑھتےجیساکہ
صحیحین میں موجود حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے قول سے معلوم ہوتا ہے تاہم کوئی
کبھی کبھار اس سے زائد بھی پڑھنا چاہے تو پڑھ سکتا ہے۔ رات کی نماز دودو رکعت ہے
اگر کسی کو طاقت ہو تو جتنا چاہے دو دو کرکے پڑھ سکتا ہے ، آخر میں ایک وتر پڑھ
لے۔نبی ﷺ کا فرمان ہے:
صلاةُ الليلِ مثنى مثنى
، فإذا خشي أحدُكم الصبحَ صلى ركعةً واحدةً ، توتِرُ له ما قد صلى.(صحيح
البخاري:990 و صحيح مسلم:749)
ترجمہ : رات کی نماز دو
دو رکعت ہے، اور اگر تم میں کسی کو صبح ہوجانے کا اندیشہ ہو، اور وہ ایک رکعت پڑھ
لے، تو یہ اس کی پڑھی ہوئی نماز کے لئے وتر ہوجائیگی۔
حدیث رسول آجانے کے بعد
کسی صحابی یا تابعی کے قول وفعل کی طرف التفات کی ضرورت نہیں ہے۔
سوال(3): عشاء سے پہلے چار
سنت کا ثواب شب قدر کی طرح ہے کیا یہ صحیح حدیث سے ثابت ہے ؟
جواب: عشاء سے پہلے
نہیں بلکہ عشاء کے بعد چار رکعت پڑھنے کا اجر شب قدر کے برابر ملنے کا ذکر ہے مگر
یہ کسی مرفوع روایت سے ثابت نہیں ہوتا تاہم اس سلسلے میں بعض آثار ملتے ہیں جو
سندا صحیح ہیں ۔شیخ البانی نے ان آثار کے متعلق کہا ہے کہ گویا یہ موقوف روایات
ہیں مگر مرفوع کے حکم میں ہیں کیونکہ یہ بات اجتہاد سے نہیں کہی جاسکتی ہے جیساکہ
ظاہر ہے۔
میں نےاس سوال کا جواب ایک اور جگہ آثارذکر کرکے دیا ہےجو
میرے بلاگ پر دیکھ سکتے ہیں۔
سوال(4): کیا باب الریان سے
داخل ہونے والے وہی لوگ ہوں گے جنہوں نے کبھی روزہ نہیں توڑا ، ہم جیسی خاتون نہیں
ہوں گی جنہیں حیض ونفاس کی وجہ سے اپنا روزہ توڑنا پڑتا ہے یا اسی طرح فدیہ دینے
والی ؟
جواب: نبی ﷺ کا فرمان
ہے: إذا صلَّتِ المرأةُ خَمْسَها ، و صامَت شهرَها ، و حصَّنَتْ فرجَها ، وأطاعَت
زوجَها ، قيلَ لها : ادخُلي الجنَّةَ مِن أيِّ أبوابِ الجنَّةِ شِئتِ(صحيح
الجامع:660)
ترجمہ: ترجمہ :جب عورت
اپنی پانچ وقت کی نماز پڑھ لے ، اپنے ماہ {رمضان } کا روزہ رکھ لے ، اپنی شرمگاہ
کی حفاظت کرلے ، اور اپنے شوہر کی اطاعت کرلے تو اس سے کہا جائے گا کہ جنت میں
اسکے جس دروازے سے داخل ہونا چاہے داخل ہوجا ۔
نبی ﷺ کو معلوم ہے کہ
خاتون کو حیض ونفاس آتا ہے جس کی وجہ سے ان کے روزے قضا ہوجاتے ہیں پھر بھی آپ نے
انہیں جنت کی بشارت دی ہے اور یہاں تک فرمادیا کہ جنت کے دروازوں میں سے جس دروازے
سے چاہے داخل ہوجائے چاہے وہ دروازہ الریان ہی کیوں نہ ہو۔ خاص بات یہ ہے کہ عورت
نے فرض روزہ عذر کے سبب چھوڑی ہو اور چھوڑے ہوئے روزوں کی وقت پر قضا کرلی ہو ۔ جس
نے قضا کی استطاعت نہ رکھنے کی وجہ سے فدیہ دے دیا اس نے بھی روزہ کا حق ادا
کردیا۔
سوال(5): امہات المومنین نے
رسول اللہ ﷺ سے تھوڑا سا خرچہ بڑھانے کی مانگ کی تو آیت نازل ہوگئی ، اس کی وضاحت
فرمائیں ۔
جواب: جب مسلمانوں میں
فتوحات کی وجہ سے مالداری آئی تو امہات المومنین نے انصارومہاجرین کی عورتوں کو
دیکھ کر رسول اللہ ﷺ سے نفقہ کی شکایت کیں اور اس میں اضافے کا مطالبہ کیا تو اللہ
تعالی نے سورہ احزاب کی یہ آیات نازل فرمائی:يَاأَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ
لِأَزْوَاجِكَ إِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا وَزِينَتَهَا
فَتَعَالَيْنَ أُمَتِّعْكُنَّ وَأُسَرِّحْكُنَّ سَرَاحًا جَمِيلًا * وَإِنْ
كُنْتُنَّ تُرِدْنَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَالدَّارَ الْآخِرَةَ فَإِنَّ اللَّهَ
أَعَدَّ لِلْمُحْسِنَاتِ مِنْكُنَّ أَجْرًا عَظِيمًا(الأحزاب:28، 29)
ترجمہ:اے نبی! اپنی
بیویوں سے کہہ دو کہ اگر تم زندگانی دنیا اور زینت دنیا چاہتی ہو تو آؤ میں تمہیں
کچھ دے دلا دوں اور تمہیں اچھائی کے ساتھ رخصت کردوں ۔ اوراگر تمہاری مراد اللہ
اور اس کا رسول اور آخرت کا گھر ہے تو (یقین مانو کہ) تم میں سے نیک کام کرنے
والیوں کے لئے اللہ تعالٰی نے بہت زبردست اجر رکھ چھوڑے ہیں ۔
مذکورہ آیت کی شان نزول
سے متعلق صحیحین کے علاوہ نسائی،ترمذی،ابن ماجہ اور مسند احمد وغیرہ میں حدیث
مذکور ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ جب ازواج
مطہرات کی جانب سے نفقہ کی شکایت آئی تو آپ کو بیحد صدمہ ہوا حتی کہ آپ نے بیویوں
سے علاحدگی اختیار کرلی ، ایک ماہ بعد یہ آیات نازل ہوئیں، آپ نے بیویوں پر پیش
کیا اور انہیں اپنے ساتھ یا علاحدہ ہوجانے کا اختیار دیا تو تمام بیویوں نے آپ کو
ہی اختیار کیا۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔
اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔