Saturday, February 4, 2017

پیرعلاء الدین صدیقی کے لئے استغفار کرنے کا کیا حکم ہے ؟

پیرعلاء الدین صدیقی کے لئے استغفار کرنے کا کیا حکم ہے ؟


السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
محترم برادرآپکےوسیع علم سے مستفیدہونا چاہتی ہوں ،امید ہےاپنےقیمتی وقت میں سے میرےسوالات لیےکچھ وقت نکالیں گے۔میں شکرگزار ہونگی۔
ہم سب جانتے ہیں کہ بریلویت شرک و بدعت عقائد کا حامل فرقہ ہے۔حال ہی میں پیرعلاؤالدین صدیقی رحلت فرما گئے۔پیرعلاؤالدین کےبارے میں بھی بتانےکی ضرورت نہیں کہ موصوف کن عقائدکےماننے والے تھے۔کیا ان علماء میں سے کوئی وفات پا جائے جن کا شرک کسی سے ڈھکا چھپا نہیں مغفرت کرنا اور کرانا ہمیں اجازت دی گئی ہے؟اگرنہیں تو میرادوسرا سوال ہےکہ بیت اللہ شریف میں انکا داخلہ ممنوع کیوں نہیں ہے؟کیا ہم انہیں اسلیےمشرک نا سمجھیں کیونکہ حرم میں انکا داخلہ ممنوع نہیں ہے؟مہربانی سے اس اہم بات پر رہنمائی کیجیے۔اللہ آپکو جزائے خیر عطاء فرمائے۔
سائلہ : مسز انصاری صاحبہ
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
نحمدہ ونصلی امابعد :
اسلا م میں یہ بات واضح اور صاف ہے کہ جو شخص نواقض اسلام کا ارتکاب کرتا ہے وہ اسلام سے باہرہوجاتا ہے ۔ نواقض اسلام جو اہم ہیں وہ دس قسم کے ہیں ۔ بریلوی کے یہاں اس کی ایک قسم یہ پائی جاتی ہے کہ وہ اللہ کے ساتھ شرک کرتے ہیں، مثلا غیراللہ کو پکارتے ہیں ، میت سے استغاثہ کرتے ہیں، غیراللہ کے لئے قربانی پیش کرتے ہیں اور غیراللہ کے نام پر نذر مانتے ہیں یہ سب شرک کے قبیل سے ہیں ۔
اور وہ آدمی بھی اسلام سے نکل جاتا ہے جو اپنے اور اللہ کے درمیان کسی کو شفارسی سمجھے اور اس پر توکل واعتماد رکھے اور اسی کے ذریعہ اللہ کو پکارے ۔ یہ بات بھی بریلویوں کے درمیان پائی جاتی ہے ۔ ان کے علاوہ اور بھی باتیں ہیں مگر یہ دوکافی ہیں ان کو اس کی حقیقت کوجاننے کے لئے ۔ ایسے عقائد واعمال والے شخص کا اگر انتقال ہوجائے تو اس کے لئے استغفار کرنا کسی صورت جائز نہیں ہے ۔ان کا عمل ان کی زندگی میں ہی اکارت وبرباد کردیا جاتا ہے ، نبی ﷺ کا فرمان ہے :
لا يقبَلُ اللهُ من مُشركٍ أشرَكَ بعدَ ما أسلمَ عملًا حتَّى يفارقَ المشركينَ إلى المسلِمينَ( صحیح ابن ماجہ : 2071)
ترجمہ: اللہ تعالیٰ کسی ایسے مشرک کا کوئی عمل قبول نہیں کرتا جس نے اسلام لانے کے بعد شرک کیا حتیٰ کہ مشرکین کو چھوڑ کر مسلمانوں میں آجائے۔
ہاں ایسا شخص خود ہی اپنی زندگی میں توبہ کرلے تو اللہ بڑا معاف کرنے والا ہے لیکن اگرشرک وکفر پہ موت ہوجائے تو پھر اس کے لئے اللہ کے دربار سے معافی ملغی کردی جاتی ہے ۔ اللہ کا فرمان ہے :
إِنَّ اللَّهَ لَا يَغْفِرُ أَن يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَٰلِكَ لِمَن يَشَاءُ ۚ(النساء:48)
ترجمہ: اللہ اس گناہ کو نہیں بخشے گا کہ اس کا شریک بنایا جائے اور اس کے سوا (اور گناہ) جس کوچاہے گا بخش دے گا۔
جب اللہ نے اسے معافی کے قابل نہیں تو سمجھا تو اس کے لئے استغفار کیسا؟ اور صراحت کے ساتھ مشرک کے لئے استغفار کی ممانعت  بھی آئی ہے ۔ اللہ کا فرمان ہے :
مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْ يَّسْتَغْفِرُوْا لِلْمُشْرِكِيْنَ وَلَوْ كَانُوْٓا اُولِيْ قُرْبٰى مِنْۢ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَھُمْ اَنَّھُمْ اَصْحٰبُ الْجَحِيْمِ(التوبۃ:113)
ترجمہ: نبی کیلئے اور دوسرے مسلمانوں کیلئے جائز نہیں کہ وہ مشرکین کیلئے مغفرت کی دعا مانگیں اگرچہ وہ رشتہ دار ہی ہوں اس امر کے ظاہر ہوجانے کے بعد کہ یہ لوگ جہنمی ہیں۔
پیرمحمدعلاء الدین صدیقی نقشبندی بریلوی عقائد کا حامل ایک قسم کا صوفی ہے ۔ بریلوی تو صوفیوں کا ٹولہ ہے اور جو بطور خاص صوفی ہو تو اس کے یہاں جادو ٹونے کے ساتھ اور بھی بہت سارے شرکیہ و کفریہ اعمال پائے جاتے ہیں ۔ اس صوفی علاء الدین صدیقی کی گمراہی کی ایک مثال دیتا ہوں اس سے اندازہ لگالیں ۔
اس سے کسی مرید نے سوال کیا کہ مجھے طواف کی دعا معلوم نہیں ہے، میں کیا کروں؟ تو صوفی پیر نے جواب دیا کہ بسم اللہ پڑھ لو ثواب مل جائے گا ، اس پہ مرید نے کہا کہ مجھے ٹھیک سے بسم اللہ بھی نہیں معلوم ۔تو اس پہ صوفی پیر نے پھرجواب دیا کہ  طواف کرتے وقت زور زور سے وہابیوں کو گالیاں دینا ثواب مل جائے گا۔ نعوذباللہ من ذلک۔
ایسا آدمی جو لوگوں  کوحرم پاک میں بھی گالیاں دینے کی تعلیم دیتا ہو بلکہ طواف کے دوران اپنے مرید کومسلمانوں کے خلاف گالیاں دینا سکھاتا ہوایسے آدمی کا اسلام سے کیا واسطہ ؟ گویا اس کے نزدیک کافر بہتر ہے وہابی مسلمان بدترہے ۔ اس کا معنی یہ ہوا کہ کافر کے کفر پہ تو اسے کوئی اعتراض نہیں مگر وہابی مسلمان مشکوک اور گالیوں کا مستحق ہے ۔ الحفظ والاماں
ہم تو ایسے لوگوں کو گالیاں نہیں دیں گے لیکن اس کے پیروکار وں کو ضرور نصیحت کریں گے کہ مرنے سے پہلے اس قسم کے گھناؤنے اعمال سے توبہ کرلے تاکہ اللہ کی رحمت  ومغفرت نازل ہوسکے اور موت کے بعد مسلمانوں کی مغفرت کے قابل ہوسکے ۔
دوسرے سوال کے جواب میں یہ عرض کروں گا کہ بریلوی کلمہ پڑھنے والا مسلمان ہے گوکہ شرک میں واقع ہے مگر کلمے کا دعویدار ہے  کلمہ پڑھنے اور ارکان اسلام پر عمل  (مع شرک)کرنے کی وجہ سے بیت اللہ شریف میں داخلہ ممنوع نہیں ہے، ہوسکتا ہے کہ اس مقدس سرزمین پر آکر توبہ کرنے کی سعادت نصیب ہوسکے یا یہاں سے واپس لوٹ کر اپنی اصلاح کرلے  اور دوسرے کی اصلاح کا سبب بن سکے اور ایسا بہت ہوا ہے ۔  الحمدللہ سعودی حکومت نے شرک کےبعض ٹھیکیداروں پر پابندی بھی  لگائی ہے ،اس بات پہ ہم سعودی حکومت کے شکرگزار ہیں۔ میں نے خود ایک غالی قسم کے صوفی(جو طائف اور سعودی کے دیگرعلاقوں  میں صوفیت پھیلارہاتھا)  کو سعودی عرب سے بھگانے میں  رپورٹ کے ذریعہ حکومت کی  مدد کی اور اس کی کاروائی مکمل ہوتے ہی چند دن میں خروج لگاکر سعودی سے بھگادیاگیا۔  
اللہ تعالی لوگوں کو دین کی صحیح سمجھ دے اورمسلمانوں کو شرک وکفر کی راہ سے بچائے ۔ آمین
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ
مقبول احمد سلفی
داعی اسلامک دعوۃ سنٹر-طائف

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔